بیشک ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں اتارا ہے بیشک ہم ڈر سنانے والے ہیں،
English Sahih:
Indeed, We sent it down during a blessed night. Indeed, We were to warn [mankind].
1 Abul A'ala Maududi
کہ ہم نے اِسے ایک بڑی خیر و برکت والی رات میں نازل کیا ہے، کیونکہ ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے
2 Ahmed Raza Khan
بیشک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا بیشک ہم ڈر سنانے والے ہیں
3 Ahmed Ali
ہم نے اسے مبارک رات میں نازل کیا ہے بے شک ہمیں ڈرانا مقصود تھا
4 Ahsanul Bayan
یقیناً ہم نے اسے بابرکت رات (١) میں اتارا ہے بیشک ہم ڈرانے والے ہیں
٣۔١ بابرکت رات (لَیْلَۃُ الْقَدْرِ) سے مراد شب قدر ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر صراحت ہے (شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ) 2۔ البقرۃ;185) رمضان کے مہینے میں قرآن نازل کیا گیا، یہ شب قدر رمضان کے عشرہ اخیر کی طاق راتوں میں سے ہی کوئی ایک رات ہوتی ہے۔ یہاں قدر کی رات اس رات کو بابرکت رات قرار دیا گیا ہے۔ اس کے بابرکت ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے کہ ایک تو اس میں قرآن کا نزول ہوا دوسرے، اس میں فرشتوں اور روح الامین کا نزول ہوتا ہے تیسرے اس میں سارے سال میں ہونے والے واقعات کا فیصلہ کیا جاتا ہے (جیسا کہ آگے آرہا ہے) چوتھے اس رات کی عبادت ہزار مہینے (٨٣ سال ٤ ماہ) کی عبادت سے بہتر ہے شب قدر یا لیلہ مبارکہ میں قرآن کے نزول کا مطلب یہ ہے کہ اسی رات سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید کا نزول شروع ہوا۔ یعنی پہلے پہل اس رات آپ پر قرآن نازل ہوا، یا یہ مطلب ہے لوح محفوظ سے اسی رات قرآن بیت العزت میں اتارا گیا جو آ ّسمان دنیا پر ہے۔ پھر وہاں سے ضرورت و مصلحت ٣٣ سالوں تک مختلف اوقات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اترتا رہا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کہ ہم نے اس کو مبارک رات میں نازل فرمایا ہم تو رستہ دکھانے والے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
یقیناً ہم نے اسے بابرکت رات میں اتارا ہے بیشک ہم ڈرانے والے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
ہم نے اس (کتاب) کو ایک بابرکت رات (شبِ قدر) میں نازل کیا ہے بےشک ہم (عذاب سے) ڈرانے والے رہے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ہم نے اس قرآن کو ایک مبارک رات میں نازل کیا ہے ہم بیشک عذاب سے ڈرانے والے تھے
9 Tafsir Jalalayn
کہ ہم نے اس کو مبارک رات میں نازل فرمایا ہم تو سیدھا راستہ دکھانے والے ہیں
10 Tafsir as-Saadi
﴿فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ ﴾ یعنی خیر کثیر اور برکت والی رات میں، اس سے مراد لیلۃ القدر ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ یقیناً اللہ تبارک و تعالیٰ نے بہترین کلام کو سب راتوں اور دنوں سے افضل رات میں مخلوق میں سے افضل ہستی پر معززین اہل عرب کی زبان میں نازل فرمایا تاکہ اس کے ذریعے سے ان لوگوں کو ڈرائے جنہیں جہالت نے اندھا کر رکھا ہے اور بدبختی ان پر غالب آچکی ہے۔ پس وہ اس کے نور سے روشنی حاصل کریں، اس کی ہدایت کو اختیار کریں اور اس کے پیچھے چلیں، اس طرح انہیں دنیا و آخرت کی بھلائی حاصل ہوگی۔ اس لئے فرمایا: ﴿إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ فِيهَا﴾ ” بے شک ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اس )فضیلت والی( رات میں۔“ جس میں قرآن نازل ہوا۔
11 Mufti Taqi Usmani
kay hum ney issay aik mubarak raat mein utaara hai , ( kiyonkay ) hum logon ko khabrdar kernay walay thay ,
12 Tafsir Ibn Kathir
عظیم الشان قرآن کریم کا نزول اور ماہ شعبان اللہ تبارک وتعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس عظیم الشان قرآن کریم کو بابرکت رات یعنی لیلۃ القدر میں نازل فرمایا ہے۔ جیسے ارشاد ہے آیت ( اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ ښ) 97 ۔ القدر :1) ہم نے اسے لیلۃ القدر میں نازل فرمایا ہے۔ اور یہ رات رمضان المبارک میں ہے۔ جیسے اور آیت میں ہے ( شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَالْفُرْقَانِ\018\05 ) 2 ۔ البقرة :185) رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا۔ سورة بقرہ میں اس کی پوری تفسیر گذر چکی ہے اس لئے یہاں دوبارہ نہیں لکھتے بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ لیلہ مبارکہ جس مے قرآن شریف ہوا وہ شعبان کی پندرہویں رات ہے یہ قول سراسر بےدلیل ہے۔ اس لئے کہ نص قرآن سے قرآن کا رمضان میں نازل ہونا ثابت ہے۔ اور جس حدیث میں مروی ہے کہ شعبان میں اگلے شعبان تک کے تمام کام مقرر کر دئیے جاتے ہیں یہاں تک کہ نکاح کا اور اولاد کا اور میت کا ہونا بھی وہ حدیث مرسل ہے اور ایسی احادیث سے نص قرآنی کا معارضہ نہیں کیا جاسکتا ہم لوگوں کو آگاہ کردینے والے ہیں یعنی انہیں خیر و شر نیکی بدی معلوم کرا دینے والے ہیں تاکہ مخلوق پر حجت ثابت ہوجائے اور لوگ علم شرعی حاصل کرلیں اسی شب ہر محکم کام طے کیا جاتا ہے یعنی لوح محفوظ سے کاتب فرشتوں کے حوالے کیا جاتا ہے تمام سال کے کل اہم کام عمر روزی وغیرہ سب طے کرلی جاتی ہے۔ حکیم کے معنی محکم اور مضبوط کے ہیں جو بدلے نہیں وہ سب ہمارے حکم سے ہوتا ہے ہم رسل کے ارسال کرنے والے ہیں تاکہ وہ اللہ کی آیتیں اللہ کے بندوں کو پڑھ سنائیں جس کی انہیں سخت ضرورت اور پوری حاجت ہے یہ تیرے رب کی رحمت ہے اس رحمت کا کرنے والا قرآن کو اتارنے والا اور رسولوں کو بھیجنے والا وہ اللہ ہے جو آسمان زمین اور کل چیز کا مالک ہے اور سب کا خالق ہے۔ تم اگر یقین کرنے والے ہو تو اس کے باور کرنے کے کافی وجوہ موجود ہیں پھر ارشاد ہوا کہ معبود برحق بھی صرف وہی ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہر ایک کی موت زیست اسی کے ہاتھ ہے تمہارا اور تم سے اگلوں کا سب کا پالنے پوسنے والا وہی ہے اس آیت کا مضمون اس آیت جیسا ہے ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا\015\08 ) 7 ۔ الاعراف :158) ، یعنی تو اعلان کر دے کہ اے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں وہ اللہ جس کی بادشاہت ہے آسمان و زمین کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو جلاتا اور مارتا ہے۔