الفتح آية ۱
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا ۙ
طاہر القادری:
(اے حبیبِ مکرم!) بیشک ہم نے آپ کے لئے (اسلام کی) روشن فتح (اور غلبہ) کا فیصلہ فرما دیا (اس لئے کہ آپ کی عظیم جدّ و جہد کامیابی کے ساتھ مکمل ہوجائے)،
English Sahih:
Indeed, We have given you, [O Muhammad], a clear conquest
1 Abul A'ala Maududi
اے نبیؐ، ہم نے تم کو کھلی فتح عطا کر دی
2 Ahmed Raza Khan
بیشک ہم نے تمہارے لیے روشن فتح دی
3 Ahmed Ali
بے شک ہم نے آپ کو کھلم کھلا فتح دی
4 Ahsanul Bayan
بیشک (اے نبی) ہم نے آپ کو ایک کھلم کھلا فتح دی ہے۔ (۱)
۱۔۱ ٦ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ١٤ سو کے قریب صحاب اکرام رضوان علیہم اجمعین عمرے کی نیت سے مکہ تشریف لے گئے، لیکن مکہ کے قریب حدیبیہ کے مقام پر کافروں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک لیا عمرہ نہیں کرنے دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا تاکہ قریش کے سرداروں سے گفتگو کر کے انہیں مسلمانوں کو عمرہ کرنے کی اجازت دینے پر آمادہ کریں کفار مکہ نے اجازت نہیں دی اور مسلمانوں نے آئندہ سال کے وعدے پر واپسی کا ارادہ کر لیا وہیں اپنے سر بھی منڈوا لئے اور قربانیاں کرلیں۔ نیز کفار سے بھی چند باتوں کا معاہدہ ہوا جنہیں صحابہ کرام کی اکثریت ناپسند کرتی تھی لیکن نگاہ رسالت نے اس کے دور رس اثرات کا اندازہ لگاتے ہوئے، کفار کی شرائط پر ہی صلح کو بہتر سمجھا۔ حدیبیہ سے مدینے کی طرف آتے ہوئے راستے میں یہ سورت اتری، جس میں صلح کو فتح مبین سے تعبیر فرمایا گیا کیونکہ یہ صلہ فتح مکہ کا ہی پیش خیمہ ثابت ہوئی اور اس کے دو سال بعد ہی مسلمان مکے میں فاتحانہ طور پر داخل ہوئے۔ اسی لئے بعض صحابہ اکرام کہتے تھے کہ تم فتح مکہ کو شمار کرتے ہو لیکن ہم حدیبیہ کی صلح کو فتح شمار کرتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورت کی بابت فرمایا کہ آج کی رات مجھ پر وہ سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے دنیا ما فیہا سے زیادہ محبوب ہے (صحیح بخاری)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(اے محمدﷺ) ہم نے تم کو فتح دی۔ فتح بھی صریح وصاف
6 Muhammad Junagarhi
بیشک (اے نبی) ہم نے آپ کو ایک کھلم کھلا فتح دی ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول(ص)) بےشک ہم نے آپ(ص) کو ایک فتحِ مبین (نمایاں فتح) عطا کی ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بیشک ہم نے آپ کو کھلی ہوئی فتح عطا کی ہے
9 Tafsir Jalalayn
(اے محمد) (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے تم کو فتح دی فتح بھی صریح و صاف
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، بیشک ہم نے آپ کو (اے نبی) ایک کھی فتح عطاء کی (یعنی) آپ کے جہاد کے ذریعہ ہم نے بزور شمشیر مستقبل میں مکہ وغیرہ کی فتح کا فیصلہ کردیا، تاکہ آپ کے جہاد کے صلہ میں آپ کی اگلی پچھلی کوتاہیوں کو معاف ریں، تاکہ تیری امت کو جہاد میں رغبت ہو اور مذکورہ آیت مئو ول ہے انبیاء (علیہم السلام) کے گناہوں سے دلیل عقلی قطعی سے معصوم ہونے کی وجہ سے اور لام علت غائیہ کے لئے ہے لہذا اس کا مدخول مسبب ہے نہ کہ سبب اور (تاکہ) فتح مذکور کے ذریعہ اپنی نعمتوں کی آپ پر تکمیل کرے اور اس کے ذریعہ سیدھا راستہ دکھائے (یعنی) آپ کو اس پر ثابت قدم رکھے اور وہ (سیدھا راستہ) دین اسلام ہے اور تاکہ وہ اس فتح کے ذریعہ آپ کو ایک زبردست نصرت بخشے باعزت نصرت، جس میں ذلت نہ ہ، وہی ہے وہ ذات جس نے مومنین کے دل میں سکینت بخشی تاکہ ان کے ایمان کے ساتھ دین کے احکام پر ایمان کا اور اضافہ ہو جب جب بھی ان میں سے کوئی حکم نازل ہو اس پر ایمان لائیں، اور ان ہی احکام میں سے جہاد ہے اور زمین و آسمان کے سب لشکر اللہ ہی کے ہیں، سو اگر وہ تمہارے بغیر اپنے دین کی نصرت کا ارادہ کرتا تو ایسا کرسکتا تھا اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں دانا اور اپنی صنعت کے بارے میں با حکمت ہے یعنی وہ اس صفت کے ساتھ ہمیشہ متصف ہے (اس نے جہاد کا حکم اس لئے دیا ہے) تاکہ وہ لیدخل امر بالجھاد محذوف کے متعلق ہے، مومنین اور مومنات کو ایسی جنت میں داخل کرے کہ جس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، جن میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور تاکہ ان کے گناہوں کو ان سے دور کرے، اللہ کے نزدیک یہ بڑی کامیابی ہے اور تاکہ منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مرد اور مشرک عورتوں کو سزا دے جو اللہ کے ساتھ برے برے گمان رکھتے ہیں (السوء) تینوں جگہوں پر سین کے فتحہ اور ضمہ کے ساتھ ہے، ان کا گمان ہے کہ اللہ تعالیٰ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین کی مدد نہ کرے گا، ذلت اور عذاب کے ساتھ برائی کے چکر میں وہ خود ہی آگئے اور واللہ ان پر غضبناک ہوگا اور ان کو (رحمت) سے دور کرے گا، اور ان کے لئے اس نے دوزخ تیار کر رکھی ہے اور (وہ) برا ٹھکانہ ہے اور آسمانوں اور زمین کا سب لشکر اللہ ہی کا ہے اللہ تعالیٰ اپنے ملک میں زبردست اور اپنی صنعت میں حکمت والا ہے اس صفت کے ساتھ ہمیشہ متصف ہے یقینا ہم نے آپ کو قیامت کے دن اپنی امت کے لئے گواہی دینے والا اور ان کو دنیا میں جنت کی خوشخبری سنانے والا (بنا کر بھیجا) اور دنیا میں آگ سے برے اعمال کی وجہ سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا، تاکہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائو (لتومنوا) میں یاء اور تاء دونوں ہیں یہاں بھی اور اس کے بعد تینوں جگہوں پر بھی اور اس کی مدد کرو اور تا فوقانیہ کی صورت میں دوزائوں کے ساتھ پڑھا گیا ہے اور اس کی تعظیم کرو مذکورہ دونوں صیغوں اللہ اور اس کے رسول کی جانب راجع ہے اور اس کی یعنی اللہ کی صبح و شام پاکی بیان کرو بلاشبہ جو لوگ آپ سے حدیبیہ میں بیعت رضوان کر رہے ہیں یقینا وہ اللہ سے بیعت کر رہے ہیں اور یہ من یطع الرسول فقد اطاع اللہ کے مانند ہے، اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھ پر ہے، وہ ہاتھ جس پر مومنین نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کی یعنی اللہ تعالیٰ ان کی بیعت کی اس کارروائی سے باخبر ہے، سو وہ ان کو اس پر جزاء دے گا، تو جو شخص عہد شکنی کیر گا یعنی بیعت توڑے گا تو اس کی عہدشکنی کا وبال اسی پر پڑے گا، یعنی اس کی عہد شکنی اس کی طرف لوٹے گی اور جو شخص اس کو پورا کرے گا جس کا اس نے اللہ سے عہد کیا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اجر عظیم عطاء کرے گا (فسنوتیہ) میں یاء اور نون دونوں ہیں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد۔
قولہ :۔ انا فتحنا لک فتحا مبینا، فتحنا کی تفسیر قضینا سے کرنے کا مقصد ایک شبہ کو دفع کرنا ہے۔
