محمد آية ۴
فَاِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ ۗ حَتّٰۤى اِذَاۤ اَثْخَنْتُمُوْهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ ۖ فَاِمَّا مَنًّۢا بَعْدُ وَاِمَّا فِدَاۤءً حَتّٰى تَضَعَ الْحَـرْبُ اَوْزَارَهَا ۛ ذٰلِكَ ۛ وَلَوْ يَشَاۤءُ اللّٰهُ لَانْـتَصَرَ مِنْهُمْ وَلٰـكِنْ لِّيَبْلُوَاۡ بَعْضَكُمْ بِبَعْضٍۗ وَالَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِىْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَلَنْ يُّضِلَّ اَعْمَالَهُمْ
طاہر القادری:
پھر جب (میدان جنگ میں) تمہارا مقابلہ (متحارب) کافروں سے ہو تو (دورانِ جنگ) ان کی گردنیں اڑا دو، یہاں تک کہ جب تم انہیں (جنگی معرکہ میں) خوب قتل کر چکو تو (بقیہ قیدیوں کو) مضبوطی سے باندھ لو، پھر اس کے بعد یا تو (انہیں) (بلامعاوضہ) احسان کر کے (چھوڑ دو) یا فدیہ (یعنی معاوضہِء رہائی) لے کر (آزاد کر دو) یہاں تک کہ جنگ (کرنے والی مخالف فوج) اپنے ہتھیار رکھ دے (یعنی صلح و امن کا اعلان کر دے)۔ یہی (حکم) ہے، اور اگر اﷲ چاہتا تو ان سے (بغیر جنگ) انتقام لے لیتا مگر (اس نے ایسا نہیں کیا) تاکہ تم میں سے بعض کو بعض کے ذریعے آزمائے، اور جو لوگ اﷲ کی راہ میں قتل کر دیئے گئے تو وہ ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہ کرے گا،
English Sahih:
So when you meet those who disbelieve [in battle], strike [their] necks until, when you have inflicted slaughter upon them, then secure [their] bonds, and either [confer] favor afterwards or ransom [them] until the war lays down its burdens. That [is the command]. And if Allah had willed, He could have taken vengeance upon them [Himself], but [He ordered armed struggle] to test some of you by means of others. And those who are killed in the cause of Allah – never will He waste their deeds.
1 Abul A'ala Maududi
پس جب اِن کافروں سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو تو پہلا کام گردنیں مارنا ہے، یہاں تک کہ جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو، اس کے بعد (تمہیں اختیار ہے) احسان کرو یا فدیے کا معاملہ کر لو، تا آنکہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے یہ ہے تمہارے کرنے کا کام اللہ چاہتا تو خود ہی اُن سے نمٹ لیتا، مگر (یہ طریقہ اُس نے اس لیے اختیار کیا ہے) تاکہ تم لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے آزمائے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں گے اللہ ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہ کرے گا
2 Ahmed Raza Khan
تو جب کافروں سے تمہارا سامناہو تو گردنیں مارنا ہے یہاں تک کہ جب انہیں خوب قتل کرلو تو مضبوط باندھو، پھر اس کے بعد چاہے احسان کرکے چھوڑ دو چاہے فدیہ لے لو یہاں تک کہ لڑائی اپنابوجھ رکھ دے بات یہ ہے اوراللہ چاہتا تو آپ ہی اُن سے بدلہ لیتا مگر اس لئے تم میں ایک کو دوسرے سے جانچے اور جو اللہ کی راہ میں مارے گئے اللہ ہرگز ان کے عمل ضائع نہ فرمائے گا
3 Ahmed Ali
پس جب تم ان کے مقابل ہو جو کافر ہیں تو ان کی گردنیں مارو یہاں تک کہ جب تم ان کو خوب مغلوب کر لو تو ان کی مشکیں کس لو پھر یا تو اس کے بعد احسان کرو یا تاوان لے لو یہاں تک کہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے یہی (حکم) ہے اور اگر الله چاہتا تو ان سے خود ہی بدلہ لے لیتا لیکن وہ تمہارا ایک دوسرے کے ساتھ امتحان کرنا چاہتا ہے اور جو الله کی راہ میں مارے گئے ہیں الله ان کے اعمال برباد نہیں کرے گا
4 Ahsanul Bayan
تو جب کافروں سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو تو گردنوں پر وار مارو۔ (۱) اور جب ان کو اچھی طرح کچل ڈالو تو اب خوب مضبوط قیدو بند سے گرفتار کرو (۲) (پھر اختیار ہے) کہ خواہ احسان رکھ کر چھوڑ دو یا فدیہ (۳) لے کر چھوڑ دو یہی حکم ہے اور (٤) اگر اللہ چاہتا تو (خود) ہی ان سے بدلہ لے لیتا (۵) لیکن اس کا منشا یہ ہے کہ تم میں سے لے لے، ( ٦) جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کر دیے جاتے ہیں اللہ ان کے اعمال ہرگز ضائع نہ کرے گا۔ (۷)
٤۔۱ جب دونوں فریقوں کا ذکر کر دیا تو اب کافروں اور غیر معاہد اہل کتاب سے جہاد کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے قتل کرنے کے بجائے گردنیں مارنے کا حکم دیا کہ اس تعبیر میں کفار کے ساتھ غلظت وشدت کا زیادہ اظہار ہے۔(فتح القدیر)
