الانعام آية ۱۴۱
وَهُوَ الَّذِىْۤ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّغَيْرَ مَعْرُوْشٰتٍ وَّالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُكُلُهٗ وَالزَّيْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَّغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ۗ كُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖۤ اِذَاۤ اَثْمَرَ وَاٰتُوْا حَقَّهٗ يَوْمَ حَصَادِهٖ ۖ وَلَا تُسْرِفُوْا ۗ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ ۙ
طاہر القادری:
اور وہی ہے جس نے برداشتہ اور غیر برداشتہ (یعنی بیلوں کے ذریعے اوپر چڑھائے گئے اور بغیر اوپر چڑھائے گئے) باغات پیدا فرمائے اور کھجور (کے درخت) اور زراعت جس کے پھل گوناگوں ہیں اور زیتون اور انار (جو شکل میں) ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور (ذائقہ میں) جداگانہ ہیں (بھی پیدا کئے)۔ جب (یہ درخت) پھل لائیں تو تم ان کے پھل کھایا (بھی) کرو اور اس (کھیتی اور پھل) کے کٹنے کے دن اس کا (اﷲ کی طرف سے مقرر کردہ) حق (بھی) ادا کر دیا کرو اور فضول خرچی نہ کیا کرو، بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا،
English Sahih:
And He it is who causes gardens to grow, [both] trellised and untrellised, and palm trees and crops of different [kinds of] food and olives and pomegranates, similar and dissimilar. Eat of [each of] its fruit when it yields and give its due [Zakah] on the day of its harvest. And be not excessive. Indeed, He does not like those who commit excess.
1 Abul A'ala Maududi
وہ اللہ ہی ہے جس نے طرح طرح کے باغ اور تاکستان اور نخلستان پیدا کیے، کھیتیاں اگائیں جن سے قسم قسم کے ماکولات حاصل ہوتے ہیں، زیتون اور انار کے درخت پیدا کیے جن کے پھل صورت میں مشابہ اور مزے میں مختلف ہوتے ہیں کھاؤ ان کی پیداوار جب کہ یہ پھلیں، اور اللہ کا حق ادا کرو جب اس کی فصل کاٹو، اور حد سے نہ گزرو کہ اللہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
2 Ahmed Raza Khan
اور وہی ہے جس نے پیدا کیے باغ کچھ زمین پر چھئے (چھائے) ہوئے اور کچھ بے چھئے (پھیلے) اور کھجور اور کھیتی جس میں رنگ رنگ کے کھانے اور زیتون اور انار کسی بات میں ملتے اور کسی میں الگ کھاؤ اس کا پھل جب پھل لائے اور اس کا حق دو جس دن کٹے اور بے جا نہ خرچو بیشک بے جا خرچنے والے اسے پسند نہیں،
3 Ahmed Ali
اور اسی نے وہ باغ پیدا کیے جو چھتو ں پر چڑھائے جاتے ہیں او رجو نہیں چڑھائے جاتے اور کھجور کے درخت او رکھیتی جن کے پھل مختلف ہیں اور زیتون اور انار پیدا کیے جو ایک دوسرے سے مشابہاور جدا جدا بھی ہیں ان کے پھل کھاؤ جب وہ پھل لائیں اور جس دن اسے کاٹو اس کا حق ادا کرو اور بے جا خرچ نہ کرو بے شک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
4 Ahsanul Bayan
اور وہی ہے جس نے باغات پیدا کئے وہ بھی جو ٹٹیوں میں چڑھائے جاتے ہیں اور وہ بھی جو ٹٹیوں پر نہیں چڑھائے جاتے اور کھجور کے درخت اور کھیتی جن میں کھانے کی مختلف چیزیں مختلف طور کی ہوتی ہیں (١) اور زیتون اور انار جو باہم ایک دوسر کے مشابہ بھی ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے مشابہ بھی نہیں ہوتے (٢) ان سب کے پھلوں میں سے کھاؤ جب وہ نکل آئے اور اس میں جو حق واجب ہے وہ اس کے کاٹنے کے دن دیا کرو (٣) اور حد سے (٤) مت گزرو یقیناً وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے (٥)۔
