الانعام آية ۱۲۲
اَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَاَحْيَيْنٰهُ وَجَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا يَّمْشِىْ بِهٖ فِى النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِى الظُّلُمٰتِ لَـيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا ۗ كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلْكٰفِرِيْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ
طاہر القادری:
بھلا وہ شخص جو مُردہ (یعنی ایمان سے محروم) تھا پھر ہم نے اسے (ہدایت کی بدولت) زندہ کیا اور ہم نے اس کے لئے (ایمان و معرفت کا) نور پیدا فرما دیا (اب) وہ اس کے ذریعے (بقیہ) لوگوں میں (بھی روشنی پھیلانے کے لئے) چلتا ہے اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جس کا حال یہ ہو کہ (وہ جہالت اور گمراہی کے) اندھیروں میں (اس طرح گھِرا) پڑا ہے کہ اس سے نکل ہی نہیں سکتا۔ اسی طرح کافروں کے لئے ان کے وہ اعمال (ان کی نظروں میں) خوش نما دکھائے جاتے ہیں جو وہ انجام دیتے رہتے ہیں،
English Sahih:
And is one who was dead and We gave him life and made for him light by which to walk among the people like one who is in darkness, never to emerge therefrom? Thus it has been made pleasing to the disbelievers that which they were doing.
1 Abul A'ala Maududi
کیا وہ شخص جو پہلے مُردہ تھا پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اجالے میں وہ لوگوں کے درمیان زندگی کی راہ طے کرتا ہے اُس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح اُن سے نہ نکلتا ہو؟ کافروں کے لیے تو اسی طرح ان کے اعمال خوشنما بنا دیے گئے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
اور کیا وہ کہ مردہ تھا تو ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کے لیے ایک نور کردیا جس سے لوگوں میں چلتا ہے وہ اس جیسا ہوجائے گا جو اندھیریوں میں ہے ان سے نکلنے والا نہیں، یونہی کافروں کی آنکھ میں ان کے اعمال بھلے کردیے گئے ہیں،
3 Ahmed Ali
بھلا وہ شخص جو مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کر دیا اور ہم نے اسے روشنی دی کہ اسے لوگوں میں لیے پھرتا ہےوہ اس کے برابر ہو سکتا ہے جو اندھیروں میں پڑا ہو وہاں سے نکل نہیں سکتا اسی طرح کافروں کی نظر میں ان کے کام آراستہ کر دیئے گئے ہیں
4 Ahsanul Bayan
ایسا شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کر دیا اور ہم نے اس کو ایک ایسا نور دیا کہ وہ اس کو لئے ہوئے آدمیوں میں چلتا پھرتا ہے کیا ایسا شخص اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے؟ جو تاریکیوں سے نکل ہی نہیں پاتا (١) اسی طرح کافروں کو ان کے اعمال خوش نما معلوم ہوا کرتے ہیں۔
١٢٢۔١ اس آیت میں اللہ تعالٰی نے کافروں کو میت (مردہ) مومن کو حی (زندہ) قرار دیا۔ اس لئے کہ کافر کفرو ضلالت کی تاریکیوں میں بھٹکتا پھرتا ہے اور اس سے نکل ہی نہیں پاتا جس کا نتیجہ ہلاکت و بربادی ہے۔ اور مومن کے دل کو اللہ تعالٰی ایمان کے ذریعے سے زندہ فرماتا ہے جس سے زندگی کی راہیں اس کے لئے روشن ہو جاتی ہیں اور وہ ایمان اور ہدایت کے راستے پر گامزن ہو جاتا ہے، جس کا نتیجہ کامیابی اور کامرانی ہے۔ یہ وہی مضمون ہے جو حسب ذیل آیات میں بیان کیا گیا ہے۔ سورہ بقرہ ۲۵۷، سورہ ھود ۲٤، سورہ فاطر، ۱۹،۲۲،
