(اے مومنو!) پس تم ہمت نہ ہارو اور ان (متحارب کافروں) سے صلح کی درخواست نہ کرو (کہیں تمہاری کمزوری ظاہر نہ ہو)، اور تم ہی غالب رہو گے، اور اﷲ تمہارے ساتھ ہے اور وہ تمہارے اعمال (کا ثواب) ہرگز کم نہ کرے گا،
English Sahih:
So do not weaken and call for peace while you are superior; and Allah is with you and will never deprive you of [the reward of] your deeds.
1 Abul A'ala Maududi
پس تم بودے نہ بنو اور صلح کی درخواست نہ کرو تم ہی غالب رہنے والے ہو اللہ تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے اعمال کو وہ ہرگز ضائع نہ کرے گا
2 Ahmed Raza Khan
تو تم سستی نہ کرو اور آپ صلح کی طرف نہ بلاؤ اور تم ہی غالب آؤ گے، اور اللہ تمہارے ساتھ ہے اور وہ ہرگز تمہارے اعمال میں تمہیں نقصان نہ دے گا
3 Ahmed Ali
پس تم سست نہ ہو اور نہ صلح کی طرف بلاؤ اور تم ہی غالب رہو گے اور الله تمہارے ساتھ ہے اور وہ ہر گز تمہارےاعمال میں نقصان نہیں دیگا
4 Ahsanul Bayan
پس تم بودے بن کر صلح کی درخواست پر نہ اتر آؤ جبکہ تم ہی بلند و غالب رہو گے (۱) اور اللہ تمہارے ساتھ ہے (۲) ناممکن ہے کہ وہ تمہارے اعمال ضائع کر دے (۳)۔
۳۵۔۱ مطلب یہ ہے کہ جب تم تعداد اور قوت وطاقت کے اعتبار سے دشمن پر غالب اور فائق تر ہو تو ایسی صورت میں کفار کے ساتھ صلح اور کمزوری کا مظاہرہ مت کرو بلکہ کفر پر ایسی کاری ضرب لگاؤ کہ اللہ کا دین سر بلند ہو جائے غالب و برتر ہوتے ہوئے کفر کے ساتھ مصالحت کا مطلب کفر کے اثر ونفوذ کے بڑھانے میں مدد دینا ہے یہ ایک بڑا جرم ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کافرورں کے ساتھ صلح کرنے کی اجازت نہیں ہے یہ اجازت یقینا ہے لیکن ہر وقت نہیں صرف اس وقت ہے جب مسلمان تعداد میں کم اور وسائل کے لحاظ سے فروتر ہوں ایسے حالات میں لڑائی کی بہ نسبت صلح میں زیادہ فائدہ ہے تاکہ مسلمان اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر بھرپور تیاری کرلیں جیسے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار مکہ سے جنگ نہ کرنے کا دس سالہ معاہدہ کیا تھا ۔ ٣٥۔۲ اس میں مسلمانوں کے لئے دشمن پر فتح و نصرت کی عظیم بشارت ہے۔ جس کے ساتھ اللہ ہو، اس کو کون شکست دے سکتا ہے۔ ٣٥۔٢ بلکہ وہ اس پر پورا اجر دے گا اور اس میں کوئی کمی نہیں کرے گا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
تو تم ہمت نہ ہارو اور (دشمنوں کو) صلح کی طرف نہ بلاؤ۔ اور تم تو غالب ہو۔ اور خدا تمہارے ساتھ ہے وہ ہرگز تمہارے اعمال کو کم (اور گم) نہیں کرے گا
6 Muhammad Junagarhi
پس تم بودے بن کر صلح کی درخواست پر نہ اتر آؤ جبکہ تم ہی بلند وغالب رہو گے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے، ناممکن ہے کہ وه تمہارے اعمال ضائع کر دے
7 Muhammad Hussain Najafi
پس تم کمزور نہ پڑو (اور ہمت نہ ہارو) اور (دشمن کو) صلح کی دعوت نہ دو حالانکہ تم ہی غالب رہو گے اور اللہ تمہارے اعمال (کے ثوا ب) میں ہرگز کمی نہیں کرے گا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
لہٰذا تم ہمت نہ ہارو اور دشمن کو صلح کی دعوت نہ دو اور تم سربلند ہو اور اللہ تمہارے ساتھ ہے اور وہ ہرگز تمہارے اعمال کے ثواب کو کم نہیں کرے گا
9 Tafsir Jalalayn
تو تم ہمت نہ ہارو اور (دشمنوں کو) صلح کی طرف نہ بلاؤ اور تم تو غالب ہو اور خدا تمہارے ساتھ ہے وہ ہرگز تمہارے اعمال کو کم (اور گم) نہیں کرے گا فلاتھنوا وتدعوا الی السلم اس آیت میں کفار کو صلح کی دعوت دینے کی ممانعت کی گئی ہے اور قرآن کریم میں دوسری جگہ فرمایا گیا ہے وان جنحوا للسلم فاجنع لھا یعنی اگر کفار صلح کی جانب مائل ہوں تو آپ بھی مائل ہوجایئے، اس سے صلح کی اجازت معلوم ہوتی ہے، اس لئے بعض حضرات نے فرمایا کہ اجازت اس شرط کے ساتھ ہے کہ کفار کی جانب سے صلح جوئی کی ابتداء ہو اور اس آیت میں جو ممانعت آئی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے صلح جوئی کی ابتداء کی جائے، اس لئے ان دونوں آیتوں میں کوئی تعارض نہیں ہے، مگر صحیح یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے ابتداء صلح کرلینا بھی جائز ہے جبکہ اس میں مسلمانوں کی مصلحت ہو، محض بزدلی اور عیش کوشی اس کا سبب نہ ہو، اور اسی آیت میں فلاھنوا کہہ کر اسی بات کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔ (معارف) یہاں یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ یہ ارشاد اس زمانہ میں فرمایا گیا کہ جب مدینہ کی چھوٹی سی بستی میں چند سو مہاجرین و انصار کی ایک مٹھی بھر