حم السجدہ آية ۴۵
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ فَاخْتُلِفَ فِيْهِۗ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَـقُضِىَ بَيْنَهُمْۗ وَاِنَّهُمْ لَفِىْ شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيْبٍ
طاہر القادری:
اور بے شک ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کو کتاب عطا فرمائی تو اس میں (بھی) اختلاف کیا گیا، اور اگر آپ کے رب کی طرف سے فرمان پہلے صادر نہ ہو چکا ہوتا تو اُن کے درمیان فیصلہ کر دیا جاتا اور بے شک وہ اس (قرآن) کے بارے میں (بھی) دھوکہ دینے والے شک میں (مبتلاء) ہیں،
English Sahih:
And We had already given Moses the Scripture, but it came under disagreement. And if not for a word [i.e., decree] that preceded from your Lord, it would have been concluded between them. And indeed they are, concerning it [i.e., the Quran], in disquieting doubt.
1 Abul A'ala Maududi
اِس سے پہلے ہم نے موسیٰؑ کو کتاب دی تھی اور اس کے معاملے میں بھی یہی اختلاف ہوا تھا اگر تیرے رب نے پہلے ہی ایک بات طے نہ کر دی ہوتی تو ان اختلاف کرنے والوں کے درمیان فیصلہ چکا دیا جاتا اور حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اُس کی طرف سے سخت اضطراب انگیز شک میں پڑے ہوئے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی تو اس میں اختلاف کیا گیا اور اگر ایک بات تمہارے رب کی طرف سے گزر نہ چکی ہوتی تو جبھی ان کا فیصلہ ہوجاتا اور بیشک وہ ضرور اس کی طرف سے ایک دھوکا ڈالنے والے شک میں ہیں،
3 Ahmed Ali
اورہم نے موسیٰ کو کتاب دی تھی پھر اس میں اختلاف کیا گیا اور اگر آپ کے رب کی طرف سے ایک بات صادر نہ ہو چکی ہوتی تو ان کا فیصلہ ہی ہو چکا ہوتا اورانہیں تو قرآن میں قوی شک ہے
4 Ahsanul Bayan
یقیناً ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی تھی، سو اس میں بھی اختلاف کیا گیا اور اگر (وہ) بات نہ ہوتی (جو) آپ کے رب کی طرف سے پہلے ہی مقرر ہو چکی ہے (١) تو ان کے درمیان (کبھی) کا فیصلہ ہو چکا ہوتا (٢) یہ لوگ تو اسکے بارے میں سخت بےچین کرنے والے شک میں ہیں (٣)
٤٥۔١ کہ ان کے عذاب دینے سے پہلے مہلت دی جائے گی۔ ولکن یوخرھم الی اجل مسمی فاطر
٤٥۔٢ یعنی فوراً عذاب دے کر ان کو تباہ کر دیا گیا ہوتا۔
٤٥۔٣ یعنی ان کا انکار عقل و بصیرت کی وجہ سے نہیں، بلکہ محض شک کی وجہ سے ہے جو ان کو بےچین کئے رکھتا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تو اس میں اختلاف کیا گیا۔ اور اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک بات پہلے نہ ٹھہر چکی ہوتی تو ان میں فیصلہ کردیا جاتا۔ اور یہ اس (قرآن) سے شک میں الجھ رہے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
