(ربّ نے) فرمایا: پس یہ (سرزمین) ان (نافرمان) لوگوں پر چالیس سال تک حرام کر دی گئی ہے، یہ لوگ زمین میں (پریشان حال) سرگرداں پھرتے رہیں گے، سو (اے موسٰی! اب) اس نافرمان قوم (کے عبرت ناک حال) پر افسوس نہ کرنا،
English Sahih:
[Allah] said, "Then indeed, it is forbidden to them for forty years [in which] they will wander throughout the land. So do not grieve over the defiantly disobedient people."
1 Abul A'ala Maududi
اللہ نے جواب دیا "اچھا تو وہ ملک چالیس سال تک اِن پر حرام ہے، یہ زمین میں مارے مارے پھریں گے، اِن نافرمانوں کی حالت پر ہرگز ترس نہ کھاؤ"
2 Ahmed Raza Khan
فرمایا تو وہ زمین ان پر حرام ہے چالیس برس تک بھٹکتے پھریں زمین میں تو تم ان بے حکموں کا افسوس نہ کھاؤ،
3 Ahmed Ali
فرمایا تحقیق وہ زمین ان پر چالیس بر س حرام کی گئی ہے اس ملک میں سرگرداں پھریں گے سو تو نافرمان قوم پر افسوس نہ کر
4 Ahsanul Bayan
ارشاد ہوا کہ اب زمین ان پر چالیس سال تک حرام کر دی گئی ہے، یہ خانہ بدوش ادھر ادھر سرگرداں پھرتے رہیں گے (١) اس لئے تم ان فاسقوں کے بارے میں غمگین نہ ہونا (٢)۔
٢٦۔١ یہ میدان تیہ کہلاتا ہے جس میں چالیس سال یہ قوم اپنی نافرمانی اور جہاد سے اعراض کی وجہ سے سرگرداں رہی۔ اس میدان میں اس کے باوجود ان پر من و سلویٰ کا نزول ہوا جس سے اکتا کر انہوں نے اپنے پیغمبر سے کہا کہ روز روز ایک ہی کھانا کھا کر ہمارا جی بھر گیا ہے۔ اپنے رب سے دعا کر کہ وہ مختلف قسم کی سبزیاں اور دالیں ہمارے لئے پیدا فرمائے۔ یہیں ان پر بادلوں کا سایہ ہوا، پتھر پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لاٹھی مارنے سے بارہ قبیلوں کے لئے بارہ چشمے جاری ہوئے اور اس طرح کے دیگر انعامات ہوتے رہے۔ چالیس سال بعد پھر ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ یہ بیت المقدس کے اندر داخل ہوئے۔ ٢٦۔٢ پیغمبر جب دیکھتا ہے دعوت و تبلیغ کے باوجود میری قوم سیدھا راستہ اختیار کرنے کے لئے تیار نہیں ہوئے۔ جس میں اس کے لئے دین و دنیا کی سعادتیں اور بھلائیاں ہیں تو فطری طور پر اس کو سخت افسوس اور دلی صدمہ ہوتا ہے۔ یہی نبی کا بھی حال ہوتا تھا، جس کا ذکر قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے متعدد جگہ فرمایا لیکن آیت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے خطاب کر کے کہاجا رہا ہے کہ جب تو نے فریضہ تبلیغ ادا کر دیا اور پیغام الہی لوگوں تک پہنچا دیا اور اپنی قوم کو ایک عظیم الشان کامیابی کے نقطہ آغاز پر لاکھڑا کیا۔ لیکن اب وہ اپنی دون ہمتی اور بد دماغی کے سبب تیری بات ماننے کو تیار نہیں تو تو اپنے فرض سے سبک دوش ہوگیا اور اب تجھے ان کے بارے میں غمگین ہونے کی ضرورت نہیں۔ ایسے موقع پر غمگینی تو ایک فطری چیز ہے۔ لیکن مراد اس تسلی سے یہ ہے کہ تبلیغ و دعوت کے بعد اب تم عند اللہ بری الذمہ ہو۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
خدا نے فرمایا کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لیے حرام کر دیا گیا (کہ وہاں جانے نہ پائیں گے اور جنگل کی) زمین میں سرگرداں پھرتے رہیں گے تو ان نافرمان لوگوں کے حال پر افسوس نہ کرو
6 Muhammad Junagarhi
ارشاد ہوا کہ اب زمین ان پر چالیس سال تک حرام کر دی گئی ہے، یہ خانہ بدوش ادھر ادھر سرگرداں پھرتے رہیں گے اس لئے تم ان فاسقوں کے بارے میں غمگین نہ ہونا
7 Muhammad Hussain Najafi
