الحدید آية ۲۰
اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَّلَهْوٌ وَّزِيْنَةٌ وَّتَفَاخُرٌۢ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِى الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِۗ كَمَثَلِ غَيْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ يَهِيْجُ فَتَرٰٮهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُوْنُ حُطٰمًاۗ وَفِى الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيْدٌ ۙ وَّمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانٌۗ وَمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ
طاہر القادری:
جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا ہے اور ظاہری آرائش ہے اور آپس میں فخر اور خود ستائی ہے اور ایک دوسرے پر مال و اولاد میں زیادتی کی طلب ہے، اس کی مثال بارش کی سی ہے کہ جس کی پیداوار کسانوں کو بھلی لگتی ہے پھر وہ خشک ہو جاتی ہے پھر تم اسے پک کر زرد ہوتا دیکھتے ہو پھر وہ ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے، اور آخرت میں (نافرمانوں کے لئے) سخت عذاب ہے اور (فرمانبرداروں کے لئے) اللہ کی جانب سے مغفرت اور عظیم خوشنودی ہے، اور دنیا کی زندگی دھوکے کی پونجی کے سوا کچھ نہیں ہے،
English Sahih:
Know that the life of this world is but amusement and diversion and adornment and boasting to one another and competition in increase of wealth and children – like the example of a rain whose [resulting] plant growth pleases the tillers; then it dries and you see it turned yellow; then it becomes [scattered] debris. And in the Hereafter is severe punishment and forgiveness from Allah and approval. And what is the worldly life except the enjoyment of delusion.
1 Abul A'ala Maududi
خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمہارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش ہو گئی تو اس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہو گئے پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہو گئی پھر وہ بھس بن کر رہ جاتی ہے اِس کے برعکس آخرت وہ جگہ ہے جہاں سخت عذاب ہے اور اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ہے دنیا کی زندگی ایک دھوکے کی ٹٹی کے سوا کچھ نہیں
2 Ahmed Raza Khan
جان لو کہ دنیا کی زندگی تو نہیں مگر کھیل کود اور آرائش اور تمہارا آپس میں بڑائی مارنا اور مال اور اولاد میں ایک دوسرے پر زیادتی چاہنا اس مینھ کی طرح جس کا اُگایاسبزہ کسانوں کو بھایا پھر سوکھا کہ تو اسے زرد دیکھے پھر روندن (پامال کیا ہوا) ہوگیا اور آخرت میں سخت عذاب ہے اور اللہ کی طرف سے بخشش اور اس کی رضا اور دنیا کا جینا تو نہیں مگر دھوکے کا مال
3 Ahmed Ali
جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا اور زیبائش اور ایک دوسرے پر آپس میں فخر کرنا اور ایک دوسرے پر مال اور اولاد میں زیادتی چاہنا ہے جیسے بارش کی حالت کہ اس کی سبزی نے کسانوں کو خوش کر دیا پھر وہ خشک ہو جاتی ہے تو تو اسے زرد شدہ دیکھتا ہے پھر وہ چورا چورا ہو جاتی ہے اور آخرت میں سخت عذاب ہے اور الله کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ہے اور دنیاکی زندگی سوائے دھوکے کے اسباب کے اور کیا ہے
4 Ahsanul Bayan
خوب جان رکھو کہ دنیا کی زندگی صرف کھیل تماشہ زینت اور آپس میں فخر (و غرور) اور مال اولاد میں ایک دوسرے سے اپنے آپ کو زیادہ بتلانا ہے، جیسے بارش اور اس کی پیداوار کسانوں کو اچھی معلوم ہوتی ہے پھر جب وہ خشک ہو جاتی ہے تو زرد رنگ میں اس کو تم دیکھتے ہو پھر وہ باکل چورا چورا ہوجاتی ہے اور آخرت میں سخت عذاب (۱) اور اللہ کی مغفرت اور رضامندی ہے (۲) اور دنیا کی زندگی بجز دھوکے کے سامان کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔
٢٠۔١ یعنی اہل کفر کے لئے جو دنیا کے کھیل کود میں ہی مصروف رہے اور اسی کو انہوں نے حاصل زندگی سمجھا۔
