الذاریات آية ۱
وَالذّٰرِيٰتِ ذَرْوًا ۙ
طاہر القادری:
اُڑا کر بکھیر دینے والی ہواؤں کی قَسم،
English Sahih:
By the [winds] scattering [dust], dispersing [it]
1 Abul A'ala Maududi
قسم ہے اُن ہواؤں کی جو گرد اڑانے والی ہیں
2 Ahmed Raza Khan
قسم ان کی جو بکھیر کر اڑانے والیاں
3 Ahmed Ali
قسم ہے ان ہواؤں کی جو (غبار وغیرہ) اڑانے والی ہیں
4 Ahsanul Bayan
قسم ہے بکھیرنے والیوں کی اڑا کر (١)۔
١۔١ اس سے مراد ہوائیں جو مٹی کو اڑا کر بکھیر دیتی ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
بکھیرنے والیوں کی قسم جو اُڑا کر بکھیر دیتی ہیں
6 Muhammad Junagarhi
قسم ہے بکھیرنے والیوں کی اڑا کر
7 Muhammad Hussain Najafi
قَسم ہے ان (ہواؤں) کی جو گرد و غبار اڑاتی ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ان ہواؤں کی قسم جو بادلوں کو منتشر کرنے والی ہیں
9 Tafsir Jalalayn
بکھیرنے والیوں کی قسم جو اڑا کر بکھیر دیتی ہیں
ترجمہ :۔ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے قسم ہے ان ہوائوں کی جو غبار وغیرہ کو پراگندہ کرتی ہیں (ذروا) مصدر ہے اور کہا جاتا ہے تذریہ ذریاً یعنی ہوائیں غبار کو اڑاتی ہیں پھر قسم ہے ان بادلوں کی جو پانی کے بوجھ کو اٹھانے والے ہیں وقراً حاملات کا مفعول ہے، پھر قسم ہے ان کشتیوں کی جو پانی کی سطح پر سہولت کے ساتھ چلتی ہیں یسراً مصدر ہے حال کی جگہ میں یعنی حال یہ کہ وہ سبک رفتاری سے چلتی ہیں پھر قسم ہے ان فرشتوں کی جو ایک بڑے اہم کام کی یعنی رزق اور بارش وغیرہ کی بندوں اور شہروں کے درمیان تقسیم کرنے والے ہیں اور جو تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے ما مصدریہ ہے یعنی ان سے بعث وغیرہ کا وعدہ سچا وعدہ ہے، اور حساب کے بعد جزاء اعمال لا محالہ پیش آنے والی ہے اور قسم ہے راستوں والے آسمان کی (حبک) حبیکۃ کی جمع ہے، جیسا کہ طرق، طریقۃ کی جمع ہے یعنی وہ آسمان پیدائشی طور پر راستوں والے ہیں، جیسا کہ ریت میں راستے ہوتے ہیں بلاشبہ تم اے مکہ والو ! حضور کی اور قرآن کی شان میں مختلف باتیں کرتے ہو (آپ کے بارے میں) کہا گیا، شاعر ہیں، جادوگر ہیں، کاہن ہیں (اور قرآن کے بارے میں کہا) کہا گیا شعر ہے، جادو ہے کہانت ہے اس سے یعنی نبی اور قرآن سے یعنی ان پر ایمان لانے سے وہی باز رکھا جاتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہدایت سے پھیر دیا گیا ہو غارت ہوجائیں بےسند (اٹکل سے) باتیں کرنے والے ملعون ہوئے مختلف باتوں والے جھوٹے جو جہالت میں غرق ہیں جن کو جہالت نے غرق کر رکھا ہے اور امر آخرت سے غافل ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بطور استہزاء پوچھتے ہیں جزاء کا دن کب ہوگا ؟ یعنی وہ کب آئیگا ؟ ان کا جواب یہ ہے، یوم جزاء اس دن آئے گا جس دن ان کو آگ پر بھونا جائے گا یعنی ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا اور عذاب دیتے وقت ان سے کہا جائے گا، اپنی سزا کا مزا چکھو یہی ہے وہ عذاب جس کی دنیا میں تم استہزاء جلدی مچایا کرتے تھے، بلاشبہ تقوے والے لوگ باغوں میں اور چشموں میں ہوں گے جو باغوں میں جاری ہوں گے ان کے رب نے ان کو جو کچھ ثواب عطا فرمایا ہے اس کو لے رہے ہوں گے وہ تو اس سے پہلے ہی