شبہ : فتح سے مراد فتح مکہ ہے اور فتح مکہ بالا تفاق ٨ ھ میں ہوا ہے اور یہ سورت حدیبیہ سے واپسی کے وقت ضحنان جو مکہ سے ٢٥ کلو میٹر کے مسافت پر ہے یا بقول بعض کراع الغمیم کے مقام پر ٦ ھ میں نازل ہئوی تو اب شبہ یہ ہے کہ ٨ ھ میں ہونے والے واقعہ کو ٦ ھ میں انا فتحنا ماضی کے صیغہ سے کیوں تعبیر فرمایا ؟
دفع : مفسرین نے اس شبہ کے تین جواب دیئے ہیں : ایک تو وہی ہے جس کی طرف علامہ محلی نے فتحنا کی تفسیر قضینا سے کر کے اشارہ کیا ہے، اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ فتح سے مراد قضا فی الازل ہے ای حکمنا فی الازل اور قضا فی الازل یقینا صلح حدیبیہ سے مقدم ہے یعنی ٨ ھ میں فتح مکہ کا فیصلہ ازل میں ہوچکا تھا، اس صورت میں ماضی سے تعبیر حقیقتہ ہوگی۔
دوسرا جواب :۔ یہ ہے کہ، فتح کے یقینی الوقوع ہونے کی وجہ سے مضای سے تعبیر کردیا گیا، اس لئے کہ جس کا وقوع یقینی ہوتا ہے اس کو ماضی سے تعبیر کردیتے ہیں، اس صورت میں تعبیر بالماضی مجازاً ہوگی، اور یہ ونفخ فی الصور کی نظیر ہوگی۔
تیسرا جواب :۔ یہ ہے کہ درحقیقت فتح صلح حدیبیہ ہی ہے، اس لئے کہ صلح حدیبیہ ہی فتح مکہ اور دیگر فتوحات کا سبب بنی تھی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی صلح حدیبیہ کو فتح مبین قرار دیا ہے، جب کراع الغمیم کے مقام پر یہ سورت نازل ہوئی تو آپ نے صحابہ کو پڑھ کر سنائی، تو حضرت عمر (رض) نے اس وقت بھی سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول کیا یہ فتح مبین ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے یہ فتح مبین ہے، اس صورت میں بھی تعبیر بالماضی حقیقتہ ہوگی۔
قولہ :۔ عنوۃ زبردستی لینا بزور شمشیر حاصل کرنا، یہ امام اعظم اور امام مالک کا مذہب ہے امام شافعی کا مذاب یہ ہے کہ مکہ صلح سے فتح ہوا۔
قولہ :۔ بینا، مبینا کی تفسیر بینا سے کر کے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مبین ابان سے بمعنی لازم ہے نہ کہ متعدی۔
قولہ : فی المستقبل، فتح سے متعلق ہے، بعض نسخوں میں (فی) کے بغیر ہے جیسا کہ پیش نظر نسخہ میں ہے تو اس صورت میں المستقبل، بفتح کی صفت ہوگی۔
قولہ :۔ بجھادک اس کا تعلق، فتح مکہ سے ہے، اس کلمہ کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : فتح مکہ باری تعالیٰ کا فعل ہے، اس لئے کہ انا فتحنا میں فتح جو کہ باری تعالیٰ کا فعل ہے یہ علت ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مغفرت کی اور یہ درست نہیں ہے اس لئے کہ ایک کا فعل دوسرے کے لئے علت نہیں بن سکتا، لہٰذا فتح مکہ پر آپ کی مغفرت کا مرتب ہونا بھی درست نہیں ہے، اسی سوال کے جواب کے لئے مفسر علام نے بجھادک کا اضافہ فرمایا۔
جواب : جو اب کا ماحصل یہ ہے کہ بجھادک کا تعلق فتح کمہ کے ساتھ ہے، مطلب یہ کہ فتح تو باری تعالیٰ ہی نے عطا فرمائی مگر اس کا ظاہری سبب اور ذریعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جہاد بنا، اس طریقہ سے خود آپ کا فعل آپ کی مغفرت کی علت ہوئی نہ کہ فعل باری تعالیٰ اور یہ درست ہے، لہٰذا اب کوئی اعتراض باقی نہیں رہا۔
قولہ :۔ ھو موول یہ بھی ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال :۔ سوال یہ ہے کہ نبی معصوم ہوتا ہے تو پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گناہوں کو معاف کرنے کا کیا مطب ہے ؟
جواب : (١) پہلی بات یہ ہے کہ اس آیت میں تاویل ہے اول یہ کہ خطاب اگرچہ آپ کو ہے مگر مراد امت ہے، تاکہ امت کو جہاد میں رغبت ہو (٢) دوسرے یہ کہ ذنوب سے مراد حسنات الابرار سیئات المقربین کے قاعدہ سے خلاف اولی ہیں، اور خلاف اولیٰ کا نبی سے صدور ہوسکتا ہے یہ عصمت انبیاء کے منافی نہیں (٣) یا مغفرت سے مراد ستر و حجاب ہے، مطلب یہ ہے کہ آپ کے اور آپ سے صدور ذنب کے درمیان ستر و حجاب حائل کر دے تاکہ آپ سے گناہ کا صدور ہی نہ ہو۔
قولہ :۔ لترغب امتک یہ جہاد پر مغفرت کے مرتب ہونے کی علت ہے، یعنی جہاد پر مغفرت مرتب ہونے کی وجہ سے تیری امت جہاد کی طرف راغب ہوگی۔
قولہ :۔ والسلام للعلۃ الغائیۃ لیغفر، میں لام علت غائیہ کا ہے نہ کہ باعثہ کا، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی فعل معلل بالا اغراض نہیں ہوسکتا یعنی کوئی شئی اس کو کسی فعل پر باعث (برانگیختہ، آمادہ) نہیں کرسکتی ہے، البتہ لام مذکور علت غائبیہ کے لئے ہوسکتا ہے، یعنی نتیجہ فعل کے لئے، جب بولتے ہیں، اشتدیت القلم لاکتب میں نے قلم خریدا لکھنے کے لئے، کتابت، اشتراء کی غایت ہے، لہٰذا لام کا مدخول یعنی مغفرت مسبب ہے نہ کہ سبب، سبب فتح ہے اور مسبب مغفرت ہے نہ کہ مغعفرت سبب ہو اور فتح مکہ مسبب، یعنی بذریعہ جہاد فتح مکہ مغفرت کا سبب ہے نہ کہ مغفرت فتح مکہ کا سبب
قولہ :۔ ویتم اس کا عطف یغفر پر ہے اور لام کے تحت میں ہے۔
قولہ :۔ ویتم اس کا عطف یغفر پر ہے اور لام کے تحت میں ہے۔
قولہ :۔ یثبتک اس اضافہ کا مقصد ایک اعتراض کا جواب ہے، اعتراض یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو شروع ہی سے ہدایت یافتہ تھے پھر آپ کے بارے میں ویھدیک صراطا مستقیما فرمانے کا کیا مطلب ہے ؟
جواب :۔ جواب کا ماحصل یہ ہے کہ ہدایت سے مراد ہدایت پر دوام و استقرار ہے۔
قولہ : ذاعز یہ بھی ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : سوال یہ ہے کہ عزیز، منصور کی صفت ہے نہ کہ نصر ٌ کی اور یہاں نصر کی صفت واقع ہو رہی ہے۔
جواب :۔ جواب حاصل یہ ہے کہ عزیز فعیل کے وزن پر ہے اور فعیل کا زن نسبت بیان کرنے کے لئے بھی آتا ہے جیسے فسقتہ میں نے اس کی فسق کی طرف نسبت کی یا اس کو فاسق کہا، اسی طرح یہاں بھی عزیز بمعنی ذوعز ہے اور ذوعز منصور ہی ہوتا ہے۔
قولہ :۔ فی المواضع الثلثۃ یعنی دو یہ اور تیسرا موقع وظننتم ظن السواء
(تنبیہ) یہ شارح علیہ الرحمتہ سے سبقت قلم ہے، اس لئے کہ اول اور تیسرے مقام میں بالاتفاق صرف فتحہ ہے، لہٰذا فسقتہ میں نے اس کی فسق کی طرف نسبت کی یا اس کو فاسق کہا، اسی طرح بھی عزیز بمعنی ذوعز ہے اور ذوعز منصور ہی ہوتا ہے۔
قولہ :۔ فی المواضع الثلثۃ یعنی دو یہ اور تیسرا موقع وظننتم ظن السواء
(تنبیہ) یہ شارح علیہ الرحمتہ سے سبقت قلم ہے، اس لئے کہ اول اور تیسرے مقام میں بالاتفاق صرف فتحہ ہے، لہٰذا صحیح یہ تھا کہ یوں فرماتے فی الموضع الثانی
قولہ :۔ والتاء فیہ یعنی لتومنوا باللہ میں یاء اور تاء دونوں قرائتیں ہیں، مگر تاء کی صورت میں یہ اعتراض ہوگا کہ لتومنوا باللہ، انا ارسلنک کا تتمہ ہے اور انا ارسلنک میں خطاب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے اور لتومنوا میں خطاب امت کو ہے کلام واحد میں انتشار مرجع لازم آتا ہے، جبکہ آخر کلام اول کلام کا تتمہ ہی ہے۔
جواب :۔ لتومنوا میں اگرچہ بظاہر خطبا امت کو معلوم ہوتا ہے مگر حقیقت میں خطاب آپ کو ہے اس لئے کہ آپ اصل امت ہیں لہٰذا اب کلام واحد میں تعدد مرجع لازم نہیں آتا۔