١٤١۔١ معروشات کا مادہ عرش ہے جس کے معنی بلند کرنے اور اٹھانے کے ہیں۔ معروشات سے مراد بعض درختوں کی وہ بیلیں ہیں ٹٹیوں (چھپروں منڈیروں وغیرہ) پر چڑھائی جاتی ہیں، جیسے انگور اور بعض ترکاریوں کی بیلیں ہیں۔ اور غیر معروشات، وہ درخت ہیں جن کی بیلیں اوپر نہیں چڑھائی جاتیں بلکہ زمین پر ہی پھیلتی ہیں، جیسے خربوزہ اور تربوز کی بیلیں درخت اور کھجور کے درخت اور کھیتیاں، جن کے ذائقے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور زیتون اور انار، ان سب کا پیدا کرنے والا اللہ ہے۔
١٤١۔٢ اس کے لیے دیکھئے آیت ٩٩ کا حاشیہ۔
١٤١۔٣ یعنی جب کھیتی سے غلہ کاٹ کر صاف کرلو اور پھل درختوں سے توڑ لو، تو اس کا حق ادا کرو۔ حق سے مراد علماء کے نزدیک نفلی صدقہ ہے اور بعض کے نزدیک صدقہ واجبہ یعنی عشر، دسواں حصہ اگر زمین بارانی ہو تو نصف عشر یعنی بیسواں حصہ (اگر زمین کنویں، ٹیوب ویل یا نہری پانی سے سیراب کی جاتی ہے)۔
١٤١۔٤ یعنی صدقہ خیرات میں بھی حد سے تجاور نہ کرو، ایسا نہ ہو کل کو تم ضرورت مند ہو جاؤ۔ بعض کہتے ہیں اس کا تعلق حکام سے ہے یعنی صدقات اور زکوۃ کی وصولی میں حد سے تجاور نہ کرو اور امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ سیاق آیت کی رو سے زیادہ صحیح لگتی ہے کہ کھانے میں اسراف مت کرو کیونکہ بسیار خوری عقل اور جسم کے لئے مضر ہے دوسرے مقامات پر بھی اللہ تعالٰی نے کھانے پینے میں اسراف سے منع فرمایا، جس سے واضح ہے کہ کھانے پینے میں بھی اعتدال بہت ضروری ہے اور اس سے تجاوز اللہ کی نافرمانی ہے۔ آج کل مسلمانوں نے اس اسراف کو اپنی امارت کے اظہار کی علامت بنا لیا ہے۔
١٤١۔٥ اس لئے اسراف کسی چیز میں بھی پسندیدہ نہیں، صدقہ و خیرات دینے میں نہ کسی اور چیز میں، ہرچیز میں اعتدال اور میانہ روی مطلوب اور محبوب ہے اس کی تاکید کی گئی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور خدا ہی تو ہے جس نے باغ پیدا کئے چھتریوں پر چڑھائے ہوئے بھی اور جو چھتریوں پر نہیں چڑھائے ہوئے وہ بھی اور کھجور اور کھیتی جن کے طرح طرح کے پھل ہوتے ہیں اور زیتون اور انار جو (بعض باتوں میں) ایک دوسرے سے ملتے ہیں جب یہ چیزیں پھلیں تو ان کے پھل کھاؤ اور جس دن (پھل توڑو اور کھیتی) کاٹو تو خدا کا حق بھی اس میں سے ادا کرو اور بےجا نہ اڑاؤ کہ خدا بیجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا
6 Muhammad Junagarhi
اور وہی ہے جس نے باغات پیدا کئے وه بھی جو ٹٹیوں پر چڑھائے جاتے ہیں اور وه بھی جو ٹٹیوں پر نہیں چڑھائے جاتے اور کھجور کے درخت اور کھیتی جن میں کھانے کی چیزیں مختلف طور کی ہوتی ہیں اور زیتون اور انار جو باہم ایک دوسرے کے مشابہ بھی ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے مشابہ نہیں بھی ہوتے، ان سب کے پھلوں میں سے کھاؤ جب وه نکل آئے اور اس میں جو حق واجب ہے وه اس کے کاٹنے کے دن دیا کرو اور حد سے مت گزرو یقیناً وه حد سے گزرنے والوں کو ناپسند کرتا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور وہ (اللہ) وہی ہے۔ جس نے طرح طرح کے باغات پیدا کیے (ٹیٹوں پر) چڑھائے ہوئے بھی اور بغیر چڑھائے ہوئے بھی اور کھجور کے درخت اور طرح طرح کی کھیتی جس کے مزے مختلف ہیں اور زیتون اور انار جو مشابہ بھی ہیں اور غیر مشابہ بھی اس کے پھلوں میں سے کھاؤ جب وہ پھلیں اور اس کی کٹائی کے دن اس کا حق ادا کرو اور اسراف مت کرو کیونکہ وہ (خدا) اسراف کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
