محمد آية ۲۹
اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ فِىْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ اَنْ لَّنْ يُّخْرِجَ اللّٰهُ اَضْغَانَهُمْ
طاہر القادری:
کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں (نفاق کی) بیماری ہے یہ گمان کرتے ہیں کہ اﷲ ان کے کینوں اور عداوتوں کو ہرگز ظاہر نہ فرمائے گا،
English Sahih:
Or do those in whose hearts is disease think that Allah would never expose their [feelings of] hatred?
1 Abul A'ala Maududi
کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ اللہ ان کے دلوں کے کھوٹ ظاہر نہیں کرے گا؟
2 Ahmed Raza Khan
کیا جن کے دلوں میں بیماری ہے اس گھمنڈ میں ہیں کہ اللہ ان کے چھپے بَیر ظاہر نہ فرمائے گا
3 Ahmed Ali
کیا وہ لوگ کہ جن کے دلوں میں مرض (نفاق) ہے یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ الله ان کی دبی دشمنی ظاہر نہ کرے گا
4 Ahsanul Bayan
کیا ان لوگوں نے جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اللہ ان کے حسد اور کینوں کو ظاہر ہی نہ کر دے (١)،
٢٩۔١ منافقین کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بغض و عناد تھا، اس کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ کیا یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالٰی اسے ظاہر کرنے پر قادر نہیں ہے؟
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ خدا ان کے کینوں کو ظاہر نہیں کرے گا؟
6 Muhammad Junagarhi
کیا ان لوگوں نے جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اللہ ان کے کینوں کو ﻇاہر نہ کرے گا
7 Muhammad Hussain Najafi
کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ کبھی ان کے (سینوں کے) کینوں کو ظاہر نہیں کرے گا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا جن لوگوں کے دلوں میں بیماری پائی جاتی ہے ان کا خیال یہ ہے کہ خدا ان کے دلوں کے کینوں کو باہر نہیں لائے گا
9 Tafsir Jalalayn
کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ خدا ان کے کینوں کو ظاہر نہیں کرے گا
ترجمہ :۔ کیا ان لوگوں نے جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اللہ ان کی نبی سے اور مومنین سے دلی عداوتوں کو ظاہر نہ کرے گا اور اگر ہم چاہتے تو ان سب کو آپ کو دکھا دیتے (یعنی) ان سب کی آپ کو شناخت کرا دیتے، اور لام فلعرفتھم میں مکرر لایا گیا ہے سو آپ ان کے چہروں کی علامتوں ہی سے پہچان لیتے اور یقینا آپ ان کو طرز گفتگو سے پہچان لیں گے، وائو، قسم محذوف کے لئے ہے اور اس کا مابعد جواب قسم ہے، مطلب یہ ہے کہ جب وہ آپ سے گفتگو کرتے ہیں تو اس طرقہ سے تعریض کرتے ہیں کہ جس میں مسملانوں کے بارے میں تحقیر ہوتی ہے تمہارے سب کام اللہ کو معلوم ہیں اور یقینا ہم تم سب کی جانچ کریں گے، یعنی جہاد وغیرہ کے ذریعہت مہارا امتحان لیں گے، تاکہ تم میں سے مجاہدین کو اور جہاد وغیرہ میں ثابت قدم