٤۔۲ یعنی زور دار معرکہ آرائی اور زیادہ سے زیادہ ان کو قتل کرنے کے بعد ان کے جو آدمی قابو میں آ جائیں انہیں قیدی بنا لو اور مضبوطی سے انہیں جکڑ کر رکھو تاکہ وہ بھاگ نہ سکیں۔
٤۔۳ من کا مطلب ہے بغیر فدیہ لیے بطور احسان چھوڑ دینا اور فداء کا مطلب کچھ معاوضہ لے کر چھوڑنا ہے قیدیوں کے بارے میں اختیار دے دیا گیا جو صورت حالات کے اعتبار سے اسلام اور مسلمانوں کے حق میں زیادہ بہتر ہو وہ اختیار کر لی جائے ۔
٤۔٤ یعنی کافروں کے ساتھ جنگ ختم ہو جائے یا مراد ہے کہ محارب دشمن شکست کھا کر یا صلح کر کے ہتھیار رکھ دے یا تمہاری معرکہ آرائی جاری رہے گی جس میں تم انہیں قتل بھی کرو گے قیدیوں میں تمہیں مذکورہ دونوں باتوں کا اختیار ہے بعض کہتے ہیں یہ آیت منسوخ ہے اور سوائے قتل کے کوئی صورت باقی نہیں ہے لیکن صحیح بات یہی ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں محکم ہے اور امام وقت کو چاروں باتوں کا اختیار ہے کافروں کو قتل کرے یا قیدی بنائے قیدیوں میں سے جس کو یا سب کو چاہے بطور احسان چھوڑ دے یا معاوضہ لے کر چھوڑ دے۔(فتح القدیر)
٤۔۵ یا تم اسی طرح کرو افعلوا ذلک یا ذلک حکم الکفار۔
٤۔ ٦ مطلب کافروں کو ہلاک کر کے یا انہیں عذاب میں مبتلا کر کے۔ یعنی تمہیں ان سے لڑنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔
٤۔۷ یعنی ان کا اجر وثواب ضائع نہیں فرمائے گا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جب تم کافروں سے بھڑ جاؤ تو ان کی گردنیں اُڑا دو۔ یہاں تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو (جو زندہ پکڑے جائیں ان کو) مضبوطی سے قید کرلو۔ پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا چاہیئے یا کچھ مال لے کر یہاں تک کہ (فریق مقابل) لڑائی (کے) ہتھیار (ہاتھ سے) رکھ دے۔ (یہ حکم یاد رکھو) اور اگر خدا چاہتا تو (اور طرح) ان سے انتقام لے لیتا۔ لیکن اس نے چاہا کہ تمہاری آزمائش ایک (کو) دوسرے سے (لڑوا کر) کرے۔ اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کے عملوں کو ہرگز ضائع نہ کرے گا
6 Muhammad Junagarhi
تو جب کافروں سے تمہاری مڈبھیڑ ہوتو گردنوں پر وار مارو۔ جب ان کو اچھی طرح کچل ڈالو تو اب خوب مضبوط قید وبند سے گرفتار کرو، (پھر اختیار ہے) کہ خواه احسان رکھ کر چھوڑ دو یا فدیہ لے کر تاوقتیکہ لڑائی اپنے ہتھیار رکھ دے۔ یہی حکم ہے اور اللہ اگر چاہتا تو (خود) ہی ان سے بدلہ لے لیتا، لیکن (اس کا منشا یہ ہے) کہ تم میں سے ایک کا امتحان دوسرے کے ذریعہ سے لے لے، جو لوگ اللہ کی راه میں شہید کر دیے جاتے ہیں اللہ ان کے اعمال ہرگز ضائع نہ کرے گا
7 Muhammad Hussain Najafi
پس جب کافروں سے تمہاری مڈبھیڑ ہوجائے تو ان کی گردنیں اڑاؤ۔ یہاں تک کہ جب خوب خون ریزی کر چکو (خوب قتل کر لو) تو پھر ان کو مضبوط باندھ لو اس کے بعد (تمہیں اختیار ہے)یا تو احسان کرو (رہا کردو)یا فدیہلے لو یہاں تک کہ جنگ میں اپنے ہتھیار ڈال دے (یہ حکم) اسی طرح ہے اور اگر خدا چاہتا تو خود ہی ان سے انتقاملے لیتا لیکن وہ تم لوگوں کے بعض کو بعض سے آزمانا چاہتا ہے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہو گئے تو اللہ ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پس جب کفار سے مقابلہ ہو تو ان کی گردنیں اڑادو یہاں تک کہ جب زخموں سے چور ہوجائیں تو ان کی مشکیں باندھ لو پھر اس کے بعد چاہے احسان کرکے چھوڑ دیا جائے یا فدیہ لے لیا جائے یہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار رکھ دے - یہ یاد رکھنا اور اگر خدا چاہتا تو خود ہی ان سے بدلہ لے لیتا لیکن وہ ایک کو دوسرے کے ذریعہ آزمانا چاہتا ہے اور جو لوگ اس کی راہ میں قتل ہوئے وہ ان کے اعمال کو ضائع نہیں کرسکتا ہے
9 Tafsir Jalalayn
جب تم کافروں سے بھڑ جاؤ تو ان کی گردنیں اڑا دو یہاں تک کہ جب ان کو خوب قتل کر چکو تو (جو زندہ پکڑے جائیں انکو) مضبوطی سے قید کرلو پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا چاہیے یا کچھ مال لے کر یہاں تک کہ (فریق مقابل) لڑائی (کے) ہتھیار (ہاتھ سے) رکھ دے یہ (حکم یاد رکھو) اور اگر خدا چاہتا تو (اور طرح) ان سے انتقام لے لیتا لیکن اس نے چاہا کہ تمہاری آزمائش ایک (کو) دوسرے سے (لڑوا کر) کرے اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کے عملوں کو ہرگز ضائع نہ کرے گا
