الحجرات آية ۱۱
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ يَّكُوْنُوْا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاۤءٌ مِّنْ نِّسَاۤءٍ عَسٰۤى اَنْ يَّكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّۚ وَلَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِۗ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِيْمَانِ ۚ وَمَنْ لَّمْ يَتُبْ فَاُولٰۤٮِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
طاہر القادری:
اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ اُن (تمسخر کرنے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے وہی عورتیں اُن (مذاق اڑانے والی عورتوں) سے بہتر ہوں، اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھا کرو، کسی کے ایمان (لانے) کے بعد اسے فاسق و بدکردار کہنا بہت ہی برا نام ہے، اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں،
English Sahih:
O you who have believed, let not a people ridicule [another] people; perhaps they may be better than them; nor let women ridicule [other] women; perhaps they may be better than them. And do not insult one another and do not call each other by [offensive] nicknames. Wretched is the name [i.e., mention] of disobedience after [one's] faith. And whoever does not repent – then it is those who are the wrongdoers.
1 Abul A'ala Maududi
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہی ظالم ہیں
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والو نہ مَرد مَردوں سے ہنسیں عجب نہیں کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے، دور نہیں کہ وہ ان ہنسے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو کیا ہی برا نام ہے مسلمان ہوکر فاسق کہلانا اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں،
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو ایک قوم دوسری قوم سے ٹھٹھا نہ کرے عجب نہیں کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں سے ٹھٹھا کریں کچھ بعید نہیں کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور ایک دوسرے کو طعنے نہ دو اور نہ ایک دوسرے کے نام دھرو فسق کے نام لینے ایمان لانے کے بعد بہت برے ہیں اور جو باز نہ آئیں سووہی ظالم ہیں
4 Ahsanul Bayan
اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں (۱) اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ (۲) اور نہ کسی کو برے لقب دو (۳) ایمان کے بعد فسق برا نام ہے، (٤) اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیں۔
۱۱۔ ۱ ایک شخص دوسرے کسی شخص کا استہزا یعنی اس سے مسخرا پن اسی وقت کرتا ہے جب وہ اپنے کو اس سے بہتر اور اس کو اپنے سے حقیر اور کمتر سمجھتا ہے حالانکہ اللہ کے ہاں ایمان وعمل کے لحاظ سے کون بہتر ہے اور کون نہیں۔ اس کا علم صرف اللہ کو ہے اس لیے اپنے کو بہتر اور دوسرے کو کم تر سمجنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے بنا بریں آیت میں اس سے منع فرما دیا گیا ہے اور کہتے ہیں کہ عورتوں میں یہ اخلاقی بیماری زیادہ ہوتی ہے اس لیے عورتوں کا الگ ذکر کر کے انہیں بھی بظور خاص اس سے روک دیا گیا ہے اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں لوگوں کے حقیر سمجھنے کو کبر سے تعبیر کیا گبا ہے الکبر بطر الحق وغمط الناس اور کبر اللہ کو نہایت ہی ناپسند ہے۔
١١۔۲ یعنی ایک دوسرے پر طعنہ زنی مت کرو، مثلاً تو فلاں کا بیٹا ہے، تیری ماں ایسی ویسی ہے، تو فلاں خاندان کا ہے نا وغیرہ۔
