الحجرات آية ۱۴
قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا ۗ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰـكِنْ قُوْلُوْۤا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْاِيْمَانُ فِىْ قُلُوْبِكُمْ ۚ وَاِنْ تُطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ لَا يَلِتْكُمْ مِّنْ اَعْمَالِكُمْ شَيْـًٔــا ۗ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ
طاہر القادری:
دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں، آپ فرما دیجئے: تم ایمان نہیں لائے، ہاں یہ کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا، اور اگر تم اﷲ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو تو وہ تمہارے اعمال (کے ثواب میں) سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا، بیشک اﷲ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے،
English Sahih:
The bedouins say, "We have believed." Say, "You have not [yet] believed; but say [instead], 'We have submitted,' for faith has not yet entered your hearts. And if you obey Allah and His Messenger, He will not deprive you from your deeds of anything. Indeed, Allah is Forgiving and Merciful."
1 Abul A'ala Maududi
یہ بدوی کہتے ہیں کہ "ہم ایمان لائے" اِن سے کہو، تم ایمان نہیں لائے، بلکہ یوں کہو کہ "ہم مطیع ہو گئے" ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری اختیار کر لو تو وہ تمہارے اعمال کے اجر میں کوئی کمی نہ کرے گا، یقیناً اللہ بڑا در گزر کرنے والا اور رحیم ہے
2 Ahmed Raza Khan
گنوار بولے ہم ایمان لائے تم فرماؤ تم ایمان تو نہ لائے ہاں یوں کہوں کہ ہم مطیع ہوئے اور ابھی ایمان تمہارے دلوں میں کہاں داخل ہوا اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو گے تو تمہارے کسی عمل کا تمہیں نقصان نہ دے گا بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے،
3 Ahmed Ali
بدویوں نے کہا ہم ایمان لے آئے ہیں کہہ دو تم ایمان نہیں لائے لیکن تم کہو کہ ہم مسلمان ہو گئے ہیں اورابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا اور اگر تم الله اور اس کے رسول کا حکم مانو تو تمہارے اعمال میں سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا بے شک الله بخشنے والا نہایت رحم والا ہے
4 Ahsanul Bayan
دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ آپ کہہ دیجئے کہ درحقیقت تم ایمان نہیں لائے لیکن تم یوں کہو کہ ہم اسلام لائے حالانکہ ابھی تک تمہارے دلوں میں ایمان داخل ہی نہیں ہوا (۱) تم اگر اللہ کی اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرنے لگو گے تو اللہ تمہارے اعمال میں سے کچھ بھی کم نہ کرے گا۔ بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے
۱٤۔۱ بعض مفسرین کے نزدیک ان اعراب سے مراد بنو اسد اور خزیمہ کے منافقین ہیں جنہوں نے قحط سالی میں محض صدقات کی وصولی کے لیے یا قتل ہونے اور قیدی بننے کے اندیشے کے پیش نظر زبان سے اسلام کا اظہار کیا تھا ان کے دل ایمان اعتقاد صحیح اور خلوص نیت سے خالی تھے (فتح القدیر) لیکن امام ابن کثبر کے نزدیک ان سے وہ اعراب مراد ہیں جو نئے مسلمان ہوئے تھے اور ایمان ابھی ان کے اندر پوری طرح راسخ نہیں ہوا تھا لیکن دعوی انہوں نے اپنی اصل حثییت سے بڑھ کر ایمان کا کیا تھا جس پر انہیں یہ ادب سکھایا گیا کہ پہلے مرتبے پر ہی ایمان کا دعوی صحیح نہیں آہستہ آہستہ ترقی کے بعد تم ایمان کے مرتبے پر پہنچو گے ۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے۔ کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے (بلکہ یوں) کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان تو ہنوز تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا۔ اور تم خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو گے تو خدا تمہارے اعمال سے کچھ کم نہیں کرے گا۔ بےشک خدا بخشنے والا مہربان ہے
