المجادلہ آية ۱۴
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْۗ مَّا هُمْ مِّنْكُمْ وَلَا مِنْهُمْۙ وَيَحْلِفُوْنَ عَلَى الْكَذِبِ وَهُمْ يَعْلَمُوْنَ
طاہر القادری:
کیا آپ نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جو ایسی جماعت کے ساتھ دوستی رکھتے ہیں جن پر اللہ نے غضب فرمایا، نہ وہ تم میں سے ہیں اور نہ اُن میں سے ہیں اور جھوٹی قَسمیں کھاتے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں،
English Sahih:
Have you not considered those who make allies of a people with whom Allah has become angry? They are neither of you nor of them, and they swear to untruth while they know [they are lying].
1 Abul A'ala Maududi
کیا تم نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کو جنہوں نے دوست بنایا ہے ایک ایسے گروہ کو جو اللہ کا مغضوب ہے؟ وہ نہ تمہارے ہیں نہ اُن کے، اور وہ جان بوجھ کر جھوٹی بات پر قسمیں کھاتے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جو ایسوں کے دوست ہوئے جن پر اللہ کا غضب ہے وہ نہ تم میں سے نہ ان میں سے وہ دانستہ جھوٹی قسم کھاتے ہیں
3 Ahmed Ali
کیا آپ نے ان کو نہیں دیکھا جنہوں نے اس قوم سے دوستی رکھی ہے جن پر الله کا غضب ہے نہ وہ تم میں سے ہیں اور نہ ان میں سے اوروہ جان بوجھ کر جھوٹ پر قسمیں کھاتے ہیں
4 Ahsanul Bayan
کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا؟ جنہوں نے اس سے دوستی کی جن پر اللہ غضبناک ہو چکا ہے (۱) نہ یہ (منافق) تمہارے ہی ہیں نہ ان کے ہیں (۲) باوجود علم کے پھر بھی جھوٹی قسمیں کھا رہے ہیں۔ (۳)
۱٤۔ ۱ جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا وہ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق یہود ہیں اور ان سے دوستی کرنے والے منافقین یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب مدینے میں منافقین کا بھی زور تھا اور یہودیوں کی سازشیں بھی عروج پر تھیں ابھی یہود کو جلا وطن نہیں کیا گیا تھا۔
١٤۔۲ یعنی یہ منافقین مسلمان ہیں اور نہ دین کے لحاظ سے یہودی ہیں۔ پھر یہ کیوں یہودیوں سے دوستی کرتے ہیں۔؟ صرف اس لیے کہ ان کے اور یہود کے درمیان نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی عداوت قدر مشترک ہے۔
۱٤۔۳ یعنی قسمیں کھا کر مسلمانوں کو باور کراتے ہیں کہ ہم تمہاری طرح مسلمان ہیں یا یہودیوں سے انکے رابطے نہیں ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو ایسوں سے دوستی کرتے ہیں جن پر خدا کا غضب ہوا۔ وہ نہ تم میں ہیں نہ ان میں۔ اور جان بوجھ کر جھوٹی باتوں پر قسمیں کھاتے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا؟ جنہوں نے اس قوم سے دوستی کی جن پر اللہ غضبناک ہوچکا ہے، نہ یہ (منافق) تمہارے ہی ہیں نہ ان کے ہیں باوجود علم کے پھر بھی جھوٹ پر قسمیں کھا رہے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
