المائدہ آية ۶۷
يٰۤـاَيُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ۗ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسٰلَـتَهٗ ۗ وَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۗ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْـكٰفِرِيْنَ
طاہر القادری:
اے (برگزیدہ) رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (وہ سارا لوگوں کو) پہنچا دیجئے، اور اگر آپ نے (ایسا) نہ کیا تو آپ نے اس (ربّ) کا پیغام پہنچایا ہی نہیں، اور اﷲ (مخالف) لوگوں سے آپ (کی جان) کی (خود) حفاظت فرمائے گا۔ بیشک اﷲ کافروں کو راہِ ہدایت نہیں دکھاتا،
English Sahih:
O Messenger, announce that which has been revealed to you from your Lord, and if you do not, then you have not conveyed His message. And Allah will protect you from the people. Indeed, Allah does not guide the disbelieving people.
1 Abul A'ala Maududi
اے پیغمبرؐ! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے یقین رکھو کہ وہ کافروں کو (تمہارے مقابلہ میں) کامیابی کی راہ ہرگز نہ دکھائے گا
2 Ahmed Raza Khan
اے رسول پہنچا دو جو کچھ اترا تمہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ایسا نہ ہو تو تم نے اس کا کوئی پیام نہ پہنچایا اور اللہ تمہاری نگہبانی کرے گا لوگوں سے بیشک اللہ کافروں کو راہ نہیں دیتا،
3 Ahmed Ali
اے رسول جو تجھ پر تیرے رب کی طرف سے اترا ہے اسے پہنچا دے اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہیں کیا اور الله تجھے لوگوں سے بچائے گا بے شک الله کافروں کی قوم کو راستہ نہیں دکھاتا
4 Ahsanul Bayan
اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی (١) اور آپ کو اللہ تعالٰی لوگوں سے بچا لے گا (٢) بیشک اللہ تعالٰی کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
٦٧۔١ اس حکم کا مفاد یہ ہے کہ جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا ہے، بلا کم و کاست اور بلا خوف ملامت۔ اور حجۃ الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے ایک لاکھ یا ایک لاکھ چالیس ہزار کے جم غفیر میں فرمایا ـ' تم میرے بارے میں کیا کہو گے؟ انہوں نے کہا (ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے اللہ کا پیغام دیا اور ادا کر دیا اور خیر خواہی فرما دی۔ آپ نے آسمان کی طرف انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے فرمایا اللّھُمّ ھَلْ بَلّغتُ(تین مرتبہ) یا اللّھُم ّفَاشْھَدُ(تین مرتبہ) صحیح مسلم کتاب حج ' یعنی اے اللہ! میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا، تو گواہ رہ، تو گواہ رہ، تو گواہ رہ۔ '
٦٧۔٢ یہ حفاظت اللہ تعالٰی نے معجزانہ طریقہ پر بھی فرمائی اور دنیاوی اسباب کے تحت بھی دنیاوی اسباب کے تحت اس آیت کے نزول سے بہت قبل اللہ تعالٰی نے پہلے آپ کے چچا ابو طالب کے دل میں آپ کی طبعی محبت ڈال دی اور وہ آپ کی حفاظت کرتے رہے، ان کا کفر پر قائم رہنا بھی شاید انہی اسباب
کا ایک حصہ معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر وہ مسلمان ہو جاتے تو شاید سرداران قریش کے دل میں ان کی ہیبت و عظمت نہ رہتی جو ان کے ہم مذہب ہونے کی صورت میں آخر وقت تک رہی۔ پھر ان کی وفات کے بعد اللہ تعالٰی نے بعض سرداران قریش کے ذریعے سے اللہ نے وقتًا فوقتًا یہودیوں کے مکر و کید سے
مطلع فرما کر خاص خطرے کے مواقع پر بچایا اور گھمسان کی جنگوں میں کفار کے انتہائی پر خطرناک حملوں سے بھی آپ کو محفوظ رکھا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اے پیغمبر جو ارشادات خدا کی طرف سے تم پر نازل ہوئے ہیں سب لوگوں کو پہنچا دو اور اگر ایسا نہ کیا تو تم خدا کے پیغام پہنچانے میں قاصر رہے (یعنی پیغمبری کا فرض ادا نہ کیا) اور خدا تم کو لوگوں سے بچائے رکھے گا بیشک خدا منکروں کو ہدایت نہیں دیتا
6 Muhammad Junagarhi
اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجیئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی، اور آپ کو اللہ تعالیٰ لوگوں سے بچا لے گا بےشک اللہ تعالیٰ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا
