المائدہ آية ۱۰۱
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْـــَٔلُوْا عَنْ اَشْيَاۤءَ اِنْ تُبْدَ لَـكُمْ تَسُؤْكُمْۚ وَاِنْ تَسْــَٔـلُوْا عَنْهَا حِيْنَ يُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَـكُمْ ۗ عَفَا اللّٰهُ عَنْهَا ۗ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ
طاہر القادری:
اے ایمان والو! تم ایسی چیزوں کی نسبت سوال مت کیا کرو (جن پر قرآن خاموش ہو) کہ اگر وہ تمہارے لئے ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں مشقت میں ڈال دیں (اور تمہیں بری لگیں)، اور اگر تم ان کے بارے میں اس وقت سوال کرو گے جبکہ قرآن نازل کیا جا رہا ہے تو وہ تم پر (نزولِ حکم کے ذریعے ظاہر (یعنی متعیّن) کر دی جائیں گی (جس سے تمہاری صواب دید ختم ہو جائے گی اور تم ایک ہی حکم کے پابند ہو جاؤ گے)۔ اللہ نے ان (باتوں اور سوالوں) سے (اب تک) درگزر فرمایا ہے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بردبار ہے،
English Sahih:
O you who have believed, do not ask about things which, if they are shown to you, will distress you. But if you ask about them while the Quran is being revealed, they will be shown to you. Allah has pardoned it [i.e., that which is past]; and Allah is Forgiving and Forbearing.
1 Abul A'ala Maududi
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں، لیکن اگر تم انہیں ایسے وقت پوچھو گے جب کہ قرآن نازل ہو رہا ہو تو وہ تم پر کھول دی جائیں گی اب تک جو کچھ تم نے کیا اُسے اللہ نے معاف کر دیا، وہ درگزر کرنے والا اور برد بار ہے
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والو! ایسی باتیں نہ پوچھو جو تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بری لگیں اور اگر انہیں اس وقت پوچھو گے کہ قرآن اتر رہا ہے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی، اللہ انہیں معاف کرچکا ہے اور اللہ بخشنے والا حلم والا ہے،
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو! ایسی بات مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بری لگیں اور اگر یہ باتیں یسے وقت میں پوچھو گے جب کہ قرآن نازل ہو رہا ہے تو تم پر ظاہر کر دی جائیں گی گذشتہ سوالات الله نے معاف کر دیے ہیں اور الله بخشنے والا بردبار ہے
4 Ahsanul Bayan
اے ایمان والو! ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں اور اگر تم زمانہ نزول قرآن میں ان باتوں کو پوچھو گے تو تم پر ظاہر کر دی جائیں گی (١) سوالات گزشتہ اللہ نے معاف کر دیئے اور اللہ بڑی مغفرت والا بڑے حلم والا ہے۔
١٠١۔١ یہ ممانعت نزول قرآن کے وقت تھی۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ رضی اللہ عنہ کو زیادہ سوالات کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔ ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' مسلمانوں میں وہ سب سے بڑا مجرم ہے جس کے سوال کرنے کی وجہ سے کوئی چیز حرام کر دی گئی درآں حالیکہ اس سے قبل وہ حلال تھی۔(صحیح بخاری وصحیح مسلم)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
