پس (اے منافقو!) تم سے توقع یہی ہے کہ اگر تم (قتال سے گریز کر کے بچ نکلو اور) حکومت حاصل کر لو تو تم زمین میں فساد ہی برپا کرو گے اور اپنے (ان) قرابتی رشتوں کو توڑ ڈالو گے (جن کے بارے میں اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مواصلت اور مُودّت کا حکم دیا ہے)،
English Sahih:
So would you perhaps, if you turned away, cause corruption on earth and sever your [ties of] relationship?
1 Abul A'ala Maududi
اب کیا تم لوگوں سے اِس کے سوا کچھ اور توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر تم الٹے منہ پھر گئے تو زمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹو گے؟
2 Ahmed Raza Khan
تو کیا تمہارے یہ لچھن نظر آتے ہیں کہ اگر تمہیں حکومت ملے تو زمین میں فساد پھیلاؤ اور اپنے رشتے کاٹ دو،
3 Ahmed Ali
پھر تم سے یہ بھی توقع ہے اگرتم ملک کے حاکم ہو جاؤ تو ملک میں فساد مچانے اور قطع رحمی کرنے لگو
4 Ahsanul Bayan
اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کردو (۱) اور رشتے ناتے توڑ ڈالو۔
۲۲۔۱ ایک دوسرے کو قتل کر کے یعنی اختیار واقتدار کا غلط استعمال کرو امام ابن کثیر نے تولیتم کا ترجمہ کیا ہے تم جہاد سے پھر جاؤ اور اس سے اعراض کرو یعنی تم پھر زمانہ جاہلیت کی طرف لوٹ جاؤ اور باہم خون ریزی اور قطع رحمی کرو اس میں فساد فی الارض کی عموما اور قطع رحمی کی خصوصا ممانعت اور اصلاح فی الارض اور صلہ رحمی کی تاکید ہے جس کا مطلب ہے کہ رشتے داروں کے ساتھ زبان سے عمل سے اور بذل اموال کے ذریعے سے اچھا سلوک کرو احادیث میں بھی اس کی بڑی تاکید اور فضلیت آئی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(اے منافقو!) تم سے عجب نہیں کہ اگر تم حاکم ہو جاؤ تو ملک میں خرابی کرنے لگو اور اپنے رشتوں کو توڑ ڈالو
6 Muhammad Junagarhi
اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کر دو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو
7 Muhammad Hussain Najafi
پھرتم سے یہی توقع ہے کہ اگر تم حاکم بن جاؤ (تمہیں اقتدار مل جائے) تو تم زمین میں فساد برپا کرو۔اور اپنی قرابتوں کو قطع کرو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
تو کیا تم سے کچھ بعید ہے کہ تم صاحبِ اقتدار بن جاؤ تو زمین میں فساد برپا کرو اور قرابتداروں سے قطع تعلقات کرلو
9 Tafsir Jalalayn
(اے منافقو ! ) تم سے عجب نہیں کہ اگر تم حاکم ہوجاؤ تو ملک میں خرابی کرنے لگو اور اپنے رشتوں کو توڑ ڈالو فھل عسیتم ان تولیتم ان تفسدوا فی الارض (الآیۃ) تولی کے لغت کے اعتبار سے دو معنی ہوسکتے ہیں، ایک اعراض اور دوسرے کسی قوم و جماعت پر اقتدار و حکمت، اس آیت میں بعض حضرات نے پہلے معنی لئے ہیں، اس معنی کے اعتبار سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے احکام شرعیہ الٰہیہ سے روگردانی کی جس میں حکم جہاد بھی شامل ہے تو اس کا اثر یہ ہوگا کہ تم جاہلیت کے قدیم طریقوں پر پڑ جائو گے، جس کا لازمی نتیجہ زمین میں فساد اور قطع رحمی ہے۔ روح المعانی اور قرطبی نے اس جگہ تولی کے دوسرے معنی یعنی حکومت اور امارت کے لئے ہیں تو مطلب آیت کا یہ ہوگا کہ تمہارے حالات جس کا ذکر اوپر آچکا ہے ان کا تقاضا یہ ہے کہ اگر تمہاری مراد پوری ہو یعنی اس حالت میں تمہیں ملک و قوم کی ولایت اور اقتدار حاصل ہوجائے تو نتیجہ اس کے سوا نہیں ہوگا کہ تم زمین برپا کرو گے اور رشتوں اور قرابتوں کو توڑ ڈالو گے۔ (معارف) صلہ رحمی کی سخت تاکید : ارحام، رحم کی جمع ہے بچہ دانی کو کہتے ہیں، چونکہ عام رشتوں، قرابتوں کی بنیاد رحم ہی سے چلتی ہے اس لئے عرف اور محاورہ میں رحم رشتہ داری اور ذوی الارحام رشتہ داروں کو کہتے ہیں، اسلام نے رشتہ داری اور قرابت کے حقوق ادا کرنے کی بڑی تاکید فرمائی ہے۔ ذیل میں چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں۔ حدیث (١) : صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ (رض) اور دیگر دو اصحاب (رض) سے اس مضمون کی حدیث نقل کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو شخص صلہ رحمی کرے گا اللہ اس کو اپنے قریب کریں گے اور جو قطع رحمی کرے گا اللہ اس کو قطع کردیں گے۔ حدیث (٢): ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ کوئی ایسا گناہ کہ جس کی سزا اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی دیتا ہے اور آخرت اس کی میں اس کے علاوہ ہو ظلم اور قطع رحمی کے برابر نہیں۔ (رواہ ابودائود، والترمذی، ابن کثیر) حدیث (٣): حضرت ثوبان (رض) سے مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص چاہتا ہے کہ اس کی عمر زیادہ اور رزق میں برکت ہو اس کو چاہیے کہ صلہ رحمی کرے یعنی رشتہ داروں کے ساتھ احسان کا معاملہ کرے، احادیث صحیحہ میں بھی ہے کہ حق قرابت کے معاملہ میں دوسری طرف سے برابری کا خیال نہ کرنا چاہیے اگر دوسرا بھائی قطع تعلق اور ناروا سلوک بھی کرتا ہے تب بھی تمہیں حسن سلوک کا معاملہ کرنا چاہیے، صحیح بخاری میں ہے کہ وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا نہیں جو صرف برابر کا بدلہ دے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب دوسری طرف سے قطع تعلق کا معاملہ کیا جائے تو یہ ملانے اور جوڑنے کا کام کرے۔ (ابن کثیر) حضرت عمر (رض) نے ھل عسیتم الخ سے استدلال کر کے ام ولد کی فروخت کی ممانعت فرمائی تھی، حاکم نے مستدرک میں حضرت بریدہ سے روایت نقل کی ہے کہ ایک روز میں حضرت عمر کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا، کہ یکایک محلہ میں شور مچنے لگا، دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک لوڈی فروخت کی جا رہی ہے اور اس کی لڑکی رو رہی ہے، حضرت عمر نے اسی وقت انصار اور مہاجرین کو جمع کیا اور ان سے پوچھا کہ دین اسلام میں کیا قطع رحمی کا بھی کوئی جواز ہے ؟ سب نے کہا نہیں، تو آپ نے فرمایا پھر یہ کیا ہو رہا ہے، ماں سے بیٹی کو جدا کیا جا رہا ہے، اس سے بڑی قطع رحمی اور کیا ہوسکتی ہے، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی اور پورے ملک میں ام ولد کے فروخت کی ممانعت فرما دی۔
10 Tafsir as-Saadi
پھر اللہ تعالیٰ اس شخص کا ذکر فرماتا ہے جو اپنے رب کی اطاعت سے منہ توڑتا ہے، خیر کی طرف آنے کی بجائے شر کی طرف بھاگتا ہے۔ لہٰذا فرمایا : ﴿ فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ ﴾ ” اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کردو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو“ یعنی یہ دو امور ہیں یا تو اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر التزام ور اس کے اوامر کے سامنے سرتسلیم خم کرنا، پس وہاں بھلائی، ہدایت اور فلاح ہے یا اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے روگردانی اور اس سے اعراض کرنا، تب اس صورت حال میں فساد فی الارض، معصیت پر عمل اور قطع رحمی کے سوا کچھ نہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
phir agar tum ney ( jihad say ) mun morra to tum say kiya tawaqqo rakhi jaye-? yehi kay tum zameen mein fasad machao , aur apney khooni rishtay kaat daalo !