المائدہ آية ۱۲
وَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ بَنِىْۤ اِسْرَاۤءِيْلَۚ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَىْ عَشَرَ نَقِيْبًا ۗ وَقَالَ اللّٰهُ اِنِّىْ مَعَكُمْۗ لَٮِٕنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوةَ وَاٰتَيْتُمُ الزَّكٰوةَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِىْ وَعَزَّرْتُمُوْهُمْ وَاَقْرَضْتُمُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّاُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَلَاُدْخِلَـنَّكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِىْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُۚ فَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاۤءَ السَّبِيْلِ
طاہر القادری:
اور بیشک اﷲ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا اور (اس کی تعمیل، تنفیذ اور نگہبانی کے لئے) ہم نے ان میں بارہ سردار مقرر کئے، اور اﷲ نے (بنی اسرائیل سے) فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں (یعنی میری خصوصی مدد و نصرت تمہارے ساتھ رہے گی)، اگر تم نے نماز قائم رکھی اور تم زکوٰۃ دیتے رہے اور میرے رسولوں پر (ہمیشہ) ایمان لاتے رہے اور ان (کے پیغمبرانہ مشن) کی مدد کرتے رہے اور اﷲ کو (اس کے دین کی حمایت و نصرت میں مال خرچ کرکے) قرضِ حسن دیتے رہے تو میں تم سے تمہارے گناہوں کو ضرور مٹا دوں گا اور تمہیں یقیناً ایسی جنتوں میں داخل کر دوں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ پھر اس کے بعد تم میں سے جس نے (بھی) کفر (یعنی عہد سے انحراف) کیا تو بیشک وہ سیدھی راہ سے بھٹک گیا،
English Sahih:
And Allah had already taken a covenant from the Children of Israel, and We delegated from among them twelve leaders. And Allah said, "I am with you. If you establish prayer and give Zakah and believe in My messengers and support them and loan Allah a goodly loan, I will surely remove from you your misdeeds and admit you to gardens beneath which rivers flow. But whoever of you disbelieves after that has certainly strayed from the soundness of the way."
1 Abul A'ala Maududi
اللہ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا اور ان میں بارہ نقیب مقرر کیے تھے اور ان سے کہا تھا کہ "میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نے نماز قائم رکھی اور زکوٰۃ دی اور میرے رسولوں کو مانا اور ان کی مدد کی اور اپنے خدا کو اچھا قرض دیتے رہے تو یقین رکھو کہ میں تمہاری برائیاں تم سے زائل کر دوں گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، مگراس کے بعد جس نے تم میں سے کفر کی روش اختیار کی تو در حقیقت اُس نے سوا٫ السبیل گم کر دی"
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد کیا اور ہم نے ان میں بارہ سردار قائم کیے اور اللہ نے فرمایا بیشک میں تمہارے ساتھ ہوں ضرور اگر تم نماز قائم رکھو اور زکوٰة دو اور میرے سوالوں پر ایمان لاؤ اور ان کی تعظیم کرو اور اللہ کو قرض حسن دو بیشک میں تمہارے گناہ اتار دوں گا اور ضرور تمہیں باغوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے نہریں رواں، پھر اس کے بعد جو تم میں سے کفر کرے وہ ضرور سیدھی راہ سے بہکا
3 Ahmed Ali
اور الله نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا اور ہم نے ان میں سے بارہ سردار مقرر کیے اور الله نےکہا میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز کی پابندی کرو گے اور زکواة دیتے رہو گے اور میرے سب رسولوں پر ایمان لاؤ گے اور ان کی مدد کرو گے اور الله کواچھے طور پر قرض دیتے رہو گے تو میں ضرور تمہارے گناہ تم سےدور کردوں گا اور تمہیں باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں پھر جوکوئی تم میں سے اس کے بعد کافر ہوا وہ بے شک سیدھے راستے سے گمراہ ہوا
4 Ahsanul Bayan
اور اللہ تعالٰی نے بنی اسرائیل سے عہد و پیماں لیا (١) اور انہی میں سے بارہ سردار ہم نے مقرر فرمائے (۲) اور اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ یقیناً میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نماز قائم رکھو گے اور زکوۃ دیتے رہو گے اور میرے رسولوں کو مانتے رہو گے اور ان کی مدد کرتے رہو گے اور اللہ تعالٰی کو بہتر قرض دیتے رہو گے تو یقیناً میں تمہاری برائیاں تم سے دور رکھوں گا اور تمہیں ان جنتوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے چشمے بہہ رہے ہیں، اب اس عہد و پیمان کے بعد بھی تم میں سے جو انکاری ہو جائے وہ یقیناً راہ راست سے بھٹک گیا۔