مومنو! ایسی چیزوں کے بارے میں مت سوال کرو کہ اگر (ان کی حقیقتیں) تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں بری لگیں اور اگر قرآن کے نازل ہونے کے ایام میں ایسی باتیں پوچھو گے تو تم پر ظاہر بھی کر دی جائیں گی (اب تو) خدا نے ایسی باتوں (کے پوچھنے) سے درگزر فرمایا ہے اور خدا بخشنے والا بردبار ہے
6 Muhammad Junagarhi
اے ایمان والو! ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ﻇاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں اور اگر تم زمانہٴ نزول قرآن میں ان باتوں کو پوچھو گے تو تم پر ﻇاہر کردی جائیں گی سواﻻت گزشتہ اللہ نے معاف کردیئے اور اللہ بڑی مغفرت واﻻ بڑے حلم واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو! ایسی چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو۔ کہ جو اگر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں بری لگیں۔ اور اگر ان کے متعلق ایسے وقت میں سوال کروگے جبکہ قرآن اتر رہا ہے تو وہ تم پر ظاہر کر دی جائیں گی اللہ نے انہیں نظر انداز کر دیا ہے (یا اللہ نے تمہیں معاف کر دیا ہے) اور اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا بردبار ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ایمان والو ان چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو جو تم پر ظاہر ہوجائیں تو تمہیں بری لگیں اور اگر نزول قرآن کے وقت دریافت کرلو گے تو ظاہر بھی کردی جائیں گی اور اب تک کی باتوں کواللہ نے معاف کردیا ہے کہ وہ بڑا بخشنے والا اور برداشت کرنے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
مومنو ایسی چیزوں کے بارے میں مت سوال کرو کہ اگر (ان کی حقیقتں) تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں بری لگیں۔ اور اگر قرآن نازل ہونے کے زمانے میں ایسی باتیں پوچھو گے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی۔ (اب تو) خدا نے ایسی باتوں (کے پوچھنے) سے درگزر فرمایا ہے اور خدا بخشنے والا بردبار ہے۔
آیت ١٠١ تا ١٠٧
ترجمہ : لوگوں نے جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کثرت سے سوالات کرنے شروع کئے تو یہ آیت نازل ہوئی اے ایمان والو ایسی (فضول) باتوں کا سوال نہ کرو کہ اگر تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں اس لئے کہ اس میں دشواری ہو، اور اگر تم نزول قرآن کے دوران یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ حیات میں ان باتوں کا سوال کرو گے تو تم کو جواب دیدیا جائیگا، مطلب یہ کہ جب تم آپ کے زمانہ حیات میں چیزوں کے بارے میں سوال کرو گے تو قرآن (ان کا جواب) ظاہر کرنے کے بارے میں نازل ہوگا اور جب قرآن ان چیزوں کا جواب ظاہر کر دے گا تو تمہیں ناگواری ہوگی، لہٰذا ایسی چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو، اللہ نے تمہارے (ماضی میں) سوال کرنے کو معاف کردیا، آئندہ ایسی حرکت نہ کرنا اللہ بڑا معاف کرنے والا بڑا بردبار ہے، ایسی باتیں تم سے پہلی قوم نے اپنے انبیاء سے پوچھی تھیں ان کے احکام بیان کرکے ان کا جواب دیدیا گیا، پھر وہ ان احکام پر ترک عمل کرکے ان احکام کے منکر ہوگئے اللہ نے نہ بحیرہ کو مشروع کیا اور نہ سائبہ کو اور نہ وصیلہ کو اور نہ حام کو جیسا کہ اہل جاہلیت اس کو کرتے تھے، امام بخاری نے سعید بن مسیب سے