وہ خدا وہ ہے جس نے تختوں پر چڑھائے ہوئے بھی اور اس کے خلاف بھی ہر طرح کے باغات پیدا کئے ہیں اور کھجور اور زراعت پیدا کی ہے جس کے مزے مختلف ہیں اور زیتون اورانار بھی پیدا کئے ہیں جن میں بعض آپس میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور بعض مختلف ہیں -تم سب ان کے پھلوں کو جب وہ تیار ہوجائیں تو کھاؤ اور جب کاٹنے کا دن آئے تو ان کا حق ادا کردو اور خبردار اسراف نہ کرنا کہ خدا اسراف کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور خدا ہی تو ہے جس نے باغ پیدا کیے چھتریوں پر چڑھائے ہوئے بھی اور جو چھتریوں پر نہیں چڑھائے ہوئے وہ بھی اور کھجور اور کھیتی جن کے طرح طرح کے پھل ہوتے ہیں اور زیتون اور انار جو (بعض باتوں میں) ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور (بعض باتوں میں) نہیں ملتے۔ جب یہ چیزیں پھلیں تو ان کے پھل کھاؤ اور جس دن (پھل توڑو اور کھیتی) کاٹو تو خدا کا حق بھی اس میں سے ادا کرو۔ اور بےجا نہ اڑانا۔ کہ خدا بےجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
آیت نمبر ١٤١ تا ١٤٤
ترجمہ : اور وہی ہے جس نے باغات پیدا کئے بیلدار زمین پر پھیلنے والے بھی مثلاً خربوزہ (وغیرہ) اور تنے دار بھی جوتنے پر قائم ہوتے ہیں مثلاً کھجور کے درخت (وغیرہ) اور کھجور اور کھیتی پیدا کیں کہ اس کے پھل اور دانے ہیئت (شکل) اور مزے میں مختلف ہوتے ہیں اور زیتون اور انار (پیدا کئے) کہ جن کے پتے ملتے جلتے اور ان کا مزہ الگ الگ ہوتا ہے پھل لگنے کے بعد پکنے سے پہلے کھاؤ (اور بعد بھی) اور اس کی کٹائی کے وقت اس کا حق زکوۃ ادا کرو (حِصَاد) فتحہ اور کسرہ کے ساتھ ہے، (مراد) عشر یا نصف عشر ہے اور (انفاق میں) اسراف نہ کرو کہ کل پیداوار دے ڈالو، کہ تمہاری عیال کیلئے کچھ بھی باقی نہ رہے، اللہ تعالیٰ متعین کردہ شئ میں تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا کچھ جانور ایسے پیدا کئے جو بار برداری کے لائق ہیں مثلاً بڑے اونٹ اور کچھ چھوٹے ناقابل بار برداری جیسا کہ اونٹوں کے بچے اور بکریاں، ان کو فرش کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ زمین کیلئے زمین سے قریب ہونے کی وجہ سے فرش کے مانند ہوتے ہیں، جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تم کو دیا ہے اس میں سے کھاؤ، (پیو) اور حلال و حرام کرنے میں شیطان کے طریقوں کی پیروی نہ کرو یقیناً وہ تمہارا صریح دشمن ہے، (پیدا کیں) آٹھ قسمیں (ثمانیۃ ازواج) حمولۃ وفرشاً سے بدل ہے، بھیڑوں کا نر و مادہ کا جوڑا اور بکریوں کا جوڑا (لمعز) عین فتحہ اور سکون کے ساتھ، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان لوگوں سے پوچھئے جنہوں نے کبھی تو جانوروں کے نروں کو حرام کیا اور کبھی ان کی ماداؤں کو اور اس (حرمت) کی نست اللہ کی طرف کردی، یا بھیڑ بکریوں مذکورہ دونوں قسموں کے نروں کو اللہ نے تمہارے لئے حرام کیا ہے یا ان کی ماداؤں کو ؟ یا اس کو جس کو دونوں مادائیں پیٹ میں لئے ہوئے ہیں نر ہو یا مادہ تم مجھے ان کی تحریم کی کیفیت کسی دلیل سے بتاؤ اگر تم اس میں سچے ہو، مطلب یہ ہے کہ تحریم کہاں سے آئی ؟ اگر نر ہونے کی وجہ سے ہے تو تمام نر حرام ہونے چاہئیں، یا مادہ ہونے کی وجہ سے ہے تو تمام مادائیں حرام ہونی چاہئیں (یا تحریم بچہ کے) رحم میں ہونے کی وجہ سے آئی تو (نر و مادہ) دونوں قسمیں حرام ہونی چاہئیں، مگر یہ تخصیص کہاں سے آئی ؟ اور استفہام انکاری ہے، اور اونٹ میں دو قسمیں اور گایوں میں دو قسمیں آپ ان سے پوچھئے کیا اللہ نے ان دونوں نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں ماداؤں کو ؟ یا اس (بچہ) کو جس کو مادائیں پیٹ میں لئے ہوئے ہیں کیا تم حاضر تھے جس وقت اللہ تعالیٰ نے تم کو اس تحریم کا حکم دیا کہ تم نے اس پر یقین کرلیا، ایسا نہیں ہے بلکہ تم اس معاملہ میں دروغ گو ہو تو اس سے بڑا ظالم کون ہوگا ؟ کوئی نہیں، جس نے اس معاملہ میں اللہ پر بہتان لگایا تاکہ لوگوں کو بلا دلیل گمراہ کرے اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : مَعْرُوْشَات، اسم مفعول جمع مؤنث، واحد معروشۃ چھتریوں پر چڑھائی ہوئی بیلیں، ابن عباس (رض) نے فرمایا مطلق بیلوں کو کہتے ہیں چھتریوں پر چڑھائی گئی ہوں، اس میں انگور، تربوز، خربوز، کدو وغیرہ ہر قسم کی بیلیں آگئیں۔
قولہ : اُکُلُہ، ضمیر مضاف الیہ ذرعٌ کی طرف راجع ہے نہ کہ نخلٌ کی طرف اسلئے کہ نخل مؤنث سماعی ہے اور اُکُلُہٗ کی ضمیر مذکر ہے، جس کی وجہ سے مطابقت نہ ہوگی، باقی کو ذرع پر قیاس کیا جائیگا۔
قولہ : قَبْلَ النَضْجِ یہ ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : اِذَا اَثَمرَ کا بظاہر کوئی فائدہ معلوم نہیں ہوتا اسلئے کہ کھانے کا تعلق پھل آنے کے بعد ہی ہوتا ہے پھل آنے سے پہلے کھانا ممکن ہی نہیں ہے۔ جواب : قبل النضج کا اضافہ اسی سوال کا جواب ہے مطلب یہ ہے کہ عام طور پر یہ وہم ہوتا ہے کہ پھل کھانے کا تعلق پھل پکنے کے بعد ہی ہوتا ہے حالانکہ بعض پھل پکنے سے پہلے بھی کھائے جاتے ہیں۔
قولہ : وَانشاَ من الاَنْعَامِ ، لفظ اَنشاَ مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ من الانعام کا عطف جنّٰت پر ہے اسلئے کہ قریب پر عطف کرنے سے معنی فاسد ہوجائیں گے۔
قولہ : بَدَلٌ مِنْ حَمُوْلَۃ، یہ ان لوگوں پر رد ہے جو ثمانیۃَ ازواجٍ کو فعل مقدر کا مفعول قرار دیکر تقدیر عبارت کلوا ثمانیۃ ازواج مانتے ہیں اسلئے کہ تقدیر بلا ضرورت جائز نہیں ہے۔
قولہ : من الضان، یہ ثمانیۃ ازواج سے بدل ہے ضان، ضائن کی جمع ہے۔ قولہ : زوجین اثنین۔
سوال : زوجین زوجٌ کا تثنیہ ہے زوج جوڑے کو کہتے ہیں جو کہ دو پر مشتمل ہوتا ہے لہٰذا زوجین کا مطلب ہوگا چار، تو اس صورت میں زوجین کی صفت اثنین لانا درست نہیں ہوگا ؟
جواب : زوج کے دو معنی ہیں، (١) زوج اس کو کہتے ہیں کہ جس کے ساتھ اسی کی جنس کا دوسرا ہو اس کے لئے دو کا ہونا ضروری نہیں ہے جیسا کہ شوہر کو زوج کہہ دیتے ہیں۔ (٢) دوسرے معنی جوڑا اس وقت زوجین کے معنی ہوں گے چار، اس معنی کے اعتبار سے زوجین کی صفت اثنین لانا درست نہ ہوگا، یہاں اول معنی مراد ہیں۔
قولہ : ء الذکَرَیْن، حرّم کا مفعول بہ مقدم ہے اور ام حرف عطف ہے الانثیین، ذکرین پر معطوف ہے جملہ ہو کر قل کا مقولہ ہونے کی وجہ سے محل میں نصب کے ہے۔ (لغات القرآن للدرویش)
تفسیر و تشریح
وَھو الذی۔۔۔۔ معروشات الخ معروشات کا مادہ عرش ہے جس کے معنی بلند کرنے اور اٹھانے کے ہیں، مراد وہ بیلیں ہیں جو ٹٹیوں، چھپروں، منڈیروں وغیرہ پر چڑھائی ہوئی ہیں، مثلاً انگور اور بعض سبزی ترکاریوں کی بیلیں اور غیر معروشٰت سے وہ بیلیں جو ٹٹیوں پر نہیں چڑھائی جاتی بلکہ زمین پر پھیلتی ہیں مثلاً تربوز خربوز وغیرہ یا تنے دار درخت جو بیل کی شکل میں نہیں ہوتے مثلاً کھجور اور کھیتیاں وغیرہ مذکورہ تمام کھیتیاں اور درخت وغیرہ جن کے ذائقہ اور خوشبو رنگ وغیرہ مختلف ہوتے ہیں، ان سب کا پیدا کرنے والا اللہ ہے لہٰذا ان میں کسی کی شرکت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
