حم السجدہ آية ۳۳
وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَاۤ اِلَى اللّٰهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِىْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ
طاہر القادری:
اور اس شخص سے زیادہ خوش گفتار کون ہو سکتا ہے جو اﷲ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے: بے شک میں (اﷲ عزّ و جل اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) فرمانبرداروں میں سے ہوں،
English Sahih:
And who is better in speech than one who invites to Allah and does righteousness and says, "Indeed, I am of the Muslims."
1 Abul A'ala Maududi
اور اُس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہو گی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں
2 Ahmed Raza Khan
اور اس سے زیادہ کس کی بات اچھی جو اللہ کی طرف بلائے اور نیکی کرے اور کہے میں مسلمان ہوں
3 Ahmed Ali
اور اس سے بہتر کس کی بات ہے جس نے لوگوں کو الله کی طرف بلایا اور خود بھی اچھے کام کیے اور کہا بے شک میں بھی فرمانبرداروں میں سے ہوں
4 Ahsanul Bayan
اور اس سے زیادہ اچھی بات والا کون ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں یقیناً مسلمانوں میں سے ہوں (١)
٣٣۔١ یعنی لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کے ساتھ خود بھی ہدایت یافتہ، دین کا پابند اور اللہ کا مطیع ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور اس شخص سے بات کا اچھا کون ہوسکتا ہے جو خدا کی طرف بلائے اور عمل نیک کرے اور کہے کہ میں مسلمان ہوں
6 Muhammad Junagarhi
اور اس سے زیاده اچھی بات واﻻ کون ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں یقیناً مسلمانوں میں سے ہوں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور اس شخص سے بہتر بات کس کی ہوگی جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل بجا لائے اور کہے کہ میں مسلمانوں (خدا کے فرمانبردار بندوں) میں سے ہوں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اس سے زیادہ بہتر بات کس کی ہوگی جو لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دے اور نیک عمل بھی کرے اور یہ کہے کہ میں اس کے اطاعت گزاروں میں سے ہوں
9 Tafsir Jalalayn
اور اس شخص سے بات کا اچھا کون ہوسکتا ہے جو خدا کی طرف بلائے اور عمل نیک کرے اور کہے کہ میں مسلمان ہوں ؟
آیت نمبر 33 تا 44
ترجمہ : اور اس سے بہتر بات کس کی ہوسکتی ہے کہ جو توحید کے ذریعہ خدا کی طرف بلائے اور کہے کہ میں فرمانبرداروں میں سے ہوں نہ سب نیکیاں (آپس میں) برابر ہوتی ہیں اور نہ سب برائیاں اپنے افراد کے اعتبار سے اس لئے کہ بعض بعض سے بڑھی ہوئی ہوتی ہیں، آپ برائی کو اچھے برتاؤ سے دفع کیجئے جیسے غصہ کو صبر (وضبط) سے اور جہل کو برد باری سے، اور بےادبی کو عفو (و درگذر سے) پھر وہی جس کے اور آپ کے درمیان عداوت ہے ایسا ہوجائے گا جیسا کہ جگری دوست جب آپ اس پر عمل کریں گے تو آپ کا دشمن اپنی محبت میں قریبی دوست بن جائے گا، الذی مبتداء اور کَاَنَّہٗ خبر، اور اِذَا معنی تشبیہ کے لئے ظرف ہے، اور یہ یعنی بہترین خصلت انہیں لوگوں کو ملتی ہے جو صبر کرنے والے ہوتے ہیں اور اس کو بڑے نصیب دار ہی حاصل کرسکتے ہیں اور اِمَّا میں ان شرطیہ کا مازائدہ میں ادغام ہے، اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آنے لگے یعنی اگر کوئی آپ کو پھیرنے والا (بہترین) خصلت اور خیر وغیرہ سے پھیرے تو اللہ کی پناہ طلب کرو (فاستعذ باللہ) جواب شرط ہے جواب امر محذوف ہے، اور وہ یَدْفَعُہٗ عنکَ ہے، یقیناً وہ باتوں کا سننے والا اور (ہر) کام کا جاننے والا ہے اور رات اور دن سورج اور چاند (اسی کی قدرت کی) نشانیوں میں سے ہیں، تم سورج کو سجدہ کرو اور نہ چاند کو (بلکہ) سجدہ اس اللہ کو کرو جس نے مذکورہ چاروں نشانیوں کو پیدا