۱۱۔۳ یعنی اپنے طور پر استزاء اور تحقیر کے لیے لوگوں کے ایسے نام رکھ لینا جو انہیں ناپسند ہوں یا اچھے بھلے ناموں کو بگاڑ کر بولنا یہ تنابز بالالقاب ہے جس کی یہاں ممانعت کی گئی ہے
۱۱۔٤ یعنی اس طرح نام بگاڑ کر یا برے نام تجریز کر کے بلانا یا قبول اسلام اور توبہ کے بعد اسے سابقہ دین یا گناہ کی طرف منسوب کر کے خطاب کرنا مثلا اے کافر اے زانی یا شرابی وغیرہ یہ بہت برا کام ہے الاسم یہاں الذکر کے معنی میں ہے یعنی بئس الاسم الذی یذکر بالفسق بعد دخولھم فی الایمان فتح القدیر۔ البتہ اس سے بعض وہ صفاتی نام بعض حضرات کے نزدیک مستثنی ہیں جو کسی کے لیے مشہور ہو جائیں اور وہ اس پر اپنے دل میں رنج بھی محسوس نہ کریں جیسے لنگڑے پن کی وجہ سے کسی کا نام لنگڑا پڑ جائے کالے رنگ کی بنا پر کالیا یا کالو مشہور ہو جائے وغیرہ۔ القرطبی ۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
مومنو! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے (تمسخر کریں) ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں۔ اور اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کا برا نام رکھو۔ ایمان لانے کے بعد برا نام (رکھنا) گناہ ہے۔ اور جو توبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں
6 Muhammad Junagarhi
اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہو اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے یہ ان سے بہتر ہوں، اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو۔ ایمان کے بعد فسق برا نام ہے، اور جو توبہ نہ کریں وہی ﻇالم لوگ ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کامذاق نہ اڑائے ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کامذاق اڑائیں ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ آپس میں ایک دوسرے کو طعنہ دو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب کے ساتھ پکارو۔ ایمان لانے کے بعد فاسق کہلانا کتنا برا نام ہے اور جو توبہ نہیں کریں گے (باز نہیں آئیں گے) وہی لوگ ظالم ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ایمان والو خبردار کوئی قوم دوسری قوم کا مذاق نہ اڑائے کہ شاید وہ اس سے بہتر ہو اور عورتوں کی بھی کوئی جماعت دوسری جماعت کا مسخرہ نہ کرے کہ شاید وہی عورتیں ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو طعنے بھی نہ دینا اور اِرے اِرے القاب سے یاد بھی نہ کرنا کہ ایمان کے بعد بدکاریً کا نام ہی بہت اِرا ہے اور جو شخص بھی توبہ نہ کرے تو سمجھو کہ یہی لوگ درحقیقت ظالمین ہیں
9 Tafsir Jalalayn
مومنو ! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے (تمسخر کریں) ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں اور اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کا برا نام (رکھو) ایمان لانے کے بعد برا نام رکھنا گناہ ہے اور جو توبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں
ترجمعہ :۔ اے ایمان والو ! نہ تو مرد مردوں کا مذاق اڑائیں ہوسکتا ہے کہ وہ عنداللہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا ممکن ہے کہ وہ عورتیں ان عورتوں سے بہتر ہوں، یہ آیت و فد نبی تمیم کے بارے میں نازل ہوئی، جبکہ انہوں نیفقرائے مسلمین کا تمسخر کیا تھا، مثلاً عمار صہیب کا اور سخریہ تحقیر و تذلیل کو کہتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگائو کہ تم عیب جوئی کرو تو تمہاری عیب جئوی کی جائے، یعنی کوئی کسی کی عیب جوئی نہ کرے اور نہ کسی کو برالقب دو ، یعنی آپس میں ایک دوسرے کو ایسے لقب سے نہ پکارو جس کو وہ ناپسند کرے اور ان ہی (برے القاب) میں سے یا