وَآتُوْ ۔۔۔۔۔ حَصَادِہٖ یعنی جب کھیتی کاٹ کر غلہ صاف کرلو اور پھل درختوں سے توڑ لو تو اس کا حق ادا کرو جس میں صدقات واجبہ عشر وغیرہ اور صدقات نافلہ عطیہ اور ہبہ و ہدیہ وغیرہ سب داخل ہیں۔
وَلا تُسْرِفُوْا۔۔۔۔ المُسْفِیْن یعنی صدقہ و خیرات میں بھی حد سے تجاوز نہ کرو، یعنی نفلی صدقات میں اسلئے کہ صدقات واجبہ تو محدود و متعین ہیں ان میں اسراف کا سوال ہی نہیں ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کھیتیوں اور مویشیوں میں مشرکین کے تصرف کا ذکر فرمایا جن کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے حلال ٹھہرایا تھا، تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی نعمت کا تذکرہ فرمایا اور کھیتیوں اور مویشیوں کے بارے میں ان کے لازمی وظیفہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :﴿ وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ جَنَّاتٍ ﴾ ” وہی ہے جس نے باغ پیدا کئے‘‘ جس میں مختلف انواع کے درخت اور نباتات ہیں۔ ﴿مَّعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ ﴾” جوٹٹیوں (چھتریوں) پر چڑھائے جاتے ہیں اور جو ٹٹیوں پر نہیں چڑھائے جاتے“ یعنی ان میں سے بعض باغات کے لئے چھتریاں بنائی جاتی ہیں اور ان کو ان چھتریوں پر چڑھایا جاتا ہے اور یہ چھتریاں انہیں اوپر اٹھنے میں مدد دیتی ہیں اور بعض درختوں کے لئے چھتریاں نہیں بنائی جاتیں، بلکہ وہ اپنے تنے پر کھڑے ہوتے ہیں یا زمین پر بچھ جاتے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں ان کے کثرت منفعت اور ان کے فوائد کی طرف اشارہ ہے، نیز اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو سکھایا کہ پودوں کو کیسے چھتریوں پر چڑھانا اور کیسے ان کی پرورش کرنا ہے۔
﴿وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا ﴾ ”(اور پیدا کئے) کھجور کے درخت اور کھیتی کہ مختلف ہیں ان کے پھل“ یعنی اللہ تعالیٰ نے ایک ہی جگہ پر کھجور اور کھیتیاں پیدا کیں جو ایک ہی پانی سے سیراب ہوتی ہیں مگر کھانے اور ذائقے کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر کھجور اور کھیتیوں کا ذکر کیا ہے، کیونکہ یہ مختلف انواع و اقسام کی بنا پر بہت سے فوائد کی حامل ہیں نیز یہ اکثر مخلوق کے لئے خوراک کا کام دیتی ہیں۔
﴿ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا ﴾ ” اور زیتون اور انار جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے زیتون اور انار کو پیدا کیا جس کے درخت ایک دوسرے سے مشابہ ہیں ﴿وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ﴾” اور جدا جدا بھی“ جو اپنے پھل اور ذائقے میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ گویا کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان باغات کو کس مقصد کے لئے پیدا کیا اور کس پر یہ نوازش کی؟ اس کے جواب میں بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی منفعت کے لئے یہ باغات پیدا کئے۔ اس لئے فرمایا : ﴿كُلُوا مِن ثَمَرِهِ ﴾ ” ان کے پھل کھاؤ۔“ یعنی کھجور اور کھیتیوں کا پھل کھاؤ ﴿إِذَا أَثْمَرَ ﴾” جب وہ پھل لائیں“ ﴿وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ ﴾ ” اور جس دن (پھل توڑو) اور کھیتی کاٹو تو اللہ کا حق اس میں سے ادا کرو۔“ یعنی فصل کی برداشت کے روز کھیتی کا حق ادا کرو۔ اس سے کھیتی کی زکوٰۃ(یعنی عشر) مراد ہے جس کا نصاب شریعت میں مقرر ہے۔
