النجم آية ۵۶
هٰذَا نَذِيْرٌ مِّنَ النُّذُرِ الْاُوْلٰۤى
طاہر القادری:
یہ (رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی) اگلے ڈر سنانے والوں میں سے ایک ڈر سنانے والے ہیں،
English Sahih:
This [Prophet (^)] is a warner from [i.e., like] the former warners.
1 Abul A'ala Maududi
یہ ایک تنبیہ ہے پہلے آئی ہوئی تنبیہات میں سے
2 Ahmed Raza Khan
یہ ایک ڈر سنانے والے ہیں اگلے ڈرانے والوں کی طرح
3 Ahmed Ali
یہ بھی ایک ڈرانے والا ہے پہلے ڈرانے والوں میں سے
4 Ahsanul Bayan
یہ (نبی) ڈرانے والے ہیں پہلے ڈرانے والوں میں سے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
یہ (محمدﷺ) بھی اگلے ڈر سنانے والوں میں سے ایک ڈر سنانے والے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
یہ (نبی) ڈرانے والے ہیں پہلے ڈرانے والوں میں سے
7 Muhammad Hussain Najafi
یہ (رسول(ص)) بھی ڈرانے والا ہے پہلے ڈرانے والے (رسولوں(ع)) سے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بیشک یہ پیغمبر بھی اگلے ڈرانے والوں میں سے ایک ڈرانے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
یہ (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اگلے ڈر سنانے والوں میں سے ایک ڈر سنانے والے ہیں
ھذا نذیر من النذر الاولی ھذا کا اشارہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا قرآن کی طرف ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ بھی پہلے رسولوں اور کتابوں کی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے نذیر بنا کر بھیجے گئے ہیں جو دین اور دنیا کے فلاح پر مشتمل ہدایات لے کر آئے ہیں اور ان کی مخالفت کرنے والوں کو اللہ کے عذاب سے ڈراتے ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿ھٰذَا نَذِیْرٌ مِّنَ النُّذُرِ الْاُوْلٰی﴾ یہ (رسول) تو پہلے ڈرانے والوں میں سے ایک ڈرانے والا ہے۔ یعنی یہ قریشی، ہاشمی رسول محمد بن عبداللہ کوئی انوکھے رسول نہیں ہیں بلککہ آپ سے پہلے بھی رسول گزرے ہیں جنہوں نے اسی چیز کی طرف دعوت دی تھی جس کی طرف آپ نے دعوت دی ہے تب آپ کی رسالت کا کس وجہ سے انکار کیا جاسکتا ہے اور کون سی دلیل ہے جس کی بنیاد پر آپ کی رسالت کو باطل ٹھہرایا جاسکتا ہے ؟ کیا آپ کے اخلاق تمام انبیائ ومرسلین کرام کے اخلاق سے اعلی وارفع نہیں ہیں؟ کیا آپ ہر بھلائی کی طرف دعوت نہیں دیتے اور ہر برائی سے نہیں روکتے؟ کیا آپ قرآن کریم لے کر تشریف نہیں لائے جس کے آگے سے باطل آسکتا ہے نہ پیچھے سے، جو حکمت والی قابل حمد وستائش ہستی کی طرف سے اتارا ہوا ہے ؟ آپ سے پہلے جن لوگوں نے انبیائے کرام کو جھٹلایا اللہ نے ان کو ہلاک نہیں کیا۔ تب سیدالمرسلین امام المتقین اور قائد الغر المحجلین حضرت محمد کی تکذیب کرنے والوں پر عذاب نازل ہونے سے کیا چیز مانع ہے؟
11 Mufti Taqi Usmani
yeh ( payghumber ) bhi pehlay khabrdar kernay walay payghumberon ki tarah aik khabrdar kernay walay hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
" نذیر " کا مفہوم نذیر کہتے کسے ہیں
یہ خوف اور ڈر سے آگاہ کرنے والے ہیں یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کی رسالت بھی ایسی ہی ہے جیسے آپ سے پہلے رسولوں کی رسالت تھی جیسے اور آیت میں ہے آیت ( قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَآ اَدْرِيْ مَا يُفْعَلُ بِيْ وَلَا بِكُمْ ۭ اِنْ اَتَّبِــعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ وَمَآ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ ) 46 ۔ الأحقاف :9) یعنی میں کوئی نیا رسول تو ہوں نہیں رسالت مجھ سے شروع نہیں ہوئی بلکہ دنیا میں مجھ سے پہلے بھی بہت سے رسول آ چکے ہیں قریب آنے والی کا وقت آئے گا یعنی قیامت قریب آگئی۔ نہ تو اسے کوئی دفع کرسکے نہ اس کے آنے کے صحیح وقت معین کا کسی کو علم ہے۔ نذیر عربی میں اسے کہتے ہیں مثلا ایک جماعت ہے جس میں سے ایک شخص نے کوئی ڈراؤنی چیز دیکھی اور اپنی قوم کو اس سے آگاہ کرتا ہے یعنی ڈر اور خوف سنانے والا جیسے اور آیت میں ہے آیت (اِنْ هُوَ اِلَّا نَذِيْرٌ لَّكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيْدٍ 46) 34 ۔ سبأ :46) میں تمہیں سخت عذاب سے مطلع کرنے والا ہوں حدیث میں ہے تمہیں کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں۔ یعنی جس طرح کوئی شخص کسی برائی کو دیکھ لے کہ وہ قوم کے قریب پہنچ چکی ہے اور پھر جس حالت میں ہو اسی میں دوڑا بھاگا آجائے اور قوم کو دفعۃً متنبہ کر دے کہ دیکھو وہ بلا آرہی ہے فوراً تدارک کرلو اسی طرح قیامت کے ہولناک عذاب بھی لوگوں کی غفلت کی حالت میں ان سے بالکل قریب ہوگئے ہیں اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان عذابوں سے ہوشیار کر رہے ہیں جیسے اس کے بعد کی سورت میں ہے آیت ( اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ ) 54 ۔ القمر :1) قیامت قریب آچکی مسند احمد کی حدیث میں ہے لوگو گناہوں کو چھوٹا اور حقیر جاننے سے بچو سنو چھوٹے چھوٹے گناہوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک قافلہ کسی جگہ اترا سب ادھر ادھر چلے گئے اور لکڑیاں سمیٹ کر تھوڑی تھوڑی لے آئے تو چاہے ہر ایک کے پاس لکڑیاں کم کم ہیں لیکن جب وہ سب جمع کرلی جائیں تو ایک انبار لگ جاتا ہے جس سے دیگیں پک جائیں اسی طرح چھوٹے چھوٹے گناہ جمع ہو کر ڈھیر لگ جاتا ہے اور اچانک اس گنہگار کو پکڑ لیتا ہے اور ہلاک ہوجاتا ہے اور حدیث میں ہے میری اور قیامت کی مثال ایسی ہے پھر آپ نے اپنی شہادت کی اور درمیان کی انگلی اٹھا کر ان کا فاصلہ دکھایا میری اور قیامت کی مثال دو ساعتوں کی سی ہے میری اور آخرت کے دن کی مثال ٹھیک اسی طرح ہے جس طرح ایک قوم نے کسی شخص کو اطلاع لانے کے لئے بھیجا اس نے دشمن کے لشکر کو بالکل نزدیک کی کمین گاہ میں چھاپہ مارنے کے لئے تیار دیکھا یہاں تک کہ اسے ڈر لگا کہ میرے پہنچنے سے پہلے ہی کہیں یہ نہ پہنچ جائیں تو وہ ایک ٹیلے پر چڑھ گیا اور وہیں کپڑا ہلا ہلا کر انہیں اشارے سے بتادیا کہ خبردار ہوجاؤ دشمن سر پر موجود ہے پس میں ایسا ہی ڈرانے والا ہوں۔ اس حدیث کی شہادت میں اور بھی بہت سی حسن اور صحیح حدیثیں موجود ہیں۔ پھر مشرکین کے اس فعل پر انکار فرمایا کہ وہ قرآن سنتے ہیں مگر اعراض کرتے ہیں اور بےپرواہی برتتے ہیں بلکہ اس کی رحمت سے تعجب کے ساتھ انکار کر بیٹھتے ہیں اور اس سے مذاق سنتے ہیں مگر اعراض کرتے ہیں اور بےپرواہی برتتے ہیں بلکہ اس کی رحمت سے تعجب کے ساتھ انکار کر بیٹھتے ہیں اور اس سے مذاق اور ہنسی کرنے لگتے ہیں چاہیے یہ تھا کہ مثل ایمان داروں کے اسے سن کر روتے عبرت حاصل کرتے جیسے مومنوں کی حالت بیان فرمائی کہ وہ اس کلام اللہ شریف کو سن کر روتے دھوتے سجدہ میں گرپڑتے ہیں اور خشوع وخضوع میں بڑھ جاتے ہیں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں (سمد) گانے کو کہتے ہیں یہ یمنی لغت ہے آپ سے (سامدون) کے معنی اعراض کرنے والے اور تکبر کرنے والے بھی مروی ہیں حضرت علی اور حسن فرماتے ہیں غفلت کرنے والے۔ پھر اپنے بندوں کا حکم دیتا ہے کہ توحید و اخلاص کے پابند رہو خضوع، خلوص اور توحید کے ماننے والے بن جاؤ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں نے مشرکوں نے اور جن و انس نے سورة النجم کے سجدے کے موقعہ پر سجدہ کیا مسند احمد میں ہے کہ مکہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة نجم پڑھی پس آپ نے سجدہ کیا اور ان لوگوں نے بھی جو آپ کے پاس تھے راوی حدیث مطلب بن ابی وداعہ کہتے ہیں میں نے اپنا سر اٹھایا اور سجدہ نہ کیا یہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے اسلام کے بعد جس کسی کی زبانی اس سورة مبارکہ کی تلاوت سنتے سجدہ کرتے یہ حدیث نسائی شریف میں بھی ہے۔