رہنے والوں کو جان لیں یعنی ظاہر کردیں اور جہاد وغیرہ میں تمہاری نافرمانی اور فرمانبرداری کی حالت کو جانچ لیں، تینوں افعال، یاء اور نون کے ساتھ ہیں یقینا جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کے راستہ یعنی راہ حق سے لوگوں کو روکا اور رسول کی مخالفت کی، اس کے بعد کہ ان کے لئے ہدایت ظاہر ہوچکی، سبیل اللہ کے یہی معنی ہیں، یہ ہرگز اللہ کا کچھ نقصان نہ کریں گے، عنقریب وہ ان کے اعمال کو غارت کر دے گا (یعنی) ان کے صدقہ وغیرہ کو باطل کر دے گا، تو وہ آخرت میں ان کا کوئی ثواب نہ دیکھیں گے (مذکورہ آیت) اصحاب بدریا (بنی) قریظہ اور (بنی) نضیر کے کھانا کھلانے والوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کا کہنا مانو اور اپنے اعمال کو معاصی کے ذریعہ مثلاً باطل نہ کرو جن لوگوں نے کفر کیا اور دورسوں کو اللہ کے راستہ سے کہ وہ ہدایت کا راستہ ہے روکا پھر وہ کفر کی حالت ہی میں مرگئے، یقین مانو اللہ ان کو ہرگز نہ بخشے گا (مذکورہ آیت) بدر کے کنوئیں والوں کے بارے میں نازل ہوئی، پس اے مسلمانو ! ہمت مت ہارو، اور صلح کی درخواست نہ کرو (السلم) میں سین کے فتحہ اور کسرہ کے ساتھ، یعنی جب تمہارا کفار سے مقابلہ ہو تو صلح کی درخواست نہ کرو اور تم ہی غالب رہو گے اور (الاعلون) سے وائو کو ج کہ لام فعل ہے حذف کردیا گیا ہے یعنی تم ہی غالب اور قاہر رہو گے، نصرت اور مدد کے ساتھ اللہ تمہارے ساتھ ہے وہ تمہارے اعمال یعنی ان کے ثواب کو کم نہیں کرے گا واقعی دنیا کی زندگانی یعنی اس میں مغشول رہنا تو صرف کھیل کود ہے اور اگر تم ایمان لے آئو گے اور اللہ کے لئے تقویٰ اختیار کرو گے اور یہ آخرت کے امور میں سے ہے تو وہ تم کو تمہارے اعمال کا اجر دے گا، وہ تم سے تمہارا تمام مال نہیں مانگتا، بلکہ اس میں سے زکوۃ کی فرض مقدار مانگتا ہے اگر وہ تم سے تمہارا سارا مال طلب کرے اور سب کا سب مانگ لے (یعن) اس کی طلب میں مبالغہ کرے تو تم اس سے بخیلی کرنے لگو گے اور بخل دین اسلام کے لئے تمہاری ناگواری کو ظاہر کر دے، ہاں تم لوگ ایسے ہو کہ تم کو اللہ کی راہ میں وہ مقدار خرچ کرنے کے لئے بلایا جاتا ہے جو تمہارے اوپر فرض ہے بعض تم میں سے وہ ہیں جو بخل کرتے ہیں اور جو شخص بخل کرتا ہے وہ اپنے سے بخل کرتا ہے کہا جاتا ہے بخل علیہ وعنہ اللہ تو تمہارے خرچ کرنے سے مستغنی ہے اور تم اس کے محتاج ہو اور اگر تم اس کی اطاعت سے روگردانی کرو گے تو خدا تعالیٰ تمہاری جگہ دوسری قوم پیدا کر دے گا یعنی تمہاری جگہ کر دے گا، پھر وہ اطاعت سے روگردانی کرنے میں تم جیسے نہ ہوں گے بلکہ اللہ عزو جل کے اطاعت گزار ہوں گے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ام حسبت الذین الخ ام منقطعہ ہے ای بل احسب المنافقون الذین اپنے صلہ موجود فی قلوبھم مرض سے مل کر، حسب کا فاعل ان لن یخرج اللہ اضانھم حسب کے دو مفعولوں کے قائم مقام ہے، ان مخففہ عن المثقلہ ہے، ضمیر شان اس کا اسم مجذوف ہے، ای انہ اس کا مابعد جملہ ہو کر ان کی خبر ہے۔
