ق آية ۱
قٓ ۗ وَالْقُرْاٰنِ الْمَجِيْدِۖ
طاہر القادری:
ق (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)، قسم ہے قرآنِ مجید کی،
English Sahih:
Qaf. By the honored Quran...
1 Abul A'ala Maududi
ق، قسم ہے قرآن مجید کی
2 Ahmed Raza Khan
عزت والے قرآن کی قسم
3 Ahmed Ali
قۤ۔ اس قرآن کی قسم جو بڑا شان والا ہے
4 Ahsanul Bayan
ق! بہت بڑی شان والے اس قرآن کی قسم ہے (١)
١۔١ اس کا جواب قسم محذوف ہے لَتُبْعَثنَّ (تم ضرور قیامت والے دن اٹھائے جاؤ گے) بعض کہتے ہیں اس کا جواب ما بعد کا مضمون کلام ہے جس میں نبوت اور معاد کا اثبات ہے (فتح القدیر و ابن کثیر)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
قٓ۔ قرآن مجید کی قسم (کہ محمد پیغمبر خدا ہیں)
6 Muhammad Junagarhi
ق! بہت بڑی شان والے اس قرآن کی قسم ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
ق۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
قۤ - قرآن مجید کی قسم
9 Tafsir Jalalayn
ق قرآن مجید کی قسم کہ محمد پیغمبر خدا ہے
ترجمہ : ق اس سے اپنی مراد کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے، قسم قرآن کریم کی کہ کفار مکہ، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لائے، بلکہ اس بات پر تعجب ہوا کہ ان کے پاس انہی میں سے ایک ڈرانے والا یعنی انہی میں سے ایک رسول جو ان کے زندہ ہونے کے بعد نار (جہنم) سے ڈراتا ہے آگیا سو کافر کہنے لگے یہ ڈراوا عجیب بات ہے، کیا جب ہم مرگئے اور مٹی ہوگئے ؟ ہم کو لوٹایا جائے گا، دونوں ہمزوں کی تحقیق اور دوسرے کی تسہیل اور دونوں صورتوں میں ان کے درمیان الف داخل کر کے، یہ واپسی انتہائی درجہ بعید (بات) ہے، زمین ان میں سے جو کچھ کھا جاتی ہے وہ ہمیں معلوم ہے اور ہمارے پاس محفوظ کرنے والی کتاب ہے اور وہ لوح محفوظ ہے جس میں تمام اشیاء مقدرہ موجود ہیں بلکہ انہوں نے حق یعنی قرآن کو جب کہ وہ ان کے پاس آیا جھوٹ کہا پس وہ ایک الجھن میں پڑگئے یعنی مضطرب کرنے والی حالت میں، کبھی تو انہوں نے ساحر و سحر کہا اور کبھی شاعر و شعر کہا اور کبھی کاہن اور کہانت کہا، کیا انہوں نے اپنی عقلوں کی چشم عبرت سے آسمانوں کو نہیں دیکھا، جب انہوں نے بعث (بعد الموت) کا انکار کیا، حال یہ کہ وہ ان کے اوپر ہے کہ ہم نے اس کو بغیر ستونوں کے کس طرح بنایا اور ہم نے ان کو ستاروں سے زینت بخشی اور ان میں کوئی رخنہ عیب دار کرنے والا شگاف نہیں ہے اور کیا انہوں نے زمین کو نہیں دیکھا الی السماء کے محل پر عطف ہے کہ ہم نے اس کو پانی کی سطح پر کس طرح پھیلایا اور ہم نے اس پر پہاڑ جمائے جو اس کو تھامے ہوئے ہیں اور ہم نے اس میں ہر قسم کی خوشنما نباتات اگائی کہ اس کی خوشنمائی سے مسرت حاصل کی جاتی ہے آنکھیں کھولنے کے لئے اور نصیحت حاصل کرنے کے لئے مفعول لہ ہے یعنی ہم نے یہ صنعت آنکھیں کھولنے اور نصیحت حاصل کرنے کے لئے کی، ہر اس بندے کے لئے جو