الحشر آية ۶
وَمَاۤ اَفَاۤءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ فَمَاۤ اَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَّلَا رِكَابٍ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهٗ عَلٰى مَنْ يَّشَاۤءُ ۗ وَاللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ
طاہر القادری:
اور جو (اَموالِ فَے) اللہ نے اُن سے (نکال کر) اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر لَوٹا دیئے تو تم نے نہ تو اُن (کے حصول) پر گھوڑے دوڑائے تھے اور نہ اونٹ، ہاں! اللہ اپنے رسولوں کو جِس پر چاہتا ہے غلبہ و تسلّط عطا فرما دیتا ہے، اور اللہ ہر چیز پر بڑی قدرت رکھنے والا ہے،
English Sahih:
And what Allah restored [of property] to His Messenger from them – you did not spur for it [in an expedition] any horses or camels, but Allah gives His messengers power over whom He wills, and Allah is over all things competent.
1 Abul A'ala Maududi
اور جو مال اللہ نے اُن کے قبضے سے نکال کر اپنے رسول کی طرف پلٹا دیے، وہ ایسے مال نہیں ہیں جن پر تم نے اپنے گھوڑے اور اونٹ دوڑائے ہوں، بلکہ اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے تسلط عطا فرما دیتا ہے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور جو غنیمت دلائی اللہ نے اپنے رسول کو ان سے تو تم نے ان پر نہ اپنے گھوڑے دوڑائے تھے اور نہ اونٹ ہاں اللہ اپنے رسولوں کے قابو میں دے دیتا ہے جسے چاہے اور اللہ سب کچھ کرسکتا ہے،
3 Ahmed Ali
اور جوکچھ الله نے اپنے رسول کو ان سے مفت دلا دیا سو تم نے اس پر گھوڑے نہیں دوڑائے اور نہ اونٹ لیکن الله اپنے رسولوں کو غالب کر دیتا ہے جس پر چاہے اور الله ہر چیز پر قادر ہے
4 Ahsanul Bayan
اور ان کا جو مال اللہ تعالٰی نے اپنے رسول کے ہاتھ لگایا ہے جس پر نہ تو تم نے گھوڑے دوڑائے ہیں اور نہ اونٹ بلکہ اللہ تعالٰی اپنے رسول کو جس پر چاہے غالب کر دیتا ہے (١) اور اللہ تعالٰی ہرچیز پر قادر ہے۔
٦۔١ بنو نضیر کا یہ علاقہ، جو مسلمانوں کے قبضے میں آیا، مدینے سے تین چار میل کے فاصلے پر تھا، یعنی مسلمانوں کو اس کے لئے لمبا سفر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ یعنی اس میں مسلمانوں کو اونٹ اور گھوڑے دوڑانے نہیں پڑے۔ اسطرح لڑنے کی بھی نوبت نہیں آئی اور صلح کے ذریعے سے یہ علاقہ فتح ہوگیا، یعنی اللہ نے اپنے رسول کو بغیر لڑے ان پر غالب فرما دیا۔ اس لئے یہاں سے حاصل ہونے والے مال کو فَیْء قرار دیا گیا، جس کا حکم غنیمت سے مختلف ہے یعنی جو مال بغیر لڑے دشمن چھوڑ کر بھاگ جائے یا صلح کے ذریعے سے حاصل ہو، اور جو مال باقاعدہ لڑائی اور غلبہ حاصل کرنے کے بعد ملے، وہ غنیمت ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جو (مال) خدا نے اپنے پیغمبر کو ان لوگوں سے (بغیر لڑائی بھڑائی کے) دلوایا ہے اس میں تمہارا کچھ حق نہیں کیونکہ اس کے لئے نہ تم نے گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے۔ اور خدا ہر چیز پر قادر ہے
6 Muhammad Junagarhi
اور ان کا جو مال اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ہاتھ لگایا ہے جس پر نہ تو تم نے اپنے گھوڑے دوڑائے ہیں اور نہ اونٹ بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو جس پر چاہے غالب کر دیتا ہے، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور اللہ نے ان لوگوں (بنی نضیر) سے جو مال بطور فئے اپنے رسول(ص) کو دلوایا تو تم لوگوں نے اس پر نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ پس اس میں تمہارا کوئی حق نہیں ہے لیکن اللہ اپنے رسولوں(ع) کو جس پر چاہتا تسلط دے دیتا ہے اور اللہ ہر چیز پر بڑی قدرت رکھتا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور خدا نے جو کچھ ان کی طرف سے مال غنیمت اپنے رسول کو دلوایا ہے جس کے لئے تم نے گھوڑے یا اونٹ کے ذریعہ کوئی دوڑ دھوپ نہیں کی ہے.... لیکن اللہ اپنے رسولوں کو غلبہ عنایت کرتا ہے اور وہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور جو (مال) خدا نے اپنے بیغمبر کو ان لوگوں سے (بغیر لڑائی بھڑائی کے) دلوایا ہے اس میں تمہارا کچھ حق نہیں کیونکہ اس کے لئے نہ تم نے گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے اور خدا ہر چیز پر قادر ہے