6 Muhammad Junagarhi
دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان ﻻئے۔ آپ کہہ دیجئے کہ درحقیقت تم ایمان نہیں ﻻئے لیکن تم یوں کہو کہ ہم اسلام ﻻئے (مخالفت چھوڑ کر مطیع ہوگئے) حاﻻنکہ ابھی تک تمہارے دلوں میں ایمان داخل ہی نہیں ہوا۔ تم اگر اللہ کی اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرنے لگو گے تو اللہ تمہارے اعمال میں سے کچھ بھی کم نہ کرے گا۔ بیشک اللہ بخشنے واﻻ مہربان ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اعراب (صحرائی عرب) کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں ان سے کہئے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان تو ابھی تمہارے دلوں میں داخل ہوا ہی نہیں ہے اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول(ص) کی اطاعت کرو گے تو وہ (اللہ) تمہارے اعمال سے کچھ بھی کمی نہیں کرے گا۔ بےشک اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یہ بدوعرب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو کہ اسلام لائے ہیں کہ ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے اور اگر تم اللہ اور رسول کی اطاعت کرو گے تو وہ تمہارے اعمال میں سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا کہ وہ بڑا غفور اور رحیم ہے
9 Tafsir Jalalayn
اعراب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے (بلکہ) یوں کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان تو ہنوز تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا اور اگر تم خدا اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرو گے تو خدا تمہارے اعمال میں سے کچھ کم نہیں کرے گا بیشک خدا بخشنے والا مہربان ہے
قالت الاعراب امنا سابقہ آیت میں بتلایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عزت و شرافت کا معیار تقویٰ ہے جو ایک باطنی چیز ہے اللہ تعالیٰ ہی اس کو جانتے ہیں کسی شخص کے لئے تقدس کا دعویٰ جائز نہیں، مذکورہ الصدر آیات میں ایک خاص واقعہ کی بناء پر بتلایا گیا ہے کہ ایمان کا اصل مدار قلبی تصدیق پر ہے اس کے بغیر محض زبان سے خود کو مومن کہنا صحیح نہیں ہے۔
شان نزول :
امام بغوی رحمتہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے نزول کا سبب ایک روایت کے مطابق بیان کیا ہے کہ قبیلہ بنی اسد کے چند آدمی مدینہ طیبہ میں قحط شدید کے زمانہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، یہ لوگ دل سے تو مومن تھے نہیں محض صدقات لینے کے لئے اپنے ایمان کا اظہار کیا اور چونکہ وہ اسلام کے آداب و احکام سے بھی واقف نہیں تھے، انہوں نے مدینہ طیبہ کے راستوں میں غلاظت و نجاست پھیلا دی اور بازاروں میں اشیاء ضرورت کے نرخ بڑھا دیئے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایک تو جھوٹا ایمان لانے کا دعویٰ اور دوسرے آپ کو دھوا دینا چاہا، تیسرے آپ پر احسان جتلایا کہ دوسرے لوگ تو ایک زمانہ تک آپ سے برسر پیکار رہے آپ کے خلاف جنگیں لڑیں، پھر