ہماری اطاعت کی جانب رجوع کرنے والا ہے اور ہم نے آسمان سے مبارک یعنی کثیر البرکت پانی برسایا پھر اس سے باغ اگائے اور کاٹے جانے والی کھیتی کا غلہ اور کھجوروں کے بلند وبالا درخت (بسقت) حال مقدرہ ہے جن کے خوشے تہ بہ تہ ہیں یعنی جوتہ بہ تہ آپس میں جمے ہوئے ہیں بندوں کو روزی دینے کے لئے یہ مفعول لہ ہے اور ہم نے پانی سے مردہ زمین کو زندہ کردیا (میتا) میں مذکر اور مئونث دونوں برابر ہیں، اسی طرح یعنی اسی زندہ کرن کے مانند قبروں سے نکلنا ہوگا، پھر تم اس کا کیونکر انکار کرتے ہو اور (افلم ینظروا) میں استفہام تقریری ہے اور معنی یہ ہیں کہ انہوں نے مذکورہ چیزوں کو یقینا دیکھا اور سجھا اور ان سے پہلے قوم نوح نے فعل کی تانیث قوم کے معنی سے ہے اور رس والوں نے یہ ایک کنواں تھا جہاں یہ اپنے چوپایوں کے ساتھ بود و باش رکھتے تھے اور بتوں کو پوجتے تھے کہا گیا ہے کہ ان کے نبی حنظلہ بن صفوان تھے اور کہا گیا ہے کہ اس کے علاوہ تھے، اور صالح کی قوم ثمود نے اور ہود کی قوم عاد نے اور فرعون نے اور لوط کے بھائی بندوں نے اور ایکہ والوں نے یعنی شعیب کی قوم جھاڑی والوں نے اور تبع کی قوم نے وہ یمن کا بادشاہ تھا جس نے اسلام قبول کرلیا تھا اور اس نے اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دی تھی، مگر قوم نے اس کو جھٹلا دیا مذکورہ تمام قوموں نے قریش کے مانند رسولوں کی تکذیب کی تو سب پر عذاب متحقق ہوگیا، یعنی سب پر عذاب کا نزول متحقق ہوگیا لہٰذا قریش کے آپ کے انکار سے آپ کا دل تنگ نہ ہونا چاہیے، کیا ہم پہلی بار کے پیدا کرنے سے تھک گئے ؟ یعنی ہم اس سے نہیں تھکے لہٰذا دوبارہ پیدا کرنے سے بھی نہ تھکیں گے، بلکہ یہ لوگ نئی پیدائش کے بارے میں شک میں ہیں اور (نئی پیدائش) بعث ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ :۔ ق، جمہور کے نزدیک قاف سکون کے ساتھ ہے اور شاذ قراۃ میں کسرہ، فتحہ اور ضمہ پر مبنی بھی پڑھا گیا ہے۔ (صاوی)
قولہ :۔ ما امن کافر مکۃ بمحمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شارح علیہ الرحمہ نے مذکورہ عبارت محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ یہ قسم کا جواب محذوف ہے۔
قولہ :۔ بل عجبوا ان جاء ھم الخ جواب قسم سے یہ اعراض مشرکین مکہ کے احوال شنیعہ کو بیان کرنے کے لئے ہے، مطلب یہ ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لائے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ انہی میں کے ایک شخص کا رسول بن کر آجانا ان کے لئے تعجب خیز اور اچنبھے کی بات تھی۔
قولہ : نرجع سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ متنا کا عامل محذوف ہے، تقدیر عبارت یہ ہے انرجع اذمتناوکنا تراباً اس حذف پر لفظ رجع دلالت کر رہا ہے۔
قولہ :۔ غایۃ البعد یعنی عقل و امکان سے بہت دور ہے کہ گلنے سڑنے کے بعد انسان دوبارہ زندہ ہوجائے۔
