المائدہ آية ۵۱
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُوْدَ وَالنَّصٰرٰۤى اَوْلِيَاۤءَ ۘ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَاۤءُ بَعْضٍ ۗ وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ ۗ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ
طاہر القادری:
اے ایمان والو! یہود اور نصارٰی کو دوست مت بناؤ یہ (سب تمہارے خلاف) آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور تم میں سے جو شخص ان کو دوست بنائے گا بیشک وہ (بھی) ان میں سے ہو (جائے) گا، یقیناً اﷲ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتا،
English Sahih:
O you who have believed, do not take the Jews and the Christians as allies. They are [in fact] allies of one another. And whoever is an ally to them among you – then indeed, he is [one] of them. Indeed, Allah guides not the wrongdoing people.
1 Abul A'ala Maududi
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ، یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں ہے، یقیناً اللہ ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انہیں میں سے ہے بیشک اللہ بے انصافوں کو راہ نہیں دیتا
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو کوئی تم میں سے ان کے ساتھ دوستی کرے تو وہ ان میں سے ہے الله ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا
4 Ahsanul Bayan
اے ایمان والو! تم یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ (١) یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ (٢) تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بیشک انہی میں سے ہے، ظالموں کو اللہ تعالٰی ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا۔(۳)
٥١۔١ اس میں یہود اور نصاریٰ سے موالات و محبت کا رشتہ قائم کرنے سے منع کیا گیا ہے جو اسلام کے اور مسلمانوں کے دشمن ہیں اور اس پر اتنی سخت وعید بیان فرمائی گئی جو ان سے دوستی رکھے گا وہ انہیں میں سے سمجھا جائے گا۔ (مزید دیکھئے سورہ آل عمران آیت ٢٨ اور آیت ١١٨ کا حاشیہ)
٥١۔٢ قرآن کی اس بیان کردہ حقیقت کا مشاہدہ ہر شخص کر سکتا ہے کہ یہود اور نصاریٰ اگرچہ آپس میں عقائد کے لحاظ سے شدید اختلاف اور باہمی بغض و عناد ہے، لیکن اس کے باوجود یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک دوسرے کے معاون بازو اور محافظ ہیں۔۵۱۔۳ ان آیات کی شان نزول میں بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عبادہ بن صامت انصاری رضی اللہ عنہ اور رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی دونوں ہی عہد جاہلیت سے یہود کے حلیف چلے آ رہے تھے۔ جب بدر میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی تو عبد اللہ بن ابی نے بھی اسلام کا اظہار کیا۔ ادھر بنو قینقاع کے یہودیوں نے تھوڑے ہی دنوں بعد فتنہ برپا کیا اور وہ کس لئے گئے، جس پر حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے تو اپنے یہودی حلیفوں سے اعلان براءت کر دیا۔ لیکن عبد اللہ بن ابی نے اس کے برعکس یہودیوں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ جس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا بیشک خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا
6 Muhammad Junagarhi
اے ایمان والو! تم یہود ونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم میں سے جو بھی ان میں کسی سے دوستی کرے وه بےشک انہی میں سے ہے، ﻇالموں کو اللہ تعالیٰ ہرگز راه راست نہیں دکھاتا
