الرحمٰن آية ۳۱
سَنَفْرُغُ لَـكُمْ اَيُّهَ الثَّقَلٰنِۚ
طاہر القادری:
اے ہر دو گروہانِ (اِنس و جِن!) ہم عنقریب تمہارے حساب کی طرف متوّجہ ہوتے ہیں،
English Sahih:
We will attend to you, O prominent beings.
1 Abul A'ala Maududi
اے زمین کے بوجھو، عنقریب ہم تم سے باز پرس کرنے کے لیے فارغ ہوئے جاتے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
جلد سب کام نبٹا کر ہم تمہارے حساب کا قصد فرماتے ہیں اے دونوں بھاری گروہ
3 Ahmed Ali
اے جن و انس ہم تمہارے لیے جلد ہی فارغ ہو جائیں گے
4 Ahsanul Bayan
(جنوں اور انسانوں کے گروہو!) عنقریب ہم تمہاری طرف پوری طرح متوجہ ہو جائیں گے (١)
٣١۔١ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ کو فراغت نہیں ہے بلکہ یہ محاورۃً بولا گیا ہے جس کا مقصد وعید و تہید ہے (جن و انس کو) اسلئے کہا گیا کہ ان کو تکلیف شرعیہ کا پابند کیا گیا ہے، اس پابندی یا بوجھ سے دوسری مخلوق مستشنٰی ہے
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اے دونوں جماعتو! ہم عنقریب تمہاری طرف متوجہ ہوتے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
(جنوں اور انسانوں کے گروہو!) عنقریب ہم تمہاری طرف پوری طرح متوجہ ہو جائیں گے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے جن وانس ہم عنقریب (تمہاری خبر لینے کیلئے) تمہاری طرف متوجہ ہو نے والے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اے دونوں گروہو ہم عنقریب ہی تمہاری طرف متوجہ ہوں گے
9 Tafsir Jalalayn
اے دونوں جماعتو ! ہم عنقریب تمہاری طرف متوجہ ہوتے ہیں
سنفرغ لکم ایۃ الثقلان، ثقلان، ثقل کا تثنیہ ہے، ثقل خاص وطر پر اس بوجھ کر کہتے ہیں جو کسی پر لدا ہوا ہو اور قابل قدر شئی کو بھی کہت یہیں اور ایک حدیث میں یہی معنی مراد ہیں، مردا اس سے جنات اور انسان ہیں اس لئے کہ شروع سے روئے سخن انہی کی طرف ہے، مطلب یہ ہے کہ اے جن اور انسانو ! جو زمین پر بوجھ بنے ہوئے ہو میں عنقریب تمہاری خبر لینے کے لئے متوجہ ہونے والا ہوں، اس کا یہ مطلب یہ ہے کہ اے جن اور انسانو ! جو زمین پر بوجھ بنے ہوئے ہو میں عنقریب تمہاری خبر لنیے کے لئے متوجہ ہونے والا ہوں، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس وقت اللہ تعالیٰ ایسا مغشول ہے کہ اسے ان نافرمانوں سے باز پرس کرنے کی فرصت نہیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر کام کے لئے ایک خاص اوقات نامہ مقرر کر رکھا ہے جس کے مطابق وہ اس کائنات کے تصرفات میں عمل پیرا ہے جب جس کام کا وقت آجائے گا تو وہ کام اس وقت پر ہوجائے گا، فی الوقت اس امحتان گاہ میں پہلے دور (امتحان) کا سلسلہ چل رہا ہے، وقت پورا ہوتے ہی یک لخت امتحان کا سلسلہ ختم کردیا جائے گا اور یہ امتحان گاہ بھی ختم کردی جائے گی، اس کے بعد اس سلسلہ کا دوسرا دور شروع ہوگا، جس میں جن اور انسانوں کے اعمال کی جانچ شروع ہوگی اولین و آخرین کو از سر نو زندہ کر کے جمع کیا جائے گا اس اوقات نامہ کے اعتبار سے یہ دوسرے دور کی کارروائی ہوگی، اس اوقات نامے کے لحاظ سے فرمایا گیا ہے کہ ابھی پہلے دور کا کام چل رہا ہے، دوسرے دور کا وقت ابھی نہیں آیا۔
10 Tafsir as-Saadi
...
