فرما دیجئے: ذرا بتاؤ تو اگر یہ (قرآن) اللہ کی طرف سے ہو اور تم نے اس کا انکار کر دیا ہو اور بنی اسرائیل میں سے ایک گواہ (بھی پہلی آسمانی کتابوں سے) اس جیسی کتاب (کے اترنے کے ذکر) پر گواہی دے پھر وہ (اس پر) ایمان (بھی) لایا ہو اور تم (اس کے باوجود) غرور کرتے رہے (تو تمہارا انجام کیا ہوگا؟)، بیشک اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتا،
English Sahih:
Say, "Have you considered: if it [i.e., the Quran] was from Allah, and you disbelieved in it while a witness from the Children of Israel has testified to something similar and believed while you were arrogant...?" Indeed, Allah does not guide the wrongdoing people.
1 Abul A'ala Maududi
اے نبیؐ، ان سے کہو "کبھی تم نے سوچا بھی کہ اگر یہ کلام اللہ ہی کی طرف سے ہوا اور تم نے اِس کا انکار کر دیا (تو تمہارا کیا انجام ہوگا)؟ اور اِس جیسے ایک کلام پر تو بنی اسرائیل کا ایک گواہ شہادت بھی دے چکا ہے وہ ایمان لے آیا اور تم اپنے گھمنڈ میں پڑے رہے ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا"
2 Ahmed Raza Khan
تم فرماؤ بھلا دیکھو تو اگر وہ قرآن اللہ کے پاس سے ہو اور تم نے اس کا انکار کیا اور بنی اسرائیل کا ایک گواہ اس پر گواہی دے چکا تو وہ ایمان لایا اور تم نے تکبر کیا بیشک اللہ راہ نہیں دیتا ظالموں کو،
3 Ahmed Ali
کہہ دو بتاؤ تو سہی اگر یہ کتاب الله کی طرف سے ہو اور تم اس کے منکر ہو اور بنی اسرائیل کا ایک گواہ ایک ایسی کتاب پر گواہی دے کر ایمان بھی لے آیا اور تم اکڑے ہی رہے بے شک الله ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا
4 Ahsanul Bayan
آپ کہہ دیجئے! اگر یہ (قرآن) اللہ ہی کی طرف سے ہو اور تم نے اسے نہ مانا ہو اور بنی اسرائیل کا ایک گواہ اس جیسی کی گواہی بھی دے چکا ہو اور ایمان بھی لا چکا ہو اور تم نے سرکشی کی ہو (١) تو بیشک اللہ تعالٰی ظالموں کو راہ نہیں دکھاتا۔
١٠۔١ اس شاہد بنی اسرائیل سے کون مراد ہے؟ بعض کہتے ہیں کہ یہ بطور جنس کے ہے۔ بنی اسرائیل میں سے ہر ایمان لانے والا اس کا مصداق ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ مکے میں رہنے والا کوئی بنی اسرائیلی مراد ہے کیونکہ یہ سورت مکی ہے بعض کے نزدیک اس سے مراد عبد اللہ بن سلام ہیں اور وہ اس آیت کو مدنی قرار دیتے ہیں (صحیح بخاری) امام شوکانی نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے (اس جیسی کتاب کی گواہی) کا مطلب تورات کی گواہی جو قرآن کے منزل من اللہ ہونے کی تصدیق ہے۔ کیونکہ قرآن بھی توحید و معاد کے اثبات میں تورات ہی کی مثل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب کی گواہی اور ان کے ایمان لانے کے بعد اس کے منزل من اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں رہ جاتا ہے۔ اس لیے اس کے بعد تمہارے انکار استکبار کا بھی کوئی جواز نہیں ہے تمہیں اپنے اس رویے کا انجام سوچ لینا چاہئے
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کہو کہ بھلا دیکھو تو اگر یہ (قرآن) خدا کی طرف سے ہو اور تم نے اس سے انکار کیا اور بنی اسرائیل میں سے ایک گواہ اسی طرح کی ایک (کتاب) کی گواہی دے چکا اور ایمان لے آیا اور تم نے سرکشی کی (تو تمہارے ظالم ہونے میں کیا شک ہے) ۔ بےشک خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا
6 Muhammad Junagarhi
آپ کہہ دیجئے! اگر یہ (قرآن) اللہ ہی کی طرف سے ہو اور تم نے اسے نہ مانا ہو اور بنی اسرائیل کا ایک گواه اس جیسی کی گواہی بھی دے چکا ہو اور وه ایمان بھی ﻻچکا ہو اور تم نے سرکشی کی ہو، تو بیشک اللہ تعالیٰ ﻇالموں کو راه نہیں دکھاتا
7 Muhammad Hussain Najafi