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بناؤ، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو ان سے دوستی کرے گا وہ انہی میں سے شمار ہوگا۔ بے شک خدا ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ایمان والو یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست اور سرپرست نہ بناؤ کہ یہ خود آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے کوئی انہیں دوست بنائے گا تو ان ہی میں شمار ہوجائے گا بیشک اللہ ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اے ایمان والو ! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اور جو شخص تم میں سے انکو دوست بنائیگا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا۔ بیشک خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
آیت نمبر ٥١ تا ٥٦
ترجمہ : اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ، کہ ان سے دلی دوستی اور محبت کرنے لگو، یہ تو آپس ہی میں ان کے کفر میں متحد ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے دوست ہیں اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا دوست بناتا ہے تو وہ بھی منجملہ ان ہی میں شمار ہوگا یقیناً اللہ تعالیٰ کفار سے دوستی کرکے ظلم کرنے والوں کی رہنمائی نہیں کرتا، تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں میں (نفاق کی) بیماری ہے یعنی ضعف اعتقاد ہے جیسا کہ عبد اللہ بن ابی منافق ان کی دوستی میں سبقت کرتے ہیں، اور عذر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمیں اندیشہ ہے کہ ہم کسی چکر میں یہ پھنس جائیں، یعنی گردش زمانہ ہمارے اوپر قحط سالی یا مغلوبیت نہ ڈال دے، اور (ادھر) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مشن پایہ تکمیل کو نہ پہنچے تو یہ لوگ ہمیں غلہ بھی نہ دیں، مگر بعید نہیں کہ اللہ اپنے نبی کی نصرت کے ذریعہ اس کے دین کو غالب کرکے اس کو فتح عطا فرما دے، یا کوئی دوسری صورت اپنی جانب سے منافقین کی پردہ دری کرکے اور ان کو رسوا کرکے ظاہر فرما دے، تو یہ (منافق) اس نفاق اور کفار سے دوستی پر جسے اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں نادم ہوں گے، اس وقت اہل ایمان آپس میں تعجب سے کہیں گے (یقولُ ) رفع کے ساتھ بطور استیناف کے، واؤ کے ساتھ اور بغیر واؤ کے اور نصب کے ساتھ، یاتی پر عطف کی وجہ سے جبکہ ان کی پردہ داری کردی جائے گئ، کیا یہی ہیں وہ لوگ جو اللہ کی بڑی زور دار قسمیں کھایا کرتے تھے، کہ بلاشبہ ہم دین میں تمہارے ساتھ ہیں ان کے سب اعمال صالحہ ضائع ہوگئے اور دنیا میں رسوائی کی وجہ سے اور آخرت میں عذاب کی وجہ سے زیاں کاروں میں ہوں گے، اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم میں سے جو اپنے دین سے کفر کی طرف پھرتا ہے (تو پھر جائے) (یَرْتَدُّ ) ادغام اور ترک ادغام (دونوں جائز ہیں) بمعنی یَرْجعُ ، یہ اس واقعہ کی خبر دینا ہے جس کے وقوع سے اللہ واقف ہے، چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد ایک جماعت مرتد ہوگئی، عنقریب اللہ تعالیٰ ان کے بدلے میں ایسے لوگ پیدا کر دے گا کہ جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو موسیٰ اشعری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا وہ اس کی قوم ہوگی، اس کو حاکم نے اپنے صحیح میں روایت کیا ہے، جو مومنین کے بارے میں نرم (مہربانی) اور کفار کے معاملہ میں سخت ہوں گے اور اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے اور اس معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے، جیسا کہ منافق کافروں کی ملامت سے ڈرتے ہیں یہ مذکورہ اوصاف اللہ کا فضل ہے اللہ جس کو چاہتا ہے عطا فرمایا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے اور فضل کا کون اہل ہے ؟ اسے خوب جاننے والا ہے (آئندہ آیت اس وقت نازل ہوئی) جب عبد اللہ بن سلام نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم کو ہماری قوم نے چھوڑ دیا (آپ نے فرمایا) تمہارے رفیق تو حقیقت میں صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہ عاجزی اختیار کرتے ہیں یا نفلی نماز پڑھتے ہیں، اور جس نے اللہ کو اور اس کے رسول کو اور ایمان والوں کو اپنا رفیق بنا لیا تو وہ ان کی اعانت اور نصرت کرے گا، (وہ سمجھ لے) کہ اللہ کی حمایت ہی اس کی مدد کی وجہ سے غالب رہے گی، اِنّھُمْ ، کے بجائے، حِزْبُ اللہ، یہ بیان کرنے کے لئے فرمایا کہ یہ لوگ اس کی جماعت اور اس کے متبعین میں سے ہیں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : تُوَ الُوانَھُمْ وَتُوادّونَھُمْ ۔ قولہ : تُوالونَھُمْ اصل میں تُوَالِیُونَھُمَ تھا ضمہ یاء پر دشوار ہونے کی وجہ سے لام کو دیدیا واؤ اور یاء دو حروف ساکن جمع ہوئے یاء کو حذف کردیا، لام کا کسرہ ساقط ہونے کے بعد تُوَالُونَھم ہوگیا توادّون اصل میں تواددون تھا، دال کو دال میں ادغام کردیا توادّون ہوگیا (دونوں صیغے مفاعلہ) سے مضارع جمع مذکر حاضر کے ہیں، اَوْلیاء، وَلِیَّ کی جمع ہے، وَلِی کے مختلف معنی آتے ہیں، محبت کرنے والا، دوست، مدد گار، قریب، پڑوسی، حلیف، تابع وغیرہ، اس لئے تعیین معنی کی ضرورت ہوئی۔ مفسر علام نے توَادّوھم، کہہ کر معنی کی تعیین کردی۔
قولہ : مِن جُمْلَتِھِمْ ، یہودونصاری ٰ سے اجتناب میں شدت کو بیان کونے کے لئے یہ جملہ لایا گیا ہے، مطلب یہ ہے کہ حکمہ کحکمھم۔
قولہ : اِنّ اللہ لا یَھْدِی القَوْمَ الظَّالَمَیْنَ ، یہ اَنَّھم مِنْھُمْ کی علت ہے۔
قولہ : یُسارِعُوْنَ یہ قلوبھم کی ضمیر ھم سے حال ہے۔
قولہ : دَائِرَۃ، گردش، مصیبت، یہ دور ٌ سے مشتق ہے جس کے معنی گھومنے پھرنے کے ہیں، دَائرَۃ، ان صفات میں سے ہے کہ جن کا موصوف مذکور نہیں ہوتا، دائرۃ موصوف یَدُورُبھا اس کی صفت ہے۔
قولہ : اَلمِیرَۃ، غلہ، کھانا، ای الیھود والنصاریٰ لا یعطونَنا المِیْرۃ، یعنی یہود و نصاریٰ ہم کو غلہ دینا بند کردیں گے۔
تفسیر وتشریح
یٰآ یُّھَا الَّذین آمنو الَا تتخذوا الیھود والنصاریٰ اَوْلیاء، اس آیت میں یہودونصاریٰ سے دلی محبت اور دوستی کا تعلق قائم کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے، اور اس پر سخت وعید فرمائی ہے کہ جو ان سے دلی دوستی کرے گا وہ انہی میں سے رواداری ہمدردی، خیرخواہی عدل اونصاف اور احسان و سلوک سب کچھ کرنا چاہیے، اسلئے کہ اسلام کی یہی تعلیم ہے اسلام تو جانوروں کے حقوق کی حقوق کی حفاظت کا بھی علم بردار ہے چہ جائیکہ انسان ! البتہ ان سے ایسی گہری دوستی اور اختلاط جس سے اسلام کے امتیازی نشانات کو نقصان پہنچے اس کی اجازت نہیں، یہی وہ مسئلہ ہے جو ترک موالات کے نام سے مشہور ہے۔
شان نزول : مذکورہ آیت کے شان نزول کے سلسلہ میں مفسرین نے متعدد واقعات نقل کئے ہیں۔