دنیا میں نیکو کار تھے اور وہ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے (یھجعون) بمعنی ینامون ہے اور یھجعون کان کی خبر ہے اور قلیلاً ظرف ہے یعنی رات کے کم حصہ میں سوتے تھے اور اکثر حصہ میں نماز پڑھتے تھے اور سحر کے وقت استغفار کیا کرتے تھے، یوں کہا کرتے تھے اللھم اغفرلنا اور ان کے ماملوں میں مانگنے والوں کا اور نہ مانگنے والوں کا حق ہے اور محروم وہ شخص ہے جو سوال سے بچنے کی وجہ سے سوال نہ کرے (جس کے نتیجے میں محروم رہ جائے) اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لئے پہاڑوں اور دریائوں اور درختوں اور پھلوں اور نباتات وغیرہ کی بہت سی نشانیاں ہیں جو اللہ کی قدرت اور وحدانیت پر دلالت کرتی ہیں اور خود تمہاری ذات میں بھی نشانیاں ہیں تمہاری تخلیق کی ابتداء سے لیکر اس کی انتہا تک اور وہ جو تمہاری تخلیق میں عجائبات ہیں کیا تم اس میں غور نہیں کرتے ہو کہ تم اس سے اس کی صنعت اور قدرت پر استدلال کرو اور آسمان میں تمہارا رزق یعنی بارش جو کہ نباتات کا سبب ہے کہ وہ رزق ہے اور وہ ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے، آسمان اور زمین کے پروردگار کی قسم یہ یعنی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے بالکل حق ہے، ایسا ہی جیسا کہ تم باتیں کرتے ہوئے مثل کے رفع کے ساتھ (حق) کی صفت ہے اور مازائدہ ہے اور (مثل) کے لام کے فتحہ کے ساتھ ما کے ساتھ مرکب ہے اور معنی یہ ہیں کہ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ حقیقت ہونے میں ایسا ہی ہے جیسا کہ تمہارا گفتگو کرنا حقیقت ہے یعنی جس طرح تمہارے نزدیک تمہاری گفتگو معلوم ہونے میں یقینی ہونے میں یقینی ہے اس گفتگو کے تم سے بالبداہتہ صادر ہونے کی وجہ سے (اسی طرح تم سے کیا ہوا وعدہ بھی حقیقت ہے۔ )
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : والذاریت وائو قسمیہ ہے ذاریت ذاریۃ کی جمع ہیں، اڑنے والیاں، پراگندہ کرنے والیاں، اس کا موصوف الریاح محذوف ہے ای الریاح الذاریات پراگندہ کرنے والی ہوائیں، یہ ذری یذرو ذروا یا ذری یذری ذریا معتل لام وادی یا یائی سے مشتق ہے۔ (ض، ن) والذاریات مقسم بہ ہے۔
قولہ : ویقال ذری یذری ذریاً سے یائی ہونے کی طرف اشارہ ہے۔
قولہ : تھب بہ اس کا اضافہ بیان معنی کے لئے ہوا اس کو پراگندہ کرتی ہے، اڑاتی ہے۔
قولہ : انما توعدون علامہ محلی نے ماکو مصدریہ قرار دیا ہے یعنی وعد کے معنی میں ہے، تقدیر عبارت یہ ہے ان وعدکم لوعد صادق
قولہ : انما توعدون لصادق معطوف علیہ ہے اور ان الدین لواقع معطوف ہے، معطوف اور معطوف علیہ مل کر جملہ ہو کر جواب قسم ہے، اور یہ بھی درست ہے کہ انما میں ما کو موصولہ قرار دیا جائے اور توعدون جملہ ہو کر صلہ ہو، عائد محذوف ای بہ جملہ ہو کر ان کا اسم اور لصادق ان کی خبر اور ان حرف مشبہ بالعفل ہے۔
قولہ : والسماء ذات الحبک وائو قسمیہ جارہ بمعنی اقسم السماء موصوف الحبک صفت، موصوف بالصفت جملہ ہو کر جواب قسم۔
قولہ : حبک حبیکۃ کی جمع ہے جیسے طرق طریقۃ کی جمع ہے بمعنی راستہ، پانی کی لہر، ریت میں ہوا کی وجہ سے پڑنے والے نشانتا اور بعض حضرات نے حبک کو حباک کی جمع کہا جیسے مثل مثال کی جمع ہے حبیکۃ وحباک ستاروں کی رہ گزر کو بھی کہتے ہیں۔ (اعراب القرآن، لغات القرآن)
