يٰۤـاَيُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ۗ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسٰلَـتَهٗ ۗ وَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۗ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْـكٰفِرِيْنَ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
اے پیغمبرؐ! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے یقین رکھو کہ وہ کافروں کو (تمہارے مقابلہ میں) کامیابی کی راہ ہرگز نہ دکھائے گا
English Sahih:
O Messenger, announce that which has been revealed to you from your Lord, and if you do not, then you have not conveyed His message. And Allah will protect you from the people. Indeed, Allah does not guide the disbelieving people.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
اے پیغمبرؐ! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے یقین رکھو کہ وہ کافروں کو (تمہارے مقابلہ میں) کامیابی کی راہ ہرگز نہ دکھائے گا
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اے رسول پہنچا دو جو کچھ اترا تمہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ایسا نہ ہو تو تم نے اس کا کوئی پیام نہ پہنچایا اور اللہ تمہاری نگہبانی کرے گا لوگوں سے بیشک اللہ کافروں کو راہ نہیں دیتا،
احمد علی Ahmed Ali
اے رسول جو تجھ پر تیرے رب کی طرف سے اترا ہے اسے پہنچا دے اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہیں کیا اور الله تجھے لوگوں سے بچائے گا بے شک الله کافروں کی قوم کو راستہ نہیں دکھاتا
أحسن البيان Ahsanul Bayan
اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی (١) اور آپ کو اللہ تعالٰی لوگوں سے بچا لے گا (٢) بیشک اللہ تعالٰی کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
٦٧۔١ اس حکم کا مفاد یہ ہے کہ جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا ہے، بلا کم و کاست اور بلا خوف ملامت۔ اور حجۃ الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے ایک لاکھ یا ایک لاکھ چالیس ہزار کے جم غفیر میں فرمایا ـ' تم میرے بارے میں کیا کہو گے؟ انہوں نے کہا (ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے اللہ کا پیغام دیا اور ادا کر دیا اور خیر خواہی فرما دی۔ آپ نے آسمان کی طرف انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے فرمایا اللّھُمّ ھَلْ بَلّغتُ(تین مرتبہ) یا اللّھُم ّفَاشْھَدُ(تین مرتبہ) صحیح مسلم کتاب حج ' یعنی اے اللہ! میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا، تو گواہ رہ، تو گواہ رہ، تو گواہ رہ۔ '
٦٧۔٢ یہ حفاظت اللہ تعالٰی نے معجزانہ طریقہ پر بھی فرمائی اور دنیاوی اسباب کے تحت بھی دنیاوی اسباب کے تحت اس آیت کے نزول سے بہت قبل اللہ تعالٰی نے پہلے آپ کے چچا ابو طالب کے دل میں آپ کی طبعی محبت ڈال دی اور وہ آپ کی حفاظت کرتے رہے، ان کا کفر پر قائم رہنا بھی شاید انہی اسباب
کا ایک حصہ معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر وہ مسلمان ہو جاتے تو شاید سرداران قریش کے دل میں ان کی ہیبت و عظمت نہ رہتی جو ان کے ہم مذہب ہونے کی صورت میں آخر وقت تک رہی۔ پھر ان کی وفات کے بعد اللہ تعالٰی نے بعض سرداران قریش کے ذریعے سے اللہ نے وقتًا فوقتًا یہودیوں کے مکر و کید سے
مطلع فرما کر خاص خطرے کے مواقع پر بچایا اور گھمسان کی جنگوں میں کفار کے انتہائی پر خطرناک حملوں سے بھی آپ کو محفوظ رکھا۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
اے پیغمبر جو ارشادات خدا کی طرف سے تم پر نازل ہوئے ہیں سب لوگوں کو پہنچا دو اور اگر ایسا نہ کیا تو تم خدا کے پیغام پہنچانے میں قاصر رہے (یعنی پیغمبری کا فرض ادا نہ کیا) اور خدا تم کو لوگوں سے بچائے رکھے گا بیشک خدا منکروں کو ہدایت نہیں دیتا
