Skip to main content

وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيْهَاۤ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِۙ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّۙ وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌۗ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهٖ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهٗ ۗ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۤٮِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ

And We ordained
وَكَتَبْنَا
اور لکھ دیا ہم نے
for them
عَلَيْهِمْ
ان پر
in it
فِيهَآ
اس میں
that
أَنَّ
بیشک
the life
ٱلنَّفْسَ
جان
for the life
بِٱلنَّفْسِ
بدلے جان کے
and the eye
وَٱلْعَيْنَ
اور آنکھ
for the eye
بِٱلْعَيْنِ
بدلے آنکھ کے
and the nose
وَٱلْأَنفَ
اور ناک
for the nose
بِٱلْأَنفِ
بدلے ناک کے
and the ear
وَٱلْأُذُنَ
اور کان
for the ear
بِٱلْأُذُنِ
بدلے کان کے
and the tooth
وَٱلسِّنَّ
اور دانت
for the tooth
بِٱلسِّنِّ
بدلے دانت کے
and (for) wounds
وَٱلْجُرُوحَ
اور تمام زخموں کا بھی
(is) retribution
قِصَاصٌۚ
بدلہ ہے
But whoever
فَمَن
تو جو کوئی
gives charity
تَصَدَّقَ
صدقہ کرے۔ معاف کردے
with it
بِهِۦ
ساتھ اس کے
then it is
فَهُوَ
تو وہ
an expiation
كَفَّارَةٌ
کفارہ ہوگا
for him
لَّهُۥۚ
اس کے لیے
And whoever
وَمَن
اور جو کوئی
(does) not
لَّمْ
نہ
judge
يَحْكُم
فیصلہ کرے
by what
بِمَآ
ساتھ اس کے جو
has revealed
أَنزَلَ
نازل کیا
Allah
ٱللَّهُ
اللہ نے
then those
فَأُو۟لَٰٓئِكَ
تو یہی لوگ ہیں
[they]
هُمُ
وہ
(are) the wrongdoers
ٱلظَّٰلِمُونَ
جو ظالم ہیں

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

توراۃ میں ہم نے یہودیوں پر یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت، اور تمام زخموں کے لیے برابر کا بدلہ پھر جو قصاص کا صدقہ کر دے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں

English Sahih:

And We ordained for them therein a life for a life, an eye for an eye, a nose for a nose, an ear for an ear, a tooth for a tooth, and for wounds is legal retribution. But whoever gives [up his right as] charity, it is an expiation for him. And whoever does not judge by what Allah has revealed – then it is those who are the wrongdoers [i.e., the unjust].

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

توراۃ میں ہم نے یہودیوں پر یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت، اور تمام زخموں کے لیے برابر کا بدلہ پھر جو قصاص کا صدقہ کر دے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اور ہم نے توریت میں ان پر واجب کیا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں میں بدلہ ہے پھر جو دل کی خوشی سے بدلہ کراوے تو وہ اس کا گناہ اتار دے گا اور جو اللہ کے اتارے پر حکم نہ کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں،

احمد علی Ahmed Ali

اور ہم نے ان پراس کتاب میں لکھا تھا کہ جان بدلے جان کے اور آنکھ بدلے آنکھ کے اور ناک بدلے ناک کے اور کان بدلے کان کے اور دانت بدلے دانت کے اور زخموں کا بدلہ ان کے برابر ہے پھر جس نے معاف کر دیا تو وہ گناہ سے پاک ہو گیا اور جو کوئی اس کے موافق حکم نہ کرے جو الله نے اتارا سو وہی لوگ ظالم ہیں

أحسن البيان Ahsanul Bayan

اور ہم نے یہودیوں کے ذمہ تورات میں یہ بات مقرر کر دی تھی کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ بدلے آنکھ اور ناک بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے (١) پھر جو شخص اس کو معاف کر دے تو وہ اس کے لئے کفارہ ہے اور جو لوگ اللہ کے نازل کئے ہوئے کے مطابق نہ کریں، وہ ہی لوگ ظالم ہیں۔(۲)