روایت کی ہے کہ بحیرہ اس جانور کو کہتے ہیں کہ جس کا دودھ دوہنا بتوں کے نام پر موقوف کردیا جاتا تھا، چناچہ کوئی شخص ان کا دودھ نہیں دوہتا تھا، اور سائبہ اس جانور کو کہتے ہیں جس کو وہ اپنے معبودوں کے نام پر آزاد چھوڑ دیتے تھے، چناچہ وہ اس کو بار برداری کے کام میں نہیں لیتے تھے، اور وصیلہ اس نوجوان اونٹنی کو کہتے تھے جو پہلی ہی بار مادہ بچہ جنے پھر دوبارہ بھی مادہ بچہ جنے کہ ان کے درمیان نر بچہ نہ ہو، اور حام وہ اونٹ جو دس بار جفتی کرے، جب وہ مذکورہ تعداد پوری کرلیتا تو اس کو بتوں کے نام پر آزاد چھوڑ دیتے، اور اس پر بار برداری ترک کردیتے کہ اس پر کوئی چیز نہ لادتے، اور اس کا نام حام رکھتے تھے، لیکن (یہ) کافر اس معاملہ میں اس کی جانب نسبت کرنے میں اللہ پر چھوٹی تہمت لگاتے تھے، اور ان میں اکثر لوگ نہیں جانتے کہ یہ تہمت ہے اسلئے کہ انہوں نے اس معاملہ میں اپنے آباء کی تقلید کی ہے، اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس کی طرف آؤ جو اللہ نے نازل کیا ہے اور رسول کی طرف آؤ یعنی اسکے حکم کی طرف کہ وہ جس کو تم نے حرام کیا ہے اس کو حلال کرنا ہے تو کہتے ہیں کہ جس دین و شریعت پر ہم نے اپنے آباء (و اجداد) کو پایا ہے وہ ہمارے لئے کافی ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا یہ ان کیلئے کافی ہوگا اگرچہ ان کے آباء کچھ نہ جانتے ہوں ؟ اور راہ حق کی طرف ہدایت یافتہ نہ ہوں استفہام انکار کیلئے ہے، اے ایمان والو ! تم اپنی فکر کرو یعنی اپنی حفاظت کرو اور اس کی اصلاح کیلئے مستعد ہوجاؤ کسی کی گمراہی سے تمہارا کچھ نہیں بگڑتا اگر تم خود راہ راست پر ہو کہا گیا ہے کہ مراد اہل کتاب ہیں اور کہا گیا ہے کہ مراد غیر اہل کتاب ہیں، ابو ثعلبہ الخشنی کی حدیث کی وجہ سے، (ابو ثعلبہ نے فرمایا) کہ میں نے مذکورہ آیت کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا بھلی بات کا حکم کرو اور بری بات سے روکو، اور جب تم دیکھو کہ بخل کی پیروی کی جارہی ہے اور خواہشات کی اتباع کی جارہی ہے اور دنیا کو (دین) پر ترجیح دی جا رہی ہے اور ہر شخص اپنی رائے میں مست ہے، تو تم اپنی فکر کرو، (اس کو حاکم وغیرہ نے روایت کیا ہے) تم سب کو اللہ کے پاس لوٹ کر جانا ہے تو وہ تم کو وہ سب کچھ بتادے گا جو تم کیا کرتے تھے کہ وہ اس کی جزا دے گا، اے ایمان والو جب تم میں سے کسی کی موت آجائے یعنی اس کے اسباب ظاہر ہونے لگیں اور وصیت کرنے کا وقت ہو تو اس کے لئے شہادت کا (نصاب) یہ ہے کہ تمہاری جماعت میں سے دو عادل آدمی گواہ بنائے جائیں، خبر بمعنی امر ہے، یعنی ان کو شہادت دینی چاہیے، اور شھادۃ کی اضافت بین کی جانب وسعت کی بناء پر ہے، اور حین اِذَا سے بدل ہے یا حَضَرَ کا ظرف ہے، اور اگر دوران سفر تم پر موت کی مصیبت آجائے تو تمہارے غیروں یعنی غیر مسلموں میں سے دو گواہ لے لئے جائیں، اگر تم (اے وارثو) ان دونوں کے بارے میں شک میں پڑجاؤ تو ان دونوں کو عصر کی نامز کے بعد روک لو (تحبسونھما) آخرانِ کی صفت ہے تو وہ اللہ کی قسم کھا کر کہہ دیں کہ ہم اللہ کی قسم کا عوض نہیں چاہتے کہ اس کے بدلے میں دینوی عوض لے لیں کہ ہم دنیا کے لئے قسم کھالیں یا اس کیلئے جھوٹی شہادت دیدیں، اگرچہ جن کے فائدے کیلئے قسم کھائی جا رہی ہے یا جن کے فائدہ کیلئے شہادت