فاذ القیتم الذین کفروا (الآیۃ) ماقبل میں جب دونوں فریقوں کا ذکر کردیا گیا تو اب کافروں اور غیر معاہد اہل کتاب سے جہاد کرنے کا حم دیا جا رہا ہے، اور یہاں ” لقاء “ سے مطلقاً ملاقات مراد نہیں ہے بلکہ حالت جنگ میں مڈ بھیڑ اور مقابلہ مراد ہے، یہاں قتل کرنے کے بجائے گردنیں مارنے کا حکم دیا ہے اس لئے کہ اس تعبیر میں غلظت اور شدت کا زیادہ اظہار ہے۔
مذکورہ آیت سے دو باتیں ثابت ہوئیں، اول یہ کہ جب قتال کے ذریعہ کفار کی شوکت و قوت ٹوٹ جائیت و اب بجائے قتل کرنے کے ان کو قید کرلیا جائے، پھر ان جنگی قیدیوں کے متعلق مسلمانوں کو دو اختیار دیئے گئے، ایک یہ کہ ان پر احسان کیا جائے یعنی بغیر کسی فدیہ اور معاوضہ کے چھوڑ دیا جائے، دوسرے یہ کہ ان سے کوئی فدیہ (معاوضہ) لیکر چھوڑ دیا جائے اور فدیہ کی ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اگر کچھ مسلمان ان کے ہاتھ لگ گئے ہوں تو ان سے تبادلہ کرلیا جائے، یہ حکم بظاہر اس حکم کے خلاف ہے جو سورة انفال کی آیت میں مذکور ہے جس میں غزوہ بدر کے قیدیوں کو معاوضہ لیکر چھوڑنے کی رائے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عتاب ہوا، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہمارے اس عمل پر اللہ کا عذاب قریب آگیا تھا، اگر یہ عذاب آتا تو اس سے بجز عمر بن خطاب اور سعد بن معاذ کے کوئی نہ بچتا کیوں کہ انہوں نے فدیہ لیکر چھوڑ نے کی رائے سے اختلاف کیا تھا، خلاصہ یہ کہ آیت انفال تے بدر کے قیدیوں کو فدیہ لیکر بھی چھوڑنا ممنوع کردیا تو بلا معاوضہ چھوڑنا بطریق اولی ممنوع ہوگا، سورة محد کی اس آیت نے ان دونوں باتوں کو ائز قرار دیا ہے، اس لئے اکثر صحابہ اور فقہاء نے فرمایا کہ سورة محمد کی اس آیت نے سورة انفال کی آیت کو منسوخ کردیا، تفسیر مظہری میں قاضی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) اور حسن اور عطا اور اکثر صحابہ اور جمہور فقہاء کا یہی قول ہے اور ائمہ فقہاء میں سے ثوری، شافعی، احمد اسحاق رحمتہ اللہ تعالیٰ کا بھی یہی مذہب ہے اور حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ غزوہ بدر کے بعد مسلمانوں کی تعداد اور قوت بڑھ گئی تو سورة محمد میں احسان اور فدیہ کی اجازت ہوگئی، تفسیر مظہری میں قاضی ثناء اللہ رحمتہ اللہ تعالیٰ نے اس قول کو نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ یہی قول صحیح اور مختار ہے کیونکہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر عمل فرمایا اور آپ کے بعد خلفاء راشدین نے اس پر عمل فرمایا اس لئے یہ آیت سورة انفال کی آیت کے لئے ناسخ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سورة انفال کی آیت غزوہ بدر کے موقع پر ٢ ھ میں نازل ہوئی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ٦ ھ میں صلح حدیبیہ میں جن قیدیوں کو بلا معاوضہ آزاد فرمایا ہے وہ سورة محمد کی اس آیت کے مطابق ہے۔ (معارف)
صحیح مسلم میں حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ اہل مکہ میں سے اسی آدمی اچانک جبل تنعیم سے اتر آئے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیخبر ی میں قتل کرنا چاہتے تھے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو گرفتار کرلیا پھر بلا معاوضہ آزاد کردیا، اسی پر سورة فتح کی یہ آیت نازل ہوئی وھو الذی کف ایدیھم عنکم و ایدیکم عنھم (الآیۃ) امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ تعالیٰ کا مشہور مذہب ان کی ایک روایت کے مطابق یہ ہے کہ جنگی قیدیوں کو بلا معاوضہ یا معاوضہ لیکر آزاد کرنا جائز نہیں ہے، اسی لئے علماء حنفیہ نے سورة محمد کی مذکورہ آیت کو امام صاحب کے نزدیک منسوخ اور سورة انفال کی آیت کو ناسخ قرار دیا ہے، تفسیر مظہری نے یہ واضح کردیا کہ سورة انفا کی آیت پہلے اور سورة محمد کی آیت بعد میں نازل ہوئی ہے، اس لئے سورة محمد کی آیت ناسخ اور سورة انفال کی آیت منسوخ ہے، امام صاحب کا مختار ذہب بھی جمہور صحابہ اور فقہاء کے مطابق آزاد کردینے کے جواز کا نقل کیا گیا ہے، جب کہ اسلام اور مسلمانوں کی اس میں مصلحت ہو، امام صاحب سے دوسری روایت سیرکبیر میں جمہور کے قول کے مطابق جواز کی منقول ہے اور یہی اظہر ہے اور امام طحاوی الآثار میں اسی کو ابوحنفیہ کا مذہب قرار دیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ دونوں آیتوں میں سے کوئی منسوخ نہیں ہے مسلمانوں کے حالات اور ضرورت کے مطابق امام المسلمین کو اختیار ہے کہ ان میں سے جس صورت کو مناسب سمجھے اختیار کرلے، قرطبی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفاء راشدین کے عمل سے یہ ثابت کیا ہے کہ جنگی قیدیوں کو کبھی قتل کیا گیا اور کبھی غلام بنایا گیا اور کبھی فدیہ لیکر چھوڑا گیا اور کبھی بغیر فدیہ کے آزاد کردیا گیا اور فدیہ لینے میں یہ بھی داخل ہے کہ مسلمان قیدیوں کو ان کے بدلے میں آزاد کرا لیا جائے اور یہ بھی کہ ان سے کچھ مال لیکر چھوڑ دیا جائے، اس سے معلوم ہوا کہ مذکورہ دونوں آیتیں محکم ہیں منسوخ نہیں ہیں، مجموعی طور پر جو صورت حال واضح ہوئی وہ یہ ہے کہ جب کفار کے قیدی مسلمانوں کے قبضے میں آجائیں تو امام السلمین کو چار چیزوں کا اختیار ہے۔ (١) اگر مناسب اور مصلحت سمجھے تو قتل کر دے۔ (٢) اور اگر مسلمانوں کی مصلحت لونڈی اور غلام بنانے میں ہو تو ایسا کرلے (٣) اور اگر مصلحت فدیہ لکیر یا مسلمان قیدیوں کا تبادلہ کرنے میں سمجھے تو یہ بھی کرسکتا ہے۔ (٤) اور گار بغیر کسی معاوضہ کے احسان کر کے چھوڑنا اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت اور فاد میں ہو تو امام کو یہ بھی اختیار ہے۔ (معارف)
جنگی قیدیوں کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر :
قرآن مجید کی یہ پہلی آیت ہے جس میں قوانین جنگ کے متعلق ابتدائی ہدایات دی گئی ہیں، اس سے جو احکام نکلتے ہیں اور اس کے مطابق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام نے جس طرح عمل کیا اور فقہاء نے اس آت اور سنت سے جو استنباطات کئے ہیں ان کا ماحصل یہ ہے۔
١۔ جنگ میں مسلمانوں کی فوج کا اصل ہدف دشمن کی جنگی طاقت کو توڑ دینا ہے، حتی کہ اس میں لڑنے کی سکت نہ رہے اور جنگ ہتھیار ڈالدے، اس ہدف سے توجہ ہٹا کر دشمن کے آدمیوں کو گرفتار کرنے میں لگ جانا چاہیے، غلام بنانے کی طرف اس وقت توجہ کرنی چاہیے، جب دشمن کا اچھی طرح قلع قمع کردیا جائے، مسلمانوں کو یہ ہدایت آغاز ہی میں اس لئے دے دی گئی کہ کہیں وہ فدیہ حاصل کرنے یا غلام فراہم کرنے کے لالچ میں پڑ کر جنگ کے اصل ہدف مقصود کو فراموش نہ کر بیٹھیں۔
٢۔ جنگ میں جو لوگ گرفاتر ہوئے ان کے بارے میں فرمایا گیا کہ تمہیں اختیار ہے خواہ ان احسان کرو یا ان سے فدیہ کا معاملہ کرلو، اس سے عام قانون یہ نکلتا ہے کہ جنگی قیدیوں کو قتل نہ کیا جائے، حضرت عبداللہ بن عمر، حسن بصری، عطاء اور حماد بن ابی سلیمان، قانون یہ نکلتا ہے کہ جنگی قیدیوں کو قتل نہ کیا جائے، حضرت عبداللہ بن عر، حسن بصری، عطاء اور حماد بن ابی سلیمان، قانون کے اسی عموم کو لیتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ آدمی کو قتل کرنا حالت جنگ میں درست ہے جب لڑائی ختم ہوگئی اور قیدی ہمارے قبضہ میں آگئے تو ان کو قتل کرنا درست نہیں، ابن جریر اور ابوبکر جصاص کی روایت ہے کہ حجاج بن یوسف نے جنگی قیدیوں میں سے ایک قیدی کو حضرت عبداللہ بن عمر کے حوالہ کیا اور حکم دیا کہ اسے قتل کردیں، انہوں نے انکار کردیا اور مذکورہ آیت پڑھ کر فرمایا کہ ہمیں قید کی حالت میں کسی کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا گیا، امام محمد نے السیر الکبیر میں بھی ایک واقعہ لکھا ہے کہ عبد اللہ بن عامر نے حضرت عبداللہ بن عمر کو ایک جنگی قیدی کے قتل کا حکم دیا تھا اور انہوں نے حکم کی تعمیل سے اسی بناء پر انکار کردیا تھا۔
٣۔ مگر چونکہ اس آیت میں قتل کی صاف ممانعت نہیں کی گئی ہے اس لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کے حکم کا منشاء یہ سمجھا اور اسی پر عمل بھی فرمایا کہ اگر کوئی خاص وجہ ایسی ہو جس کی بناء پر امیر وقت کسی قیدی یا بعض قیدیوں کو قتل کرنا ضروری سمجھے تو وہ ایسا کرسکتا ہے یہ عام قاعدہ سے ایک استنائی صورت ہے جس کو بضرورت استعمال کیا جائے گا۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ بدر کے ستر قیدیوں میں سے صرف عقبہ بن ابی معیط اور نضر بن حارث کو قتل کیا، جنگ خیبر میں جو لوگ گرفتار ہوئے ان میں سے صرف کنانہ بن ابی الحقیق کو قتل کیا گیا، اس لئے کہ اس نے بدعہدی کی تھی، فتح مکہ کے موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام اہل مکہ میں سے صرف چند اشخاص کے متعق حکم دیا کہ ان میں سے جو بھی پکڑا جائے وہ قتل کردیا جائے، ان مستثنیات کے سوا آپ کا عام طریقہ اسیران جنگ کو قتل کرنے کا کبھی نہیں رہا اور یہی عمل خلفاء راشدین کا بھی تھا۔