فرمایا اگر تمہیں اسی کی بندگی کرنی ہے تو پھر بھی اگر یہ اللہ وحدہ کو سجدہ سے تکبر و غرور کریں تو وہ فرشتے جو تیرے رب کے پاس ہیں وہ رات دن تسبیح پڑھتے ہیں نماز پڑھتے ہیں اور وہ (کسی وقت بھی) اکتاتے نہیں ہیں اور اس کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے (بھی) ہے کہ تو زمین کو دبی دبائی بے (آب و) گیاہ دیکھتا ہے پھر جب ہم اس پر مینہ برساتے ہیں تو تروتازہ ہو کر لہلہانے لگتی ہے پھولنے لگتی ہے، اور ابھرنے لگتی ہے، جس نے اس کو زندہ کیا وہی یقیناً مُردوں کو بھی زندہ کرنے والا ہے، بیشک وہ ہر چیز پر قادر ہے سو ہم ان کو بدلہ دیں گے، (بھلا بتاؤ) جو آگ میں ڈالا جائے وہ اچھا ہے یا وہ جو امن وامان کے ساتھ قیامت کے دن آئے ؟ جو جی چاہے کرو، وہ تمہارے سب کرتوت دیکھ رہا ہے، یہ ان کو دھمکی ہے جن لوگوں نے اپنے پاس قرآن پہنچ جانے کے باوجود کفر کیا ہم ان کو بدلہ دیں گے یہ بڑی باوقعت (بےمثال) کتاب ہے، جس کے پاس باطل پھٹک بھی نہیں سکتا نہ اس کے آگے سے اور نہ اس کے پیچھے سے، نہ اس سے پہلے کوئی کتاب ہے جو اس کی تکذیب کرے اور نہ اس کے بعد یہ نازل کردہ ہے حکمتوں والے خوبیوں والے کی طرف سے یعنی اس اللہ کی طرف سے جو اپنے معاملہ میں قابل ستائش ہے، آپ سے تکذیب وغیرہ کی وہی باتیں کہی جاتی ہیں جو آپ سے پہلے رسولوں سے کہی گئی ہیں یقیناً آپ کا رب مومنین کے لئے معاف کرنے والا اور کافروں کے لئے دردناک عذاب والا ہے اور اگر ہم اس قرآن کو عجمی زبان کا بناتے تو کہتے اس کی آیتیں صاف صاف کیوں بیان نہیں کی گئیں ؟ تاکہ ہم اس کو سمجھتے یہ کیا کہ عجمی کتاب اور عربی رسول ؟ یہ ان کی جانب سے استفہام انکاری ہے ثانی ہمزہ کی تحقیق کے ساتھ اور اس کو الف سے بدل کر، اشباع یعنی الف داخل کرکے اور ترک ادخال الف کرکے آپ کہہ دیجئے کہ یہ تو ایمان والوں کے لئے گمراہی سے ہدایت اور جہل سے شفاء ہے اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں بہراپن ہے (یعنی) ثقل ہے جس کی وجہ سے وہ اس کو نہیں سنتے اور یہ ان پر اندھا پن ہے جس کی وجہ سے وہ اس کو نہیں سمجھتے یہ وہ لوگ ہیں جو (بہت) دور سے پکارے جارہے ہیں، یعنی یہ لوگ اس شخص کے مانند ہیں جس کو دور سے آواز دی جارہی ہو ،
نہ وہ سنتا ہے اور نہ سمجھتا ہے کہ اس سے کیا کہا جارہا ہے ؟
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلاً (الآیۃ) مَنْ استفہام انکاری، مبتداء، مفسر علام نے لا احد کہہ کر اشارہ کردیا کہ مَنْ استفہامیہ انکاریہ ہے اَحْسَنُ خبر قولاً تمیز ہونے کی وجہ سے منصوب ہے، عَمِلَ صالحًا جملہ حالیہ ہے۔
قولہ : فِی جُزْئِیَّاتِھِمَا لَاِنَّ بَعْضَھَا قَوْقَ بَعْض اس عبارت سے مفسر علام کا مقصد جُزْئِیَّات اور اجزاء میں فرق بیان کرنا ہے، اور فرق بیان کرنے کا مقصد وَلَا تَسْتَوِی الحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ میں یہ بتانا ہے کہ لَا ثانیہ تاسیس کے لئے ہے نہ کہ تاکید کے لئے، اور یہ امر مسلم ہے کہ تاسیس تاکید سے بہتر ہے، اس لئے کہ تاکید سے مضمون سابق کی تاکید ہوتی ہے جو کوئی جدید علم نہیں اور تاسیس سے نیا علم نیا فائدہ حاصل ہوتا ہے، اور نئی بات معلوم ہونا پرانی بات کی تاکید کے مقابلہ میں بہرحال افضل اور بہتر ہے۔
” اجزاء “ اور ” جزئیات “ میں فرق : شئ کے اعضاء اور حصوں کو اجزاء کہا جاتا ہے اجزاء، جز کی جمع ہے، مثلاً خالد ایک شئ ہے یہ بہت سے اجزاء سے مرکب ہے، مثلاً اس کے ہاتھ ہیں، پیر ہیں، ناک ہے، کان ہیں، آنکھیں ہیں۔ غرضیکہ خالد اندرونی وبیرونی بہت سے اجزاء کا مرکب ہے، اجزاء سے مرکب ہو کر جو شئ تیار ہوتی ہے، وہ جزئی کہلاتی ہے، اور بہت سی جزئیات مل کر جو مجموعہ تیار ہوتا ہے، وہ نوع کہلاتی ہے، مثلاً بہت سے انسانی افراد کا مجموعہ نوع ہے، اسی پر قیاس کرتے ہوئے حسنۃ اور سیئۃ کو سمجھئے، حَسَنَۃٌ ایک نوع ہے اور سیئۃ دوسری نوع ہے اور ہر نوع کے تحت بہت سے افراد ہوتے ہیں، جن کو اس نوع کی جزئیات کہا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ حسَنۃ (یعنی) نیکی کے بہت سے افراد ہیں، جو آپس میں ایک دوسرے سے اعلیٰ و ادنیٰ ہیں، مثلاً ایمان، شکر، نماز، روزہ، صلہ رحمی، انسانی ہمدردی، سنت کی پابندی، مستحبات پر عمل، یہ سب حسنہ یعنی نیکی کے افراد ہیں، اور یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ مذکورہ نیکیوں میں بعض بعض سے فوق ہیں، مثلاً ایمان سب سے اعلیٰ ہے، اس کے بعد دیگر فرائض ہیں، پھر اس کے بعد واجبات کا درجہ ہے پھر اس کے بعد سنتیں اور مستحبات ہیں، اس کے بعد اولیٰ اور افضل کا نمبر ہے، حدیث شریف میں بھی اس تفاوت کی جانب اشارہ فرمایا گیا ہے عن ابی ہریرہ (رض) قال قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الایمانُ بضع وسبعون شعبۃً فَافضَلُھَا قول لا الٰہ اِلَّا اللہ واد نَا ھَا إما طۃُ الأ ذٰی عن الطریق والحیاء شعبۃٌ من الإیمان (مشکوٰۃ : ص ١٢) جس طرح حسنۃ (نیکی) کے بہت سے افراد اور جزئیات ہیں اسی طرح سیّئۃٌ (بدی) کے بھی بہت سے افراد ہیں ان میں بھی بعض سے اعلیٰ و ادنیٰ ہیں، مثلاً کفر، ترک فرائض، غصب، چوری، اکل مال یتیم، گالی گلوچ، بدظنی، بدنظری، راستہ میں گندگی ڈالنا، دائیں ہاتھ سے استنجاء کرنا، اور دائیں ہاتھ سے ناک صاف کرنا، استنجاء کرتے وقت قبلہ کا استقبال و استدبار کرنا، کعبہ کی طرف تھوکنا یا پیر دراز کرنا ہے، یہ سب برائی کے افراد ہیں، مگر درجہ میں مساوی نہیں ہیں، بلکہ آپس میں ایک دوسرے سے اعلیٰ و ادنیٰ ہیں، یہ بات کوئی نہیں جانتا کہ شرک و کفر کے مقابلہ میں بوقت استنجاء استقبال واستد بار، یا قبلہ کی طرف تھوکنا، اور پیر دراز کرنا کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔
آمدبرسرِمطلب : مذکورہ آیت لا تَسْتَوی الحَسَنَۃُ وَلَا السَّیّئَۃُ میں اگر حسَنۃ اور سیّئۃ میں عدم مساوات کو بیان کرنا مقصد ہو تو ثانی لا کو زائد
محض تاکید کے لئے ماننا ہوگا، اس لئے کہ اب اصل عبارت اس طرح ہے لاَ تستَوِی الحسنۃ والسیِّئۃُ اسی عبارت سے حسنہ اور سیئہ میں عدم مساوات معلوم ہوگئی، اب اگر لا کا اضافہ کرتے ہیں تو اس سے علم عدم مساوات کی تاکید ہوگی جو پہلے ہی معلوم ہوچکی ہے نہ کہ نیا علم اور نیا فائدہ۔ اور اگر تستوی الحسنۃ ولا السیِّئۃُ کا مقصد حسنہ اور سیئہ کے درمیان فرق تو پہلے لا سے معلوم ہوگیا اور اب دوسرے لا سے حسنات وسیئات کی جزئیات میں فرق معلوم ہوگیا، اس صورت میں لا تاسیس کے لئے ہوگا نہ کہ تاکید کے لئے، اسی جدید فائدہ کو بیان کرنے کے لئے مفسر علام نے لا تستوی الحسنۃ ولا السیِّئۃ کی تفسیر میں فی جزئیَا تِھِما کا اضافہ فرمایا۔
قولہ : اِنَّنِیْ من المسلمین جمہور کے نزدیک اِنَّنِیْ دونوں کے ساتھ ہے اور ابن ابی عیلہ نے ایک نون کے ساتھ اِنِّی پڑھا ہے یعنی وہ فخر وابتہاج سے کہتا ہے کہ مسلمان ہوں۔
قولہ : کأنَّہٗ ولی حمیمٌ، حمیم گرم پانی، کہا جاتا ہے اِستَحَمَّ ای اغتَسَلَ بالحمیم گرم پانی سے غسل کیا، اب مطلقاً غسل کرنے کو استحمام کہنے لگے ہیں، خواہ گرم پانی سے ہو یا ٹھنڈے پانی سے، حمیم گرم جوش اور جگری دوست کو بھی کہتے ہیں۔
قولہ : فاستَعِذْ باللہِ یہ اِمَّایَنْزَغَنَّکَ شرط کا جواب ہے اور فَاسْتَعِذْ امر کا جواب محذوف ہے جسکو علامہ محلی نے یدفَعُہٗ کہہ کر ظاہر کردیا ہے
قولہ : یَنْزَغَنَّکَ مضارع واحد مذکر غائب بانون تاکید ثقیلہ یہ نزغٌ سے ہے کہ ضمیر مفعول ہے تجھ کو وسوسہ آئے۔
قولہ : خَلَقَھُنَّ ای الاٰیاتِ الاربع۔
شبہ : خَلَقَھُنَّ کے بجائے خلَقَھمَا زیادہ ظاہر تھا، اسلئے کہ جنکے لئے سجدہ کا ذکر ہے وہ دوہی ہیں، یعنی شمس وقمر لہٰذا خَلَقَھُمَا ہونا چاہیے تھا
دفع : شمس و قمر کو سجدہ جائز نہ ہونے اور ان کے اندر معبود بننے کی صلاحیت نہ ہونے کی علت ان کا مخلوق ہونا ہے، اس لئے کہ کوئی بھی مخلوق خواہ وہ کتنی ہی عظیم و مفید کیوں نہ ہو مستحق عبادت نہیں ہوسکتی خَلَقَھُنَّ میں جمع کی ضمیر لاکر بتادیا کہ شمس وقمر بھی