۱ ۔ ۱۲جب اللہ تعالٰی نے مومنوں کو وہ عہد اور میثاق پورا کرنے کی تاکید کی جو اس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے لیا اور انہیں قیام حق اور شہادت عدل کا حکم دیا اور انہیں وہ انعامات یاد کرائے جو ان پر ظاہرا وباطنا ہوئے اور بالخصوص یہ بات کہ انہیں حق و ثواب کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائی تو اب اس مقام پر اس عہد کا ذکر فرمایا جا رہا ہے جو بنی اسرائیل سے لیا گیا اور جس میں وہ ناکام رہے۔ یہ گویا بالواسطہ مسلمانوں کو تنبیہ ہے کہ تم بھی کہیں بنو اسرائیل کی طرح عہد ومیثاق کو پامال کرنا شروع نہ کر دینا۔
۲ ۔ ۱۲ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام جبابرہ سے قتال کے لیے تیار ہوئے تو انہوں نے اپنی قوم کے بارہ قبیلوں بارہ نقیب مقرر فرما دیے تاکہ وہ انہیں جنگ کے لیے تیار بھی کریں، ان کی قیادت و راہنمائی بھی کریں اور دیگر معاملات کا انتظام بھی کریں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور خدا نے بنی اسرائیل سے اقرار لیا اور ان میں ہم نے بارہ سردار مقرر کئے پھر خدا نے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز پڑھتے اور زکوٰة دیتے رہو گے اور میرے پیغمبروں پر ایمان لاؤ گے اور ان کی مدد کرو گے اور خدا کو قرض حسنہ دو گے تو میں تم سے تمہارے گناہ دور کر دوں گا اور تم کو بہشتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں پھر جس نے اس کے بعد تم میں سے کفر کیا وہ سیدھے رستے سے بھٹک گیا
6 Muhammad Junagarhi
اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد و پیمان لیا اور انہی میں سے باره سردار ہم نے مقرر فرمائے اور اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ یقیناً میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نماز قائم رکھو گے اور زکوٰة دیتے رہو گے اور میرے رسولوں کو مانتے رہو گے اور ان کی مدد کرتے رہو گے اور اللہ تعالیٰ کو بہتر قرض دیتے رہو گے تو یقیناً میں تمہاری برائیاں تم سے دور رکھوں گا اور تمہیں ان جنتوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے چشمے بہہ رہے ہیں، اب اس عہد وپیمان کے بعد بھی تم میں سے جو انکاری ہو جائے وه یقیناً راه راست سے بھٹک گیا
7 Muhammad Hussain Najafi
اور بلاشبہ اللہ نے بنی اسرائیل سے عہدوپیمان لیا تھا اور ہم نے بھی بارہ نقیب (سردار) مقرر کئے تھے۔ اور اللہ نے (ان سے) کہا تھا کہ بے شک میں تمہارے ساتھ ہوں۔ تو اگر تم نماز قائم رکھوگے، اور زکوٰۃ دیتے رہوگے اور میرے رسولوں پر ایمان لاتے رہوگے، اور ان کی مدد کرتے رہوگے اور اللہ کو قرضہ حسنہ دیتے رہوگے تو میں ضرور تمہارے گناہ تم سے دور کر دوں گا۔ (معاف کر دوں گا) اور تمہیں ان بہشتوں میں داخل کروں گا۔ جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی مگر تم میں سے جس نے اس کے بعد کفر اختیار کیا وہ ضرور سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور بے شک اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ہم نے ان میں سے بارہ نقیب بھیجے اور خدا نے یہ بھی کہہ دیاکہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اگر تم نے نماز قائم کی اور زکوِٰ ادا کی اور ہمارے رسولوں پر ایمان لے آئے اور ان کی مدد کی اور خدا کی راہ میں قرض حسنہ دیاتو ہم یقینا تمہاری برائیوں سے درگزر کریں گے اور تمہیں ان باغات میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی -پھر جو اس کے بعد کفر کرے گا تو وہ بہت اِرے راستہ کی طرف بہک گیا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور خدا نے نبی اسرائیل سے اقرار لیا۔ اور ان میں ہم نے بارہ سردار مقرر کئے۔ پھر خدا نے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اگر تم نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے رہو گے اور میرے پیغمبروں پر ایمان لاؤ گے اور ان کی مدد کرو گے اور خدا کو قرض حسنہ دو گے تو میں تم سے تمہارے گناہ دور کردوں گا اور تم کو بہشتوں میں داخل کرونگا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں پھر جس نے اس کے بعد تم میں سے کفر کیا وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔
آیت نمبر ١٢ تا ١٩