٢٠۔٢ یعنی اہل ایمان و طاعت کے لئے، جنہوں نے دنیا کو ہی سب کچھ نہیں سمجھا، بلکہ اسے عارضی، فانی اور دارالا متحان سمجھتے ہوئے اللہ کی ہدایات کے مطابق اس میں زندگی گزاری۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جان رکھو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا اور زینت (وآرائش) اور تمہارے آپس میں فخر (وستائش) اور مال واولاد کی ایک دوسرے سے زیادہ طلب (وخواہش) ہے (اس کی مثال ایسی ہے) جیسے بارش کہ (اس سے کھیتی اُگتی اور) کسانوں کو کھیتی بھلی لگتی ہے پھر وہ خوب زور پر آتی ہے پھر (اے دیکھنے والے) تو اس کو دیکھتا ہے کہ (پک کر) زرد پڑ جاتی ہے پھر چورا چورا ہوجاتی ہے اور آخرت میں (کافروں کے لئے) عذاب شدید اور (مومنوں کے لئے) خدا کی طرف سے بخشش اور خوشنودی ہے۔ اور دنیا کی زندگی تو متاع فریب ہے
6 Muhammad Junagarhi
خوب جان رکھو کہ دنیا کی زندگی صرف کھیل تماشا زینت اور آپس میں فخر (و غرور) اور مال واوﻻد میں ایک کا دوسرے سے اپنے آپ کو زیاده بتلانا ہے، جیسے بارش اور اس کی پیداوار کسانوں کو اچھی معلوم ہوتی ہے پھر جب وه خشک ہو جاتی ہے تو زرد رنگ میں اس کو تم دیکھتے ہو پھر وه بالکل چورا چورا ہو جاتی ہے اور آخرت میں سخت عذاب اور اللہ کی مغفرت اور رضامندی ہے اور دنیا کی زندگی بجز دھوکے کے سامان کے اور کچھ بھی تو نہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور خوب جان لو کہ دنیا کی زندگی کھیل تماشہ، ظاہری زیب و زینت، باہمی فخر و مباہات اورمال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش ہے اس کے سو اکچھ نہیں ہے۔ اس (کے عارضی ہو نے) کی مثال ایسی ہے جیسے بارش کہ اس کی نباتات (پیداوار) کافروں (کسانوں) کو حیرت میں ڈال دیتی ہے پھر وہ خشک ہو کر پکنے لگتی ہے تو تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہو گئی ہے پھر وہ ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے اور (کفار کیلئے) آخرت میں سخت عذاب ہے اور (مؤمنین کیلئے) اللہ کی طرف سے بخشش اور خوشنودی ہے اور دنیاوی زندگی دھوکے کے ساز و سامان کے سوا کچھ نہیں ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یاد رکھو کہ زندگی دنیا صرف ایک کھیل, تماشہ, آرائش, باہمی تفاخراور اموال و اولاد کی کثرت کا مقابلہ ہے اور بس جیسے کوئی بارش ہو جس کی قوت نامیہ کسان کو خوش کردے اور اس کے بعد وہ کھیتی خشک ہوجائے پھر تم اسے زرد دیکھو اور آخر میں وہ ریزہ ریزہ ہوجائے اور آخرت میں شدید عذاب بھی ہے اور مغفرت اور رضائے الۤہیبھی ہے اور زندگانی دنیا تو بس ایک دھوکہ کا سرمایہ ہے اور کچھ نہیں ہے
9 Tafsir Jalalayn
جان رکھو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشہ اور زینت (و آرائش) اور تمہارے آپس میں فخر (و ستائش) اور مال و اولاد کی ایک دوسرے سے زیادہ طلب (وخواہش) ہے (اس کی مثال ایسی ہے) جیسے بارش کہ (اس سے کھیتی اگتی ہے اور) کسانوں کو کھیتی بھلی لگتی ہے پھر وہ خوب زور پر آتی ہے پھر (اے دیکھنے والے ! ) تو اس کو دیکھتا ہے کہ (پک کر) زرد پڑجاتی ہے پھر چورا چورا ہوجاتی ہے اور آخرت میں (کافروں کے لئے) عذاب شدید اور (مومنوں کے لئے) خدا کی طرف سے بخشش اور خوشنودی ہے اور دنیا کی زندگی تو متاع فریب ہے
ترجمہ : خوب جان لو دنیا کی زندگی صرف کھیل تماشا زینت اور اپس میں فخر (غرور) اور مال و اولاد کو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر جتلانا ہے یعنی ان میں مشغول ہوجانا ہے، لیکن طاعت اور وہ چیزیں جو اس میں معاون ہوں (مثلاً ) توبہ، امور آخرت سے ہیں (مذکورہ چیزوں کی مثال) ان چیزوں کی مثال تیرے لئے تعجب خیز ہونے میں اور (جلدی) مضمحل ہونے میں ایسے ہے جیسے بارش سے پیدا ہونے والی کھیتی کسانوں کو خوش کرتی ہے پھر جب وہ خشک ہوجاتی ہے تو تم اس کو زرد دیکھتے ہو پھر وہ چورہ چورہ ہوجاتی ہے پھر ہوا کے ذریعہ نیست و نابود ہوجاتی ہے اور آخرت میں اس کے لئے سخت عذاب ہے جو آخرت پر دنیا کو ترجیح دیتا ہے اور اللہ کی طرف سے نصرت اور