لیل ونہار کے مانند مخلوق اور خلق کے زیر اثر ہیں۔
قولہ : وَمِنْ اٰیَاتِہٖ اللیل والنھار الخ منْ آیاتِہٖ خبر مقدم ہے اور اللیل والنھار وما عُطِفَ علیہ مبتداء مؤخر ہے۔
قولہ : وَمِنْ اٰیَاتِہٖ اَنَّکَ تَرَی الْاَرْضَ ، مِن آیاتِہٖ خبر مقدم ہے اَنَّ مع اپنے مدخول کے بتاویل مصدر ہو کر مبتدا مؤخر ہے۔
قولہ : تَھْدِیْدٌ لَھُمْ اس میں اشارہ ہے کہ اِعٌمَلُوْا مَاشئتُمْ میں امر، تخییر کے لئے نہیں ہے بلکہ تہدید (دھمکی) کے لئے ہے، اس کا قرینہ بما تعملون بصیر ہے۔ قولہ : تُجَازِیْھِمْ اس تقدیر کا مقصدیہ بتانا ہے کہ اِنَّ کی خبر محذوف ہے اَلَّذِیْنَ کفروا، اِنَّ کا اسم ہے۔
قولہ : مَنیعٌ، منیعٌ بروزن فعیلٌ بمعنی فاعلٌ ای ممتنعٌ عن قبول الابطال والتحریف۔
قولہ : أَأَعْجَمِیٌّ یہ مبتداء محذوف کی خبر ہے، جس کو مفسر (رح) تعالیٰ نے قرآن کہہ کر ظاہر کردیا ہے۔
قولہ : اَعْجَمِیٌّ میں یاء مبالغہ فی لاوصف کے لئے ہے جسے کہ اَحْمَریٌّ میں، کلام اعجمی اس کلام کو کہتے ہیں جو سمجھ میں نہ آئے، اَاَعْجَمِیٌّ میں پہلاہمزہ استفہام انکاری ہے دوسرے ہمزہ میں دو قراءتیں ہیں جن کی طرف علامہ محلی (رح) تعالیٰ نے بتحقیق الھمزۃ الثانیۃ وقَلْبھَا اَنفًا بالا شباع کہہ کر اشارہ کردیا ہے پہلی قراءت تو اوضح ہے کہ دونوں ہمزوں کو محقق پڑھا جائے، دوسری قراءت یہ ہے کہ دوسرے ہمزہ کو الف سے بدل دیں اور اشباع یعنی مدطویل لازم کے ساتھ پڑھیں، آعْجَمِیٌّ ودونِہٖ کا لفظ سبقت قلم ہے یا پھر دونہ کا تعلق قلب سے ہے ای دون قلب الفٍ اس صورت میں یہ دیگر قراءت کا بیان ہوگا، اس لئے کہ قلب کی صورت میں مد لازم ہے تو پھر بدون المد کیسے ہوسکتا ہے ؟ پانچ قراءتیں بالترتیب یہ ہیں : (١) تسہیل ہمزۂ ثانیہ مع ادخال الف بین الہمزتین (٢) ابدال ہمزہ ثانیہ بالالف مع المدالطّویل (٣) تسہیل ثانیہ بلا ادخال الف بین الہمزتین (٤) بہمزۂ واحدۃ خبریۃ (اَعْجَمِیٌّ) (٥) بہمزتین محققین بلا ادخال الف۔
تفسیر وتشریح
ومن۔۔۔ المسلمین . یہ مومنین کا ملین کی صفات کا بیان ہے کہ مومنین کاملین صرف خود ہی اپنے ایمان و عمل پر قناعت نہیں کرتے، بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی اس کی دعوت دیتے ہیں، فرمایا اس سے اچھی بات کس کی ہوسکتی ہے، کہ جو لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلائے، اس سے معلوم ہوا کہ انسان کے کلام میں سب سے بہتر اور افضل وہ کلام ہے جس میں دوسروں کو دعوت حق دی گئی ہو، اس میں دعوت الی اللہ کی سب صورتیں شامل ہیں، زبان سے تحریر سے یا کسی اور عنوان سے، اذان دینے والا بھی اس میں داخل ہے، بشرطیکہ بلا اجرت صرف اللہ کے لئے اذان دیتا ہو، کیونکہ وہ دوسروں کو نماز کی طرف بلاتا ہے، حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے فرمایا کہ یہ آیت مؤذنوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے، دعا الی اللہ کے بعد عَمِلَ صَالحًا آیا ہے، اس سے مراد ہے کہ اذان و اقامت کے درمیان دو رکعت پڑھ لے۔
ادفع۔۔۔ احسن (الآیۃ) اس آیت میں ایک بہت اہم اخلاقی ہدایت ہے کہ برائی کو اچھائی کے ساتھ ٹالو یعنی برائی کا بدلہ احسان کے ساتھ، زیادتی کا بدلہ عفو کے ساتھ، غضب کا صبر کے ساتھ، بےادبی اور بیہودگی کا جواب چشم پوشی اور درگذر کے ساتھ اور ناپسندیدہ باتوں کا جواب برداشت اور حلم کے ساتھ دیا جائے، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارا دشمن دوست بن جائے گا، اور دور دور رہنے والا قریب آجائے گا، اور خون کا پیاسا تمہارا گرویدہ اور جاں نثار ہوجائے گا۔