قولہ :۔ ھونحومن یطع الرسول فقد اطاع اللہ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک شبہ کا جواب ہے، شبہ یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیعت کو اللہ کی بیعت قرار دیا گیا ہے، اس سے اللہ کے لئے جوارح یعنی اعضاء کا شبہ ہوتا ہے اس لئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے اپنے ہاتھ پر بیعت لی تھی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے بھی ہاتھ پر بیعت لی ہوگی، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اس بیعت سے عقد میثاق مراد ہے اور یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے من یطع الرسول فقد اطاع اللہ یعنی جس طرح اطاعت رسول اللہ کی اطاعت ہے اسی طرح رسول اللہ سے بیعت، اللہ سے بیعت ہے۔
تفسیر و تشریح
سورت کا نام :
سورت کا نام پہلی آیت انا فتحنا لک فتحا مبینا سے ماخوذ ہے۔
صلح حدیبیہ کا واقعہ اجمالا :
جمہور صحابہ وتابعین اور ائمہ تفسیر کے نزدیک سورة فتح ٦ ھ میں اس وقت نازل ہوئی جبکہ آپ بقصد عمرہ صحابہ کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ مکہ کے لئے روانہ ہوئے اور حرم مکہ کے قریب مقام حدیبیہ تک پہنچ کر قیام فرمایا، مگر قریش مکہ نے آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا، پھر اس بات پر صلح کرنے کے لئے آمادہ ہوئے کہ اس سال تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس چلے جائیں، اگلے سال اس عمرہ کی قضا کریں، بہت سے صحابہ کرام بالخصوص حضرت عمر (رض) اس طرح کی صلح سے کبیدہ خاطر تھے، مگر آنحضرت نے باشارات ربانی اس صلح کو انجام کار مسلمانوں کے لئے ذریعہ کامیابی سمجھ کر قبول فرما لیا، جس کی تفصیل آئندہ پیش کی جائے گی جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا احرام عمرہ کھول دیا اور حدیبیہ سے واپس روانہ ہوئے تو راستہ میں یہ سورت نازل ہوئی، جس میں بتلا دیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خاب سچا ہے ضرور واقع ہوگا مگر اس کا یہ وقت نہیں اور اس صلح کو فتح مبین سے تعبیر فرمایا اس لئے کہ یہ صلح ہی درحقیقت فتح مکہ کا سبب بنی، چناچہ بہت سے صحابہ اور خود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صلح حدیبیہ ہی کو فتح مبین قرار دیتے تھے یہ سورت چونکہ واقعہ حدیبیہ میں نازل ہوئی ہے اور اس واقعہ کے بہت سے اجزاء کا خود اس سورت میں تذکرہ بھی ہے اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ کو تفصیل کے ساتھ پہلے ذکر کردیا جائے، ابن کثیر اور مظہری میں اس کی بڑی تفصیل ہے۔
واقعہ حدیبیہ کی تفصیل اور تاریخی پس منظر :
جن واقعات کے سلسلہ میں یہ سورت نازل ہوئی ان کی ابتداء کی عبدین حمید و ابن جریر و بیہقی کی روایت کے مطابق تفصیل اس طرح ہے کہ ایک روز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب میں دیکھا کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ مکہ مکرمہ تشریف لے گئے ہیں اور عمرہ کے احرام سے فارغ ہو کر حلق کرایا اور بعض لوگوں نے قصر کرایا اور یہ کہ آپ بیت اللہ میں داخل ہوئے اور بیت اللہ کی چابی آپ کے ہاتھ آئی، اس جزء کا ذکر بھی آگے اسی سورت میں آرہا ہے، انبیاء کا خواب چونکہ وحی ہوتا ہے جس کی رو سے اس خواب کا واقع ہونا ضروری تھا، مگر خواب میں اس واقعہ کے لئے کوئی سال یا مہینہ متعین نہیں کیا گیا تھا مگر درحقیقت یہ خواب فتح مکہ کی صورت میں واقع ہونے والا تھا۔
بظاہر اس واقعہ کے وقوع پذیر ہونے کے بالکل اسباب نہیں تھے اور نہ اس پر عمل کرنے کی بظاہر کوئی صورت نظر آتی تھی، ادھر کفار قریش نے چھ سال سے مسلمانوں کے لئے بیت اللہ کا راستہ بند کر رکھا تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلا تامل اپنا خواب صحابہ کرام کو سنایاتو وہ سب کے سب مکہ مکرمہ جانے اور بیت اللہ کا طواف کرنے وغیرہ کے ایسے مشتاق تھے کہ ان حضرات نے فوراً ہی تیاری شروع کردی، جب صحابہ کرام کی ایک بڑی تعداد تیار ہوگئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ارادہ فرما لیا۔ (روح المعانی ملخصاً )
ذوالقعدہ بروز پیر ٦ ھ کی ابتدائی تاریخوں میں یہ مبارک قافلہ مدینہ سے روانہ ہوا، ذوالحلیفہ جس کو اب بئر علی کہتے ہیں پہنچ کر سب نے عمرہ کا احرام باندھا، قربانی کے لئے ١٧٠ اونٹ ساتھ لئے، بخاری، ابودائود نسائی وغیرہ کی روایت کے مطابق روانگی سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غسل فرمایا، نیا لباس زیب تن فرمایا اور اپنی ناقہ قصویٰ پر سوار ہوئے، ام المومنین حضرت ام سلمہ کو ساتھ لیا آپ کے ہمراہ مہاجرین و انصار اور دیہات سے آنے والوں کا ایک بڑا مجمع تھا جن کی تعداد اکثر روایات میں چودہ سو بیان کی گئی ہے۔ (مظھری ملخصاً )
اہل مکہ کی مقابلہ کے لئے تیاری :
دوسری جانب اہل مکہ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک بڑی جماعت صحابہ کے ساتھ مکہ کے لئے روانہ ہونے کی خبر ملی، تو جمع ہو کر باہم مشرہ کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صحابہ کے ساتھ عمرہ کے لئے آرہے ہیں، اگر ہم نے ان کو مکہ میں آنے دیا تو پورے عرب میں یہ شہرت ہوجائے گی کہ وہ ہم پر غلبہ پاکر مکہ مکرمہ پہنچ گئے، حالانکہ ہمارے اور ان کے درمیان کئی جنگیں ہوچکی ہیں، آخر کار بڑی شش و پنج کے بعد ان کی جاہلانہ حمیت ہی ان پر غالب آ کر رہی اور انہوں نے اپنی ناک کی خاطر یہ فیصلہ کرلیا کہ کسی قیمت پر بھی اس قافلہ کو اپنے شوہر میں داخل نہیں ہونے دینا ہے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مخبر کی حیثیت سے بنی کعب کے ایک شخص کو آگے بھیج رکھا تھا کہ وہ قریش کے ارادوں اور ان کی نقل و حرکت سے آپ کو بروقت اطلاع کرتا رہے، جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عسفان پہنچے تو اس نے آ کر آپ کو اطلاع دی کہ قریش کے لوگ پوری تیاری کے ساتھ ذی طویٰ کے مقام پر پہنچ گئے ہیں اور خالد بن ولید کو انہوں نے دو سو سواروں کے ساتھ کراع الغمیم کی طرف بھیج دیا ہے، تاکہ وہ آپ کا راستہ روکیں، قریش کا مقصد آپ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا تھا تاکہ جنگ ہوجائے اور لڑائی شروع کرنے کا الزام آپ کے سر آجائے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ اطلاع پاتے ہی فوراً راستہ بدل دیا اور ایک نہایت ہی دشوار گذار راستہ سے سخت مشقت اٹھا کر حدیبیہ کے مقام پر پہنچ گئے جو عین حرم کی رسحد پر واقع ہے، خزاعہ کا سردار بدیل بن ورقاء اپنے قبیلہ کے چند آدمیوں کے ساتھ آپ کے پاس آیا اور آپ سے معلوم کیا کہ آپ کس غرض سے تشریف لائے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے صرف بیت اللہ کی زیارت اور اس کا طواف کرنے کیلئے آئے ہیں، یہی بات ان لوگوں نے جا کر قریش کے سرداروں کو بتادی اور ان کو مشورہ دیا کہ وہ ان زائرین حرم کا راستہ نہ روکیں، مگر وہ اپنی ضد پر اڑے رہے۔
خبر رسانی کا سادہ مگر عجیب طریقہ :