ترجمہ : اور اللہ نے بنی اسرائیل سے آئندہ مذکور باتوں کے بارے میں یہ پختہ عہد لیا تھا، اور ان میں سے ہم نے بارہ نقیب مقرر کئے تھے، اس میں غیبت سے (تکلم کی جانب) التفات ہے، (بَعَثْنَا بمعنی اقمنا ہے نہ کہ بمعنی ارسلنا) ہر قبیلہ سے ایک نقیب (نگراں) کہ وہ اپنی قوم پر ایفاء عہد کی تاکید رکھے اور ان سے کہا تھا کہ میں اعانت اور نصرت کے اعتبار سے تمہارے ساتھ ہوں قسم ہے اگر تم نے نماز قائم رکھی اور زکوٰۃ ادا کی اور میرے رسولوں پر ایمان لائے اور ان کی مدد کی اور راہ خدا میں خرچ کرکے خدا کو قرض حسن دیتے رہے تو یقین رکھو میں تمہاری برائیاں تم سے زائل کر دوں گا، اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا کہ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اس عہد کے بعد جس نے تم میں سے کفر کیا تو وہ راہ راست سے بھٹک گیا، یعنی راہ حق سے خطا کر گیا، اور سواء، کے معنی اصل میں وسط کے ہیں، تو بنی اسرائیل نے عہد شکنی کی، تو ان کے نقض عہد کی وجہ سے ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دور کردیا اور ہم نے ان کے دلوں کو سخت کردیا جس کی وجہ سے قبول حق کے لئے نرم نہیں ہوتے، (اب ان کا حال یہ ہے) کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ان صفات وغیرہ کو کہ جو تورات میں موجود ہیں ان کے اس اصل مفہوم سے کہ جو اللہ نے متعین کیا ہے ردوبدل کرکے کچھ کا کچھ کردیتے ہیں یعنی ان کو بدل دیتے ہیں، اور جس چیز یعنی اتباع محمد کا ان کو تورات میں حکم دیا گیا تھا اس کا اکثر حصہ انہوں نے پس پشت ڈال دیا تھا، اور آئے دن تمہیں یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے، ان کے نقض عہد وغیرہ کی کسی نہ کسی خیانت کا پتہ چلتا رہتا ہے، ان میں سے بہت کم لوگ جو اسلام لائے ہیں، (اس عیب سے) بچے ہوئے ہیں (جب ان کی یہ حالت ہے) تو ان کو معاف کردو اور (ان حرکتوں) سے چشم پوشی کرتے رہو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو احسان کی روش پسند کرتے ہیں یہ (حکم) آیت سیف سے منسوخ ہے، اور ان لوگوں سے بھی ہم نے پختہ عہد لیا جنہوں نے کہا کہ ہم نصاری ہیں جیسا کہ ہم نے بنی اسرائیل یہود سے عہد لیا تھا، مگر ان کو بھی جو (سبق) انجیل میں ایمان وغیرہ کا یاد کرایا گیا تھا اس کا ایک بڑا حصہ فراموش کردیا، اور عہد شکنی کی، تو ہم نے ان کے اندر تفریق کے ذریعہ اور ان کے نظریات میں اختلاف کے ذریعہ قیامت تک کے لئے بغض و عدات ڈالدی جس کے نتیجے میں ہر فریق دوسرے کی تکفیر کرتا ہے، عنقریب آخرت میں اللہ تعالیٰ ان کو بےا دے گا جو حرکتیں (دنیا میں) وہ کیا کرتے تھے ؟ تو ان کو اس کی سزا دے گا، اب اہل کتاب یہود و نصاری تمہارے پاس ہمارا رسول آگیا جو کتاب الہیٰ تورات و انجیل کی بہت سی ان باتوں کو جیسا کہ آیت رجم اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات جن پر تم پردہ ڈالا کرتے تھے تمہارے سامنے کھول کھول کر بیان کر رہا ہے اور ان میں سے بہت سی باتوں کو نظر انداز بھی کرجاتا ہے، کہ ان کو ظاہر نہیں کرتا جن میں تمہاری فضیحت کے علاوہ کوئی مصلحت نہ ہو یقیناً تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی اور وہ (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، اور ایک ایسی حق نما کتب قرآن کہ اس کے ذریعہ اللہ اس شخص کو جو اس کی رضا کا طالب ہے کہ اس پر ایمان لائے سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے ارادہ سے ان کو کفر کی ظلمت سے ایمان کے نور کی جانب نکالتا ہے اور راہ راست (یعنی) دین اسلام کی جانب رہنمائی کرتا ہے یقیناً ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا یقیناً مسیح ابن مریم ہی خدا ہے بایں طور کہ انہوں نے مسیح کو معبود قرار دیا اور وہ فرقہ یعقوبیہ ہے جو کہ نصاری کا ایک فرقہ ہے، ان سے پوچھو اگر خدا مسیح ابن مریم کو اور ان کی والدہ کو ہلاک کرنا چاہتا ہے تو کسی کی مجال کہ اللہ کے عذاب کا کچھ بھی دفاع کرسکے، یعنی اس کی کسی کو مجال نہیں، اور اگر مسیح خدا ہوتے تو اس پر قادر ہوتے، یہود و نصاری یعنی ان میں سے ہر ایک کہتا ہے کہ ہم اللہ کے بیٹے ہیں یعنی قرب و منزلت میں، اور وہ ہمارے لئے شفقت و رحمت میں باپ کے مانند ہے اور اس کے چہیتے ہیں اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے پوچھو تو پھر وہ تم کو سزا کیوں دیتا ہے ؟ اگر تم اس دعوت میں سچے ہو، اور باپ بیٹے کو سزا نہیں دیا کرتا اور نہ محبوب اپنے محبوب کو اور وہ یقیناً تم کو سزا سے گا، لہٰذا تم (اپنے دعوے میں) جھوٹے ہو، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تم بھی ویسے ہی انسان ہو جیسے دوسرے انسان پیدا کئے تمہارے لئے وہی اجر وثواب ہے جو ان کے لئے ہے اور تمہارے لئے وہی سزا ہے جو ان کے لئے ہے، وہ جسے معاف کرنا چاہے معاف کرتا ہے اور جس کو عذاب دینا چاہتا ہے عذاب دیتا ہے اس پر کوئی اعتراض نہیں آسمانوں اور زمین میں اور ان کے درمیان جو کچھ ہے اللہ کی ملک ہے اور اسی کی طرف لوٹنا ہے اے اہل کتاب ہمارا رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے پاس آیا ہے اور دین کے احکام کی واضح تعلیم دے رہا ہے جبکہ رسولوں کی آمد کا سلسلہ ایک مدت سے بند تھا اس لئے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے درمیان کوئی رسول نہیں تھا، اور توقف کی مدت ٥٦٩ سال ہے جب تم کو سزا دی جائے تو تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس نہ کوئی خوشخبری دینے والا آیا اور نہ ڈرنے والا، مِنْ ، زائدہ ہے، لہٰذا اب تمہارے لئے کسی عذر کی گنجائش نہیں ہے اور اللہ ہر شئ پر قادر ہے اسی میں تم کو سزا دینا بھی شامل ہے اگر تم اس کی اتباع نہ کرو۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : نَقِیْب، جمع نُقَبَاء، سردار، قوم کی طرف سے وفاء عہد کا ذمہ دار، قوم کے حالات کی نگرانی کرنے والا، یہ فعیْل بمعنی فاعل ہے
قولہ : لَئِنْ اَقَمْتُمْ لام حذف قسم پر دلالت کرنے کیلئے ہے، اور ان شرطیہ ہے تقدیر عبارت یہ ہے واللہ لَئِنْ اَقَمْتُمُ الصلوٰۃ، لَاُکَفِّرَنَّ ، جواب قسم ہے جو کہ قائم مقام ہے جواب شرط کے۔
قولہ : عَزّرتموا۔ تعزیر سے ماضی جمع مذکر حاضر ہے، واؤ اشباع کا ہے تم نے مدد کی۔
قولہ : یُحَرِّفونَ الکلِمَ ، یہ جملہ مستانفہ ہے مقصد یہود کی قسادت قلبی کو بیان کرنا ہے۔
قولہ : خیانۃٍ مؤنث ہے، جواب کا حاصل یہ ہے کہ خائنۃٍ فاعل کے وزن پر مصدر ہے جیسا کہ عَافِیَۃً اور عَاقِبَۃ، اس کی تائید اعمش کی قراءت سے ہوتی ہے کہ انہوں نے خائنۃٍ کے بجائے خیانۃً پڑھا ہے، نیز منھم اور فاعْفُ عنھم بھی اس پر دلالت کرتے ہیں۔
قولہ : بآیَۃ السَیْفِ ، ای اقتلوا المشرکین حیث وَجَدتموھم۔
قولہ : متعلق بقولہ، یعنی مِنْ جار، اپنے مجرور جملہ سے ملکر اخذنا کے متعلق ہے۔
قولہ : اَغْرَیْنَا ای اَلْصقنا وَاَلْزَمْنَا، اِغراء سے ماضی جمع متکلم ہے، ہم نے ڈالدی ہم نے لگا دی۔
قولہ : بَیْنَھم، ای فِرَق النصاری۔ (١) نسطوریہ جن کا عقیدہ ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں، (٢) یعقوبیہ جن کا عقیدہ ہے کہ مسیح ابن مریم ہی خدا ہیں، (٣) ملکانیہ جن کا عقیدہ ہے کہ خدا تین میں کا ایک ہے۔
قولہ : لآیَۃِ الرَجْمِ وَصِفَتِہٖ یہ یہود کے کتمان کی مثال ہے اور نصاری کے چھپانے کی مثال مبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد ہے۔
قولہ : اِن صَدَقْتُمْ فِی ذٰلِکَ ، فَلِمَ یعذبکم بذنوبکم، شرط محذوف کی جزاء ہے، لہٰذا عطفِ انشاء علی الاخبار کا اعتراض وارد نہ ہوگا۔ (ترویح الارواح) قولہ : لان لا تقولوا، لام محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ جملہ لاجلہ ہے۔
تفسیر و تشریح
ولَقَدْ اَخذَ اللہ مِیْثَاقَ بَنِیْ اِسْرَائیلَ (الآیۃ) سابقہ آیات میں مسلمانوں کے عہد اور اس عہد پر قائم رہنے کی تاکید کا ذکر تھا، ان آیات میں اہل کتاب کی عہد شکنی اور اس کے انجام بد کا ذکر ہے، مقصد مسلمانوں کو آگاہ کرنا ہے کہ عہد شکنی بڑے وبال کا باعث ہوتی ہے، ان آیات میں یہود کی دو عہد شکنیوں کا ذکر ہے۔
پہلی عہد شکنی : پہلی عہد کنی کا حاصل یہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے مصر میں قیام کے زمانہ میں بنی اسرائیل ملک شام سے ہجرت کرکے مصر میں سکونت پذیر ہوگئے تھے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں فرعون کی ہلاکت کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا کہ بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر ملک شام چلے جائیں، ملک شام پر چونکہ قوم عاد کے باقی ماندہ کچھ لوگ قابض ہوگئے ہیں ان سے لڑ کر ملک شام کو آزاد کرائیں اور وہیں سکونت اختیار کریں، قوم عاد کے لوگوں میں ایک شخص تھا جس کا نام عملیق بن آذر تھا، ملک شام پر قابض لوگ اسی شخص کی اولاد تھے اسیلئے ان کو عمالقہ کہا جانے لگا تھا، عمالقہ قوم کے لوگ بڑے۔۔ توش کے مالک اور شہ زور اور قد آور تھے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب شام کے قریب پہنچے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے بارہ قبیلوں میں سے بارہ سردار منتخب کئے جن کو اپنے اپنے قبیلوں کی دینی و اخلاقی نگرانی کی ذمہ داری سپرد کی، مذکورہ بارہ سرداروں کو قوم عمالقہ کے حالات معلوم کرنے کیلئے بھیجا اور ان سے یہ عہد لیا کہ قوم عمالقہ کی قوت و طاقت اور شہ زوری کی کوئی ایسی بات یہاں آکر بیان نہ کریں جس سے بنی اسرائیل کے حوصلے پست ہوجائیں اور ان سے خوف زدہ ہو کر ان سے لڑنے سے ہمت ہار بیٹھیں، چناچہ قوم عمالقہ کے حالات معلوم کرکے آنے کے بعد بارہ آدمیوں میں سے دس نے بدعہدی کی اور اپنے عزیزوں اور دوستوں سے قوم عمالقہ کی شہ زوری کی حالات بیان کر دئیے جس کی وجہ سے بنی اسرائیل ہمت ہار گئے اور موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ لڑنے کیلئے جانے سے انکار کردیا، ان آیتوں میں بنی اسرائیل کی عہد شکنی اور بارہ سرداروں کی بدعہدی کا ذکر ہے۔
دوسری عہد شکنی : دوسرا عہد تورات کے احکام کی پابندی کا تھا، اس دوسرے عہد میں نماز، زکوۃ وغیرہ کا بنی اسرائیل کو پابند کیا گیا تھا جو انہوں نے پورا نہ کیا جس کا ذکر سورة آل عمران میں تفصیل سے گزر چکا ہے، ان آیات میں اسی سابقہ عہد کو یاد دلایا گیا ہے، غرض یہ کہ اس عہد کے مطابق یہود کو عیسیٰ (علیہ السلام) اور نبی آخر الزمان کی فرمانبرداری اور پیروی کا پابند کیا گیا تھا انہوں نے اس کو پورا نہ کیا جس کی وجہ سے تورات کے بھی پابند نہ رہے، اسلئے کہ تورات کی جن آیات میں عیسیٰ (علیہ السلام) اور نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف علامات مذکور تھیں ان میں لفظی اور معنویی تحریف کر ڈالی، اسی تحریف کی جانب ویُحَرِفونَ الکلم عن مواضعہٖ ، سے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے، یہود چونکہ اپنے پختہ عہد پر قائم نہ رہ سکے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ طرح طرح کی سزاؤں میں گرفتار ہوئے اور اس طرح ذلت سے دوچار ہوئے کہ تاریخ میں یہود کا نام ہمیشہ ذلت سے لیا گیا، یہ سب کچھ عہد شکنی کی وجہ سے ہوا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے قلوب قبول حق کے معاملہ میں سخت پتھر کے مانند ہوگئے، اس سنگدلی کا اثر یہ ہوا کہ اپنے اندر تبدیلی کے بجائے خدا کے کلام میں تبدیلی کرنے لگے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ ان کو جو نصیحت کی گئی تھی اس کا اکثر حصہ فراموش کر بیٹھے، ان کی اس تحریف خیانت کا سلسلہ ہنوز جاری ہے جس کی اطلاع آپ کو ہوجاتی ہے، البتہ بہت تھوڑے لوگ ان میں ایسے بھی ہیں کہ اس ناشائستہ حرکت سے محفوظ رہے، آپ ان کو معاف کیجئے اور درگزر سے کام لیجئے۔
سابق میں بنی اسرائیل کی بداعمالیوں اور بداخلاقیوں کا جو بیان آیا بظاہر اس کا مقتضیٰ یہ تھا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے انتہائی نفرت و حقارت کا معاملہ کریں ان کو پاس نہ آنے دیں اس آیت کے آخری جملہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت دی جا رہی ہے۔ ” ماعفُ عنھم واصفح انّ اللہ یحب المحسنین “ یعنی آپ ان کو معاف کریں اور ان کی بدکرداریوں کو نظر انداز کریں، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ حسن سلوک کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں۔
وَمِنَ الذین قالوا انا نصاریٰ سابقہ آیت میں یہود کی عہد شکنی اور اس کے انجام بد کا ذکر تھا، اس آیت میں کچھ نصاری کا حال بیان کیا جا رہا ہے، کہ نصاری نے بھی عہد شکنی کی، اور اس کی سزا کا بیان ہے کہ ان کے آپس میں افتراق اور بغض و عداوت ڈالدی گئی جو تاقیامت باقی رہے گی۔
سوال : آج کل عیسائیوں کے حالات سے یہ شبہ پیدا ہوسکتا ہے کہ وہ باہم متحد نظر آتے ہیں ؟
جواب : مذکورہ آیت میں ان عیسائیوں کا حال بیان کیا جارہا ہے کہ واقعی عیسائی ہیں، اور عیسائی مذہب کے پابند ہیں اور جو خود اپنے مذہب کو بھی چھوڑ کر دہرئیے اور بےدین ہوچکے ہیں وہ درحقیقت عیسائیوں کی فہرست سے خارج ہیں، چاہے وہ قومی طور پر خود کو عیسائی کہتے ہوں، ایسے لوگوں میں اگر وہ افتراق اور عداوت نہ ہو تو وہ اس آیت کے منافی نہیں، اسلئے کہ افتراق واختلاف تو مذہب کی بنیاد پر تھا جب مذہب ہی نہ رہا تو اختلاف بھی نہ رہا۔
انجیل میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشارت : آج جو صحیفے انجیلوں کے نام سے مسیحی ہاتھوں میں موجود ہیں، صدگونہ تحریفات کے باوجود بشات محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں آج تک باقی ہے حضرت یحییٰ کے بارے میں ہے، جب یہودیوں نے یروشلم سے کاہن اور لاوی یہ پوچھنے کو یحییٰ (علیہ السلام) کے پاس بھیجے کہ تو کون ہے ؟ (آیا تو مسیح ہے) تو اس نے کہا میں تو مسیح نہیں ہوں، پھر انہوں نے اس سے پوچھا پھر تو کون ہے ؟ کیا تو ایلیا ہے اس نے کہا میں نہیں ہوں، کیا تو وہ نبی ہے، اس نے جواب دیا نہیں تو انہوں نے اس سے سوال کیا کہ اگر تو نہ مسیح ہے نہ ایلیا نہ وہ نبی تو بپتسمہ کیوں دیتا ہے ؟ (یوحنا، ٢٥: ١)