بنی قریضہ نے چونکہ اپنے آپ کو حرت سعد بن معاذ کے فیصلے پر حوالہ کیا تھا اور ان کے اپنے تسلیم کردہ حکم کا فیصلہ یہ تھا کہ ان کے مردوں کو قتل کردیا جائے، اس لئے آپے نے ان کو قتل کرا دیا، بنی قریظہ کے قیدیوں میں سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زبیر بن باطا اور عمر بن سعد کی جان بخشی کی، زبیر کو اس لئے چھوڑا کہ اس نے جاہلیت کے زمانہ میں جنگ بعاث کے موقع پر حضرت ثابت بن قیس انصاری کو پناہ دی تھی، اس لئے آپ نے اس کو ثابت بن قیس کے حوالہ کردیا تاکہ اس کے احسان کا بدلہ ادا کریں اور عمر بن سعد کو اس لئے چھوڑا کہ جب بنی قریضہ حضور کے ساتھ بد عہدی کر رہے تھے اس وقت یہ شخص اپنے قبیلے کو غداری سے منع کر رہا تھا۔ (کتاب الاموال لابی عبید ملخصاً )
مشروعیت جہاد کی ایک حکمت :
ولویشاء اللہ لانتصرمنھم ولکن لیبلوا بعضکم ببعض (الآیۃ) اس آیت میں حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اس امت میں کفار سے جہاد و قتال کی مشروعیت درحقیقت ایک رحمت ہے کیونکہ وہ آسمانی عذاب کے قائم مقام ہے کیونکہ کفر و شرک اور اللہ سغ بغاوت کی سزا پچھلی قوموں کو آسمانی اور زمینی عذابوں کے ذریعہ دی گئی ہے، امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں بھی ایسا ہوسکتا تھا مگر رحمتہ اللعالمین کی برکت سے اس امت کو ایسے عام عذابوں سے بچا لیا گیا، اس کے قائم مقام جہاد شرعی کو کردیا گیا جس میں بہ نسبت عذاب عام کے بڑی سہولتیں اور مصلحتیں ہیں، مثلاً آسمان یا زمینی عذاب میں پوری کی پوری قومیں جس میں مرد عورت بچے جانور سب ہی تباہ ہوجاتے ہیں جہاد میں ایسا نہیں ہوتا، نیز جہاد کی مشروعیت کا ایک اہم فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ جہاد و قتال کے دونوں فریق، مسلمان اور کافر کا امتحان ہوجاتا ہے کہ کون اللہ کے ظلم پر اپنی جان و مال نثار کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے اور کون کفر و سرکشی پر جما رہتا ہے یا اسلام کے روشن دلائل دیکھ کر اسلام قبول کرلیتا ہے۔
حکم : یہ ضروری نہیں کہ قید قتل سے مئوخر ہو جیسا کہ بظاہر کلمہ حتی اور فاء سے متبادر رہے، بلکہ یہ تحریض و تاکید ہے کہ صرف لڑنے والوں کے ہی قتل پر اکتفاء نہ ہو بلکہ مغلوبوں کو خوب کس کر باندھ لو، مطلب یہ کہ نہتے، تہیھار بندوخانہ نشین غرضیکہ میدان میں آنے والے سب پر عذاب الٰہی نازل ہے ایک کو نہ چھوڑو چونکہ بدون قتال و خونریزی دشمن مغلوب نہیں ہوتا۔ (خلاصۃ التفاسیر، تائب)
حکم : شدو ثاق سے صرف کس کر باندھ لینا ہی مراد نہیں ہے بلکہ کمال ہوشیاری مراد ہے، خواہ باندھو یا اسیر کردیا اور کوئی طریقہ اختیار کرو۔
فائدہ : صحیح بہ ہے کہ یہ آیت نہ منسوخ ہے اور نہ مخصوص، صاحب تفسیر مظہری نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے اور صاحب تفسیر احمدی نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے اس لئے کہ یہ آیت خواہ واقعہ بدر سے مقدم ہو یا مئوخر، اگر مقدم ہے تو زر فدیہ لینے پر عتاب کیوں ہوا ؟ اور اگر مئوخر ہے تو نسخ ممکن نہیں اب رہیں دوسری آیات تو وہ عموم قتل کفار پر دال ہیں نہ کہ احسان اور فدیہ سے متعلق، اب جبکہ آیت محکم غیر منسوخ ہوئی تو مطلب یہ ہوا کہ امام مختار ہے (١) چاہے قتل کرے جیسا کہ کلمہ اثخنتموا سے ظاہر ہے (٢) یا غلام بنائے جیسا کہ شدوثاق سے مفہوم ہے (٣) یا مفت چھوڑ دے جیسا کہ کلمہم ن سے ظاہر ہے اور عالمگیری میں حنفیہ سے مفت چھوڑنے کی روایت موجود ہے (٤) اور چاہے مسلمان قیدیوں سے تبادلہ کرے، اختلاف ذکر کرنے کے بعد یہی مذہب محمد والا یوسف اور ابوحنیفہ رحمتہ اللہ تعالیٰ کی ظاہر روایت سے سیر کبیر میں منقول ہے (٥) معاوضہ مالی لیکر چھوڑ دے، صاحب ہدایہ نے کہا کہ بہ شرط ضرورت جائز ہے، معلوم ہوا کہ من و فداء میں حصر نہیں ہے۔ (خلاصۃ التفاسیر بحوالہ عالمگیری)
مسئلہ :۔ مفت چھوڑنا اس وقت تک جائز ہے کہ وہ اسیر کسی کے حصہ میں نہ آیا ہو۔ (ھدایہ)
مسئلہ : اسیر کے عوض رہا کرنا تب ہے کہ وہ قیدی ایمان نہ لایا ہو۔
فائدہ : کافر جب قید ہو کر ایمان لے آئے تو سوائے استرقاق کے تمام امور سے بری ہے یعنی نہ قتل کیا جاسکتا ہے اور نہ فدیہ میں دیا جاسکتا ہے البتہ غلامی سے رہائی بدون عتق نہ ہوگی۔