دی جارہی ہے ہمارے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، اور نہ ہم اللہ کی شہادت کو چھپائیں گے جس کے ادا کرنے کا ہم کو حکم دیا گیا ہے، اگر ہم نے چھپایا تو ہم گنہگاروں میں شمار ہوں گے، پس اگر ان کے قسم کھانے کے بعد (کسی طرح) یہ سراغ لگ جائے کہ وہ دونوں گناہ کے مستحق ہوئے ہیں یعنی انہوں نے ایسے فعل کا ارتکاب کیا ہو جو خیانت کو یا کذب فی الشہادتین کو واجب کرے بایں طور کہ مثلاً وہ چیز جس کے بارے میں ان کو اتہام لگایا گیا ہے وہ ان کے پاس سے برآمد ہو، اور انہوں نے یہ دعویٰ کیا ہو کہ انہوں نے میت سے یہ چیز خریدی ہے یا میت نے ان کیلئے اس کی وصیت کی ہے تو دوسرے دو گواہ جو ان دونوں کے قائم مقام ہوں یمین کو ان کی طرف متوجہ کرنے میں ان لوگوں کی جانب سے کہ جو وصیت کے مستحق قرار پائے ہیں اولین، آخر ان سے بدل ہے اور وہ ورثاء ہیں جو میت کے اولیا یعنی میت کے رشتہ دار ہیں اور ایک قراءت میں اَوَّلِین اول کی جمع ہے الذین کی صفت یا بدل ہے تو وہ شاہدین کی خیانت پر اللہ کی قسم کھائیں، اور کہیں کہ ہماری شہادت ان کی شہادت سے راست تر ہے اور ہم نے قسم میں حق سے تجاوز نہیں کیا ہے، بیشک ہم اس وقت ظالموں میں شمار ہوں گے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : اَشیاءَ ، اَشیَاءُ کی اصل شَیْئاءُ تھی بروزن فَعْلاءُ ، کحمراء، کہ عرب کے نزدیک دو ہمزوں کے درمیان الف ثقیل النطق ہے جس کی وجہ سے پہلے ہمزہ کو جو کہ لام کلمہ ہے قلب مکانی کرکے شین سے مقدم کردیا اب اس کا وزن اشیاء بروزن لفعاء ہوگیا اب یہ الف تانیث ممدود کی وجہ سے غیر منصرف ہوگیا۔ (اعراب القرآن)
قولہ : ان تَسْئَلُوا عنھا حین یُنَزّلُ القرآنُ تُبْدَلکم، اِن حرف شرط، تسئلوا فعل شرط عنھا، تسئلوا کے متعلق، ھا ضمیر ما سبق میں مذکور اشیاء کی طرف راجع ہے حین ینزل القرآن، تسئلوا کا ظرف ہے اور تُبْدَلکم جواب شرط ہے۔
قولہ : اَلْمَعْنی اِذَا سَئَلْتُم الخ، مفسر علام کا مقصد اس عبارت کے اضافہ سے یہ بتانا ہے کہ یہاں دو شرطیہ جملے اور نہی ہیں، دراصل نہی جو کہ مقدم ہے دونوں جملوں سے مؤخر ہونی چاہیے، اور دونوں شرطیہ جملوں میں پہلا جملہ مؤخر اور ثانیہ مقدم ہونا چاہیے، نہی کو مع اس کے نتیجے کے اہتمام زجر کی وجہ سے مقدم کردیا گیا اور یہ تقدیم و تاخیر باعتبار معنی کے ہے اسلئے کہ واؤ ترتیب کا تقاضہ نہیں کرتا۔
قولہ : اذا سَئَلْتُم عن اَشْیَاءَ ، یہ جملہ ثانیہ کے معنی ہیں اور متیٰ اَبدأھا سائتکم یہ جملہ اولی کے معنی ہیں۔
قولہ : فلا تَسْئَلُوا عَنْھَا یہ معنی نہی ہیں۔ قولہ : اِذَا سَئَلْتُمْ عَنْ اَشْیَاءَ مبتداء ہے یُنَزَّلُ القرآنُ عن اِبْدائِھا اس کی جزا ہے۔
قولہ : عن مَسْئَلَتِلُم اس میں اشارہ ہے کہ عنھا کی ضمیر مسئلۃ کی طرف لوٹ رہی ہے جو یسئلون سے مفہوم ہے۔
قولہ : شَرَعَ ، جَعَلَ کی تفسیر شرع سے اشارہ کردیا کہ جَعَلَ ، شَرَعَ کے معنی کو متضمن ہونے کی وجہ سے متعدی بیک مفعول ہے اور وہ بحیرۃ ہے من زائدہ ہے۔
