الواقعہ آية ۳۹
ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَۙ
طاہر القادری:
(ان میں) بڑی جماعت اگلے لوگوں میں سے ہوگی،
English Sahih:
A company of the former peoples
1 Abul A'ala Maududi
وہ اگلوں میں سے بہت ہوں گے
2 Ahmed Raza Khan
اگلوں میں سے ایک گروہ،
3 Ahmed Ali
بہت سے پہلوں میں سے ہوں گے
4 Ahsanul Bayan
جم غفیر ہے اگلوں میں سے (١)
٣٩۔١ یعنی آدم علیہ السلام سے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک کے لوگوں میں سے یا خود امت محمدیہ کے اگلوں میں سے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(یہ) بہت سے اگلے لوگوں میں سے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
جم غفیر ہے اگلوں میں سے
7 Muhammad Hussain Najafi
ایک بڑی جماعت اگلوں میں سے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
جن کا ایک گروہ پہلے لوگوں کا ہے
9 Tafsir Jalalayn
(یہ) بہت سے تو اگلے لوگوں میں سے ہیں
ترجمہ : ایک بڑی جماعت اولین میں سے ہوگی اور ایک بڑی جماعت آخرین میں سے ہوگی اور اصحاب الشمال کیا ہی برے ہیں یعنی بائیں ہاتھ والے یہ لوگ آگ کی گرم ہوا (لو) میں ہوں گے جو مسامات میں نفوذ کر جائے گی اور کھولتے ہوئے پانی میں ہوں گے جو نہایت ہی گرم ہوگا اور سیاہ دھوئیں کے سایہ میں ہوں گے یحموم وہ دھواں جو نہایت سیاہ ہو، جو نہ ٹھنڈا ہوگا جیسا کہ دیگر سائے ٹھنڈے ہوتے ہیں اور نہ فرحت بخش یعنی خوش منظر یہ لوگ اس سے پہلے دنیا میں بڑی خوشحالی میں رہتے تھے طاعت کے لئے مشقت نہیں اٹھاتے تھے بڑے بھاری گناہ پر اصرار کرتے تھے یعنی شرک پر اور یوں کہا کرتے تھے کہ جب ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں رہ جائیں گے تو کیا ہم دوبارہ زندہ کئے جائیں گے ؟ (او) وائو مفتوح کے ساتھ عطف کے لئے ہے اور ہمزہ استفہام کے لئے ہے اور یہ استفہام یہاں اور اس سے پہلے استبعاد کے لئے ہے اور ایک قرأت میں وائو کے سکون کے ساتھ ہے عطف کے طور پر اور معطوف علیہ ان اور اس کے اسم کا محل ہے آپ کہہ دیجیے اگلے پچھلے سب جمع کئے جائیں گے ایک معین وقت پر یعنی قیامت کے دن پھر تم کو اے گمراہو ! جھٹلانے والو ! تھوہڑ کے درخت سے کھانا ہوگا (من زقوم) شجر کا بیان ہے پھر اس سے پیٹ بھرنا ہوگا پھر اس پر یعنی زقوم کے کھانے کے بعد کھولتا ہوا پانی پینا ہوگا اور پھر پینا بھی پیاسے اونٹوں کے مانند شرب شین کے ضمہ اور فتحہ کے ساتھ مصدر ہے الھیم پیاسے اونٹ کو کہتے ہیں، یہ ھیمان کی جمع ہے ھیمی اس کی مئونث ہے پیاسی اونٹنی، جیسے عطشان و عطشی (غرض یہ کہ) یہ ان کی ضیافت ہوگی جو ان کے لئے قیامت میں تیار کی گئی ہے ہم نے تم کو پیدا کیا یعنی عدم سے وجود میں لائے پھر تم کس لئے بعث بعد الموت کی صموت کے بعد زندہ ہونے کی) تصدیق نہیں کرتے ؟ اس لئے کہ جو ذات ابتداء پیدا کرنے پر قادر ہے وہ اعادہ پر بھی قادر ہے کیا تم نے کبھی اس بات پر غور کیا کہ منی کا جو نطفہ تم عورتوں کے رحم میں پہنچاتے ہو کیا تم اس منی کو انسان بناتے ہو ؟ (انتم) میں دونوں ہمزوں کی تحقیق اور دوسرے کو الف سے بدل کر اور اس کی تسہیل کے ساتھ اور مسہلہ اور دوسرے ہمزہ کے درمیان الف داخل کر کے اور ترک ادخال کر کے چاروں جگہ پر اور ہم نے تم میں سے ہر ایک کی موت کا وقت مقرر کیا ہے (قدرنا) میں دال کی تشدید اور تخفیف کے ساتھ اور ہم اس سے عاجز نہیں ہیں کہ ہم تمہاری جگہ تمہارے جیسے پیدا کردیں اور تمہاری ایسی صورت بنادیں کہ تم جانتے بھی نہیں ہو جیسا کہ بندر اور خنزیر اور تم کو اول پیدائش کا علم ہے اور ایک قرأت میں (نشاۃ) میں شین کے سکون کے ساتھ ہے پھر تم کیوں نہیں سمجھتے ؟ (تذکرون) میں تائے ثانیہ کا اصل میں ذال میں ادغام ہے کیا تم نے کبھی اس بات پر غور کیا ؟ جو تم کاشت کرتے ہو (یعنی) زمین کو جو تتے ہو اور اس میں تخم ریزی کرتے ہو کیا اس کو تم اگاتے ہو ؟ یا اس کو ہم اگاتے ہیں ؟ اگر ہم چاہیں تو اس (پیداوار) کو چورہ چورہ کردیں یعنی خشک گھاس کردیں کہ اس میں ایک بھی دانہ نہ ہو تو تم دن بھر تعجب کرتے رہ جائو (ظلتم) کی اصل ظلتم لام کے کسرہ کے ساتھ ہے لام کو تخفیفاً حذف کردیا گیا ہے، یعنی تم دن بھر حیرت زدہ رہ جائو (تفکھون) میں اصل میں ایک تاء حذف کردی گئی ہے یعنی تم اس سے تعجب میں رہ جائو اور کہنے لگو ہم پر تو کھیتی کی لاگت کا بھی تاوان پڑگیا، بلکہ ہم تو رزق سے بالکل ہی محروم ہوگئے یا تم نے کبھی اس پانی میں غور کیا ؟ جس کو تم پیتے ہو کیا اس کو بادل سے تم برساتے ہو یا ہم برساتے ہیں ؟ (مزن) مزنۃ کی جمع ہے بمعنی بادل اگر ہم چاہیں تو اس کو نمکین کردیں کہ اس کا پینا ہی ممکن نہ رہے تو تم شکر کیوں نہیں کرتے ؟ کیا تم نے کبھی اس آگ پر غور کیا جس کو تم روشن کرتے ہو ؟ (یعنی) سبز درخت سے نکالتے ہو کیا تم نے اس درخت کو پیدا کیا ؟ جیسا کہ مرخ، عفار اور کلخ، یا ہم پیدا کرنے والے ہیں ہم نے اس کو یعنی ان درختوں کو نار جہنم کے لئے یاد دہانی کی چیز اور مسافروں کے لئے کامل فائدہ کی چیز بنایا ہے (مقوینض اقوی القوم سے ماخوذ ہے یعنی چٹیل میدان میں پہنچ گئے (القوی) قاف کے کسرہ اور ریاء کے مد کیساتھ یعنی قفر (چٹیل میدان) ایسا جنگل کہ جس میں آب وگیاہ کچھ نہ ہو سو اپنے عظیم ال شان رب کی یعنی اللہ کی با کی بیان کیجیے اسم کا لفظ زائد ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ھم ثلۃ من الاولین الخ یہ ھم مبتداء محذوف کی خبر ہے جیسا کہ مفسر علام نے اشارہ کردیا ہے۔