یقیناً ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی تھی، سو اس میں بھی اختلاف کیا گیا اور اگر (وه) بات نہ ہوتی (جو) آپ کے رب کی طرف سے پہلے ہی مقرر ہو چکی ہے۔ توان کے درمیان (کبھی کا) فیصلہ ہو چکا ہوتا، یہ لوگ تو اس کے بارے میں سخت بےچین کرنے والے شک میں ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور ہم ہی نے موسیٰ(ع) کو کتاب (توراۃ) عطا کی تھی تو اس میں اختلاف کیا گیا ہے اور اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک بات پہلے طے نہ ہو چکی ہوتی تو ان (اختلاف کرنے والوں) میں فیصلہ کر دیا جاتا اور بیشک وہ ایک تردد انگیز شک میں پڑے ہوئے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور یقینا ہم نے موسٰی کو کتاب دی تو اس میں بھی جھگڑا ڈال دیا گیا اور اگر آپ کے پروردگار کی طرف سے ایک بات پہلے سے طے نہ ہوگئی ہوتی تو اب تک ان کے درمیان فیصلہ کردیا گیا ہوتا اور یقینا یہ بڑے بے چین کردینے والے شک میں مبتلا ہیں
9 Tafsir Jalalayn
اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تو اس میں اختلاف کیا گیا اور اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک بات پہلے نہ ٹھہر چکی ہوتی تو ان میں فیصلہ کردیا جاتا اور یہ اس (قرآن) سے شک میں الجھ رہے ہیں
آیت نمبر 45 تا 53
ترجمہ : یقیناً ہم نے موسیٰ (علیہ الصلاۃ ولسلام) کو کتاب تورات عطا کی تھی تو اس میں قرآن کے مانند تصدیق و تکذیب کرکے اختلاف کیا گیا، اور وہ بات نہ ہوتی جو تیرے رب کی جانب سے مخلوق کے حساب و جزاء کے قیامت تک تاخیر کے بارے میں پہلے سے مقرر ہوچکی ہے تو دنیا ہی میں ان کے درمیان کبھی کا فیصلہ ہوچکا ہوتا جس کے بارے میں وہ اختلاف کررہے ہیں، یہ تکذیب کرنے والے لوگ تو اس کے بارے میں سخت بےچین کرنے والے شک میں ہیں جو شخص نیک عمل کرے گا وہ اپنے لئے کرے گا، اور جو شخص بدی کرے گا تو اس کا وبال اس پر ہوگا یعنی اس کی برائی کا نقصان اس کی ذات پر پڑے گا، اور آپ کا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں یعنی ظالم نہیں، اللہ تعالیٰ کے قول اِنَّ اللہَ لاَ یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ کی رو سے قیامت کا علم اسی کی طرف لوٹایا جاتا ہے کہ کب ہوگی ؟ اس کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جو جو پھل اپنے شگوفوں سے (یعنی) اپنے غلافوں سے نکلتے ہیں ایک قراءت میں ثمرات ہے، اَکمام، کِمٌّ کی جمع ہے، کاف کے کسرہ کے ساتھ اور جو مادہ حمل سے ہوتی ہے اور جو بچے وہ جنتی ہے سب کا علم اسے ہے اور جس دن اللہ ان (مشرکوں) کو بلا کر دریافت فرمائے گا کہ میرے شریک کہاں ہیں ؟ تو وہ جواب دیں گے اب ہم آپ سے عرض کرتے ہیں کہ ہم میں کوئی اس کا مدعی نہیں اس کا مدعی کہ تیرا کوئی شریک ہے اور جن بتوں کی یہ لوگ دنیا میں پرستش کیا کرتے تھے وہ سب ان سے غائب ہوجائیں گے (یہ صورت حال دیکھ کر) یہ لوگ سمجھ لیں گے کہ ان کے لئے بچاؤ کی کوئی صورت نہیں یعنی عذاب سے بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں اور (حرف) نفی دونوں جگہ (١) مَا مِنَّا من شھید (٢) مَالَھُمْ مِنْ مَّحِیْص میں عمل سے موقوف ہے اور کہا گیا ہے کہ جملہ منفیہ کو دو مفعولوں کے قائم مقام کردیا گیا ہے بھلائی مانگنے سے انسان تھکتا نہیں یعنی اپنے رب سے مال و صحت وغیرہ مانگتا ہی رہتا ہے اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو رحمت سے مایوس اور ناامید ہوجاتا ہے اور جو اس کے بعد میں ہے وہ کافر کے بارے میں ہے اور قسم ہے اگر ہم اس کو کسی تکلیف شدت اور مصیبت کے بعد جو کہ اس کو پہنچ چکی تھی اپنی رحمت (یعنی) مالداری اور صحت کا مزا چکھا دیتے ہیں تو کہنے لگتا ہے کہ میں اس کا حقدار تھا ہی یعنی یہ میری تدبیر کی بدولت ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ قیامت قائم ہونے والی ہے اور قسم ہے اگر (بالفرض) مجھے میرے رب کے پاس لوٹایا بھی گیا تو میرے لئے اس کے پاس بھی بہتری ہی ہے یعنی جنت ہے ہم یقیناً ان کفار کو ان کے اعمال سے باخبر کردیں گے اور ان کو سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے (یعنی) شدید قسم کا، دونوں فعلوں میں لام قسمیہ ہے، اور جب ہم جنس انسان پر انعام کرتے ہیں تو شکر سے منہ پھیر لیتا ہے اور پہلو تہی کرلیتا ہے، یعنی تکبر کرتے ہوئے پہلو تہی دعائیں کرنے لگتا ہے آپ کہہ دیجئے بھلا بتلاؤ اگر یہ یعنی قرآن اللہ کے پاس سے ہوا جیسا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتے ہیں پھر تم اس کا انکار کرو تو ایسے شخص سے زیادہ کون غلطی پر ہوگا کہ جو مخالفت میں (حق سے) دور چلا جائے ؟ یعنی کوئی نہیں، یہ (یعنی مَنْ اَضَلُّ ) مِنْکُمْ کی جگہ واقع ہوا ہے ان کی حالت (ضلال) کو بتلانے کے لئے عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاقِ عالم (یعنی) زمین و آسمان کے اطراف میں دکھائیں گے اور وہ (نشانیاں) نجوم، نباتات، اور اشجار ہیں اور خود ان کی ذات میں (دکھائیں گے) جو لطیف صنعت اور عجیب حکمت ہے، یہاں تک کہ خود ان پر واضح ہوجائے کہ یہ یعنی قرآن حق ہے بعث اور حساب اور عقاب کے ساتھ نازل کیا گیا ہے لہٰذا اس (قرآن) اور اس کے لانے والے کے انکار کی وجہ سے ان کو سزا دیجائے گی، کیا آپ کے رب کا ہر چیز سے آگاہ ہونا کافی نہیں ہے ؟ بِرَبِّکَ ، یکف کا فاعل ہے (اَنہ علیٰ کل شیئ شھید) رَبِّکَ سے بدل ہے، یعنی کیا ان کے لئے تیری صداقت کے بارے میں یہ کافی نہیں ہے کہ تیرے رب سے کوئی ادنیٰ شئ بھی پوشیدہ نہیں ہے (مگر) یاد رکھو اپنے رب کے ردبرو جانے کے بارے میں ان کے بعث کا منکر ہونے کی وجہ سے شک میں پڑے ہوئے ہیں، یاد رکھو اللہ تعالیٰ ہر شئ کو علم وقدرت کے اعتبار سے احاطہ میں لئے ہوئے ہے، سو ان کے کفر کی ان کو سزا دے گا۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : عَمِلَ ، عَمِلَ فعل مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ فَلِنفسہٖ فعل محذوف کے متعلق ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ لنفسہٖ مبتداء محذوف کی خبر ہو، تقدیر عبارت یہ ہوگی فَالعملُ الصالح لنفسہٖ ۔ قولہ : بذی ظلمٍ یہ ایک شبہ کا دفع ہے۔