قولہ : فی الخلقۃ کالطرق فی الرمل اس عبارت کے اضافہ کاف ائدہ یہ ہے کہ یہ آسمانی راستے خیالی یا معنوی نہیں ہیں بلکہ محسوس اور موجود فی الخارج ہیں اگرچہ بعید ہونے کی وجہ سے نظر نہیں آتے۔
قولہ : یوفک عنہ یوفک واحد مذکر غائب مضارع مجہول افک (ض) سے پھیرا جاتا ہے، بھٹکایا جاتا ہے۔
قولہ : صرف عن الھدایۃ فی علم اللہ تعالیٰ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : یوفک عنہ من افک سے معلوم ہوتا ہے کہ جو بھٹکا ہوا ہے اس کو بھٹکایا جائے گا اور یہ تحصیل حاصل ہے اس لئے کہ جو بھٹکا ہوا ہے اس کے بھٹکانے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔
جواب : جو اللہ تعالیٰ کے ازلی میں بھٹکا ہوا ہے وہ خارج اور ظاہر میں بھٹکایا جائے گا۔
البلاغۃ
قولہ : قتل الخراصون، قتل کے حقیقی معنی قتل کرنے کے ہیں، مگر یہاں علی سبیل الاستعارۃ لعنت کے معنی میں مستعمل ہے، بایں طور کہ مفقود السعادۃ کو مفقود الحیات کے ساتھ تشبیہ دی ہے یہ استعارہ بالکنا یہ ہوا، مفقود السعادۃ مشبہ ہے اور مفقود الحیاۃ مشبہ بہ ہے، مشبہ بہ اگرچہ محذوف ہے مگر مشبہ بہ کے لوازم میں سے قتل کو مشبہ کے لئے ثابت کردیا، یہ استعارہ تخیلیہ ہوا، قتل الخراصون معنی میں لعن الکذابون یعنی بد دعاء کے معنی میں ہے خراصون اٹکل دوڑانے والے، جھوٹ بکنے والے، خراص کی جمع ہے خرص سے مبالغہ کا صیغہ ہے۔ (لغات القرآن)
قولہ : غمرۃ گہرا پانی جس کی تہ نظر نہ آئے، یہاں چھا جانے والی جہالت مراد ہے۔ (لغات القرآن)
قولہ : ایان یوم الدین ایان خبر مقدم یوم الدین مبتداء مئوخر
قولہ : متی مجیئہ، متی ایان کی تفسیر ہے مجیئہ حذف مضاف کی طرف اشارہ ہے اور حذف مضاف ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : ایان یوم الدین مشرکین کی طرف سے سوال ہے اور یوم ھم علی النار یفتنون سوال کا جواب ہے، سوال اور جواب دونوں زمان ہیں اور زمان کا جواب زمان سے نہیں ہوتا بلکہ زمان کا جواب حدث سے ہوتا ہے، مفسر رحمتہ اللہ تعالیٰ نے اسی سوال کے جواب کے لئے مجیئہ مضاف محذوف مانا ہے تاکہ زمان کا جواب اخبار بالزمان سے ہوجائے۔
سوال : ایان یوم الدین میں تعیین وقت کا سوال ہے، اس کا جواب یوم ھم علی النار یفتنون ہے جو کہ مبہوم اور غیر متعین ہے جو کہ درست نہیں ہے۔
جواب :۔ مشرکین مکہ کا سوال چونکہ علم و فہم کے لئے نہیں بلکہ بطور استہزاء کے تھا اسی لئے حقیقتاً جواب کے بجائے صورۃ جواب دیا تاکہ سوال و جواب میں مطابقت ہوجائے، یوم کا ناصب یجیی، محذوف ہے، ھم مبتداء ہے یفتنون خبر اور علی بمعین فی ہے۔
سوال : یفتنون کا صلہ علیٰ کیوں لایا گیا ؟
جواب :۔ یفتنون چونکہ یعرضون کے معنی کو متضمن ہے اس لئے یفتنون کا صلہ علی لایا گیا ہے۔
قولہ : تجری فیھا اس اضافہ کا مقصد اس سوال کا جواب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قول ان المتقین فی جنت وعیون سے معلوم ہوتا کہ متقی لوگ چشموں میں ہو گے حالانکہ چشموں میں ہونے کا یا رہنے کا کوئی مطلب نہیں ہے مفسر علام نے تجری فیھا کہہ کر اس کا جواب دیا۔ جواب کا ماحصل یہ ہے کہ متقی ایسے باغوں میں ہوں گے جن میں نہریں جاری ہوں گی۔
قولہ : آخدین یہ ان کی خبر محذوف کی ضمیر سے حال ہے، تقدیر پر عابرت یہ ہے کہ کائنون فی جنات وعیون حال کونھم، آخذین ما اتاھم ربھم
