الاحقاف آية ۱۱
وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَوْ كَانَ خَيْرًا مَّا سَبَقُوْنَاۤ اِلَيْهِ ۗ وَاِذْ لَمْ يَهْتَدُوْا بِهٖ فَسَيَقُوْلُوْنَ هٰذَاۤ اِفْكٌ قَدِيْمٌ
طاہر القادری:
اور کافروں نے مومنوں سے کہا: اگر یہ (دینِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہتر ہوتا تو یہ لوگ اس کی طرف ہم سے پہلے نہ بڑھتے (ہم خود ہی سب سے پہلے اسے قبول کر لیتے)، اور جب ان (کفار) نے (خود) اس سے ہدایت نہ پائی تو اب کہتے ہیں کہ یہ تو پرانا جھوٹ (اور بہتان) ہے،
English Sahih:
And those who disbelieve say of those who believe, "If it had [truly] been good, they would not have preceded us to it." And when they are not guided by it, they will say, "This is an ancient falsehood."
1 Abul A'ala Maududi
جن لوگوں نے ماننے سے انکار کر دیا ہے وہ ایمان لانے والوں کے متعلق کہتے ہیں کہ اگر اس کتاب کو مان لینا کوئی اچھا کام ہوتا تو یہ لوگ اس معاملے میں ہم سے سبقت نہ لے جا سکتے تھے چونکہ اِنہوں نے اُس سے ہدایت نہ پائی اس لیے اب یہ ضرور کہیں گے کہ یہ تو پرانا جھوٹ ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور کافروں نے مسلمانوں کو کہا اگر اس میں کچھ بھلائی ہو تو یہ ہم سے آگے اس تک نہ پہنچ جاتے اور جب انہیں اس کی ہدایت نہ ہوئی تو اب کہیں گے کہ یہ پرانا بہتان ہے،
3 Ahmed Ali
اور کافروں نے ایمانداروں سے کہا اگر یہ دین بہتر ہوتا تو یہ اس پر ہم سے پہلے نہ دوڑ کر جاتے اورجب انہوں نے اس کے ذریعے سے ہدایت نہیں پائی تو کہیں گے یہ تو پرانا جھوٹ ہے
4 Ahsanul Bayan
اور کافروں نے ایمانداروں کی نسبت کہا کہ اگر یہ (دین) بہتر ہوتا تو یہ لوگ اس کی طرف ہم سے سبقت کرنے نہ پاتے اور چونکہ انہوں نے اس قرآن سے ہدایت نہیں پائی پس یہ کہہ دیں گے کہ قدیمی جھوٹ ہے (١)
١١۔١ کفار مکہ، حضرت بلال، عمار، صہیب اور خباب رضی اللہ عنہم جیسے مسلمانوں کو، جو غریب و قلاش کے لوگ تھے لیکن اسلام قبول کرنے میں انہیں سب سے پہلے شرف حاصل ہوا، دیکھ کر کہتے کہ اگر اس دین میں بہتری ہوتی تو ہم جیسے ذی عزت و ذی مرتبہ لوگ سب سے پہلے اسے قبول کرتے نہ کہ یہ لوگ پہلے ایمان لاتے۔ یعنی اپنے طور پر انہوں نے اپنی بابت یہ فرض کر لیا کہ اللہ کے ہاں ان کا بڑا مقام ہے۔ اس لیے اگر یہ دین بھی اللہ کی طرف سے ہوتا تو اللہ تعالٰی ہمیں اس کے قبول کرنے میں پیچھے نہ چھوڑتا اور جب ہم نے اسے نہ اپنایا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک پرانا جھوٹ ہے یعنی قرآن کو انہوں نے پرانا جھوٹ قرار دیا ہے جیسے وہ اسے اساطیر الاولین بھی کہتے تھے حالانکہ دنیاوی مال ودولت میں ممتاز ہونا عند اللہ مقبولیت کی دلیل نہیں (جیسے ان کو مغالظہ ہوا یا شیطان نے مغالطے میں ڈالا) عند اللہ مقبولیت کے لیے تو ایمان واخلاص کی ضرورت ہے اور اس دولت ایمان واخلاص سے وہ جس کو چاہتا ہے نوازتا ہے۔ جیسے وہ مال ودولت آزمائش کے طور پر جس کو چاہتا ہے دیتا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور کافر مومنوں سے کہتے ہیں کہ اگر یہ (دین) کچھ بہتر ہوتا تو یہ لوگ اس کی طرف ہم سے پہلے نہ دوڑ پڑتے اور جب وہ اس سے ہدایت یاب نہ ہوئے تو اب کہیں گے کہ یہ پرانا جھوٹ ہے
