الجاثیہ آية ۲۷
وَلِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِۗ وَيَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ يَوْمَٮِٕذٍ يَّخْسَرُ الْمُبْطِلُوْنَ
طاہر القادری:
اور اللہ ہی کے لئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے اور جِس دن قیامت برپا ہوگی تب (سب) اہلِ باطل سخت خسارے میں پڑ جائیں گے،
English Sahih:
And to Allah belongs the dominion of the heavens and the earth. And the Day the Hour appears – that Day the falsifiers will lose.
1 Abul A'ala Maududi
زمین اور آسمانوں کی بادشاہی اللہ ہی کی ہے، اور جس روز قیامت کی گھڑی آ کھڑی ہو گی اُس دن باطل پرست خسارے میں پڑ جائیں گے
2 Ahmed Raza Khan
اور اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت، اور جس دن قیامت قائم ہوگی باطل والوں کی اس دن ہار ہے
3 Ahmed Ali
اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی الله ہی کی ہے اور جس دن قیامت قائم ہو گی اس دن جھٹلانے والے نقصان اٹھائیں گے
4 Ahsanul Bayan
اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کی ہے اور جس دن قیامت قائم ہوگی اس دن اہل باطل بڑے نقصان میں پڑیں گے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہت خدا ہی کی ہے۔ اور جس روز قیامت برپا ہوگی اس روز اہل باطل خسارے میں پڑ جائیں گے
6 Muhammad Junagarhi
اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کی ہے اور جس دن قیامت قائم ہوگی اس دن اہل باطل بڑے نقصان میں پڑیں گے
7 Muhammad Hussain Najafi
آسمانوں اور زمین میں اللہ ہی کی بادشاہی ہے اور جس دن قیامت قائم ہوگی اس دن باطل پرست لوگ خسارہ اٹھائیں گے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اللہ ہی کے لئے زمین و آسمان کا ملک ہے اور جس دن قیامت قائم ہوگی اس دن اہل ه باطل کو واقعا خسارہ ہوگا
9 Tafsir Jalalayn
اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہت خدا ہی کی ہے اور جس روز قیامت برپا ہوگی اس روز اہل باطل خسارے میں پڑجائیں گے
آیت نمبر 27 تا 37
ترجمہ : آسمانوں اور زمین میں اللہ ہی کی بادشاہی ہے جس دن قیامت قائم ہوگی اس دن اہل باطل یعنی کافر (یومئذٍ ) یوم تقوم الساعۃُ سے بدل ہے، یعنی (اس دب) ان کا نقصان ظاہر ہوگا، بایں طور کہ وہ جہنم کی طرف جائیں گے آپ دیکھیں گے کہ ہر فرقہ یعنی مذہب والے گھٹنوں کے بل یا اجتماعی طور پر بیٹھے ہوں گے، ہر گروہ کو اپنے اعمال ناموں کی طرف بلایا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا آج تم کو تمہارے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا، یہ ہے ہماری کتاب، حفاظت کرنے والے فرشتوں کا دیوان جو تمہارے حق میں سچ سچ بول رہی ہم تمہارے اعمال لکھواتے اور محفوظ کرتے جاتے تھے پس جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کئے تو ان کو ان کا رب اپنی رحمت جنت میں داخل کرے گا اور یہی کھلی کامیابی ہے لیکن جن لوگوں نے کفر کیا تو ان سے کہا جائے گا کیا میری آیتیں تمہیں سنائی نہیں جاتی تھیں ؟ پھر بھی تم تکبر کرتے رہے اور تم تھے ہی مجرم کافر لوگ اور جب کبھی اے کافرو ! تم سے کہا جاتا کہ اللہ کا بعث کا وعدہ حق ہے اور قیامت کے آنے میں کوئی شبہ نہیں (الساعۃ) پر رفع اور نصب کے ساتھ تو تم کہتے تھے ہم نہیں جانتے کہ قیامت کیا چیز ہے ؟ ہمیں کچھ یوں ہی سا خیال ہوجاتا ہے مبرد نے کہا ہے (ما نظنُّ الاَّ ظَنّا) کی اصل ان نحن الاَّ نظُنُ ظنَّا ہے لیکن ہمیں یقین نہیں کہ قیامت آنے والی ہے آخرت میں ان پر دنیا میں کئے ہوئے اعمال کی برائیاں ظاہر ہوجائیں گی یعنی اس کی سزا اور جس عذاب کا وہ مذاق اڑا رہے تھے وہی ان پر نازل ہوگیا (ان سے) کہا جائے گا آج ہم تم کو آگ میں چھوڑ کر فراموش کردیں گے جیسے تم نے اپنے اس دن کی ملاقات کو فراموش کردیا تھا یعنی اس دن کی ملاقات کے لئے عمل کو ترک کردیا تھا، اور تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے اور تمہارا مددگار کوئی نہیں یعنی آگ سے بجانے والا (کوئی نہیں) یہ اس لئے کہ تم نے اللہ کی آیتوں قرآن کی ہنسی اڑائی تھی اور دنیا کی زندگی نے تمہیں دھوکے میں ڈال رکھا تھا، حتی کہ تم نے کہا کہ نہ بعث ہے اور نہ حساب، پس آج کے دن نہ تو یہ دوزخ سے نکالے جائیں گے اور نہ ان سے عذر معذرت قبول کی جائے گی، یعنی ان سے اس بات کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا کہ وہ اپنے رب کو توبہ اور اطاعت کے ذریعہ راضی کرلیں، اس لئے کہ آج اس سے کچھ فائدہ نہ ہوگا، (یخرجون) معروف اور مجہول دونوں ہیں پس اللہ کی تعریف ہے یعنی اچھی ثنا ہے مکذبین کے بارے میں اپنے وعدہ کے وفا کرنے پر جو آسمانوں اور زمین اور تمام جہانوں کا رب ہے مذکورہ تمام چیزوں کا خالق ہے اور عالم اللہ کے علاوہ کا نام ہے اور (عالمین) کو اس کے انواع کے مختلف ہونے کی وجہ سے جمع لایا گیا ہے اور ربّ (اللہ) سے بدل ہے آسمانوں اور زمینوں میں اسی کی بڑائی ہے (فی المسوٰت والارض) حال ہے یعنی حال یہ ہے کہ وہ عظمت (وکبریائی) آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہ غالب ہے اور حکمت والا ہے (اس کی تشریح) سابق میں گزر چکی ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : یومئذ یخسر المبطلون یوم تقوم الساعۃُ سے بدل برائے تاکید ہے اور یوم تقوم یخسرُ کا ظرف ہے اور یومئذٍ میں تنوین مضاف الیہ کے عوض میں ہے، تقدیر عبارت یہ ہے یوم اذا تقوم الساعۃ۔
قولہ : ای یظھر خسرانُھم یہ اس سوال مقدر کا جواب ہے کہ اہل باطل کا خسران علم ازلی میں متعین اور لازم ہے تو پھر اس دن خاسر ہونے کا کیا مطلب ہے ؟ جواب : مبطلین کا خسران اگرچہ روز ازل ہی سے متعین ہے مگر اس کا ظہور اس دن ہوگا کہ جب اس کو جہنم کی طرف لے جائیں گے۔
قولہ : جاثیۃٍ واحد مؤنث غائب زانو پر بیٹھنے والی، گھنٹوں کے بل گرنے والی، جُثُو یا جُثِیٌّ سے، یہاں جاثیۃٌ جمع کی جگہ استعمال ہوا ہے جیسے جماعۃ قائمۃ۔
قولہ : نستنسخُ جمع متکلم مضارع (استفعال) ہم محفوظ رکھتے ہیں (ف) سے نسخًا زائل کرنا، بدل دینا، منسوخ کرنا، لکھنا نقل کرنا۔ (لغات القرآن) ۔ قولہ : بالفرع والنصب یعنی السَّاعَۃُ پر رفع اور نصب دونوں جائز ہیں رفع مبتداء ہونے کی وجہ سے لا رَیبَ فیھا جملہ ہو کر مبتداء کی خبر، اور نصب اِنَّ کے اسم پر عطف ہونے کی وجہ سے۔ قولہ : قال المطرد اصلہ ان نحن الاَّ نظُنُّ ظنًّا۔