7 Muhammad Hussain Najafi
اے رسول! جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے۔ اسے (لوگوں تک) پہنچا دیجیے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو (پھر یہ سمجھا جائے گا کہ) آپ نے اس کا کوئی پیغام پہنچایا ہی نہیں۔ اور اللہ آپ کی لوگوں (کے شر) سے حفاظت کرے گا بے شک خدا کافروں کو ہدایت نہیں کرتا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اے پیغمبر ! جو ارشادات خدا کی طرف سے تم پر نازل ہوئے ہیں سب لوگوں کو پہنچ دو ۔ اور اگر ایسا نہ کیا تو تم خدا کے پیغام پہنچانے میں قاصر رہے۔ (یعنی پیغمبری کا فرض ادانہ کیا) اور خدا تم کو لوگوں سے بچائے رکھے گا۔ بیشک خدا منکروں کو ہدایت نہیں دیتا۔
آیت نمبر ٦٧ تا ٧٧
ترجمہ : اے رسول ! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ سب (لوگوں تک) پہنچا دو اور اس خوف سے کہ اس کی وجہ سے تم کو کوئی پریشانی لاحق ہوگی، اس میں سے کچھ نہ چھپاؤ، اور اگر تم نے یہ کام نہ کیا یعنی جو کچھ تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے وہ سب (لوگوں تک) نہ پہنچایا تو تم نے اس کی رسالت کا حق ادا نہ کیا، (رسالۃ) افراد اور جمع کے ساتھ ہے، اس لئے کہ بعض کا چھپانا کے مانند ہے، اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچائیگا کہ تم کو قتل کریں، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کی جاتی تھی یہاں تک کہ آیت ” یعصمک من الناس “ نازل ہوئی، تو آپ نے فرمایا میرے پاس سے چلے جاؤ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت کردی ہے رواہ حاکم، یقین رکھو کہ اللہ کافروں کو (تمہارے مقابلہ میں کامیابی کی) راہ نہ دکھائیگا، آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب تم معتدبہ دین پر قائم نہیں ہو جب تک کہ تم تورات اور انجیل اور اس کے (احکام) پر قائم نہ ہو کہ جو تمہارے رب نے تمہاری طرف نازل کیے ہیں، بایں طور کہ جو اس میں ہے اس پر عمل کرو اور ان (احکام میں) میری تصدیق کرنا بھی شامل ہے جو قرآن آپ کی جانب آپ کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے وہ ان میں سے بہت سوں کی سرکشی اور کفر میں اضافہ کر دے گا، ان کے منکر ہونے کی وجہ سے، اگر منکر قوم رب پر ایمان نہ لائے تو آپ افسوس نہ کریں یعنی ان پر غم زدہ نہ ہوں، اس میں کوئی شک نہیں کہ (خواہ) مومن ہوں یا یہودیت اختیار کرنے والے ہوں اور وہ یہودی ہیں مبتداء ہے اور صابی اور نصاریٰ (یا ہوں) (صابی) یہود کا ایک فرقہ ہے اور مَنْ آمَنَ ، مبتداء سے بدل ہے، ان میں سے جو بھی اللہ پر اور یوم آخرت پر حقیقت میں ایمان لائیگا اور نیک عمل کرے گا آخرت میں نہ ان پر خوف ہوگا اور نہ غم (فلا خوف علیھم ولاھم یحزنون) مبتداً کی خبر ہے کہ جو اِنَّ کی خر پر دال ہے، ہم نے بنی اسرائیل سے اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لانے کا پختہ عہد کیا تھا اور ہم نے ان کی طرف بہت سے رسول بھیجے، (مگر) جب بھی ان کا کوئی رسول ان کی خواہشات نفس کے خلاف حق لے کر آیا تو اس کی تکذیب کی، ان میں سے بعض کی تکذیب کی اور ان میں سے بعض کو قتل کر ڈالا جیسا کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) اور یحییٰ (علیہ السلام) کو اور قَتَلُوْا کے بجائے یقتلون سے تعبیر حکایت حال ماضیہ کے طور پر ہے اور فواصل کی رعایت بھی مقصود ہے اور وہ بزعم خویش یہ سمجھے کہ کوئی فتنہ رونما نہ ہوگا یعنی ان کے رسولوں کی تکذیب اور قتل کی وجہ سے ان پر کوئی عذاب واقع نہ ہوگا، (الاّ تکونُ ) رفع کے ساتھ، اس صورت میں اَن مخففہ عن المشقلہ ہوگا، اور نصب کے ساتھ بھی ہے، اس صورت میں اَن ناصبہ ہوگا، اَن تکونَ ، بمعنی اَن تقع ہے، حق سے اندھے ہوگئے کہ اس کو دیکھتے نہیں ہیں اور اسی کے سننے سے بہرے ہوگئے پھر جب انہوں نے توبہ کی تو اللہ نے ان کی توجہ قبول کرلی پھر دوبارہ ان میں سے اکثر لوگ اندھے بہرے ہوگئے اور (کثیرٌ مِنھم) صَمُّوْا کی ضمیر سے بدل ہے، یہ لوگ جو کچھ کرتے ہیں اللہ وہ سب