فاسق یا کافر ہے، (صفت) ایمان سے متصف ہونے کے بعد فسق مذکورہ کا نام کہ وہ تمسخر اور عیب جوئی اور برے لقب رکھنا ہیں لگنا برا ہے (الفسوق) اسم سے بدل ہے، اس بات کا فائدہ دینے کی وجہ سے کہ (نام بگاڑنا) عادۃ بار بار ہوتا ہے اور گناہ صغیر، پر اصرار کی وجہ سے (صغیرہ کبیر ہوجاتا ہے) اور اس سے توبہ نہ کرنے والے ہی ظالم لوگ ہیں، اور اے ایمان والو ! بہت بدگمانیوں سے بچو یقین مانو کہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں یعنی گنہگار کرنے والی ہیں اور یہ کثیر ہے، جیسا کہ منین اہل خیر کے ساتھ بدگمانی اور وہ (اہل خیر) کثیر ہیں بخلاف اس بدظنی کے، مومنین فساق میں تو اس بدگمانی میں گناہ نہیں ہے ان گناہوں کے بارے میں جن کو وہ کھلم کھلا کرتے ہیں اور کسی (کے عیب) نہ ٹٹولا کرو اور کوئی کسی کی غیبت بھی نہ کیا کرے (تجسسوا) سے ایک تاء حذف کردی گئی ہے (یعنی) مسلمانوں کے عیوب اور رازوں کی جستجو میں نہ رہا کو اور نہ اس کا کوئی ایسی چیز سے تذکرہ کرے جس کو وہ ناپسند کرے اگرچہ وہ چیز اس کے اندر موجود ہو کہ تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ اس غیبت سے بیخبر بھائی کا گوشت کھائے (میتاً ) تخفیف اور تشدید کے ساتھ ہے (یقینا) نہیں پسند کرے گا لہٰذا تم اس بات کو (بھی) ناپسند کرو، اس لئے کہ اس کی زندگی میں اس کی غیبت کرنا اس کے مرنے کے بعد اس کا گوشت کھانے کے مانند ہے اور تمہارے سامنے ثانی پیش کیا گیا تو تم نے اس کو ناپسند کیا تو اول کو بھی ناپسند کرو اور اللہ سے ڈرتے ہو یعنی غیب کے بارے میں اس کی سزا سے، اس طریقہ سے کہ اس سے توبہ کرو، بیشک اللہ بڑا توبہ کا قبول کرنے والا ان پر مہربان ہ، یعنی توبہ کرنے والوں کی توبہ کو قبول کرنے والا ہے، اے لوگو ! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا آدم و حواء سے اور ہم نے تم کو قومیں اور قبیلے بنایا شعوب شعب کی جمع ہے شین کے فتحہ کے ساتھ اور وہ (شب) نسب کے طبقات میں سب سے اوپر ہے اور قبیلہ یہ شعب سے نیچے ا ہے اور اس سے نیچے عمائر ہے، پھر بطون ہے اس سے نیچے افخاذ ہے اور ان سب سے آخر میں فیصلہ ہے، اس کی ماثل خزیمہ شعب ہ، کنانہ قبیلہ ہے، قریش عمارہ ہے عین کے کسرہ کے ساتھ اور قصی بطن ہے، ہاشم فخذ ہے، عباس فصیلہ ہے، تاکہ تم ایک دوسرے کو شناخت کرسکو، (تعارفوا) سے ایک تاء حذف کردی گئی تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو نہ کہ عالی نسبی پر فخر کرو اور فخر تو صرف تقویٰ کی وجہ سے ہے اور تم میں سب سے زیادہ شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے اللہ تعالیٰ تمہارے بارے میں خوب جاننے والا اور تمہارے طبقات نسب سے پوری طرح باخبر ہے، بنو اسد کے دیہاتیوں کی ایک جماعت کہتی ہے کہ ہم ایمان لے آئے، یعنی ہم نے اپنے قلوب سے تصدیق کردی آپ ان سے فرمایئے کہ تم ایمان تو نہیں لائے لیکن یوں کہو ہم اسلام لائے یعنی ظاہری طور پر تابع فرمان ہوگئے لیکن ابھی تک تمہاریقلوب میں ایمان داخل نہیں ہوا، لیکن تم سے اس کی توقع رکھی جاسکتی ہے تم اگر اللہ کی اور اس کے رسول کی ایمان وغیرہ میں فرمانبرداری کرنے لگو گے تو وہ تمہارے اعمال میں سے یعنی ان کے ثواب میں سے کچھ بھی کم نہ کرے گا (یالتکم) ہمزہ اور ترک ہمزہ کے ساتھ ہے اور ہمزہ کو الف سے بدل کر یعنی تمہارے اجر کو کم نہ کرے گا، بیشک اللہ تعالیٰ مومنین کو معاف کرنے والا اور ان پر رحم کرنے والا ہے، مومن تو وہ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے یعنی اپنے ایمان میں سچے ہوں جیسا کہ بعد میں اس کی صراحت فرمائی پھر انہوں نے ایمان میں شک نہ کیا اور اپنے مال میں سے اور اپنی جانوں سے اللہ کے راستہ میں جہاد کیا ان کے جہاد سے