خوشنودی ہے اس شخص کے لئے جس نے دنیا کو آخرت پر ترجیح نہیں دی اور دنیا کی زندگی یعنی اس سے تمتع حاصل کرنا محض دھوکے کا سامان ہے تم اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور جنت کی طرف دوڑو جس کی وسعت آسمان اور زمین کے برابر ہے اگر ایک کو دوسرے کے ساتھ ملا لیا جائے اور عرض سے مراد وسعت ہے (نہ کہ چوڑائی) یہ ان کے لئے بنائی گئی ہے جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہے عطا کرے اور اللہ بڑے فضل والا ہے نہ دنیا میں کوئی مصیبت آتی ہے خشک سالی وغیرہ اور نہ خاص تمہارے نفس میں جیسا کہ مرض اور بچے (وغیرہ) کا فوت ہوجانا، مگر یہ کہ وہ کتاب یعنی لوح محفوظ میں لکھی ہوتی ہے ان نفوس کو پیدا کرنے سے پہلے اور نعمت میں بھی ایسا ہی کہا جائے گا (جیسا کہ مصیبت کے بارے میں کہا گیا) یہ کام اللہ کے لئے بالکل آسان ہے (لکیلا) میں کی فعل کا ناصب ہے ان کے معنی میں یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کی خبر دی تاکہ تم فوت شدہ چیز پر رنجیدہ نہ ہو اور نہ تم اس نعمت پر جو تم کو عطا کی گئی ہے اترانے کے طور پر خوشی کا اظہار کرو بلکہ نعمت پر شکریہ کے طور پر اظہار مسرت کرو (اتکم) مد کے ساتھ اعطاکم کے معنی میں ہے اور قصر کے ساتھ جاء کم منہ کے معنی میں ہے اور اللہ تعالیٰ عطا کردہ نعمت پر کسی اترانے والے اور اس نعمت کی وجہ سے لوگوں پر فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا اور جو لوگ خود (بھی) اپنے اوپر واجبات میں بخل کرتے ہیں اور اس میں لوگوں کو (بھی) بخل کی تعلیم دیتے ہیں تو ان کے لئے سخت وعید ہے (سنو) جو شخص بھی اپنے اوپر واجبات سے منہ پھیرے بلا شبہ اللہ ھو ضمیر فصل ہے اور ایک قرأت ھو کے سقوط کے ساتھ ہے، بےنیاز ہے اور اپنے اولیائ کی حمد کا سزا وار ہے یقیناہم نے اپنے رسول ملائکہ کو اپنے انبیاء کی طرف ججج قاطعہ دیکر بھیجا اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب بمعنی کتب اور ترازو (یعنی) عدل کو نازل کیا تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں اور ہم نے لوہے کو اتارا یعنی معاون سے نکالا جس میں شدید ہیبت ہے اس کے ذریعہ قتلا کیا جاتا ہے اور لوگوں کے لئے (اور بھی) بہت سے فوائد ہیں اور اس لئے بھی تاکہ اللہ مشاہدہ کے طور پر جان لے (لیعلم) کا عطف لیقوم الناس پر ہے کہ کون اس کی اور اس کے رسول کے بغیر دیکھے مدد کرتا ہے ؟ (یعنی) کون اس کے دین کی لوہے کے آلات وغیرہ کے ذریعہ مدد کرتا ہے ؟ (بالغیب) ینصرہ کی ہاء سے حال ہے یعنی دنیا میں ان سے غائبانہ طور پر، حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا اس کی مدد کرتے ہیں حالانکہ اس کو دیکھتے نہیں ہیں، بیشک اللہ تعالیٰ قوت والا اور زبردست ہے اس کو نصرت کی حاجت نہیں لیکن جو نصرت کرے گا اسی کو فائدہ دے گی۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ای الاشتغال فیھا اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مال اور اولاد فی نفسہ بری چیز نہیں ہیں بلکہ ان میں انہماک و اشتعال ناپسندیدہ اور ممنوع ہے۔
قولہ : ایھی اس میں اشارہ ہے کہ فی اعجابھاھی مبتداء محذوف کی خبر ہے۔
قولہ : الزراع اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کفار کافر بمعنی زارع (کسان) کی جمع ہے، حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا المراد بالکفار الزراع زہری نے کہا ہے کہ عرب زارع کو کافر کہتے ہیں اس لئے کہ وہ بیج کو مٹی میں چھپاتا ہے یعنی یکفر بمعنی یستر ہے۔
قولہ : التمتع فیھا کے اضافہ کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ ما الحیوۃ الدنیا حذف مضاف کے ساتھ مبتداء ہے تاکہ متاع الغرور کا حمل حیوۃ الدنیا پر ہو سکے۔
قولہ : والعرض، السعۃ یہ اس سوال کا جواب ہے کہ جنت کے عرض یعنی چوڑائی کا ذکر کیا گیا ہے مگر طول (لمبائی) کا ذکر نہیں کیا۔
جواب :۔ جواب کا ماحصل یہ ہے کہ یہاں العرض سے مراد چوڑائی نہیں ہے جو کہ طول کا مقابل ہے بلکہ مطلقاً وسعت مراد ہے جس میں طول و عرض دونوں شامل ہیں۔