ان لوگوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حالات سے باخبر رہنے کا یہ انتظام کیا کہ مقام بلدح سے لیکر اس مقام تک جہاں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہنچ چکے تھے، پہاڑوں کی چوٹیوں پر کچھ آدمی بٹھادیئے تاکہ آپ کے پورے حالات دیکھ کر آپ کے متصل پہاڑ والا با آواز بلند دوسرے پہاڑ والے تک اور وہ تیسرے تک اور وہ چوتھے تک پہنچا دے اس طرح چند منٹوں میں بلدح والوں کو آپ کے حالات کا علم ہوجاتا تھا۔
قریش نے سفارت کاری کے لئے اول آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس احابیش کے سردار حلیس بن علقمہ کو بھیجا تاکہ وہ آپ کو واپس جانے پر آمادہ کرے، حلیس نے جب آ کر اپنی آکھوں سے دیکھ لیا کہ سارا قافلہ احرام بند ہے اور ہدی کے اونٹ ساتھ ہیں تو سمجھ گیا کہ ان کا مقصد بیت اللہ کا طواف و زیارت کرنا ہے، جنگ کرنا ان کا مقصد نہیں ہے، یہ حالات دیکھ کر آپ سے گفتگو کئے بغیر واپس چلا گیا اور اس نے جا کر قریش کے سرداروں سے صاف صاف کہہ دیا کہ یہ لوگ بیت اللہ کی زیارت اور طواف کے لئے آئے ہیں، اگر تم ان کو روکو گے تو میں اس کام میں تمہارا ساتھ ہرگز نہ دوں گا، ہم تمہارے حلیف ضرور ہیں مگر اس لئے نہیں کہ تم بیت اللہ کی حرمت کو پامال کرو اور ہم اس میں تمہاری حمایت کریں۔
عروہ بن مسعود سفارت کار کی حیثیت سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں :
اس کے بعد قریش کی طرف سے عروہ بن مسعود ثقفی آیا اس نے بڑی اونچ نیچ نشیب و فراز سمجھا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ آپ مکہ میں داخل ہونے کے ارادے سے باز آجائیں مگر آپ نے اس کو بھی وہی جواب دیا جو بنی خزاعہ کے سردار کو دیا تھا کہ ہم لڑائی کے ارادہ سے نہیں آئے ہیں بلکہ بیت اللہ کی زیارت اور طواف کے ارادہ سے آئے ہیں، عروہ نے واپس جا کر قریش سے کہا کہ میں قیصرو کسریٰ اور نجاشی کے درباروں میں بھی گیا ہوں مگر خدا کی قسم میں نے اصحاب محمد کی فدائیت کا جیسا منظر دیکھا ہے، ایسا منظر کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کے یہاں بھی نہیں دیکھا، ان کا حال تو یہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب وضو کرتے ہیں تو ان کے اصحاب پانی کا ایک قطرہ بھی زمین پر گرنے نہیں دیتے اور اسے اپنے جسم اور کپڑوں پر مل لیتے ہیں، اب تم سوچ لو تمہارا مقابلہ کس سے ہے ؟ اس دوران سفارت کاری کا عمل جاری تھا ایلیچوں کی آمد و رفت ہو رہی تھی اور گفت و شنید کا سلسلہ جاری تھا، قریش کے لوگ بار بار یہ کوشش کر رہے تھے کہ چپکے سے حضور کے کیمپ پر چھاپے مار کر آپ اشتعال دالئیں، اور کسی نہ کسی طرح ان سے ایسا اقدام کرا لیں جس سے لڑائی کا بہانہ ہاتھ آجائے، مگر ہر مرتبہ آپ کی تدبیروں اور صحابہ کے صبر وضبط نے ان کی تدبیروں کو ناکام کردیا، ایک دفعہ ان کے چالیس پچاس آدمی رات کے وقت مسلمانوں کے خیموں پر پتھر اور تیر برسانے لگے، صحابہ نے ان سب کو گرفتار کر کے آپ کی خدمت میں پیش کردیا ایک روز مقام تنعیم کی طرف سے ٨٠ آدمیوں نے عین نماز فجر کے وقت آ کر اچانک چھاپہ مار دیا، یہ لوگ بھی گرفتار کرلئے گئے، مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں بھی رہا کردیا۔
حضرت عثمان (رض) کی سفارتی مہم پر روانگی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قریش کے نام پیغام :
بدیل بن ورقاء اور عروہ بن مسعود ثقفی یکے بعد دیرگے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گفتوگ کر کے واپس چلے گئے اور قریش سے پوری صورت حال بیان کی اور بتایا کہ یہ لوگ لڑائی کے ارداہ سے نہیں بلکہ زیارت بیتا للہ کے ارادہ سے آئے ہیں لہٰذا ان کا راستہ رونا مناسب نہیں ہے مگر قریش پر جنگ کا جنون سوار تھا ان کی ایک نہ سنی اور آمادہ جنگ و پیکار ہوئے۔
امام بیہقی نے عروہ سے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حدیبیہ میں پہنچ کر قایم فرمایا تو قریش گھبرا گئے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارادہ کیا کہ ان کے پاس اپنا کوئی آمی بھیج کر بتلا دیں کہ ہم جنگ کرنے نہیں عمرہ کرنے آئے ہیں ہمارا راستہ نہ روک، اس کام کے لئے اول حضرت عمر (رض) کو بلایا، حضرت عمر نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ قریش میرے سخت دشمن ہیں کیونکہ ان کو میری عداوت اور شدت معلوم ہے اور میرے قبیلہ کا کوئی آدمی مکہ میں ایسا نہیں جو میری حمایت کرے اس لئے میں آپ کے سامنے ایک شخص کا نام پیش کرتا ہوں جو مکہ مکرمہ میں اپنے قبیلہ وغیرہ کی وجہ سے خاص قوت و عزت رکھتا ہے یعنی عثمان بن عفان، آپ نے حضرت عثمان کو اس کام کے لئے مامور فرما کر بھیج دیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی فرمایا کہ جو ضعفاء مسلمین مکہ سے ہجرت نہیں کرسکے اور مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں ان کے پاس جا کر تسلی دیں کہ پریشان نہ ہوں انشاء اللہ مکہ مکرمہ فتح ہو کر تمہاری مشکلات ختم ہونے کا وقت قریب آگیا ہے، حضرت عثمان غنی (رض) پہلے ان لوگوں کے پاس گئے جو مقام بلدح میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا راستہ روکنے کے لئے جمع ہوئے تھے، ان سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وہی بات سنا دی جو آپ نے بدیل اور عروہ بن مسعود وغیرہ کے سامنے کہی تھی ان لوگوں نے جواب دیا ہم نے پیغام سن لیا اپنے بزرگوں سے جا کر کہہ دو کہ یہ بات ہرگز نہ ہوگی، ان لوگوں کا جواب سن کر آپ مکہ مکرمہ کے اندر جانے لگے تو ابان بن سعید (جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) سے ملاقات ہوئی، انہوں نے حضرت عثمان کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور اپنی پناہ میں لیکر ان سے کہا کہ مکہ میں اپنا پیغام لیکر جہاں چاہیں جاسکتے ہیں، پھر اپنے گھوڑے پر حضرت عثمان کو سوار کر کے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے، کیونکہ ان کا قبیلہ بنو سعد مکہ مکرمہ میں بہت قوی اور عزت دار تھا، حضرت عثمان (رض) مکہ کے ایک ایک سردار کے پاس تشریف لے گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیغام سنایا اس کے بعد حضرت عثمان ضعفاء مسلمین سے ملے ان کو بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیغام پہنچایا وہ بہت خوش ہوئے جب حضرت عثمان پیغامات پہنچانے سے فارغ ہوگئے تو اہل مکہ نے ان سے کہا اگر آپ چاہیں تو طواف کرسکتے ہیں حضرت عثمان غنی نے فرمایا کہ میں اس وقت تک طواف نہیں کروں گا جب تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طواف نہ کریں۔
قریش کے ستر آدمیوں کی گرفتاری اور آپ کی خدمت میں پیشی :