6 Muhammad Junagarhi
اور کافروں نے ایمان داروں کی نسبت کہا کہ اگر یہ (دین) بہتر ہوتا تو یہ لوگ اس کی طرف ہم سے سبقت کرنے نہ پاتے، اور چونکہ انہوں نے قرآن سے ہدایت نہیں پائی پس یہ کہہ دیں گے کہ قدیمی جھوٹ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور کافر لوگ ایمان لانے والوں کی نسبت کہتے ہیں کہ اگر وہ (قرآن و اسلام) کوئی اچھی چیز ہوتا تو یہ لوگ اس کی طرف ہم پر سبقت نہلے جاتے اب چونکہ انہوں نے اس (قرآن) سے ہدایت نہیں پائی تو وہ ضرور کہیں گے کہ یہ تو پرانا جھوٹ ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور یہ کفار ایمان والوں سے کہتے ہیں کہ اگر یہ دین بہتر ہوتا تو یہ لوگ ہم سے آگے اس کی طرف نہ دوڑ پڑتے اور جب ان لوگوں نے خود ہدایت نہیں حاصل کی تو اب کہتے ہیں کہ یہ بہت پرانا جھوٹ ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور کافر مومنوں سے کہتے ہیں کہ اگر یہ (دین) کچھ بہتر ہوتا تو یہ لوگ اسکی طرف ہم سے پہلے نہ دوڑ پڑتے ؟ اور جب وہ اس سے ہدایت یاب نہ ہوئے تو اب کہیں گے کہ یہ پرانا جھوٹ ہے
ترجمہ :۔ اور کافروں نے ایمان والوں کے بارے میں کہا اگر یہ ایمان کوئی بہتر چیز ہوتی تو یہ لوگ اس کی طرف ہم سے سبقت کرین نہ پاتے اور چونکہ ان کے کہنے والوں نے اس قرآن سے ہدایت نہیں پائی پس اب یہ کہہ دیں گے کہ یہ یعنی قرآن قدیمی جھوٹ ہے حالانکہ اس سے یعنی قرآن سے پہلے موسیٰ کی کتاب یعنی تو رات اس پر ایمان لاین والوں کے لئے پیشوا اور رحمت تھی (اماماً اور رحمۃً ) دونوں (کائن من کتاب موسیٰ سے) حال ہیں، یہ قرآن عربی زبان کی کتاب ہے ماقبل کی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے مصدقہ کی ضمیر سے حال ہے تاکہ ظالموں یعنی مشرکین مکہ کو ڈرائے اور مومنین کے لئے بشارت ہو بیشک جن لوگوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر طاعت پر جمے رہے تو نہ تو ان کو کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے یہ تو اہل جنت ہیں جو ہمیشہ اسی میں رہیں گے (خالدین) حال ہے ان اعمال کے صلے میں جو وہ کیا کرتے تھے جزاء اپنے فعل مقدر سے مصدریت کی بناء پر منصوب ہے ای یجزون جزاء ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ایک قرأت میں احساناً ہے، یعنی ہم نے اس کو حکم دیا ہے کہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرے، احساناً اپنے فعل مقدر سے مصدریت کی وجہ سے منصوب ہے اور اسی طرح حسناً اس کی ماں نے اس کو بڑی مشقت کے ساتھ پیٹ میں رکھا اور بڑی مشقت کے ساتھ اس کو جنا اس کو پیٹ میں رکھنا اور دودھ چھڑانا تیس مہینہ (میں پورا ہوتا) ہے چھ ماہ اقل مدت حمل ہے اور باقی رضاعت کی اکثر مدت ہے کہا گیا ہے اگر بچے سے چھ ماہ یا نو ماہ حاملہ رہی تو باقی ایام بچے کو دودھ پلائے یہاں تک کہ جب وہ اپنی جوانی کو حتیٰ جملہ مقدرہ کی غایت ہے ای عاش حتی اور اشد اس کی قوت و قعل و رائے کا کمال ہے اور اس کی اقل مدت تینتیس سال ہے اور چالیس سال کی عمر کو پہنچا اور وہ پختگی کی اکثر مدت ہے تو اس نے کہا : اے میرے پروردگار ! الخ (یہ آیت) حضرت ابوبکر صدیق کی شان میں