ان کے ایمان کی صداقت ظاہر ہوتی ہے (اپنے دعوائے ایمان میں) یہی لوگ سچے ہیں نہ کہ وہ جن کی طرف سے سوائے ظاہری اتباع کے کچھ نہ پایا گیا، آپ ان سے کہہ دیجیے کیا تم اللہ کو اپنی دینداری کی خبر دیتے ہو تعلمون علم کا مضعف ہے بمعنی شعر یعنی کیا تم اس کو آگاہ کرتے ہو اس بات سے جس پر تم اپنے قول آمنا میں ہو او اللہ ہر اس چیز سے جو آسمانوں اور زمین میں ہے واقف ہے یہ لوگ بغیرقتال کے اسلام لانے کا آپ پر احسان جتاتے ہیں بخلاف دوسروں کے کہ وہ قتال کے بعد اسلام لائے آپ کہہ دیجیے اپنے اسلام لانے کا مجھ پر احسان نہ رکھو (اسلامکم) نزع خافض باء کی وجہ سے منصوب ہے اور دونوں جگہوں پر ان سے پہلے بار مقدر ہے بلکہ (درحقیقت) اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تم کو ایمان کی ہدایت بخشی، بشرطیکہ اپنے قول آمنا میں سچے ہو۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کی سب مخفی چیزوں کو جانتا ہے یعنی زمین و آسمان میں جو چیزیں پوشید ہیں اور اللہ تعالیٰ تمہارے سب اعمال کو بھی جانتا ہے یاء اور تاء کے ساتھ ان میں سے اس پر کوئی شئی مخفی نہیں ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : لایستخر مضارع منفی واحد مذکر غائب (س) سخر ٹھٹھا کرنا، مذاق کرنا۔
قولہ : الاذدراء والاحتقار یہ عطف تفسیری ہے، تحقیر و تذلیل کرنا۔
قولہ : قوم ای رجال، رجال سے اشارہ کردیا کہ قوم اسمع جمع ہے بمعنی رجال چونکہ قوم نساء کے مقابل ہمیں واقع ہے اس لئے اس سے یہاں مرد مراد ہیں اور لغت عرب میں بھی قوم رجال کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
قال الشاعر :
وما ادری ولست اخال دری اقوم آل حضن ام نساء
شاعر کی مراد ” قوم “ سے ” رجال “ ہیں اور رجالکوقوم اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ قوامون علی النساء ہیں اب رہا مطلقاً مردوں اور عورتوں کو قوم کہنا، جیسا کہ قوم فرعون اور قوم عاد وغیرہ تو وہ بطر تبعیت ہے اصالۃ قوم رجال ہی کو کہا جاتا ہے۔
قولہ : عسی اذیکون جملہ مستانفہ ہے بیان علت کے لئے اور عسی فاعل کی وجہ سے خبر سے مستغنی ہے۔
قولہ : اللمز، لمز اشارہ کر دن بچشم، آنکھ وغیرہ سے اشارہ کرنا۔
قولہ : لاتعیبوا فتعابوا یہ لاتلمزوا انفسکم کی توجیہ ہے یعنی اگر تم دوسروں کا عیب نکالو گے تو لوگ تمہارا عیب نکالیں گے، اس طرح گویا کہ تم خود اپنا خود اپنا عیب نکالو گے، یہ من ضحک ضحک کے قبیل سے ہے، جس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لاتسبوا آبائکم، اپنے والدین کو گالی مت دو ، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ اپنے آباء کو کون گالی دے گا آپ نے فرمایا : اگر تم کسی کے آباء کو گالی دو گے تو وہ تمہارے آباء کو گالی دے گا، اس طرح گویا کہ تم اپنے آباء کو گالی دینے والے ہوئے۔
قولہ : امی لایعیب بعضکم بعضاً یہ لائلمزا انفسکم کی دوسری توجیہ ہے، مفسر علام اگر ای کے بجائے او فرماتے تو زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ (صاوی)
قولہ : لاتنابزوا یہ تنابز سے نہی جمع مذکر حاضر کا صیغہ ہے تم کسی کی چڑ نہ نکالو، کسی کو برے لقب سے نہ پکارو، کسی کا نام نہ بگاڑو
قولہ : ای المذکور من السخریۃ واللمز والتنابز مفسر علام کا مقصد اس عبارت کے اضافہ سے ایک سوال کا جواب دینا ہے۔
سوال : الاسم پر الف لام عہد کا ہے جو جمع پر دلالت کرتا ہے اور مراد اسماء ثلثہ مذکورہ یعنی السخریۃ، اللمز، التنابز ہیں لہٰذا مناسب تھا کہ الاسم مفرد لانے کے بجائے الاسماء جمع لاتے۔
جواب : اسم یہاں ذکر مشہور کے معنی میں ہے جو عرب کے قول طار اسمہ سے مشتق ہے، اسماء ثلثتہ المذکور کے معنی میں ہے لہٰذا الاسم کا مفرد لانا صحیح ہے اور اسم سے مراد ذکر اور شہرت ہے نہ معروف اسم بمقابل حرف و فعل اور نہ بمعنی علم اور یہ سمو سے مشتق ہے جس کے معنی بلند ہونے کے ہیں۔