قولہ :۔ مربع صفت مشبہ ہے، مادہ مرج الجھی ہوئی بات، غیر یقینی کی کیفیت، متزلزل حالت، یعنی یہ مشرکین مکہ قرآن اور رسول کے بارے میں تذبذب کا شکار ہیں انہیں خود کسی ایک بات پر قرار نہیں ہے، کبھی آپ کو ساحر اور قرآن کو سحر اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شاعر اور قرآن کو شعر اور کبھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کاہن اور قرآن کو کہانت کہتے ہیں۔
قولہ :۔ اقلم ینظروا ہمزہ محذوف پر داخل ہے تقدیر عبارت یہ ہے اعموا فلم ینظروا الی السماء
قولہ :۔ کائنۃ شارح علام نے کائنۃ محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ فوقھم، السماء سے حال ہے۔
قولہ :۔ الی السماء ینظروا کا مفعول ہونے کی وجہ سے محلاً منصوب ہے۔
قولہ :۔ کیف بنینھا کیف مفعول مقدم ہے اور جملہ بنینھا سماء سے بدل ہے۔
قولہ :۔ والارض کا الی السماء کے محل پر عطف ہے، اور والارض فعل محذوف مددنا کی وجہ سے بھی منصوب ہوسکتا ہے جس کی تفسیر مابعد کا فعل کر رہا ہے، ای مددنا الارض مددنا ھا اس صورت میں ما اضمر عاملہ علی شریطۃ التفسیر کے قبیل سے ہوگا۔
قولہ :۔ الزرع مفسر علام نے الزرع کو محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ الحصید صفت ہے الزرع موصوف کو حذف کر کے صفت کو اس کے قائم مقام کردیا ہے اور حصید بمعنی محصود ہے یعنی وہ کھیتی جس کی شان کٹنا ہو جیسے گندم، جو وغیرہ
قولہ :۔ والنخل بسقت بسقات، النخل سے حال مقدر ہے ای قدر اللہ لھا البسوق اس لئے کہ حال اور ذوالحال کا زمانہ ایک ہوتا ہے حالانکہ نخل انبات (اگنے) کے وقت باسقات (طویل) نہیں ہوتے بعد میں طویل ہوتے ہیں۔
قولہ :۔ نخل ذوالحال مفرد ہے اور باسقات حال جمع ہے، حالانکہ حال اور ذوالحال میں مطابقت ضروری ہوتی ہے۔
جواب : نخل منافع کثیر اور نہایت دراز ہونے کی وجہ سے قائم مقام جمع کے ہے۔
قولہ :۔ لھا طلع نضید یہ اگر نخل سے حال ہو تو حال مترادفہ ہے اور اگر باسقات کی ضمیر سے حال ہو تو حال متداخلہ ہے۔
قولہ :۔ نضید صفت مشبہ بمعنی منضود اسم معفول گتھا ہوا تہ بہ تہ جما ہوا۔
قولہ :۔ یستوی فیہ المذکر و المئونث اس عبارت کا مقصد ایک اعتراض کا جواب ہے، اعتراض یہ ہے کہ میتاً بلدۃ کی صفت ہے بلدۃ مئونث ہے اور میتاً صفت مذکر ہے حالانکہ موصوفصفت میں مطابقت ضروری ہے۔
جواب :۔ میتا میں مذکر اور مئونث دونوں برابر ہیں لہٰذا میتاً کا صفت واقع ہونا درست ہے، مگر اس جواب میں نظر ہے اس لئے کہ فعیل کا وزن مذکر و مئونث میں برابر ہوتا ہے اور میتاً ، فعیل کے وزن پر نہیں ہے، اس کا صحیح جواب یہ ہے کہ بلدۃ مکان کے معنی میں ہے۔
قولہ :۔ الاستفھام للتقریر، صحیح یہ تھا کہ مفسر علام الاستفھام لانکار والتوبیخ فرماتے۔
قولہ :۔ والمعنی انھم نظروا وعلموا شارح کی یہ عبارت زائد اور بےمحل ہے، اس لئے کہ اگر وہ دیکھتے اور سمجھتے تو ایمان لے آتے مگر ایسا نہیں ہوا۔ (حاشیہ جلالین وصاوی)
قولہ :۔ لمعنی قوم ای بمعنی امۃ