کچھ دیکھتا ہے تو ان کو اس کی سزا دیگا، یقیناً ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا اللہ وہ عیسیٰ ابن مریم ہی ہے، اسی قسم کی آیت گذر چکی ہے، اور ان سے مسیح (علیہ السلام) نے کہا تھا اے بنی اسرائیل اللہ کی بندگی کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے کیونکہ میں بندہ ہوں معبود نہیں ہوں، جس نے عبادت میں غیر کو اللہ کا شریک ٹھہرایا تو اللہ نے اس کیلئے جنت کو حرام کردیا، یعنی جنت میں اس کے داخلہ پر پابندی لگا دی، اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہیں، کہ ان کو اللہ کے عذاب سے بچا سکے، مِن زائد ہے یقیناً ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا کہ اللہ تین معبودوں میں سے ایک ہے یعنی ایک اللہ اور دوسرے دو عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ یہ نصاریٰ کا ایک فرقہ ہے حالانکہ ایک خدا کے سوا کوئی خدا نہیں اگر یہ لوگ تثلیث کی بکواس سے باز نہ آئے اور توحید کے قائل نہ ہوئے تو جس نے ان میں سے کفر کیا ہوگا یعنی کفر پر قائم رہا ہوگا تو ان کو دردناک سزا دی جائے اور وہ آگ کی سزا ہے تو پھر کیا لوگ اپنی کہی ہی باتوں کے بارے میں اللہ سے توبہ نہ کریں گے اور اس سے معافی نہ مانگیں گے اللہ اس سے جس نے توبہ کی درگزر کرنے والے اور اس پر رحم کرنے والے ہیں، مسیح ابن مریم اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ ایک رسول ہیں ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں یہ بھی ان کی طرح گزر جائیں گے وہ معبود نہیں ہیں جیسا کہ انہوں نے مان رکھا ہے ورنہ تو وہ نہ گزرتے، ان کی والدہ ایک راست باز عورت تھی، صداقت میں مبالغہ کرنے والی، اور وہ دونوں کھانا کھاتے تھے جس طرح دیگر جاندار کھاتے ہیں اور جو ایسا ہو وہ معبود نہیں ہوسکتا اپنے مرکب ہونے کی وجہ سے اور اپنے ضعف کی وجہ سے اور اس سے بول و براز خارج ہونے کی وجہ سے دیکھو امر تعجب کیلئے ہے ہم ان کیلئے اپنی وحدانیت پر کیسی نشانیاں بیان کرتے ہیں پھر دیکھو دلیل قائم ہونے کے باوجود حق سے کیسے الٹے پھرے جا رہے ہیں ؟ آپ ان سے کہو کہ کیا تم اللہ کو چھوڑ کر دوسرے کی بندگی کرتے ہو جو تمہارے نہ نقصان کا مالک ہے اور نہ نفع کا حالانکہ اللہ ہی سب کی باتوں کا سننے والا اور سب کے احوال کا جاننے والا ہے، استفہام انکار کیلئے ہے، کہو اے اہل کتاب یہودو نصاریٰ ناحق اپنے دین میں غلونہ کرو یعنی اپنے دین میں حد سے تجاوز نہ کرو، بایں طور کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی تحقیر کرو یا ان کے رتبہ سے زیادہ ان کو بڑھا دو اور لوگوں کے خیالات کی پیروی نہ کرو جو تم سے پہلے اپنے غلو کی وجہ سے گمراہ ہوچکے ہیں اور وہ ان کے اسلاف ہیں، اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کرچکے ہیں اور راہ راست سے بھٹک گئے تھے، یعنی راہ حق سے، سواء کے معنی در حقیقت وسط کے ہیں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : لَاِنَّ کتمانَ بَعْضِھا کِکتْمانِ کلّھا، یہ رسالات کو جمع لانے کی علت ہے۔ قولہ : اَنْ یَقْتُلُوا، اس جملہ کو مقدر ماننے کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : اللہ تعالیٰ کے قول ” واللہ یعصمک من الناس “ کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انسانوں کی جانب سے ہر قسم کی گزند سے محفوظ رکھیں گے، حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انسانوں کی طرف سے گزند پہنچی تھی، مثلاً غزوہ احد میں آپ کے چہرہ انور کا زخمی ہوجانا آپ کی رباعی مبارک کا ٹوٹ جانا وغیرہ وغیرہ۔
جواب : حفاظت سے مراد قتل سے حفاظت ہے نہ کہ مطلقًا گزند سے حفاظت لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں۔
قولہ : مِن الدِّیْنِ مُعْتَدٍّبہ یہ سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : یہود و نصاری و مشرکین کیلئے یہ کہنا کہ تم کسی شئ پر نہیں ہو درست نہیں ہے اسلئے کہ وہ جس دین دھرم پر تھے وہ بھی تو ایک شئ تھی اس کا جواب دیا۔ جواب : شئ سے مراد عبد اللہ دین معتدبہ ہے، نہ کہ ان کا اختیار کردہ دین و دھرم۔