قولہ : اضغان، اصغان، ضغن کی جمع ہے، کینہ، عداوت۔
قولہ : لارینکھم یہاں رویت سے رویت بصری مراد ہے اسی وجہ سے متعدی بدومفعول ہے اگر رویت قلبی مراد ہوتی تو متعدی بسہ مفعول ہوتا کھم، ارینا کے دو مفعول ہیں (اعراب القرآن) بعض حضرات نے رویۃ علمیہ بھی مراد لی ہے، مفسر علام نے ارینا کی تفسیر عرفنا سے کر کے اسی کی طرف اشارہ کیا ہے اور معرفت سے ایسی معرفت مراد ہے کہ جو کالمشاہد (چشم دید) جیسی ہو۔
قولہ : لارینکھم لو کا جواب ہے فلعرفتھم کا جواب لو پر عطف ہے لامت اکید کے لئے مکرر ہے، فاء عاطفہ ہے۔
قولہ : ولتعرفنھم لام قسم محذوف کے جواب پر داخل ہے۔
قولہ : لحن القول لحن کے دو معنی ہیں (١) خطاء فی الاعراب (٢) خطاء فی الکام، لحن فی الکلام یہ ہے کہ ظاہر کلام تعظیم پر اور باطن کلام تحقیر پر دلالت کرتا ہو اور متکلم باطن کلام مراد لے رہا ہو یا کلمہ کو اس طرح ادا کرنا کہ اس کے معنی بدل جائیں اور تعظیم کے بجائے تحقیر کے معنی پیدا ہوجائیں، جیسے منافقین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب کرتے ہوئے راعنا کے بجائے راعینا کہا کرتے تھے، راعنا کے معنی ہیں ہماری رعایت کیجیے اور راعینا کے معنی ہیں ہمارا چرواہا، یا السلام علیکم کے بجائے السام علیکم کہا کرتے تھے (یعنی تیرے اوپر موت ہو، تو ہلاک ہو)
قولہ : فی الفعال الثلاث یہ تین ضیع افعال (١) ولیبلونکم (٢) یعلم (٣) یبلو ہیں، ان تینوں افعال میں واحد غائب اور جمع متکلم دونوں قراءتیں ہیں۔
قولہ : شاقوا ماضی جمع مذکر غائب، انہوں نے مخالفت کی یہ مشاقۃ اور شقاق سے مشتق ہے۔
قولہ : سیحبط اعمالھم، حبط اعمال سے مراد آخرت میں ان کے اجر کو ختم کردینا ہے، اور اعمال سے وہ اعمال مراد ہیں جو عرف عام میں اعمال خیر سمجھے جاتے ہیں، مثلاً صلہ رحمی، غریبوں، مسکینوں، مسافروں کی مدد کرنا، بھوکوں کو کھانا کھلانا وغیرہ۔
قولہ : انزلت فی المطعمین یہاں مطمعین سے وہ مشرکین مکہ مراد ہیں جنہوں نے غزوہ بدر کے موقع پر لشکر کفار کے کھانے کا اپنی اپنی طرف سے نظم کیا تھا۔
قولہ : اصحاب القلیب ” قلیب “ میدان بدر میں ایک کنوئیں کا نام ہے جس میں مقتولین مشرکین کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ڈلوا دیا تھا۔
قولہ : فلاتھنوا تم ہمت نہ ہارو، پست ہمت نہ ہو، فاء جواب شرط پر داخل ہے شرط محذوف ہے، تقدیر عبارت یہ ہے اذا تبین لکم بالدلالۃ القطعیۃ عزالاسلام وذل الکفر فی الدنیا والآخرۃ فلاتھنوا۔
قولہ : وانتم الاعلون وائو حالیہ ہے جملہ حال ہونے کی وجہ سے محل میں نصب کے ہے ای وانتم الغالبون بالسیف والحجۃ آخر الامر اعلون اصل میں اعلوون تھا، پہلا وائو لام فعل ہے اور دوسرا وائو جمع کا ہے، اول وائو متحرک اس کا ماقبل مفتوح ہونے کی وجہ سے الف سے بدل گیا، الف التقاء ساکنین کی وجہ سے ساقط ہوگیا، اعلون، اغلبون القاھرون کے عنی میں اور بعض نسخوں میں قاھرون کے بجائے الظاہرون ہے۔
قولہ : واللہ معکم یہ بھی جملہ حالیہ ہے۔
قولہ : یتر وتریتر (ض) کم کرنا۔