سوال : ظنًّا مصدر تاکید کے لئے واقع ہوا ہے، اور جو مصدر تاکید کے لئے واقع ہو، تو وہ استثناء مفرغ واقع نہیں ہوسکتا حالانکہ یہاں ظنًّا مصدر استثناء مفرغ واقع ہے اسلئے کہ اس سے ایک ہی شئ کا اثبات اور اسی کی نفی لازم آتی ہے جو جائز نہیں ہے یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے ما ضَربْتُ الاَّ ضربتُ اور یہ استثناء الکل عن الکل ہونے کی وجہ سے بالاتفاق ناجائز ہے۔
جواب : مفسر علام نے نحن کا اضافہ کردیا جس کی وجہ سے مستثنیٰ مستثنیٰ منہ سے مغایر ہوگیا، اس لئے کہ نفی کا مورد (مصداق) محذوف ہے اور وہ نحن ہے اور اثبات کا مصداق (مورد) نظُنُّ ظنًّا ہے کلمہ الاَّ اگرچہ لفظاً مؤخر ہے، مگر تقدیراً مقدم ہے، آیت سے جو حصر مفہوم ہو رہا ہے اپنے لئے ظن کا اثبات اور ظن کے ماعدا کی نفی ہے اور منجملہ ماعدا میں یقین بھی ہے اور یقین ہی کی نفی مقصود ہے مگر مطلقاً ماعدا الظن کی نفی یقین کی نفی کے ماعدا کی نفی ہے اور منجملہ ماعدا میں یقین بھی ہے اور یقین ہی کی نفی مقصود ہے مگر مطلقاً ماعدا الظن کی نفی یقین کی نفی میں مبالغہ کرنے کے لئے ہے، اور یہی وجہ ہے کہ مشرکین نے اپنے قول وما نحن بمستیقنین سے ما نظن الاَّ ظنَّا کی تاکید کی ہے۔ (حاشیہ جلالین جمل ملخصاً )
قولہ : جزانُھا حذف مضاف سے اشارہ کردیا کہ ظہور سیئات سے مراد ظہور جزاء سیئات ہے، نسیان کی تفسیر ترک سے کرکے اشارہ کردیا کہ نسیان سے لازم معنی مراد ہیں اس لئے کہ انسان سے نسیان کا گناہ مرفوع ہے اور خدا کے لئے محال ہے اور ترک، نسیان کے لئے لازم ہے۔
قولہ : ذٰلکم بانَّکُم ای العذابُ العظیمُ بسبب انکم اتخذتم آیات اللہ ھُزُوًا، ذٰلک کا مرجع عذاب عظیم ہے اور بأنکُم میں باء سببیہ ہے۔
قولہ : لا یستعتَبُون، استعتابٌ سے جمع مذکر غائب (استفعال) ان سے اللہ کو رضا مند کرنے کی خواہش نہیں کی جائے گی، بعض حضرات نے اس کا ترجمہ کیا ہے ان کے عذر قبول نہیں کئے جائیں گے، علامہ محلی (رح) تعالیٰ نے پہلے معنی مراد لئے ہیں۔
قولہ ؛ فی السمٰوٰت والارض، الکبریاءُ سے حال ہے۔
تفسیر و تشریح
وتری کُلَّ امَّۃٍ جاثیۃٌ، جاثیۃٌ جثوٌّ سے مشتق ہے جس کے معنی گھٹنوں کے بل بیٹھنے کے ہیں اور حضرت سفیان (رض) نے فرمایا جُثُوٌّ اس طرح بیٹھنے کو کہتے ہیں کہ جس میں صرف گھٹنے اور پاؤں کے نیچے زمین پر ٹک جائیں اور اس طرح کی نشست خوف و دہشت کی وجہ سے ہوگی، اور کُلُّ اُمَّۃٍ کے لفظ سے ظاہر یہ ہے کہ یہ صورت خوف تمام اہل محشر انبیاء واولیاء مومن و کافر، نیک و بد سب کو پیش آئے گی، اور بعض دوسری آیات و روایات میں جو محشر کے خوف وفزع سے انبیاء و صلحاء کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے یہ اس کے منافی نہیں کیونکہ ممکن ہے کہ یہ دہشت اور خوف تھوڑی دیر کیلئے انبیاء و صلحا پر بھی طاری ہو اور قلیل مدت ہونے کی وجہ سے اس کو نہ ہونے کے حکم میں رکھا گیا ہے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کل امۃ سے عام اہل محشر مراد نہ ہوں بلکہ اکثر مراد ہوں جیسا کہ لفظ کل بعض اوقات اکثر کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے، اور بعض حضرات نے جاثیہ کے معنی ایسی نشست کیلئے ہیں جیسی نماز میں ہوتی ہے تو پھر وہ اشکال خود ہی ختم ہوجاتا ہے کیونکہ یہ نشست خوف کی نہیں ادب کی نشست ہے۔