5 Fateh Muhammad Jalandhry
بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا اور اس کے لیے روشنی کر دی جس کے ذریعے سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو اندھیرے میں پڑا ہوا ہو اور اس سے نکل ہی نہ سکے اسی طرح کافر جو عمل کر رہے ہیں وہ انہیں اچھے معلوم ہوتے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
ایسا شخص جو پہلے مرده تھا پھر ہم نے اس کو زنده کردیا اور ہم نے اس کو ایک ایسا نور دے دیا کہ وه اس کو لئے ہوئے آدمیوں میں چلتا پھرتا ہے۔ کیا ایسا شخص اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے؟ جو تاریکیوں سے نکل ہی نہیں پاتا۔ اسی طرح کافروں کو ان کے اعمال خوش نما معلوم ہوا کرتے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور کیا وہ شخص جو (پہلے) مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کے لئے ایک نور بنایا جس کے ساتھ وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہے اور ان سے نکل نہیں سکتا۔ جس طرح مؤمن کی نگاہ میں ایمان آراستہ کیا گیا ہے اسی طرح کافروں کی نگاہ میں ان کے اعمال آراستہ کر دیئے گئے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا جو شخص مفِدہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کیااوراس کے لئے ایک نور قرار دیا جس کے سہارے وہ لوگوں کے درمیان چلتا ہے اس کی مثال اس کی جیسی ہوسکتی ہے جو تاریکیوں میں ہو اور ان سے نکل بھی نہ سکتا ہو -اسی طرح کفار کے لئے ان کے اعمال کو آراستہ کردیا گیا ہے
9 Tafsir Jalalayn
بھلا جو (پہلے) مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا اور اس کے لیے روشنی کردی جس کے ذریعے سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہوسکتا ہے جو اندھیرے میں پڑا ہوا ہو اس نکل ہی نہ سکے ؟ اس طرح کافر جو عمل کر رہے ہیں وہ انھیں اچھے معلوم ہوتے ہیں۔
آیت نمبر ١٢٢ تا ١٢٩
ترجمہ : اور (آئندہ آیت) ابوجہل وغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی، کیا وہ شخص جو کفر کی وجہ سے مردہ ہو پھر ہم نے اس کو ہدایت کے ذریعہ زندہ کردیا ہو اور اس کو ایسا نور دیا ہو کہ جس کی روشنی میں لوگوں کے درمیان چلتا ہو (یعنی) اس نور کے ذریعہ حق و باطل کو دیکھتا ہو، اور وہ (نور) ایمان ہے اس جیسا لفظ (مثل) زائد ہے ہوسکتا ہے کہ جو تاریکیوں میں بھٹک رہا ہو ؟ تاریکیوں سے نکل ہی نہ پاتا ہو اور وہ کافر ہے، نہیں ہوسکتا، جس طرح مومنوں کیلئے ایمان خوشنما بنادیا گیا ہے اسی طرح کافروں کیلئے ان کے اعمال یعنی کفر و معاصی خوشنما بنا دئیے گئے ہیں اور جس طرح ہم نے مکہ کے سرغنوں کو فاسق (حد سے تجاوز کرنے والے) بنادیا اسی طرح ہر بستی میں اس کے بڑے مجرموں کو ایمان سے روک کر فاسق (حد سے تجاوز کرنے والا) بنادیا تاکہ وہ لوگ وہاں مکر کریں اور وہ لوگ اپنے ہی ساتھ مکر کر رہے ہیں اس لئے کہ اس کا وبال ان ہی پر پڑنے والا ہے، اور ان کو اس کا احساس تک نہیں، اور جب مکہ والوں کے پاس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کی کوئی نشانی آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اس پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے تاآنکہ ہم کو ایسی ہی رسالت نہ دیدی جائے جو اللہ کے رسولوں کو دی جاتی ہے اور تاآنکہ ہم کو اطلاع نہ دی جائے، اس لئے کہ ہم ان سے مال میں زیادہ اور عمر میں بڑے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اس بات کو تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اپنی پیغمبری کس کے پاس بھیجے (رسالات) جمع اور افراد کے ساتھ ہے، اور حیث اس فعل کا مفعول بہ ہے جس پر اَعْلَمُ دلالت کر رہا ہے یعنی اس مناسب موقع کو خوب جانتا ہے کہ کہاں اپنا پیغام بھیجے چناچہ اسی جگہ اپنا پیغام بھیج دیتا ہے، اور یہ لوگ اس کے اہل نہیں ہیں، عنقریب ان لوگوں کو جنہوں نے مذکورہ بات کہہ کر جرم کا ارتکاب کیا اللہ کے نزدیک ان کے مکر کے سبب ذلت اور سخت عذاب لاحق ہوگا، سو جس شخص کو اللہ ہدایت پر ڈالنا چاہتا ہے تو اس کے سینے کو اسلام کیلئے کھول دیتا ہے، بایں طور کہ اس کے دل میں اور ڈال دیتا ہے جس کی وجہ سے اسکا دل کشادہ ہوجاتا ہے اور اس (اسلام) کو قبول کرتا ہے، جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے، اور جس کو اللہ بےراہ رکھنا چاہتا ہے اس کے سینہ کو قبول اسلام سے نہایت تنگ کردیتا ہے (ضیّقًا) تخفیف اور تشدید کے ساتھ ہے، (حَرَجًا) راء کے کسرہ کے ساتھ صفت ہے اور اس کے فتحہ کے ساتھ مصدر ہے بطور مبالغہ صفت لائی گئی ہے، (اسے اسلام کے تصور ہی سے) جب اس کو ایمان کا مکلف بنایا جاتا ہے تو اسلام اس پر بھاری ہونے کی وجہ سے اس کو یوں معلوم ہونے لگتا ہے کہ (اس کی روح) آسمان کی طرف پرواز کر رہی ہے، اور ایک قراءت میں (یَصَّعّدُ ) کی بجائے یَصَّاعَدُ ہے اور دونوں صورتوں میں اصل میں تاء کا صاد میں ادغام ہے، اور (ایک) دوسری قراءت میں صاد کو سکون کے ساتھ ہے، فعل مذکور کے مانند اللہ تعالیٰ ایمان نہ لانے والوں پر عذاب کو یا شیطان کو مسلط کردیتا ہے اور سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس پر تم ہو یہی تیرے رب کا سیدھا راستہ ہے جس میں کسی قسم کی کجی نہیں، اس پر نصب جملہ کا حال مؤکدہ ہونے کی وجہ سے ہے اور اس میں عامل اسم اشارہ ہے اپنے معنی کے اعتبار سے، اور ہم نے نصیحت حاصل کرنے والوں کیلئے آیتوں کو کھول کھول کر بیان کردیا ہے اس میں اصل میں تاء کا ذال میں ادغام ہے یذکرون معنی میں یتعظوں کے ہیں، اور تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ یہی لوگ آیات سے نفع حاصل کرتے ہیں، اور ان ہی کیلئے ان کے رب کے پاس سلامتی کا گھر یعنی جنت ہے اور وہی ان کا ولی ہے ان کے اعمال کی وجہ سے اس دن کو یاد کرو جس دن ہم ان سب کو جمع کریں گے نون اور یاء کے ساتھ، یعنی اللہ اپنی تمام مخلوق کو جمع کرے گا اور ان سے کہا جائیگا اے جنوں کی جماعت تم نے اغواء کے ذریعہ بہت سے انسانوں کو اپنا پیرو بنا لیا، انسانوں میں سے جنوں کے وہ دوست جنہوں نے ان کی اطاعت کی کہیں گے اے ہمارے پروردگار ہم میں سے ہر ایک نے ایک دوسرے سے خوب فائدہ اٹھایا (یعنی) انسانوں نے جنوں سے فائدہ اٹھایا جنوں کے انسانوں کیلئے شہوتوں کو خوشنما بنانے کی وجہ سے اور جنات نے (فائدہ اٹھایا) انسانوں کے ان کے پیروی کرنے کی وجہ سے، اور ہم اپنی اس مقررہ میعاد پر پہنچ چکے جو تو نے ہمارے لئے مقرر فرمائی اور وہ قیامت کا دن ہے