قولہ : بئس الاسم الفسوق بئس فعل ماضی، الاسم اس کا فاعل الفسوق، الاسم سے بدل ہے، مفسر علام نے اسی ترکیب کو اختیار کیا ہے اس صورت میں مخصوص بالذم محذوف ہوگا، ای ھو زیادہ واضح ترکیب یہ ہے کہ الفسوق کو مخصوص بالذم قرار دیا جائے، مذکورہ جملے کی مشہور ترکیب یہ ہے کہ الفسوق مبتداء ہے اور بئس الاسم خبر مقدم ہے۔
قولہ : لافادۃ انہ فسق لتکررہ عادۃ یعنی سخریہ وغیرہ جو مذکور ہوئے اگرچہ گناہ صغیر ہیں مگر جب صغیرہ پر اصرار ہوا اور اس کا ارتکاب بار بار کیا جائے تو وہ گناہ کبیرہ بن جاتا ہے اور عام طور پر عادۃ ایسا ہی ہوتا ہے کہ انسان ان القاب کو بار بار دہراتا ہے۔
قولہ : لایحس بہ یہ میتا کی صفت ہے یعنی مردہ جو کہ محسوس نہیں کرتا، یعنی اگر اس کو کوئی کھائے تو اس کو احسان نہیں ہوتا، مفسر علام نے لایحس بہ کا اضافہ فرما کر اس بات کی طرف اشارہ فرما دیا کہ میت اور مغتاب لہ (جس کی غیبت کی جائے) درمیان وجہ شبہ عدم علم ہے جس شخص کی پس پشت غیبت کی جاتی ہے اس کو بھی غیبت کا علم نہیں ہوتا اور مردہ کا گوشت کھانے سے بھی مردہ کو علم و احساس نہیں ہوتا گویا کہ عدم علم میں دونوں مشترک ہیں۔
قولہ : مضعف علم یعنی تعلیم اعلام کے معنی میں ہے جو متعدی بدو مفعول ہے دوسرا مفعول دینکم ہے جس کی طرف باء کے ذریعہ متعدی ہے۔
قولہ : ان کنتم صادقین فی ادغائکم الایمان شرط ہے، اس کا جواب محذوف ہے فللہ المنۃ علیکم
قولہ : فی المموضعین یعنی ان سے پہلے باء مقدر ہے دو جگہوں میں ان ان اسلموا ہے اور دوسری ان ھداکم ای بان اسلموا وبان ھدا کم
تفسیر و تشریح
یایھا الذین امنوا لایستخر قوم منقوم (الآیۃ) گزشتہ دو آیتوں میں مسلمانوں کی باہمی لڑائی کے متعلق ضروری ہدایات دینے کے بعد اہل ایمان کو یہ احسا دلایا گیا تھا کہ دین کیمقدس ترین رشتہ کی بناء پر وہ ایک دوسرے کے بھائی ہیں، اب آگے کی دو آیتوں میں ان بڑی بڑی برائیوں کے سدباب کا حکم دیا جا رہا ہے جو بالعموم ایک معاشرے میں لوگوں کے باہمی تعلقات کو خراب کرتی ہیں، ایک دوسرے کی عزت پر حملہ ایک دوسرے کی دل آزاری، ایک دوسرے سے بدگمانی اور ایک دوسرے کے عیوب کا تجسس، درحقیقت یہی وہ اسباب ہیں جس سے آپس کی عداوتیں پیدا ہوتی ہیں اور پھر دوسرے سے بدگمانی اور ایک دوسرے کے عیوب کا تجسس، درحقیقت یہی وہ اسباب ہیں جس سے آپس کی عداوتیں پیدا ہوتی ہیں اور پھر دوسرے اسباب کے ساتھ مل کر ان سے بڑے بڑے فتنے رونما ہوتے ہیں، اس سلسلہ میں جو احکام آگے کی آیتوں میں دیئے گئے ہیں اور ان کی جو تشریحات احادیث میں ملتی ہیں ان کی بناء پر ایک مفصل قانون ہتک عزت مرتب کیا جاسکتا ہے، ایک شخص دوسرے شخص کا استہزاء اور تمسخر اسی وقت کرتا ہے جب وہ خود کو اس سے بہتر اور اس کو اپنے سے حقیر اور کمتر سمجھتا ہے، حالانکہ اللہ کے نزدیک ایمان اور عمل کے لحاظ سے کون بہتر ہے اور کون نہیں ؟ اس کا علم صرف اللہ کو ہے اس لئے خود کو بہتر اور دوسرے کو کمتر سمجھنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے اس آیت کے شان نزول میں متعدد واقعات ذکرکئے گئے ہیں۔
شان نزول :