قولہ : الصّٰبِئونَ ، صَابیٌّ، کی جمع ہے اسم فاعل دین سے خارج ہونے والا، جب کوئی شخص اسلام لاتا تو عرب کہتے قد صبَأَ ، وہ دین سے نکل گیا یہ فرقہ اس نام سے اسلئے موسوم ہوا کہ وہ یہودیت اور نصرانیت سے نکل کر ستاروں کی پرستش کرنے لگا ان کا مرکز حزان ہے، ابو اسحاق صابی اسی فرقہ سے تعلق رکھتا تھا۔
قولہ : اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا، اس جملہ میں ن ترکیبیں ہوسکتی ہیں ان میں سے آسان تین ترکیبیں لکھی جاتی ہیں۔
(١) اِنّ حرف مشبہ بالفعل ناصب، الذین اسم موصول آمنوا صلہ، موصول صلہ سے مل کر، اِنَّ کا اسم، فلا خوف علیہم ولا ھم یحزنون، جملہ ہو کر اِنّ کی خبر محذوف۔ وَالذین ھادوا والصابئون والنصاری مَن آمَنَ باللہ والیوم الآخر وعمل صالحاً فلا خوف علیھم ولاھم یحزنون۔
(٢) واو، استینافیہ الّذین اسم موصول ھَادُوا صلہ۔ موصول صلہ سے مل کر معطوف علیہ، والصابئون معطوف علیہ معطوف والنصاری معطوف تینوں معطوف تینوں معطوفات مل کر مبدل منہ مَنْ آمَنَ باللہ والیوم الآخر جملہ ہو کہ معطوف علیہ، وعمل صالحاً معطوف، معطوف معطوف علیہ سے مل کر بدل، بدل مبدل منہ سے مل کر مبتداء، فلا خوف علیہ ولاھم یحزنون، جملہ ہو کر مبتداء کی خبر ہے۔
(٣) اِنَّ حرف مشبہ بالفعل الذین اسم موصول آمنوا، صلہ، موصول صلہ سے مل کر معطوف علیہ واؤ عاطفہ الذین اسم موصول ھادوا صلہ اسم موصول صلہ سے ملکر معطوف علیہ واؤ عاطفہ الصابئون معطوف علیہ معطوف واؤ حرف عطف النصاری معطوف تینوں معطوفات مل کر مبدل منہ مَنْ اٰمَنَ باللہ، بدل، بدل مبدل منہ سے مل کر اِنّ کا اسم فلا خوف علیہ ولاھم یحزنون، اِنّ کی خبر۔
قولہ : کَذَّبُوہٗ یہ کلّما کی جزاءِ محذوف ہے۔
قولہ : والتَعْبِیْرُ بہ یعنی موقع ماضی کا تھا مگر یقتلون مضارع استعمال ہوا ہے ایک تو حکایت حال ماضیہ کے طور پر یعنی یہ بتانے کیلئے کہ گویا کہ قتل کا معاملہ اس وقت ہو رہا ہے، دوسرا مقصد فواصل کی رعایت ہے۔
قولہ : تَقَعَ ، اس میں اشارہ ہے کہ تکون تامہ ہے لہٰذا اس کو خبر کی ضرورت نہیں ہے، فِتنۃٌ، تکون کا فاعل ہے۔
قولہ : بَدَلٌ مِنَ الضَّمِیْرِ یعنی کثیرٌ منھم، عَموا وصمّوا، کی ضمیر سے بدل البعض ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کثیرٌ منھم، اُوْلٰئِکَ مبتداء محذوف کی خبر ہو۔
قولہ : فِرْقَۃٌ مِنَ النَصَارَیٰ اس میں اشارہ ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو ثالث ثلثٰۃ کہنے والا نصاری کا ایک فرقہ ہے اس کے علاوہ دیگر فرقے بھی ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو الٰہ مانتے ہیں لہٰذا دونوں باتوں میں کوئی تعارض نہیں ہے۔
تفسیر و تشریح
یٰآیُّھا الرسول بَلّغْ مَا اُنْزِلَ (الآیۃ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس آیت میں تاکیدی حکم دیا جا رہا ہے کہ آپ پر جو کچھ نازل کیا جاتا ہے اس کو آپ بےکم وکاست اور بلا خوف لومۃ لائم لوگوں تک پہنچا دیں چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسا ہی کیا، حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ جو شخص یہ گمان کرے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ چھپالیا ہے اس نے یقیناً جھوٹ بولا، (صحیح بخاری) حضرت علی (رض) سے جب سوال کیا گیا کہ آپ کے پاس قرآن کے علاوہ وحی کے ذریعہ سے نازل شدہ اور کوئی بات ہے ؟ تو آپ نے قسمیہ منع فرمایا، اِلاّ فَھْماً یعطیہ اللہ رجلاً ، البتہ قرآن کا فہم ہے جسے اللہ کسی کو بھی عطا فرما دے۔ (صحیح بخاری) حضرت عائشہ صدیقہ نے کیسی لطیف اور سچی بات اس موقع پر فرمائی، کہ اگر آپ نے قرآن کا کوئی جز چھپایا ہوتا تو وہ یہی جز ہوتا، قَالَت لَوْ کَانَ محمد کماتماً شیئاً مِنَ القرآن لکَتَمَ ھذہ الآیۃ۔ (ابن کثیر) ۔ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے صحابہ کے لاکھوں کے مجمع میں فرمایا تم میرے بارے میں کیا کہو گے ؟ صحابہ (رض) نے عرض کیا ” نَشھَدُ اَنّکَ قد بَلَّغْتَ واَدَّیْتَ ونَصَحْتَ “ ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے اللہ کا پیغام دیا اور اس کا حق ادا کردیا، اور خیر خواہی فرما دی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آسمان کی طرف انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے فرمایا، ” اَللّٰھُمَّ قَدْ بلغتُ “ (تین مرتبہ)