٤٥۔١ جب تورات میں جان کے بدلے جان اور زخموں میں قصاص کا حکم دیا گیا تو پھر یہودیوں کے ایک قبیلے (بنو نفیر) کا دوسرے قبیلے (بنو قرظہ) کے ساتھ اس کے برعکس معاملہ کرنا اور اپنے مقتول کی دیت دوسرے قبیلے کے مقتول کی بنسبت دوگنا رکھنے کا کیا جواز ہے؟ جیسا کہ اس کی تفصیل پچھلے صفحات میں گزری۔
٤٥۔۲یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جس قبیلے میں مذکورہ فیصلہ کیا تھا، یہ اللہ کے نازل کردہ حکم کے خلاف تھا اور اس طرح انہوں نے ظلم کا ارتکاب کیا۔ گویا انسان اس بات کا مکلف ہے کہ وہ احکامات الہی کو اپنائے اسی کے مطابق فیصلے کرے اور زندگی کے تمام معاملات میں اس سے رہنمائی حاصل کرے، اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو بارگاہ الہی میں ظالم متصور ہوگا فاسق متصور ہوگا اور کافر متصور ہوگا۔ ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالٰی نے تینوں لفظ استعمال کر کے اپنے غضب اور ناراضگی کا بھرپور اظہار فرما دیا۔ اس کے بعد بھی انسان اپنے ہی خود ساختہ قوانین یا اپنی خواہشات ہی کو اہمیت دے تو اس سے زیادہ بد قسمتی کیا ہوگی؟

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اور ہم نے ان لوگوں کے لیے تورات میں یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور سب زخموں کا اسی طرح بدلہ ہے لیکن جو شخص بدلہ معاف کر دے وہ اس کے لیے کفارہ ہوگا اور جو خدا کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ بےانصاف ہیں

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

اور ہم نے یہودیوں کے ذمہ تورات میں یہ بات مقرر کر دی تھی کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے، پھر جو شخص اس کو معاف کردے تو وه اس کے لئے کفاره ہے، اور جو لوگ اللہ کے نازل کئے ہوئے کے مطابق حکم نہ کریں، وہی لوگ ﻇالم ہیں

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اور ہم نے اس (توراۃ) میں ان (یہودیوں) پر یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کا بدلہ جان ہے اور آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں میں بھی برابر کا بدلہ ہے۔ پھر جو (قصاص) معاف کر دے، تو وہ اس کے لئے کفارہ ہوگا اور جو قانونِ خدا کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہ ظالم ہیں۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اور ہم نے توریت میں یہ بھی لکھ دیا ہے کہ جان کا بدلہ جان اور آنکھ کا بدلہ آنکھ اور ناک کا بدلہ ناک اور کان کا بدلہ کان اور دانت کا بدلہ دانت ہے اور زخموں کا بھی بدلہ لیا جائے گا اب اگر کوئی شخص معاف کردے تو یہ اس کے گناہوں کا بھی کفارہ ہوجائے گا اور جو بھی خدا کے نازل کردہ حکم کے خلاف فیصلہ کرے گا وہ ظالموں میں سے شمار ہوگا

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اور ہم نے اس (تورات) میں ان پر فرض کردیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے عوض آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے عوض کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں میں (بھی) بدلہ ہے، تو جو شخص اس (قصاص) کو صدقہ (یعنی معاف) کر دے تو یہ اس (کے گناہوں) کے لئے کفارہ ہوگا، اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ ظالم ہیں،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