قولہ : ویقال فی النعمۃ کذالک یعنی جس طرح نفس و مال میں مصیبتیں اور بلائیں منجانب اللہ آتی ہیں اسی طرح نعمتیں اور راحتیں بھی اسی کی تقدیر اور حکم سے آتی ہیں۔
قولہ : منہ ای من فضل اللہ
قولہ : لہ وعید شدید اس سے اشارہ ہے کہ الذین یبخلون الخ مبتداء ہے اس کی خبر لھو و عید شدید محذوف ہے۔
قولہ : ومن یتول، من شرطیہ ہے اس کا جواب محذوف ہے اور وہ فالو بال علیہ ہے۔
تفسیر و تشریح
اعلموانما الحیوۃ الدنیا لعب و لھو وزینۃ و تفاخر بینکم وتکاثر فی الاموال والا ولاد سابقہ آیات میں اہل جنت کے اور اور اہل جہنم کے حالات کا بیان تھا، جو آخرت میں پیش آئیں گے اور دائمی ہوں گے اور آخرت کی نعمتوں سے محرومی اور عذاب میں گرفتاری کا بڑا سبب انسان کے لئے دنیا کی فانی لذتیں اور ان میں انہماک، آخرت سے غفلت کا سبب ہے، اس لئے ان آیات میں اس فانی دنیا کا ناقابل اعتماد ہونا بیان کیا گیا ہے اور اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ یہ وہ حقیر اور ناقابل بھروسہ چیزیں ہیں کہ ان کی طرف مائل ہون ابھی عقل و دانشمندی کے خلاف ہے چہ جائیکہ ان پر مضمئن ہوجانا۔
اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے غفلت کے اسباب کو واقعاتی ترتیب کے ساتھ نہایت پر تاثیر طریقہ پر مشاہداتی مثال کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔
ابتدائے عمر سے آخر عمر تک جو کچھ دنیا میں ہوتا ہے اور جن میں دنیا دار منہمک اور مشغول اور اس پر خوش رہتے ہیں اس کا بیان ترتیب کے ساتھ یہ ہے کہ دنیا کی زندگی کا خلاصہ بہ ترتیب چند چیزیں اور چند حالات ہیں ان حالات کی قرآنی اور واقعاتی ترتیب یہ ہے، پہلے لعب پھر لہو، پھر زینت، پھر مال و اولاد کی کثرت پر فخر
لعب و کھیل ہے کہ جس میں فائدہ مطلق پیش نظر نہ ہو، جیسے بہت چھوٹے بچوں کی حرکتیں کہ ان میں سوائے تعب و مشقت کے کوئی فائدہ نہیں اور لہو وہ کھیل ہے جس کا اصل مقصد تو تفریح اور دل بہلانا اور وقت گذاری کا مشغلہ ہوتا ہے ضمنی طور پر کوئی ورزش یا دوسرا فائدہ بھی اس میں حاصل ہوجاتا ہے جیسے بڑے بچوں کے کھیل مثلاً گیند، بلا، تیراکی یا نشانہ بازی وغیرہ، حدیث میں نشانہ بازی اور تیر نے کی مشق کو اچھا کھیل فرمایا ہے، زینت، بدن اور لباس وغیرہ کی ظاہری ٹیپ ٹاپ اور بنائو سنگار، اس سے کوئی شرف ذاتی حاصل نہیں ہوتا اور نہ اس میں اضافہ ہوتا، ہر انسان اس دور سے گذرتا ہے۔
مطلب یہ کہ عمر کا بالکل ابتدائی حصہ تو خالص کھیل یعنی لعب میں گذرا، اس کے بعد لہو شروع ہوتا ہے، اس دور میں انسان لایعنی اور غیر اہم کاموں میں وقتک و ضائع کردیتا ہے، اس کے بعد اس کو اپنے تن بدن اور لباس کی زینت کی فکر ہونے لگتی ہے اس کے بعد تفاخر کا دور شروع ہوتا ہے ہر شخص میں اپنے ہمعصروں اور ہم عمروں سے آگے بڑھنے اور ان پر فخر جتلانے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے اور وہ بزعم خود اپنے نسب اور خاندان اور ظاہری وجاہت پر فخر کرنے لگتا ہے جو پارینہ قصوں اور بوسیدہ ہڈیوں پر فخر اور پدرم سلطان بود کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
انسان پر جتنے دور اس ترتیب سے آتے ہیں غور کرو تو ہر دور میں وہ اسی حال پر قانع اور اسی کو سب سے بہتر سمجھتا ہے، جب ایک دور سے دوسرے دور کی طرف منتقل ہوجاتا ہے تو سابقہ دور کی کمزوری اور لغویت سامنے آجاتی ہے، بچے ابتدائی دور میں جن کھیلوں کو اپنا سرمایہ زندگی اور سب سے بڑی دولت جانتے ہیں، اگر کوئی ان سے چھین لے تو ان کو ایسا ہی صدمہ ہوتا ہے جیسے کسی بڑے آدمی کا مال و اسباب اور کوٹھی بنگلہ چھین لیا جائے، لیکن اس دور سے آگے بڑھنے کے بعد اس کو حقیقت معلوم ہوجاتی ہے کہ جن چیزوں کو ہم نے اس وقت مقصود زندگی بنایا تھا وہ کچھ نہ تھیں، بچپن میں لعب پھر لہو میں مشغولیت رہی جوانی میں زینت اور تفاخر کا مشغلہ ایک مقصد بنا رہا، بڑھاپا آیا، اب مشغلہ تکا ثر فی الاموال والا ولاد کا ہوگیا کہ اپنے مال و دولت کے اعداد و شمار اور اولاد و نسل کی زیادتی پر خوش ہوتا رہے ان کو گنتا گنا تار ہے، مگر جیسے جو این