الرحمٰن آية ۵۴
مُتَّكِـــِٕيْنَ عَلٰى فُرُشٍۢ بَطَاۤٮِٕنُهَا مِنْ اِسْتَبْرَقٍۗ وَجَنَاالْجَـنَّتَيْنِ دَانٍۚ
طاہر القادری:
اہلِ جنت ایسے بستروں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے جن کے استر نفِیس اور دبیز ریشم (یعنی اَطلس) کے ہوں گے، اور دونوں جنتوں کے پھل (اُن کے) قریب جھک رہے ہوں گے،
English Sahih:
[They are] reclining on beds whose linings are of silk brocade, and the fruit of the two gardens is hanging low.
1 Abul A'ala Maududi
جنتی لوگ ایسے فرشوں پر تکیے لگا کے بیٹھیں گے جن کے استر دبیز ریشم کے ہوں گے، اور باغوں کی ڈالیاں پھلوں سے جھکی پڑ رہی ہوں گی
2 Ahmed Raza Khan
اور ایسے بچھونوں پر تکیہ لگائے جن کا اَستر قناویز کا اور دونوں کے میوے اتنے جھکے ہوئے کہ نیچے سے چن لو
3 Ahmed Ali
ایسے فرشتو ں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے کہ جن کا استر مخملی ہوگا اور دونوں باغوں کا میوہ جھک رہا ہوگا
4 Ahsanul Bayan
جنتی ایسے فرشوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہونگے جن کے استر و بیز ریشم کے ہونگے (١) اور دونوں جنتوں کے میوے بالکل قریب ہونگے (٢)
٥٤۔١ ابری یعنی اوپر کا کپڑا ہمیشہ استر سے بہتر اور خوبصورت ہوتا ہے، یہاں صرف استر کا بیان ہے، جس کا مطلب ہے کہ اوپر (ابری) کا کپڑا اس سے کہیں زیادہ عمدہ ہوگا۔
٥٤۔٢ اتنے قریب ہونگے کہ بیٹھے بیٹھے بلکہ لیٹے لیٹے بھی توڑ سکیں گے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(اہل جنت) ایسے بچھونوں پر جن کے استرا طلس کے ہیں تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے۔ اور دونوں باغوں کے میوے قریب (جھک رہے) ہیں
6 Muhammad Junagarhi
جنتی ایسے فرشوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے جن کے استر دبیز ریشم کے ہوں گے، اور ان دونوں جنتوں کے میوے بالکل قریب ہوں گے
7 Muhammad Hussain Najafi
وہ ایسے بچھونوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے جن کے استر دبیز ریشم کے ہوں گے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یہ لوگ ان فرشوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے جن کے استراطلس کے ہوں گے اور دونوں باغات کے میوے انتہائی قریب سے حاصل کرلیں گے
9 Tafsir Jalalayn
(اہل جنت) ایسے بچھونوں پر جن کے استر اطلس کے ہیں تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے اور دونوں باغوں کے میوے قریب (جھک رہے) ہیں
10 Tafsir as-Saadi
﴿مُتَّکِــــِٕیْنَ عَلٰی فُرُشٍ بَطَایِٕنُہَا مِنْ اِسْتَبْرَقٍ ﴾ ’’وہ ایسی مسندوں پر تکیے لگائے(بیٹھے) ہوں گے جن کے استر دبیز ریشم کے ہوں گے۔‘‘ یہ اہل جنت کے بچھونوں اور ان بچھونوں پر ان کے بیٹھنے کا وصف ہے، نیز یہ کہ وہ تکیے لگائے ان بچھونوں پر بیٹھیں گے، یعنی ان کا بیٹھنا تمکنت، قرار اور راحت کا بیٹھنا ہوگا، جیسے بادشاہ تختوں پر بیٹھتے ہیں ان بچھونوں کا وصف اور حسن اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا حتی کہ ان کے نیچے والے حصے جو زمین کے ساتھ لگے ہوئے ہوتے ہیں، استبرق کے ہوں گے جو ریشم کی خوبصورت ترین اور اعلیٰ ترین قسم ہے تب ان بچھونوں کے ظاہری حصے جن پر بیٹھا جاتا ہے ان کی خوبصورتی کیسی ہوگی؟ ﴿وَجَنَا الْجَنَّـتَیْنِ دَانٍ﴾ ’’اور ان دونوں جنتوں کے پھل قریب ہی ہوں گے۔‘‘ َلْجَنٰی سے مراد ہے پوری طرح پکا ہوا پھل، یعنی ان دو جنتوں کے پھل تناول کے لیے بہت قریب ہوں گے، کھڑا ہوا، بیٹھا ہوا حتی کہ لیٹا ہوا شخص اسے آسانی سے حاصل کرسکے گا۔
11 Mufti Taqi Usmani
woh ( jannati log ) aesay farshon per takiya lagaye huye hon gay jinn kay astar dabeez resham kay hon gay , aur dono baaghon kay phal jhukay parr rahey hon gay .
