پھر (جلوۂ حق اور حبیبِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہو گیا)،
English Sahih:
And was at a distance of two bow lengths or nearer.
1 Abul A'ala Maududi
یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے کچھ کم فاصلہ رہ گیا
2 Ahmed Raza Khan
تو اس جلوے اور اس محبوب میں دو ہاتھ کا فاصلہ رہا بلکہ اس سے بھی کم
3 Ahmed Ali
پھر فاصلہ دو کمان کے برابر تھا یا اس سے بھی کم
4 Ahsanul Bayan
پس وہ دو کمانوں کے بقدر فاصلہ پر رہ گیا بلکہ اس سے بھی کم۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
تو دو کمان کے فاصلے پر یا اس سے بھی کم
6 Muhammad Junagarhi
پس وه دو کمانوں کے بقدر فاصلہ ره گیا بلکہ اس سے بھی کم
7 Muhammad Hussain Najafi
یہاں تک دو کمان کے برابریا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یہاں تک کہ دو کمان یا اس سے کم کا فاصلہ رہ گیا
9 Tafsir Jalalayn
تو وہ کمان کے فاصلے پر یا اس سے بھی کم فکان قاب قوسین او ادنیٰ ” قاب “ کمان کی لکڑی جس میں قبضہ (دستہ) لگا ہوتا ہے اور اس کے بالمقابل لکڑی کے دونوں کناروں میں ڈور (تانت) بندھی ہوتی ہے، دستہ اور ڈور کے درمیانی فاصلہ کو قاب کہتے ہیں، جس کا فاصلہ اندازاً ڈیڑھ فٹ ہوتا ہے، قاب قوسین یعنی دو کمانوں کا قاب جس کا فاصلہ تین فٹ ہے یہ تعبیر حضرت جبرئیل اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان نہایت قرب کو بیان کرنے کے لئے اتخیار کی ہے، عرب کی عادت تھی کہ آپسی اتحاد و یگانگت کو ظار کرنا یا اگر دو آدمی پولیس میں صلح اور دوستی کا معاہدہ کرنا چاہتے تو جس طرح اس کی ایک علامت ہاتھ پر ہاتھ مارنے کی معروف و مشہور ہے اسی طرح ایک علامت یہ تھی کہ دونوں اپنی اپنی کمانوں کی لکڑی اپنی اپنی طرف کر کے ڈور (تانت) کو ڈور سے ملات اور جب ڈور سے ڈور مل جاتی تو باہمی و مئودت کا اعلان سمجھا جاتا، اس قرب کے وقت دونوں شخصوں کے درمیان دو قابوں تقریباً تین فٹ کا فاصلہ رہتا۔ ایک علمی اشکال اور اس کا جواب : آیات مذکورہ میں صفات کا مصداق حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کو قرار دینے میں جو کہ جمہور مفسرین کا مختار ہے بظاہر یہ اشکال ہوتا ہے کہ اوپر کی آیات میں جو ضمیریں ہیں وہ جبرائیل کی طرف راجع ہیں، مگر صرف فاوی الی عبدہ ما اوحی میں دونوں ضمیریں اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہیں جو عبارت کے نظم و نسق کے خلاف ہے اور اس سے انتشار مرجع بھی لازم آتا ہے، اس کا جواب حضرت مولانا سید انور شاہ صاحب نے یہ دیا ہے۔ جواب :۔ نہ یہاں نظم کلام میں کوئی اختلال ہے اور نہ انتشار ضمائر، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سورة نجم کی شروع آیت میں ان ھ الا وحی یوحی کا ذکر فرما کر جس مضمون کی ابتداء کی گئی ہے اسی کا نہایت منضبط بیان اس طرح کیا گیا ہے کہ وحی بھیجنے والا تا تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں مگر اس وحی کے پہچانے میں ایک واسطہ جبرئیل کا تھا چند آیات میں اس واسطہ کی پوری طرح توثیق کرنے کے بعد بپھر اوحی الی عبدہ ماوحی فرمایا یہ ابتدائی کلام کا تکملہ ہے اور اس میں انتشار ضمیر اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ اوحی اور عبدہ کی ضمیر میں اس کے سوا احتمال ہی نہیں کہ وہ حق تعالیٰ کی طرف راجع ہو اس لئے یہ مرجع پہلے سے متعین ہے اور ما اوحی میں موحی بہ کو مبہم رکھ کر اس کی عظمت شان کی طرف اشارہ ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿فَکَانَ﴾ ہوگیا جبریل علیہ السلام کا آپ سے قرب ﴿قَابَ قَوْسَیْنِ ﴾ دو کمانوں کے فاصلے پر ﴿ اَوْ اَدْنٰی﴾اور یا دو کمانوں کے فاصلے سے بھی قریب تر۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام پیغام لے کر کامل طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بالمشافہ ملے۔ نیز اس پر بھی دلیل ہے کہ آپ کے اور جبریل علیہ السلام کے درمیان کوئی واسطہ نہ تھا۔
11 Mufti Taqi Usmani
yahan tak kay woh do kamanon kay faslay kay barabar qareeb aagaya , balkay uss say bhi ziyada nazdeek .