واللہ یَعْصِمُکَ مِنَ الناس، آپ کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طریقہ پر بھی فرمائی اور دنیاوی اسباب کے تحت بھی، اس آیت کے نزول سے قبل آپ کی حفاظت کے ظاہری اسباب کے طور پر اللہ تعالیٰ نے آپ کے چچا ابو طالب کے دل میں آپ کی طبعی محبت ڈال دی اور وہ آپ کی حفاظت کرتے رہے، ان کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے بعض قریش کے سرداروں کے ذریعہ پھر انصار مدینہ کے ذریعہ آپ کا تحفظ فرمایا، جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ نے تحفظ کے ظاہری اسباب جن میں صحابہ کرام کا پہرہ بھی شامل تھا اٹھوا دیا اس کے بعد بار بار سنگین خطرے پیش آئے لیکن اللہ نے آپ کی حفاظت فرمائی، چناچہ بذریعہ وحی ” وقتا فوقتاً “ اللہ نے یہودیوں کے مکرو کید سے مطلع فرما کر خطرہ سے بچا لیا۔
10 Tafsir as-Saadi
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہے اور یہ سب سے بڑا اور جلیل ترین حکم ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ نازل فرمایا ہے اسے اس کے بندوں تک پہنچایا جائے۔۔۔ اس میں وہ تمام امور شامل ہیں جو امت نے آپ سے حاصل کئے، مثلاً عقائد، اعمال، اقوال، احکام شرعیہ اور مطالب الٰہیہ وغیرہ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اللہ تعالیٰ کے احکام کو پوری طرح پہنچا دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو دعوت دی، ان کو برے انجام سے ڈرایا، ان کو ایمان لانے پر اچھے انجام کی خوشخبری سنائی، ان کے لئے آسانیاں پیدا کیں، ان پڑھ جاہلوں کو علم سکھایا حتی کہ وہ علمائے ربانی بن گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و فعل، اپنے مراسلات اور ایلچیوں کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے دین کو پہنچا دیا۔ کوئی ایسی بھلائی نہیں جس کی طرف آپ نے امت کی راہنمائی نہ کی ہو اور کوئی ایسی برائی نہیں جس سے آپ نے امت کو ڈرایا نہ ہو۔ آپ کی اس تبلیغ کی گواہی افاضل امت یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے دی اور ان کے بعد ائمہ دین اور مسلمانوں نے دی۔
﴿وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ﴾ ” اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا۔“ یعنی جو چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رب کی طرف سے آپ پر اتاری گئی ہے اگر آپ نے اسے لوگوں تک نہ پہنچایا ﴿فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ﴾ ” تو نہیں پہنچایا آپ نے اس کا پیغام“ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی فرمانبرداری نہیں کی ﴿وَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ﴾” اور اللہ آپ کو لوگوں سے بچائے گا“ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت اور لوگوں سے آپ کی حفاظت کا وعدہ ہے۔ آپ کے لئے مناسب یہی ہے کہ آپ تعلیم و تبلیغ پر توجہ مرکوز رکھیں، مخلوق کا خوف آپ کو اس مقصد سے نہ ہٹا دے۔ کیونکہ مخلوق کی پیشانیاں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں، اس نے آپ کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے اور آپ کی ذمہ داری پہنچا دینا ہے جو کوئی ہدایت حاصل کرتا ہے تو وہ اپنے لئے ہے۔
رہے کفار جن کا خواہشات نفس کی پیروی کے سوا کوئی مقصد نہیں تو ان کے کفر کے سبب سے اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے گا، نہ انہیں بھلائی کی توفیق عطا کرے گا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey Rasool ! jo kuch tumharay rab ki taraf say tum per nazil kiya gaya hai uss ki tableegh kero . aur agar aisa nahi kero gay to ( iss ka matlab yeh hoga kay ) tum ney Allah ka paygham nahi phonchaya . aur Allah tumhen logon ( ki sazishon ) say bachaye ga . yaqeen rakho kay Allah kafir logon ko hidayat nahi deta .