مذکورہ گفتگو میں بار بار وہ نبی کے کیا معنی ہیں ؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی معروف نبی کی پیش گوئی یہود میں مدت سے
چلی آرہی تھی اور یہ نبی یقیناً مسیح سے الگ ہے جیسا کہ اوپر کے سوالات سے ظاہر ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے بنی اسرائیل سے بہت موکد اور بھاری عہد لیا پھر اس میثاق اور عہد کا صوف بیان فرمایا اور بتایا کہ اگر وہ اس عہد کو پورا کریں گے تو ان کو کیا اجر ملے گا اور اگر وہ اس عہد کو پورا نہیں کریں گے تو ان کو کیا سزا ملے گی، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ انہوں نے اس عہد کو پورا نہیں کیا اور یہ بھی بتایا کہ ان کو اس کی پاداش میں کیا سزا ملی۔ ﴿وَلَقَدْ أَخَذَ اللّٰهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ﴾ ”اور اللہ نے بنی اسرائیل سے اقرار لیا۔“ یعنی اللہ نے بنی اسرائیل سے مضبوط اور موکد عہد لیا ﴿وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا ﴾ ہم نے ان کے بارہ سردار مقرر کردیئے جو ان کے معاملات کی دیکھ بھال کرتے تھے اور جن باتوں کا انہیں حکم دیا جاتا تھا اس کی تعمیل کرنے پر انہیں آمادہ کرتے تھے۔ ﴿وَقَالَ اللّٰهُ ﴾ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان نقیبوں (سرداروں) سے فرمایا جنہوں نے ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھایا تھا ﴿إِنِّي مَعَكُمْ ﴾ ” میں تمہارے ساتھ ہوں“ یعنی میری اعانت و نصرت تمہارے ساتھ ہے، کیونکہ مدد ہمیشہ ذمہ داری کے بوجھ کے مطابق ہوتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان امور کا ذکر فرمایا جن پر عہد لیا تھا۔ ﴿لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ ﴾” اگر تم نماز پڑھتے رہو گے۔“ یعنی اگر تم نماز کو اس کے ظاہری اور باطنی لوازم کے ساتھ قائم کرو اور پھر اس پر دوام اختیار کرو گے ﴿وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ ﴾” اور زکوٰۃ دیتے رہو گے۔“ یعنی مستحق لوگوں کو زکوٰۃ دو گے ﴿وَآمَنتُم بِرُسُلِيْ ﴾ ” اور میرے پیغمبروں پر ایمان لاؤ گے۔“ تمام انبیاء و رسل پر ایمان لاؤ گے، جن میں سب سے افضل اور سب سے اکمل جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ﴿وَعَزَّرْتُمُوهُمْ ﴾ ” اور ان کی مدد کرو گے۔“ یعنی اگر تم انبیاء کی تعظیم اور ان کی اطاعت اور ان کا احترام کرو گے جو تم پر واجب ہے ﴿وَأَقْرَضْتُمُ اللَّـهَ قَرْضًا حَسَنًا ﴾” اور تم اللہ کو قرض حسن دو گے“ یعنی صدقہ دو گے اور بھلائی کرو گے جس کا مصدر صدق و اخلاق و اخلاص اور کسب حلال ہو۔
جب تم مذکورہ بالا تمام امور قائم کرلو گے ﴿لَّأُكَفِّرَنَّ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ﴾ ” تو میں تم سے تمہاری برائیاں دور کر دوں گا اور تمہیں ان باغات میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی“ اس میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے جنت میں اپنی نعمتوں اور محبوب امور کے حصول اور گناہوں کی تکفیر اور اس پر مرتب ہونے والی سزا کو دور کر کے ناپسندیدہ امور کے دور ہٹنے کو یکجا بیان فرمایا۔
﴿فَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ ﴾ ” پھر جس نے اس کے بعد کفر کیا۔“ یعنی جو کوئی اس عہد و میثاق کے بعد جسے ایمان اور ثواب کی ترغیب کے ذریعے سے موکد کیا گیا ہے، کفر کے رویہ اختیار کرتا ہے ﴿فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ ﴾” تو وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔“ یعنی وہ جان بوجھ کر سیدھے راستے سے بھٹکتا ہے تو وہ اسی سزا کا مستحق ہوگا، جس کے مستحق گمراہ لوگ ہوں گے، جیسے ثواب سے محرومی اور عذاب سے دوچار ہونا۔ گویا یوں کہا گیا ہے کہ ” کاش ہمیں بھی معلوم ہوتا کہ انہوں نے کیا کیا؟ کیا انہوں نے اس عہد کو پورا کیا جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا تھا یا اس عہد کو توڑ دیا؟“ پس اللہ نے واضح کردیا کہ انہوں نے اللہ کے ساتھ کئے گئے اس عہد کو توڑ دیا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur yaqeenan Allah ney bani Israel say ehad liya tha , aur hum ney unn mein say baara nigran muqarrar kiye thay , aur Allah ney kaha tha kay mein tumharay sath hun , agar tum ney namaz qaeem ki , zakat ada ki , meray payghumberon per emaan laye , izzat say unn ka sath diya aur Allah ko acha qarz diya to yaqeen jano kay mein tumhari buraiyon ka kaffara kerdun ga , aur tumhen unn baaghaat mein dakhil kerun ga jinn kay neechay nehren behti hon gi . phir iss/uss kay baad bhi tum mein say jo shaks kufr ikhtiyar keray ga to dar-haqeeqat woh seedhi raah say bhatak jaye ga