شبہ : اللہ تعالیٰ کے قول وَمَا رَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ سے کثرت ظلم کی نفی تو ہوتی ہے مگر نفس ظلم کی نفی نہیں ہوتی۔
دفع : ظلام صیغہ نسبت ہے نہ کہ صیغہ، مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ظلم کے ساتھ منسوب نہیں ہے، جیسا کہ تمّارٌ و خبازٌ میں تمّار خرما فروش کو کہتے ہیں، نہ کہ زیادہ خرمافروش کو اور اسی طرح خبّاز روٹی پکانے والے کو کہتے ہیں نہ کہ بہت زیارہ روٹی پکانے والے کو مفسر (رح) تعالیٰ نے بذی ظلمٍ سے اس جواب کی طرف اشارہ کیا ہے۔
قولہ : لاَ یَعْلَمُ غیرُہٗ سے اس حصر کی طرف اشارہ کردیا جو اِلَیہِ یُرَدُّ کی تقدیم سے مستفاد ہے ورنہ تو یُرَدُّ اِلَیْہِ ہوتا۔
قولہ : مَا تخرُجُ مِن اکمامِھا، مِن فاعل پر زائدہ ہے ثَمَرَۃٌ میں دو قراءتیں ہیں اور دونوں سبعیہ ہیں، افراد باعتبار جنس کے اور جمع باعتبار انواع کے، اَکْمَام، کِمٌّ کی جمع ہے، کھجور وغیرہ کے غلاف کو کہتے ہیں۔
قولہ : والنفی فی الموضعین معلَّق عن العمل موضعین سے مراد اٰذَنّٰکَ ما مِنَّا مِن شھید اور وظَنُّوا ما لَھُمْ من محیص ہے، مذکورہ دونوں جگہوں پر نفی فعل کو لفظا عمل سے مانع ہے نہ کہ محلاً اور وہ دونوں فعل اٰذَنّٰکَ اور ظَنُّوا ہیں، اٰذَنّٰک بمعنی اَعْلمنَاک ہے، لہٰذا یہ افعال قلوب میں سے ہے اور ظَنُّوا بھی افعال قلوب میں سے ہے اور افعال قلوب میں تعلیق عمل کا مطلب ہوتا ہے لفظوں میں عمل کا باطل کردینا کہ معنی میں، اور یہ ابطال عمل اس وقت ہوتا ہے جب یہ افعال، استفہام، یا نفی یا لام ابتداء کے ماقبل واقع ہوں مفسر علام نے اٰذَنّٰکَ کی تفسیر اَعْلمنٰکَ سے کرکے اشارہ کردیا ہے کہ اٰذَنّٰکَ افعال قلوب میں سے ہے۔
قولہ : وقیل الخ مفسر علام یہاں سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر مذکورہ افعال کو معلق عن العمل نہ مانا جائے تو دونوں جگہ جملہ منفیہ کو قائم مقام دو مفعولوں کے ماننا پڑے گا، ظَنُّوا کے مفعول اول اور مفعول ثانی کے قائم مقام اور اٰذَنّٰکَ کے مفعول ثانی اور ثالث کے
قائم مقام ہوگا، اور پہلا مفعول اٰذَنّٰکَ کے اندر کاف ضمیر ہے۔
قولہ : محیص، حیصٌ سے ظرف مکان ہے، جائے پناہ، حاصَ یَحِیْصُ حَیْصًا ای الفرار والھرب۔
قولہ : مِنْ دُعاء الخیر دعاء الخیر میں اضافت، اضافت مصدر الی المفعول ہے جار مجرور یَسْأمُ کے متعلق ہیں۔
قولہ : ھٰذا لِی میں لام استحقاق کے لئے ہے، بعملی کہہ کر مفسر علام نے اسی کی طرف اشارہ کیا ہے۔