کیا تم نے ایسے لوگوں کو نہیں دیکھا جو ایسے لوگوں سے دوستی کرتے ہیں جن پر اللہ نے غضب نازل کیا ہے وہ نہ تم میں سے ہیں اور نہ ان میں سے ہیں اور وہ جانتے بوجھتے ہوئے جھوٹی بات پر قَسمیں کھاتے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا ہے جنہوں نے اس قوم سے دوستی کرلی ہے جس پر خدا نے عذاب نازل کیا ہے یہ نہ تم میں سے ہیں اور نہ ان میں سے اور یہ جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں اور خود بھی اپنے جھوٹ سے باخبر ہیں
9 Tafsir Jalalayn
بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو ایسوں سے دوستی کرتے ہیں جن پر خدا کا غضب ہوا وہ نہ تم میں ہیں نہ ان میں اور جان بوجھ کر جھوٹی باتوں پر قسمیں کھاتے ہیں
ترجمہ :۔ کیا آپ نے ان لوگوں منافقوں کو دیکھا جنہوں نے اس قوم سے دوستی کی جن پر اللہ کا غضب نازل ہوچکا ہے اور وہ یہود ہیں، یہ منافق نہ تم میں سے ہیں یعنی مومنین میں سے اور نہ ان میں سے یعنی یہود میں سے بلکہ مذبذب ہیں چھوٹی قسم کھاتے ہیں یعنی اس بات پر کہ وہ مومن ہیں حالانکہ وہ (خود بھی) جانتے ہیں کہ وہ (اپنی) اس قسم میں جھوٹے ہیں اللہ نے ان کے لئے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے بلاشبہ جو یہ نافرمانی کر رہے ہیں برا کر رہے ہیں ان لوگوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکا ہے یعنی اپنی جان اور اپنے مال کے لئے ڈھال بنا رکھا ہے سو قسموں کے ذریعہ مومنین کو اپنے ساتھ جہاد کرنے سے یعنی خود کو قتل ہونے اور اپنے مالوں کو لینے سے بچائے ہوئے ہیں سو ان کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے ان کے مال اور ان کی اولاد اللہ کے عذاب سے بچانے میں کچھ کام نہ آئیں گے (یغنی) اغناء سے ہے یہ تو جہنمی ہیں اس میں ہمیشہ ریں گے اس دن اکو یاد کرو جس دن اللہ اٹھا کھڑا کرے گا تو اس کے سامنے بھی قسمیں کھانے لگیں گے کہ وہ مومن ہیں جیسا کہ تمہارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں اور سمجھیں گے کہ دنیا کے مانند آخرت میں ان کی قسم سے ان کو کچھ فائدہ ہوگا یقین مانو کہ وہی جھوٹے ہیں ان کے شیطان کی اتباع کرنے کی وجہ سے شیطان نے ان پر غلبہ حاصل کرلیا ہے اور انہیں اللہ کا ذکر بھلا دیا ہے یہ شیطانی لشکر ہے اس کے متبعین ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ شیطانی لشکر ہی خسارہ میں ہے بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں یہی لوگ مغلوبین میں سے ہیں اللہ تعالیٰ لوح محفوظ میں لکھ چکا ہے یا فیصلہ کرچکا ہے کہ بیشک میں اور میرے رسول دلیل کے ذریعہ یا تلوار کے ذریعہ غالب رہیں گے، بیشک اللہ تعالیٰ بڑا زور آور اور غالب ہے اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت رکھنے والا (یعنی) سچی دوستی کرنے والا ہرگز نہ ائیں گے گو وہ مخالفت کرنے والے ان کے یعنی مومنین کے باپ داداے یا بیٹے یا بھائی یا ان کے خاندان والے ہی کیوں نہ ہوں بلکہ ان کو ضرر پہنچانے اور ایمان کی بابت ان سے قتال کرنے کا قصد رکھتے ہیں، جیسا کہ صحابہ کی ایک جماعت کے لئے ایسا واقعہ پیش آیا بھی ہے یہی لوگ جو ان سے سچی دوستی نہیں رکھتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے قلوب میں اللہ تعالیٰ نے ایمان ثابت کردیا ہے اور جن کی تائید اللہ تعالیٰ نے اپنے نور سے کی ہے اور جنہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اس میں رہیں گے اور اللہ ان سے ان کی طاعت کی وجہ سے راضی ہے اور وہ اللہ کے ثواب سے خوش ہیں، یہ خدائی لشکر ہے جو اس کے حکم کی اتباع کرتا ہے اور اس کی منع کردہ چیزوں سے اجتناب کرتا ہے آگاہ رہو اللہ کی جماعت ہی کامیاب لوگ ہیں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : الم ترالی الذین تولوا قوماً غضب اللہ علیھم یہ کلام مستانف ہے منافقین کی حالت پر اظہار تعجب کے لئے لایا گیا ہے جو کہ یہود سے دوستی رکھتے اور ان کی خیر خواہی کرتے تھے اور مسلمانوں کے راز یہودیوں کو پہنچا دیا کرتے تھے یہ نہ خلاص مسلمان تھے اور نہ کافر بلکہ ان کا ایک سرا اسلام سے ملا ہوا تھا اور دوسرا کفر سے، اس لئے کہ منافق بظاہر مسلمان تھے اور درباطن کافر، گویا کہ دو کشتیوں کے سوار تھے جس میں ہلاکت یقینی ہوتی ہے۔
قولہ : تولوا تولی سے مضارع جمع مذکر غائب وہ لوگ دوستی کرتے ہیں۔
قولہ : ماھو منکم ولامنھم یہ جملہ یا مستانفہ ہے یا پھر تولوا کے فاعل سے حال ہے۔
قولہ : وھم یعلمون یہ جملہ لحفون کی ضمیر سے حال ہے۔ ،
قولہ : ایمانھم جنۃ یہ دونوں اتخذوا کے مفعول ہیں، مطلب یہ ہے کہ ان منافقوں نے اپنی قسموں کو اپنے اور اپنے مالوں کی حفاظت کے لئے ڈھال اور وقایہ بنا رکھا ہے۔
قولہ : من عنذابہ یہ حذف مضاف کی طرف اشارہ ہے۔
قولہ : من الاغناء شیئاً کے بعد من الاغناء محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ یہ لن تغنی کا مفعول مطلق ہے ای لن تغنی اغناء شیئاً
قولہ : ویحسببون، یحلفون کی ضمیر فاعل سے حال ہے۔
قولہ : استحوذ یہ اصل کے مطابق فعل ماضی ہے، ای غلب واستولی وہ مسلط ہوگیا، اس نے قابو کرلیا، استحواذ سے ہے، بروزن استصواب یہ خلاف قیاس ہے اس لئے کہ قیاس استحاذ ہے، جیسا کہ استعاذ اور استقام وائو کوا لف سے بدل کر۔
قولہ : لاغلبن یہ اقسم، قسم محذوب کا جواب بھی ہوسکتا ہے اسی وجہ سے اس کے اوپر لام قسم داخل کیا گیا ہے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کتب اللہ قسم کے معنی میں ہوا اور لاغلبن جواب قسم ہو۔
تفسیر و تشریح
الم ترالی الذین تولوا قوماً غضب اللہ علیھم ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی بدحالی اور انجام کار عذاب شدید کا ذکر فرمایا : جو اللہ کے دشمنوں سے دوستی رکھیں گے، مغضوب علیھم جن پر خدا کا غضب نازل ہوا وہ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق یہود ہیں اور ان سے دوستی کرنے والے منافقین ہیں، یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جس وقت مدینہ میں منافقین کا زور تھا اور یہودیوں کی سازشیں بھی عروج پر تھیں، یہود کو مدینہ سے جلا وطن نہیں کیا گیا تھا۔
کفار خواہ مشرکین ہوں یا یہود و نصاریٰ یا دوسرے اقسام کے کافر، کسی مسلمان کے لئے ان سے دلی دوستی جائز نہیں، اس لئے کہ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں موالات کفار کی شدید ممانعت و مذمت وارد ہوئی ہے اور جو مسلمان کسی غیر مسلم سے دلی دوستی رکھے تو اس کو کفار ہی کے زمرے میں رکھنے کی ویعد آئی ہے مگر یہ بات یاد رہے کہ یہ سب احکام دلی اور قلبی دوستی کے متعلق ہیں۔