اسی درمیان قریش نے اپنے پچاس آدمی اس کام پر لگائے کہ وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب پہنچ کر موقع کا انتظار کریں اور موقع ملنے پر (معاذ اللہ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قصہ تمام کردیں، یہ لوگ اسی تاک میں تھے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت و نگرانی پر مامور حضرت محمد بن مسلمہ (رض) نے ان سب کو گرفتار کرلیا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کردیا، حضرت عثمان غنی (رض) کے ساتھ تقریباً دس مسلمان اور مکہ میں پہنچ گئے تھے، قریش نے جب اپنے پچاس آدمیوں کی گرفتاری کا حال سنات و حضرت عثمان سمیت ان سب مسلمانوں کو روک لیا اور قریش کی ایک جماعت مسلمانوں کے لشکر کی طرف روانہ ہوئی اور مسلمانوں پر تیر اور پتھر پھینکنے شروع کردیئے، جس سے ایک صحابی ابن زنیم شہید ہوگئے اور مسلمانوں نے قریشیوں کے دس سواروں کو گرفتار کرلیا، ادھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی نے یہ خبر پہنچا دی کہ حضرت عثمان شہید کردیئے گئے، ان کے واپس نہ آنے سے مسلمانوں کو یقین ہوگیا کہ یہ خبر سچی ہے، اب مزید تحمل کا کوئی موقع نہیں تھا، کیونکہ جب نوبت سفیر کے قتل تک پہنچ گئیت و اب اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ مسلمان جنگ کے لئے تیار ہوجائیں۔
بیعت رضوان کا واقعہ :
حضرت عثمان کے قتل کی خبر سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام مسلمانوں کو جمع کیا اور ان سے اس بات پر بیعت لی، بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ بیعت موت پر تھی یعنی مرجائیں گے مگر قدم پیچھے نہ ہٹائیں گے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ بیعت عدم فرار اور کمال ثبات وقرار پر تھی، باوجودیکہ حالات بڑے نازک تھے، ظاہری حالات مسلمانوں کے موافق نہیں تھے، مسلمانوں کی تعداد صرف چودہ سو تھی اور سامان جنگ بھی سوائے تلوار کے پاس نہیں تھا اپنے مرکز سے ڈھائی سو میل دور عین مکہ کی سرحد پر ٹھہرے ہوئے تھے جہاں دشمن پوری طاقت کے ساتھ ان پر حملہ آور ہوسکتا تھا اور گرد و پیش سے اپنے حامی قبیلوں کو لا کر انہیں گھیرے میں لے سکتا تھا اس کے باوجود تمام صحابہ نے سوائے جدبن قیس کے کہ وہ اونٹ کے پیچھے چھپ کر بیٹھا رہا اور اس دولت خدا داد سے محروم رہا بیعت کی (خلاصتہ التفاسیر) سب سے پہلے ابوسنان اسدی نے ہاتھ بڑھایا، اس کے بعد یکے بعد دیگرے جملہ حاضرین نے بیعت کی، یہی وہ بیعت ہے جو ” بیعت رضوان “ کے نام سے تاریخ اسلام میں مشہور ہے، حضرت عثمان (رض) چونکہ موجود نہیں تھے اور وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کام میں تھے اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھ کر ان کی طرف سے بیعت کی اور اپنے دست مبارک کو حضرت عثمان (رض) تعالیٰ کا ہاتھ قرار دیا۔
بعد میں معلوم ہوا کہ حضرت عثمان کے قتل کی خبر غلط تھی، حضرت عثمان خود بھی واپس آگئے
فائدہ :۔ اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عالم الغیب نہیں تھے ورنہ غلط خبر پر یقین نہ کرتے اور قریش کی طرف سے سہیل بن عمرو کی قیادت میں ایک وفد بھی صلح کی بات چیت کرنے کے لئے حضور کی خدمت میں حاضر ہوا، اب قریش اپنی اس ضد سے ہٹ گئے کہ آپ کو مکہ میں سرے سے داخل ہی نہ ہونے دیں گے، البتہ اپنی ناک بچانے کے لئے ان کو صرف یہ اصرار تھا کہ آپ اس سال واپس چلے جائیں، آئندہ سال آپ عمرہ کے لئے آسکتے ہیں۔
قریش کے وفد کی سربراہی سہیل بن عمرو کر رہے تھے آپ نے ان کو دیکھتے ہی فرمایا، اب معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم نے صلح کا ارادہ کرلیا ہے کہ سہیل کو پھر بھیجا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چہار زانو بیٹھ گئے اور صحابہ میں سے عبادبن بشر اور سلمہ (رض) ہتھیاروں سے مسلح آنحضرت کے پاس حفاظت کے لئے کھڑے ہوگئے صلح کے مسئلہ پر فریقین میں طویل گفتگو ہوئی گفتگو کے دوران کبھی آوازیں بلند بھی ہوجاتی تھیں ایک مرتبہ سہیل کی آواز بلند ہوگئی تو عباد بن بشر نے سہیل کو ڈانٹا کہ حضو رکے سامنے آواز بلند نہ کر، طویل ردوکد اور بحث و مباحثہ کے بعد آپ صلح پر راضی ہوگئے، سہیل نے کہا لایئے ہم صلح نامہل کھ لیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو بلایا اور فرمایا لکھو، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، سہیل نے یہیں سے بحث شروع کردی کہ لفظ رحمٰن اور رحیم ہمارے محاورات میں نہیں ہے آپ یہاں وہی لفظ لھیں جو پہلے لکھا کرتے تھے، یعنی باسمک اللھم آپ نے اس کو مان لیا اور حضرت علی سے فرمایا ایسا ہی لکھ دو اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لکھو، یہ وہ عہد نامہ ہے۔
جس کا فیصلہ محمد رسول اللہ نے کیا ہے سہیل نے اس پر بھی اعتراض کیا اور بضد ہوئے اور کہا اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول مانتے تو آپ کو ہرگز بیت اللہ سے نہ روکتے (صلح نامہ میں کوئی ایسا لفظ نہ ہونا چاہیے جو کسی فریق کے عقیدہ کے خلاف ہو) آپ صرف محمد بن عبداللہ لکھوائیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو بھی منظور فرما کر حضرت علی (رض) سے فرمایا کہ جو لکھا ہے اس کو مٹا کر محمد بن عبد اللہ لکھ دو ، حضرت علی نے باوجود سراپا اطاعت ہونے کے عرض کیا، میں یہ کام تو نہیں کرسکتا، کہ آپ کے نام کو مٹا دوں، حاضرین میں سے حضرت اسید بن حضیر اور سعد بن عبادہ نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ لیا کہ اس کو نہ مٹائیں اور بجز محمد رسول اللہ کے اور کچھ نہ لکھیں اگر یہ لوگ نہیں مانتے تو ہمارے اور ان کے درمیان تلوار فیصلہ کرے گی اسی دوران چاروں طرف سے آوازیں بلند ہونے لگیں، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صلح نامہ کا کاغذ خود اپنے دست مبارک میں لے لیا اور باوجود اس کے کہ آپ امی تھے پہلے کبھی لکھا نہیں ت ھا مگر اس وقت خود اپنے قلم سے آپ نے یہ لکھا دیا، ھذا ماقاضی علیہ محمد بن عبداللہ وسہیل بن عمرو صلحا علی وضع الحرب عن الناس عشر سنین یامن فیہ الناس ویکف بعضھم عن بعض یعنی یہ وہ فیصلہ ہے جو محمد بن عبداللہ اور سہیل بن عمرو نے دس سال کے لئے باہم جنگ نہ کرنے کا کیا ہے جس میں سب لوگ مامون رہیں ایک دوسرے پر چڑھائی اور جنگ سے پرہیز کریں۔ (عارف ملخصاً )
گفت و شنید اور بحث مباحثہ کے بعد جو صلح نامہ لکھا گیا اس کی دفعات مندرجہ ذیل تھیں :
(١) دس سال تک فریقین کے درمیان جنگ بند رہے گی، اور ایک دوسرے کے خلاف خفیہ یا علانیہ کوئی کارروائی نہ کی جائے گی۔
٢۔ اس دوران قریش کا جو شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر بھاگ کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جائے گا، اسے آپس واپس کردیں گے اور آپ کے ساتھیوں سے جو شخص قریش کے پاس چلا جائے گا، وہ اسے واپس نہ کریں گے۔
(٣) قبائل عرب میں سے جو قبیلہ بھی فریقین میں سے کسی ایک کا حلیف بن کر اس معاہدے میں شامل ہونا چاہے گا اسے اس کا اختیار ہوگا۔