پہلا واقعہ : حضرت عبادہ بن صامت (رض) انصاری اور رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی دونوں زمانہ جاہلیت سے یہود کے قبیلے بنی قینقاع کے حلیف چلے آرہے تھے، اسلام کے ظاہر ہونے کے بعد عبادہ بن صامت نے یہود کی دوستی سے اظہار بیزاری کردیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر کہ دیا کہ میرے لئے اللہ اور اس کے رسول کی دوستی کافی ہے مگر عبد اللہ بن ابی یہود کے ساتھ دوستی قائم رکھنے پر مصر رہا، حضرت عبادہ بن صامت کے ساتھ عبد اللہ بن ابی کی اس مسئلہ میں ایک مرتبہ تیز کلامی بھی ہوگئی عبد اللہ بن ابی یہود کے ساتھ دوستی قائم رکھنے پر مصر تھا اس کا کہنا تھا کہ اسلام کا ابھی کوئی ٹھکانہ نہیں ہے نہ معلوم اونٹ کس کروٹ بیٹھے، اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے مشن میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں، اس لئے ضروری ہے کہ یہود کے ساتھ تعلقات و رابط قائم رکھے جائیں تاکہ آڑے وقت میں کام آئیں، اسی واقعہ میں یہ آیت نازل ہوئی۔
دوسرا واقعہ : آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابو البابہ کو بنی قریظہ سے فہاش کرنے کے لیے اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا، بنو قریظہ سے ابولبابہ کے دیرینہ تعلقات تھے، بنو قریظہ نے ابولبابہ سے معلوم کیا کہ اگر ہم لڑائی موقوف کرکے اپنے قلعہ سے اتر آئیں تو آخر ہمارا انجام کیا ہوگا ؟ حضرت ابولبابہ نے ہاتھ اپنے گلے پر پھیر کر اشارہ کردیا کہ تمہارا قتل ہوگا، حالانکہ یہ ایک راز داری کی بات تھی جس کا اظہار ابولبابہ کو نہیں کرنا چاہیے تھا، مگر تعلقات اور دوستی کی بنا پر خفیہ راز سے بنو قریظہ کو آگاہ کردیا، اس پر مذکورہ آیت نازل ہوئی۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ یہود و نصاری کے احوال اور غیر مستحسن صفات بیان کرتے ہوئے اپنے مومن بندوں کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ انہیں اپنا دوست نہ بنائیں ﴿بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ﴾” کیونکہ وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں“ وہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور وہ دوسروں کے مقابلے میں ایک ہیں۔ پس تم ان کو دوست نہ بناؤ کیونکہ وہ درحقیقت تمہارے دشمن ہیں۔ انہیں تمہارے نقصان کی کوئی پروا نہیں، بلکہ وہ تمہیں گمراہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ انہیں وہی شخص دوست بنائے گا جو ان جیسا ہو۔ بنابریں فرمایا : ﴿وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ﴾ ” اور جو کوئی تم میں سے ان سے دوستی کرے گا، وہ انہی میں سے ہے“ کیونکہ کامل دوستی ان کے دین میں منتقل ہونے کی موجب بنتی ہے۔ تھوڑی دوستی زیادہ دوستی کرے گا، وہ اہی میں سے ہے“ کیونکہ کامل دوستی ان کے دین میں منتقل ہونے کی موجب بنتی ہے۔ تھوڑی دوستی زیادہ دوستی کی طرف دعوت دیتی ہے پھر وہ آہستہ آہستہ بڑھتی جاتی ہے حتیٰ کہ بندہ انہی میں سے ہوجاتا ہے۔ ﴿ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾” اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں کرتا“ یعنی وہ لوگ جن کا وصف ظلم ہے۔ ظلم ان کا مرجع اور ظلم ہی پر ان کا اعتماد ہے۔ اس لئے آپ ان کے پاس کوئی بھی آیت اور معجزہ لے کر آئیں، وہ کبھی آپ کی اطاعت نہیں کریں گے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey emaan walo ! yahudiyon aur nasraniyon ko yaar-o-madadgaar naa banao . yeh khud hi aik doosray kay yaar-o-madadgaar hain . aur tum mein say jo shaks inn ki dosti ka dum bharay ga to phir woh inhi mein say hoga . yaqeenan Allah zalim logon ko hidayat nahi deta .