قولہ : مسموم، لو، تیز بھاپ، وہ گرم ہوا جو زہر کے مانند اثر کرے، مئونث سماعی ہے (ج) سمائم، سموم کو سموم اس لئے کہتے ہیں کہ وہ جسم کے مسامات میں داخل ہوجاتی ہے اسی سے السم بمعنی زہر ماخوذ ہے، اس لئے کہ زہر بھی مسامات میں داخل ہو کر ہلاک کردیتا ہے۔
قولہ : انھم کانو قبل ذلک مترفین یہ جملہ ماقبل کی علت ہونے کی وجہ سے تعلیلیہ ہے، یعنی اصحاب شمال مذکورہ عذاب کے مستحق اس لئے ہوں گے کہ وہ اپنی خوشحالی میں مگن اور مست ہونے کے ساتھ ساتھ شرک و کفر پر جو کہ سب سے بڑا گناہ ہے مصر تھے اور بعث بعد الموت کے منکر۔
قولہ : ادخال الف بینھما علی الوجھین مفسر علام کے لئے مناسب تھا کہ وتر کہ کا اضافہ فرماتے تاکہ چار قراءتیں ہوجاتیں، مفسر علام کی عبارت سے صرف دو قراءتیں مفہوم ہوتی ہیں۔
قولہ : والمعطوف علیہ محل ان واسمھا ان واسمھا میں وائو بمعین مع ہے یعنی ابائونا الاولون کا طعف ان کے محل پر ہے مع اس کے اسم کے اسی وجہ سے آبائونا الاولون مرفوع ہے، یہ اس صورت میں ہے جبکہ معطوف کو انا کی خبر لمبعوثون پر مقدم مانا جائے تقدیر عبارت یہ ہوا النا وابائونا لمبعوثون ورنہ تو عط لمبعوثون کی ضمیر مرضوع مستتر یر ہوگا۔
سوال : ضمیر مرفوع مستتر متصل پر عطف کے لئے ضروری ہے کہ ضمیر مرفوع منفصل کے ذریعہ تاکید لائی جائے جو یہاں موجود نہیں ہے، تقدیر عبارت لمبعوثون نحن ہونی چاہیے۔
جواب :۔ ضمیر منفعل کے ذریعہ تاکید اس وقت ضروری ہے جب معطوف اور معطوف علیہ کے درمیان فصل نہ ہو ورنہ تو ضروری نہیں ہے، یہاں او آبائونا میں ہمزہ استفہام کا فصل موجود یہ۔
قولہ : لوقت ای فی وقت میقات بمعنی وقت ہے اور لام بمعنی فی ہے۔
سوال : لمجموعون کا صلہ فی آتا ہے نہ کہ الیٰ حالانکہ یہاں الیٰ لایا یا ہے۔
جواب :۔ لمجموعون لمسوقون کے معنی کو متضمن ہونے کی وجہ سے اس کا صلہ الیٰ لایا گیا ہے۔
قولہ : مالئون منھا، منھا کی ضمیر شجر کی طرف لوٹ رہی ہے اسم جنس ہونے کی وجہ سے سے اس لئے کہ اسم جنس میں مذکر اور مئونث دونوں کی گنجائش ہوتی ہے۔ ( ٖحم)
قولہ : الھیم شدید پیاسے اونٹ کو کہتے ہیں، ھیام مرض استقاء جس میں پیاس زیادہ لگتی ہے پانی پینے سے سیرابی نہیں ہوتی، اس مرض کو جلندھر بھی کہتے ہیں، مفسر علام کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہیم ہیمان مذکر اور ہیمی مئوث دونوں کی جمع ہے، مفسر علام کا ھیم کو ھیمان کی جمع لکھنا سبقت قلم ہے، درست یہ ہے کہ اھیم کی جمع ہے، اس لئے کہ ھیم اصل میں ھیم تھا، ضمہ ہاء کے ساتھ ہے بروزن حمر ہاء کے ضمہ کو یاء کی موافقت کے لئے کسرہ سے بدل دیا اور فعل افعل کی جمع ہے جیسے حمر احمر کی جمع ہے۔
قولہ : لونشاء جعلنا اجاجاً
سوال : لو کے جواب میں لام لام ضروری ہوتا ہے لہٰذا لجعلناہ ہونا چاہیے، لام تاکید کو کس مصلحت کے لئے حذف کیا گیا ؟