اور یہ ان کی جانب سے اظہار حسرت ہے اللہ ان سے فرشتوں کے واسطہ سے فرمائیگا جہنم تمہارا ٹھکانہ ہے تم اس میں ہمیشہ ہمیش رہو گے مگر اتنی مدت کہ اللہ چاہے کہ وہ اس مدت میں گرم پانی پینے کیلئے نکلیں گے اس لئے کہ گرم پانی جہنم سے باہر ہوگا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” پھر ان کی جہنم کی طرف واپسی ہوگی “ اور حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ یہ استثناء ان لوگوں کے بارے میں ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ ایمان لائیں گے تو (اس صورت میں) مَا، من کے معنی میں ہوگا، یقینا ً تیرا رب اپنی صنعت میں حکیم اپنی مخلوق کے بارے میں علیم ہے اور اسی طرح (یعنی) جس طرح نافرمان انسانوں اور جنوں کو ایک دوسرے سے فائدہ حاصل کرنے والا بنایا اسی طرح ہم بعض ظالموں کا بعض کو مددگار بنادیں گے ان کے ان اعمال بد کی وجہ سے جو وہ کیا کرتے تھے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : مِثْلُ زَائِدَۃٌ، تاکہ تکرار کا شبہ باقی نہ رہے، زائد ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ مثل صفت ہے، اگر مثل کو زائد نہ مانیں تو صفت کا ظلمات میں ہونا لازم آتا ہے حالانکہ ظلمات ذات ہے نہ کہ صفت۔
قولہ : ضَیْقًا بالتخفیف، مصدر ہے اس صورت میں حمل مبالغۃً زید عدل کی قبیل سے بطور مجاز ہوگا، اور اگر تشدید کے ساتھ ہو تو صفت مشبہ ہوگا۔
قولہ : حَرِجًا بکسر الراء صفت مشبہ کا صیغہ اختلاف لفظ کی وجہ سے تکرار میں ایک قسم کا حسن پیدا ہوگیا ہے اور باقی حضرات نے راء کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے اس صورت میں حَرَجۃ کی جمع ہوگا بمعنی شدۃ الضیق، اور اگر مصدر ہو تو حمل مبالغۃً ہوگا۔
قولہ : یَصَّعدُ باب تفعل سے اور یصّاعد باب تفاعل سے۔
قولہ : من الولایَۃ بفتح الواء، بمعنی النصرۃ اور واؤ کے کسرہ کے ساتھ ہو تو بمعنی سلطان، دوسرے معنی مقام کے اعتبار سے زیادہ مناسب ہیں، اسی معنی پر مصنف علیہ الرحمۃ کا قول علی البعض دلالت کر رہا ہے۔
تفسیر و تشریح
اَوَمَنْ ۔۔۔ (الآیۃ) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کافر کو میت اور مومن کو زندہ سے تعبیر کیا ہے اس لئے کہ کافر کفر و ضلالت کی تاریک وادیوں میں بھٹکتا پھرتا ہے جس سے وہ نکل نہیں پاتا جس کا نتیجہ ہلاکت و بربادی ہوتا ہے، اور مومن کو اللہ تعالیٰ نور ایمان کے ذریعہ زندہ رکھتا ہے جس سے زندگانی کی راہیں اس کیلئے روشن ہوجانی ہیں اور وہ ایمان و ہدایت کے راستہ پر گامزن رہ کر منزل مقصود پر پہنچتا ہے اور یہی کامیابی و کامرانی ہے، اس مضمون کو قرآن کی بہت سی آیات میں بیان فرمایا گیا ہے۔
شان نزول : اگرچہ مفسرین نے کہا ہے کہ یہ آیت حضرت عمر اور ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ حضرت امیر حمزہ اور ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن صحیح اور راجع قول یہ ہے کہ ابتداء اسلام سے لیکر قیامت تک آنے والے ہر مسلمان اور کافر کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس میں اللہ نے مومن کی مثال زندہ شخص سے اور کافر کی مردہ شخص سے دی