قولہ : یفحفکم احفاء سے کسی کام میں مبالغہ کرنا جڑ سے اکھاڑ پھینکنا، اسی سے احفاء الشارب ہے، مونچھوں کو اچھی طرح صاف کرنا، یہاں طلب میں مبالغہ کرنا مراد ہے۔
قولہ : ھا انتم، ھاحرف تنبیہ اور انتم مبتداء ہے اور ھولاء منادی ہے، حرف نداء محذوف ہے جس کو مفسر علام نے ظاہر کردیا ہے، تدعون خبر، جملہ ندائیہ مبتداء خبر کے درمیان جملہ معترضہ ہے۔
قولہ : یقال بخل علیہ وعنہ اس عبارت کا مقصد یہ بتانا ہے کہ بخل اگر شح (حرص) کے معنی کو متضمن ہوت و متعدی بعلی ہوتا ہے اور جب امسک کے عنی کو متضمن ہوتا ہے تو متعدی بعن ہوتا ہے۔
تفسیر و تشریع
ام حسب الذین فی قلوبھم (الآیۃ) اصغان ضغن کی جمع ہے جس کے معنی حسد، کینہ، بغض، مخفی عداوت کے ہیں، منافقوں کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بغض وعناد تھا، اسی حوالہ سے کہا جا رہا ہے کہ یہ منافقین کیا سمجھتے ہیں کہ اللہ ان کے مخفی کینہ، بغض و عداوت کو ظاہر کرنے پر اقدر نہیں ہے ؟ آگے فرمایا کہ ہم تو اس پر بھی قادر ہیں کہ ایک ایک شخص کی اس طرح نشاندہی کردیں کہ ہر منافق کو عباناً پہچان لیا جائے لیکن تمام منافقین کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایسا اس لئے نہیں کیا کہ یہ اللہ کی صفت ستاری کے خلاف ہے وہ بالعموم پردہ پوشی فرماتا یہ، پردہ دری نہیں، دوسرا یہ کہ اس نے انسان کے ظاہر پر فیصلہ کرنے کا اور باطن کا معاملہ اللہ کے سپرد کرنے کا حکم دیا ہے، البتہ ان کا لہجہ اور انداز گفتگو ہی ایسا ہوتا ہے جو ان کے باطن کا غماز ہوتا ہے، جس سے پیغمبر تو ان کو یقینا پہچان سکتا ہے، یہ عام مشاہدے میں آنے والی بات ہے کہ انسان کے دل میں جو کچھ ہوتا ہے وہ اسے لاکھ چھپائے مگر اس کی گفتگو، حرات و سکنات اور بعض مخصوص کیفیات اس کے دل کے راز کو آشکارا کردیتی ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ ﴾ ” کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض ہے انہوں نے خیال کیا ہے۔“ یعنی وہ جن کے دلوں میں کوئی ایسا شبہ یا خواہش ہے جو قلب کو صحت اور اعتدال کی حالت سے خارج کردیتا ہے کہ ان کے دلوں میں اسلام اور اہل اسلام کے لئے جو کینہ اور عداوت ہے اللہ اسے ظاہر نہیں کرے گا؟ یہ ایسا گمان ہے جو اللہ تعالیٰ کی حکمت کے لائق نہیں اور یہ ضروری ہے کہ وہ جھوٹے میں سے سچے کو واضح کرے اور یہ چیز آزمائش اور امتحان سے ثابت ہوتی ہے۔ جو کوئی اس امتحان میں پورا اترا اور اس کا ایمان ثابت رہا وہی حقیق مومن ہے اور جس کو اس امتحان و ابتلاء نے الٹے پاؤں پھیر دیا اور اس نے اس پر صبر نہ کیا اور جب اس پر امتحان آیا تو اس نے جزع فزع کیا اور اس کا ایمان کمزور ہوگیا۔ اس کے دل میں جو بغض اور کینہ تھا ظاہر ہوگیا اور یوں اس کا نفاق ظاہر ہوگیا۔ یہ حکمت الٰہیہ کا تقاضا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
jinn logon kay dilon mein ( nifaq ka ) rog hai , kiya woh yeh samajhtay hain kay unn kay chupay huye keenon ko Allah kabhi zahir nahi keray ga-?