12 Tafsir Ibn Kathir
جنت یافتہ لوگ
جنتی لوگ بےفکری سے تکئے لگائے ہوئے ہوں گے خواہ لیٹے ہوئے ہوں خواہ باآرام بیٹھے ہوئے تکیہ سے لگے ہوئے ہوں ان کے بچھاؤنے بھی اتنے بڑھیا ہوں گے کہ ان کے اندر کا استر بھی دبیز اور خالص زرین ریشم کا ہوگا پھر اوپر کا ابرا کچھ ایسا ہوگا اسے تم آپ سوچ لو۔ مالک بن دینار اور سفیان ثوری فرماتے ہیں استر کا یہ حال ہے اور ابرا تو محض نورانی ہوگا جو سراسر اظہار رحمت و نور ہوگا۔ پھر اس پر بہترین گلکاریاں ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ان جنتوں کے پھل جنتیوں سے بالکل قریب ہیں۔ جب چاہے جس حال میں چاہیں وہاں سے لے لیں لیٹے ہوں تو بیٹھا ہونے کی اور بیٹھے ہوں تو کھڑا ہونے کی ضرورت نہیں خودبخود شاخیں جھوم جھوم کر جھکتی رہتی ہیں۔ جیسے فرمایا آیت ( قُطُوْفُهَا دَانِيَةٌ 23) 69 ۔ الحاقة :23) اور فرمایا آیت ( وَدَانِيَةً عَلَيْهِمْ ظِلٰلُهَا وَذُلِّـلَتْ قُـطُوْفُهَا تَذْلِيْلًا 14) 76 ۔ الإنسان :14) ، یعنی بیحد قریب میوے ہیں لینے والے کو کوئی تکلیف یا تکلف کی ضرورت نہیں خود شاخیں جھک جھک کر انہیں میوے دے رہی ہیں پس تم اپنے رب کی نعمتوں کے انکار سے باز رہو۔ چونکہ فروش کا بیان ہوا تھا تو ساتھ ہی فرمایا کہ ان فروش پر ان کے ساتھ ان کی بیویاں ہوں گی، جو عفیفہ، پاکدامن، شرمیلی نگاہوں والی ہوں گی اپنے خاوندوں کے سوا کسی پر نظریں نہ ڈالیں گے اور ان کے خاوند بھی ان پر سو جان سے مائل ہوں گے۔ یہ بھی جنت کی کسی چیز کو اپنے ان مومن خاوندوں سے بہتر نہ پائیں گی۔ یہ بھی وارد ہوا ہے کہ یہ حوریں اپنے خاوندوں سے کہیں گی اللہ کی قسم ساری جنت میں میرے لئے تم سے بہتر کوئی چیز نہیں اللہ خوب جانتا ہے کہ میرے دل میں جنت کی کسی چیز کی خواہش و محبت اتنی نہیں جتنی آپ کی ہے، اللہ کا شکر ہے کہ اس نے آپ کو میرے حصے میں کردیا اور مجھے آپ کی خدمت کا شرف بخشا۔ یہ حوریں کنواری اچھوتی نوجوان ہوں گی ان جنتیوں سے پہلے ان کے پاک جسم کو کسی انس و جن کا ہاتھ بھی نہ لگا۔ یہ آیت بھی مومن جنوں کے جنت میں جانے کی دلیل ہے۔ حضرت ضمرہ بن حبیب سے سوال ہوتا ہے کہ کیا مومن جن بھی جنت میں جائیں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں اور جنیہ عورتوں سے ان کے نکاح ہوں گے جیسے انسان کے انسان عورتوں سے۔ پھر یہی آیتیں تلاوت کیں پھر ان حوروں کی تعریف بیان ہو رہی ہے کہ وہ اپنی صفائی خوبی اور حسن میں ایسی ہیں جیسے یاقوت و مرجان، یاقوت سے صفائی میں تشبیہ دی اور مرجان سے بیاض میں پس مرجان سے مراد یہاں لؤلؤ ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اہل جنت کی بیویوں میں سے ہر ایک ایسی ہے کہ ان کی پنڈلی کی سفیدی ستر ستر حلوں کے پہننے کے بعد بھی نظر آتی ہے یہاں تک کہ اندر کا گودا بھی آپ نے آیت ( كَاَنَّهُنَّ الْيَاقُوْتُ وَالْمَرْجَانُ 58ۚ ) 55 ۔ الرحمن :58) پڑھی اور فرمایا دیکھو یاقوت ایک پتھر ہے لیکن قدرت نے اس کی صفائی اور جوت ایسی رکھی ہے کہ اس کے بیچ میں دھاگہ پرو دو تو باہر سے نظر آتا ہے (ابن ابی حاتم) یہ روایت ترمذی میں بھی موقوفاً حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے اور امام ترمذی اس کو زیادہ صحیح بتاتے ہیں۔ مسند احمد میں ہے پیغمبر مدنی احمد مجتبیٰ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ ہر اہل جنت کی دو بیویاں اس صفت کی ہوں گی کہ ستر ستر حلے پہن لینے کے بعد بھی ان کی پنڈلیوں کی جھلک نمودار رہے گی بلکہ اندر کا گودا بھی بوجہ صفائی کے دکھائی دے گا صحیح مسلم میں ہے کہ یا تو فخر کے طور پر یا مذاکراہ کے طور پر یہ بحث چھڑ گئی کہ جنت میں عورتیں زیادہ ہوں گی یا مرد ؟ تو حضرت ابوہریرہ نے فرمایا کیا ابو القاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ نہیں فرمایا ؟ کہ پہلی جماعت جو جنت میں جائے گی وہ چاند جیسی صورتوں والی ہوگی ان کے پیچھے جو جماعت جائے گی وہ آسمان کے بہترین چمکیلے تاروں جیسے چہروں والی ہوگی۔ ان میں سے ہر شخص کی دو بیویاں ایسی ہوں گی جن کی پنڈلی کا گودا گوشت کے پیچھے سے نظر آئے گا اور جنت میں کوئی بغیر بیوی کے نہ ہوگا۔ اس حدیث کی اصل بخاری میں بھی ہے مسند احمد میں ہے " حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اللہ کی راہ کی صبح اور شام ساری دنیا سے اور جو اس میں ہے سب سے بہتر ہے۔ جنت میں جو جگہ ملے گی اس میں ایک کمان یا ایک کوڑے کے برابر کی جگہ ساری دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے افضل ہے اگر جنت کی عورتوں میں سے ایک عورت دنیا میں جھانک لے تو زمین و آسمان کو جگمگا دے اور خوشبو سے تمام عالم مہک اٹھے۔ ان کی ہلکی سی چھوٹی دو پٹیا بھی دنیا اور دنیا کی ہر چیز سے گراں ہے صحیح بخاری میں یہ حدیث بھی ہے پھر ارشاد ہے کہ جس نے دنیا میں نیکی کی اس کا بدلہ آخرت میں سلوک و احسان کے سوا اور کچھ نہیں جیسے ارشاد ہے ( لِلَّذِيْنَ اَحْسَـنُوا الْحُسْنٰى وَزِيَادَةٌ 26) 10 ۔ یونس :26) نیکی کرنے والے کے لئے نیکی ہے اور زیادتی یعنی جنت اور دیدار باری۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت کر کے اپنے اصحاب سے پوچھا جانتے ہو تمہارے رب نے کیا کہا ؟ انہوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہی علم ہے آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں جس پر اپنی توحید کا انعام دنیا میں کروں اس کا بدلہ آخرت میں جنت ہے اور چونکہ یہ بھی ایک عظیم الشان نعمت ہے جو دراصل کسی عمل کے بدلے نہیں بلکہ صرف اسی کا احسان اور فضل و کرم ہے اس لئے اس کے بعد ہی فرمایا اب تم میری کس کس نعمت سے لاپرواہی برتو گے ؟ رب کے مقام سے ڈرنے والے کی بشارت کے متعلق ترمذی شریف کی یہ حدیث بھی خیال میں رہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو ڈرے گا وہ رات کے وقت ہی کوچ کرے گا اور جو اندھیری رات میں چل پڑا وہ منزل مقصود تک پہنچ جائے گا خبردار ہوجاؤ اللہ کا سودا بہت گراں ہے یاد رکھو وہ سودا جنت ہے امام ترمذی اس حدیث کو غریب بتاتے ہیں حضرت ابو الدرداء فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے میں نے منبر پر وعظ بیان فرماتے ہوئے سنا کہا آپ نے آیت ( وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ 46ۚ ) 55 ۔ الرحمن :46) پڑھی تو میں نے کہا اگرچہ زنا کیا ہو اگرچہ چوری کی ہو ؟ باقی حدیث اوپر گذر چکی۔