قتل کے بدلے تقاضائے عدل ہے
یہودیوں کو اور سرزنش کی جا رہی ہے کہ ان کی کتاب میں صاف لفظوں میں جو حکم تھا یہ کھلم کھلا اس کا بھی خلاف کر رہے ہیں اور سرکشی اور بےپرواہی سے اسے بھی چھوڑ رہے ہیں۔ نضری یہودیوں کو تو قرظی یہودیوں کے بدلے قتل کرتے ہیں لیکن قریظہ کے یہود کو بنو نضیر کے یہود کے عوض قتل نہیں کرتے بلکہ دیت لے کر چھوڑ دیتے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے شادی شدہ زانی کی سنگساری کے حکم کو بدل دیا ہے اور صرف کالا منہ کر کے رسوا کر کے مار پیٹ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ اسی لئے وہاں تو انہیں کافر کہا یہاں انصاف نہ کرنے کی وجہ سے انہیں ظالم کہا۔ ایک حدیث میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا (والعین) پڑھنا بھی مروی ہے (ابو داؤد وغیرہ) علماء کرام کا قول ہے کہ اگلی شریعت چاہے ہمارے سامنے بطور تقرر بیان کی جائے اور منسوخ نہ ہو تو وہ ہمارے لئے بھی شریعت ہے۔ جیسے یہ احکام سب کے سب ہماری شریعت میں بھی اسی طرح ہیں۔ امام نووی فرماتے ہیں اس مسئلے میں تین مسلک ہیں ایک تو وہی جو بیان ہوا، ایک اس کے بالکل برعکس ایک یہ کہ صرف ابراہیمی شریعت جاری اور باقی ہے اور کوئی نہیں۔ اس آیت کے عموم سے یہ بھی استدلال کیا گیا ہے کہ مرد عورت کے بدلے بھی قتل کیا جائے گا کیونکہ یہاں لفظ نفس ہے جو مرد عورت دونوں کو شامل ہے۔ چناچہ حدیث شریف میں بھی ہے کہ مرد عورت کے خون کے بدلے قتل کیا جائے گا اور حدیث میں ہے کہ مسلمانوں کے خون آپس میں مساوی ہیں۔ بعض بزرگوں سے مروی ہے کہ " مرد جب کسی عورت کو قتل کر دے تو اسے اس کے بدلے قتل نہ کیا جائے گا بلکہ صرف دیت لی جائے گی " لیکن یہ قول جمہور کے خلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ تو فرماتے ہیں کہ " ذمی کافر کے قتل کے بدلے بھی مسلمان قتل کردیا جائے گا اور غلام کے قتل کے بدلے آزاد بھی قتل کردیا جائے گا۔ لیکن یہ مذہب جمہور کے خلاف ہے۔ بخاری مسلم میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں " مسلمان کافر کے بدلے قتل کیا نہ کیا جائے گا اور سلف کے بہت سے آثار اس بارے میں موجود ہیں کہ وہ غلام کا قصاص آزاد سے نہیں لیتے تھے اور آزاد غلام کے بدلے قتل نہ کیا جائے گا۔ حدیثیں بھی اس بارے میں مروی ہیں لیکن صحت کو نہیں پہنچیں۔ امام شافعی تو فرماتے ہیں اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہ کے خلاف اجماع ہے لیکن ان باتوں سے اس قول کا بطلان لازم نہیں آتا تاوقتیکہ آیت کے عموم کو خاص کرنے والی کوئی زبردست صاف ثابت دلیل نہ ہو۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ " حضرت انس بن نضر کی پھوپھی ربیع نے ایک لونڈی کے دانت توڑ دیئے، اب لوگوں نے اس سے معافی چاہی لیکن وہ نہ مانی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس معاملہ آیا آپ نے بدلہ لینے کا حکم دے دیا، اس پر حضرت انس بن نضر نے فرمایا کیا اس عورت کے سامنے کے دانت توڑ دیئے جائیں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں اے انس اللہ کی کتاب میں قصاص کا حکم موجود ہے۔ یہ سن کر فرمایا نہیں نہیں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قسم ہے اس اللہ کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، اس کے دانت ہرگز نہ توڑے جائیں گے، چناچہ ہوا بھی یہی کہ لوگ راضی رضامند ہوگئے اور قصاص چھوڑ دیا بلکہ معاف کردیا۔ اس وقت آپ نے فرمایا بعض بندگان رب ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ اللہ پر کوئی قسم کھا لیں تو اللہ تعالیٰ اسے پوری ہی کر دے "۔ دوسری روایت میں ہے کہ " پہلے انہوں نے نہ تو معافی دی نہ دیت لینی منظور کی۔ " نسائی وغیرہ میں ہے، ایک غریب جماعت کے غلام نے کسی مالدار جماعت کے غلام کے کان کاٹ دیئے، ان لوگوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آکر عرض کیا کہ ہم لوگ فقیر مسکین ہیں، مال ہمارے پاس نہیں تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر کوئی جرمانہ نہ رکھا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ غلام بالغ نہ ہو اور ہوسکتا ہے کہ آپ نے دیت اپنے پاس سے دے دی ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان سے سفارش کر کے معاف کرا لیا ہو۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ جان جان کے بدلے ماری جائے گی، آنکھ پھوڑ دینے والے کی آنکھ پھوڑ دی جائے گی، ناک کاٹنے والے کا ناک کاٹ دیا جائے گا، دانت توڑنے والے کا دانت توڑ دیا جائے گا اور زخم کا بھی بدلہ لیا جائے گا۔ اس میں آزاد مسلمان سب کے سب برابر ہیں۔ مرد عورت ایک ہی حکم میں۔ جبکہ یہ کام قصداً کئے گئے ہوں۔ اس میں غلام بھی آپس میں برابر ہیں، ان کے مرد بھی اور عورتیں بھی۔ قاعدہ اعضا کا کٹنا تو جوڑ سے ہوتا ہے اس میں تو قصاص واجب ہے۔ جیسے ہاتھ، پیر، قدم، ہتھیلی وغیرہ۔ لیکن جو زخم جوڑ پر نہ ہوں بلکہ ہڈی پر آئے ہوں، ان کی بابت حضرت امام مالک فرماتے ہیں کہ " ان میں بھی قصاص ہے مگر ران میں اور اس جیسے اعضاء میں اس لئے کہ وہ خوف و خطر کی جگہ ہے "۔ ان کے برخلاف ابوحنیفہ اور ان کے دونوں ساتھیوں کا مذہب ہے کہ کسی ہڈی میں قصاص نہیں، بجز دانت کے اور امام شافعی کے نزدیک مطلق کسی ہڈی کا قصاص نہیں۔ یہی مروی ہے حضرت عمر بن خطاب اور حضرت ابن عباس سے بھی اور یہی کہتے ہیں عطاء، شبعی، حسن بصری، زہری، ابراہیم، نخعی اور عمر بن عبد العزیز بھی اور اسی کی طرف گئے ہیں سفیان ثوری اور لیث بن سعد بھی۔ امام احمد سے بھی یہی قول زیادہ مشہور ہے۔ امام ابوحنیفہ کی دلیل وہی حضرت انس والی روایت ہے جس میں ربیع سے دانت کا قصاص دلوانے کا حکم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمودہ ہے۔ لیکن دراصل اس روایت سے یہ مذہب ثابت نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس میں یہ لفظ ہیں کہ اس کے سامنے کے دانت اس نے توڑ دیئے تھے اور ہوسکتا ہے کہ بغیر ٹوٹنے کے جھڑ گئے ہوں۔ اس حالت میں قصاص اجماع سے واجب ہے۔ ان کی دلیل کا پورا حصہ وہ ہے جو ابن ماجہ میں ہے کہ " ایک شخص نے دوسرے کے بازو کو کہنی سے نیچے نیچے ایک تلوار مار دی، جس سے اس کی کلائی کٹ گئی، حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مقدمہ آیا، آپ نے حکم دیا کہ دیت ادا کرو اس نے کہا میں قصاص چاہتا ہوں، آپ نے فرمایا اسی کو لے لے اللہ تجھے اسی میں برکت دے گا اور آپ نے قصاص کو نہیں فرمایا "۔ لیکن یہ حدیث بالکل ضعیف اور گری ہوئی ہے، اس کے ایک راوی ہشم بن عکلی اعرابی ضعیف ہیں، ان کی حدیث سے حجت نہیں پکڑی جاتی، دوسرے راوی غران بن جاریہ اعرابی بھی ضعیف ہیں۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ زخموں کا قصاص ان کے درست ہوجانے اور بھر جانے سے پہلے لینا جائز نہیں اور اگر پہلے لے لیا گیا پھر زخم بڑھ گیا تو کوئی بدلہ دلوایا نہ جائے گا۔ اس کی دلیل مسند احمد کی یہ حدیث ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کے گھٹنے میں چوٹ مار دی، وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا مجھے بدلہ دلوایئے، آپ نے دلوا دیا، اس کے بعد وہ پھر آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تو لنگڑا ہوگیا، آپ نے فرمایا میں نے تجھے منع کیا تھا لیکن تو نہ مانا، اب تیرے اس لنگڑے پن کا بدلہ کچھ نہیں۔ پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زخموں کے بھر جانے سے پہلے بدلہ لینے کو منع فرما دیا۔