12 Tafsir Ibn Kathir
منافق کو اس کے چہرے کی زبان سے پہچانو
یعنی کیا منافقوں کا خیال ہے کہ ان کی مکاری اور عیاری کا اظہار اللہ مسلمانوں پر کرے گا ہی نہیں ؟ یہ بالکل غلط خیال ہے اللہ تعالیٰ ان کا مکر اس طرح واضح کر دے گا کہ ہر عقلمند انہیں پہچان لے اور ان کی بد باطنی سے بچ سکے۔ ان کے بہت سے احوال سورة براۃ میں بیان کئے گئے اور ان کے نفاق کی بہت سی خصلتوں کا ذکر وہاں کیا گیا۔ یہاں تک کہ اس سورت کا دوسرا نام ہی فاضحہ رکھ دیا گیا یعنی منافقوں کو فضیحت کرنے والی۔ (اضغان) جمے ہے (ضغن) کی ضغن کہتے ہیں دلی حسد و بغض کو۔ اس کے بعد اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ اے نبی اگر ہم چاہیں تو ان کے وجود تمہیں دکھا دیں پس تم انہیں کھلم کھلا جان جاؤ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا ان تمام منافقوں کو بتا نہیں دیا تاکہ اس کی مخلوق پر پردہ پڑا رہے ان کے عیوب پوشیدہ رہیں، اور باطنی حساب اسی ظاہر و باطن جاننے والے کے ہاتھ رہے لیکن ہاں تم ان کی بات چیت کے طرز اور کلام کے ڈھنگ سے ہی انہیں پہچان لو گے۔ امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان فرماتے ہیں جو شخص کسی پوشیدگی کو چھپاتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کے چہرے پر اور اس کی زبان پر ظاہر کردیتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے جو شخص کسی راز کو پردہ میں رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس پر عیاں کردیتا ہے وہ بہتر ہے تو اور بدتر ہے تو۔ ہم نے شرح صحیح بخاری کے شروع میں عملی اور اعتقادی نفاق کا بیان پوری طرح کردیا ہے جس کے دوہرانے کی یہاں ضرورت نہیں۔ حدیث میں منافقوں کی ایک جماعت کی (تعیین) آچکی ہے۔ مسند احمد میں ہے " رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ایک خطبے میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا تم میں بعض لوگ منافق ہیں پس جس کا میں نام لوں وہ کھڑا ہوجائے۔ اے فلاں کھڑا ہوجا، یہاں تک کہ چھتیس اشخاص کے نام لئے۔ پھر فرمایا " تم میں " یا " تم میں سے " منافق ہیں، پس اللہ سے ڈرو۔ اس کے بعد ان لوگوں میں سے ایک کے سامنے حضرت عمر گذرے وہ اس وقت کپڑے میں اپنا منہ لپیٹے ہوا تھا۔ آپ اسے خوب جانتے تھے پوچھا کہ کیا ہے ؟ اس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اوپر والی حدیث بیان کی تو آپ نے فرمایا اللہ تجھے غارت کرے۔ پھر فرمایا ہے ہم حکم احکام دے کر روک ٹوک کر کے تمہیں خود آزما کر معلوم کرلیں گے کہ تم میں سے مجاہد کون ہیں ؟ اور صبر کرنیوالے کون ہیں ؟ اور ہم تمہارے احوال آزمائیں گے۔ یہ تو ہر مسلمان جانتا ہے کہ ظاہر ہونے سے پہلے ہی اس علام الغیوب کو ہر چیز، ہر شخص اور اس کے اعمال معلوم ہیں تو یہاں مطلب یہ ہے کہ دنیا کے سامنے کھول دے اور اس حال کو دیکھ لے اور دکھا دے اسی لئے حضرت ابن عباس اس جیسے مواقع پر (لنعلم) کے معنی کرتے تھے (لنری) یعنی تاکہ ہم دیکھ لیں۔