قولہ : من الثواب یہ ماکا بیان ہے۔
قولہ : یھجعون ھجوع سے رات کے سونے کو کہتے ہیں۔
قولہ : وبالا سحار یستغفرون کے متعلق ہے اور باء بمعنی فی ہے الاسحار سحر کی جمع ہے رات کے سدس اخیر کو کہتے ہیں، یستغفرون کا مطف یھجعن پر ہے۔
تفسیر و تشریع
سورة ق کے مانند سورة ذاریات میں بھی زیادہ تر مضامین آخرت اور قیامت، اس میں مردوں کے زندہ ہونے، حساب و کتاب اور ثواب و عذاب کے متعلق ہیں، پہلی چند آیات میں اللہ تعالیٰ نے چند چیزوں کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ قیامت کے متعلق جن چیزوں کا وعدہ کیا گیا ہے وہ سچا وعدہ ہے، جن چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے وہ چار ہیں (١) الذاریت ذرواً (٢) الحاملات وقراً (٣) الجاریات یسراً (٤) المقسمات امراً اور ان کا مقسم بہ انما توعدون لصادق وان الدین لواقع ہے۔
مفسر علام نے مقسم بہ سے ہوائیں اور دوسرے مقسم بہ سے بادل اور تیسرے سے کشتیاں اور چوتھے سے فرشتے مراد لئے ہیں، اسی مفہوم کی ایک مرفوع روایت بھی ہے جس کو ابن کثیر نے ضعیف کہا ہے، اور حضرت عمر (رض) اور ضرت علی (رض) سے بھی موقوفاً مذکورہ مفہوم مروی ہے (قرطبی، درمنثور) الجاریات یسراً اور ملقسمات امراً کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، ایک جماعت نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ ان دونوں سے بھی ہوائیں مراد ہیں، یعنی پھر یہ ہوائیں بادلوں کو لکیر چلتی ہیں اور پھر روئے زمین کے مختلف حصوں میں پھیل کر اللہ تعالیٰ کے حکم سے جہاں جتنا حکم ہوتا ہے، پانی تقسیم کرتی ہیں جو کہ رزق کا سبب ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے، جو اپنے قول میں سچا ہے، ان عظیم مخلوقات کی قسم ہے جن کے اندر اس نے بہت مصالح اور منافع مقرر کر رکھے ہیں، جن کو اس امر کی دلیل بنایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے، نیز یہ کہ قیامت کا دن، جزا و سزا اور اعمال کے محاسبے کا دن ہے، جو لامحالہ آنے والا ہے، جسے آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ پس جب ایک عظیم سچی ہستی اس کی خبر دے، اس پر قسم کھائے اور اس پر دلائل و براہین قائم کرے تو جھٹلانے والے اسے جھٹلا سکتے ہیں نہ عمل کرنے والے اس سے روگردانی کرسکتے ہیں۔ (الذَّارِيَاتِ) یہ وہ ہوائیں ہیں جو اڑا کر بکھیر دیتی ہیں ﴿ذَرْوًا﴾ اپنی نرمی، اپنے لطف، اپنی قوت اور زور سے چلتی ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
qasam hai unn ( hawaon ) ki jo gard urra ker bikhair deti hain ,
12 Tafsir Ibn Kathir
خلیفۃ المسلمین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کوفے کے منبر پر چڑھ کر ایک مرتبہ فرمانے لگے کہ قرآن کریم کی جس آیت کی بابت اور جس سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بابت تم کوئی سوال کرنا چاہتے ہو کرلو۔ اس پر ابن الکواء نے کھڑے ہو کر پوچھا کہ (ذاریات) سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا ہوا، پوچھا (حاملات) سے ؟ فرمایا ابر۔ کہا (جاریات) سے ؟ فرمایا کشتیاں، کہا (مقسمات) سے ؟ فرمایا فرشتے اس بارے میں ایک مرفوع حدیث بھی آئی ہے۔ بزار میں ہے (صبیغ) تمیمی امیر المومنین حضرت عمر کے پاس آیا اور کہا بتاؤ (ذاریات) سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا ہوا۔ اور اسے اگر میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہوا نہ ہوتا تو میں کبھی یہ مطلب نہ کہتا۔ پوچھا (مقسمات) سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا فرشتے اور اسے بھی میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سن رکھا ہے۔ پوچھا (جاریات) سے کیا مطلب ہے ؟ فرمایا کشتیاں۔ یہ بھی میں نے اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نہ سنا ہوتا تو تجھ سے نہ کہتا۔ پھر حکم دیا کہ اسے سو کوڑے لگائے جائیں چناچہ اسے درے مارے گئے اور ایک مکان میں رکھا گیا جب زخم اچھے ہوگئے تو بلوا کر پھر کوڑے پٹوائے، اور سوار کرا کر حضرت ابو موسیٰ کو لکھ بھیجا کہ یہ کسی مجلس میں نہ بیٹھنے پائے کچھ دنوں بعد یہ حضرت موسیٰ کے پاس آئے اور بڑی سخت تاکیدی قسمیں کھا کر انہیں یقین دلایا کہ اب میرے خیالات کی پوری اصلاح ہوچکی اب میرے دل میں بد عقیدگی نہیں رہی جو پہلے تھی۔ چناچہ حضرت ابو موسیٰ نے جناب امیر المومنین کی خدمت میں اس کی اطلاع دی اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ میرا خیال ہے کہ اب وہ واقعی ٹھیک ہوگیا ہے۔ اس کے جواب میں دربار خلافت سے فرمان پہنچا کہ پھر انہیں مجلس میں بیٹھنے کی اجازت دے دی جائے۔ امام ابوبکر بزار فرماتے ہیں اس کے دو راویوں میں کلام ہے پس یہ حدیث ضعیف ہے۔ ٹھیک بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ حدیث بھی موقوف ہے یعنی حضرت عمر کا اپنا فرمان ہے مرفوع حدیث نہیں۔ امیر المومنین نے اسے جو پٹوایا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کی بد عقیدگی آپ پر ظاہر ہوچکی تھی اور اس کے یہ سوالات ازروئے انکار اور مخالفت کے تھے واللہ اعلم۔ صبیغ کے باپ کا نام عسل تھا اور اس کا یہ قصہ مشہور ہے جسے پورا پورا حافظ ابن عساکر لائے ہیں۔ یہی تفسیر حضرت ابن عباس حضرت ابن عمر حضرت مجاہد حضرت صعید بن جبیر حضرت حسن حضرت قتادہ حضرت سدی وغیرہ سے مروی ہے۔ امام ابن جریر اور امام ابن ابی حاتم نے ان آیتوں کی تفسیر میں اور کوئی قول وارد ہی نہیں کیا حاملات سے مراد ابر ہونے کا محاورہ اس شعر میں بھی پایا جاتا ہے۔
واسلمت نفسی لمن اسلمت لہ المزن تحمل عذباز لالا
یعنی میں اپنے آپ کو اس اللہ کا تابع فرمان کرتا ہوں جس کے تابع فرمان وہ بادل ہیں جو صاف شفاف میٹھے اور ہلکے پانی کو اٹھا کرلے جاتے ہیں جاریات سے مراد بعض نے ستارے لئے ہیں جو آسمان پر چلتے پھرتے رہتے ہیں یہ معنی لینے میں یعنی ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف ہوگی۔ اولًا ہوا پھر بادل پھر ستارے پھر فرشتے۔ جو کبھی اللہ کا حکم لے کر اترتے ہیں کبھی کوئی سپرد کردہ کام بجا لانے کے لئے تشریف لاتے ہیں۔ چونکہ یہ سب قسمیں اس بات پر ہیں کہ قیامت ضرور آنی ہے اور لوگ دوبارہ زندہ کئے جائیں گے اس لئے ان کے بعد ہی فرمایا کہ تمہیں جو وعدہ دیا جاتا ہے وہ سچا ہے اور حساب کتاب جزا سزا ضرور واقع ہونے والی ہے۔ پھر آسمان کی قسم کھائی جو خوبصورتی رونق حسن اور برابری والا ہے بہت سے سلف نے یہی معنی (حبک) کے بیان کئے ہیں حضرت ضحاک وغیرہ فرماتے ہیں کہ پانی کی موجیں، ریت کے ذرے، کھیتیوں کے پتے ہوا کے زور سے جب لہراتے ہیں اور پر شکن لہرائے دار ہوجاتے ہیں اور گویا ان میں راستے پڑجاتے ہیں اسی کو حبک کہتے ہیں، ابن جریر کی ایک حدیث میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں تمہارے پیچھے کذاب بہکانے والا ہے اس کے سر کے بال پیچھے کی طرف سے حبک حبک ہیں یعنی گھونگر والے۔ ابو صالح فرماتے ہیں حبک سے مراد شدت والا خصیف کہتے ہیں مراد خوش منظر ہے۔ حسن بصری فرماتے ہیں اس کی خوبصورتی اس کے ستارے ہیں حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں اس سے مراد ساتواں آسمان ہے ممکن ہے آپ کا مطلب یہ ہو کہ قائم رہنے والے ستارے اس آسمان میں ہیں اکثر علماء ہیئت کا بیان ہے کہ یہ آٹھویں آسمان میں ہیں جو ساتویں کے اوپر ہے واللہ اعلم ان تمام اقوال کا ماحصل ایک ہی ہے یعنی حسن و رونق والا آسمان۔ اس کی بلندی، صفائی، پاکیزگی، بناوٹ کی عمدگی، اس کی مضبوطی، اس کی چوڑائی اور کشادگی، اس کا ستاروں کا جگمگانا، جن میں سے بعض چلتے پھرتے رہتے ہیں اور بعض ٹھہرے ہوئے ہیں اس کا سورج اور چاند جیسے سیاروں سے مزین ہونا یہ سب اس کی خوبصورتی اور عمدگی کی چیزیں ہیں پھر فرماتا ہے اے مشرکو تم اپنے ہی اقوال میں مختلف اور مضطرب ہو تم کسی صحیح نتیجے پر اب تک خود اپنے طور پر بھی نہیں پہنچے ہو۔ کسی رائے پر تمہارا اجتماع نہیں، حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ ان میں سے بعض تو قرآن کو سچا جانتے تھے بعض اس کی تکذیب کرتے تھے۔ پھر فرماتا ہے یہ حالت اسی کی ہوتی ہے جو خود گمراہ ہو۔ وہ اپنے ایسے باطل اقوال کی وجہ سے بہک اور بھٹک جاتا ہے صحیح سمجھ اور سچا علم اس سے فوت ہوجاتا ہے جیسے اور آیت میں ہے آیت ( اِلَّا مَنْ هُوَ صَالِ الْجَحِيْمِ\016\03 ) 37 ۔ الصافات :163) یعنی تم لوگ مع اپنے معبودان باطل کے سوائے جہنمی لوگوں کے کسی کو بہکا نہیں سکتے حضرت ابن عباس اور سدی فرماتے ہیں اس سے گمراہ وہی ہوتا ہے جو خود بہکا ہوا ہو۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں اس سے دور وہی ہوتا ہے جو بھلائیوں سے دور ڈال دیا گیا ہے حضرت امام حسن بصری فرماتے ہیں قرآن سے وہی ہٹتا ہے جو اسے پہلے ہی سے جھٹلانے پر کم کس لئے ہو پھر فرماتا ہے کہ بےسند باتیں کہنے والے ہلاک ہوں یعنی جھوٹی باتیں بنانے والے جنہیں یقین نہ تھا جو کہتے تھے کہ ہم اٹھائے نہیں جائیں گے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یعنی شک کرنے والے ملعون ہیں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یعنی شک کرنے والے ملعون ہیں حضرت معاذ بھی اپنے خطبے میں یہی فرماتے تھے، یہ دھوکے والے اور بدگمان لوگ ہیں پھر فرمایا جو لوگ اپنے کفر و شک میں غافل اور بےپرواہ ہیں۔ یہ لوگ ازروئے انکار پوچھتے ہیں کہ جزا کا دن کب آئے گا ؟ اللہ فرماتا ہے اس دن تو یہ آگ میں تپائے جائیں گے جس طرح سونا تپایا جاتا ہے یہ اس میں جلیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ جلنے کا مزہ چکھو۔ اپنے کرتوت کے بدلے برداشت کرو۔ پھر ان کی اور زیادہ حقارت کے لئے ان سے بطور ڈانٹ ڈپٹ کے کہا جائے گا یہی ہے جس کی جلدی مچا رہے تھے کہ کب آئے گا کب آئے گا، واللہ اعلم۔