جمعیت اسلام کی علم برداری کر رہی تھی، اور اس کا مقابلہ محض قریش کے طاقتور قبیلہ ہی سے نہیں بلکہ پورے ملک کے کفار و مشرکین سے تھا، اس حالت میں فرمایا جا رہا ہے کہ ہمت ہار کر ان دشمنوں سے صلح کی درخواست نہ کرنے لگو، اس ارشاد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کو کبھی صلح کی بات چیت کرنی ہی نہیں چاہیے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ایسی صورت میں صلح کی سلسلہ جنبانی کرنا درست نہیں ہے جب اس کے معنی اپنی کمزوری کے اظہار کے ہوں اور اس سے دشمن اور زیادہ دلیر ہوجائیں، مسلمانوں کو پہلے اپنی طاقت کا لوہا منوا لنیا چاہیے، اس کے بعد اگر صلح کی بات چیت کریں تو کوئی حرج نہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ فَلَا تَهِنُوا﴾ یعنی اپنے دشمن کے ساتھ قتال کرنے میں کمزوری نہ دکھاؤ اور تم پر خوف غالب نہ آئے، بلکہ صبر کرو اور ثابت قدم رہو اپنے رب کی رضا، اسلام کی خیر خواہی اور شیطان کو ناراض کرنے کے لئے اپنے نفس کو قتال اور جانفشانی پر آمادہ کرو اور محض آرام حاصل کرنے کے لئے تم دشمن کو امن اور صلح کی دعوت نہ دو۔ ﴿وَ﴾ ” اور“ حالانکہ ﴿ أَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ وَاللَّـهُ مَعَكُمْ وَلَن يَتِرَكُمْ﴾ ” تم ہی غالب رہو گے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے اور وہ کمی نہیں کرے گا ” ﴿أَعْمَالَكُمْ﴾ ” تمہارے اعمال میں۔ “ یہ تین امور، ان میں سے ہر ایک صبر اور عدم ضعف کا تقاضا کرتا ہے۔ (1) ان کا غالب آنا، یعنی ان کے لئے فتح و نصرت کے وافر اسباب مہیا کردئیے گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے ساتھ سچا وعدہ کیا گیا ہے۔ انسان صرف اس وقت کمزور ہوتا ہے جب وہ مخالفین کی نسبت کمتر تعداد، سازوسامان اور داخلی اور خارجی قوت کے اعتبار سے ان کی نسبت کمزور ہو۔ (2) اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے، کیونکہ وہ مومن ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی نصرت اور تائید کے ذریعے سے اہل ایمان کے ساتھ ہے۔ یہ چیز ان کے دلوں کو طاقت اور قوت عطا کرنے اور دشمن کے خلاف اقدام کرنے کی موجب ہے۔ (3) اللہ تعالیٰ ان کے اعمال میں کچھ کمی نہیں کرے گا بلکہ انہیں پورا پورا اجر عطا کرے گا اور اپنے فضل سے ان کو اور زیادہ عطا کرے گا۔ خاص طور پر جہاد کی عبادت میں، کیونکہ جہاد میں خرچ کیے ہوئے مال کا اجر سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ ذٰلِكَ بِأَنَّهُمْ لَا يُصِيبُهُمْ ظَمَأٌ وَلَا نَصَبٌ وَلَا مَخْمَصَةٌ فِي سَبِيلِ اللّٰـهِ وَلَا يَطَئُونَ مَوْطِئًا يَغِيظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَّيْلًا إِلَّا كُتِبَ لَهُم بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ إِنَّ اللّٰـهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ وَلَا يُنفِقُونَ نَفَقَةً صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً وَلَا يَقْطَعُونَ وَادِيًا إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ لِيَجْزِيَهُمُ اللّٰـهُ أَحْسَنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ (التوبۃ: 9؍120۔ 121) ” یہ اس سبب سے ہے کہ انہیں اللہ کے راستے میں جو بھی تکلیف پہنچتی ہے، پیاس، تھکاوٹ یا بھوک کی تکلیف، یا وہ ایسی جگہ چلتے ہیں جس سے کفار کو غصہ آئے، یا دشمنوں سے کچھ حاصل کرتے ہیں تو اس کے بدلے ان کے لئے ایک نیک عمل لکھ لیا جاتا ہے۔ بے شک ا للہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا اور جو تھوڑا یا بہت خرچ کرتے ہیں، یا کوئی وادی طے کرتے ہیں تو سب کچھ ان کے لئے لکھ لیا جاتا ہے تاکہ اللہ ان کو ان کے اعمال کی بہترین جزا دے۔ “ جب انسان کو اس حقیقت کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے عمل اور جہاد کے اجر کو ضائع نہیں کرے گا تو یہ چیز اس کے لئے نشاط اور ان امور میں کوشش کرنے کی موجب بنتی ہے جن پر اجرو ثواب مترتب ہوتے ہیں۔ تب کیسی کیفیت ہوگی اگر یہ تینوں مذکورہ امور مجمتع ہوں؟ بلاشبہ یہ چیز نشاط کامل کی موجب ہے یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے لئے ترغیب اور ایسے امور کے لئے ان میں نشاط اور قوت پیدا کرنا ہے جن میں ان کی بھلائی اور فلاح ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
lehaza ( aey musalmano ! ) tum kamzor parr ker sulah ki dawat naa do , tum hi sarbuland raho gay , Allah tumharay sath hai , aur woh tumharay aemal ko hergiz barbad nahi keray ga .