مسئلہ
اگر کسی نے دوسرے کو زخمی کیا اور بدلہ اس سے لے لیا گیا، اس میں یہ مرگیا تو اس پر کچھ نہیں۔ مالک، شافعی، احمد اور جمہوری صحابہ وتابعین کا یہی قول ہے۔ ابوحنیفہ کا قول ہے کہ اس پر دیت واجب ہے، اسی کے مال میں سے۔ بعض اور بزرگ فرماتے ہیں " اس کے ماں باپ کی طرف کے رشتہ داروں کے مال پر وہ دیت واجب ہے "۔ بعض اور حضرات کہتے ہیں " بقدر اس کے بدلے کے تو ساقط ہے باقی اسی کے مال میں سے واجب ہے "۔ پھر فرماتا ہے " جو شخص قصاص سے درگزر کرے اور بطور صدقے کے اپنے بدلے کو معاف کر دے تو زخمی کرنے والے کا کفارہ ہوگیا اور جو زخمی ہوا ہے، اسے ثواب ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے "۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ " وہ زخمی کیلئے کفارہ ہے یعنی اس کے گناہ اسی زخم کی مقدار سے اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے "۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ " وہ زخمی کیلئے کفارہ ہے یعنی اس کے گناہ اسی زخم کی مقدار سے اللہ تعالیٰ بخش دیتا ہے "۔ ایک مرفوع حدیث میں یہ آیا ہے کہ " اگر چوتھائی دیت کے برابر کی چیز ہے اور اس نے درگزر کرلیا تو اس کے چوتھائی گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ ثلث ہے تو تہائی گناہ، آدھی ہے تو آدھے گناہ اور پوری ہے تو پورے گناہ "۔ ایک قریشی نے ایک انصاری کو زور سے دھکا دے دیا جس سے اس کے آگے کے دانت ٹوٹ گئے۔ حضرت معاویہ کے پاس مقدمہ گیا اور جب وہ بہت سر ہوگیا تو آپ نے فرمایا، اچھا جا تجھے اختیار ہے۔ حضرت ابو درداء وہیں تھے فرمانے لگے میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ " جس مسلمان کے جسم میں کوئی ایذاء پہنچائی جائے اور وہ صبر کرلے، بدلہ نہ لے تو اللہ اس کے درجے بڑھاتا ہے اور اس کی خطائیں معاف فرماتا ہے، اس انصاری نے یہ سن کر کہا، کیا سچ مچ آپ نے خود ہی اسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی سنا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں میرے ان کانوں نے سنا ہے اور میرے دل نے یاد کیا ہے، اس نے کہا پھر گواہ رہو کہ میں نے اپنے مجرم کو معاف کردیا۔ حضرت معاویہ یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور اسے انعام دیا " (ابن جریر) ترمذی میں بھی یہ روایت ہے لیکن امام ترمذی کہتے ہیں یہ حدیث غریب ہے۔ ابو سفر راوی کا ابو درداء سے سننا ثابت نہیں اور روایت میں ہے کہ تین گنی دیت وہ دینا چاہتا تھا لیکن یہ راضی نہیں ہوا تھا، اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ " جو شخص خون یا اس سے کم کو معاف کر دے، وہ اس کی پیدائش سے لے کر موت تک کا کفارہ ہے "۔ مسند میں ہے کہ " جس کے جسم میں کوئی زخم لگے اور وہ معاف کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کے اتنے ہی گناہ معاف فرما دیتا ہے "۔ مسند میں یہ بھی حدیث ہے " اللہ کے حکم کے مطابق حکم نہ کرنے والے ظالم ہیں "۔ پہلے گزر چکا ہے کہ کفر کفر سے کم ہے، ظلم میں بھی تفاوت ہے اور فسق بھی درجے ہیں۔