قولہ :۔ اصحاب الرس، رس کنواں، امام بخاری نے رس کے عنی معدن کے کئے ہیں اس کی جمع رس اس بتائی ہے۔
قولہ :۔ عیینا (س) عیی یعنی عیا سے ہم تھک گئے، عاجز ہوگئے۔
تفسیر و تشریح
سورة ق خصوصیات :
سورة ق میں بیشتر مضامین آخرت اور قیامت اور مردوں کو زندہ کرنے اور حساب و کتاب سے متعلق ہیں اور سورة حجرات کے آخر میں بھی ان ہی مضامین کا ذکر تھا، اس سے دونوں سورتوں کے درمیان مناسبت بھی معلوم ہوگئی۔
سورة ق کی اہمیت :
سورة ق کی ایک خصوصیت اور اہمیت یہ ہے کہ آپ اس سورت کو نماز جمعہ کے خطبہ و عیدین میں اکثر تلاوت فرمایا کرتے تھے، ام ہشام بنت حارثہ کہتی ہیں کہ میرا مکان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مکان کے بہت قریب تھا دو سال تک ہمارا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تنور بھی ایک ہی تھا، فرماتی ہیں کہ مجھے سورة ق یاد ہی اس طرح ہوئی کہ میں جمعہ کے خطبوں میں اکثر آپ کی زبان مبارک سے اس سورت کو سنا کرتی تھی، حضرت جابر سے منقول ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کی نماز میں بکثرت سورة ق تلاوت فرماتے تھے۔
کیا آسمان نظر آتا ہے ؟
افلم ینظروا الی السماء سے بظاہر یہ شبہ ہوتا ہے کہ آسمان نظر آتا ہے اور مشہور یہ ہے کہ یہ نیلگوں رنگ جو نظر آتا ہے، یہ ہوا کا رنگ ہے، مگر اس کی نفی کی بھی کوئی دلیل نہیں اس لئے کہ ہوسکتا ہے کہ یہی رنگ آسمان کا بھی ہو، اس کے علاوہ آیت میں نظر سے مراد نظر عقلی یعنی غور و فکر کرنا بھی مراد ہوسکتا ہے۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت پر مشرکین مکہ کو تعجب :
قرآن کی قسم جس بات پر کھائی گئی ہے، اسے تو بیان نہیں کیا گیا اس کے ذکر کرنے کے بجائے بیچ میں ایک لطیف خلاف چھوڑ کر آگے کی بات ” بل “ سے شروع کردی گئی ہے آدمی ذرا غور کرے اور اس پس منظر کو بھی نگاہ میں رکھے جس میں یہ بات فرمائی گئی ہے تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ قسم اور بل کے درمیان جو خلاء چھوڑ دیا گیا ہے اس کا مضمون کیا ہے ؟ جس بات کی قسم کھائی گئی ہے تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ قسم اور بل کے درمیان جو خلاء چھوڑ دیا گیا ہے اس کا مضمون کیا ہے ؟ جس بات کی قسم کھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اہل مکہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کو ماننے سے انکار کسی معقول بنیاد پر نہیں کیا ہے بلکہ اس سراسر غیر معقول بنیاد پر کیا ہے کہ ان کی اپنی ہی جنس کا ایک بشر اور ان کی اپنی ہی قوم کے ایک فرد کا خدا کی طرف سے قاصد اور پیغمبر بن کے آجانا ان کے نزدیک سخت قابل تعجب بات تھی، اس تشریح سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں قرآن کی قسم اس بات پر کھائی گئی ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی اللہ کے رسول ہیں اور ان کی رسالت پر کفار کا تعجب بےجا ہے۔
دوسرا تعجب :