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجیئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی، اور آپ کو اللہ تعالیٰ لوگوں سے بچا لے گا بےشک اللہ تعالیٰ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اے رسول! جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے۔ اسے (لوگوں تک) پہنچا دیجیے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو (پھر یہ سمجھا جائے گا کہ) آپ نے اس کا کوئی پیغام پہنچایا ہی نہیں۔ اور اللہ آپ کی لوگوں (کے شر) سے حفاظت کرے گا بے شک خدا کافروں کو ہدایت نہیں کرتا۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اے (برگزیدہ) رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (وہ سارا لوگوں کو) پہنچا دیجئے، اور اگر آپ نے (ایسا) نہ کیا تو آپ نے اس (ربّ) کا پیغام پہنچایا ہی نہیں، اور اﷲ (مخالف) لوگوں سے آپ (کی جان) کی (خود) حفاظت فرمائے گا۔ بیشک اﷲ کافروں کو راہِ ہدایت نہیں دکھاتا،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کو چھپایا نہیں
اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول کے پیارے خطاب سے آواز دے کر اللہ تعالیٰ حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کل احکام لوگوں کو پہنچا دو ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ایسا ہی کیا۔ صحیح بخاری میں ہے " حضرت عائشہ فرماتی ہیں جو تجھ سے کہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ کسی حکم کو چھپالیا تو جان لو کہ وہ جھوٹا ہے، اللہ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا ہے پھر اس آیت کی تلاوت آپ نے کی "۔
یہ حدیث یہاں مختصر ہے اور جگہ پر مطول بھی ہے۔ بخاری و مسلم میں ہے " اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے کسی فرمان کو چھپانے والے ہوتے تو اس آیت کو چھپالیتے۔ آیت (وَتُخْــفِيْ فِيْ نَفْسِكَ مَا اللّٰهُ مُبْدِيْهِ وَتَخْشَى النَّاسَ ۚ وَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰـىهُ ) 33 ۔ الاحزاب ;37) ۔ یعنی تو اپنے دل میں وہ چھپاتا تھا جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور لوگوں سے جھینپ رہا تھا حالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ تو اس سے ڈرے "۔ ابن عباس سے کسی نے کہا کہ لوگوں میں یہ چرچا ہو رہا ہے کہ تمہیں کچھ باتیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسی بتائی ہیں جو اور لوگوں سے چھپائی جاتی تھیں تو آپ نے یہی آیت پڑھی اور فرمایا قسم اللہ کی ہمیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی ایسی مخصوص چیز کا وارث نہیں بنایا (ابن ابی حاتم) صحیح بخاری شریف میں ہے کہ " حضرت علی سے ایک شخص نے پوچھا کیا تمہارے پاس قرآن کے علاوہ کچھ اور وحی بھی ہے ؟ آپ نے فرمایا اس اللہ کی قسم جس نے دانے کو اگایا ہے اور جانوروں کو پیدا کیا ہے کہ کچ نہیں بجز اس فہم و روایت کے جو اللہ کسی شخص کو دے اور جو کچھ اس صحیفے میں ہے، اس نے پوچھا صحیفے میں کیا ہے ؟ فرمایا دیت کے مسائل ہیں، قیدیوں کو چھوڑ دینے کے احکام ہیں اور یہ ہے کہ مسلمان کافر کے بدلے قصاصاً قتل نہ کیا جائے "۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت زہری کا فرمان ہے کہ اللہ کی طرف سے رسالت ہے اور پیغمبر کے ذمے تبلیغ ہے اور ہمارے ذمہ قبول کرنا اور تابع فرمان ہونا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کی سب باتیں پہنچا دیں، اس کی گواہ آپ کی تمام امت ہے کہ فی الواقع آپ نے امانت کی پوری ادائیگی کی اور سب سے بڑی مجلس جو تھی، اس میں سب نے اس کا اقرار کیا یعنی حجتہ الوداع خطبے میں، جس وقت آپ کے سامنے چالیس ہزار صحابہ کا گروہ عظیم تھا "۔ صحیح مسلم میں ہے کہ " آپ نے اس خطبے میں لوگوں سے فرمایا تم میرے بارے میں اللہ کے ہاں پوچھے جاؤ گے تو بتاؤ کیا جواب دو گے ؟ سب نے کہا ہماری گواہی ہے کہ آپ نے تبلیغ کردی اور حق رسالت ادا کردیا اور ہماری پوری خیر خواہی کی، آپ نے سر آسمان کی طرف اٹھا کر فرمایا اے اللہ ! کیا میں نے تیرے تمام احکامات کو پہنچا دیا، اے اللہ ! کیا میں نے پہنچا دیا ؟ " مسند احمد میں یہ بھی ہے کہ آپ نے اس خطبے میں پوچھا کہ لوگو یہ کونسا دن ہے ؟ سب نے کہا حرمت والا، پوچھا یہ کونسا شہر ہے، جواب دیا، حرمت والا۔ فرمایا یہ کونسا مہینہ ہے ؟ جواب ملا، حرمت والا، فرمایا پس تمہارے مال اور خون و آبرو آپس میں ایک دوسرے پر ایسی ہی حرمت والے ہیں جیسے اس دن کی اس شہر میں اور اس مہینے میں حرمت ہے۔ پھر بار بار اسی کو دوہرایا۔ پھر اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر فرمایا اے اللہ ! کیا میں نے پہنچا دیا "۔ ابن عباس فرماتے ہیں اللہ کی قسم یہ آپ کے رب کی طرف آپ کی وصیت تھی۔ پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دیکھو ہر حاضر شخص غیر حاضر کو یہ بات پہنچا دے۔ دیکھو میرے فرمان میرے بندوں تک نہ پہنچائے تو تو نے حق رسالت ادا نہیں کیا، پھر اس کی جو سزا ہے وہ ظاہر ہے، اگر ایک آیت بھی چھپالی تو حق رسالت ادا نہ ہوا۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں جب یہ حکم نازل ہوا کہ جو کچھ اترا ہے سب پہنچا دو تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ میں اکیلا ہوں اور یہ سب مل کر مجھ پر چڑھ دوڑتے ہیں، میں کس طرح کروں تو دوسرا جملہ اترا کہ اگر تو نے نہ کیا تو تو نے رسالت کا حق ادا نہیں کیا۔ پھر فرمایا تجھے لوگوں سے بچا لینا میرے ذمہ ہے۔ تیرا حافظ و ناصر میں ہوں، بےخطر رہئیے وہ کوئی تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، اس آیت سے پہلے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چوکنے رہتے تھے، لوگ نگہبانی پر مقرر رہتے تھے۔ چناچہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک رات کو حضور بیدار تھے انہیں نیند نہیں آرہی تھی میں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آج کیا بات ہے ؟ فرمایا کاش کہ میرا کوئی نیک بخت صحابی آج پہرہ دیتا، یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ میرے کانوں میں ہتھیار کی آواز آئی آپ نے فرمایا کون ہے ؟ جواب ملا کہ میں سعد بن مالک ہوں، فرمایا کیسے آئے ؟ جواب دیا اس لئے کہ رات بھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چوکیداری کروں۔ اس کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باآرام سو گئے، یہاں تک کہ خراٹوں کی آواز آنے لگی (بخاری و مسلم) ایک روایت میں ہے کہ یہ واقعہ سنہ\0\02ھ کا ہے۔ اس آیت کے نازل ہوتے ہی آپ نے خیمے سے سر نکال کر چوکیداروں سے فرمایا، " جاؤ اب میں اللہ کی پناہ میں آگیا، تمہاری چوکیداری کی ضرورت نہیں رہی "۔ ایک روایت میں ہے کہ ابو طالب آپ کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی آدمی کو رکھتے، جب یہ آیت اتری تو آپ نے فرمایا بس چچا ! اب میرے ساتھ کسی کے بھیجنے کی ضرورت نہیں، میں اللہ کے بچاؤ میں آگیا ہوں۔ لیکن یہ روایت غریب اور منکر ہے یہ واقعہ ہو تو مکہ کا ہو اور یہ آیت تو مدنی ہے، مدینہ کی بھی آخری مدت کی آیت ہے، اس میں شک نہیں کہ مکہ میں بھی اللہ کی حفاظت اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہی باوجود دشمن جاں ہونے کے اور ہر ہر اسباب اور سامان سے لیس ہونے کے سردار ان مکہ اور اہل مکہ آپ کا بال تک بیکا نہ کرسکے، ابتداء رسالت کے زمانہ میں اپنے چچا ابو طالب کی وجہ سے جو کہ قریشیوں کے سردار اور بارسوخ شخص تھے، آپ کی حفاظت ہوتی رہی، ان کے دل میں اللہ نے آپ کی محبت اور عزت ڈال دی، یہ محبت اور عزت ڈال دی، یہ محبت طبعی تھی شرعی نہ تھی۔ اگر شرعی ہوتی تو قریش حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہی ان کی بھی جان کے خواہاں ہوجاتے۔ ان کے انتقال کے بعد اللہ تعالیٰ نے انصار کے دلوں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شرعی محبت پیدا کردی اور آپ انہی کے ہاں چلے گئے۔ اب تو مشرکین بھی اور یہود بھی مل ملا کر نکل کھڑے ہوئے، بڑے بڑے سازو سامان لشکر لے کر چڑھ دوڑے، لیکن بار بار کی ناکامیوں نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اسی طرح خفیہ سازشیں بھی جتنی کیں، قدرت نے وہ بھی انہی پر الٹ دیں۔ ادھر وہ جادو کرتے ہیں، ادھر سورة معوذتین نازل ہوتی ہے اور ان کا جادو اتر جاتا ہے۔ ادھر ہزاروں جتن کر کے بکری کے شانے میں زہر ملا کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کر کے آپ کے سامنے رکھتے ہیں، ادھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی دھوکہ دہی سے آگاہ فرما دیتا ہے اور یہ ہاتھ کاٹتے رہ جاتے ہیں اور بھی ایسے واقعات آپ کی زندگی میں بہت سارے نظر آتے ہیں۔ ابن جریر میں ہے کہ " ایک سفر میں آپ ایک درخت تلے، جو صحابہ اپنی عادت کے مطابق ہر منزل میں تلاش کر کے آپ کیلئے چھوڑ دیتے تھے، دوپہر کے وقت قیولہ کر رہے تھے تو ایک اعرابی اچانک آ نکلا، آپ کی تلوار جو اسی درخت میں لٹک رہی تھی، اتار لی اور میان سے باہر نکال لی اور ڈانٹ کر آپ سے کہنے لگا، اب بتا کون ہے جو تجھے بچا لے ؟ آپ نے فرمایا اللہ مجھے بچائے گا، اسی وقت اس اعرابی کا ہاتھ کانپنے لگتا ہے اور تلوار اس کے ہاتھ سے گر جاتی ہے اور وہ درخت سے ٹکراتا ہے، جس سے اس کا دماغ پاش پاش ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ یہ آیت اتارتا ہے "۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو نجار سے غزوہ کیا " ذات الرقاع کھجور کے باغ میں آپ ایک کنوئیں میں پیر لٹکائے بیٹھے تھے، جو بنو نجار کے ایک شخص وارث نامی نے کہا دیکھو میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرتا ہوں۔ لوگوں نے کہا کیسے ؟ کہا میں کسی حیلے سے آپ کی تلوار لے لوں گا اور پھر ایک ہی وار کر کے پار کر دوں گا۔ یہ آپ کے پاس آیا اور ادھر ادھر کی باتیں بنا کر آپ سے تلوار دیکھنے کو مانگی، آپ نے اسے دے دی لیکن تلوار کے ہاتھ میں آتے ہی اس پر اس بلا کا لرزہ چڑھا کہ آخر تلوار سنبھل نہ سکی اور ہاتھ سے گر پڑی تو آپ نے فرمایا تیرے اور تیرے بد ارادے کے درمیان اللہ حائل ہوگیا اور یہ آیت اتری۔ حویرث بن حارث کا بھی ایسا قصہ مشہور ہے۔ ابن مردویہ میں ہے کہ " صحابہ کی عادت تھی کہ سفر میں جس جگہ ٹھہرتے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیلئے گھنا سایہ دار بڑا درخت چھوڑ دیتے کہ آپ اسی کیلئے تلے آرام فرمائیں، ایک دن آپ اسی طرح ایسے درخت تلے سو گئے اور آپ کی تلوار اس درخت میں لٹک رہی تھی، ایک شخص آگیا اور تلوار ہاتھ میں لے کر کہنے لگا، اب بتا کہ میرے ہاتھ سے تجھے کون بچائے گا ؟ آپ نے فرمایا اللہ بچائے گا، تلوار رکھ دے اور وہ اس قدر ہیبت میں آگیا کہ تعمیل حکم کرنا ہی پڑی اور تلوار آپ کے سامنے ڈال دی۔ " اور اللہ نے یہ آیت اتاری کہ (ۭوَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ) 5 ۔ المائدہ ;67) مسند میں ہے کہ " حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک موٹے آدمی کے پیٹ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا اگر یہ اس کے سوا میں ہوتا تو تیرے لئے بہتر تھا۔ ایک شخص کو صحابہ پکڑ کر آپ کے پاس لائے اور کہا یہ آپ کے قتل کا ارادہ کر رہا تھا، وہ کانپنے لگا، آپ نے فرمایا گھبرا نہیں چاہے تو ارادہ کرے لیکن اللہ اسے پورا نہیں ہونے دے گا "۔ پھر فرماتا ہے تیرے ذمہ صرف تبلیغ ہے، ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے، وہ کافروں کو ہدایت نہیں دے گا۔ تو پہنچا دے، حساب کا لینے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