اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يُجَادِلُوْنَ فِىْۤ اٰيٰتِ اللّٰهِ ۗ اَنّٰى يُصْرَفُوْنَ ۚ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
تم نے دیکھا اُن لوگوں کو جو اللہ کی آیات میں جھگڑے کرتے ہیں، کہاں سے وہ پھرائے جا رہے ہیں؟
English Sahih:
Do you not consider those who dispute concerning the signs of Allah – how are they averted?
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
تم نے دیکھا اُن لوگوں کو جو اللہ کی آیات میں جھگڑے کرتے ہیں، کہاں سے وہ پھرائے جا رہے ہیں؟
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جو اللہ کی آیتوں میں جھگڑے ہیں کہاں پھیرے جاتے ہیں
احمد علی Ahmed Ali
کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو الله کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں وہ کہاں پھرے چلے جا رہے ہیں
أحسن البيان Ahsanul Bayan
کیا تو نے نہیں دیکھا جو اللہ کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں (١) وہ کہاں پھیر دئیے جاتے ہیں (٢)
٦٩۔١ انکار اور تکذیب کے لئے یا اس کے رد و ابطال کے لئے۔
٦٩۔٢ یعنی ظہور دلائل اور وضوح حق کے باوجود وہ کس طرح حق کو نہیں مانتے۔ یہ تعجب کا اظہار ہے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو خدا کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں۔ یہ کہاں بھٹک رہے ہیں؟
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
کیا تو نے انہیں دیکھا جو اللہ کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں، وه کہاں پھیر دیے جاتے ہیں
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اللہ کی آیتوں کے بارے میں جھگڑتے رہتے ہیں وہ کدھر پھرائے جا رہے ہیں؟
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا ہے جو آیات الہٰی کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں آخر یہ کہاں بھٹکتے چلے جارہے ہیں
طاہر القادری Tahir ul Qadri
کیا آپ نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جو اللہ کی آیتوں میں جھگڑا کرتے ہیں، وہ کہاں بھٹکے جا رہے ہیں،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
کفار کو عذاب جہنم اور طوق و سلاسل کی وعید۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا تمہیں ان لوگوں پر تعجب نہیں ہوتا جو اللہ کی باتوں کو جھٹلاتے ہیں اور اپنے باطل کے سہارے حق سے اڑتے ہیں ؟ تم نہیں دیکھ رہے کہ کس طرح ان کی عقلیں ماری گئی ہیں ؟ اور بھلائی کو چھوڑ برائی کو کیسے بری طرح چمٹ گئے ہیں ؟ پھر ان بدکردار کفار کو ڈرا رہا ہے کہ ہدایت و بھلائی کو جھوٹ جاننے والے کلام اللہ اور کلام رسول کے منکر اپنا انجام ابھی دیکھ لیں گے۔ جیسے فرمایا جھٹلانے والوں کیلئے ہلاکت ہے، جبکہ گردنوں میں طوق اور زنجیریں پڑی ہوئی ہوں گی اور داروغہ جہنم گھسیٹے گھسیٹے پھر رہے ہوں گے۔ کبھی حمیم میں اور کبھی حجیم میں۔ گرم کھولتے ہوئے پانی میں سے گھسیٹے جائیں گے۔ اور آگ جہنم میں جھلسائے جائیں گے۔ جیسے اور جگہ ہے۔ یہ ہے وہ جہنم جسے گنہگار لوگ جھوٹا جانا کرتے تھے۔ اب یہ اس کے اور آگ جیسے گرم پانی کے درمیان مارے مارے پریشان پھرا کریں۔ اور آیتوں میں ان کا زقوم کھانا اور گرم پانی پینا بیان فرما کر فرمایا ( ثُمَّ اِنَّ مَرْجِعَهُمْ لَا۟اِلَى الْجَحِيْمِ 68) 37 ۔ الصافات ;68) کہ پھر ان کی بازگشت تو جہنم ہی کطرف ہے۔ سورة واقعہ میں اصحاب شمال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا بائیں ہاتھ والے کس قدر برے ہیں ؟ وہ آگ میں ہیں اور گرم پانی میں اور سیاہ دھوئیں کے سائے میں جو نہ ٹھنڈا ہے نہ سود مند، آگے چل کر فرمایا، اے بہکے ہوئے جھٹلانے والو البتہ سینڈ کا درخت کھاؤ گے اسی سے اپنے پیٹ بھرو گے۔ پھر اس پر جلتا پانی پیو گے اور اس طرح جس طرح تونس والا اونٹ پیتا ہے۔ آج انصاف کے دن ان کی مہمانی یہی ہوگی۔ اور جگہ فرمایا ہے ( اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِ 43ۙ ) 44 ۔ الدخان ;43) ، یعنی یقینا گنہگاروں کا کھانا زقوم کا درخت ہے جو مثل پگھلے ہوئے تابنے کے ہے جو پیٹوں میں کھولتا رہتا ہے۔ جیسے تیز گرم پانی۔ اسے پکڑو اور دھکیلتے ہوئے بیچوں بیچ جہنم میں پہنچاؤ پھر اس کے سر پر تیز گرم جلتے جلتے پانی کا عذاب بہاؤ لے چکھ تو بڑا ہی ذی عزت اور بڑی ہی تعظیم تکریر والا شخص تھا۔ جس سے تم شک شبہ میں تھے۔ مقصد یہ ہے کہ ایک طرف سے تو وہ یہ دکھ سہ رہے ہوں گے جن کا بیان ہوا اور دوسری جانب سے انہیں ذلیل و خوار و رو سیاہ ناہنجار کرنے کیلئے بطور استہزاء اور تمسخر کے بطور ڈانٹ اور ڈپٹ کے بطور حقارت اور ذلت کے ان سے یہ کہا جائے گا جس کا ذکر ہوا۔ ابن ابی حاتم کی ایک غریب مرفوع حدیث میں ہے کہ ایک جانب سے سیاہ ابر اٹھے گا جسے جہنمی دیکھیں گے اور ان سے پوچھا جائے گا کہ تم کیا چاہتے ہو ؟ وہ ابر کو دیکھتے ہوئے دنیا کے انداز پر کہیں گے کہ یہ چاہتے ہیں کہ یہ برسے وہیں اس میں سے طوق اور زنجیریں اور آگ کے انگارے برسنے لگیں گے جس کے شعلے انہیں جلائیں جھلسائیں گے اور وہ طوق و سلاسل ان کے طوق و سلاسل کے ساتھ اضافہ کردیئے جائیں گے۔ پھر ان سے کہا جائے گا کہ کیوں جی دنیا میں اللہ عزوجل کے سوا جن جن کو پوجتے رہے وہ سب آج کہاں ہیں ؟ کیوں وہ تمہاری مدد کو نہیں آئے ؟ کیوں تمہیں یوں کسمپرسی کی حالت میں چھوڑ دیا ؟ تو وہ جواب دیں گے کہ ہاں وہ تو سب آج ناپید ہوگئے وہ تھے ہی بےسود۔ پھر انہیں کچھ خیال آئے گا اور کہیں گے نہیں نہیں ہم نے تو ان کی عبادت کبھی نہیں کی۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ جب ان کے بنائے کچھ نہ بنے گی تو صاف انکار کردیں گے اور جھوٹ بول دیں گے کہ (وَاللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ 23) 6 ۔ الانعام ;23) اللہ ہمیں تیری قسم ہم مشرک نہ تھے۔ یہ کفار اسی طرح بیکاری میں کھوئے رہتے ہیں، ان سے فرشتے کہیں گے یہ بدلہ ہے اس کا جو دنیا میں بےوجہ گردن اکڑائے اکڑتے پھرتے تھے۔ تکبر و جبر پر چست کمر رہتے تھے لو اب آجاؤ جہنم کے ان دروازوں میں داخل ہوجاؤ اب ہمیشہ یہیں پے رہنا تم جیسے اترانے والوں کی ہی یہ بدمنزل اور بری جائے قرار ہے۔ جس قدر تکبر کئے تھے اتنے ہی ذلیل و خوار آج بنو گے۔ جتنے ہی بلند گئے تھے اتنے ہی گرو گے۔ واللہ اعلم۔