قولہ : بَحِیْرَۃ، باء کے فتحہ اور حاء کے کسرہ کے ساتھ بروزن فعیلۃ بمعنی مفعولۃ اس کے آخر میں تاء غیر قیاسی طور لاحق ہوئی ہے اسلئے کہ اس کو وصفیت سے اسمیت کی طرف منتقل کیا ہے جس کی وجہ سے بمنزلہ جامد کے ہوگیا، بحیرہ کی تعریف میں علماء کا بہت اختلاف ہے منجملہ ایک قول یہ ہے کہ جو قوی تر ہے جب اونٹنی پانچ مرتبہ بچہ جنتی تھی اور پانچواں بچہ نر ہوتا تو اس کا کان چیر کر اپنے بتوں کے نام پر آزاد کردیتے تھے اور اس پر بار برداری اور سواری کرنا حرام سمجھتے تھے، اور کوئی شخص اس کو گھاس پانی سے نہیں روکتا تھا۔ (اعراب القرآن للدرویش)
قولہ : سَائِبَۃ، یہ ساب یسیب سے اسم فاعل ہے آزاد کرنا، اس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ زمانہ جاہلیت میں اسطرح نذر مانتے تھے، مثلاً ، اگر میں سفر سے صحیح سلامت واپس آگیا یا میں مرض سے شفایاب ہوگیا تو میری اونٹنی آزاد ہے، اس طریقہ پر چھوڑی ہوئی اونٹنی کو سائبہ کہا جاتا تھا۔ (اعراب القرآن ایضاً )
قولہ : البر بقتح الباء والکاف جو ان اونٹنی تَبَکَّرَ فی اول نتاج الابل بالانثی ای تَلدَ فی اول مرۃ بالانثیٰ ، وہ نوجواب اونٹنی جس نے پہلا بچہ مادہ جنا ہو۔ قولہ : وَصِیْلہ، وہ نوجوان اونٹنی جس کے پہلے حمل میں مادہ بچہ پیدا ہوا ہو، اور دوسری مرتبہ بھی مادہ بچہ جنے تسلسل کے ساتھ چونکہ مادہ بچے جنے اسلئے اس اونٹنی کو وصیلہ کہتے ہیں ایسی اونٹنی کو عرب بتوں کے نام پر آزاد کردیتے تھے، اور اس سے کسی قسم کی خدمت نہیں لیتے تھے۔
قولہ : حام، حمیٰ یحمی حَمْیًا وحِمَایَۃً روکنا سے اسم فاعل، اِذَا مُنِعَ بعض حضرات نے کہا ہے کہ حام وہ اونٹ جس کی پشت سے دس بچے پیدا ہوئے ہوں، گویا کہ اس کی پشت بار برداری اور سواری سے محفوظ ہوگئی ای لا یرکب ولایحملُ ولا یمنع من ماء لامرعی۔
قولہ : واِضَافَۃُ شَھَادَۃ لِبَین علی الاتِّسَاعِ یعنی ظرف کو قائم مقام فاعل کے اتساعاً کردیا گیا ہے، لہٰذا یہ اعتراض ختم ہوگیا کہ مصدر فاعل یا مفعول کی جانب مضاف ہوتا ہے۔
تفسیر و تشریح
شان نزول : یآیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاتسئلوا عن اشیاء (الآیۃ) ، اس آیت میں فرضی اور دوراز مقصد سوالات کرنے سے منع کیا گیا ہے، مذکورہ آیت کے شان نزول کے بارے میں صحیح ترین روایت وہ ہے جو ابوہریرہ ، انس بن مالک نے روایت کی ہے، ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک روز “ اپنے گھر سے نکلے اور مسجد میں تشریف فرما ہوئے صحابہ کرام آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اطراف میں جمع ہوگئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس کو جو سوال کرنا ہے کرے، تو ایک صاحب کھڑے ہوئے اور سوال کیا یا رسول اللہ میرا اصل باپ کون ہے ؟ تو آپ نے فرمایا تیرا باپ حذافہ ہے، ایک دوسرے صاحب کھڑے ہوئے سوال کیا کہ میرے والد کہاں ہیں آپ نے فرمایا دوزخ میں، قفال نے فرمایا کہ اہل کتاب نے مومنین سے کہا تھا کہ تم اپنے بنی سے یہ سوال کرو اور وہ سب سوالات فرضی تھے تو اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت نازل فرمائی۔
دوسرا واقعہ : مسلم کی روایت کے مطابق مذکور آیت کے شان نزول کا یہ واقعہ مذکور ہوا ہے، جب حج کی فرضیت نازل ہوئی تو۔۔ بن حابس (رض) نے آپ سے سوال کیا، کیا ہر سال ہمارے ذمہ حج فرض ہے ؟ آپ نے سکوت فرمایا تو مکرروہی سوال کیا آپ پھر بھی خاموش رہے جب تیسری مرتبہ وہی سوال کیا تو آپ نے عتاب کے لہجہ میں فرمایا، اگر میں تمہارے سوال کا جواب میں ہاں کہہ دیتا تو ایسا ہی ہوجاتا اور پھر اس کو پورا نہ کرسکتے، اسکے بعد فرمایا ” جب چیزوں کے بارے میں تم کو کوئی حکم نہ دوں تو ان کو اسی طرح رہنے دو ، ان کی کھود کرید کرکے سوالات نہ کرو، تمہارے سے پہلے بعض امتیں اسی کثرت سوالات کی وجہ سے ہلاک ہوچکی ہیں