نازل ہوئی جبکہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے دو سال بعد چالیس سال کی عمر کو پہنچے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے پھر آپ کے والدین ایمان لائے پھر آپ کے صاحبزادے عبدالرحمٰن اور عبدالرحمٰن کے بیٹے ابو عتیق ایمان لائے تو مجھے توفیق دے مجھے الہام فرما میں تیری اس نعمت کا شکر بجا لائوں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام فرمائی اور وہ توحید ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کروں جن سے تو خوش ہوجائے چناچہ نو ایسے مومن غلاموں کو آزاد کیا جن کو راہ خدا میں ایذا دی جا رہی تھی اور مجھے میری اولاد سے راحت پہنچا چناچہ وہ سب کے سب ایمان لائے اور میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں فرمانبرداروں میں سے ہوں، یہی ہیں وہ لوگ اس قول کے کہنے والے ابوبکر (رض) وغیرہ ہیں جن کے نیک اعمال کو ہم قبول کرلیتے ہیں احسن بمعنی حسن ہے اور جن کے بداعمال سے در گزر کردیتے ہیں، حال یہ ہے کہ یہ اہل جنت سے ہوں گے (فی اصحب الجنۃ) حال ہے ای کائن من جملۃ اھل الجنۃ اس سچے وعدہ کے مطابق جو ان سے کیا گیا تھا (اور وہ وعدہ) اللہ تعالیٰ کے قول وعد اللہ المومنین و المومنات جنت میں کیا ہے اور جس نے اپنے ماں باپ سے کہا : اف ! تنگ کردیا تم نے اور ایک قرأت میں افراد کے ساتھ ہے اس سے جنس کا ارادہ کیا گیا ہے اف فاء کے کسرہ اور فتح کے ساتھ، مصدر کے معنی میں ہے، تمہارے لئے بدبو اور خرابی ہے میں تم سے تنگ آگیا ہوں تم مجھ سے یہ کہتے رہتے ہو اور ایک قرأت میں اتعدانی ادغام کے ساتھ ہے، کہ میں قبر سے نکالا جائوں گا حالانکہ مجھ سے پہلے بہت سی امتیں گذر چکی ہیں اور وہ قبروں سے نہیں نکالی گئیں اور وہ دونوں (یعنی والدین) اللہ سے فریاد کرتے ہیں (یعنی) اس کے (ایمان کی طرف) رجوع کرنے کی دعاء کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر تو نہ لوٹے گا تو تیرا تیاناس ہوگا ھلاکک بمعنی ہلکت ہے، بعث بعد الموت پر ایمان لے آ، بیشک اللہ کا بعث کا وعدہ حق ہے تو وہ جواب دیتا ہے کہ یہ یعنی بعث بع دالموت کی باتیں ت محض افسانے ہیں یعنی جھوٹی باتیں ہیں، یہ وہ لوگ ہیں کہ جن پر ان سے پہلے امم سابقہ پر جنات سے ہوں یا انسانوں سے عذاب کا وعدہ صادق آچکا، بیشک یہ زیاں کاروں میں سے تھے جنس کافر اور مومن میں سے ہر ایک کے لئے اپنے اپنے اعمال کے مطابق درجات ملیں گے بایں طور کہ مومنین کے درجات جنت عالیہ میں ہوں گے اور کافروں کے جہنم میں درجات سافلہ ہوں گے، یعنی مومنین نے جو فرمانبرداری کے کام کئے اور کافروں نے معصیت کے کام کئے، تاکہ وہ یعنی اللہ انہیں ان کے اعمال کا بدلہ دے اور ایک قرأت میں نون کے ساتھ ہے تاکہ ہم ان کے اعمال کا پورا پورا بدل دیں اور ان پر ذرہ برابر ظلم نہ کیا جائے گا کہ مومنین کے (نیک اعمال) کم کردیئے جائیں اور کافروں کے (برے اعمال) میں اضافہ کردیا جائے اور جس دن کافر آگ کے سامنے لائیں جائیں گے، اس طریقہ پر کہ ان کے سامنے سے جہنم کے پردے ہٹا دیئے جائیں گے، ان سے کہا جائے گا تم نے اپنی نیکیاں اپنی لذتوں میں مشغول ہو کر دنیا ہی میں برباد کردیں ایک ہمزہ کے ساتھ اور دو (محقق) ہمزوں کے ساتھ اور ایک ہمزہ اور مد کے ساتھ، اور دونوں کے ساتھ مع ثانی (ہمزہ) کی تسہیل کے اور تم ان سے فائدہ اٹھا چکے پس آج تم کو ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی، ھون بمعنی ھوان ہے، اس باعث کہ تم دنیا میں ناقح تکبر کیا کرتے تھے اور اس باعث بھی کہ تم حکم عدولی کیا کرتے تھے اور اسی کا جہنم کے ذریعہ تم کو عذاب دیا جائے گا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : لو ان خیراً لو حرف شرط ہے کان خیراً جملہ ہو کر شرط اور ماسبقوناً جملہ ہو کر جزاء، شرط و جزاء ملکر قال کا مقولہ
قولہ : واذا لم یھتدوابہ اذ کا عامل محذوف ہے، ای ظھر عنادھم اذلم یھتدوا بہ، اذ میں فسیقولون کا عامل بننا دو وجہ سے درست نہیں ہے اول تو اس لئے کہ دونوں کے زمانے مختلف ہیں اذ ماضی کے لئے ہے اور فسیقولون استقبال کے لئے دوسری وجہ یہ ہے کہ فاء اپنے مابعد کو ماقبل میں عمل کرنے سے مانع ہے۔
قولہ : من قبلہ کتاب موسی، من قبلہ کائن کے متعلق ہو کر خبر مقدم ہے اور کتاب مسی مبتداء مئوخر ہے، جملہ حال ہونے کی وجہ سے محلاً منصوب ہے۔
قولہ : اماماً و رحمۃ دونوں خبر مقدم کائن کی ضمیر سے حال ہیں اور ابوعبید نے جعلناہ محذوف کا مفعول ہو نیکی وجہ سے منصوب قرار دیا ہے۔ (فتح القدیر، شوکانی)
قولہ : لساناً عربیاً موصوف صفت سے مل کر مصدق کی ضمیر سے حال ہیں اور مصدق کی ضمیر کتاب کی طرف راجع ہے۔
قولہ : لینذر مصدق کے متعلق ہے۔
قولہ : ای علی مشقۃ اس سے مفسر علام نے اشارہ کردیا کہ کرھاً بنزع الخاص منصوب ہے اصل میں علی کرہ تھا اور بعض نے حال کی وجہ سے منصوب کہا ہے ای ذات کرہ اور بعض نے مصدر محذوف کی صفت ہونے کی وجہ سے منصوب کہا ہے، ای حملاً کرھا
قولہ : ثلثون شھراً کلام میں حذف ہے ای مدۃ حملہ و فصالہ ثلثون شھراً
قولہ : فی اصحاب الجنۃ یہ کائن محذوف کے متعلق ہو کر عنھم کی ضمیر سے حال ہے کما اشار الیہ الشارح اور یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ عرب کا مقولہ ہے ” اکرمن الامین فی اصحابہ ‘ ای فی جمھلتھ اور بعض حضرات نے فی بمعنی مع لیا، ای مع اصحاب الجنۃ اور دیگر حضرات نے مبتداء محذوف کی خبر قرار دیا ہے ای ھم فی اصحاب الجنۃ
قولہ : وعد الصدق، وعداً فعل مقدر کا مصدر ہونے کی وجہ سے منصوب ہے ای وعدھم اللہ وعد الصدق
قولہ : وفی قراء ۃ بالافراد یعنی ہشام کی قرأت میں لوالدیہ کے بجائے لوالدہ ہے، مراد جنس والد ہے جو معنی میں جمع کے ہے۔
قولہ : اف کسرہ تنوین کے اور فتحہ بغیر تنوین کے اف، اف یوقف افا سے مصدر ہے بمعنی نتنا و قبحا کرخی (رح) تعالیٰ نے کہا ہے یہ اف یوف کا مصدر ہے اور تبا و قبحاً کے معنی میں ہے اف میں تین احتمال ہیں۔ (١) مصدر (٢) اسم صوت (٣) اسم فعل مفسر علام نے ان میں سے دو کی طرف اشارہ کیا ہے، بعنی مصدر سے اول کی طرف اور اتضجر سے ثانی کی طرف، گویا کہ مفسر علام نے اشارہ کردیا کہ دونوں تفسیریں جائز ہیں، اف ہر قسم کے میل کچیل کو کہتے ہیں جیسے ناخن کا تراشہ وغیرہ اور اسی اعتبار سے کس چیز کے متعلق گندگی اور نفرت کے اظہار کے لئے اس کا استعمال ہوتا ہے، فتح القدیر میں قاضی شوکانی سورة اسراء میں تحریر فرماتے ہیں، اصمعی کا بیان ہے کہ اف کان کا میل ہے اور تف ناخن کا کسی چیز سے گھن ظاہر کرنے کے لئے اف کہا جاتا ہے، چناچہ اس معنی میں اس کثرت سے استعمال کیا گیا کہ ہر اذیت رساں چیز کے بارے میں عرب اس کا استعمال کرنے لگے، ثعلث سے ابن عربی نے روایت کیا کہ افف جو کہ اف کی اصل ہے اس کے معنی جی گھٹنا، تنگ دل ہونا ہیں، زجاج نے اس کے معنی بدبو بتائے ہیں۔ (لغات القرآن)