وما۔۔۔ صبروا (الآیۃ) برائی کو بھلائی کیساتھ ٹالنے کی خوبی اگرچہ نہایت مفید اور بڑی ثمر آور ہے لیکن اس پر عمل وہی کرسکیں گے جو صابر ہونگے غصہ کو پی جانے والے اور ناپسندیدہ باتوں کو برداشت کرنے والے ہونگے بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صدیق اکبر (رض) کو کسی نے گالی دی یا برا کہا تو آپ نے اسکے جواب میں فرمایا کہ اگر تم اپنے کلام میں سچے ہو کہ میں مجرم اور خطا وار ہوں تو اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمادے اور اگر تم نے جھوٹ بولا ہے تو اللہ تعالیٰ تمہیں معاف فرمادے (قرطبی)
وَمِنْ ۔۔۔ وَالقَمَرُ ۔ نکتہ : اس آیت میں ایک عقلی دلیل سے سجود لغیر اللہ کو دو طریقہ سے حرام اور باطل قرار دیا ہے (١) شمس وقمر ہماری قدرت کی نشانیوں میں سے ہیں اور آیت علامت اور نشانی ہوتی ہے نہ کہ مقصود (٢) لیل اور نہار اللہ کی نشانیاں ہیں اور شمس و قمر لیل ونہار کی نشانی ہے تو جب بالا تفاق مسجود نہیں تو ان کی نشانی بدرجہ اولیٰ مسجود نہ ہوگی جبکہ یہ سب چیزیں اللہ کی مخلوق میں سے ہیں لہٰذا یہ سب مستحق سجود و عبادت نہیں ہوسکتیں، جب یہ مخلوق قابل سجود اور مستحق عبادت نہ ہوئی تو دوسری مخلوق بھی
قابل سجود اور لائق عبادت نہ ہوئی، اس لئے کہ مرتبہ مخلوقیت میں سب مساوی ہیں۔ (خلاصۃ التفاسیر فتح محمد تائب)
رات کو تاریک بنایا تاکہ لوگ اس میں آرام کرسکیں، دن کو روشن بنایا تاکہ کسب معاش میں سہولت ہو، رات اور دن کا پورے نظام اور یکسانیت کے ساتھ آنا جانا اسی طرح شمس وقمر کا اپنے اپنے وقت پر طلوع و غروب ہونا اور اپنے اپنے مدار پر منزلیں طے کرتے رہنا اور آپس میں تضادم سے محفوظ رہنا، یہ سب اس بات کی دلیلیں ہیں کہ یقیناً ان کا کوئی خالق ومالک ہے، اور وہ ایک اور صرف ایک ہے، اور کائنات میں صرف اسی کا تصرف اور حکم چلتا ہے، اگر تدبیر و امر کا اختیار رکھنے والے ایک سے زیادہ ہوتے تو یہ نظام کائنات ایسے مستحکم اور لگے بندھے طریقہ سے کبھی چل ہی نہیں سکتا تھا۔
خَلَقَھُنَّ میں جمع مؤنث کی ضمیر آئی ہے جبکہ محل کا تقاضا تھا کہ خَلَقَھُمَا ہو، اسلئے کہ اشارہ شمس وقمر کیطرف ہے اسکی ایک وجہ تو تحقیق و ترکیب کے زیر عنوان گذر چکی ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ یا تو خلقھنّ ، خَلَق ھَذہ الاربعۃ المذکورۃ کے مفہوم میں ہے، اسلئے کہ غیر عاقل کی جمع کا حکم واحد مؤنث ہی کا ہوتا ہے یا اس کا مرجع شمس وقمر ہیں مگر مافوق الواحد کو جمع شمار کرکے جمع کی ضمیر لائے ہیں۔
خَاشِعَۃً کا مطلب ہے خشک اور قحط زدہ یعنی مردہ، دبی ہوئی اور پست اور جب اس پر بارش ہوئی تو جنبش میں آئی اور پھولی، بلاشبہ جس نے مردہ زمین کو زندہ کردیا وہ مردہ انسانوں کو بھی زندہ کرے گا۔
وھم۔۔ یسئمون . اس پر تو امت کا اجماع ہے کہ اس سورت میں سجدۂ تلاوت واجب ہے البتہ مقام سجدہ میں اختلاف ہے، قاضی ابوبکر ابن العربی نے احکام القرآن میں لکھا ہے کہ حضرت علی اور ابن مسعود (رض) پہلی آیت کے ختم پر سجدہ کرتے تھے یعنی اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہ تعبدونَ اور اسی کا امام مالک (رض) اور امام شافعی (رح) تعالیٰ نے اختیار فرمایا ہے، امام ابوبکر جصاص نے فرمایا کہ حضرت ابن عباس (رض) دوسری آیت کے آخر یعنی لایسئمون پر سجدہ کرتے تھے، یہی مذہب تمام ائمہ حنفیہ کا ہے اور فرمایا کہ اختلاف کی بناء پر اختیاط اسی میں ہے کہ دوسری آیت کے آخر میں سجدہ کیا جائے، اس لئے کہ اگر آیت سے سجدہ واجب ہوا ہے تو وہ دوسری آیت کے بعد ادا ہوجائے گا، اور اگر دوسری آیت سے سجدہ واجب ہوا ہے تو پہلی آیت پر کیا
ہوا سجدہ کافی نہ ہوگا۔
ان۔۔ اٰیتنا (الآیۃ) یعنی جو لوگ ہماری آیتوں کو ماننے کے بجائے اس سے اعراض و انحراف کرتے ہیں وہ ہم سے مخفی نہیں ہیں، ہم ان کو قیامت کے دن ضرور سزا دیں گے، الحاد کے معنی عن الحق کے ہیں، حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا الحاد کلام کو غیر محل میں رکھنا ہے، حضرت قتادہ نے فرمایا الحاد کفر وعناد کا نام ہے، علماء کلام نے فرمایا ہے کہ یہ نصوص اپنے ظاہر پر محمول ہیں اور جب تک کوئی دلیل قطعی تاویل کی مقتضی نہ ہوتا ویل نہ کی جائے، اور جو معنی باطنیہ یعنی ملاحدہ نے گھڑ لئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آیات قرآنی اپنے ان ظاہری معانی پر نہیں ہیں جو لغت اور قواعد سے مفہوم ہوں بلکہ اس کے معانی مخفی ہیں جسے ہر شخص نہیں جانتا، ان کی غرض یہ ہے کہ ظاہر شریعت لاشئ ہے، یہ الحاد ہے، اسی الحاد میں وہ فرقے بھی شامل ہیں جو اپنے غلط عقائد و نظریات کے اثبات کے لئے آیات الہٰی میں تحریف معنوی اور دجل وتلبیس سے کام لیتے ہیں۔