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کثرت سے سوال سے منع فرمانا : خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی صحابہ کو کثرت سوال سے منع فرماتے تھے، آپ نے فرمایا ” اِنَّ اعظم المسلمین فی المسلمین جرماً مَن سَأل عَن شئ لم یحرم علی الناس فحرم من اجل مسئلتہٖ “ ، مسلمانوں میں سے سب سے بڑا مجرم وہ شخص ہے جس نے کسی ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا جو لوگوں پر حرام نہیں کی گئی تھی اور پھر محض اس کے سوال کی وجہ سے وہ چیز حرام کردی گئی۔ (بخاری، مسلم)
کس قسم کے سوالات سے ممانعت ہے ؟ ایسے سوالات سے منع کیا گیا ہے جو سراسر فضول ہوں نہ ان سے کوئی دینی معاملہ متعلق اور نہ دنیوی ضرورت، یا مثلاً لوگوں کی جزئیات زندگی سے سوالات کرنا، البتہ معاشی یا معادی واقعی ضرورت پیش آجائے یا پیش آنے کا قوی احتمال ہو تو ایسے سوالات کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، دور دور کے احتمالات پیدا کرکے محض سوال برائے سوال کرنا، اپنے دل سے گھڑ کر محض امتحان یا ضیق میں ڈالنے کیلئے فرضی سوالات کرنا منع ہے یہاں ایسے ہی سوالات سے ممانعت کی جارہی ہے۔
مسند سعید بن منصور اور تفسیر اب جریر میں حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ مذکورہ آیت میں جو بحیرہ اور سائبہ وغیرہ کا ذکر ہے، ان کے بارے میں بعض صحابہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تھا جس کے جواب میں مذکورہ آیت نازل ہوئی تھی، حاصل آیت کا یہ ہے کہ ملت ابراہیمی میں اللہ نے ان جانوروں کو حرام نہیں ٹھہرایا قریش میں یہ رسم عمرو بن عامر خزاعی کی ایجاد کردہ ہے، صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان جانوروں کو حرام کرنے کی رسم قریش میں عمر و بن عامر نے جاری کی اور آپ نے یہ فرمایا کہ میں نے اس کو دوزخ میں دیکھا اس کی انتڑیاں دوزخ کی آگ میں نکلی ہوئی پڑی تھیں اور وہ ان کو کھینچتا ہوا پھر رہا تھا، اور جل رہا تھا۔ (احسن التفاسیر)
اپنی اصلاح پر اکتفاء کافی نہیں : بعض لوگوں کو یایھا الذین آمنوا علیکم انفسکم لایضرکم من ضَلَّ الخ کے ظاہری الفاظ سے یہ شبہ پیدا ہوا کہ اپنی اصلاح اگر کرلی جائے تو کافی ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ضروری نہیں، لیکن یہ مطلب صحیح نہیں ہے اس لئے کہ امر بالمعروف کا فریضہ بھی نہایت اہم ہے، اگر ایک مسلمان یہ فریضہ ہی ترک کر دے گا، تو اس کا تارک ہدایت پر قائم رہنے والا کہاں رہے گا ؟ جبکہ قرآن نے اِذَا اھتدیتم کی شرط عائد کی ہے، یہی وجہ ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق کے علم میں یہ بات آئی تو فرمایا اے لوگو تم آیت کو غلط جگہ استعمال کر رہے ہو میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے کہ جب لوگ برائی ہوتے دیکھیں اور اس کی اصلاح کی کوشش نہ کریں تو قریب ہے کہ اللہ ان کو اپنے عذاب کی گرفت میں لے لے (مسند احمد، ترمذی)