قولہ : فلَنُنَبِّئنَّ جمع متکلم مضارع بانون تاکید ثقیلہ (تفعیل) ہم ضرور آگاہ کردیں گے، ہم ضرور بتلادیں گے، دونوں فعلوں میں لام قسم کا ہے۔ قولہ : وَنَاءَ الف کو ہمزہ پر مقدم کرکے، ای نَاءَ بروزن قال اور دوسری قراءت میں ہمزہ کو الف پر مقدم کرکے ای نَاٰ بروزن رَمٰی۔ قولہ : نَأیٰ ماضی واحد مذکر غائب مادہ نَأیٌ (ف) دور ہوگیا، دو گردانی کی، پہلوتہی کی، چونکہ آیت میں متعدی بالباء ہے، اس لئے اس کا ترجمہ ہوگا، اس نے پہلو پھیرلیا، بعض قراءتوں میں نَاءَ بِجَابِبِہٖ آیا ہے اس کا مادہ نَوْءٌ ہے (ن) تکبر کے ساتھ پہلو پھیرلیا۔ قولہ : عِطفہ عِطفٌ پہلو، کنارہ (ج) اَعْطاف وعطافٌ وعُطُوفٌ یقال ثَنّٰی عَنِّی عِطْفْہٗ اس نے مجھ سے پہلو تہی کی۔
قولہ : لا احد یہ اشارہ ہے کہ مَنْ اَضَلُّ میں مَن استفہام انکاری ہے۔
قولہ : اَوْقَعَ ھٰذَا ای مِمَّنْ ھو فِی شِقَاقٍ بعید اعراض کرنے والوں کی حالت کو بیان کرنے کے لئے مِنْکُمْ کی جگہ واقع ہے، ورنہ تو مَنْ
اَضَلُّ مِنکم کہنا کافی تھا، مگر چونکہ مِنْکُمْ سے ان کی حالت پر دلالت نہیں ہوتی اس لئے مِمَّنْ ھو فِی شِقَاقٍ بَعِیْدٍ لائے ہیں۔
شبہ : سنُرِیْھِمْ میں سین فعل کو زمانہ مستقبل کے ساتھ خاص کرتا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے زمانی مستقبل میں اللہ تعالیٰ اپنی آیات قدرت دکھائیں گے حالانکہ آیات قدرت قدرت فی الحال بھی موجود ہیں اور نظر آرہی ہیں۔ دفع : کلام میں مضاف محذوف ہے، ای سَنُزِیٌھِمْ عَوَاقِبَ آیَاتِنَا۔ قولہ : اَوَلَمْ یکفِ برلکَ ہمزہ محذوف پر داخل ہے، اور واؤ عاطفہ ہے تقدیر عبارت یہ ہے اَتَحْزَنُ عَلیٰ انکارِھِمْ ومعارضتِھم لَکَ ولم یکف بربک استفہام انکاری ہے باء فاعل پر زائد ہے مفعول محذوف ہے ای یکفیکَ ۔
تفسیر وتشریح
ولقد۔۔ الکتاب (الآیۃ) یہ کلام مستانف ہے اسکا مقصد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے، ان آیات میں خبر دی گئی ہے کہ تکذیب وطعن وتشنیع یہ سابقہ امتوں سے چلی آرہی پرانی عادت ہے، ہر امت نے اپنے نبی کیساتھ یہی معاملہ کیا ہے، ان لوگوں نے بھی اپنے نبی پر اتاری جانے والی کتاب میں اختلاف کیا تھا اگر اہل مکہ آپ کیساتھ یہی معاملہ کررہے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، لہٰذا آپ اس سے غمزدہ نہ ہوں اور جس طرح ان نبیوں نے صبر و تحمل سے کام لیا آپ بھی صبروتحمل سے کام لیں فاخْتُلِفَ فیہِ میں ضمیر مجرور کتابٌ کی طرف راجع ہے، اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ موسیٰ کی طرف راجع ہے اول اولیٰ ہے۔ (فتح القدیر شو کانی)
لو۔۔ سبقت (الآیۃ) یعنی اگر یہ طے نہ ہوچکی ہوتی کہ ان کو پورا عذاب آخرت میں دیا جائے گا، اور دنیا میں ان کو مہلت اور ڈھیل دی جائے گی جیسا کہ اللہ نے فرمایا لکن یؤخرھم الی اجل مسمًّی تو دنیا ہی میں قطعی فیصلہ ہوچکا ہوتا، اور یہ آپ پر نازل کردہ کتاب کے بارے میں شک و شبہ میں پڑے ہوئے ہیں، مہمل شکوک و شبہات ان کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتے ہر وقت دل میں کھٹکتے رہتے
ہیں، اور ان کا انکار و تکذیب عقل و بصیرت کی وجہ سے نہیں بلکہ محض شک وشبہ کی وجہ سے ہے جو ان کو بےچین کئے رہتا ہے۔
ربط : الیہ۔۔ الساعۃ . چونکہ نیکی وبدی کا پورا اور مکمل بدلہ قیامت کے دن ملے گا اور کفار سے جب یہ بات کہی جاتی تھی تو وہ کہتے