ان کی عقل میں یہ بات نہیں سماتی تھی کہ انسان کے مرنے اور ریزہ ریزہ ہونے کے بعد جب کہ اس کے اجزاء منتشر ہوجائیں گے وہ کس طرح پھر سے جمع ہوجائیں گے، یہ تو ان کی اپنی عقل کی تنگی کی بات تھی اس سے تو یہ الزم نہیں آتا کہ اللہ کا علم اور اس کی قدرت بھی تنگ ہوجائے ان کے استعجاب کی دلیل یہ تھی کہ ابتداء آفرنیش سے قیامت تک مرنے والے بیشمار انسانوں کے جسم کے اجزاء جو زمین میں بکھر چکے ہیں اور آئندہ بکھرتے چلے جائیں گے، ان کو جمع کرنا کسی طرح ممکن نہیں ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان میں سے ہر جزء جس شکل میں جہاں بھی ہے اللہ براہ راست اس کو جانتا ہے اور مزید برآں اس کا پورا ریکارڈ اللہ کے دفتر میں محفوظ کیا جا رہا ہے جس سے کوئی ایک ذرہ بھی چھوٹا ہوا نہیں ہے، جس وقت اللہ کا حکم ہوگا اسی وقت آناً فاناً اس کے فرشتے اس ریکارڈ سے رجوع کر کے ایک ایک ذرہ کو نکال لائیں گے اور تمام انسانوں کے وہی جسم پھر بنادیں گے جن میں رہ کر انہوں نے دنیا میں کام کیا تھا۔
یہ آیت بھی منجملہ ان آیات کے ہے جن میں اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ آخرت کی زندگی نہ صرف یہ کہ ایسی ہی جسمانی زندگی ہوگی جیسی اس دنیا میں ہے، بلکہ جسم بھی ہر شخص کا وہی ہوگا جو اس دنیا میں تھا، اگر حقیقت یہ نہ ہوتی تو کافر کی بات کے جواب میں یہ کہنا بالکل بےمعنی تھا کہ زمین تمہارے جسم میں جو کچھ کھاتی ہے وہ سب ہمارے علم میں ہے اور ذرہ ذرہ کا ریکارڈ موجود ہے، جو ذات ایسی علیم وبصیر ہے اور جس کی قدرت اتنی کامل اور سب چیزوں پر حاوی ہے اس کے متعلق یہ تعجب کرنا خود قابل تعجب ہے ماتنقص الارض کی یہ تفسیر حضرت ابن عباس (رض) اور مجاہد اور جمہور مفسرین رحمتہ اللہ تعالیٰ سے منقول ہے۔ (بحر محیط)
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن مجید کی قسم کھا تا ہے، یعنی اس کے معانی بہت وسیع، عظیم اور اس کے پہلو بے شمار ہیں، اس کی برکات بے پایاں اور اس کی عنایات بہت زیادہ ہیں۔ (مَجْد) کا معنی ہے اوصاف کی وسعت اور ان کی عظمت۔ (مَجْد) سے موصوف ہونے کا سب سے زیادہ مستحق کلام اللہ یعنی قرآن ہے جو اولین وآخرین کے علوم پر مشتمل ہے، جس کی فصاحت کامل ترین، جس کے الفاظ عمدہ ترین اور جس کے معانی عام اور حسین ترین ہیں۔ یہ اوصاف اس کی کامل اتباع، اس کی فوری اطاعت اور اللہ تعالیٰ کے اس احسان پر شکر کے موجب ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
Qaaf , Quran majeed ki qasam ! ( inn kafiron ney payghumber ko kissi daleel ki wajeh say nahi jhutlaya )
12 Tafsir Ibn Kathir
اہل کتاب کی موضوع روایتیں