حکم : لڑائی موقوف ہوجانے سے یہ مطلب نہیں کہ مقابل مغلوب ہو کر مطیع ہوجائے بلکہ مراد یہ ہے کہ تمام عالم میں کوئی مقابل نہ رہے اور یہ حضرت عیسیٰ اور امام مہدی کے زمانہ میں ہوگا، حدیث میں وارد ہے لانزال طائفۃ من امتی یقاتلون علی الحق ظاہرین علی من ناواھم حتی یقاتل آخر ھم المسیح الدجال (ابودائود) اور فرمایا الجھاد ماض الی یوم القیامۃ (ابن کثیر) (خلاصۃ التفاسیر ملخصاً ، تائب لکھنوی)
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کی ان امور کی طرف راہ نمائی کرتے ہوئے، جن میں ان کی بھلائی اور ان کے دشمنوں کے مقابلے میں نصرت ہے، ارشاد فرماتا ہے : ﴿ فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ﴾ جب جنگ اور قتال میں تمہارا کفار سے سامنا ہو تو ان کے خلاف بہادری سے لڑو اور ان کی گردنیں مار و یہاں تک کہ ان کو اچھی طرح کچل دو اور جب تم ان کی طاقت کو توڑ چکو اور تم سمجھو کہ ان کو قیدی بنانا زیادہ بہتر ہے ﴿فَشُدُّوا الْوَثَاقَ ﴾ تو انہیں مضبوطی سے باندھ لو۔ یہ ان کو قیدی بنانے کے لئے احتیاط ہے تاکہ وہ بھاگ نہ جائیں۔ جب ان کو مضبوطی سے باندھ دیا جائے گا تو مسلمان ان کی طرف سے جنگ اور ان کے شر سے محفوظ ہوجائیں گے۔
جب وہ تمہاری قید میں آجائیں، تو تمہیں اختیار ہے کہ تم ان پر احسان کرتے ہوئے مال اور فدیہ لئے بغیر چھوڑ دو یا ان سے فدیے لے لو یعنی تم ان کو وقت تک آزادنہ کرو جب تک کہ وہ اپنا فدیہ ادا نہ کریں یا ان کے ساتھی فدیہ میں کچھ مال ادا نہ کریں یا اس کے بدلے میں کسی مسلمان قیدی کو جو ان کی قید میں ہو، آزاد نہ کریں۔ یہ حکم دائمی ہے ﴿ حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ﴾ حتیٰ کہ جنگ باقی نہ رہے اور تمہارے درمیان صلح اور امن قائم ہوجائے کیونکہ ہر مقام کے لئے ایک قول اور ہر صورت حال کے لئے ایک حکم ہے۔ گزشتہ صورت حال اس وقت تھی جب جنگ اور قتال کی حالت تھی۔ جب کسی وقت، کسی سبب کی بنا پر جنگ اور قتال نہ ہو تو قتل اور قیدی بنانے کا فعل بھی نہ ہوگا۔
﴿ ذٰلِكَ ﴾ یعنی یہ حکم مذکور کفار کے ذریعے سے اہل ایمان کی آزمائش، ان کے درمیان گردش ایام اور ایک دوسرے کے خلاف فتح حاصل کرنے کے بارے میں ہے ﴿ وَلَوْ يَشَاءُ اللّٰـهُ لَانتَصَرَ مِنْهُمْ ﴾ ” اور اگر اللہ چاہتا تو ان سے انتقام لے لیتا۔“ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، وہ اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ کسی ایک ہی موقع پر کفار سے انتقال نہ لے تاکہ مسلمانوں کے ہاتھوں ان کی اصل ہی ختم نہ ہوجائے۔ ﴿وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَ بَعْضَكُم بِبَعْضٍ ﴾ ” لیکن اس نے چاہا کہ ایک دوسرے کے ذریعے سے تمہاری آزمائش کرے“ تاکہ جہاد کا بازار گرم رہے اور بندوں کے احوال کھلتے رہیں، سچے اور جھوٹے میں امتیاز ہوتا رہے، جو کوئی ایمان لائے وہ علی وجہ البصیرت ایمان لائے، وہ مسلمانوں کے غلبے سے مطیع ہو کر ایمان نہ لائے، کیونکہ یہ تو بہت ہی کمزور ایمان ہے اور ایسا ایمان رکھنے والا شخص امتحان اور آزمائش کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔
﴿ وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللّٰـهِ ﴾ ” اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے“ ان کے لئے ثواب جزیل اور اجر جمیل ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ان لوگوں کے خلاف لڑتے ہیں جن کے خلاف ان کو لڑنے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے اعمال کو باطل اور ضائع نہیں کرے گابلکہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال قبول فرما کر ان کو بڑھائے گا۔ دنیا و آخرت میں ان کے اعمال کے نتائج ظاہر ہوں گے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jab unn logon say tumhara muqabla ho jinhon ney kufr ikhtiyar ker rakha hai , to gardanen maaro , yahan tak kay jab tum unn ki taqat kuchal chukay ho , to mazbooti say girftaar kerlo , phir chahye ehsan ker kay chorr do , ya fidya ley ker , yahan tak kay jang apney hathiyaar phenk ker khatam hojaye . tumhen to yehi hukum hai , aur agar Allah chahta to khud unn say intiqam ley leta , lekin ( tumhen yeh hukum iss liye diya hai ) takay tumhara aik doosray kay zariye imtihan ley . aur jo log Allah kay raastay mein qatal huye , Allah unn kay aemal ko hergiz ikarat nahi keray ga .