12 Tafsir Ibn Kathir
دشمن اسلام سے دوستی منع ہے
دشمنان اسلام یہود و نصاریٰ سے دوستیاں کرنے کی اللہ تبارک و تعالیٰ ممانعت فرما رہا ہے اور فرماتا ہے کہ " وہ تمہارے دوست ہرگز نہیں ہوسکتے کیونکہ تمہارے دین سے انہیں بغض و عداوت ہے۔ ہاں اپنے والوں سے ان کی دوستیاں اور محبتیں ہیں۔ میرے نزدیک تو جو بھی ان سے دلی محبت رکھے وہ ان ہی میں سے ہے "۔ حضرت عمر نے حضرت ابو موسیٰ کو اس بات پر پوری تنبیہہ کی اور یہ آیت پڑھ سنائی۔ حضرت عبداللہ بن عتبہ نے فرمایا لوگو ! تمہیں اس سے بچنا چاہئے کہ تمہیں خود تو معلوم نہ ہو اور تم اللہ کے نزدیک یہود و نصرانی بن جاؤ، ہم سمجھ گئے کہ آپ کی مراد اسی آیت کے مضمون سے ہے۔ ابن عباس سے عرب نصرانیوں کے ذبیحہ کا مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے یہی آیت تلاوت کی۔ جس کے دل میں کھوٹ ہے وہ تو لپک لپک کر پوشیدہ طور پر ان سے ساز باز اور محبت و مودت کرتے ہیں اور بہانہ یہ بناتے ہیں کہ ہمیں خطرہ ہے اگر مسلمانوں پر یہ لوگ غالب آگئے تو پھر ہماری تباہی کردیں گے، اس لئے ہم ان سے بھی میل ملاپ رکھتے ہیں، ہم کیوں کسی سے بگاڑیں ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ممکن ہے اللہ مسلمانوں کو صاف طور پر غالب کر دے، مکہ بھی ان کے ہاتھوں فتح ہوجائے، فیصلے اور حکم ان ہی کے چلنے لگیں، حکومت ان کے قدموں میں سر ڈال دے۔ یا اللہ تعالیٰ اور کوئی چیز اپنے پاس سے لائے یعنی یہود نصاریٰ کو مغلوب کر کے انہیں ذلیل کر کے ان سے جزیہ لینے کا حکم مسلمانوں کو دے دے پھر تو یہ منافقین جو آج لپک لپک کر ان سے گہری دوستی کرتے پھرتے ہیں، بڑے بھنانے لگیں گے اور اپنی اس چالاکی پر خون کے آنسو بہانے لگیں گے۔ ان کے پردے کھل جائیں گے اور یہ جیسے اندر تھے ویسے ہی باہر سے نظر آئیں گے۔ اس وقت مسلمان ان کی مکاریوں پر تعجب کریں گے اور کہیں گے اے لو یہی وہ لوگ ہیں، جو بڑی بڑی قسمیں کھا کھا کر ہمیں یقین دلاتے تھے کہ یہ ہمارے ساتھی ہیں۔ انہوں نے جو پایا تھا وہ کھو دیا تھا اور برباد ہوگئے۔ (ویقول) تو جمہور کی قرأت ہے۔ ایک قرأت بغیر واؤ کے بھی ہے اہل مدینہ کی یہی قرأت ہے۔ یقول تو مبتداء اور دوسری قرأت اس کی (یقول) ہے تو یہ (فعسی) پر عطف ہوگا گویا (وان یقول) ہے۔ ان آیتوں کا شان نزول یہ ہے کہ جنگ احد کے بعد ایک شخص نے کہا کہ میں اس یہودی سے دوستی کرتا ہوں تاکہ موقع پر مجھے نفع پہنچے، دوسرے نے کہا، میں فلاں نصرانی کے پاس جاتا ہوں، اس سے دوستی کر کے اس کی مدد کروں گا۔ اس پر یہ آیتیں اتریں۔ عکرمہ فرماتے ہیں " لبابہ بن عبد المنذر کے بارے میں یہ آیتیں اتریں جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں بنو قریظہ کی طرف بھیجا تو انہوں نے آپ سے پوچھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے ؟ تو آپ نے اپنے گلے کی طرف اشارہ کیا یعنی تم سب کو قتل کرا دیں گے "۔ ایک روایت میں ہے کہ یہ آیتیں عبداللہ بن ابی بن سلول کے بارے میں اتری ہیں۔ حضرت عبادہ بن صامت نے حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ بہت سے یہودیوں سے میری دوستی ہے مگر میں ان سب کی دوستیاں توڑتا ہوں، مجھے اللہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دوستی کافی ہے۔ اس پر اس منافق نے کہا میں دور اندیش ہوں، دور کی سوچنے کا عادی ہوں، مجھ سے یہ نہ ہو سکے گا، نہ جانے کس وقت کیا موقعہ پڑجائے ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے عبداللہ تو عبادہ کے مقابلے میں بہت ہی گھاٹے میں رہا، اس پر یہ آیتیں اتریں۔ ایک روایت میں ہے کہ " جب بدر میں مشرکین کو شکست ہوئی تو بعض مسلمانوں نے اپنے ملنے والے یہودیوں سے کہا کہ یہی تمہاری حالت ہو، اس سے پہلے ہی تم اس دین برحق کو قبول کرلو انہوں نے جواب دیا کہ چند قریشیوں پر جو لڑائی کے فنون سے بےبہرہ ہیں، فتح مندی حاصل کر کے کہیں تم مغرور نہ ہوجانا، ہم سے اگر پالا پڑا تو ہم تو تمہیں بتادیں گے کہ لڑائی اسے کہتے ہیں۔ اس پر حضرت عبادہ اور عبداللہ بن ابی کا وہ مکالمہ ہوا جو اوپر بیان ہوچکا ہے۔ جب یہودیوں کے اس قبیلہ سے مسلمانوں کی جنگ ہوئی اور بفضل رب یہ غالب آگئے تو اب عبداللہ بن ابی آپ سے کہنے لگا، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے دوستوں کے معاملے میں مجھ پر احسان کیجئے، یہ لوگ خزرج کے ساتھی تھے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے کوئی جواب نہ دیا، اس نے پھر کہا، آپ نے منہ موڑ لیا، یہ آپ کے دامن سے چپک گیا، آپ نے غصہ سے فرمایا کہ چھوڑ دے، اس نے کہا نہیں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں نہ چھوڑوں گا، یہاں تک کہ آپ ان کے بارے میں احسان کریں، ان کی بڑی پوری جماعت ہے اور آج تک یہ لوگ میرے طرفدار رہے اور ایک ہی دن میں یہ سب فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے۔ مجھے تو آنے والی مصیبتوں کا کھٹکا ہے۔ آخر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، جا وہ سب تیرے لئے ہیں "۔ ایک روایت میں ہے کہ " جب بنو قینقاع کے یہودیوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنگ کی اور اللہ نے انہیں نیچا دکھایا تو عبداللہ بن ابی ان کی حمایت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کرنے لگا اور حضرت عبادہ بن صامت نے باوجودیکہ یہ بھی ان کے حلیف تھے لیکن انہوں نے ان سے صاف برأت ظاہر کی "۔ اس پر یہ آیتیں (ہم الغالبون) تک اتریں۔ مسند احمد میں ہے کہ " اس منافق عبداللہ بن ابی کی عیادت کیلئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے گئے تو آپ نے فرمایا، میں نے تو تجھے بار ہا ان یہودیوں کی محبت سے روکا تو اس نے کہا سعد بن زرارہ تو ان سے دشمنی رکھتا تھا وہ بھی مرگیا "۔