11 Mufti Taqi Usmani
aey do bhari makhlooqo ! hum unqareeb tumharay ( hisab kay ) liye farigh honey walay hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
فارغ ہونے کے یہ معنی نہیں کہ اب وہ کسی مشغولیت میں ہے بلکہ یہ بہ طور تنبیہہ کے فرمایا گیا ہے کہ صرف تمہاری طرف پوری توجہ فرمانے کا زمانہ قریب آگیا ہے اب کھرے کھرے فیصلے ہوجائیں گے اسے کوئی اور چیز مشغول نہ کرے گی بلکہ صرف تمہارا حساب ہی ہوگا، محاورہ عرب کے مطابق یہ کلام کیا گیا ہے جیسے غصہ کے وقت کوئی کسی سے کہتا ہے اچھا فرصت میں تجھ سے نپٹ لوں گا، تو یہ معنی نہیں کہ اس وقت مشغول ہوں بلکہ یہ مطلب ہے کہ ایک خاص وقت تجھ سے نمٹنے کا نکالوں گا اور تیری غفلت میں تجھے پکڑ لوں گا۔ (ثقلین) سے مراد انسان اور جن ہیں جیسے ایک حدیث میں ہے اسے سوائے ثقلین کے ہر چیز سنتی ہے اور دوسری حدیث میں ہے سوائے انسانوں اور جنوں کے اور حدیث صور میں صاف ہے کہ ثقلین یعنی جن و انس پھر تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس نعمت کا انکار کرسکتے ہو ؟ اے جنو اور انسانو ! تم اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی مقرر کردہ تقدیر سے بھاگ کر بچ نہیں سکتے بلکہ وہ تم سب کو گھیرے میں لئے ہوئے ہے اس کا ہر ہر حکم تم پر بےروک جاری ہے جہاں جاؤ اسی کی سلطنت ہے حقیقتاً یہ میدان محشر میں واقع ہوگا کہ مخلوقات کو ہر طرف سے فرشتے احاطہ کئے ہوئے ہوں گے چاروں جانب ان کی سات سات صفیں ہوں گی کوئی شخص بغیر دلیل کے ادھر سے ادھر نہ ہو سکے گا اور دلیل سوائے امر الہٰی یعنی حکم اللہ کے اور کچھ نہیں انسان اس دن کہے گا کہ بھاگنے کی جگہ کدھر ہے ؟ لیکن جواب ملے گا کہ آج تو رب کے سامنے ہی کھڑا ہونے کی جگہ ہے اور آیت میں ہے ( وَالَّذِيْنَ كَسَبُوا السَّيِّاٰتِ جَزَاۗءُ سَـيِّئَةٍۢ بِمِثْلِهَا ۙ وَتَرْهَقُھُمْ ذِلَّةٌ 27) 10 ۔ یونس :27) ، یعنی بدیاں کرنے والوں کو ان کی برائیوں کے مانند سزا ملے گی ان پر ذلت سوار ہوگی اور اللہ کی پکڑ سے پناہ دینے والا کوئی نہ ہوگا ان کے منہ مثل اندھیری رات کے ٹکڑوں کے ہوں گے یہ جہنمی گروہ ہے جو ہمیشہ جہنم میں ہی رہے گا۔ (شواظ) کے معنی آگ کے شعلے جو دھواں ملے ہوئے سبز رنگ کے جھلسا دینے والے ہوں۔ بعض کہتے ہیں بےدھویں کا آگ کا اوپر کا شعلہ جو اس طرح لپکتا ہے کہ گویا پانی کی موج ہے (نحاس) کہتے ہیں دھویں کو، یہ لفظ نون کے زبر سے بھی آتا ہے لیکن یہاں قرأت نون کے پیش سے ہی ہے۔ نابغہ کے شعر میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں ہے ہاں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ شواظ سے مراد وہ شعلہ ہے جس میں دھواں نہ ہو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی سند میں امیہ بن صلت کا شعر پڑھ کر سنایا۔ اور نحاس کے معنی آپ نے کئے ہیں محض دھواں جس میں شعلہ نہ ہو اور اس کی شہادت میں بھی ایک عربی شعر نابغہ کا پڑھ کر سنایا۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں نحاس سے مراد پیتل ہے جو پگھلایا جائے گا اور ان کے سروں پر بہایا جائے گا۔ بہر صورت مطلب یہ ہے کہ اگر تم قیامت کے دن میدان محشر سے بھاگنا چاہو تو میرے فرشتے اور جہنم کے داروغے تم پر آگ برسا کر دھواں چھوڑ کر تمہارے سر پر پگھلا ہوا پیتل بہا کر تمہیں واپس لوٹا لائیں گے تم نہ ان کا مقابلہ کرسکتے ہو نہ انہیں دفع کرسکتے ہو نہ ان سے انتقام لے سکتے ہو۔ پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت سے انکار کرو گے۔