ان کو حکم دیا کہ زکوٰۃ فصل کی برداشت کے وقت ادا کریں کیونکہ برداشت کا دن، ایک سال گزرنے کے قائم مقام ہے۔ نیز یہ وہ وقت ہے جب فقراء کے دلوں میں زکوٰۃ کے حصول کی امید بندھ جاتی ہے اور اس وقت کاشت کاروں کے لئے اپنی زرعی جنس میں سے زکوٰۃ نکالنا آسان ہوتا ہے اور جو زکوٰۃ نکالتا ہے اس کے لئے یہ معاملہ ظاہر ہوجاتا ہے اور زکوٰۃ نکالنے والے اور زکوٰۃ نہ نکالنے والے کے درمیان امتیاز واقع ہوجاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿وَلَا تُسْرِفُوا ۚ ﴾ ” اور بے جا خرچ نہ کرو“ یہ ممانعت کھانے میں اسراف کے لئے عام ہے یعنی عادت اور حدود سے تجاوز کر کے کھانا۔ یہ اسراف اس بات کو بھی شامل ہے کہ کھیتی کا مالک اس طرح کھائے جس سے زکوٰۃ کو نقصان پہنچے اور کھیتی کا حق نکالنے میں اسراف یہ ہے کہ واجب سے بڑھ کر زکوٰۃ نکالے یا اپنے آپ کو یا اپنے خاندان یا اپنے قرض خواہوں کو نقصان پہنچائے۔ یہ تمام چیزیں اسراف کے زمرے میں آتی ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں بلکہ سخت ناپسند ہے اور وہ اسراف پر سخت ناراض ہوتا ہے۔ یہ آیت کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ پھلوں میں بھی زکوٰۃ فرض ہے اور ان میں زکوٰۃ کی ادائیگی ایک سال گزرنے کی شرط سے مشروط نہیں ہے۔ غلے کی زکوٰۃ فصل کٹنے اور کھجوروں کی زکوٰۃ پھل چنے جانے پر واجب ہوجاتی ہے۔ پھر زرعی اجناس زکوٰۃ کی ادائیگی کے بعد کئی سال تک بھی بندے کے پاس پڑی رہیں تو ان میں زکوٰۃ فرض نہیں بشرطیکہ وہ تجارت کی غرض سے نہ رکھی گئی ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صرف فصل کی برداشت کے وقت زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ نیز اگر فصل برداشت کرنے سے قبل، صاحب زراعت کی کوتاہی کے بغیر، باغ یا کھیتی پر کوئی آفت آجائے تو وہ اس کا ضامن نہیں ہوگا اور زکوٰۃ نکالنے سے پہلے اگر کھیتی یا کھجور کے پھل میں سے کچھ کھالیا جائے تو اسے زکوٰۃ کے حساب میں شامل نہیں کیا جائے گا، بلکہ جو باقی بچے گا اسی کے حساب سے زکوٰۃ نکالی جائے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھل کا اندازہ لگانے کا ماہر روانہ فرمایا کرتے تھے جو زکوٰۃ ادا کرنے والے لوگوں کی کھیتیوں اور کھجوروں کے پھل کا اندازہ لگاتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں حکم دیتے کہ اندازہ لگانے کے بعد وہ ان کے اور دیگر لوگوں کے کھانے کے لئے ایک تہائی ایک چوتائی چھوڑ دیا کریں۔
11 Mufti Taqi Usmani
Allah woh hai jiss ney baaghaat peda kiye jinn mein say kuch , ( bail daar hain jo ) saharon say oopper charrhaye jatay hain , aur kuch saharon kay baghair buland hotay hain , aur nakhlistan aur khetiyan , jinn kay zaeeqay alag alag hain , aur zaitoon aur anaar , jo aik doosray say miltay jultay bhi hain , aur aik doosray say mukhtalif bhi . jab yeh darkht phal den to inn kay phalon ko khaney mein istimal kero , aur jab inn ki katai ka din aaye to Allah ka haq ada kero , aur fuzool kharchi naa kero . yaad rakho , woh fuzool kharch logon ko pasand nahi kerta .