ق حروف ہجا سے ہے جو سورتوں کے اول میں آتے ہیں جیسے ص، ن، الم، حم، طس، وغیرہ ہم نے ان کی پوری تشریح سورة بقرہ کی تفسیر میں شروع میں کردی ہے۔ بعض سلف کا قول ہے کہ قاف ایک پہاڑ ہے زمین کو گھیرے ہوئے ہے، میں تو جانتا ہوں کہ دراصل یہ بنی اسرائیل کی خرافات میں سے ہے جنہیں بعض لوگوں نے لے لیا۔ یہ سمجھ کر کہ یہ روایت لینا مباح ہے گو تصدیق تکذیب نہیں کرسکتے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ یہ اور اس جیسی اور روایتیں تو بنی اسرائیل کے بد دینوں نے گھڑ لی ہوں گی تاکہ لوگوں پر دین کو خلط ملط کردیں، آپ خیال کیجئے کہ اس امت میں باوجودیکہ علماء کرام اور حافظان عظام کی بہت بڑی دیندار مخلص جماعت ہر زمانے میں موجود ہے تاہم بددینوں نے بہت تھوڑی مدت میں موضوع احادیث تک گھڑ لیں۔ پس بنی اسرائیل جن پر مدتیں گزر چکیں جو حفظ سے عاری تھے جن میں نقادان فن موجود نہ تھے جو کلام اللہ کو اصلیت سے ہٹا دیا کرتے تھے جو شرابوں میں مخمور رہا کرتے تھے جو آیات اللہ کو بدل ڈالا کرتے تھے ان کا کیا ٹھیک ہے ؟ پس حدیث نے جن روایات کو ان سے لینا مباح رکھا ہے یہ وہ ہیں جو کم از کم عقل و فہم میں تو آسکیں، نہ وہ جو صریح خلاف عقل ہوں سنتے ہی ان کے باطل اور غلط ہونے کا فیصلہ عقل کردیتی ہو اور اس کا جھوٹ ہونا اتنا واضح ہو کہ اس پر دلیل لانے کی ضرورت نہ پڑے۔ پس مندرجہ بالا روایات بھی ایسی ہی ہے واللہ اعلم۔ افسوس کہ بہت سلف وخلف نے اہل کتاب سے اس قسم کی حکایتیں قرآن مجید کی تفسیر میں وارد کردی ہیں دراصل قرآن کریم ایسی بےسروپا باتوں کا کچھ محتاج نہیں، فالحمد اللہ، یہاں تک کہ امام ابو محمد عبدالرحمن بن ابو حاتم رازی (رح) نے بھی یہاں ایک عجیب و غریب اثر بہ روایت حضرت ابن عباس وارد کردیا ہے جو ازروے سند ثابت نہیں، اس میں ہے کہ اللہ تبارک وتعالی نے ایک سمندر پیدا کیا ہے جو اس ساری زمین کو گھیرے ہوئے ہے اور اس سمندر کے پچھے ایک پہاڑ ہے جو اس کو روکے ہوئے ہے اس کا نام قاف ہے، آسمان اور دنیا اسی پر اٹھا ہوا ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے اس پہاڑ کے پچھے ایک زمین بنائی ہے جو اس زمین سے سات گنا بڑی ہے، پھر اس کے پچھے ایک سمندر ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے پھر اس کے پچھے پہاڑ ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے اسے بھی قاف کہتے ہیں دوسرا آسمان اسی پر بلند کیا ہوا ہے اسی طرح سات زمینیں، سات سمندر، سات پہاڑ اور سات آسمان گنوائے پھر یہ آیت پڑھی، آیت (وَّالْبَحْرُ يَمُدُّهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 27) 31 ۔ لقمان :27) اس اثر کی اسناد میں انقطاع ہے علی بن ابو طلحہ جو روایت حضرت ابن عباس سے کرتے ہیں اس میں ہے کہ (ق) اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے حضرت مجاہد فرماتے ہیں (ق) بھی مثل (ص، ن، طس، الم) وغیرہ کے حروف ہجا میں سے ہے پس ان روایات سے بھی حضرت ابن عباس کا یہ فرمان ہونا اور بعید ہوجاتا ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ کام کا فیصلہ کردیا گیا ہے قسم اللہ کی اور (ق) کہہ کر باقی جملہ چھوڑ دیا گیا کہ یہ دلیل ہے محذوف پر جیسے شاعر کہتا ہے۔