کفار کے ساتھ حسن سلوک، ہمدردی، خیر خواہی، ان پر احسان، حسن اخلاق سے پیش آنا، یا اقتصادی اور تجارتی معاملات ان سے کرنا دوستی کے مفہوم میں داخل نہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کا تعامل اس پر شاہد ہے، البتہ ان سب چیزوں کی رعایت ضروری ہے کہ ان کے ساتھ ایسے معاملات رکھنا جائز ہیں جو اپنے دین کے لئے مضر نہ ہوں اور نہ اسلام اور دیگر مسلمانوں کے لئے مضر ہوں۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک وتعالیٰ نے منافقین کے احوال کی شناعت وقباحت کے بارے میں آگاہ فرمایا ہے جو یہود ونصارٰی اور دیگر کفار سے دوستی اور موالات رکھتے ہیں ،جن پر اللہ تعالیٰ سخت ناراض ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی لعنت کے مستحق ٹھہرے ہیں، نیز اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ وہ اہل ایمان میں سے ہیں نہ کفار میں سے بلکہ ﴿مُّذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذَٰلِكَ لَا إِلَىٰ هَـٰؤُلَاءِ﴾( لنساء :4؍143) ”وہ ایمان اور کفر کے درمیان تذبذب کی حالت میں ہیں ،نہ پورے مومنین کی طرف ہیں نہ پورے کفار کی طرف۔“ پس وہ ظاہر وباطن میں مومن نہیں ہیں کیونکہ ان کا باطن کفار کے ساتھ ہے اور نہ وہ ظاہر وباطن میں کفار ہی کے ساتھ ہیں کیونکہ ان کا ظاہر اہل ایمان کے ساتھ ہے ۔یہ ہے ان کا وصف جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے۔ ان کا حال یہ ہے کہ وہ جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں :وہ قسم اٹھاتے ہیں کہ وہ مومن ہیں، حالانکہ وہ مومن نہیں ہیں ۔ان جھوٹے، فاجر وخائن لوگوں کی سزا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اس قدر سخت عذاب تیار کررکھا ہے جس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے نہ اس کا وصف معلوم کیا جاسکتا ہے۔ بہت ہی برے ہیں وہ اعمال جو ان سے صادر ہوتے ہیں، وہ ایسے اعمال بجالاتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے اور ان پر عذاب اور لعنت واجب ٹھہراتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
kiya tum ney unn ko nahi dekha jinhon ney aesay logon ko dost banaya huwa hai jinn per Allah ka ghazab hai-? yeh naa to tumharay hain , aur naa unn kay , aur yeh jantay boojhtay jhooti baaton per qasmen kha jatay hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
دوغلے لوگوں کا کردار
منافقوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ یہ اپنے دل میں یہود کی محبت رکھتے ہیں گو وہ اصل میں ان کے بھی حقیقی ساتھی نہیں ہیں حقیقت میں نہ ادھر کے ہیں نہ ادھر کے ہیں صاف جھوٹی قسمیں کھا جاتے ہیں، ایمانداروں کے پاس آ کر ان کی سے کہنے لگتے ہیں، رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر قسمیں کھا کر اپنی ایمانداری کا یقین دلاتے ہیں اور دل میں اس کے خلاف جذبات پاتے ہیں اور اپنی اس غلط گوئی کا علم رکھتے ہوئے بےدھڑک قسمیں کھالیتے ہیں، ان کی ان بداعمالیوں