تھے کہ قیامت کب آئے گی، اِلَیْہِ یُرَدُّ سے اسی سوال کے جواب کی طرف اشارہ فرمایا، جس کا مطلب ہے کہ قیامت کے وقوع کے صحیح وقت کا علم خدا کے سوا کسی کو نہیں ہے، چناچہ جب حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قیامت کے واقع ہونے کے بارے میں دریافت فرمایا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا مَا المسئول عنھا بِاَعْلم من السائل قیامت کے بارے میں مجھے بھی اتنا ہی علم ہے جتنا سائل کو ہے، دوسرے مقامات پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا اِلیٰ رَبِّکَ مُنْتَھٰھَا (النازعات) لاَ یُجَلِّیْھَا لِوَقْتِھَا اِلَّا ھو (الاعراف) بڑے سے بڑا نبی اور بڑے سے بڑافرشتہ بھی قیامت کے وقت کی تعیین نہیں کرسکتا، اگر کوئی سائل وقوع قیامت کی تعیین کے بارے میں سوال کرے تو اللہ کے علم کا حوالہ دیتے ہوئے واللہ اعلم کہنا ہی مناسب ہے، اس لئے کہ حق تعالیٰ شانہ کا علم ہی ہر شئ کو محیط ہے کوئی کھجور اپنے گابھے اور کوئی دانہ اپنے خوشہ سے اور کوئی میوہ یا پھل اپنے غلاف سے باہر نہیں آتا جس کی خبر خدا کو نہ ہو، خلاصہ یہ کہ علم محیط خدا ہی کی شان ہے، اس کے حیطۂ علم سے کوئی شئ خارج نہیں، خدا کی اس صفت میں کسی نبی یا ولی فرشتے کو شریک کرنا شرک ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز مشرکین سے تہکم وتہدید کے طور پر فرمائے گا، کہاں ہیں وہ جن کو تم دنیا میں میرا شریک ٹھہرایا کرتے تھے ؟ ان کو بلالو تاکہ وہ تمہاری مدد کریں اور تمہارے اس آڑے وقت میں کام آئیں۔
قالو۔۔۔ شھیدٍ. مطلب یہ ہے کہ ہم آپ سے صاف عرض کرچکے کہ ہم میں کوئی اقبالی مجرم نہیں کہ جو اس جرم (شرک) کا اعتراف کرنے کو تیار ہو، گویا کہ اس وقت نہایت دیدہ دلیری سے جھوٹ بول کو واقعہ کا انکار کرنے لگیں گے، اور کہیں گے آج ہم میں سے کوئی شخص یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ تیرا کوئی شریک ہے اور بعض مفسرین نے شہید بمعنی شاہد لیکر یہ مطلب لیا ہے کہ اس وقت ہم میں سے کوئی ان شرکاء کو یہاں نہیں دیکھتا۔ (فوائد عثمانی)
لا۔۔۔ الخیر . انسان سے بعض حضرات نے انسان کا فرمراد لیا اور بعض نے جنس انسان اور بعض حضرات نے انسان سے ولید بن مغیرہ مراد لیا ہے اور بعض نے ربیعہ کے دونوں بیٹے عتبہ اور شیبہ مراد لئے ہیں اور بعض نے امیہ بن خلف مراد لیا ہے، لیکن آیت کو غالب کے اعتبار سے عموم پر باقی رکھنا اولیٰ اور بہتر ہے، اور عبداللہ بن مسعود (رض) نے لاَ یَسْأم الإنسانُ من دعاء المال پڑھا ہے، مطلب یہ ہے کہ انسان دنیا کا مال واسباب، صحت وقوت، عزت و رفعت اور دیگر دینوی تعمتوں کے مانگنے سے نہیں تھکتا بلکہ مانگتا ہی رہتا ہے اور انسان سے مراد انسانوں کی غالب اکثریت ہے تاکہ اللہ کے نیک مخصوص بندے اس عموم سے خارج ہوجائیں، اور جب تکلیف پہنچتی ہے تو فوراً ہی مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے جبکہ اللہ کے مخلص بندوں کا حال اس کے بر خلاف ہوتا ہے، وہ اول تو دنیا کے طالب نہیں ہوتے ان کے سامنے ہر وقت آخرت ہی ہوتی ہے دوسرے تکلیف پہنچنے پر بھی وہ اللہ کی رحمت اور اس کے فضل سے مایوس نہیں ہوتے، بلکہ آزمائشوں کو بھی وہ کفارۂ سیئات اور رفع درجات کا باعث سمجھتے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ انسان کی فطرت بھی عجیب طرح کی واقع ہوئی ہے، جب دنیا کی ذرا سی بھلائی پہنچے اور کچھ عیش و آرام و تندرستی نصیب ہو تو مارے حرص کے چاہتا ہے کہ اور زیادہ مزے اڑائے، کسی حد پر پہنچ کر اس کا پیٹ پھرنا، اگر اس کا بس چلے تو ساری دنیا کی دولت سمیٹ کر اپنے گھر میں ڈال لے، اس کے برخلاف اگر ذراسی افتاد پڑنی شروع ہوئی اور اسباب ظاہری کا سلسلہ اپنے خلاف دیکھا تو پھر مایوس اور ناامید ہوتے بھی دیر نہیں لگتی، اور اگر اس مایوسی اور ناامیدی کے بعد اللہ نے تکلیف و مصیبت دور کرکے اپنی مہربانی سے پھر عیش و راحت کا سامان کردیا تو کہنے لگتا ہے، ھٰذَا لِی یعنی میں اس کامیابی کا مستحق تھا ہی اس لئے کہ میں نے فلاں تدبیر کی تھی اور میں نے یوں دانشمندی اور ہوشیاری سے کام کیا تھا، جس کا لازمی نتیجہ کامیابی ہی تھا، اب نہ خدا کی مہربانی یاد رہی اور نہ ہی اپنی مایوسی کی وہ کیفیت جو ابھی چند منٹ پہلے قلب پر طاری تھی، اب عیش و آرام کے نشہ میں ایسا مخمور ہوجاتا ہے کہ آئندہ بھی کسی مصیبت اور تکلیف کے پیش آنے کا خطرہ نہیں رہتا سمجھتا ہے، کہ میں ہمیشہ اسی حالت میں رہوں گا، اور اگر کبھی ان تاثرات کے دوران قیامت کا نام سن لیتا ہے تو کہتا ہے کہ میں تو نہیں سمجھتا کہ یہ چیز کبھی ہونے والی ہے، اور اگر بالفرض ایسی نوبت آہی گئی اور مجھے لوٹ کر اپنے رب کی طرف جانا ہی پڑا تب یقین ہے کہ وہاں بھی انجام بہتر ہوگا، اگر میں خدا کی نظر میں برا اور نالائق ہوتا تو مجھے دنیا میں یہ عیش و بہار کے مزے کیوں ملتے ؟ لہٰذا امید ہے کہ وہاں بھی میرے ساتھ یہی معاملہ ہوگا۔
فلننبئن۔۔ کفروا الخ یعنی خوش ہو لو کہ اس کفر و غرور کے باوجود وہاں بھی مزے لوٹوگے، وہاں پہنچ کر پتہ لگ جائے گا کہ منکروں کو کیسی سخت سزا بھگتنی پڑتی ہے۔
واذآ۔۔۔ اعراض (الآیۃ) یعنی اللہ کی تعمتوں سے متمتع ہونے کے وقت تو منعم کی حق شناسی اور شکر گذاری سے اعراض کرتا ہے، اور بےرخی کرتے ہوئے پہلو تہی کرتا ہے اور جب کوئی مصیبت اور تکلیف پیش آتی ہے تو اسی خدا کے سامنے ہاتھ پھیلا کر لمبی چوڑی دعائیں مانگنے لگتا ہے، شرم نہیں آتی کہ اب اسے کس منہ سے پکارتا ہے۔
قل۔۔۔ اللہ (الآیۃ) سابقہ آیات میں انسانی فطرت کا عجیب و غریب نقشہ کھنچ کر اس کی کمزوریوں اور بیماریوں پر نہایت موثر انداز میں توجہ دلائی تھی، اب تنبیہ فرماتے ہیں کہ یہ کتاب جو تمہاری کمزوریوں پر آگاہ کرنے والی اور انجام کیطرف توجہ دلانے والی ہے اگر خدا کے پاس سے آئی ہو (جیسا کہ واقع میں ایسا ہی ہے) پھر تم نے اس کو نہ مانا اور ایسی اعلیٰ اور بیش قیمت نصیحت سے فائدہ اٹھا کر اپنی عاقبت کی فکر نہ کی، بلکہ حق کی مخالفت میں دور ہوتے چلے گئے، تو کیا اس سے بڑھکر گمراہی اور خسارہ کچھ ہوسکتا ہے ؟