لایسخرقوم من قوم (الآیۃ) صاحب معالم نے کہا ہے کہ یہ آیت ثابت بن قیس کے بارے میں نازل ہوئی، یہ اونچا سنتے تھے اسی لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب بیھٹتے تھے تاکہ آپ کی بات سن سکیں، ایک روز ان کی فجر کی نماز کی ایک رکعت چھوٹ گئی اس کے بعد جب مجلس میں پہنچے تو صحابہ اپنی اپنی جگہ لے چکے تھے، ثابت بن قیس جب نماز پڑھ کر آئے تو کہنے لگے تفسحوا (جگہ دو ) لوگوں نے ان کو جگہ دیدی تو یہ کودتے پھاندتے قریب پہنچ گئے، صرف ایک شخص اپنی جگہ سے نہ ہٹاپس وہی شخص حضور کے اور ثابت کے درمیان میں تھا، ثابت نہ ٹھونکا لگا کر نام پوچھا، اس نے اپنا نام بتایا اور کہا مجھے جہاں جگہ مل گئی وہاں بیٹھا ہوں، چونکہ اس شخص کو ایام جاہلیت میں کسی عورت کی نسبت عار دلائی جاتی تھی تو ثابت نے کہا تو فلانی کا بیٹا ہے اس نے شرم سے سر جھکا لیا تو مذکورہ آیت نازل ہوئی، ضحاک نے کہا کہ بنی تمیم کے بارے میں نازل ہوئی، یہ لوگ فقراء صحابہ پر ہنستے تھے جیسے کہ عمار (رض) سلمان (رض) ، صہیب (رض) ، بال (رض) ، خباب (رض) وغیرہ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
حضرت انس نے فرمایا کہ امہات المومنین کے حق میں نازل ہوئی، ازواج مطہرات میں سے کسی نے حضرت ام سلمہ کوتاہ قامت (ٹھنگی) کہہ دیا تھا، اسی طرح کسی نے حضرت صفیہ کو یہودن کہہ دیا، اس آیت میں اس کی ممانعت آئی کہ تمہیں کیا معلوم کہ نفس الامر میں اور خاتمہ کے اعتبار سے کون بہتر ہے ؟ (خلاصۃ التفاسیر) یہ سب ہی واقعات نزول کا سبب ہوسکتے ہیں، ان میں کوئی تعارض نہیں ہے۔
پہلا واقعہ :
کہتے ہیں کہ یہ اخلاقی بیماری عورتوں میں زیادہ ہوتی ہے، اس لئے عورتوں کا بطور خاص الگ ذکر کر کے انہیں بھی بطور خاص اس سے روک دیا گیا ہے ورنہ عام طور پر مردوں کے بارے میں حکم ذکر کر کے عورتوں کو ان کے تابع کردیا جاتا ہے۔
مردوں اور عروتوں کا الگ الگ ذکر کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مردوں کے لئے عورتوں کے لئے مردوں کا مذاق اڑانا جائز ہے، دراصل جس وجہ سے دونوں کا ذکر الگ الگ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام سرے سے مخلوط سوسائٹی کا قائل نہیں ہے، ایک دوسرے کی تضحیک عموماً بےتکلف مجلسوں میں ہوا کرتی ہے، اسلام میں اس کی گنجائش رکھی ہی نہیں گئی کہ غیر محرم مرد عورتوں کی مجلس میں جمع ہو کر آپس میں ہنسی مذاق کریں، اس لئے اس بات کو ایک مسلم معاشرہ میں قابل تصور نہیں سمجھا گیا ہے۔
ولاتلمزوا انفسکم (الآیۃ) اللمز، العیب، ابن جریر نے کہا ہے کہ لمز ہاتھ، آنکھ زبان اور اشارہ سے ہوتا ہے اور ہمزہ صرف زبانی ہی سے ہوتا ہے۔ (فتح القدیر)
لاتذابزوا (تفاعل) یہ نبز سے مشتق ہے، اور نبز حرکت کے ساتھ بمعین لقب (جمع) انباز، القاب لقب کی جمع ہے، اصلی نام کے علاوہ جو نام رکھ لیا جائے اس کو لقب کہتے ہیں یہاں برالقب مراد ہے لاتلمزوا انفسکم ایسا ہی ہے جیسا کہ لاتقتلوا انفسکم یعنی اپنے آپ کو قتل نہ کرو مطلب یہ ہے کہ آپس میں نہ تو عیب جئوی کرو اور نہ قتل کرو اور نہ آپس میں طعنہ زنی کرو، لمز کے مفہوم میں طعن وتشنیع کے علاوہ متعدد دوسرے مفہوم بھی شامل ہیں، مثلاً چوٹیں کسنا، پھبتیاں کسنا، الزام دھرنا، اعتراض جڑنا، عیب چینی کرنا، کھلم کھلا زیرلب یا اشاروں سے کسی کو نشانہ ملامت بنانا یہ سب افعال چونکہ آپس کے تعلقات کو بگاڑتے ہیں اور معاشرہ میں فساد برپا کرتے ہیں اس لئے ان کی بھی ممانعت کردی گئی ہے، تیسری چیز جس سے آیت میں ممانعت کی گئی ہے وہ کسی کو برے لقب سے پکارنا ہے جس سے وہ ناراض ہوتا ہو جیسے کسی کو لنگڑا، لولا، اندھا، گنجا وغیرہ کہہ کر پکارنا۔
حضرت ابوجبیرہ انصاری نے فرمایا کہ یہ آیت ہمارے بارے میں نزل ہوئی ہے کیونکہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے تو ہم میں اکثر آدمی ایسے تھے جن کے دو یا تین نام مشہور تھے اور ان میں سے بعض نام ایسے تھے جو لوگوں نے اس کو عار دلانے اور تحقیر و توہین کے لئے مشہور کردیئے تھے، آپ کو یہ بات معلوم نہیں تھی بعض اوقات وہی ناپسندیدہ نام لیکر آپ اس کو خطاب کرتے تو صحابہ عرض کرتے یا رسول اللہ وہ اس نام سے ناراض ہوتا ہے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (معارف)
حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ آیت میں تنا بزبالا لقاب سے مراد ہے کہ کسی شخص نے کوئی گناہ یا برا عمل کیا ہو اور پھر اس سے تائب ہوگیا ہو اس کے بعد پھر اس کو اس کے اس برے عمل کے نام سے پکارنا، مثلاً اے چور، اے زانی، اے شرابی وغیرہ کہنا، جس نے ان افعال سے توبہ کرلی ہو، اس کو اس پچھلے عمل سے عار دلانا اور تحقیر کرنا حرام ہے، حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کو ایسے گناہ پر عار دلائے کہ جس سے اس نے توبہ کرلی ہے تو اللہ نے اپنے ذمہ لیا کہ اسی کو اسی گناہ میں مبتلا کر کے دنیا و آخرت میں رسوا کرے گا۔ (قرطبی )
بعض القاب کا استثناء :
بعض لوگوں کے ایسے نام مشہور ہوجاتے ہیں کہ فی نفسہ وہ برے ہیں، مگر وہ بغیر اس لفظ کے پہچانے ہی نہیں جاتے تو اس کو اس نام سے ذکر کرنے کی اجازت ہے بشرطیکہ ذکر کرنے والے کا مقصد اس کی تحقیر اور تذلل نہ ہو جیسے بعض محدثین کے نام کے ساتھ، اعرج، یا احدب، یا اعمش وغیر مشہور ہے۔
حضرت عبداللہ بن مبارک رحمتہ اللہ تعالیٰ سے دریافت کیا گیا کہ اسانید حدیث میں بعض ناموں کے ساتھ کچھ ایسے القاب آئے ہیں مثلاً حمید الطویل، سلیمان اعمش، مروان اصفر وغیرہ تو کیا ان الفاظ کے ساتھ ذکر کرنا جائز ہے ؟ آپ نیف رمایا کہ جب تمہارا قصد اس کا عیب بیان کرنے کا نہ ہو بلکہ اس کی پہچان پوری کرنے کا ہو تو جائز ہے۔ (قرطبی)
10 Tafsir as-Saadi
یہ بھی مومنون کے باہمی حقوق میں شمار ہوتا ہے کہ ﴿ لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ ﴾ ” کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے۔“ یعنی کسی قسم کی گفتگو اور قول و فعل کے ذریعے سے تمسخر نہ اڑائے جو مسلمان بھائی کی تحقیر پر دلالت کرتے ہوں۔ بے شک یہ تمسخر حرام ہے اور کسی طرح جائز نہیں، نیز یہ چیز تمسخر اڑانے والے کی خود پسندی پر دلیل ہے۔ ہوسکتا ہے جس کا تمسخر اڑایا جارہا ہے وہ تمسخر اڑانے والے سے بہتر ہو اور غالب طور پر یہی ہوتا ہے کیونکہ تمسخر صرف اسی شخص سے صادر ہوتا ہے جس کا قلب اخلاق بد سے لبریز ہو، جو ہر قسم کے اخلاق مذمومہ سے آراستہ اور اخلاق کریمہ سے بالکل خالی ہو۔ بنا بریں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” کسی شخص کے لئے اتنی ہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے بھائی کو حقیر جانے۔ “ [صحیح مسلم، البروالصلة، باب تحریم ظلم المسلم ......حدیث:2564]
پھر فرمایا : ﴿ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ ﴾ یعنی تم میں سے کوئی ایک دوسرے کی عیب چینی نہ کرے۔ (اَللَّمْزُ)قول کے ذریعے سے عیب چینی کرنا (اَلْھَمْزُ) فعل کے ذریعے سے عیب چینی کرنا۔ یہ دونوں امور ممنوع اور حرام ہیں جن پر جہنم کی آگ کی وعید سنائی گئی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ ﴾ (لھمزۃ: 104؍1) ” ہلاکت ہے ہر طعن آمیز اشارے کرنے والے عیب جو کے لئے۔“ مسلمان بھائی کو مانند ہوں، نیز جب وہ کسی دوسرے کی عیب چینی کرے تو یہ چیز اس بات کی موجب ہوگی کہ دوسرا اس کی عیب چینی کرے، لہٰذا وہی اس عیب چینی کا سبب بنے گا۔
﴿ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ﴾ یعنی تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کسی ایسے لقب سے ملقب نہ کرے جس سے پکارا جانا وہ ناپسند کرتا ہے اور یہی (تنَاَبُزْ) ” ایک دوسرے کو برالقب دینا“ ہے۔ رہے غیر مذموم القاب، تو وہ اس حکم میں داخل نہیں ہیں۔ ﴿ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ ﴾ ” ایمان لانے کے بعد برانام رکھنا گناہ ہے۔