(٤) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سال واپس جائیں گے اور آئندہ سال وہ عمرہ کے لئے آ کر تین دن مکہ میں ٹھہر سکتے ہیں بشرطیکہ پر تلوں میں صرف ایک ایک تلوار لے کر آئیں اور کوئی سامان حرب ساتھ نہ لائیں، ان تین دنوں میں اہل مکہ ان کے لئے شہر خالی کردیں گے (تاکہ کسی تصادم کی نوبت نہ آئے) مگر جاتے وقت وہ یہاں کے کسی شخص کو ساتھ لیجانے کے مجاز نہ ہوں گے۔
شرائط صلح سے عام صحابہ کرام (رض) کی ناراضی اور رنج :
جس وقت معاہدے کی شرائط طے ہو رہی تھیں تو مسلمانوں کے خیمے میں سخت اضطراب تھا کوئی شخص بھی ان مصلحتوں کو نہیں سمجھ رہا تھا جنہیں نگاہ میں رکھ کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شرائط قبول فرما رہے تھے، کسی کی نظراتنی دور رس نہ تھی کہ اس صلح کے نتیجے میں جو خیر عظیم رونما ہونے والی تھی اسے دیکھ سکے، کفار قریش اسے اپنی کامیابی سمجھ رہے تھے اور مسلمان اس پر بےتاب تھے کہ ہم آخر دب کر ذلیل شرائط کیں قبول کریں ؟ حضرت عمر جیسے بالغ نظر مد بر تک کا یہ حال تھا کہ ان سے نہ رہا گیا اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا، یا رسول اللہ کیا آپ اللہ کے نبی برحق نہیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں پھر حضرت عمر نے عرض کیا، کیا ہمارے مقتولین جنت میں اور ان کے مقتولین جہنم میں نہیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں، اس پر پھر حضرت عمر نے فرمایا پھر ہم اس ذلت کو کیوں قبول کریں کہ بغیر عمرہ کئے واپس چلے جائیں۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ہرگز اس کے حکم کے خلاف نہ کروں گا اور اللہ تعالیٰ مجھے ضائع نہ فرمائے گا وہ میرا مددگار ہے، حضرت عمر (رض) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ کیا آپ نے ہم سے یہ نہیں فرمایا تھا کہ بیت اللہ کے پاس جائیں گے اور طواف کریں گے ؟ آپ نے فرمایا بیشک یہ کہا تھا مگر کیا میں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ کام اسی سال ہوگا، تو حضرت عمر نے فرمایا، آپ نے یہ تو نہیں فرمایا تھا تو پھر آپ نے فرمایا یہ واقعہ جیسا میں نے کہا تھا ہو کر رہے گا، آپ بیت اللہ کے پاس جائیں گے اور طواف کریں گے۔
حضرت عمر خاموش ہوگئے مگر غم و غصہ کم نہیں ہوا، حضرت عمر (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے اٹھ کر حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے پاس گئے اور اسی گفتگو کا اعادہ کیا جو حضور کے سامنے کی تھی، حضرت ابوبکر نے فرمایا محد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کے بندے اور اس کے رسول ہیں، وہ اللہ کے حکم کے خلاف کوئی کام نہ کیں گے اور اللہ ان کا مددگار ہے، اس لئے تم مرتے دم تک آپ کی رکاب تھامے رہو، خدا کی قسم وہ حق پر ہیں، غرض حضرت عمر فاروق کو ان شرائط صلح سے سخت رنج و غم پہنچا، خود انہوں نے فرمایا کہ واللہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا مجھے کبھی شک پیش نہیں آیا بجز اس واقعہ کے۔ (رواہ بخاری، معارف)
حضرت ابوعبیدہ نے سمجھایا اور فرمایا شیطان کے شر سے پناہ مانگو، فاروق اعظم نے کہا میں شیطان کے شر سے پناہ مانگتا ہوں، حضرت عمر فرماتے ہیں کہ جب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا تو میں برابر صدقہ خیرات کرتا اور روزے رکھتا اور غلام آزاد کرتا رہا کہ میری یہ خطاء معاف ہوجائے۔
ایک حادثہ اور پابندی معاہدہ کی بےنظیر مثال :
جس واقعہ نے جلتی پر تیل کا کام کیا وہ یہ تھا کہ عین اسی وقت کہ جب صلح کا معاہدہ لکھا جا رہا تھا اور صحابہ کرام اس معاہدے کی شرئاط سے برہم اور رنجیدہ تھے کہ اچانک سہیل بن عمرو (جو کہ قریش کی جانب سے معاہدہ کے فریق تھے) کے فرزند ابوجندل جو مسلمان ہوچکے تھے اور کفار مکہ نے ان کو قیدکر رکھا تھا کسی نہ کسی طرح بھاگ کر پابز نجیر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کیمپ میں پہنچ گئے، ان کے جسم پر تشدد کے نشانات تھے ابوجندل نے آپ سے پناہ کی درخواست کی کچھ مسلمان آگے بڑھے اور ابوجندل کو اپنی پناہ میں لے لیا، سہیل چلا اٹھا کہ یہ عہد نامہ کی خلاف ورزی ہے اگر اس کو واپس نہ کیا تو میں صلح کی کسی شرط کو نہ مانوں گا، مسلمانوں نے کہا ابھی صلح نامہ مکمل نہیں ہوا ابھی دستخط نہیں ہوئے، لہٰذا یہ واقعہ صلح نامہ کے تحت نہیں آتا، سہیل نے کہا صلح نامہ کی تحریر خواہ مکمل نہ ہوئی مگر شرائط تو ہمارے اور تمہارے درمیان طے ہوچکی ہیں، اس لئے اس لڑکے کو میرے حوالہ کیا جائے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی حجت کو تسلیم فرمایا اور ابوجندل کفار کے حوالہ کردیئے گئے، ابوجندل کو آواز دیکر فرمایا کہ اے ابوجندل تم چند روز اور صبر کرو، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اور ضعفاء مسلمین کے لئے جو مکہ میں محبوس ہیں جلد رہائی اور فراخی کا سامان کرنے والا ہے، مسلمانوں کے دلوں پر ابوجندل کے اس واقعہ نے نمک پاش کی مگر معاہدہ مکمل ہو چکات ھا، اس صلح نامہ پر مسلمان کی طرف سے ابوبکر و عمرو عبدالرحمٰن بن عوف اور عبداللہ بن سہیل بن عمرو، سعد بن ابی وقاص، محمود بن مسلمہ اور علی بن ابی طالب (رض) وغیرہ نے دستطخ کئے، اسی طرح مشرکین کی طرف سے سہیل کے ساتھ چند دوسرے لوگوں نے دستخط کئے۔
احرام کھولنا اور قربانی کے جانور ذبح کرنا :
صلح نامہ سے فراغت کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سب لوگ اپنی قربانی کے جانور جو ساتھ ہیں ان کی قربانی کردیں اور سر کے بال منڈوا کر احرام کھولدیں، صحابہ کرام کی غم کی وجہ سے یہ حالت ہوگئی تھی کہ آپ کے فرمانے کے باوجود کوئی اس کام کے لئے تیار نہ ہوا، اور غم و شکستگی کی وجہ سے کسی نے حرکت نہ کی، حضور کے پورے دور رسالت میں اس ایک موقع کے سوا کبھی یہ صورت پیش نہیں آئی کہ آپ صحابہ کو حکم دیں اور صحابہ اس کام کے لئے دوڑ نہ پڑیں، آنحضرت کو بھی اس صورتحال سے صدمہ ہوا، آپ نے اپنے خیمہ میں جاکر ام المومنین حضرت ام سلمہ (رض) سے اس کا اظہار فرمایا، انہوں نے عرض کیا آپ خاموشی کے ساتھ تشریف لے جا کر خود اپنا اونٹ ذبح فرما دیں، صحابہ کرام سے اس پر کچھ نہ کہیں ان کو اس وقت سخت صدمہ اور رنج شرائط صلح اور بغیر عمرہ کے واپسی کی وجہ سے ہے، آپ سب کے سامنے حجام کو بلا کر خود اپنا حلق کر کے احرام کھولدیں، آپ نے مشورہ کے مطابق ایسا ہی کیا صحابہ کرام نے جب دیکھا تو سب کھڑ ہوگئے، آپس میں ایک دوسرے کا حلق کرنے لگے اور جانوروں کی قربانی کرنے لگے، آپ نے سب کے لئے دعا فرمائی۔
معجزے کا ظہور :
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حدیبیہ کے مقام پر انیس یا بیس دن قیام فرمایا تھا، اب یہاں سے واپسی شروع ہوئی جب آپ صحابہ کے مجمع کے ساتھ پہلے مرالظہر ان پھر عسافن پہنچے، یہاں پہنچ کر مسلمانوں کا زادارہ تقریباً ختم ہوگیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دستر خان بچھایا اور سب کو حکم دیا کہ جس کے پاس جو کچھ ہے لاکر جمع کر دے، اس طرح جو کچھ باقی ماندہ کھانے کا سامانت ھا سب اس دستر خوان پر جمع ہوگیا، چودہ سو حضرات کا مجمع تھا، آپ نے دعاء، فرمائی سب نے شکم سیر ہو کر کھایا اور اپنے اپنے برتنوں میں بھی بھر لیا، اس کے بعد بھی اتنا ہی کھانا باقی تھا۔