کے زمانہ میں بچپن کی حرکتیں لغو معلوم ہونے لگی تھیں بڑھاپے میں پہنچ کر جوانی کی حرکتیں لغو اور ناقابل التفات نظر آنے لگیں اب بڑے میاں کی آخری منزل بڑھاپا ہے، اس میں مال کی بہتات، اولاد کی کثرت اور ان کے جاہ و منصب پر فخر سرمایہ زندگی کا مقصود اعظم بنا ہوا ہے، قرآن کریم کہتا ہے کہ یہ دور بھی گذر جانے والا ہے اگلا دور برزخ پھر قیامت ہے اس کی فکر کرو کہ وہی اصل ہے قرآن کریم نے اس ترتیب کے ساتھ ان سب مشاغل اور مقاصد دنیویہ کا زوال پذیر، ناقص، ناقابل اعتماد ہونا بیان فرما دیا اور آگے اس کو کھیتی کی ایک مثال سے واضح فرما دیا۔
دنیا کی ناپائیداری کی ایک مشاہداتی مثال :
کمثل غیث اعجب الکفار نباتہ ثم یھیج فتراہ مصفرا ثم یکون حطاماً اس آی میں دنیا کی بےثباتی اور ناپائیداری کو سرعت زوال میں کھیتی کی مثال سے سمجھایا ہے اس مثال سے جو بات ذہن نشین کرانے کی کوشش کی گئی وہ یہ ہے کہ یہ دنیا کی زندگی دراصل ایک عارضی زندگی ہے یہاں کی بہار بھی عارضی اور خزاں بھی عارضی، دل بہلاین کا سامان یہاں بہت کچھ ہے مگر وہ درحقیقت نہایت حقیر اور چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں، جنہیں آدمی کم عقلی کی وجہ سے بڑی چیز سمجھتا ہے حالانکہ یہاں بڑے سے بڑے اور لطف و لذت کا سامان جو حاصل ہونے ممکن ہیں وہ نہایت حقیر اور چند سال کی حیات مستعار تک محدود ہیں اور ان کا بھی حال یہ ہے کہ تقدیر کی ایک ہی گردش خود اسی دنیا میں ان سب پر جھاڑو پھیر دینے کے لئے کافی ہے۔
مثال کا خلاصہ :
اس مثال کا خلاصہ یہ ہے کہ جب باران رحمت کے چھینٹے مردہ اور خشک زمین پر پڑتے ہیں تو یہ مردہ زمین گل بوٹوں سے لالہ زار بن جاتی ہے اور نباتات کی روئیدگی سے ایسی ہری بھیر ہوجاتی ہے کہ معلوم ہوتا ہے قدرت نے زمرد سبز کا فرش بچھا دیا ہے، کاشتکار اپنی سرسبز اور شاداب لہلہاتی کھیتی کو دیکھ کر مست ومگن نظر آنے لگتا ہے، مگر آخر کار وہ پیلی اور زرد پڑنی شروع ہوجاتی ہے اور مرجھا کر خشک ہوجاتی ہے، آخر ایک دن وہ آتا ہے کہ بالکل چورا چورا سا ہوجاتی ہے، یہی مثال انسان کی ہے کہ شروع میں ترو تازہ حسین خوبصورت ہوتا ہے بچپن سے جوانی تک کے مراحل اسی طرح طے کرتا ہے، مگر آخر کار بڑھاپا آجاتا ہے جو آہستہ آہستہ بدن کی تازگی اور حسن و جمال سب ختم کردیتا یہ اور بالاخر مر کر مٹی ہوجاتا ہے، دنیا کی بےثباتی اور زوالپ ذیر ہونے کا بیان فرمانے کے بعد پھر اصل مقصود، آخرت کی فکر کی طرف توجہ دلانے کے لئے آخرت کے حال کا ذکر فرمایا۔
وفی الآخرۃ عذاب شدید و مغفرۃ من اللہ ورضوان یعنی آخرت میں ان دو حالوں میں سے ایک حال میں ضرور پہنچے گا، ایک حال کفارکا ہے ان کے لئے عذاب شدید ہے اور دوسرا حال مومنین کا ہے ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت اور رحمت ہے، عذاب شدید کے مقابلہ میں دو چیزیں ارشاد فرمائیں، غفرت اور رضوان جس میں اشارہ ہے کہ گناہوں اور خطائوں کی معافی ایک نعمت ہے جس کے نتیجے میں آدمی عذاب سے بچ جاتا ہے مگر یہاں صرف اتنا ہی نہیں بلکہ عذاب سے بچ کر پھر جنت کی دائمی نعمتوں سے بھی سرفراز ہونا ہے جس کا سبب رضوان یعنی حق تعالیٰ کی خوشنودی ہے۔
اس کے بعد دنیا کی حقیقت کو ان نایت مختصر الفاظ میں بیان فرمایا ہے وما الحیوۃ الدنیا الا متاع الغرور یعنی ان سب باتوں کو دیکھنے اور سمجھنے کے بعد ایک عاقل اور صاحب بصیرت انسان کے لئے اس نتیجے پر پہنچنا بالکل آسان ہے کہ دنیا دھوکے کی ٹٹی اور ناقابل اعتماد سرمایہ ہے اگر انسان اس بات کو سمجھتا ہے اور یقین رکھتا ہے تو اس کا لازمی اثر یہ ہونا چاہیے کہ دنیا کی لذتوں میں منہمک نہ ہو بلکہ آخرت کی فکر زیادہ کرے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک وتعالیٰ دنیا اور ان امور کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جن پر دنیا کا دارومدار ہے، نیز دنیا اور دنیا والوں کی غایت و انتہا بیان فرماتا ہے ۔دنیا بس لہو ولعب ہے جس کے ساتھ بدن کھیلتے ہیں اور اس کی وجہ سے قلب غافل ہوتے ہیں۔ جو کچھ دنیا میں موجود ہے اور ابنائے دنیا سے جو کچھ واقع ہوتا ہے وہ اس کا مصداق ہے۔ آپ ابنائے دنیا کو پائیں گے کہ انہوں نے اپنی عمر کے اوقات کو غفلت قلب میں صرف کیا اور وہ ذکر الہٰی اور آئندہ پیش آنے والے وعد و وعید سے غافل رہے، آپ اہل بیدار اور آخرت کے لیے عمل کرنے والوں کو ان کے برعکس دیکھیں گے کیونکہ ان کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر، اس کی معرفت اور اس کی محبت سے معمور ہیں۔ وہ اپنے اوقات کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے والے ایسے اعمال میں صرف کرتے ہیں جن کا فائدہ ان کو پہنچتا ہے اور دوسروں کو بھی پہنچتا ہے۔
اور فرمایا : ﴿وَّزِیْنَۃٌ﴾ یعنی لباس، مشروبات، سواریوں، گھروں، محلات اور دنیاوی جاہ وغیرہ کے ذریعے سے اپنے آپ کو آراستہ کرنا ہے۔ ﴿وَّتَفَاخُرٌ بَیْنَکُمْ﴾ ’’اور آپس میں فخر کرنا ہے۔‘‘ یعنی ان چیزوں کو رکھنے کے لیے ہر شخص دوسرے پر فخر کا اظہار کرنا چاہتا ہےاور وہ چاہتا ہے کہ ان امور میں وہی غالب رہے اور ان احوال میں بس اسی کو شہرت حاصل رہے۔ ﴿وَتَکَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ﴾ یعنی ہر ایک یہی چاہتا ہے کہ وہ مال اور اولاد میں دوسروں سے بڑھ کر ہو۔ دنیا سے محبت کرنے والے اور اس پر مطمئن رہنے والے اس کا مصداق ہیں۔ اس کے برعکس وہ شخص جو دنیا اور اس کی حقیقت کو جانتا ہے، وہ اسے مستقل ٹھکانا نہیں بناتا بلکہ اسے گزرگاہ خیال کرتا ہے، وہ ایسے اعمال میں سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اسے اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں اور ایسے وسائل اختیار کرتا ہے جو اسے اللہ تعالیٰ کے اکرام و تکریم کے گھر تک پہنچاتے ہیں۔ جب وہ کسی ایسے شخص کو دیکھتا ہے جو اس کے ساتھ دنیا، مال و متاع اور اولاد کی کثرت میں مقابلہ کرتا ہے تو یہ اعمال صالحہ میں اس کا مقابلہ کرتا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے اس دنیائے فانی کے لیے بارش کی مثال دی ہے، جو زمین پر برستی ہے اور اس کی نباتات کو سیراب کرتی ہے جس سے لوگ اور مویشی اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں، یہاں تک کہ جب زمین پوری طرح لہلہانے لگتی ہے اور اس کی نباتات کفار کو بھلی لگتی ہیں جن کی نظر وہمت صرف دنیا ہی پر مرکوز ہوتی ہے تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم آجاتا ہے جو انہیں ہلاک کردیتا ہے۔ یہ نباتات خشک ہو کر اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹ جاتی ہیں، گویا کہ وہاں کبھی ہریالی اگی تھی نہ وہاں کبھی کوئی خوبصورت منظر ہی دیکھا گیا تھا، یہی حال اس دنیا کا ہے، یہ اپنے چاہنے والے کے لیے نہایت خوش نما اور خوبصورت ہوتی ہے وہ جب بھی اس دنیا سے اپنا مطلوب حاصل کرنا چاہتا ہے، حاصل کرلیتا ہے، اور جب بھی وہ کسی دنیاوی معاملے کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس کے دروازوں کو کھلا ہوا پاتا ہے۔ جب تقدیر نے اس کو آلیا اور اس سے وہ سب کچھ چھین لیا جو اس کے ہاتھ میں تھا اور اس پر سے اس کے تسلط کو زائل کردیا، یا اسے خوشنما دنیا سے دور کردیا تو وہ اس دنیا سے خالی ہاتھ روانہ ہوا اور کفن کے سوا اس کے پاس کوئی زادراہ نہ تھا، پس ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جس کی آرزو کی انتہا یہ دنیا ہے اور اسی کے لیے اس کے اعمال اور اس کی بھاگ دوڑ تھی۔
رہا وہ عمل جو آخرت کے لیے کیا جاتا ہے تو یہ وہی عمل ہے جو فائدہ دیتا ہے اور عمل کرنے والے کے لیے ذخیرہ کردیا جاتا ہے اور ہمیشہ بندے کے ساتھ رہتا ہے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿وَفِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ ۙ وَّمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانٌ﴾ ’’اور آخرت میں سخت عذاب اور اللہ کی مغفرت اور رضا مندی ہے۔ ‘‘ یعنی آخرت کا حال ان دو امور سے خالی نہیں۔ اولا تو اس شخص کے لیے جہنم کی آگ میں سخت عذاب، جہنم کی بیڑیاں اور زنجیریں اور اس کی ہولناکیاں ہوں گی جس کی غایت مقصود اور منتہائے مطلوب محض دنیا ہے۔ پس وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جسارت کرتا ہے، آیات الہٰی کو جھٹلاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناسپاسی کرتا ہے۔ ثانیا : یا اس شخص کے لیے گناہوں کی بخشش، عقوبتوں کا ازالہ اور دار رضوان میں اللہ تعالیٰ کی رضا ہوگی، یہ سب اس شخص کے لیے ہے جس نے دنیا کی حقیقت کو پہچان لیا اور آخرت کے لیے بھرپور کوشش کی۔ یہ سب کچھ دنیا میں زہد اور آخرت میں رغبت کی دعوت دیتا ہے ،اس لیے فرمایا : ﴿وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ﴾ ’’اور دنیا کی زندگی تو محض متاع فریب ہے۔ ‘‘ یعنی یہ صرف ایسی متاع ہے جس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور اس سے ضرورتیں پوری کی جاتی ہیں، اس کی وجہ سے فریب میں صرف وہی لوگ مبتلا ہوتے اور اس پر مطمئن رہتے ہیں جو ضعیف العقل ہیں اور جن کو اللہ تعالیٰ کے بارے میں شیطان نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو مغفرت ،رضا اور جنت کی طرف مسابقت کا حکم دیا ہے اور یہ چیز مغفرت کے اسباب کے لیے کوشش کرنے، یعنی خالص توبہ اور نفع مند استغفار کرنے، گناہ اور گناہ کے اسباب سے دور رہنے ہی سے ممکن ہے، نیز عمل صالح کے ذریعے سے اللہ کی رضا کی طرف سبقت اور ان امور پر دوام کی حرص کرنے سے ممکن ہے جن پر اللہ تعالیٰ راضی ہے، یعنی خالق کی عبادت میں احسان اور مخلوق کو ہر لحاظ سے فائدہ پہنچا کر ان کے ساتھ حسن سلوک کے ذریعے ہی سے یہ چیز حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان اعمال کا ذکر فرمایا جو اس کے موجب ہیں۔ چنانچہ فرمایا :
11 Mufti Taqi Usmani
khoob samajh lo kay iss duniya wali zindagi ki haqeeqat bus yeh hai kay woh naam hai khel kood ka , zahiri sajawat ka , tumharay aik doosray per fakhar jataney ka , aur maal aur aulad mein aik doosray say barhney ki koshish kernay ka . iss ki misal aesi hai jaisay aik barish jiss say ugney wali cheezen kisano ko boht achi lagti hain , phir woh apna zor dikhati hai , phir tum uss ko dekhtay ho kay zard parr-gai hai , phir woh choora choora hojati hai . aur aakhirat mein ( aik toh ) sakht azab hai , aur ( doosray ) Allah ki taraf say bakhshish hai , aur khushnoodi aur duniya wali zindagi dhokay kay saman kay siwa kuch bhi nahi hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
دنیا کی زندگی صرف کھیل تماشا ہے
امر دنیا کی تحقیر و توہین بیان ہو رہی ہے کہ اہل دنیا کو سوائے لہو و لعب زینت و فخر اور اولاد و مال کی کثرت کی چاہت کے اور ہے بھی کیا ؟ جیسے اور آیت میں ہے ( زُيِّنَ للنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَاۗءِ وَالْبَنِيْنَ وَالْقَنَاطِيْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ۭ ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۚ وَاللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ 14) 3 ۔ آل عمران :14) ، یعنی لوگوں کے لئے ان کی خواہش کی چیزوں کو مزین کردیا گیا ہے جیسے عورتیں بچے وغیرہ پھر حیات دنیا کی مثال بیان ہو رہی ہے کہ اس کی تازگی فانی ہے اور یہاں کی نعمتیں زوال پذیر ہیں۔ غیث کہتے ہیں اس بارش کو جو لوگوں کی ناامیدی کے بعد برسے۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِنْۢ بَعْدِ مَا قَنَطُوْا وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهٗ ۭ وَهُوَ الْوَلِيُّ الْحَمِيْدُ 28) 42 ۔ الشوری :28) ، اللہ وہ ہے جو لوگوں کی ناامیدی کے بعد بارش برساتا ہے۔ پس جس طرح بارش کی وجہ سے زمین سے کھیتیاں پیدا ہوتی ہیں اور وہ لہلہاتی ہوئی کسان کی آنکھوں کو بھی بھلی معلوم ہوتی ہیں، اسی طرح اہل دنیا اسباب دنیوی پر پھولتے ہیں، لیکن نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہی ہری بھری کھیتی خشک ہو کر زرد پڑجاتی ہے پھر آخر سوکھ کر ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح دنیا کی ترو تازگی اور یہاں کی بہبودی اور ترقی بھی خاک میں مل جانے والی ہے، دنیا کی بھی یہی صورتیں ہوتی ہیں کہ ایک وقت جوان ہے پھر ادھیڑ ہے پھر بڑھیا ہے، ٹھیک اسی طرح خود انسان کی حالت ہے اس کے بچپن جوانی ادھیڑ عمر اور بڑھاپے کو دیکھتے جائیے پھر اس کی موت اور فنا کو سامنے رکھے، کہاں جوانی کے وقت اس کا جوش و خروش زور طاقت اور کس بل ؟ اور کہاں بڑھاپے کی کمزوری جھریاں پڑا ہوا جسم خمیدہ کمر اور بےطاقت ہڈیاں ؟ جیسے ارشاد باری ہے آیت (اللہ ھوالذی خلقکم من ضعف) اللہ وہ ہے جس نے تمہیں کمزوری کی حالت میں پیدا کیا پھر اس کمزوری کے بعد قوت دی پھر اس وقت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا کردیا وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے اور وہ عالم اور قادر ہے۔ اس مثال سے دنیا کی فنا اور اس کا زوال ظاہر کر کے پھر آخرت کے دونوں منظر دکھا کر ایک سے ڈراتا ہے اور دوسرے کی رغبت دلاتا ہے، پس فرماتا ہے عنقریب آنے والی قیامت اپنے ساتھ عذاب اور سزا کو لائے گی اور مغفرت اور رضامندی رب کو لائے گی، پس تم وہ کام کرو کہ ناراضگی سے بچ جاؤ اور رضا حاصل کرلو سزاؤں سے بچ جاؤ اور بخشش کے حقدار بن جاؤ، دنیا صرف دھوکے کی ٹٹی ہے اس کی طرف جھکنے والے پر آخر وہ وقت آجاتا ہے کہ یہ اس کے سوا کسی اور چیز کا خیال ہی نہیں کرتا اسی کی دھن میں روز و شب مشغول رہتا ہے بلکہ اس کمی والی اور زوال والی کمینی دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے لگتا ہے، شدہ شدہ یہاں تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ بسا اوقات آخرت کا منکر بن جاتا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں ایک کوڑے برابر جنت کی جگہ ساری دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے بہتر ہے۔ پڑھو قرآن فرماتا ہے کہ دنیا تو صرف دھوکے کا سامان ہے (ابن جریر) آیت کی زیادتی بغیر یہ حدیث صحیح میں بھی ہے واللہ اعلم۔ مسند احمد کی مرفوع حدیث میں ہے تم میں سے ہر ایک سے جنت اس سے بھی زیادہ قریب ہے جتنا تمہارا جوتی کا تسمہ اور اسی طرح جہنم بھی (بخاری) پس معلوم ہوا کہ خیر و شر انسان سے بہت نزدیک ہے اور اس لئے اسے چاہئے کہ بھلائیوں کی طرف سبقت کرے اور برائیوں سے منہ پھیر کر بھاگتا رہے۔ تاکہ گناہ اور برائیاں معاف ہوجائیں اور ثواب اور درجے بلند ہوجائیں۔ اسی لئے اس کے ساتھ ہی فرمایا دوڑو اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین کی جنس کے برابر ہے، جیسے اور آیت (وسارعوا الی مغفرۃ) میں ہے اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور جنت کی طرف سبقت کرو جس کی کشادگی کل آسمان اور ساری زمینیں ہیں جو پارسا لوگوں کے لئے بنائی گی ہیں۔ یہاں فرمایا یہ اللہ رسول پر ایمان لانے والوں کے لئے تیار کی گئی ہے، یہ لوگ اللہ کے اس فضل کے لائق تھے اسی لئے اس بڑے فضل و کرم والے نے اپنی نوازش کے لئے انہیں چن لیا اور ان پر اپنا پورا احسان اور اعلیٰ انعام کیا۔ پہلے ایک صحیح حدیث بیان ہوچکی ہے کہ مہاجرین کے فقراء نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مالدار لوگ تو جنت کے بلند درجوں کو اور ہمیشہ رہنے والی نعمتوں کو پا گئے آپ نے فرمایا یہ کیسے ؟ کہا نماز روزہ تو وہ اور ہم سب کرتے ہیں لیکن مال کی وجہ سے وہ صدقہ کرتے ہیں غلام آزاد کرتے ہیں جو مفلسی کی وجہ سے ہم سے نہیں ہوسکتا آپ نے فرمایا آؤ میں تمہیں ایک ایسی چیز بتاؤں کہ اس کے کرنے سے تم ہر شخص سے آگے بڑھ جاؤ گے مگر ان سے جو تمہاری طرح خود بھی اس کو کرنے لگیں، دیکھو تم ہر فرض نماز کے بعد تینتیس مرتبہ سبحان اللہ کہو اور اتنی ہی بار اللہ اکبر اور اسی طرح الحمد اللہ۔ کچھ دنوں بعد یہ بزرگ پھر حاضر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوئے اور کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے مال دار بھائیوں کو بھی اس وظیفہ کی اطلاع مل گئی اور انہوں نے بھی اسے پڑھنا شروع کردیا آپ نے فرمایا یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے۔