“ یعنی کتنی بری ہے وہ چیز جو تم نے ایمان اور شریعت پر عمل کے بدلے حاصل کی ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کے اوامرو نواہی سے اعراض کے ذریعے سے فسق و عصیان کے نام کی مقتضی ہے جو کہ تنابزبالا لقاب ہے۔ ﴿ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴾ ” اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں۔“ اور یہی چیز بندے پر واجب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور اپنے مسلمان بھائی سے اس کے حق کو حلال کرا کے، اس کے لئے استغفار کرکے، اور اس کی جو مذمت کی گئی ہے اس کے مقابلے میں اس کی مدح وستائش کرکے اس کا حق ادا کرے ﴿ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴾ ” اور جس نے توبہ نہیں کی، تو وہی لوگ ظالم ہیں۔،، لوگوں کی دو اقسام ہیں : )1( اپنی جان پر ظلم کرنے والا وہ شخص جو توبہ نہیں کرتا۔ )2( توبہ کرکے فوزوفلاح سے بہرہ مند ہونے والا۔ ان دو اقسام کے سوا اور کوئی قسم نہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey emaan walo ! naa to mard doosray mardon ka mazaq urayen , hosakta hai kay woh ( jinn ka mazaq urra rahey hain ) khud inn say behtar hon , aur naa doosri aurten doosri aurton ka mazaq urayen , hosakta hai kay woh ( jinn ka mazaq urra rahi hain ) khud inn say behtar hon . aur tum aik doosray ko taana naa diya kero , aur naa aik doosray ko buray alqaab say pukaro . emaan laney kay baad gunah ka naam lagna boht buri baat hai . aur jo log inn baaton say baaz naa ayen , to woh zalim log hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
ہر طعنہ باز عیب جو مجرم ہے
اللہ تبارک وتعالیٰ لوگوں کو حقیر و ذلیل کرنے اور ان کا مذاق اڑانے سے روک رہا ہے حدیث شریف میں ہے تکبر حق سے منہ موڑ لینے اور لوگوں کو ذلیل و خوار سمجھنے کا نام ہے۔ اس کی وجہ قرآن کریم نے یہ بیان فرمائی کہ جسے تم ذلیل کر رہے ہو جس کا تم مذاق اڑا رہے ہو ممکن ہے کہ اللہ کے نزدیک وہ تم سے زیادہ باوقعت ہو مردوں کو منع کر کے پھر خاصتہ عورتوں کو بھی اس سے روکا اور اس ملعون خصلت کو حرام قرار دیا چناچہ قرآن کریم کا ارشاد ہے آیت ( وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِۨ ۙ ) 104 ۔ الهمزة :1) یعنی ہر طعنہ باز عیب جو کے لئے خرابی ہے ہمز فعل سے ہوتا ہے اور لمز قول سے ایک اور آیت میں ہے (ھماز مشاء بنمیم) الخ، یعنی وہ جو لوگوں کو حقیر گنتا ہو ان پر چڑھا چلا جا رہا ہو اور لگانے بجھانے والا ہو غرض ان تمام کاموں کو ہماری شریعت نے حرام قرار دیا۔ یہاں لفظ تو یہ ہیں کہ اپنے آپ کو عیب نہ لگاؤ مطلب یہ ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ جیسے فرمایا آیت (وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا 29) 4 ۔ النسآء :29) یعنی ایک دوسرے کو قتل نہ کرو۔ حضرت ابن عباس، مجاہد، سعید بن جبیر، قتادہ، مقاتل، بن حیان فرماتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے کو طعنے نہ دے پھر فرمایا کسی کو چڑاؤ مت ! جس لقب سے وہ ناراض ہوتا ہو اس لقب سے اسے نہ پکارو نہ اس کو برا نام دو ۔ مسند احمد میں ہے کہ یہ حکم بنو سلمہ کے بارے میں نازل ہوا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مدینے میں آئے تو یہاں ہر شخص کے دو دو تین تین نام تھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں سے کسی کو کسی نام سے پکارتے تو لوگ کہتے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ اس سے چڑتا ہے۔ اس پر یہ آیت اتری (ابو داؤد) پھر فرمان ہے کہ ایمان کی حالت میں فاسقانہ القاب سے آپس میں ایک دوسرے کو نامزد کرنا نہایت بری بات ہے اب تمہیں اس سے توبہ کرنی چاہئے ورنہ ظالم گنے جاؤ گے۔