کافروں کی مکاری اور حیلہ جوئی کی ایک مثال : کافر، انبیاء (علیہم السلام) کی صداقت کا جب کوئی نشان دیکھتے تو ازراہ مکرو عناد کہتے ہم ان دلائل و نشانات کو نہیں مانتے، ہم تو اس وقت یقین کرسکتے ہیں جب ہمارے اوپر فرشتے نازل ہوں، اور پیغمبروں کی طرح ہم کو بھی خدائی پیغام سنائیں یا خود حق تعالیٰ ہی ہمارے سامنے آجائیں، ” وقال الذین لا یرجون لقاءنا لولا انزل علینا الملائکۃ او نریٰ ربنا لقد استکبروا فی انفسھم وعتو وتواً کبیرا۔ (فرقان)
10 Tafsir as-Saadi
﴿أَوَمَن كَانَ ﴾” بھلا ایک شخص جو کہ تھا“ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہدایت عطا کرنے سے پہلے ﴿مَيْتًا﴾ ”مردہ“ یعنی کفر، جہالت اور گناہوں کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا﴿فَأَحْيَيْنَاهُ ﴾” پھر ہم نے اس کو زندہ کیا۔“ پھر ہم نے اسے علم، ایمان اور اطاعت کی روشنی کے ذریعے سے زندہ کردیا اور وہ اس روشنی میں لوگوں کے درمیان چلتا پھرتا ہو، اپنے امور میں بصیرت سے بہرہ ور ہو، اپنے راستے کو جانتا ہو، بھلائی کی معرفت رکھتا ہو، اسے ترجیح دیتا ہو، اپنے آپ پر اور دوسروں پر اس کے نفاذ کی کوشش کرتا ہو، جو برائی معرفت رکھتا ہو، اسے ناپسند کرتا ہو اور اسے ترک کرنے کی کوشش کرتا ہو اور خود اپنی ذات سے اور دوسروں سے اس برائی کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہو۔۔۔ کیا یہ اس شخص کے برابر ہوسکتا ہے جو جہالت، گمراہی، کفر اور گناہوں کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا ہو؟
﴿لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا ۚ ﴾ ” وہاں سے نکلنے والا نہ ہو“ اس پر تمام راستے مشتبہ ہوگئے ہوں، وہ تاریکی کے راستوں میں بھٹک رہا ہو، پس اسے غم و ہموم، حزن اور بدبختی نے گھیر لیا ہو اور ان میں سے نکل نہ سکتا ہو۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے عقل کو ان امور کے ذریعے سے متنبہ کیا ہے جن کا وہ ادراک کرسکتی ہے اور ان کی معرفت رکھتی ہے کہ یہ دونوں قسم کے شخص مساوی نہیں ہوسکتے ہیں، جیسے رات اور دن، اندھیرا اور اجالا، زندہ اور مردہ برابر نہیں ہوتے۔ گویا یوں کہا گیا ہے کہ وہ شخص جو رتی بھر بھی عقل رکھتا ہے، اس حالت میں رہنے کو کیسے ترجیح دے سکتا ہے اور وہ گمراہی کے اندھیروں میں حیران و سرگرداں کیسے رہ سکتا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا : ﴿زُيِّنَ لِلْكَافِرِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ ” مزین کردیئے گئے کافروں کی نگاہ میں ان کے کام“ پس شیطان ان کے سامنے ان کے اعمال کو خوشنما بناتا رہتا ہے اور ان کو ان کے دل میں سجاتا رہتا ہے، یہاں تک کہ یہ اعمال ان کو اچھے لگنے لگ جاتے ہیں اور حق دکھائی دیتے ہیں۔ یہ چیزیں عقیدہ بن کر ان کے دل میں بیٹھ جاتی ہیں اور ان کا وصف راسخ بن کر ان کے کردار میں شامل ہوجاتی ہیں۔ بنا بریں وہ اپنی برائیوں اور قباحتوں پر راضی رہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اندھیروں میں سرگرداں اور اپنے باطل میں لڑکھڑاتے رہتے ہیں۔ تاہم ان کی حیثیت ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ کچھ ان میں سے قائدین اور متبوعین ہیں اور کچھ تابع اور پیروکار۔
11 Mufti Taqi Usmani