لا۔۔ یدیہ (الآیۃ) یعنی قرآن ہر طرح محفوظ ہے باطل اس میں کمی زیادتی نہیں کرسکتا، باطل کے آگے اور پیچھے سے نہ آنے کا مطلب ہے، باطل اس کے آگے سے آکر اس میں کوئی کمی اور نہ پیچھے سے آکر اس میں اضافہ کرسکتا ہے، اور نہ کوئی تغیرو تحریف ہی کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے، کیونکہ یہ اس ذات کی طرف سے نازل کردہ ہے جو اپنے اقوال وافعال میں حکیم و محمود ہے۔
ایک مغالطہ کا ازالہ : کتب عقائد میں ایک ضابطہ بیان کیا گیا ہے کہ متاول کو کافر نہیں کہنا چاہیے یعنی جو شخص عقائد باطلہ اور کلمات کفریہ کو کسی تاویل سے اختیار کرے وہ کافر نہیں، اگر اس ضابطہ سے عام مراد لیا جائے تو لازم آئے گا کہ دنیا میں کوئی کافر نہ ہو اس لئے کہ ہر شخص تاویل کرکے ہی کلمہ کفر یا عقیدۂ کفریہ کو اختیار کرتا ہے، بت پرستوں کی تاویل تو خود قرآن میں مذکورہ ہے ما نعبدھم الا لیقربونا الی اللہ زلفٰی یعنی ہم بتوں کی فی نفسہٖ بندگی نہیں کرتے بلکہ اس لئے کرتے ہیں کہ وہ سفارش کے ذریعہ ہمیں اللہ کے قریب کردیں، اور درحقیقت اللہ کی ہی عبادت ہے مگر قرآن نے ان کی اس تاویل کے باوجود ان کو کافر کہا ہے، یہود و نصاریٰ کی تاویلیں تو بہت ہی مشہور ہیں، اس کے باوجود قرآن و سنت کی نصوص میں ان کو کافر کہا گیا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ متاول کو کافر نہ کہنے کا مفہوم عام نہیں ہے، اسی کی علماء نے تصریح کی ہے جو تاویل تکفیر سے مانع ہوتی ہے اس کی شرط یہ ہے کہ وہ ضروریات دین میں ان کے مفہوم قطعی کے خلاف نہ ہو ضروریات دین سے مراد وہ احکام ہیں جو اسلام اور مسلمانوں میں اتنے متواتر اور مشہور ہوں کہ مسلمانوں کے اَن پڑھ بھی ان سے واقف ہوں جیسے پنجوقتہ نماز، فرض نمازوں کی تعداد رکعات رمضان کے روزوں کی فرضیت، سود، شراب، خنزیر کی حرمت اگر کوئی شخص مذکورہ احکام سے متعلق آیات کی ایسی تاویل کرے کہ جس سے مسلمانوں کے نزدیک مشہور و معروف مفہوم الٹ جائے تو وہ باجماع امت کافر ہے کہ وہ درحقیقت رسول کی لائی ہوئی تعلیمات کا منکر ہے، اور ایمان کی تعریف جمہور کے نزدیک یہی ہے تصدیق النبی فیما علم مجیئہ بہ ضرورۃ اس لئے کفر کی تعریف اس کے بالمقابل ہوگی، جن چیزوں کا لانا
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ضروری اور قطعی طور پر ثابت ہو ان میں سے کسی کا انکار کرنا۔ (معارف ملخصًا)
10 Tafsir as-Saadi
یہ استفہام متحقق اور ثابت شدہ نفی کے معنوں میں ہے، یعنی کسی کا قول اچھا نہیں۔﴿ مِّمَّن دَعَا إِلَى اللّٰـهِ ﴾یعنی کسی کا کلام طریقہ اور حال اس شخص سے بڑھ کر اچھا نہیں ” جس نے اللہ کی طرف بلایا، جو جہلا کو تعلیم کے ذریعے سے غافلین اور اعراض کرنے والوں کو وعظ نصیحت کے ذریعے سے اور اہل باطل کو بحث وجدال کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی تمام انواع کی عبادت کا حکم اور اس کی ترغیب دیتا ہے اور جیسے بھی ممکن ہو اس عبادت کی تحسین کرتا ہے اور ہر اس چیز پر زجروتوبیخ کرتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہو اور ہر اس طریقے سے اس کی قباحت بیان کرتا ہے جو اس کے ترک کرنے کا موجب ہے۔ خاص طور پر یہ دعوت اصول دین اسلام اس کی تحسین اور اس کے دشمنوں کے ساتھ احسن طریقے سے مباحثہ ومجادلہ کی دعوت اس دعوت کے متضاد امور مثلا کفروشرک سے ممانعت امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی تفاصیل اس کے لامحدود جودواحسان اس کی کامل رحمت، اس کے اوصاف کمال اور نعوت جلال کے ذکر کے ذریعے سے اس کے بندوں میں اس کی محبت پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینا ہے۔ کتاب اللہ اور سنت رسول سے علم وہدایت کے حصول کی ترغیب اور ہر طریقے سے اس پر آمادہ کرنا دعوت الی اللہ کے زمرے میں آتا ہے۔ مکارم اخلاق کی ترغیب، تمام مخلوق کے ساتھ بھلائی کرنا، برائی کرنے والے کے ساتھ بھلائی سے پیش آنا صلہ رحمی اور والدین کے ساتھ حسن سلوک سب دعوت الی اللہ کا حصہ ہے۔ مختلف مواقع، حوادث اور مصائب پر حالات کی مناسبت سے عام لوگوں کو وعظ ونصیحت کرنا دعوت الی اللہ میں شمار ہوتا ہے۔ الغرض ہر بھلائی کی ترغیب اور ہر برائی سے ترہیب دعوت الی اللہ میں شامل ہے۔
پھر فرمایا : ﴿وَعَمِلَ صَالِحًا﴾اور نیک عمل کیے“ یعنی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے کے ساتھ ساتھ خود بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کرنے ہوئے اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے عمل صالح کرتا ہو۔﴿وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ﴾ ” اور کہے کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں“ یعنی جو اس کے حکموں کے تابع اور اس کی راہ پر گامزن ہیں اور یہ تمام ترصد یقین کا مرتبہ ہے جو اپنی تکمیل اور دوسروں کی تکمیل کے لیے عمل پیرا رہتے ہیں۔ انھیں انبیاء ومرسلین کی مکمل وراثت حاصل ہوئی ہے۔ اسی طرح گمراہی کے راستے پر چلنے والے گمراہ داعیوں کا قول بدترین قول ہے۔ ان دو متباین مراتب کے درمیان جس میں ایک اعلیٰ علبیین کا مرتبہ اور دوسرا اسفل الاسفلین کا مرتبہ ہے اتنے مراتب ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ہر مرتبہ لوگوں سے معمور ہے ۔﴿وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِّمَّا عَمِلُوا وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ﴾(الانعام:6؍132)” اور ہر شخص کے لیے اس کے عمل کے مطابق درجہ ہے اور آپ کا رب ان اعمال سے بے خبر نہیں جو لوگ کرتے ہیں۔ “
11 Mufti Taqi Usmani
aur uss shaks say behtar baat kiss ki hogi jo Allah ki taraf dawat dey , aur naik amal keray , aur yeh kahey kay mein farmanbardaron mein shamil hun .
12 Tafsir Ibn Kathir
اللہ تعالیٰ کا محبوب انسان۔
فرماتا ہے جو اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف بلائے اور خود بھی نیکی کرے اسلام قبول کرے اس سے زیادہ اچھی بات اور کس کی ہوگی ؟ یہ ہے جس نے اپنے تئیں نفع پہنچایا اور خلق اللہ کو بھی اپنی ذات سے نفع پہنچایا۔ یہ ان میں نہیں جو منہ کے بڑے باتونی ہوتے ہیں جو دوسروں کو کہتے تو ہیں مگر خود نہیں کرتے یہ تو خود بھی کرتا ہے اور دوسروں سے بھی کہتا ہے۔ یہ آیت عام ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے اولیٰ طور پر اس کے مصداق ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے مصداق اذان دینے والے ہیں جو نیک کار بھی ہوں۔ چناچہ صحیح مسلم میں ہے قیامت کے دن موذن سب لوگوں سے زیادہ لمبی گردنوں والے ہوں گے۔ سنن میں ہے امام ضامن ہے اور موذن امانتدار ہے اللہ تعالیٰ اماموں کو راہ راست دکھائے اور موذنوں کو بخشے۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضرت سعد بن وقاص فرماتے ہیں۔ اذان دینے والوں کا حصہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک مثل جہاد کرنے والوں کے حصے کے ہے۔ اذان و اقامت کے درمیان ان کی وہ حالت ہے جیسے کوئی جہاد میں راہ اللہ میں اپنے خون میں لوٹ پوٹ ہو رہا ہو۔ حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں اگر میں موذن ہوتا تو پھر مجھے حج و عمرے اور جہاد کی اتنی زیادہ پروانہ نہ رہتی۔ حضرت عمر سے منقول ہے۔ اگر میں موذن ہوتا تو میری آرزو پوری ہوجاتی۔ اور میں رات کے نفلی قیام کی اور دن کے نفلی روزوں کی اس قدر تگ ودو نہ کرتا۔ میں نے سنا ہے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین بار موذنوں کی بخشش کی دعا مانگی۔ اس پر میں نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے اپنی دعا میں ہمیں یاد نہ فرمایا حالانکہ ہم اذان کہنے پر تلواریں تان لیتے ہیں آپ نے فرمایا ہاں ! لیکن اے عمر ایسا زمانہ بھی آنے والا ہے کہ موذنی غریب مسکین لوگوں تک رہ جائے گا۔ سنو عمر جن لوگوں کا گوشت پوست جہنم پر حرام ہے ان میں موذن ہیں۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں اس آیت میں بھی موذنوں کی تعریف ہے اس کا حی علی الصلوۃ کہنا اللہ کی طرف بلانا ہے۔ ابن عمر اور عکرمہ فرماتے ہیں یہ آیت موذنوں کے بارے میں اتری ہے اور یہ جو فرمایا کہ وہ عمل صالح کرتا ہے اس سے مراد اذان و تکبیر کے درمیان دو رکعت پڑھنا ہے۔ جیسے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے دو اذانوں کے درمیان نماز ہے دو اذانوں کے درمیان نماز ہے دو اذانوں کے درمیان نماز ہے جو چاہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اذان و اقامت کے درمیان کی دعا رد نہیں ہوتی صحیح بات یہ ہے کہ آیت اپنے عموم کے لحاظ سے موذن غیر موذن ہر اس شخص کو شامل ہے جو اللہ کی طرف دعوت دے۔ یہ یاد رہے کہ آیت کے نازل ہونے کے وقت تو سرے سے اذان شروع ہی نہ تھی۔ اس لئے کہ آیت مکہ میں اترتی ہے اور اذان مدینے پہنچ جانے کے بعد مقرر ہوئی ہے جبکہ حضرت عبداللہ بن زید بن عبدربہ نے اپنے خواب میں اذان دیتے دیکھا اور سنا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا حضرت بلال کو سکھاؤ۔ وہ بلند آواز والے ہیں۔ پس صحیح بات یہی ہے کہ آیت عام ہے اس میں موذن بھی شامل ہیں۔ حضرت حسن بصری اس آیت کو پڑھ کر فرماتے ہیں یہی لوگ حبیب اللہ ہیں۔ یہی اولیاء اللہ ہیں یہی سب سے زیادہ اللہ کے پسندیدہ ہیں یہی سب سے زیادہ اللہ کے محبوب ہیں کہ انہوں نے اللہ کی باتیں مان لیں پھر دوسروں سے منوانے لگے اور اپنے ماننے میں نیکیاں کرتے رہے اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتے رہے یہ اللہ کے خلیفہ ہیں، بھلائی اور برائی نیکی اور بدی برابر برابر نہیں بلکہ ان میں بیحد فرق ہے جو تجھ سے برائی کرے تو اس سے بھلائی کر اور اس کی برائی کو اس طرح دفع کر۔ حضرت عمر کا فرمان ہے کہ تیرے بارے میں جو شخص اللہ کی نافرمانی کرے تو تو اس کے بارے میں اللہ کی فرمابرداری کر اس سے بڑھ کو کوئی چیز نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسا کرنے سے تیرا جانی دشمن دلی دوست بن جائے گا، اس وصیت پر عمل اسی سے ہوگا جو صابر ہو نفس پر اختیار رکھتا ہو اور ہو بھی نصیب دار کہ دین و دنیا کی بہتری اس کی تقدیر میں ہو۔ حضرت ابن عباس (رض) ما فرماتے ہیں ایمان والوں کو اللہ کا حکم ہے کہ وہ غصے کے وقت صبر کریں اور دوسرے کی جہالت پر اپنی بردباری کا ثبوت دیں اور دوسرے کی برائی سے درگذر کرلیں ایسے لوگ شیطانی داؤ سے محفوظ رہتے ہیں اور ان کے دشمن بھی پھر تو ان کے دوست بن جاتے ہیں، انسانی شر سے بچنے کا طریقہ۔ اب شیطانی شر سے بچنے کا طریقہ بیان ہو رہا ہے کہ اللہ کی طرف جھک جایا کرو اسی نے اسے یہ طاقت دے رکھی ہے کہ وہ دل میں وساوس پیدا کرے اور اسی کے اختیار میں ہے کہ وہ اس کے شر سے محفوظ رکھے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی نماز میں فرماتے تھے، اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم من ھمزہ ونفخہ ونفثہ۔ پہلے ہم بیان کرچکے ہیں کہ اس مقام جیسا ہی مقام صرف سورة اعراف میں ہے جہاں ارشاد ہے ( خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ\019\09 ) 7 ۔ الاعراف :199) اور سورة مومنین کی آیت ( اِدْفَعْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ السَّيِّئَةَ 96) 23 ۔ المؤمنون :96) ، میں حکم ہوا ہے کہ درگذر کرنے کی عادت ڈالو اور اللہ کی پناہ میں آ جایا کرو برائی کا بدلہ بھلائی سے دیا کرو وغیرہ۔