قلت لھا قفی فقالت ق لیکن یہ کہنا بھی ٹھیک نہیں۔ اس لئے کہ محذوف پر دلالت کرنے والا کلام صاف ہونا چاہئے اور یہاں کونسا کلام ہے ؟ جس سے اتنے بڑے جملے کے محذوف ہونے کا پتہ چلے۔ پھر اس کرم اور عظمت والے قرآن کی قسم کھائی جس کے آگے سے یا پچھے سے باطل نہیں آسکتا جو حکمتوں اور تعریفوں والے اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے اس قسم کا جواب کیا ہے ؟ اس میں بھی کئی قول ہیں۔ امام ابن جریر نے تو بعض نحویوں سے نقل کیا ہے کہ اس کا جواب آیت ( قد علمنا) پوری آیت تک ہے لیکن یہ بھی غور طلب ہے بلکہ جواب قسم کے بعد کا مضمون کلام ہے یعنی نبوت اور دو بارہ جی اٹھنے کا ثبوت اور تحقیق گو لفظوں سے قسم اس کا جواب نہیں بتاتی ہو لیکن قرآن میں جواب میں اکثر دو قسمیں موجود ہیں جیسے کہ سورة ص کی تفسیر کے شروع میں گزر چکا ہے، اسی طرح یہاں بھی ہے پھر فرماتا ہے کہ انہوں نے اس بات پر تعجب ظاہر کیا ہے کہ انہی میں سے ایک انسان کیسے رسول بن گیا ؟ جیسے اور آیت میں ہے آیت ( اَكَان للنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَيْنَآ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ ڼ قَالَ الْكٰفِرُوْنَ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِيْنٌ ) 10 ۔ یونس :2) ، یعنی کیا لوگوں کو اس بات پر تعجب ہوا کہ ہم نے انہی میں سے ایک شخص کی طرف وحی بھیجی تاکہ تم لوگوں کو خبردار کر دے، یعنی دراصل یہ کو تعجب کی چیز نہ تھی اللہ جسے چاہے اپنے فرشتوں میں سے اپنی رسالت کے لئے چن لیتا ہے اور جسے چاہے انسانوں میں سے چن لیتا ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی بیان ہو رہا ہے کہ انہوں نے مرنے کے بعد جینے کو بھی تعجب کی نگاہوں سے دیکھا اور کہا کہ جب ہم مرجائیں گے اور ہمارے جسم کے اجزا جدا جدا ہو کر ریزہ ریزہ ہو کر مٹی ہوجائیں گے اس کے بعد تو اسی ہئیت و ترکیب میں ہمارا دوبارہ جینا بالکل محال ہے اس کے جواب میں فرمان صادر ہوا کہ زمین ان کے جسموں کو جو کھا جاتی ہے اس سے بھی ہم غافل نہیں ہمیں معلوم ہے کہ ان کے ذرے کہاں گئے اور کس حالت میں کہاں ہیں ؟ ہمارے پاس کتاب ہے جو اس کی حافظ ہے ہمارا علم ان سب معلومات پر مشتمل ہے اور ساتھ ہی کتاب میں محفوظ ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یعنی ان کے گوشت چمڑے ہڈیاں اور بال جو کچھ زمین کھا جاتی ہے ہمارے علم میں ہے۔ پھر پروردگار عالم انکے اس محال سمجھنے کی اصل وجہ بیان فرما رہا ہے کہ دراصل یہ حق کو جھٹلانے والے لوگ ہیں اور جو لوگ اپنے پاس حق کے آجانے کے بعد اس کا انکار کردیں ان سے اچھی سمجھ ہی چھن جاتی ہے مریج کے معنی ہیں مختلف مضطرب، منکر اور خلط ملط کے جیسے فرمان ہے آیت ( اِنَّكُمْ لَفِيْ قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ ۙ ) 51 ۔ الذاریات :8) یعنی یقینا تم ایک جھگڑے کی بات میں پڑے ہوئے ہو۔ نافرمانی وہی کرتا ہے جو بھلائی سے محروم کردیا گیا ہے۔