zara batao kay jo shaks murda ho , phir hum ney ussay zindagi di ho , aur uss ko aik roshni mohaiyya kerdi ho jiss kay saharay woh logon kay darmiyan chalta phirta ho , kiya woh uss shaks ki tarah hosakta hai jiss ka haal yeh ho kay woh andheron mein ghira huwa ho jinn say kabhi nikal naa paye ? issi tarah kafiron ko yeh sujha diya gaya hai kay jo kuch woh kertay rahey hain , woh bara khushnuma kaam hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
مومن اور کافر کا تقابلی جائزہ
مومن اور کافر کی مثال بیان ہو رہی ہے ایک تو وہ جو پہلے مردہ تھا یعنی کفر و گمراہی کی حالت میں حیران و سرگشتہ تھا اللہ نے اسے زندہ کیا، ایمان و ہدایت بخشی اتباع رسول کا چسکا دیا قرآن جیسا نور عطا فرمایا جس کے منور احکام کی روشنی میں وہ اپنی زندگی گزارتا ہے اسلام کی نورانیت اس کے دل میں رچ گئی ہے، دوسرا وہ جو جہالت و ضلالت کی تاریکیوں میں گھرا ہوا ہے جو ان میں سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں پاتا کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟ اسی طرح مسلم و کافر میں بھی تفاوت ہے نور و ظلمت کا فرق اور ایمان و کفر کا فرق ظاہر ہے اور آیت میں ہے (اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۙيُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ) 2 ۔ البقرۃ :257) ایمان داروں کا ولی اللہ تعالیٰ ہے وہ انہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور کافروں کے ولی طاغوت ہیں جو انہیں نور سے ہٹا کر اندھیروں میں لے جاتے ہیں یہ ابدی جہنمی ہیں اور آیت میں ہے (افمن یمشی مکبا علی وجھہ) یعنی خمیدہ قامت والا ٹیڑھی راہ چلنے والا اور سیدھے قامت والا سیدھی راہ چلنے والا کیا برابر ہے ؟ اور آیت میں ہے ان دونوں فرقوں کی مثال اندھے بہرے اور سنتے دیکھتے کی طرح ہے کہ دونوں میں فرق نمایاں ہے افسوس پھر بھی تم عبرت حاصل نہیں کرتے اور جگہ فرمان ہے اندھا اور بینا، اندھیرا اور روشنی، سایہ اور دوپ، زندے اور مردے برابر نہیں۔ اللہ جسے چاہے سنا دے لیکن تو قبر والوں کو سنا نہیں سکتا تو تو صرف آگاہ کردینے والا ہے اور بھی آیتیں اس مضمون کی بہت سی ہیں اس سورت کے شروع میں ظلمات اور نور کا ذکر تھا اسی مناسبت سے یہاں بھی مومن اور کافر کی یہی مثال بیان فرمائی گئی بعض کہتے ہیں مراد اس سے وہ خاص معین شخص ہیں جیسے حضرت عمر بن خطاب (رض) کہ یہ پہلے گمراہ تھے اللہ نے انہیں اسلامی زندگی بخشی اور انہیں نور عطا فرمایا جسے لے کر لوگوں میں چلتے پھرتے ہیں اور کہا گیا ہے کہ اس سے مراد حضرت عمار بن یاسر (رض) ہیں اور ظلمات میں جو پھنسا ہوا ہے اس سے مراد ابو جہل ہے۔ صحیح یہی ہے کہ آیت عام ہے ہر مومن اور کافر کی مثال ہے، کافروں کی نگاہ میں ان کی اپنی جہالت و ضلالت اسی طرح آراستہ و پیراستہ کر کے دکھائی جاتی ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر ہے کہ وہ اپنی برائیوں کو ہی اچھائیاں سمجھتے ہیں۔ مسند کی ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو اندھیرے میں پیدا کر کے پھر اپنا نور ان پر ڈالا جسے اس نور کا حصہ ملا اس نے دنیا میں آ کر راہ پائی اور جو وہاں محروم رہا وہ یہاں بھی بہکا ہی رہا، جیسے فرمان ہے کہ اللہ نے اپنے بندوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف لے جاتا ہے اور جیسے فرمان ہے اندھا اور دیکھتا اور اندھیرا اور روشنی برابر نہیں۔