سَنَفْرُغُ لَـكُمْ اَيُّهَ الثَّقَلٰنِۚ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
اے زمین کے بوجھو، عنقریب ہم تم سے باز پرس کرنے کے لیے فارغ ہوئے جاتے ہیں
English Sahih:
We will attend to you, O prominent beings.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
اے زمین کے بوجھو، عنقریب ہم تم سے باز پرس کرنے کے لیے فارغ ہوئے جاتے ہیں
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
جلد سب کام نبٹا کر ہم تمہارے حساب کا قصد فرماتے ہیں اے دونوں بھاری گروہ
احمد علی Ahmed Ali
اے جن و انس ہم تمہارے لیے جلد ہی فارغ ہو جائیں گے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
(جنوں اور انسانوں کے گروہو!) عنقریب ہم تمہاری طرف پوری طرح متوجہ ہو جائیں گے (١)
٣١۔١ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ کو فراغت نہیں ہے بلکہ یہ محاورۃً بولا گیا ہے جس کا مقصد وعید و تہید ہے (جن و انس کو) اسلئے کہا گیا کہ ان کو تکلیف شرعیہ کا پابند کیا گیا ہے، اس پابندی یا بوجھ سے دوسری مخلوق مستشنٰی ہے
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
اے دونوں جماعتو! ہم عنقریب تمہاری طرف متوجہ ہوتے ہیں
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
(جنوں اور انسانوں کے گروہو!) عنقریب ہم تمہاری طرف پوری طرح متوجہ ہو جائیں گے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اے جن وانس ہم عنقریب (تمہاری خبر لینے کیلئے) تمہاری طرف متوجہ ہو نے والے ہیں۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اے دونوں گروہو ہم عنقریب ہی تمہاری طرف متوجہ ہوں گے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اے ہر دو گروہانِ (اِنس و جِن!) ہم عنقریب تمہارے حساب کی طرف متوّجہ ہوتے ہیں،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
فارغ ہونے کے یہ معنی نہیں کہ اب وہ کسی مشغولیت میں ہے بلکہ یہ بہ طور تنبیہہ کے فرمایا گیا ہے کہ صرف تمہاری طرف پوری توجہ فرمانے کا زمانہ قریب آگیا ہے اب کھرے کھرے فیصلے ہوجائیں گے اسے کوئی اور چیز مشغول نہ کرے گی بلکہ صرف تمہارا حساب ہی ہوگا، محاورہ عرب کے مطابق یہ کلام کیا گیا ہے جیسے غصہ کے وقت کوئی کسی سے کہتا ہے اچھا فرصت میں تجھ سے نپٹ لوں گا، تو یہ معنی نہیں کہ اس وقت مشغول ہوں بلکہ یہ مطلب ہے کہ ایک خاص وقت تجھ سے نمٹنے کا نکالوں گا اور تیری غفلت میں تجھے پکڑ لوں گا۔ (ثقلین) سے مراد انسان اور جن ہیں جیسے ایک حدیث میں ہے اسے سوائے ثقلین کے ہر چیز سنتی ہے اور دوسری حدیث میں ہے سوائے انسانوں اور جنوں کے اور حدیث صور میں صاف ہے کہ ثقلین یعنی جن و انس پھر تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس نعمت کا انکار کرسکتے ہو ؟ اے جنو اور انسانو ! تم اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی مقرر کردہ تقدیر سے بھاگ کر بچ نہیں سکتے بلکہ وہ تم سب کو گھیرے میں لئے ہوئے ہے اس کا ہر ہر حکم تم پر بےروک جاری ہے جہاں جاؤ اسی کی سلطنت ہے حقیقتاً یہ میدان محشر میں واقع ہوگا کہ مخلوقات کو ہر طرف سے فرشتے احاطہ کئے ہوئے ہوں گے چاروں جانب ان کی سات سات صفیں ہوں گی کوئی شخص بغیر دلیل کے ادھر سے ادھر نہ ہو سکے گا اور دلیل سوائے امر الہٰی یعنی حکم اللہ کے اور کچھ نہیں انسان اس دن کہے گا کہ بھاگنے کی جگہ کدھر ہے ؟ لیکن جواب ملے گا کہ آج تو رب کے سامنے ہی کھڑا ہونے کی جگہ ہے اور آیت میں ہے ( وَالَّذِيْنَ كَسَبُوا السَّيِّاٰتِ جَزَاۗءُ سَـيِّئَةٍۢ بِمِثْلِهَا ۙ وَتَرْهَقُھُمْ ذِلَّةٌ 27) 10 ۔ یونس ;27) ، یعنی بدیاں کرنے والوں کو ان کی برائیوں کے مانند سزا ملے گی ان پر ذلت سوار ہوگی اور اللہ کی پکڑ سے پناہ دینے والا کوئی نہ ہوگا ان کے منہ مثل اندھیری رات کے ٹکڑوں کے ہوں گے یہ جہنمی گروہ ہے جو ہمیشہ جہنم میں ہی رہے گا۔ (شواظ) کے معنی آگ کے شعلے جو دھواں ملے ہوئے سبز رنگ کے جھلسا دینے والے ہوں۔ بعض کہتے ہیں بےدھویں کا آگ کا اوپر کا شعلہ جو اس طرح لپکتا ہے کہ گویا پانی کی موج ہے (نحاس) کہتے ہیں دھویں کو، یہ لفظ نون کے زبر سے بھی آتا ہے لیکن یہاں قرأت نون کے پیش سے ہی ہے۔ نابغہ کے شعر میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں ہے ہاں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ شواظ سے مراد وہ شعلہ ہے جس میں دھواں نہ ہو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی سند میں امیہ بن صلت کا شعر پڑھ کر سنایا۔ اور نحاس کے معنی آپ نے کئے ہیں محض دھواں جس میں شعلہ نہ ہو اور اس کی شہادت میں بھی ایک عربی شعر نابغہ کا پڑھ کر سنایا۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں نحاس سے مراد پیتل ہے جو پگھلایا جائے گا اور ان کے سروں پر بہایا جائے گا۔ بہر صورت مطلب یہ ہے کہ اگر تم قیامت کے دن میدان محشر سے بھاگنا چاہو تو میرے فرشتے اور جہنم کے داروغے تم پر آگ برسا کر دھواں چھوڑ کر تمہارے سر پر پگھلا ہوا پیتل بہا کر تمہیں واپس لوٹا لائیں گے تم نہ ان کا مقابلہ کرسکتے ہو نہ انہیں دفع کرسکتے ہو نہ ان سے انتقام لے سکتے ہو۔ پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت سے انکار کرو گے۔