کی وجہ سے انہیں سخت تر عذاب ہوں گے اس دھوکہ بازی کا برابر بدلہ انہیں دیا جائے گا یہ تو اپنی قسموں کو اپنی ڈھالیں بنائے ہوئے ہیں اور اللہ کی راہ سے رک گئے ہیں، ایمان ظاہر کرتے ہیں کفر دل میں رکھتے ہیں اور قسموں سے اپنی باطنی بدی کو چھپاتے ہیں اور ناواقف لوگوں پر اپنی سچائی کا ثبوت اپنی قسموں سے پیش کر کے انہیں اپنا مداح بنا لیتے ہیں اور پھر رفتہ رفتہ انہیں بھی اپنے رنگ میں رنگ لیتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روک دیتے ہیں، چونکہ انہوں نے جھوٹی قسموں سے اللہ تعالیٰ کے پر از صد ہزار تکریم نام کی بےعزتی کی تھی اس لئے انہیں ذلت و اہانت والے عذاب ہوں گے جن عذابوں کو نہ ان کے مال دفع کرسکیں نہ اس وقت ان کی اولاد انہیں کچھ کام دے سکے گی یہ تو جہنمی بن چکے اور وہاں سے ان کا نکلنا بھی کبھی نہ ہوگا۔ قیامت والے دن جب ان کا حشر ہوگا اور ایک بھی اس میدان میں آئے بغیر نہ رہے گا سب جمع ہوجائیں گے تو چونکہ زندگی میں ان کی عادت تھی کہ اپنی جھوٹ بات کو قسموں سے سچ بات کردکھاتے تھے آج اللہ کے سامنے بھی اپنی ہدایت و استقامت پر بڑی بڑی قسمیں کھا لیں گے اور سمجھتے ہوں گے کہ یہاں بھی یہ چالاکی چل جائے گی مگر ان جھوٹوں کی بھلا اللہ کے سامنے چال بازی کہاں چل سکتی ہے ؟ وہ تو ان کا جھوٹا ہونا یہاں بھی مسلمانوں سے بیان فرما چکا۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے حجرے کے سائے میں تشریف فرما تھے اور صحابہ کرام بھی آس پاس بیٹھے تھے سایہ دار جگہ کم تھی بمشکل لوگ اس میں پناہ لئے بیٹھے تھے کہ آپ نے فرمایا دیکھو ابھی ایک شخص آئے گا جو شیطانی نگاہ سے دیکھتا ہے وہ آئے تو اس سے بات نہ کرنا تھوڑی دیر میں ایک کیری آنکھوں والا شخص آیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اپنے پاس بلا کر فرمایا کیوں بھئی تو اور فلاں اور فلاں مجھے کیوں گالیاں دیتے ہو ؟ یہ یہاں سے چلا گیا اور جن جن کا نام حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لیا تھا انہیں لے کر آیا اور پھر تو قسموں کا تانتا باندھ دیا کہ ہم میں سے کسی نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی بےادبی نہیں کی۔ اس پر یہ آیت اتری کہ یہ جھوٹے ہیں۔ یہی حال مشرکوں کا بھی دربار الٰہی میں ہوگا، قسمیں کھا جائیں گے کہ ہمیں اللہ کی قسم جو ہمارا رب ہے کہ ہم نے شرک نہیں کیا۔ پھر فرماتا ہے ان پر شیطان نے غلبہ پا لیا ہے اور ان کے دل کو اپنی مٹھی میں کرلیا ہے یاد اللہ ذکر اللہ سے انہیں دور ڈال دیا ہے۔ ابو داؤد کی حدیث میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جس کسی بستی یا جنگل میں تین شخص بھی ہوں اور ان میں نماز نہ قائم کی جاتی ہو تو شیطان ان پر چھا جاتا ہے پس تو جماعت کو لازم پکڑے رہ، بھیڑیا اسی بکری کو کھاتا ہے جو ریوڑ سے الگ ہو۔ حضرت سائب فرماتے ہیں یہاں مراد جماعت سے نماز کی جماعت ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ کے ذکر کو فراموش کرنے والے اور شیطان کے قبضے میں پھنس جانے والے شیطانی جماعت کے افراد ہیں، شیطان کا یہ لشکر یقیناً نامراد اور زیاں کار ہے۔