سنریھم۔۔۔ انفسھم . عنقریب ہم انہیں اپنی قدرت کی نشانیاں عالم اور اطراف عالم نیز خود انکی ذات میں بھی دکھائیں گے جن سے قرآن کی صداقت اور اسکا من جانب اللہ ہونا واضح ہوجائے گا، اَنَّہٗ میں ضمیر کا مرجع قرآن ہے، اور بعض نے اسکا مرجع اسلام یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرار دیا ہے نتیجہ سب کا ایک ہی ہے آفاق، افق کی جمع ہے بمعنی کنارہ، مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی قدرت کی نشانیاں آفاق و اطراف عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود انسان کی اپنی ذات میں بھی، چناچہ آفاق و اطراف میں قدرت کی بڑی بڑی بشانیاں ہیں مثلاً سورج، چاند، ستارے اور رات و دن، ہوا، بارش، گرج، چمک، بجلی کڑک، نباتات، جمادات، اشجار اور انہار وغیرہ اور آیات انفس سے خود انسان کا وجود مراد ہے جو کہ خود ایک عالم اصغر ہے اسکے اعضاء کی تشریح علم طب کا ایک نہایت
دلچسپ موضوع ہے۔
٭تم بحمداللہ ٭
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ ﴾ ” اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام)کو بھی کتاب عطا کی تھی“ جس طرح آپ کو کتاب عطا کی ہے۔ لوگوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جو آپ کے ساتھ کر رہے ہیں۔ پس لوگوں نے اس کتاب کے بارے میں اختلاف کیا۔ ان میں سے کچھ لوگ اس کتاب پر ایمان لے آئے، انہوں نے اس سے راہنمائی حاصل کی اور اس سے مستفید ہوئے اور کچھ لوگوں نے اس کتاب کی تکذیب کی اور اس سے مستفید نہ ہوسکے۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنے حلم اور سابقہ فیصلے کی بنا پر ان پر عذاب کو ایک مدت مقررہ تک مؤخر نہ کرتا، جس سے یہ عذاب آگے پیچھے نہیں ہوسکتا : ﴿ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ﴾ ” تو ان کے درمیان فیصلہ ہوچکا ہوتا“ جس سے اہل ایمان اور کفار کے درمیان فرق واضح ہوجاتا اور کافروں کو اسی حال میں ہلاک کردیا جاتا کیونکہ ان کی ہلاکت کا سبب پورا ہوچکا تھا: ﴿ وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيبٍ ﴾ ” اور یہ اس (قرآن) کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں۔“ شک نے ان کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے، جہاں وہ متزلزل ہوگئے ہیں، اس لئے انہوں نے اس کی تکذیب کی اور اس کا انکار کیا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur hum ney musa ko bhi kitab di thi , phir uss mein bhi ikhtilaf huwa . aur agar tumharay perwerdigar ki taraf say aik baat pehlay hi tey naa kerdi gaee hoti , to inn logon ka moamla chuka hi diya gaya hota . aur haqeeqat yeh hai kay yeh log aesay shak mein parray huye hain jiss ney inn ko khaljaan mein daal rakha hai .