قولہ : ہلاکت ویلک کی تفسیر ھلاکک سے کر کے اشارہ کردیا کہ ویلک اپنے ہم معنی فعل مقدر سے منصوب ہے اور وہ ھلک ہے، اس لئے کہ ویل کا فعل نہیں آتا اور معنی میں ھلکت کے ہے جو بظاہر بد دعا ہے مگر بد دعا مراد نہیں ہے بلکہ اظہار نا گواری اور تحریص علی الایمان ہے نہ کہ حقیقتاً ہلاکت، جیسے ماں اپنے بیٹے سے کہہ دیتی ہے، تو مرے ایسا مت کر، یا تیرا ستیاناس ہو ویلک کے معنی فارسی میں، وائے برتو، کے ہیں یعنی تیرے اوپر افسوس
قولہ : درجات کلام میں تغلیب ہے ورنہ تو جہنم کے درجات کو درکات کہا جاتا ہے۔
قولہ : یوم یعرض، یوم فعل مقدر، یقال لھم سے منصوب ہے۔
قولہ : اذھبتم اکثر کے نزدیک ایک ہمزہ کے ساتھ ہے یعنی ہمزہ استفہام کے بغیر اور دو ہمزوں کے ساتھ کہ دونوں محققہ ہوں اور ایک ہمزہ اور مد کے ساتھ یہ ہشام کے نزدیک ہے، دو ہمزوں کے ساتھ مگر دوسرے میں تسہیل بغیر مد کے یہ ابن کثیر کے نزدیک ہے۔
قولہ : بغیر حق یہ تستکبرون کی صفت کا شفہ ہے اس لئے تکبر ناحق ہی ہوتا ہے۔
تفسری و تشریح
شان نزول :
وقال الذین کفروا للذین امنوا ابن منذر نے عون بن ابی شداد سے روایت کیا ہے کہ عمر (رض) بن الخطاب کی زنیرہ نام کی ایک باندی تھی، جو حضرت عمر سے پہلے ایمان لائی تھی، حضرت عمر اس کے ایمان لانے پر اس کو زدو کو ب کرتے تھے، اور کفار کہا کرتے تھے کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت میں کوئی خیر ہوتی تو زنیرہ اس کو قبول کرنے میں ہم سے سبقت نہ کرتی، اسی واقعہ کے سلسلہ میں مذکورہ آیت نازل ہوئی۔ (روح المعانی) ابوالمتوکل نے کہا ہے کہ قریش نے یہ بات اس وقت کہی تھی کہ جب ابو ذر اور قبیلہ غفار ایمان لایا تھا اور ثعلبی نے کہا ہے کہ جب عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی ایمان لائے تھے تو یہود نے یہ بات کہی تھی، مگر اس صورت میں لازم آتا ہے کہ آیت مدنی ہو حالانکہ پوری سورت مکی ہے اسی وجہ سے، اس آیت کو مستثنیات میں شمار کیا ہے۔ (روح المعانی)
قریش کا عوام الناس کو بہکانے کا ہتھکنڈہ :
قریشی سردار عوام الناس کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف بہکانے اور دین حنیف سے برگشتہ کرنے کے لئے جو ہتھکنڈے اور تدابیر استعمال کرتے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اگر یہ قرآن برحق ہوتا اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت صحیح ہوتی تو قوم کے سردار اور شیوخ اور معززین آگے بڑھ کر اس کو قبول کرتے، آخر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ چند ناتجربہ کار لڑکے اور چند ادنیٰ درجہ کے غلام تو ایک بات کو مان لیں اور قوم کے بڑے بڑے لوگ جو دانا اور جہاندیدہ ہیں اور جن کی عقل و تدبیر پر قوم آج تک اعتماد کرتی رہی ہے اس کو رد کردیں، اس پر فریب استدلال سے وہ عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ اس نئی دعوت میں ضرور کچھ خرابی ہے اسی لئے تو قوم کے اکابر اس کو نہیں مان رہے ہیں لہٰذا تم لوگ بھی اس سے دور رہو۔