اس لئے آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ تمہارے سمجھانے کے باوجود اگر لوگ نیکی کا راستہ اختیار نہ کریں یا برائی سے باز نہ آئیں تو تمہارے لئے یہ نقصان دہ نہیں جبکہ تم خود نیکی پر قائم اور برائی سے مجتنب ہو اگر عملی یا لسانی طور پر لوگوں کو برائی سے باز رکھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل سے برا سمجھنا ایمان کا آخری درجہ ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے اہل ایمان بندوں کو ایسی چیزوں کے بارے میں سوال کرنے سے منع کرتا ہے جن کو اگر ان کے سامنے بیان کردیا جائے تو ان کو بری لگیں گی اور ان کو غمزدہ کردیں گی مثلاً بعض مسلمانوں نے اپنے آباء و اجداد کے بارے میں سوال کیا تھا کہ آیا وہ جنت میں ہیں یا جہنم میں۔ اگر اس قسم کے سوال پر سائل کو واضح جواب دیا جائے تو بسا اوقات اس میں بھلائی نہیں ہوتی مثلاً غیر واقع امور کے بارے میں ان کا سوال کرنا، یا ایسا سوال کرنا جس کی بنا پر کوئی شرعی شدت مترتب ہو اور بسا اوقات اس سوال کی وجہ سے امت حرج میں مبتلا ہوجاتی ہے یا کوئی اور لا یعنی سوال کرنا۔ یہ سوالات اور اس قسم کے دیگر سوالات ممنوع ہیں۔ رہا وہ سوال جس کے ساتھ مذکورہ بالا چیزوں کا تعلق نہ ہو، تو وہ مامور بہ ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾(النحل :16؍43) ” اہل ذکر سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے۔ “
﴿وَإِن تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللّٰهُ عَنْهَا ۗ ﴾ ” اور اگر پوچھو گے یہ باتیں، ایسے وقت میں کہ قرآن نازل ہو رہا ہے، تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی“ یعنی جب تمہارا سوال اس کے محل نزول سے موافقت کرے اور تم اس وقت سوال کرو جب تم پر قرآن نازل کیا جا رہا ہو اور تم کسی آیت میں اشکال کے بارے میں سوال کرو یا کسی ایسے حکم کے بارے میں سوال کرو جو تم پر مخفی رہ گیا ہو اور یہ سوال کسی ایسے وقت پر ہو جب آسمان سے وحی کے نزول کا امکان ہو تو تم پر ظاہر کردیا جائے گا۔ یعنی اس کو تمہارے سامنے واضح کردیا جائے گا ورنہ جس چیز کے بارے میں اللہ تعالیٰ خاموش ہے تم بھی خاموش رہو۔ ﴿ عَفَا اللّٰهُ عَنْهَا﴾ ” اللہ نے ایسی باتوں (کے پوچھنے) سے درگزر فرمایا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو معاف کرتے ہوئے سکوت سے کام لیا۔ پس وہ معاملہ جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سکوت اختیار کیا ہو وہ معاف ہے اور مباحات کے زمرے میں آتا ہے۔ ﴿وَاللّٰهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ﴾” اور اللہ بخشنے والا بردبار ہے۔“ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیشہ سے مغفرت کی صفت سے موصوف، حلم اور احسان میں معروف ہے۔ پس اس سے اس کی مغفرت اور احسان کا سوال کرو اور اس سے اس کی رحمت اور رضا طلب کرو۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey emaan walo ! aesi cheezon kay baaray mein sawalaat naa kiya kero jo agar tum per zahir kerdi jayen to tumhen nagawar hon , aur agar tum unn kay baaray mein aesay waqt sawalaat kero gay jab Quran nazil kiya jaraha ho to woh tum per zahir kerdi jayen gi . ( albatta ) Allah ney pichli baaten moaaf kerdi hain . aur Allah boht bakhshney wala , bara burdbaar hai .