ھذا کتابنا ینطق علیکم بالحق (الآیۃ) اس کتاب سے مراد وہ رجسٹر ہیں جن میں انسان کے تمام اعمال درج ہوں گے، یہ اعمال نامے انسانی زندگی کے ایسے مکمل ریکارڈ ہوں گے کہ جن میں کسی قسم کی کمی بیشی نہیں ہوگی، انسان ان کو دیکھ کر پکاراٹھے گا مال ھٰذا الکتاب لایغادرُ صغیرۃً ولا کبیرۃ الا احصاھا (الکھف) یہ کیسا اعمال نامہ ہے کہ جس نے چھوٹی بڑی کسی چیز کو بھی نہیں چھوڑا سب کچھ ہی تو اس میں درج ہے۔
تم بحمد للہ
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی بادشاہی کی وسعت اور تمام اوقات میں تصرف اور تدبیر میں اپنے اکیلے ہونے کے بارے میں آگاہ کرتا ہے، نیز خبر دیتا ہے : ﴿يَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ﴾ ” جس روز قیامت برپا ہوگی۔“ اور تمام مخلوق قیامت کے میدان میں جمع ہوگی تو باطل پرستوں کو جنہوں نے حق کو نیچا دکھانے کے لئے باطل کو اختیار کیا، خسارہ حاصل ہوگا۔ ان کے اعمال ضائع ہوں گے کیونکہ وہ باطل سے تعلق رکھتے ہیں۔ قیامت کے دن جب تمام حقائق عیاں ہوں گے تو اس دن ان کے اعمال باطل اور مضمحل ہوجائیں گے، ان کا اجر و ثواب ختم ہوجائے گا اور انہیں درد ناک عذاب ہوگا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur aasmano aur zameen ki saltanat Allah hi ki hai , aur jiss din qayamat aa-khari hogi , uss din jo log batil per hain , woh sakht nuqsan uthayen gay .
12 Tafsir Ibn Kathir
اس دن ہر شخص گھٹنوں کے بل گرا ہو گا
اب سے لے کر ہمیشہ تک اور آج سے پہلے بھی تمام آسمانوں کا کل زمینوں کا مالک بادشاہ سلطان اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اللہ کے اور اس کی کتابوں کے اور اس کے رسولوں کے منکر قیامت کے روز بڑے گھاٹے میں رہیں گے۔ حضرت سفیان ثوری جب مدینے شریف میں تشریف لائے تو آپ نے سنا کہ معافری ایک ظریف شخص ہیں لوگوں کو اپنے کلام سے ہنسایا کرتے ہیں تو آپ نے انہیں نصیحت کی اور فرمایا کیوں جناب کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ایک دن آئے گا جس میں باطل والے خسارے میں پڑیں گے۔ اس کا بہت اچھا اثر ہوا اور حضرت معافری مرتے دم تک اس نصیحت کو نہ بھولے (ابن ابی حاتم) وہ دن ایسا ہولناک اور سخت تر ہوگا کہ ہر شخص گھٹنوں پر گرجائے گا۔ یہاں تک کہ خلیل اللہ حضرت ابراہیم اور روح اللہ حضرت عیسیٰ بھی۔ ان کی زبان سے بھی اس وقت (نفسی نفسی نفسی) نکلے گا۔ صاف کہہ دیں گے کہ اللہ آج ہم تجھ سے اور کچھ نہیں مانگتے صرف اپنی سلامتی چاہتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ فرمائیں گے کہ آج میں اپنی والدہ کے لئے بھی تجھ سے کچھ عرض نہیں کرتا بس مجھے بچا لے۔ گو بعض مفسرین نے کہا ہے کہ مراد یہ ہے کہ ہر گروہ جداگانہ الگ الگ ہوگا لیکن اس سے اولیٰ اور بہتر وہی تفسیر ہے جو ہم نے کی یعنی ہر ایک اپنے زانو پر گرا ہوا ہوگا۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں گویا کہ میں تمہیں جہنم کے پاس زانو پر جھکے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اور مرفوع حدیث میں جس میں صور وغیرہ کا بیان ہے یہ بھی ہے کہ پھر لوگ جدا جدا کر دئیے جائیں گے اور تمام امتیں زانو پر جھکیں پڑیں گی یہی اللہ کا فرمان ہے آیت ( وَتَرٰى كُلَّ اُمَّةٍ جَاثِيَةً ۣ كُلُّ اُمَّةٍ تُدْعٰٓى اِلٰى كِتٰبِهَا ۭ اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 28) 45 ۔ الجاثية :28) ، اس میں دونوں حالتیں جمع کردی ہیں پس دراصل دونوں تفسیروں میں ایک دوسرے کے خلاف نہیں واللہ اعلم، پھر فرمایا ہر گروہ اپنے نامہ اعمال کی طرف بلایا جائے گا۔ جیسے ارشاد ہے (وَوُضِعَ الْكِتٰبُ وَجِايْۗءَ بالنَّـبِيّٖنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بالْحَــقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ 69) 39 ۔ الزمر :69) ، نامہ اعمال رکھا جائے گا اور نبیوں اور گواہوں کو لایا جائے گا۔ آج تمہیں تمہارے ہر ہر عمل کا بدلہ بھرپور دیا جائے گا جیسے فرمان ہے آیت ( يُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ يَوْمَىِٕذٍۢ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ 13ۭ ) 75 ۔ القیامة :13) ، انسان کو ہر اس چیز سے باخبر کردیا جائے گا جو اس نے آگے بھیجی اور پیچھے چھوڑی اس کے اگلے پچھلے تمام اعمال ہوں گے بلکہ خود انسان اپنے حال پر خوب مطلع ہوجائے گا گو اپنے تمام تر حیلے سامنے لا ڈالے۔ یہ اعمال نامہ جو ہمارے حکم سے ہمارے امین اور سچے فرشتوں نے لکھا ہے وہ تمہارے اعمال کو تمہارے سامنے پیش کردینے کے لئے کافی وافی ہیں جیسے ارشاد ہے ( وَوُضِـعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِيْنَ مُشْفِقِيْنَ مِمَّا فِيْهِ وَيَقُوْلُوْنَ يٰوَيْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيْرَةً وَّلَا كَبِيْرَةً اِلَّآ اَحْصٰىهَا 49 ) 18 ۔ الكهف :49) ، یعنی نامہ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا تو تو دیکھے گا کہ گنہگار اس سے خوفزدہ ہوجائیں گے اور کہیں گے ہائے ہماری کم بختی اور عمل نامے کی تو یہ صفت ہے کہ کسی چھوٹے بڑے عمل کو قلم بند کئے بغیر چھوڑا ہی نہیں ہے جو کچھ انہوں نے کیا تھا سب سامنے حاضر پالیں گے۔ تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم نے محافظ فرشتوں کو حکم دے دیا تھا کہ وہ تمہارے اعمال لکھتے رہا کریں۔ حضرت ابن عباس وغیرہ فرماتے ہیں کہ فرشتے بندوں کے اعمال لکھتے ہیں پھر انہیں لے کر آسمان پر چڑھتے ہیں آسمان کے دیوان عمل کے رشتے اس نامہ اعمال کو لوح محفوظ میں لکھے ہوئے اعمال سے ملاتے ہیں جو ہر رات اس کی مقدار کے مطابق ان پر ظاہر ہوتا ہے جسے اللہ نے اپنی مخلوق کی پیدائش سے پہلے ہی لکھا ہے تو ایک حرف کی کمی زیادتی نہیں پاتے پھر آپ نے اسی آخری جملے کی تلاوت فرمائی۔