تکبر اور غرور، عقل کو بھی مسخ کردیتا ہے :
لو کان خیراً ماسبقونا الیہ متکبر آدمی اپنی عقل اور اپنے عمل کو معیار حسن و قبیح و خیر و شر سمجھنے لگتا ہے جو چیز اس کو پسند نہ ہو خواہ دوسرے لوگ اس کو کتنا ہی پسند کرتے ہوں یہ ان کو بیوقوف سمجھتا ہے، حالانکہ خود بیوقوف ہے کفار کے غرور وتکبر کا اس آیت میں بیان ہے کہ اسلام اور ایمان ان کو چونکہ پسند نہیں تھا تو دوسرے لوگ جو ایمان کے دلدادہ اور فریفتہ تھے ان کو یہ کہتے تھے کہ اگر یہ ایمان کوئی اچھی چیز ہوتی تو سب سے پہلے ہمیں پسند آتی ان غریبوں فقیروں مسکینوں اور غلاموں کی پسند کا کیا اعتبار۔
خلاصہ یہ کہ ان لوگوں نے خود کو حق و باطل کا معیار قرار دے رکھا ہے، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جس ہدایت کو وہ قبول نہ کریں وہ ضرور ضلالت اور گمراہی ہونی چاہیے لیکن یہ لوگ اس ہدایت کو نیا جھوٹ کہنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے بلکہ قدیم اور پرانا جھوٹ کہتے تھے، کیونکہ اس سے پہلے انبیاء (علیہم السلام) یہی پیش کرتے رہے ہیں۔ گویا ان کے نزدیک وہ سب لوگ بھی دانائی سے محروم تھے جو ہزاروں برس سے ان حقائق کو پیش کرتے اور مانتے چلے آرہے ہیں اور تمام دانائی صرف ان کے حصہ میں آگئی ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
حق کا انکار کرنے والے، اس سے عناد رکھنے والے اور اس کی دعوت کو ٹھکرانے والے کفار کہتے ہیں : ﴿ لَوْ كَانَ خَيْرًا مَّا سَبَقُونَا إِلَيْهِ ﴾ ” اگر یہ بہتر ہوتا تو یہ اس کی طرف ہم سے سبقت نہ لے جاتے۔“ یعنی مومنین ہم پر سبقت نہ لے جاسکتے، ہم اس بھلائی کی طرف سب سے پہلے آگے بڑھنے والے اور اس کی طرف سب سے زیادہ سبقت کرنے والے ہوتے۔ ان کا یہ قول ایک لحاظ سے باطل ہے۔۔۔ کون سی دلیل اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ حق کی علامت یہ ہے کہ اہل تکذیب اہل ایمان پر سبقت لے جائیں؟ کیا وہ زیادہ پاک نفس اور عقل و خرد میں زیادہ کامل ہیں؟ کیا ہدایت ان کے ہاتھ میں ہے؟ مگر یہ کلام جو ان سے صادر ہوا، جسے وہ اپنی طرف منسوب کرتے ہیں اس شخص کے کلام کی مانند ہے جو کسی چیز پر قدرت نہ رکھتا ہو اور وہ اس چیز کی مذمت کرنا شروع کر دے۔ اسی لئے فرمایا : ﴿ وَإِذْ لَمْ يَهْتَدُوا بِهِ فَسَيَقُولُونَ هَـٰذَا إِفْكٌ قَدِيمٌ ﴾ ” اور جب وہ اس سے ہدایت یاب نہ ہوئے تو اب کہتے ہیں کہ یہ پرانا جھوٹ ہے۔“ یہی وہ سبب ہے جس کی بنا پر انہوں نے اس قرآن سے راہ نمائی حاصل نہ کی اور یوں وہ عظیم ترین نوازشات اور جلیل ترین عطیات سے محروم ہوگئے۔ اسے جھوٹ کہہ کر اس میں جرح و قدح کی، حالانکہ یہ حق ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jinn logon ney kufr apna liya hai , woh emaan laney walon kay baaray mein yun kehtay hain kay : agar yeh ( emaan lana ) koi achi baat hoti to yeh log iss baaray mein hum say sabqat naa ley jasaktay . aur jab inn kafiron ney iss say khud hidayat hasil nahi ki to woh to yehi kahen gay kay yeh wohi puraney zamaney ka jhoot hai .