آپ کہیے کیا تم نے کبھی غور کیا ہے کہ اگر وہ (قرآن) اللہ کی طرف سے ہوا اور تم نے اس کا انکار کیا درآنحالیکہ تم بنی اسرائیل میں سے ایک گواہ اس جیسی (کتاب پر) گواہی دے چکا اور ایمان بھی لا چکا مگر تم نے تکبر کیا؟ بیشک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کہہ دیجئے کہ تمہارا کیا خیال ہے اگر یہ قرآن اللہ کی طرف سے ہے اور تم نے اس کا انکار کردیا جب کہ بنی اسرائیل کاایک گواہ ایسی ہی بات کی گواہی دے چکا ہے اور وہ ایمان بھی لایا ہے اور پھر بھی تم نے غرور سے کام لیا ہے بیشک اللہ ظالمین کی ہدایت کرنے والا نہیں ہے
9 Tafsir Jalalayn
کہو کہ بھلا دیکھو تو اگر یہ (قرآن) خدا کی طرف سے ہو اور تم نے اس سے انکار کیا اور بنی اسرائیل میں سے ایک گواہ اسی طرح کی ایک (کتاب) کی گواہی دے چکا اور ایمان لے آیا اور تم نے سرکشی کی (تو تمہارے ظالم ہونے میں کیا شک ہے ؟ ) بیشک خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا قل ارایتم ان کان من عند اللہ و کفرتم بہ (الایۃ) ان کی ضمیر قرآن کی طرف راجع ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ رسول کی طرف راجع ہو اور کفرتم بہ اور وشھد شاھد تقدیر قد کے ساتھ حال ہیں۔ اس زمانہ میں عرب کے جاہل مشرکین بنی اسرائیل کے علم و فضل سے مرعوب تھے، جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا چرچا ہوا تو مشرکین نے اس باب میں علماء بنی اسرائیل کا عندیہ لینا چاہا، مقصد یہ تھا کہ وہ لوگ آپ کی تکذیب کردیں تو کہنے کو ایک بات ہاتھ آجائے کہ دیکھو اہل علم اور اہل کتاب بھی ان کی باتوں کو جھوٹا کہتے ہیں، مگر اس مقصد میں مشرکین ہمیشہ ناکام رہے، اللہ تعالیٰ نے ان ہی بنی اسرائیل کی زبانوں سے حضور کی تصدیق و تائید کرائی نہ صرف اتنی بات سے کہ وہ لوگ بھی قرآن کی طرح تورات کو آسمانی کتاب اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پیغمبر کہتے تھے اس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دعوائے رسالت اور قرآن کی وحی کوئی انوکھی چیز نہیں رہی بلکہ اس طرح کہ بعض علماء یہود نے صریحاً اقرار کیا اور گواہی دی کہ بیشک ہمارے یہاں ایک عظیم الشان رسول اور کتاب کے آنے کی خبر دی گئی ہے اور یہ رسول وہی معلوم ہوتا ہے اور یہ کتاب اسی طرح کی ہے جس کی خبر دی گئی تھی، علماء یہود کی شہادتیں دراصل ان پیشین گوئیوں پر مبنی تھیں جو ہزار ہاتحریف و تبدیل کے باوجود آج بھی تورات وغیرہ میں موجود چلی آرہی ہیں جس سے صاف ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل کا سب سے بڑا گواہ یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہزاروں سال پہلے خود گواہی دے چکا ہے، کہ بنی اسرائیل کے اقارب اور بھائیوں (بنی اسماعیل) میں سے اسی کے مثل ایک رسول آنے والا ہے، انا ارسلنا الیکم رسولاً شاھداً علیکم کما ارسلنا الی فرعون رسولاً (الزمل : رکوع ١) یہی سبب تھا کہ بعض منصف اور حق پرست احبار یہود و مثلاً عبدا للہ بن سلام وغیرہ حضور کا چہرہ انور دیکھتے ہی اسلام لے آئے اور بول اٹھے ان ھذا الوجہ لیس بوجہ کاذب یہ چہرہ جھوٹے کا نہیں ہو ستا، پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس چیز پر ہزاروں سال پہلے ایمان رکھیں اور علماء یہود اس کی صداقت کی گواہی دیں ان سب شہادتوں کے باوجود تم اپنی شیخی اور غرور سے اس کو قبول نہ کرو تو سمجھ لو اس سے بڑھ کر ظلم اور گناہ کیا ہوگا۔ (فوائد عثمانی ملخصاً ) یہاں ” شاہد “ سے کون مراد ہے ؟ مفسرین کی ایک بڑی جماعت نے اس گواہ سے مراد حضرت عبداللہ بن سلام کو لیا ہے جو مدینہ طیبہ کے مشہور یہودی عالم تھے اور ہجرت کے بعد مسلمان ہوئے تھے یہ واقعہ چونکہ مدینہ منورہ میں پیش آیا اس لئے ان مفسرین کا قول یہ ہے کہ یہ آیت مدنی ہے اس تفسیر کی بنیاد حضرت سعد بن ابی وقاص کا یہ بیان ہے کہ یہ آیت حضرت عبداللہ بن سلام کے بارے میں نازل ہوئی تھی (بخاری، مسلم وغیرہ ہما) (واخرج الترمذی و ابن جریر و ابن مردویہ عن عبداللہ بن سلام قال نزل فی آیات من کتاب اللہ، نزلت فی وشھد شاھد من بنی اسرائیل) (فتح القدیر شوکانی ملخصاً ) اور سی بناء پر ابن عباس، مجاہد، قتادہ، ضحاک، ابن سیرین، حسن بصری، ابن زید اور عوف بن مالک اشجعی (رض) جیسے متعدد اکابر مفسرین نے اس تفسیر کو قبول کیا ہے، مگر دوسری طرف عکرمہ اور شعبی اور مسروق کہتے ہیں کہ یہ آیت عبداللہ بن سلام کے بارے میں نہیں ہوسکتی یہ پوری سورت مکی ہے اور ابن جریر طبری نے بھی اسی قول کو ترجیح دی ہے اور ان کی دلیل یہ ہے کہ اوپر کلام کا پورا سلسلہ مشرکین مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے چلا آرہا ہے، اور آگے بھ سارا خطاب ان ہی سے ہے، اس سیاق و سبقا میں یکایک مدینہ میں نازل ہونے والی آیت کا آجانا قابل تصور نہیں ہے بعد کے جن مفسرین نے اس دوسرے قول کو قبول کیا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص کی روایت کو رد نہیں کرتے بلکہ ان کا خیال یہ ہے کہ یہ آیت چونکہ عبداللہ بن سلام کے ایمان لانے پر بھی چسپاں ہوتی ہے، اس صورت میں یہ آیت پیشین گوئی کے طور پر ہوجائے گی۔ اس آیت کے الفاظ میں کسی خاص عالم بنی اسرائیل کا نام نہیں لیا گیا اور نہ یہ متعین کیا گیا کہ یہ شہادت اس آیت کے نزول سے پہلے لوگوں کے سامنے آچکی ہے یا آئندہ آنے والی ہے بلکہ ایک جملہ شرطیہ کے طور پر فرمایا ہے کہ اگر ماضی میں یا بالفعل یا آئندہ ایسا ہوجائے تو تمہیں اپنی فکر کرنا چاہیے کہ تم عذاب سے کیسے بچو گے، اس لئے آیت کا مفہوم سمجھنا اس پر موقوف نہیں کہ علماء بنی اسرائیل میں سے کس کو ” شاہد “ کا مصداق قرار دیا جائے، بلکہ جتنے حضرات بنی اسرائیل میں سے اسلام میں داخل ہوئے جن میں حضرت عبداللہ بن سلام زیادہ معروف ہیں وہ سب ہی اس میں داخل ہیں اگرچہ حضرت عبداللہ بن سلام کا ایمان لانا اس آیت کے نازل ہونے کے بعد مدینہ منورہ میں ہوا ہو، اور یہ پوری سورت مکی ہے۔ (ابن کثیر بحوالہ معارف القرآن)
10 Tafsir as-Saadi
﴿ قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن كَانَ مِنْ عِندِ اللّٰـهِ وَكَفَرْتُم بِهِ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ مِثْلِهِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ ﴾ یعنی مجھے بتاؤ اگر یہ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو اور اہل کتاب میں سے ان توفیق یافتہ لوگوں نے بھی اس کی صحت کی شہادت دی ہو، جن کے پاس حق ہے اور وہ پہنچانتے ہیں کہ یہ بھی حق ہے، پس وہ اس پر ایمان لے آئے اور ہدایت یافتہ ہوئے، تو انبیائے کرام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خبر اور ان کے متبعین کی خبر میں مطابقت ہوگئی۔ اے جاہل اور کم عقل لوگو ! تم نے تکبر سے کام لیا۔ کیا یہ (تمہارا رویہ) سب سے بڑے ظلم اور شدید ترین کفر کے سوا کچھ اور ہے؟ ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴾ ” بے شک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔“ اور یہ ظلم ہے کہ حق قبول کرنے پر قدرت رکھنے کے باوجود تکبر سے اسے ٹھکرا دیا جائے۔
11 Mufti Taqi Usmani
kaho kay : zara mujhay yeh batao kay agar yeh ( Quran ) Allah ki taraf say ho , aur tum ney uss ka inkar kerdiya , aur bano Israel mein say aik gawah ney iss jaisi baat kay haq mein gawahi bhi dey di , aur uss per emaan bhi ley aaya , aur tum apney ghamand mein mubtala rahey ( to yeh kitney zulm ki baat hai-? ) yaqeen jano kay Allah aesay logon ko hidayat tak nahi phonchata jo zalim hon .