12 Tafsir Ibn Kathir
جب کفار سے میدان جہاد میں آمنا سامنا ہوجائے
یہاں ایمان داروں کو جنگی احکام دئیے جاتے ہیں کہ جب کافروں سے مڈبھیڑ ہوجائے دستی لڑائی شروع ہوجائے تو ان کی گردنیں اڑاؤ، تلواریں چلا کر گردن دھڑ سے اڑا دو ۔ پھر جب دیکھو کہ دشمن ہارا اس کے آدمی کافی کٹ چکے تو باقی ماندہ کو مضبوط قیدوبند کے ساتھ مقید کرلو جب لڑائی ختم ہوچکے معرکہ پورا ہوجائے تو پھر تمہیں اختیار ہے کہ قیدیوں کو بطور احسان بغیر کچھ لئے ہی چھوڑ دو اور یہ بھی اختیار ہے کہ ان سے تاوان جنگ وصول کرو پھر چھوڑو۔ بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ بدر کے غزوے کے بعد یہ آیت اتری ہے کیونکہ بدر کے معرکہ میں زیادہ تر مخالفین کو قید کرنے اور قید کرنے کی کمی کرنے میں مسلمانوں پر عتاب کیا گیا تھا اور فرمایا تھا آیت ( مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗٓ اَسْرٰي حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ ۭتُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا ڰ وَاللّٰهُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَةَ ۭوَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 67) 8 ۔ الانفال :67) ، نبی کو لائق نہ تھا کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ ایک مرتبہ جی کھول کر مخالفین میں موت کی گرم بازاری نہ ہو لے کیا تم دنیوی اسباب کی چاہت میں ہو ؟ اللہ کا ارادہ تو آخرت کا ہے اور اللہ عزیز و حکیم ہے۔ اگر پہلے ہی سے اللہ کا لکھا ہوا نہ ہوتا تو جو تم نے لیا اس کی بابت تمہیں بڑا عذاب ہوتا۔ بعض علماء کا قول ہے کہ یہ اختیار منسوخ ہے اور یہ آیت ناسخ ہے آیت ( فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ) 9 ۔ التوبہ :5) ، یعنی حرمت والے مہینے جب گذر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ وہیں قتل کرو۔ لیکن اکثر علماء کا فرمان ہے کہ منسوخ نہیں۔ اب بعض تو کہتے ہیں قتل کر ڈالنے کا بھی اختیار ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ بدر کے قیدیوں میں سے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابو معیط کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قتل کرا دیا تھا اور یہ بھی اس کی دلیل ہے کہ ثمامہ بن اثال نے جب کہ وہ اسیری حالت میں تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پوچھا تھا کہ کہو ثمامہ کیا خیال ہے ؟ تو انہوں نے کہا اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قتل کریں گے تو ایک خون والے کو قتل کریں گے اور اگر آپ احسان رکھیں گے تو ایک شکر گذار پر احسان رکھیں گے اور اگر مال طلب کرتے ہیں تو جو آپ مانگیں گے مل جائے گا۔ حضرت امام شافعی ایک چوتھی بات کا بھی اختیار بتاتے ہیں یعنی قتل، احسان، بدلے کا اور غلام بنا کر رکھ لینے کا۔ اس مسئلے کی تفصیل کی جگہ فروعی مسائل کی کتابیں ہیں۔ اور ہم نے بھی اللہ کے فضل و کرم سے کتاب الاحکام میں اس کے دلائل بیان کر دئیے ہیں۔ پھر فرماتا ہے یہاں تک کہ لڑائی اپنے ہتھیار رکھ دے یعنی بقول مجاہد حضرت عیسیٰ نازل ہوجائیں۔ ممکن ہے حضرت مجاہد کی نظریں اس حدیث پر ہوں جس میں ہے میری امت ہمیشہ حق کے ساتھ ظاہر رہے گی یہاں تک کہ ان کا آخری شخص دجال سے لڑے گا۔ مسند احمد اور نسائی میں ہے کہ حضرت سلمہ بن نفیل خدمت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے میں نے گھوڑوں کو چھوڑ دیا اور ہتھیار الگ کر دئیے اور لڑائی نے اپنے ہتھیار رکھ دئیے اور میں نے کہہ دیا کہ اب لڑائی ہے ہی نہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اب لڑائی آگئی، میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ لوگوں پر ظاہر رہے گی جن لوگوں کے دل ٹیڑھے ہوجائیں گے یہ ان سے لڑیں گے اور اللہ تعالیٰ انہیں ان سے روزیاں دے گا یہاں تک کہ اللہ کا امر آجائے اور وہ اسی حالت پر ہوں گے مومنوں کی زمین شام میں ہے۔ گھوڑوں کی ایال میں قیامت تک کے لئے اللہ نے خیر رکھ دی ہے یہ حدیث امام بغوی نے بھی وارد کی ہے اور حافظ ابو یعلی موصلی نے بھی، اس سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ جو لوگ اس آیت کو منسوخ نہیں بتاتے گویا کہ یہ حکم مشروع ہے جب تک لڑائی باقی رہے اور اس حدیث نے بتایا کہ لڑائی قیامت تک باقی رہے گی یہ آیت مثل اس آیت کے ہے آیت ( وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ ۚ فَاِنِ انْتَهَـوْا فَاِنَّ اللّٰهَ بِمَا يَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ 39) 8 ۔ الانفال :39) ، یعنی ان سے لڑتے رہو جب تک کہ فتنہ باقی ہے اور جب تک کہ دین اللہ ہی کیلئے نہ ہوجائے۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں لڑائی کے ہتھیار رکھ دینے سے مراد شرک کا باقی نہ رہنا ہے اور بعض سے مروی ہے کہ مراد یہ ہے کہ مشرکین اپنے شرک سے توبہ کرلیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنی کوششیں اللہ کی اطاعت میں صرف کرنے لگ جائیں پھر فرماتا ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو آپ ہی کفار کو برباد کردیتا اپنے پاس سے ان پر عذاب بھیج دیتا لیکن وہ تو یہ چاہتا ہے کہ تمہیں آزما لے اسی لئے جہاد کے احکام جاری فرمائے ہیں سورة آل عمران اور برات میں بھی اسی مضمون کو بیان کیا ہے۔ آل عمران میں ہے آیت ( اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصّٰبِرِيْنَ\014\02 ) 3 ۔ آل عمران :142) ، کیا تمہارا یہ گمان ہے کہ بغیر اس بات کے کہ اللہ جان لے کہ تم میں سے مجاہد کون ہیں اور تم میں سے صبر کرنے والے کون ہیں تم جنت میں چلے جاؤ گے ؟ سورة براۃ میں ہے آیت ( قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ 14 ۙ ) 9 ۔ التوبہ :14) ان سے جہاد کرو اللہ تمہارے ہاتھوں انہیں عذاب کرے گا اور تمہیں ان پر نصرت عطا فرمائے گا اور ایمان والوں کے سینے شفا والے کر دے گا اور اپنے دلوں کے ولولے نکالنے کا انہیں موقعہ دے گا اور جس کی چاہے گا توبہ قبول فرمائے گا اللہ بڑا علیم و حکیم ہے اب چونکہ یہ بھی تھا کہ جہاد میں مومن بھی شہید ہوں اس لئے فرماتا ہے کہ شہیدوں کے اعمال اکارت نہیں جائیں گے بلکہ بہت بڑھا چڑھا کر ثواب انہیں دئیے جائیں گے۔ بعض کو تو قیامت تک کے ثواب ملیں گے۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ شہید کو چھ انعامات حاصل ہوتے ہیں اس کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرتے ہی اس کے کل گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اسے اس کا جنت کا مکان دکھا دیا جاتا ہے اور نہایت خوبصورت بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے اس کا نکاح کرا دیا جاتا ہے وہ بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہتا ہے وہ عذاب قبر سے بچا لیا جاتا ہے اسے ایمان کے زیور سے آراستہ کردیا جاتا ہے۔ ایک اور حدیث میں یہ بھی ہے کہ اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جاتا ہے۔ جو در و یاقوت کا جڑاؤ ہوتا ہے جس میں کا ایک یاقوت تمام دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے گراں بہا ہے۔ اسے بہتر حور عین ملتی ہیں اور اپنے خاندان کے ستر شخصوں کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔ یہ حدیث ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی ہے صحیح مسلم شریف میں ہے سوائے قرض کے شہیدوں کے سب گناہ بخش دئیے جاتے ہیں شہیدوں کے فضائل کی اور بھی بہت حدیثیں ہیں پھر فرماتا ہے انہیں اللہ جنت کی راہ سمجھا دے گا۔ جیسے یہ آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ يَهْدِيْهِمْ رَبُّھُمْ بِاِيْمَانِهِمْ ۚ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ ) 10 ۔ یونس :9) ، یعنی جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک کام کئے ان کے ایمان کے باعث ان کا رب انہیں ان جنتوں کی طرف رہبری کرے گا جو نعمتوں سے پر ہیں اور جن کے چپے چپے میں چشمے بہہ رہے ہیں اللہ ان کے حال اور ان کے کام سنوار دے گا اور جن جنتوں سے انہیں پہلے ہی آگاہ کرچکا ہے اور جن کی طرف ان کی رہبری کرچکا ہے آخر انہی میں انہیں پہنچائے گا۔ یعنی ہر شخص اپنے مکان اور پانی جگہ کو جنت میں اس طرح پہچان لے گا جیسے دنیا میں پہچان لیا کرتا تھا۔ انہیں کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہ پڑے گی یہ معلوم ہوگا گویا شروع پیدائش سے یہیں مقیم ہیں۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ جس انسان کے ساتھ اس کے اعمال کا محافظ جو فرشتہ تھا وہی اس کے آگے آگے چلے گا جب یہ اپنی جگہ پہنچے گا تو ازخود پہچان لے گا کہ میری جگہ یہی ہے۔ یونہی پھر اپنی زمین میں سیر کرتا ہوا جب سب دیکھ چکے گا تب فرشتہ ہٹ جائے گا اور یہ اپنی لذتوں میں مشغول ہوجائے گا۔ صحیح بخاری کی مرفوع حدیث میں ہے جب مومن آگ سے چھوٹ جائیں گے تو جنت، دوزخ کے درمیان ایک پل پر روک لئے جائیں گے اور آپس میں ایک دوسرے پر جو مظالم تھے ان کے بدلے اتار لئے جائیں گے جب بالکل پاک صاف ہوجائیں گے تو جنت میں جانے کی اجازت مل جائے گی قسم اللہ کی جس طرح تم میں سے ہر ایک شخص اپنے دنیوی گھر کی راہ جانتا ہے اور گھر کو پہچانتا ہے اس سے بہت زیادہ وہ لوگ اپنی منزل اور اپنی جگہ سے واقف ہوں گے پھر فرماتا ہے ایمان والو اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط کر دے گا، جیسے اور جگہ ہے آیت (وَلَيَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ 40) 22 ۔ الحج :40) اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اللہ کی مدد کرے گا اس لئے کہ جیسا عمل ہوتا ہے اسی جنس کی جزا ہوتی ہے اور وہ تمہارے قدم بھی مضبوط کر دے گا حدیث میں ہے جو شخص کسی اختیار والے کے سامنے ایک ایسے حاجت مند کی حاجت پہنچائے جو خود وہاں نہ پہنچ سکتا ہو تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ پل صراط پر اس کے قدم مضبوطی سے جما دے گا پھر فرماتا ہے کافروں کا حال بالکل برعکس ہے یہ قدم قدم پر ٹھوکریں کھائیں گے حدیث میں ہے دینار درہم اور کپڑے لتے کا بندہ ٹھوکر کھا گیا وہ برباد ہوا اور ہلاک ہوا وہ اگر بیمار پڑجائے تو اللہ کرے اسے شفا بھی نہ ہو ایسے لوگوں کے نیک اعمال بھی اکارت ہیں اس لئے کہ یہ قرآن و حدیث سے ناخوش ہیں نہ اس کی عزت و عظمت ان کے دل میں نہ ان کا قصد و تسلیم کا ارادہ۔ پس انکے جو کچھ اچھے کام تھے اللہ نے انہیں بھی غارت کردیا۔