صحابہ کے ایمان اور اطاعت رسول کا ایک اور امتحان اور صحابہ کی بےنظیر قوت ایمانی :
اس کے بعد جب یہ قافلہ حدیبیہ کی صلح کو اپنی شکست اور ذلت سمجھتا ہوا مدینہ کی طرف واپس جا رہا تھا، تو ضجنان کے مقام پر اور بقول بعض کرام الغمیم کے مقام پر سورة فتح نازل ہوئی، جس نے مسلمانوں کو بتایا کہ یہ صلح جس کو وہ شکست سمجھ رہے ہیں دراصل یہ فتح عظیم ہے، اس کے نازل ہونے کے بعد حضور نے مسلمانوں کو جمع فرمایا، اور فرمایا آج مجھ پر وہ چیز نازل ہوئی ہے جو میرے لئے دنیا ومافیہا سے زیادہ قیمتی ہے، پھر آپ نے یہ سورت تلاوت فرمائی، اور خاص طور سے حضرت عمر (رض) کو بلا کر اسے سنایا کیونکہ وہ سب سے زیادہ رنجیدہ تھے، صحابہ کرام کے قلوب تو اس طرح کی شرائط صلح کی وجہ سے پہلے زخم خوردہ اور غم زدہ تھے، اس سورت نے بتایا کہ یہ فتح مبین حاصل ہوئی ہے، حضرت عمر (رض) پھر سوال کر بیٹھے کہ یا رسول اللہ کیا یہ فتح ہے ؟ آپ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے یہ فتح مبین ہے، صحابہ کرام نے اس پر سرتسلیم خم کیا اور ان سب چیزوں کو ” فتح مبین “ یقین کیا۔
وفاء عہد کا دوسرا بےنظیر واقعہ
ابو جندل کے واقعہ کے بعد ابوصیر کا واقعہ پیش آیا، واقعہ یہ ہوا کہ ابو بصیر مسلمان ہو کر مدینہ آگئے ان کے پیچھے دو قریشی بھی ان کو واپس لینے کے لئے مدینہ منورہ آئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبصیر کو معاہدے کے مطابق ان کے حوالہ کردیا، ابوبصیر نے بہت آہ و فریاد کی مگر آپ نے فرمایا اے ابوبصیر ہمارے دین میں غدر و بےوفائی نہیں، اللہ تیرے اور تیرے ساتھیوں کے لئے کوئی صورت نکالنے والا ہے، مجبوراً ابو بصیر قریشیوں کے ساتھ چلے گئے، راستہ میں ابوبصیر نے ان میں سے ایک سے کہا تیریت لوار چھی نہیں معلوم ہوتی، دوسرے نے تلوار نکالی اور کہا میری تلوار نہایت عمدہ ہے میں اس کا تجربہ کرچکا ہوں، ابوبصیر نے کہا میں بھی ذرا دیکھوں تلوار ان کو دیدی، قریشی بیخبر غفلت میں تھے، دفعتاً آن واحد میں ابوبصیر نے چابکدستی سے ایک ہی وار میں سرتن سے جدا کردیا، دوسرا بھاگ کھڑا ہوا، یہ اس کے پیچھے لپکے مگر وہ بھاگ کر مدینہ میں داخل ہوگیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فریاد کی، اتنے میں ابوبصیر بھی آگئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ نے حسب معاہدہ مجھے ان کے حوالہ کردیا، اب اللہ نے مجھے چھڑا لیا ہے، آپ نے فرمایا اے ابوبصیر تو لڑائی کی آگ بھڑکانے والا ہے، کاش اس کے ساتھ دوسرا بھی ہوتا، ابو بصیر سمجھ گئے اور مقام سیف البحر میں آ کر قیام کیا، جو لوگ مکہ میں تھے اور اپنا اسلام چھپائے ہوئے یا مشرکین مکہ کے مظالم برداشت کر رہے تھے مثلاً ابوجندل وغیرہ جب انہوں نے سنا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ کاش ابوبصیر کے ساتھ دوسرا ہوتا تو وہ لوگ بھی ایک ایک کر کے سف البحر پہنچ کر ابو بصیر کے گروہ میں شامل ہوگئے حتی کہ ان کی تعداد ستر تک پہنچ گئی، ادھر مشرکین مکہ کا جو قافلہ اس راستہ سے گذرتا اس سے مزاحمت کرتے آسانی سے مشرکین کا قافلہ نہیں گذر سکتا تھا، مشرکین مکہ اس سے تنگ آگئے، جب نہایت عاجز ہوگئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم اس شرط سے دست بردار ہوتے ہیں، اب آذئندہ جو بھی مسلمان ہو کر آپ کے پاس آئے آپ اس کو پناہ دیجیے اور خدا کے واسطے ابوبصیر کے گروہ کو ہماری مزاحمت سے منع کیجیے، مومنین نے اللہ کی مدد دیکھی اور بہت خوش ہوئے، ابوبصیر کا گروہ بھی مدینہ آگیا اور آئندہ کے لئے راہ کھل گئی، اس واقعہ کا اکثر حصہ بخاری سے ہے اور کچھ دیگر کتب سے ہے۔ (خلاصہ التفاسیر)
10 Tafsir as-Saadi
اس فتح مذکور سے مراد صلح حدیبیہ ہے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب مشرکین مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روکا جبکہ آپ عمرہ کرنے کے لئے مکہ مکرمہ آئے۔ یہ ایک طویل قصہ ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرکین کے ساتھ دس سال تک جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کرلیا، اس شرط پر کہ آپ آئندہ سال عمرہ کریں گے۔ جو کوئی قریش کے معاہدے میں داخل ہو کر حلیف بننا چاہے ایسا کرسکتا ہے اور جو کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں داخل ہو کر آپ کا حلیف بننا چاہے وہ ایسا کرسکتا ہے۔
اس کا سبب یہ تھا کہ جب لوگ ایک دوسرے سے مامون ہوں گے تو دعوت دین کا دائرہ وسیع ہوگا، سرزمین کے طول و عرض مومن جہاں کہیں بھی ہوگا، وہ دین کی دعوت دے سکے گا جو شخص حقیقت اسلام سے واقفیت حاصل کرنا چاہتا ہے اس کے لئے واقفیت حاصل کرنا ممکن ہوجائے گا۔ اس مدت کے دوران لوگ فوج در فوج اللہ تعالیٰ کے دین میں داخل ہوئے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس صلح کو ” فتح“ کے نام سے موسوم کرکے اس کو ” فتح مبین“ کی صفت سے موصوف کیا، یعنی واضح فتح۔ کیونکہ مشرکین کے شہروں کو فتح کرنے کا مقصد اللہ تعالیٰ کے دین کا اعزاز اور مسلمانوں کی نصرت ہے اور یہ مقصد اس فتح سے حاصل ہوگیا، اس فتح پر اللہ تعالیٰ نے متعدد امور مرتب فرمائے۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( aey payghumber ! ) yaqeen jano , hum ney tumhen khuli hoi fatah ata kerdi hai ,
12 Tafsir Ibn Kathir
ذی قعدہ سنہ\0\06ہجری میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عمرہ ادا کرنے کے ارادے سے مدینہ سے مکہ کو چلے لیکن راہ میں مشرکین مکہ نے روک دیا اور مسجد الحرام کی زیارت سے مانع ہوئے پھر وہ لوگ صلح کی طرف جھکے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس بات پر کہ اگلے سال عمرہ ادا کریں گے ان سے صلح کرلی جسے صحابہ کی ایک بڑی جماعت پسند نہ کرتی تھی جس میں خاص قابل ذکر ہستی حضرت عمر فاروق کی ہے آپ نے وہیں اپنی قربانیاں کیں اور لوٹ گئے جس کا پورا واقعہ ابھی اسی سورت کی تفسیر میں آرہا ہے، انشاء اللہ۔ پس لوٹتے ہوئے راہ میں یہ مبارک سورت آپ پر نازل ہوئی جس میں اس واقعہ کا ذکر ہے اور اس صلح کو بااعتبار نتیجہ فتح کہا گیا۔ ابن مسعود وغیرہ سے مروی ہے کہ تم تو فتح فتح مکہ کو کہتے ہو لیکن ہم صلح حدیبیہ کو فتح جانتے تھے۔ حضرت جابر سے بھی یہی مروی ہے، صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت براء فرماتے ہیں تم فتح مکہ کو فتح شمار کرتے ہو اور ہم بیعت الرضوان کے واقعہ حدیبیہ کو فتح گنتے ہیں۔ ہم چودہ سو آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اس موقعہ پر تھے حدیبیہ نامی ایک کنواں تھا ہم نے اس میں سے پانی اپنی ضرورت کے مطابق لینا شروع کیا تھوڑی دیر میں پانی بالکل ختم ہوگیا ایک قطرہ بھی نہ بچا آخر پانی نہ ہونے کی شکایت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کانوں میں پہنچی آپ اس کنویں کے پاس آئے اس کے کنارے بیٹھ گئے اور پانی کا برتن منگوا کر وضو کیا جس میں کلی بھی کی پھر کچھ دعا کی اور وہ پانی اس کنویں میں ڈلوا دیا تھوڑی دیر بعد جو ہم نے دیکھا تو وہ تو پانی سے لبالب بھرا ہوا تھا ہم نے پیا جانوروں نے بھی پیا اپنی حاجتیں پوری کیں اور سارے برتن بھر لئے۔ مسند احمد میں حضرت عمر بن خطاب سے مروی ہے کہ ایک سفر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھا تین مرتبہ میں نے آپ سے کچھ پوچھا آپ نے کوئی جواب نہ دیا اب تو مجھے سخت ندامت ہوئی اس امر پر کہ افسوس میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف دی آپ جواب دینا نہیں چاہتے اور میں خوامخواہ سر ہوتا رہا۔ پھر مجھے ڈر لگنے لگا کہ میری اس بےادبی پر میرے بارے میں کوئی وحی آسمان سے نہ نازل ہو چناچہ میں نے اپنی سواری کو تیز کیا اور آگے نکل گیا تھوڑی دیر گذری تھی کہ میں نے سنا کوئی منادی میرے نام کی ندا کر رہا ہے میں نے جواب دیا تو اس نے کہا چلو تمہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یاد فرماتے ہیں اب تو میرے ہوش گم ہوگئے کہ ضرور کوئی وحی نازل ہوئی اور میں ہلاک ہوا جلدی جلدی حاضر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا گذشتہ شب مجھ پر ایک سورت اتری ہے جو مجھے دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے پھر آپ نے آیت ( اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا ۙ ) 48 ۔ الفتح :1) ، تلاوت کی۔ یہ حدیث بخاری ترمذی اور نسائی میں بھی ہے حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں حدیبیہ سے لوٹتے ہوئے آیت (لیغفرک لک اللہ) الخ، نازل ہوئی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھ پر ایک آیت اتاری گئی ہے جو مجھے روئے زمین سے زیادہ محبوب ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھ سنائی صحابہ آپ کو مبارکباد دینے لگے اور کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ تو ہوئی آپ کے لئے ہمارے لئے کیا ہے ؟ اس پر یہ آیت ( لِّيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا وَيُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَيِّاٰتِهِمْ ۭ وَكَانَ ذٰلِكَ عِنْدَ اللّٰهِ فَوْزًا عَظِيْمًا ۙ ) 48 ۔ الفتح :5) نازل ہوئی (بخاری و مسلم) حضرت مجمع بن حارثہ انصاری جو قاری قرآن تھے فرماتے ہیں حدیبیہ سے ہم واپس آرہے تھے کہ میں نے دیکھا کہ لوگ اونٹوں کو بھگائے لئے جا رہے ہیں پوچھا کیا بات ہے معلوم ہوا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی وحی نازل ہوئی ہے تو ہم لوگ بھی اپنے اونٹوں کو دوڑاتے ہوئے سب کے ساتھ پہنچے آپ اس وقت کراع الغمیم میں تھے جب سب جمع ہوگئے تو آپ نے یہ سورت تلاوت کر کے سنائی تھی ایک صحابی نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا یہ فتح ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے یہ فتح ہے، خیبر کی تقسیم صرف انہی پر کی گئی جو حدیبیہ میں موجود تھے اٹھارہ حصے بنائے گئے کل لشکر پندرہ سو کا تھا جس میں تین سو گھوڑے سوار تھے پس سوار کو دوہرا حصہ ملا اور پیدل کو اکہرا۔ (ابو داؤد وغیرہ) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں حدیبیہ سے آتے ہوئے ایک جگہ رات گذارنے کیلئے ہم اتر کر سو گئے تو ایسے سوئے کہ سورج نکلنے کے بعد جاگے، دیکھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی سوئے ہوئے ہیں ہم نے کہا آپ کو جگانا چاہیے کہ آپ خود جاگ گئے اور فرمانے لگے جو کچھ کرتے تھے کرو اور اسی طرح کرے جو سو جائے یا بھول جائے۔ اسی سفر میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی کہیں گم ہوگئی ہم ڈھونڈنے نکلے تو دیکھا کہ ایک درخت میں نکیل اٹک گئی ہے اور وہ رکی کھڑی ہے اسے کھول کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لائے آپ سوار ہوئے اور ہم نے کوچ کیا ناگہاں راستے میں ہی آپ پر وحی آنے لگی وحی کے وقت آپ پر بہت دشواری ہوتی تھی جب وحی ہٹ گئی تو آپ نے ہمیں بتایا کہ آپ پر سورة ( اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا ۙ ) 48 ۔ الفتح :1) ، اتری ہے (ابو داؤد، ترمذی مسند وغیرہ) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نوافل تہجد وغیرہ میں اس قدر وقت لگاتے کہ پیروں پر ورم چڑھ جاتا تو آپ سے کہا گیا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف نہیں فرما دیئے ؟ آپ نے جواب دیا کیا پھر میں اللہ کا شکر گذار غلام نہ بنوں ؟ (بخاری ومسلم) اور روایت میں ہے کہ یہ پوچھنے والی ام المومنین عائشہ تھیں (مسلم) پس مبین سے مراد کھلی صریح صاف ظاہر ہے اور فتح سے مراد صلح حدیبیہ ہے جس کی وجہ سے بڑی خیرو برکت حاصل ہوئی لوگوں میں امن وامان ہوا مومن کافر میں بول چال شروع ہوگئی علم اور ایمان کے پھیلانے کا موقعہ ملا آپ کے اگلے پچھلے گناہوں کی معافی یہ آپ کا خاصہ ہے جس میں کوئی آپ کا شریک نہیں۔ ہاں بعض اعمال کے ثواب میں یہ الفاظ اوروں کے لئے بھی آئے ہیں، اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بہت بڑی شرافت و عظمت ہے آپ اپنے تمام کاموں میں بھلائی استقامت اور فرمانبرداری الہٰی پر مستقیم تھے ایسے کہ اولین و آخرین میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا آپ تمام انسانوں میں سب سے زیادہ اکمل انسان اور دنیا اور آخرت میں کم اولاد آدم کے سردار اور رہبر تھے۔ اور چونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے زیادہ اللہ کے فرمانبردار اور سب سے زیادہ اللہ کے احکام کا لحاظ کرنے والے تھے اسی لئے جب آپ کی اونٹنی آپ کو لے کر بیٹھ گئی تو آپ نے فرمایا اسے ہاتھیوں کے روکنے والے نے روک لیا ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے آج یہ کفار مجھ سے جو مانگیں گے دوں گا بشرطیکہ اللہ کی حرمت کی ہتک نہ ہو پس جب آپ نے اللہ کی مان لی اور صلح کو قبول کرلیا تو اللہ عزوجل نے فتح سورت اتاری اور دنیا اور آخرت میں اپنی نعمتیں آپ پر پوری کیں اور شرع عظیم اور دین قدیم کی طرف آپ کی رہبری کی اور آپ کے خشوع و خضوع کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بلند وبالا کیا آپ کی تواضع، فروتنی، عاجزی اور انکساری کے بدلے آپ کو عز و جاہ مرتبہ منصب عطا فرمایا آپ کے دشمنوں پر آپ کو غلبہ دیا چناچہ خود آپ کا فرمان ہے بندہ درگذر کرنے سے عزت میں بڑھ جاتا ہے اور عاجزی اور انکساری کرنے سے بلندی اور عالی رتبہ حاصل کرلیتا ہے۔ حضرت عمر بن خطاب کا قول ہے کہ تو نے کسی کو جس نے تیرے بارے میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ہو ایسی سزا نہیں دی کہ تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے۔