جواب : یہاں لام تاکید کی حاجت نہیں ہے اس لئے کہ بادلوں کی ملکیت اور ان کے پانی کو کھارا بنانا یہ کسی بشر کی قدرت میں نہیں ہے یہ کام تو مالک الکل اللہ رب العالمین ہی کا ہے، بخلاف کھیتی اور زمین کے، اس میں ملک کا شائبہ ہے اسی وجہ سے سابق میں لونشاء لجعلناہ خطاماً میں لام تاکید لایا گیا ہے۔
تفسیر و تشریح
ثلۃ من اولین وثلۃ من الاخرین، ثلۃ بڑی جماعت کو کہتے ہیں، اولین و آخرین کی تفسیر میں حضرات مفسرین کے دو قول اوپر سابقون کے بیان میں بیان ہوچکے ہیں، اگر اولین سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت تک کے لوگ مراد ہوں اور آخرین سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت تا قیامت مراد ہوجی اس کہ بعض مفسرین نے فرمایا ہے تو اس آیت کا حاصل یہ ہوگا کہ اصحاب الیمیمن یعنی مومنین متقین کی تعداد پچھلی امتوں کے مجموعہ میں ایک بڑی جماعت ہوگی اور تنہا امت محمدیہ میں ایک بڑی جماعت ہوگی، اس صورت میں اول تو امت محمدیہ کی فضیلت کے لئے یہ بھی کچھ کم نہیں کہ پچھلے لاکھوں انبیاء (علیہم السلام) کی امتوں کی برابر یہ امت ہوجائے جس کا زمانہ بہت مختصر ہے، اس کے علاوہ لفظ ثلۃ میں اس کی بھی گنجائش ہے، یہ ثلۃ آخرین تعداد میں اولین سے بڑھ جائیں۔
اور اگر دوسری تفسیر مراد لی جائے کہ اولین و آخرین دونوں اسی امت کے مراد ہیں، جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) سے بغوی نے اور ابن مردویہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ھما من امتی یعنی یہ اولین و آخرین میری امت ہی کے دو بقے ہیں، اس معنی کے لحاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ سابقین اولین صحابہ و تابیعن وغیرہ جیسے حضرات سے بھی یہ امت آخر تک محروم نہ ہوگی اگرچہ آخری دور میں ایسے لوگ بہت کم ہوں گے اور مومنین و متقین اولیا اللہ تو اس پوری امت کے اول و آخر میں بھاری تعداد میں رہیں گے، اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو صحیح بخاری و مسلم میں حضرت معاویہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میری امت میں ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی اور ہزاروں مخالفوں کے نرغے میں بھی وہ اپنا رشد و ہدایت کا کام کرتی رہے گی، اس کو کسی کی مخالفت نقصان نہ پہنچا سکے گی، حتی کہ یہ جماعت تا قیامت اپنے کام میں لگی رہے گی۔ (معارف القرآن)
10 Tafsir as-Saadi
لوگوں کی یہ قسم،یعنی اصحاب یمین، اولین میں سے بہت سی تعداد اور آخرین میں سے بھی بہت سی تعداد پر مشتمل ہوگی۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( jinn mein say ) boht say shuroo kay logon mein say hon gay ,