ﷲ نے فرمایا! پھر اب وہ (زمین) چالیس سال تک حرام ہے وہ لق و دق صحراء میں سرگردان پھرتے رہیں گے پس آپ اس نافرمان قوم پر افسوس نہ کریں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ارشاد ہوا کہ اب ان پر چالیس سال حرام کردئیے گئے کہ یہ زمین میں چکرّ لگاتے رہیں گے لہذا تم اس فاسق قوم پر افسوس نہ کرو
9 Tafsir Jalalayn
خدا نے فرمایا کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کیلئے حرام کردیا گیا ہے (کہ وہاں جانے نہ پائیں گے اور جنگل کی) زمین میں سرگرداں پھرتے ہیں گے تو ان نافرمان لوگوں کے حلال پر افسوس نہ کرو۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿قَالَ ﴾ اللہ تبارک و تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی دعا قبول کرتے ہوئے فرمایا: ﴿فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ ۛ أَرْبَعِينَ سَنَةً ۛ يَتِيهُونَ فِي الْأَرْضِ ﴾ ” وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لئے حرام کردیا گیا ہے، اور وہ زمین میں سرگرداں پھرتے رہیں گے۔“ یعنی ان کی سزا یہ ہے کہ اس بستی میں، جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے لکھ دی ہے، داخل ہونا چالیس برس تک ان پر حرام کردیا گیا، نیز وہ اس مدت کے دوران زمین میں مارے مارے اور سرگرداں پھرتے رہیں گے۔ وہ کسی طرف جانے کی راہ پائیں گے نہ کسی جگہ اطمینان سے ٹھہر سکیں گے۔ یہ دنیوی سزا تھی۔ شاید اس سزا کو اللہ تعالیٰ نے ان گناہوں کا کفارہ بنا دیا اور ان سے وہ سزا دور کردی جو اس سے بڑی سزا تھی۔ اس آیت کریمہ سے استدلال کیا جاتا ہے کہ گناہ کی سزا کبھی کبھی یہ بھی ہوتی ہے کہ موجودہ نعمت زائل ہوجاتی ہے یا کسی عذاب کو ٹال دیا جاتا ہے جس کے وجود کا سبب مہیا ہو، یا اس کو کسی دوسرے وقت کے لئے مؤخر کردیا جاتا ہے۔ چالیس سال کی مدت مقرر کرنے میں شاید حکمت یہ ہے کہ اس مدت کے دوران میں یہ بات کہنے والے اکثر لوگ مر چکے ہوں گے جو صبر و ثبات سے محروم تھے، بلکہ ان کے دل دشمن کی غلامی سے مالوف ہوگئے تھے بلکہ وہ ان بلند ارادوں ہی سے محروم تھے جو انہیں بلندیوں پر فائز کرتے تاکہ اس دوران نئی نسل کی عقل اور شعور تربیت پا لے پھر وہ دشمنوں پر غلبہ حاصل کرنے، غلامی سے آزاد ہونے اور اس ذلت سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کریں جو سعادت سے مانع ہوتی ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کو معلوم تھا کہ اس کا بندہ موسیٰ علیہ السلام مخلوق پر بے حد رحیم ہے خاص طور پر اپنی قوم پر بسا اوقات ان کے لئے ان کا دل بہت نرم پڑجاتا تھا، ان کی یہ شفقت اس سزا پر ان کو مغموم کردیتی یا اس مصیبت کے زائل ہونے کی دعا کرنے پر آمادہ کردیتی۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے حتمی طور پر فرمایا : ﴿فَلَا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ ﴾ ” پس تو ان نافرمان لوگوں کے حال پر افسوس نہ کر۔“ یعنی ان پر افسوس کر نہ ان کے بارے غمزدہ ہو۔ یقیناً انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا ارتکاب کیا ہے اور ان کی نافرمانی اسی سزا کا تقاضا کرتی تھی جو انہیں ملی ہے۔ یہ سزا ہماری طرف سے ظلم نہیں ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
Allah ney kaha acha ! to woh sarzameen inn per chaalees saal tak haram kerdi gaee hai , yeh ( iss doran ) zameen mein bhataktay phiren gay . to ( aey musa ! ) abb tum bhi inn nafarman logon per taras matt khana .