12 Tafsir Ibn Kathir
عہد شکن لوگ ؟ اور امام مہدی کون ؟
اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو عہد و پیمانے کی وفاداری، حق پر مستقیم رہنے اور عدل کی شہادت دینے کا حکم دیا تھا۔ ساتھ ہی اپنی ظاہری و باطنی نعمتوں کو یاد دلایا تھا۔ تو اب ان آیتوں میں ان سے پہلے کے اہل کتاب سے جو عہد و میثاق لیا تھا، اس کی حقیقت و کیفیت کو بیان فرما رہا ہے، پھر جبکہ انہوں نے اللہ سے کئے ہوئے عہد و پیمان توڑ ڈالے تو ان کا کیا حشر ہوا، اسے بیان فرما کر گویا مسلمانوں کو عہد شکنی سے روکتا ہے۔ ان کے بارہ سردار تھے۔ یعنی بارہ قبیلوں کے بارہ چودھری تھے جو ان سے ان کی بیعت کو پورا کراتے تھے کہ یہ اللہ اور رسول کے تابع فرمان رہیں اور کتاب اللہ کی اتباع کرتے رہیں۔ حضرت موسیٰ جب سرکشوں سے لڑنے کیلئے گئے تب ہر قبیلہ میں سے ایک ایک سردار منتخب کر گئے تھے۔ اوبیل قبیلے کا سردار شامون بن اکون تھا، شمعونیوں کا چودھری شافاط بن جدی، یہودا کا کالب بن یوحنا، فیخائیل کا ابن یوسف اور افرایم کا یوشع بن نون اور بنیامین کے قبیلے کا چودھری قنطمی بن وفون، زبولون کا جدی بن شوری، منشاء کا جدی بن سوسی، دان حملاسل کا ابن حمل، اشار کا ساطور، تفتای کا بحر اور یا سخر کالابل۔ توراۃ کے چوتھے جز میں بنو اسرائیل کے قبیلوں کے سرداروں کے نام مذکور ہیں۔ جو ان ناموں سے قدرے مختلف ہیں۔ واللہ اعلم۔ موجودہ تورات کے نام یہ ہیں۔ بنو ادبیل پر صونی بن سادون، بنی شمعون پر شموال بن صور، بنو یہود پر حشون بن عمیاذب، بنو یساخر پر شال بن صاعون، بنو زبولوں پر الیاب بن حالوب، بنو افرایم پر منشا بن عنہور، بنو منشاء پر حمائیل بنو بیبا میں پر ابیدن، بنودان پر جعیذ ربنو اشاذ نحایل۔ بون کان پر سیف بن دعوابیل، بنو نفعالی پر اجذع۔ یاد رہے کہ لیلتہ العقبہ میں جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار سے بیعت لی اس وقت ان کے سردار بھی بارہ ہی تھے۔ تین قبیلہ اوس کے۔ حضرت اسید بن حضیر، حضرت سعد بنی خیشمہ اور حضرت رفاعہ بن عبد المنذر اور نو سردار قبیلہ خزرج تھے۔ ابو امامہ، اسعد بن زرارہ، سعد بن ربیع، عبداللہ بن رواحہ، رافع بن مالک بن عجلان براء بن معرور عبادہ بن صامت، سعد بن عبادہ، عبداللہ بن عمرو بن حرام، منذربن عمرو بن حنیش اجمعین۔ انہی سرداروں نے اپنی اپنی قوم کی طرف سے پیغمبر آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرامین سننے اور ماننے کی بیعت کی، حضرت مسروق فرماتے ہیں ہم لوگ حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس بیٹھے تھے، آپ ہمیں اس وقت قرآن پڑھا رہے تھے تو ایک شخص نے سوال کیا کہ آپ لوگوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بھی پوچھا ہے کہ اس امت کے کتنے خلیفہ ہوں گے ؟ حضرت عبداللہ نے فرمایا میں جب سے عراق آیا ہوں، اس سوال کو بجز تیرے کسی نے نہیں پوچھا، ہم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بارے میں دریافت کیا تھا تو آپ نے فرمایا، بارہ ہوں گے، جتنی گنتی بنو اسرائیل کے نقیبوں کی تھی۔ یہ روایت سنداً غریب ہے، لیکن مضمون حدیث بخاری اور مسلم کی روایت سے بھی ثابت ہے، جابر بن سمرہ فرماتے ہیں " میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے، لوگوں کا کام چلتا رہے گا، جب تک ان کے والی بارہ شخص نہ ہو لیں، پھر ایک لفظ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لیکن میں نہ سن سکا تو میں نے دوسروں سے پوچھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اب کونسا لفظ فرمایا، انہوں نے جواب دیا یہ فرمایا کہ یہ سب قریش ہوں گے۔ " صحیح مسلم میں یہی لفظ ہیں۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بارہ خلیفہ صالح نیک بخت ہونگے۔ جو حق کو قائم کریں گے اور لوگوں میں عدل کرینگے۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ سب پے درپے یکے بعد دیگرے ہی ہوں۔ پس چار خلفاء تو پے درپے حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت جن کی خلافت بطریق نبوت رہی۔ انہی بارہ میں سے پانچویں حضرت عمر بن عبد العزیز ہیں۔ بنو عباس میں سے بھی بعض اسی طرح کے خلیفہ ہوئے ہیں اور قیامت سے پہلے پہلے ان بارہ کی تعداد پوری ہونی ضروری ہے اور انہی میں سے حضرت امام مہدی ہیں، جن کی بشارت احادیث میں آچکی ہے ان کا نام حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام پر ہوگا اور ان کے والد کا نام حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والد کا ہوگا، زمین کو عدل و انصاف سے بھر دینگے حالانکہ اس سے پہلے وہ ظلم و جبر سے پُر ہوگی لیکن اس سے شیعوں کا امام منتظر مراد نہیں، اس کی تو دراصل کوئی حقیقت ہی نہیں، نہ سرے سے اس کا کوئی وجود ہے، بلکہ یہ تو صرف شیعہ کی وہم پرستی اور ان کا تخیل ہے، نہ اس حدیث سے شیعوں کے فرقے اثنا عشریہ کے ائمہ مراد ہیں۔ اس حدیث کو ان ائمہ پر محمول کرنا بھی شیعوں کے اس فرقہ کی بناوٹ ہے جو ان کی کم عقلی اور جہالت کا کرشمہ ہے۔ توراۃ میں حضرت اسمعیل کی بشارت کے ساتھ ہی مرقوم ہے کہ ان کی نسل میں سے بارہ بڑے شخص ہونگے، اسے مراد بھی یہی مسلمانوں کے بارہ قریشی بادشاہ ہیں لیکن جو یہودی مسلمان ہوئے تھے، وہ اپنے اسلام میں کچے اور جاہل بھی تھے، انہوں نے شیعوں کے کان میں کہیں یہ صور پھونک دیا اور وہ سمجھ بیٹھے کہ اس سے مراد ان کے بارہ امام ہیں، ورنہ حدیثیں اس کے واضح خلاف موجود ہیں۔ اب اس عہد و پیمان کا ذکر ہو رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے یہودیوں سے لیا تھا کہ وہ نمازیں پڑھتے رہیں، زکوٰۃ دیتے رہیں، اللہ کے رسولوں کی تصدیق کریں، ان کی نصرت و اعانت کریں اور اللہ کی مرضی کے کاموں میں اپنا مال خرچ کریں۔ جب وہ ایسا کریں گے تو اللہ کی مدد و نصرت ان کے ساتھ رہے گی، ان کے گناہ معاف ہونگے اور یہ جنتوں میں داخل کئے جائیں گے، مقصود حاصل ہوگا اور خوف زائل ہوگا، لیکن اگر وہ اس عہد و پیما کے بعد پھرگئے اور اسے غیر معروف کردیا تو یقینا وہ حق سے دور ہوجائیں گے، بھٹک اور بہک جائیں گے۔ چناچہ یہی ہوا کہ انہوں نے میثاق توڑ دیا، وعدہ خلافی کی تو ان پر اللہ کی لعنت نازل ہوئی، ہدایت سے دور ہوگئے، ان کے دل سخت ہوگئے اور وعظ و پند سے مستفید نہ ہو سکے، سمجھ بگڑ گئی، اللہ کی باتوں میں ہیر پھیر کرنے لگے، باطل تاویلیں گھڑنے لگے، جو مراد حقیقی تھی، اس سے کلام اللہ کو پھیر کر اور ہی مطلب سمجھنے سمجھانے لگے، اللہ کا نام لے کر وہ مسائل بیان کرنے لگے، جو مراد حقیقی تھی، اس سے کلام اللہ کو پھیر کر اور ہی مطلب سمجھنے سمجھانے لگے، اللہ کا نام لے کر وہ مسائل بیان کرنے لگے جو اللہ کے بتائے ہوئے نہ تھے، یہاں تک کہ اللہ کی کتاب ان کے ہاتھوں سے چھوٹ گئی، وہ اس سے بےعمل چھوٹ جانے کی توجہ سے نہ تو دل ٹھیک رہے، نہ فطرت اچھی رہی۔ نہ خلوص و اخلاص رہا، غداری اور مکاری کو اپنا شیوہ بنا لیا۔ نت نئے جال نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اصحاب نبی کے خلاف بنتے رہے۔ پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوتا ہے کہ آپ ان سے چشم پوشی کیجئے، یہی معاملہ ان کے ساتھ اچھا ہے، جیسے حضرت عمر فاروق سے مروی ہے کہ جو تجھ سے اللہ کے فرمان کے خلاف سلوک کرے تو اس سے حکم الٰہی کی بجا آوری کے ماتحت سلوک کر۔ اس میں ایک بڑی مصلحت یہ بھی ہے کہ ممکن ہے ان کے دل کھچ آئیں، ہدایت نصیب ہوجائے اور حق کی طرف آجائیں۔ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ یعنی دوسروں کی بدسلوکی سے چشم پوشی کر کے خود نیا سلوک کرنے والے اللہ کے محبوب ہیں۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں " درگزر کرنے کا حکم جہاد کی آیت سے منسوب ہے۔ " پھر ارشاد ہوتا ہے کہ " ان نصرانیوں سے بھی ہم نے وعدہ لیا تھا کہ جو رسول آئے گا، یہ اس پر ایمان لائیں گے، اس کی مدد کرینگے اور اس کی باتیں مانیں گے۔ " لیکن انہوں نے بھی یہودیوں کی طرح بد عہدی کی، جس کی سزا میں ہم نے ان میں آپس میں عداوت ڈال دی جو قیامت تک جاری رہے گی۔ ان میں فرقے فرقے بن گئے جو ایک دوسرے کو کافر و ملعون کہتے ہیں اور اپنے عبادت خانوں میں بھی نہیں آنے دیتے " ملکیہ فرقہ یعقوبیہ فرقے کو، یعقوبیہ ملکیہ کو کھلے بندوں کافر کہتے ہیں، اسی طرح دوسرے تمام فرقے بھی، انہیں ان کے اعمال کی پوری تنبیہہ عنقریب ہوگی۔ انہوں نے بھی اللہ کی نصیحتوں کو بھلا دیا ہے اور اللہ پر تہمتیں لگائی ہیں اس پر بیوی اور اولاد والا ہونے کا بہتان باندھا ہے، یہ قیامت کے دن بری طرح پکڑے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ واحد واحد فرد و صمد لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوا احد ہے۔