12 Tafsir Ibn Kathir
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کو چھپایا نہیں
اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول کے پیارے خطاب سے آواز دے کر اللہ تعالیٰ حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کل احکام لوگوں کو پہنچا دو ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ایسا ہی کیا۔ صحیح بخاری میں ہے " حضرت عائشہ فرماتی ہیں جو تجھ سے کہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ کسی حکم کو چھپالیا تو جان لو کہ وہ جھوٹا ہے، اللہ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا ہے پھر اس آیت کی تلاوت آپ نے کی "۔
یہ حدیث یہاں مختصر ہے اور جگہ پر مطول بھی ہے۔ بخاری و مسلم میں ہے " اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے کسی فرمان کو چھپانے والے ہوتے تو اس آیت کو چھپالیتے۔ آیت (وَتُخْــفِيْ فِيْ نَفْسِكَ مَا اللّٰهُ مُبْدِيْهِ وَتَخْشَى النَّاسَ ۚ وَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰـىهُ ) 33 ۔ الاحزاب :37) ۔ یعنی تو اپنے دل میں وہ چھپاتا تھا جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور لوگوں سے جھینپ رہا تھا حالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ تو اس سے ڈرے "۔ ابن عباس سے کسی نے کہا کہ لوگوں میں یہ چرچا ہو رہا ہے کہ تمہیں کچھ باتیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسی بتائی ہیں جو اور لوگوں سے چھپائی جاتی تھیں تو آپ نے یہی آیت پڑھی اور فرمایا قسم اللہ کی ہمیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی ایسی مخصوص چیز کا وارث نہیں بنایا (ابن ابی حاتم) صحیح بخاری شریف میں ہے کہ " حضرت علی سے ایک شخص نے پوچھا کیا تمہارے پاس قرآن کے علاوہ کچھ اور وحی بھی ہے ؟ آپ نے فرمایا اس اللہ کی قسم جس نے دانے کو اگایا ہے اور جانوروں کو پیدا کیا ہے کہ کچ نہیں بجز اس فہم و روایت کے جو اللہ کسی شخص کو دے اور جو کچھ اس صحیفے میں ہے، اس نے پوچھا صحیفے میں کیا ہے ؟ فرمایا دیت کے مسائل ہیں، قیدیوں کو چھوڑ دینے کے احکام ہیں اور یہ ہے کہ مسلمان کافر کے بدلے قصاصاً قتل نہ کیا جائے "۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت زہری کا فرمان ہے کہ اللہ کی طرف سے رسالت ہے اور پیغمبر کے ذمے تبلیغ ہے اور ہمارے ذمہ قبول کرنا اور تابع فرمان ہونا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کی سب باتیں پہنچا دیں، اس کی گواہ آپ کی تمام امت ہے کہ فی الواقع آپ نے امانت کی پوری ادائیگی کی اور سب سے بڑی مجلس جو تھی، اس میں سب نے اس کا اقرار کیا یعنی حجتہ الوداع خطبے میں، جس وقت آپ کے سامنے چالیس ہزار صحابہ کا گروہ عظیم تھا "۔ صحیح مسلم میں ہے کہ " آپ نے اس خطبے میں لوگوں سے فرمایا تم میرے بارے میں اللہ کے ہاں پوچھے جاؤ گے تو بتاؤ کیا جواب دو گے ؟ سب نے کہا ہماری گواہی ہے کہ آپ نے تبلیغ کردی اور حق رسالت ادا کردیا اور ہماری پوری خیر خواہی کی، آپ نے سر آسمان کی طرف اٹھا کر فرمایا اے اللہ ! کیا میں نے تیرے تمام احکامات کو پہنچا دیا، اے اللہ ! کیا میں نے پہنچا دیا ؟ " مسند احمد میں یہ بھی ہے کہ آپ نے اس خطبے میں پوچھا کہ لوگو یہ کونسا دن ہے ؟ سب نے کہا حرمت والا، پوچھا یہ کونسا شہر ہے، جواب دیا، حرمت والا۔ فرمایا یہ کونسا مہینہ ہے ؟ جواب ملا، حرمت والا، فرمایا پس تمہارے مال اور خون و آبرو آپس میں ایک دوسرے پر ایسی ہی حرمت والے ہیں جیسے اس دن کی اس شہر میں اور اس مہینے میں حرمت ہے۔ پھر بار بار اسی کو دوہرایا۔ پھر اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر فرمایا اے اللہ ! کیا میں نے پہنچا دیا "۔ ابن عباس فرماتے ہیں اللہ کی قسم یہ آپ کے رب کی طرف آپ کی وصیت تھی۔ پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دیکھو ہر حاضر شخص غیر حاضر کو یہ بات پہنچا دے۔ دیکھو میرے فرمان میرے بندوں تک نہ پہنچائے تو تو نے حق رسالت ادا نہیں کیا، پھر اس کی جو سزا ہے وہ ظاہر ہے، اگر ایک آیت بھی چھپالی تو حق رسالت ادا نہ ہوا۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں جب یہ حکم نازل ہوا کہ جو کچھ اترا ہے سب پہنچا دو تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ میں اکیلا ہوں اور یہ سب مل کر مجھ پر چڑھ دوڑتے ہیں، میں کس طرح کروں تو دوسرا جملہ اترا کہ اگر تو نے نہ کیا تو تو نے رسالت کا حق ادا نہیں کیا۔ پھر فرمایا تجھے لوگوں سے بچا لینا میرے ذمہ ہے۔ تیرا حافظ و ناصر میں ہوں، بےخطر رہئیے وہ کوئی تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، اس آیت سے پہلے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چوکنے رہتے تھے، لوگ نگہبانی پر مقرر رہتے تھے۔ چناچہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک رات کو حضور بیدار تھے انہیں نیند نہیں آرہی تھی میں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آج کیا بات ہے ؟ فرمایا کاش کہ میرا کوئی نیک بخت صحابی آج پہرہ دیتا، یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ میرے کانوں میں ہتھیار کی آواز آئی آپ نے فرمایا کون ہے ؟ جواب ملا کہ میں سعد بن مالک ہوں، فرمایا کیسے آئے ؟ جواب دیا اس لئے کہ رات بھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چوکیداری کروں۔ اس کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باآرام سو گئے، یہاں تک کہ خراٹوں کی آواز آنے لگی (بخاری و مسلم) ایک روایت میں ہے کہ یہ واقعہ سنہ\0\02ھ کا ہے۔ اس آیت کے نازل ہوتے ہی آپ نے خیمے سے سر نکال کر چوکیداروں سے فرمایا، " جاؤ اب میں اللہ کی پناہ میں آگیا، تمہاری چوکیداری کی ضرورت نہیں رہی "۔ ایک روایت میں ہے کہ ابو طالب آپ کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی آدمی کو رکھتے، جب یہ آیت اتری تو آپ نے فرمایا بس چچا ! اب میرے ساتھ کسی کے بھیجنے کی ضرورت نہیں، میں اللہ کے بچاؤ میں آگیا ہوں۔ لیکن یہ روایت غریب اور منکر ہے یہ واقعہ ہو تو مکہ کا ہو اور یہ آیت تو مدنی ہے، مدینہ کی بھی آخری مدت کی آیت ہے، اس میں شک نہیں کہ مکہ میں بھی اللہ کی حفاظت اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہی باوجود دشمن جاں ہونے کے اور ہر ہر اسباب اور سامان سے لیس ہونے کے سردار ان مکہ اور اہل مکہ آپ کا بال تک بیکا نہ کرسکے، ابتداء رسالت کے زمانہ میں اپنے چچا ابو طالب کی وجہ سے جو کہ قریشیوں کے سردار اور بارسوخ شخص تھے، آپ کی حفاظت ہوتی رہی، ان کے دل میں اللہ نے آپ کی محبت اور عزت ڈال دی، یہ محبت اور عزت ڈال دی، یہ محبت طبعی تھی شرعی نہ تھی۔ اگر شرعی ہوتی تو قریش حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہی ان کی بھی جان کے خواہاں ہوجاتے۔ ان کے انتقال کے بعد اللہ تعالیٰ نے انصار کے دلوں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شرعی محبت پیدا کردی اور آپ انہی کے ہاں چلے گئے۔ اب تو مشرکین بھی اور یہود بھی مل ملا کر نکل کھڑے ہوئے، بڑے بڑے سازو سامان لشکر لے کر چڑھ دوڑے، لیکن بار بار کی ناکامیوں نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اسی طرح خفیہ سازشیں بھی جتنی کیں، قدرت نے وہ بھی انہی پر الٹ دیں۔ ادھر وہ جادو کرتے ہیں، ادھر سورة معوذتین نازل ہوتی ہے اور ان کا جادو اتر جاتا ہے۔ ادھر ہزاروں جتن کر کے بکری کے شانے میں زہر ملا کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کر کے آپ کے سامنے رکھتے ہیں، ادھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی دھوکہ دہی سے آگاہ فرما دیتا ہے اور یہ ہاتھ کاٹتے رہ جاتے ہیں اور بھی ایسے واقعات آپ کی زندگی میں بہت سارے نظر آتے ہیں۔ ابن جریر میں ہے کہ " ایک سفر میں آپ ایک درخت تلے، جو صحابہ اپنی عادت کے مطابق ہر منزل میں تلاش کر کے آپ کیلئے چھوڑ دیتے تھے، دوپہر کے وقت قیولہ کر رہے تھے تو ایک اعرابی اچانک آ نکلا، آپ کی تلوار جو اسی درخت میں لٹک رہی تھی، اتار لی اور میان سے باہر نکال لی اور ڈانٹ کر آپ سے کہنے لگا، اب بتا کون ہے جو تجھے بچا لے ؟ آپ نے فرمایا اللہ مجھے بچائے گا، اسی وقت اس اعرابی کا ہاتھ کانپنے لگتا ہے اور تلوار اس کے ہاتھ سے گر جاتی ہے اور وہ درخت سے ٹکراتا ہے، جس سے اس کا دماغ پاش پاش ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ یہ آیت اتارتا ہے "۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو نجار سے غزوہ کیا " ذات الرقاع کھجور کے باغ میں آپ ایک کنوئیں میں پیر لٹکائے بیٹھے تھے، جو بنو نجار کے ایک شخص وارث نامی نے کہا دیکھو میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرتا ہوں۔ لوگوں نے کہا کیسے ؟ کہا میں کسی حیلے سے آپ کی تلوار لے لوں گا اور پھر ایک ہی وار کر کے پار کر دوں گا۔ یہ آپ کے پاس آیا اور ادھر ادھر کی باتیں بنا کر آپ سے تلوار دیکھنے کو مانگی، آپ نے اسے دے دی لیکن تلوار کے ہاتھ میں آتے ہی اس پر اس بلا کا لرزہ چڑھا کہ آخر تلوار سنبھل نہ سکی اور ہاتھ سے گر پڑی تو آپ نے فرمایا تیرے اور تیرے بد ارادے کے درمیان اللہ حائل ہوگیا اور یہ آیت اتری۔ حویرث بن حارث کا بھی ایسا قصہ مشہور ہے۔ ابن مردویہ میں ہے کہ " صحابہ کی عادت تھی کہ سفر میں جس جگہ ٹھہرتے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیلئے گھنا سایہ دار بڑا درخت چھوڑ دیتے کہ آپ اسی کیلئے تلے آرام فرمائیں، ایک دن آپ اسی طرح ایسے درخت تلے سو گئے اور آپ کی تلوار اس درخت میں لٹک رہی تھی، ایک شخص آگیا اور تلوار ہاتھ میں لے کر کہنے لگا، اب بتا کہ میرے ہاتھ سے تجھے کون بچائے گا ؟ آپ نے فرمایا اللہ بچائے گا، تلوار رکھ دے اور وہ اس قدر ہیبت میں آگیا کہ تعمیل حکم کرنا ہی پڑی اور تلوار آپ کے سامنے ڈال دی۔ " اور اللہ نے یہ آیت اتاری کہ (ۭوَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ) 5 ۔ المائدہ :67) مسند میں ہے کہ " حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک موٹے آدمی کے پیٹ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا اگر یہ اس کے سوا میں ہوتا تو تیرے لئے بہتر تھا۔ ایک شخص کو صحابہ پکڑ کر آپ کے پاس لائے اور کہا یہ آپ کے قتل کا ارادہ کر رہا تھا، وہ کانپنے لگا، آپ نے فرمایا گھبرا نہیں چاہے تو ارادہ کرے لیکن اللہ اسے پورا نہیں ہونے دے گا "۔ پھر فرماتا ہے تیرے ذمہ صرف تبلیغ ہے، ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے، وہ کافروں کو ہدایت نہیں دے گا۔ تو پہنچا دے، حساب کا لینے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