10 Tafsir as-Saadi
یہ ہے بنونضیر کا حال، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا کے اندر کیسے سزا دی؟ پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر کیا جن کی طرف بنونضیر کا مال ومتاع منتقل ہوا، چنانچہ فرمایا: ﴿وَمَآ اَفَاءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْہُمْ﴾ ”اور جو مال اللہ نے اپنے رسول کو ان سے دلایا۔“ یعنی اس بستی کے لوگوں سے، اس سے مرادبنونضیر کے لوگ ہیں۔ ﴿فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّلَا رِکَابٍ﴾ یعنی تم نے گھوڑے دوڑائے ہیں نہ لشکر اکٹھے کیے ہیں، یعنی تمہیں لشکر جمع کرنے کی مشقت نہیں اٹھانا پڑی اور نہ تمہارے مویشیوں ہی کو مشقت کا سامنا کرنا پڑا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان (یہودیوں )کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور وہ تمہارے سامنے درگزر اور عفو کی درخواست کرتے ہوئے حاضر ہوئے۔ اس لیے فرمایا :﴿وَّلٰکِنَّ اللّٰہَ یُسَلِّــطُ رُسُلَہٗ عَلٰی مَنْ یَّشَاءُ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ﴾ ”لیکن اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے غلبہ دیتا ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔“اور اس کی قدرت کاملہ یہ ہے کہ کوئی بچنے والا اس سے بچ سکتا ہے نہ قوت والا اس کے مقابلے میں غالب آسکتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur Allah ney apney Rasool ko unn ka jo maal bhi fey kay tor per dlwaya , uss kay liye tum ney naa apney ghorray dorraye , naa oont , lekin Allah apney payghumberon ko jiss per chahta hai , tasallut ata farma deta hai . aur Allah her cheez per poori qudrat rakhney wala hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
مال فے کی تعریف وضاحت اور حکم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعمیل ہی اصل ایمان ہے۔
فے کس مال کو کہتے ہیں ؟ اس کی صفت کیا ہے ؟ اس کا حکم کیا ہے ؟ یہ سب یہاں بیان ہو رہا ہے۔ فے اس مال کو کہتے ہیں جو دشمن سے لڑے بھڑے بغیر مسلمانوں کے قبضے میں آجائے، جیسے بنو نضیر کا یہ مال تھا جس کا ذکر اوپر گذر چکا کہ مسلمانوں نے اپنے گھوڑے یا اونٹ اس پر نہیں دوڑائے تھے یعنی ان کفار سے آمنے سامنے کوئی مقابلہ اور لڑائی نہیں ہوئی بلکہ انکے دل اللہ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہیبت سے بھر دیئے اور وہ اپنے قلعہ خالی کر کے قبضہ میں آگئے، اسے " فے " کہتے ہیں اور یہ مال حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہوگیا، آپ جس طرح چاہیں اس میں تصرف کریں، پس آپ نے نیکی اور اصلاح کے کاموں میں اسے خرچ کیا جس کا بیان اس کے بعد والی اور دوسری روایت میں ہے۔ پس فرماتا ہے کہ بنو نضیر کا جو مال بطور فے کے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو دلوایا جس پر مسلمانوں نے اپنے گھوڑے یا اونٹ دوڑائے نہ تھے بلکہ صرف اللہ نے اپنے فضل سے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس پر غلبہ دے دیا تھا اور اللہ پر یہ کیا مشکل ہے ؟ وہ تو ہر اک چیز پر قدرت رکھتا ہے نہ اس پر کسی کا غلبہ نہ اسے کوئی روکنے والا بلکہ سب پر غالب وہی، سب اس کے تابع فرمان۔ پھر فرمایا کہ جو شہر اس طرح فتح کئے جائیں ان کے مال کا یہی حکم ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے اپنے قبضہ میں کریں گے پھر انہیں دیں گے جن کا بیان اس آیت میں ہے اور اس کے بعد والی آیت میں ہے، یہ ہے فے کے مال کا مصرف اور اس کے خرچ کا حکم۔ چناچہ حدیث شریف میں ہے کہ بنو نضیر کے مال بطور فے کے خاص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہوگئے تھے آپ اس میں سے اپنے گھر والوں کو سال بھر تک کا خرچ دیتے تھے اور جو بچ رہتا اسے آلات جنگ اور سامان حرب میں خرچ کرتے (سنن و مسند وغیرہ) ابو داؤد میں حضرت مالک بن اوس سے مروی ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب نے مجھے دن چڑھے بلایا میں گھر گیا تو دیکھا کہ آپ ایک چوکی پر جس پر کوئی کپڑا وغیرہ نہ تھا بیٹھے ہوئے ہیں، مجھے دیکھ کر فرمایا تمہاری قوم کے چند لوگ آئے ہیں میں نے انہیں کچھ دیا ہے تم اسے لے کر ان میں تقسیم کردو میں نے کہا اچھا ہوتا اگر جناب کسی اور کو یہ کام سونپتے آپ نے فرمایا نہیں تم ہی کرو میں نے کہا بہت بہتر، اتنے میں آپ کا داروغہ یرفا آیا اور کہا اے امیر المومنین میرا اور ان کا فیصلہ کیجئے یعنی حضرت علی کا، تو پہلے جو چاروں بزرگ آئے تھے ان میں سے بھی بعض نے کہا ہاں امیر المومنین ان دونوں کے درمیان فیصلہ کر دیجئے اور انہیں راحت پہنچایئے، حضرت مالک فرماتے ہیں اس وقت میرے دل میں خیال آیا کہ ان چاروں بزرگوں کو ان دونوں حضرات نے ہی اپنے سے پہلے یہاں بھیجا ہے، حضرت عمر (رض) نے فرمایا ٹھہرو، پھر ان چاروں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا تمہیں اس اللہ کی قسم جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے ہمارا ورثہ بانٹا نہیں جاتا ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے ان چاروں نے اس کا اقرار کیا، پھر آپ ان دونوں کی طرف متوجہ ہوئے اور اسی طرح قسم دے کر ان سے بھی یہی سوال کیا اور انہوں نے بھی اقرار کیا، پھر آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ایک خاصہ کیا تھا جو اور کسی کے لئے نہ تھا پھر آپ نے یہی آیت ( وَمَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَّلَا رِكَابٍ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ يُسَلِّــطُ رُسُلَهٗ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ) 59 ۔ الحشر :6) ، پڑھی اور فرمایا بنو نضیر کے مال اللہ تعالیٰ نے بطور فے کے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیئے تھے اللہ کی قسم نہ تو میں نے تم پر اس میں کسی کو ترجیح دی اور نہ ہی خود ہی اس میں سے کچھ لے لیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنا اور اپنی اہل کا سال بھر کا خرچ اس میں سے لے لیتے تھے اور باقی مثل بیت المال کے کردیتے تھے پھر ان چاروں بزرگوں کو اسی طرح قسم دے کر پوچھا کہ کیا تمہیں یہ معلوم ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں، پھر ان دونوں سے قسم دے کر پوچھا اور انہوں نے ہاں کہی۔ پھر فرمایا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فوت ہونے کے بعد ابوبکر والی بنے اور تم دونوں خلیفہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے، اے عباس تم تو اپنی قرابت داری جتا کر اپنے چچا زاد بھائی کے مال میں سے اپنا ورثہ طلب کرتے تھے اور یہی یعنی حضرت علی اپنا حق جتا کر اپنی بیوی یعنی حضرت فاطمہ کی طرف سے ان کے والد کے مال سے ورثہ طلب کرتے تھے جس کے جواب میں تم دونوں سے حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے، ہمارا ورثہ بانٹا نہیں جاتا ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ حضرت ابوبکر یقیناً راست گو، نیک کار، رشد و ہدایت والے اور تابع حق تھے، چناچہ اس مال کی ولایت حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے کی، آپ کے فوت ہوجانے کے بعد آپ کا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خلیفہ میں بنا اور وہ مال میری ولایت میں رہا، پھر آپ دونوں ایک صلاح سے میرے پاس آئے اور مجھ سے اسے مانگا، جس کے جواب میں میں نے کہا کہ اگر تم اس شرط سے اس مال کو اپنے قبضہ میں کرو کہ جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے خرچ کرتے تھے تم بھی کرتے رہو گے تو میں تمہیں سونپ دیتا ہوں، تم نے اس بات کو قبول کیا اور اللہ کو بیچ میں دے کر تم نے اس مال کی ولایت لی، پھر تم جو اب آئے ہو تو کیا اس کے سوا کوئی اور فیصلہ چاہتے ہو ؟ قسم اللہ کی قیامت تک اس کے سوا اس کا کوئی فیصلہ میں نہیں کرسکتا، ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ اگر تم اپنے وعدے کے مطابق اس مال کی نگرانی اور اس کا صرف نہیں کرسکتے تو تم اسے پھر لوٹا دو تاکہ میں آپ اسے اسی طرح خرچ کروں جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کرتے تھے اور جس طرح خلافت صدیقی میں اور آج تک ہوتا رہا۔ مسند احمد میں ہے کہ لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے کھجوروں کے درخت وغیرہ دے دیا کرتے تھے یہاں تک کہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کے اموال آپ کے قبضہ میں آئے تو اب آپ نے ان لوگوں کو ان کو دیئے ہوئے مال واپس دینے شروع کئے، حضرت انس کو بھی ان کے گھر والوں نے آپ کی خدمت میں بھیجا کہ ہمارا دیا ہوا بھی سب یا جتنا چاہیں ہمیں واپس کردیں میں نے جا کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یاد دلایا آپ نے وہ سب واپس کرنے کو فرمایا، لیکن یہ سب حضرت ام ایمن کو اپنی طرف سے دے چکے تھے انہیں جب معلوم ہوا کہ یہ سب میرے قبضے سے نکل جائے گا تو انہوں نے آ کر میری گردن میں کپڑا ڈال دیا اور مجھ سے فرمانے لگیں اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تجھے یہ نہیں دیں گے آپ تو مجھے وہ سب کچھ دے چکے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ام ایمن تم نہ گھبراؤ ہم تمہیں اس کے بدلے اتنا اتنا دیں گے لیکن وہ نہ مانیں اور یہی کہے چلی گئیں، آپ نے فرمایا اچھا اور اتنا اتنا ہم تمہیں دیں گے لیکن وہ اب بھی خوش نہ ہوئیں اور وہی فرماتی رہیں، آپ نے فرمایا لو ہم تمہیں اتنا اتنا اور دیں گے یہاں تک کہ جتنا انہیں دے رکھا تھا اس سے جب تقریباً دس گنا زیادہ دینے کا وعدہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تب آپ راضی ہو کر خاموش ہوگئیں اور ہمارا مال ہمیں مل گیا، یہ فے کا مال جن پانچ جگہوں میں صرف ہوگا یہی جگہیں غنیمت کے مال کے صرف کرنے کی بھی ہیں اور سورة انفال میں ان کی پوری تشریح و توضیح کے ساتھ کامل تفسیر الحمد اللہ گذر چکی ہے اس لئے ہم یہاں بیان نہیں کرتے۔ پھر فرماتا ہے کہ مال فے کے یہ مصارف ہم نے اس لئے وضاحت کے ساتھ بیان کردیئے کہ یہ مالداروں کے ہاتھ لگ کر کہیں ان کا لقمہ بن بن جائے اور اپنی من مانی خواہشوں کے مطابق وہ اسے اڑائیں اور مسکینوں کے ہاتھ نہ لگے۔ پھر فرماتا ہے کہ جس کام کے کرنے کو میرے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم سے کہیں تم اسے کرو اور جس کام سے وہ تمہیں روکیں تم اس سے رک جاؤ۔ یقین مانو کہ جس کا وہ حکم کرتے ہیں وہ بھلائی کا کام ہوتا ہے اور جس سے وہ روکتے ہیں وہ برائی کا کام ہوتا ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک عورت حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس آئی اور کہا آپ گودنے سے (یعنی چمڑے پر یا ہاتھوں پر عورتیں سوئی وغیرہ سے گدوا کر جو تلوں کی طرح نشان وغیرہ بنا لیتی ہیں) اس سے اور بالوں میں بال ملا لینے سے (جو عورتیں اپنے بالوں کو لمبا ظاہر کرنے کے لئے کرتی ہیں) منع فرماتے ہیں تو کیا یہ ممانعت کتاب اللہ میں ہے یا حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ؟ آپ نے فرمایا کتاب اللہ میں بھی اور حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں بھی دونوں میں اس ممانعت کو پاتا ہوں اس عورت نے کہا اللہ کی قسم دونوں لوحوں کے درمیان جس قدر قرآن شریف ہے میں نے سب پڑھا ہے اور خوب دیکھ بھال کی ہے لیکن میں نے تو کہیں اس ممانعت کو نہیں پایا آپ نے فرمایا کیا تم نے آیت (وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۘ) 59 ۔ الحشر :7) نہیں پڑھی ؟ اس نے کہا ہاں یہ تو پڑھی ہے۔ فرمایا (قرآن سے ثابت ہوا کہ حکم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ممانعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قابل عمل ہیں اب سنو) خود میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ آپ نے گودنے سے اور بالوں میں بال ملانے سے اور پیشانی اور چہرے کے بال نوچنے سے منع فرمایا ہے (یہ بھی عورتیں اپنی خوبصورتی ظاہر کرنے کے لئے کرتی ہیں اور اس زمانے میں تو مرد بھی بکثرت کرتے ہیں) اس عورت نے کہا حضرت یہ تو آپ کی گھر والیاں بھی کرتی ہیں آپ نے فرمایا جاؤ دیکھو، وہ گئیں اور دیکھ کر آئیں اور کہنے لگیں حضرت معاف کیجئے غلطی ہوئی ان باتوں میں سے کوئی بات آپ کے گھرانے والیوں میں میں نے نہیں دیکھی، آپ نے فرمایا کیا تم بھول گئیں کہ اللہ کے نیک بندے (حضرت شعیب (علیہ السلام) نے کیا فرمایا تھا (وَمَآ اُرِيْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰي مَآ اَنْهٰىكُمْ عَنْهُ 88) 11 ۔ ھود :88) یعنی میں یہ نہیں چاہتا کہ تمہیں جس چیز سے روکوں خود میں اس کا خلاف کروں، مسند احمد اور بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا اللہ تعالیٰ لعنت بھیجتا ہے اس عورت پر جو گدوائے اور جو گودے اور جو اپنی پیشانی کے بال لے اور جو خوبصورتی کے لئے اپنے سامنے کے دانتوں کی کشادگی کرے اور اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی پیدائش کو بدلنا چاہے، یہ سن کر بنواسد کی ایک عورت جن کا نام ام یعقوب تھا آپ کے پاس آئیں اور پوچھا کہ کیا آپ نے اس طرح فرمایا ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں میں اس پر لعنت کیوں نہ کروں جس پر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعنت کی ہے ؟ اور جو قرآن میں موجود ہے، اس نے کہا میں نے پورا قرآن جتنا بھی دونوں پٹھوں کے درمیان ہے اول سے آخر تک پڑھا ہے لیکن میں نے تو یہ حکم کہیں نہیں پایا، آپ نے فرمایا اگر تم سوچ سمجھ کر پڑھتیں تو ضرور پاتیں کیا تم نے آیت (وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۘ) 59 ۔ الحشر :7) نہیں پڑھی ؟ اس نے کہا ہاں یہ تو پڑھی ہے پھر آپ نے وہ حدیث سنائی، اس نے آپ کے گھر والوں کی نسبت کہا پھر دیکھ کر آئیں اور عذر خواہی کی اس وقت آپ نے فرمایا اگر میری گھر والی ایسا کرتی تو میں اس سے ملنا چھوڑ دیتا، بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب میں تمہیں کوئی حکم دوں تو جہاں تک تم سے ہو سکے اسے بجا لاؤ اور جب میں تمہیں کسی چیز سے روکوں تو رک جاؤ، نسائی میں حضرت عمر (رض) عنہی اور حضرت ابن عباس (رض) ما سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کدو کے برتن میں، سبز ٹھلیا میں، کھجور کی لکڑی کے کریدے ہوئے برتن میں اور رال کی رنگی ہوئی ٹھلیا میں نبیذ بنانے سے یعنی کھجوریا کشمش وغیرہ کے بھگو کر رکھنے سے منع فرمایا ہے پھر اسی آیت کی تلاوت کی (یاد رہے کہ یہ حکم اب باقی نہیں ہے۔ مترجم) پھر فرماتا ہے اللہ کے عذاب سے بچنے کے لئے اس کے احکام کی ممنوعات سے بچتے رہو، یاد رکھو کہ اس کی نافرمانی مخالفت انکار کرنے والوں کو اور اس کے منع کئے ہوئے کاموں کے کرنے والوں کو وہ سخت سزا اور درد ناک عذاب دیتا ہے۔