مسلمان ہوئے اور ہم بغیر کسی جنگ کے آپ کے پاس آ کر مسلمان ہوگئے اس لئے ہماری قدر کرنی چاہیے، یقینا یہ باتیں شان رسالت میں ایک طرح کی گستاخی بھی تھیں کہ اپنے مسلمان ہوجانے کا احسان آپ پر جتلایا اور مقصود اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ مسلمانوں کے صدقات سے اپنی مفلسی دور کریں اور اگر یہ واقعی اور سچے مسلمان ہی ہوجاتے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کیا احسان تھا خود اپنا ہی نفع تھا اس پر آیات مذکورہ نازل ہوئیں جن میں ان کے جھوٹے دعوے کی تکذیب اور احسان جتلانے پر مذمت کی گئی ہے۔ (معارف)
قل لم تومنوا ولکن قولو اسلمنا چونکہ ان کے دلوں میں ایمان نہ تھا صرف ظاہیر افعال کی وجہ سے ایمان کا جھوٹا دعویٰ کر رہے تھے، اس لئے قرآن نے ان کے ایمان کی نفی کر کے یہ فرمایا کہ تمہارا آمنا کہنا تو جھوٹ ہے، تم زیادہ سے زیادہ اسلمنا کہہ سکتے ہو کیونکہ اسلام کے لفظی ظاہری افعال میں اطاعت کرنے کے ہیں اور یہ لوگ اپنے دعوائے ایمان کو سچا ثبات کرنے کے لئے کچھ اعمال مسلمانوں جیسے کرنے لگے تھے اس لئے ظاہری طور پر ایک درجہ اطاعت ہوگئی تھی جس کی وجہ سے لغوی معنی کے اعتبار سے اسلمنا کہنا صحیح ہوسکتا تھا۔
اسلام اور ایمان ایک ہیں یا کچھ فرق ہے ؟
اوپر کی تقریر سے معلوم ہوگیا کہ اس آیت میں اسلام کے لغوی معنی مراد ہیں اصطلاحی معنی مراد ہی نہیں، اس لئے اس آیت سے اسلام اور ایمان میں اصطلاحی فرق پر کوئی استدلال نہیں کیا جاسکتا اور اصطلاحی ایمان اور اصطلاحی اسلام اگرچہ مفہوم و معنی کے اعتبار سے الگ الگ ہیں کہ ایمان اصطلاح شرع میں تصدیق قلبی کو کہتے ہیں یعنی اپنے دل سے اللہ تعالیٰ کی توحید اور رسول کی رسالت کو سچا ماننا اور اسلام نام ہے ظاہری افعال میں اللہ اور اس کے رسول کی ظاہری اطاعت کا، لیکن شریعت میں اس وقت تک تصدیق قلبی معتبر نہیں، جب تک کہ اس کا اثر جوارح کے اعمال و افعال تک نہ پہنچ جائے، جس کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ زبان سے کلمہ اسلام کا اقرار کرے، اسی طرح اسلام اگرچہ ظاہری اعمال کا نام ہے لیکن شریعت میں وہ اس وقت تک معتبر نہیں جب تک کہ دل میں تصدیق نہ آجائے ورنہ وہ نفاق ہے، مطلب یہ کہ ظاہری معنی کے اعتبار سے گو اسلام اور ایمان میں فرق ہے مگر مصداق کے اعتبار سے ان دونوں میں تلازم ہے کہ ایمان اسلام کے بغیر عند الشرع معتبر نہیں اور اسلام ایمان کے بغیر شرعاً معتبر نہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ بعض ان عرب دیہاتیوں کے قول کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں کسی بصیرت کے بغیر اسلام میں داخل ہوئے اور ان امور کو قائم نہ کیا جن کا قیام واجب اور جن کے قیام کا تقاضا ایمان کرتا ہے اور اس کے باوجود انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ” ہم ایمان لائے“ یعنی کامل ایمان جو تمام امور کو پورا کرتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ ان کے اس قول کی تردید کردیں، چنانچہ فرمایا : ﴿ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا ﴾ یعنی کہہ دیجئے : تم اپنے لئے ظاہری اور باطنی طور پر کامل مقام ایمان کا دعویٰ نہ کرو ﴿ وَلَـٰكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا ﴾ ” لیکن کہو ہم اسلام لائے۔“ یعنی ہم اسلام میں داخل ہوگئے اور اسی پر اکتفا کرو۔ ﴿ وَ ﴾ ” اور“ اس کا سبب یہ ہے کہ ﴿ وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ ﴾ تم نے تو محض کسی خوف یا کسی امید وغیرہ کی بنا پر اسلام قبول کیا ہے، جو تمہارے ایمان کا سبب ہے، اس لئے ایمان کی بشاشت ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ﴿ وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ﴾ سے مراد ہے کہ جب تم سے یہ کلام صادر ہوا اس وقت تک تمہارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا تھا، اس آیت کریمہ میں ان کے بعد کے احوال کی طرف اشارہ ہے کیونکہ ان میں سے بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے حقیقی ایمان سے بہرہ مند اور جہاد فی سبیل اللہ کی فضیلت سے سرفراز فرمایا۔
﴿ وَإِن تُطِيعُوا اللّٰـهَ وَرَسُولَهُ ﴾ اور اگر تم کسی فعلِ خیر اور اجتناب شر کے ذریعے سے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہو ﴿ لَا يَلِتْكُم مِّنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا﴾ تو وہ تمہارے اعمال میں ذرہ بھر کمی نہیں کرے گا بلکہ تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا اور تم اپنا کوئی چھوٹا یا بڑا عمل غیر موجود نہیں پاؤ گے۔ ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾ یقیناً اللہ تعالیٰ اس شخص کے گناہ بخش دیتا ہے جو توبہ کرکے اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور وہ اس پر نہایت مہربان ہے کہ اس نے اس کی توبہ قبول کی۔
11 Mufti Taqi Usmani
yeh dehaati kehtay hain kay : hum emaan ley aaye hain . inn say kaho kay : tum emaan to nahi laye , albatta yeh kaho kay hum ney hathiyaar daal diye hain . aur emaan abhi tumharay dilon mein dakhil nahi huwa . aur agar tum waqaee Allah aur uss kay Rasool ki itaat kero gay to Allah tumharay aemal ( kay sawab ) mein zara bhi kami nahi keray ga . yaqeenan Allah boht bakhshney wala , boht meharban hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
ایمان کا دعویٰ کرنے والے اپنا جائزہ تو لیں
کچھ اعرابی لوگ اسلام میں داخل ہوتے ہی اپنے ایمان کا بڑھا چڑھا کر دعویٰ کرنے لگتے تھے حالانکہ دراصل ان کے دل میں اب تک ایمان کی جڑیں مضبوط نہیں ہوئی تھیں ان کو اللہ تعالیٰ اس دعوے سے روکتا ہے یہ کہتے تھے ہم ایمان لائے۔ اللہ اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ ان کو کہئے اب تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا تم یوں نہ کہو کہ ہم ایمان لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم مسلمان ہوئے یعنی اسلام کے حلقہ بگوش ہوئے نبی کی اطاعت میں آئے ہیں اس آیت نے یہ فائدہ دیا کہ ایمان اسلام سے مخصوص چیز ہے جیسے کہ اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے جبرائیل (علیہ السلام) والی حدیث بھی اسی پر دلالت کرتی ہے جبکہ انہوں نے اسلام کے بارے میں سوال کیا پھر ایمان کے بارے میں پھر احسان کے بارے میں۔ پس وہ زینہ بہ زینہ چڑھتے گئے عام سے خاص کی طرف آئے اور پھر خاص سے اخص کی طرف آئے۔ مسند احمد میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چند لوگوں کو عطیہ اور انعام دیا اور ایک شخص کو کچھ بھی نہ دیا اس پر حضرت سعد نے فرمایا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے فلاں فلاں کو دیا اور فلاں کو بالکل چھوڑ دیا حالانکہ وہ مومن ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مسلمان ؟ تین مرتبہ یکے بعد دیگرے حضرت سعد نے یہی کہا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی یہی جواب دیا پھر فرمایا اے سعد میں لوگوں کو دیتا ہوں اور جو ان میں مجھے بہت زیادہ محبوب ہوتا ہے اسے نہیں دیتا ہوں، دیتا ہوں اس ڈر سے کہ کہیں وہ اوندھے منہ آگ میں نہ گرپڑیں۔ یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے پس اس حدیث میں بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مومن و مسلم میں فرق کیا اور معلوم ہوگیا کہ ایمان زیادہ خاص ہے بہ نسبت اسلام کے۔ ہم نے اسے مع دلائل صحیح بخاری کی کتاب الایمان کی شرح میں ذکر کردیا ہے فالحمد للہ۔ اور اس حدیث میں اس بات پر بھی دلالت ہے کہ یہ شخص مسلمان تھے منافق نہ تھے اس لئے کہ آپ نے انہیں کوئی عطیہ عطا نہیں فرمایا اور اسے اس کے اسلام کے سپرد کردیا۔ پس معلوم ہوا کہ یہ اعراب جن کا ذکر اس آیت میں ہے منافق نہ تھے تھے تو مسلمان لیکن اب تک ان کے دلوں میں ایمان صحیح طور پر مستحکم نہ ہوا تھا اور انہوں نے اس بلند مقام تک اپنی رسائی ہوجانے کا ابھی سے دعویٰ کردیا تھا اس لئے انہیں ادب سکھایا گیا۔ حضرت ابن عباس اور ابراہیم نخعی اور قتادہ کے قول کا یہی مطلب ہے اور اسی کو امام ابن جریر نے اختیار کیا ہے ہمیں یہ سب یوں کہنا پڑا کہ حضرت امام بخاری فرماتے ہیں کہ یہ لوگ منافق تھے جو ایمان ظاہر کرتے تھے لیکن دراصل مومن نہ تھے (یہ یاد رہے ایمان و اسلام میں فرق اس وقت ہے جبکہ اسلام اپنی حقیقت پر نہ ہو جب اسلام حقیقی ہو تو وہی اسلام ایمان ہے اور اسوقت ایمان اسلام میں کوئی فرق نہیں اس کے بہت سے قوی دلائل امام الائمہ حضرت امام بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں کتاب الایمان میں بیان فرمائے ہیں اور ان لوگوں کا منافق ہونا اس کا ثبوت بھی موجود ہے واللہ اعلم۔ (مترجم) حضرت سعید بن جبیر، حضرت مجاہد، حضرت ابن زید فرماتے ہیں یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بلکہ تم (اسلمنا) کہو اس سے مراد یہ ہے کہ ہم قتل اور قید بند ہونے سے بچنے کے لئے تابع ہوگئے ہیں، حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ یہ آیت بنو اسد بن خزیمہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ ان لوگوں کے بارے میں اتری ہے جو ایمان لانے کا دعویٰ کرتے تھے حالانکہ اب تک وہاں پہنچے نہ تھے پس انہیں ادب سکھایا گیا اور بتایا گیا کہ یہ اب تک ایمان تک نہیں پہنچے اگر یہ منافق ہوتے تو انہیں ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی اور ان کی رسوائی کی جاتی جیسے کہ سورة برات میں منافقوں کا ذکر کیا گیا لیکن یہاں تو انہیں صرف ادب سکھایا گیا۔ پھر فرماتا ہے اگر تم اللہ اور اسی کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرماں بردار رہو گے تو تمہارے کسی عمل کا اجر مارا نہ جائے گا۔ جیسے فرمایا آیت (وَمَآ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ ۭ كُلُّ امْرِی بِمَا كَسَبَ رَهِيْنٌ 21) 52 ۔ الطور :21) ہم نے ان کے اعمال میں سے کچھ بھی نہیں گھٹایا۔ پھر فرمایا جو اللہ کی طرف رجوع کرے برائی سے لوٹ آئے اللہ اس کے گناہ معاف فرمانے والا اور اس کی طرف رحم بھری نگاہوں سے دیکھنے والا ہے پھر فرماتا ہے کہ کامل ایمان والے صرف وہ لوگ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر دل سے یقین رکھتے ہیں پھر نہ شک کرتے ہیں نہ کبھی ان کے دل میں کوئی نکما خیال پیدا ہوتا ہے بلکہ اسی خیال تصدیق پر اور کامل یقین پر جم جاتے ہیں اور جمے ہی رہتے ہیں اور اپنے نفس اور دل کی پسندیدہ دولت کو بلکہ اپنی جانوں کو بھی راہ اللہ کے جہاد میں خرچ کرتے ہیں۔ یہ سچے لوگ ہیں یعنی یہ ہیں جو کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں یہ ان لوگوں کی طرح نہیں جو صرف زبان سے ہی ایمان کا دعویٰ کر کے رہ جاتے ہیں۔ مسند احمد میں ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں دنیا میں مومن کی تین قسمیں ہیں \0\01 وہ جو اللہ پر اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے شک شبہ نہ کیا اور اپنی جان اور اپنے مال سے راہ اللہ میں جہاد کیا \0\02 وہ جن سے لوگوں نے امن پا لیا نہ یہ کسی کا مال ماریں نہ کسی کی جان لیں \0\03 وہ جو طمع کی طرف جب جھانکتے ہیں اللہ عزوجل کی یاد کرتے ہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ کیا تم اپنے دل کا یقین و دین اللہ کو دکھاتے ہو ؟ وہ تو ایسا ہے کہ زمین و آسمان کا کوئی ذرہ اس سے مخفی نہیں وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ پھر فرمایا جو اعراب اپنے اسلام لانے کا بار احسان تجھ پر رکھتے ہیں ان سے کہہ دو کہ مجھ پر اسلام لانے کا احسان نہ جتاؤ تم اگر اسلام قبول کرو گے میری فرماں برداری کرو گے میری مدد کرو گے تو اس کا نفع تمہیں کو ملے گا۔ بلکہ دراصل ایمان کی دولت تمہیں دینا یہ اللہ ہی کا احسان ہے اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔ (اب غور فرمائیے کہ کیا اسلام لانے کا احسان پیغمبر اللہ پر جتانے والے سچے مسلمان تھے ؟ پس آیات کی ترتیب سے ظاہر ہے کہ ان کا اسلام حقیقت پر مبنی نہ تھا اور یہی الفاظ بھی ہیں کہ ایمان اب تک ان کے ذہن نشین نہیں ہوا اور جب تک اسلام حقیقت پر مبنی نہ ہو تب تک بیشک وہ ایمان نہیں لیکن جب وہ اپنی حقیقت پر صحیح معنی میں ہو تو پھر ایمان اسلام ایک ہی چیز ہے۔ خود اس آیت کے الفاظ میں غور فرمائیے ارشاد ہے اپنے اسلام کا احسان تجھ پر رکھتے ہیں حالانکہ دراصل ایمان کی ہدایت اللہ کا خود ان پر احسان ہے۔ پس وہاں احسان اسلام رکھنے کو بیان کر کے اپنا احسان ہدایت ایمان جتانا بھی ایمان و اسلام کے ایک ہونے پر باریک اشارہ ہے، مزید دلائل صحیح بخاری شریف وغیرہ ملاحظہ ہوں مترجم) پس اللہ تعالیٰ کا کسی کو ایمان کی راہ دکھانا اس پر احسان کرنا ہے جیسے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حنین والے دن انصار سے فرمایا تھا میں نے تمہیں گمراہی کی حالت میں نہیں پایا تھا ؟ پھر اللہ تعالیٰ نے تم میں اتفاق دیا تم مفلس تھے میری وجہ سے اللہ نے تمہیں مالدار کیا جب کبھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کچھ فرماتے وہ کہتے بیشک اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بھی زیادہ احسانوں والے ہیں بزار میں ہے کہ بنو اسد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم مسلمان ہوئے عرب آپ سے لڑتے رہے لیکن ہم آپ سے نہیں لڑے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان میں سمجھ بہت کم ہے شیطان ان کی زبانوں پر بول رہا ہے اور یہ آیت ( يَمُنُّوْنَ عَلَيْكَ اَنْ اَسْلَمُوْا ۭ قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَيَّ اِسْلَامَكُمْ ۚ بَلِ اللّٰهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ اَنْ هَدٰىكُمْ لِلْاِيْمَانِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ 17) 49 ۔ الحجرات :17) ، نازل ہوئی پھر دوبارہ اللہ رب العزت نے اپنے وسیع علم اور اپنی سچی باخبری اور مخلوق کے اعمال سے آگاہی کو بیان فرمایا کہ آسمان و زمین کے غیب اس پر ظاہر ہیں اور وہ تمہارے اعمال سے آگاہ ہے الحمد اللہ سورة حجرات کی تفسیر ختم ہوئی اللہ کا شکر ہے۔ توفیق اور ہمت اسی کے ہاتھ ہے۔