12 Tafsir Ibn Kathir
مسائل زکوٰۃ اور عشر مظاہر قدرت
خالق کل اللہ تعالیٰ ہی ہے کھیتیاں پھل چوپائے سب اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں کافروں کو کوئی حق نہیں کہ حرام حلال کی تقسیم از خود کریں۔ درخت بعض تو بیل والے ہیں جیسے انگور وغیرہ کہ وہ محفوظ ہوتے ہیں بعض کھڑے جو جنگلوں اور پہاڑوں پر کھڑے ہوئے ہیں۔ دیکھنے میں ایک دورے سے ملتے جلتے مگر پھلوں کے ذائقے کے لحاظ سے الگ الگ۔ انگور کھجور یہ درخت تمہیں دیتے ہیں کہ تم کھاؤ مزہ اٹھاؤ لطف پاؤ۔ اس کا حق اس کے کٹنے اور ناپ تول ہونے کے دن ہی دو یعنی فرض زکوٰۃ جو اس میں مقرر ہو وہ ادا کردو۔ پہلے لوگ کچھ نہیں دیتے تھے شریعت نے دسواں حصہ مقرر کیا اور ویسے بھی مسکینوں اور بھوکوں کا خیال رکھنا۔ چناچہ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ حضور نے فرمان صادر فرمایا تھا کہ جس کی کھجوریں دس وسق سے زیادہ ہوں وہ چند خوشے مسجد میں لا کر لٹکا دے تاکہ مساکین کھا لیں۔ یہ بھی مراد ہے کہ زکوٰۃ کے سوا اور کچھ سلوک بھی اپنی کھیتیوں باڑیوں اور باغات کے پھلوں سے اللہ کے بندوں کے ساتھ کرتے رہو، مثلاً پھل توڑنے اور کھیت کاٹنے کے وقت عموماً مفلس لوگ پہنچ جایا کرتے ہیں انہیں کچھ چھوڑ دو تاکہ مسکینوں کے کام آئے۔ ان کے جانوروں کا چارہ ہو، زکوٰۃ سے پہلے بھی حقداروں کو کچھ نہ کچھ دیتے رہا کرو، پہلے تو یہ بطور وجوب تھا لیکن زکوٰۃ کی فرضیت کے بعد بطور نفل رہ گیا زکوٰۃ اس میں عشر یا نصف عشر مقرر کردی گئی لیکن اس سے فسخ نہ سمجھا جائے۔ پہلے کچھ دینار ہوتا تھا پھر مقدار مقرر کردی گئی زکوٰۃ کی مقدار سنہ\0\02ہجری میں مقرر ہوئی۔ واللہ اعلم۔ کھیتی کاٹتے وقت اور پھل اتارتے وقت صدقہ نہ دینے والوں کی اللہ تعالیٰ نے مذمت بیان فرمائی سورة کہف، میں ان کا قصہ بیان فرمایا کہ ان باغ والوں نے قسمیں کھا کر کہا کہ صبح ہوتے ہی آج کے پھل ہم اتار لیں گے اس پر انہوں نے انشاء اللہ بھی نہ کہا۔ یہ ابھی رات کو بیخبر ی کی نیند میں ہی تھے وہاں آفت ناگہانی آگئی اور سارا باع ایسا ہوگیا گویا پھل توڑ لیا گیا ہے بلکہ جلا کر خاکستر کردیا گیا ہے یہ صبح کو اٹھ کر ایک دوسرے کو جگا کر پوشیدہ طور سے چپ چاپ چلے کہ ایسا نہ ہو حسب عادت فقیر مسکین جمع ہوجائیں اور انہیں کچھ دینا پڑے یہ اپنے دلوں میں یہی سوچتے ہوئے کہ ابھی پھل توڑ لائیں گے بڑے اہتمام کے ساتھ صبح سویرے ہی وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ سارا باغ تو خاک بنا ہوا ہے اولاً تو کہنے لگے بھئی ہم راستہ بھول گئے کسی اور جگہ آگئے ہمارا باغ تو شام تک لہلہا رہا تھا پھر کہنے لگا نہیں باغ تو یہی ہے ہماری قسمت پھوٹ گئی ہم محروم ہوگئے۔ اس وقت ان میں جو باخبر شخص تھا کہنے لگا دیکھو میں تم سے نہ کہتا تھا کہ اللہ کا شکر کرو اس کی پاکیزگی بیان کرو۔ اب تو سب کے سب کہنے لگے ہمارا رب پاک ہے یقینا ہم نے ظلم کیا پھر ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے کہ ہائے ہماری بدبختی کہ ہم سرکش اور حد سے گذر جانے والے بن گئے تھے۔ ہمیں اب بھی اللہ عزوجل سے امید ہے کہ وہ ہمیں اس سے بہتر عطا فرمائے گا ہم اب صرف اپنے رب سے امید رکھتے ہیں۔ ناشکری کرنے اور تنہا خوری پسند کرنے والوں پر اسی طرح ہمارے عذاب آیا کرتے ہیں اور بھی آخرت کے بڑے عذاب باقی ہیں لیکن افسوس کہ یہ سمجھ بوجھ اور علم و عقل سے کام ہی نہیں لیتے۔ یہاں اس آیت میں صدقہ دینے کا حکم فرما کر خاتمے پر فرمایا کہ فضول خرچی سے بچو فضول خرچ اللہ کا دوست نہیں۔ اپنی اوقات سے زیادہ نہ لٹا فخر دریا کے طور پر اپنا مال برباد نہ کرو۔ حضرت ثابت بن قیس بن شماس نے اپنے کھجوروں کے باغ سے کھجوریں اتاریں اور عہد کرلیا کہ آج جو لینے آئے گا میں اسے دوں گا لوگ ٹوٹ پڑے شام کو ان کے پاس ایک کھجور بھی نہ رہی۔ اس پر یہ فرمان اترا۔ ہر چیز میں اسراف منع ہے، اللہ کے حکم سے تجاوز کر جانے کا نام اسراف ہے خواہ وہ کسی بارے میں ہو۔ اپنا سارا ہی مال لٹا کر فقیر ہو کر دوسروں پر اپنا انبار ڈال دینا بھی اسراف ہے اور منع ہے، یہ بھی مطلب ہے کہ صدقہ نہ روکو جس سے اللہ کے نافرمان بن جاؤ یہ بھی اسراف ہے گویہ مطلب اس آیت کے ہیں لیکن بظاہر الفاظ یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے کھانے کا ذکر ہے تو اسراف اپنے کھانے پینے میں کرنے کی ممانعت یہاں ہے کیونکہ اس سے عقل میں اور بدن میں ضرر پہنچا ہے۔ قرآن کی اور آیت میں ہے آیت (وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا ۚ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ ) 7 ۔ الاعراف :31) کھاؤ پیو اور اسراف نہ کرو۔ صحیح بخاری میں ہے کھاؤ پیو پہنو اوڑھو لیکن اسراف اور کبر سے بچوں واللہ اعلم۔ اسی اللہ نے تمہارے لئے چوپائے پیدا کئے ہیں ان میں سے بعض تو بوجھ ڈھونے والے ہیں جیسے اونٹ گھوڑے خچر گدھے وغیرہ اور بعض پستہ قد ہیں جیسے بکری وغیرہ، انہیں (فرش) اس لئے کہا گیا کہ یہ قد و قامت میں پست ہوتے ہیں زمین سے ملے رہتے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ (حمولہ) سے مراد سواری کے جانور اور (فرشا) سے مراد جن کا دودھ پیا جاتا ہے اور جن کا گوشت کھایا جاتا ہے جو سواری کے قابل نہیں ان کے بالوں سے لحاف اور فرش تیار ہوتے ہیں۔ یہ قول حضرت سدی کا ہے اور بہت ہی مناسب ہے خود قرآن کی سورة یاسین میں موجود ہے کہ کیا انہوں نے اس بات پر نظر نہیں کی ؟ کہ ہم نے ان کے لئے چوپائے پیدا کردیئے ہیں جو ہمارے ہی ہاتھوں کے بنائے ہوئے ہیں اور اب یہ ان کے مالک بن بیٹھے ہیں ہم نے ہی تو انہیں ان کے بس میں کردیا ہے کہ بعض سوریاں کر رہے ہیں اور بعض کو یہ کھانے کے کام میں لاتے ہیں اور آیت میں ہے آیت (وَاِنَّ لَكُمْ فِي الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۭ نُسْقِيْكُمْ مِّمَّا فِيْ بُطُوْنِهٖ مِنْۢ بَيْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَاۗىِٕغًا لِّلشّٰرِبِيْنَ ) 16 ۔ النحل :66) مطلب یہ ہے کہ ہم تمہیں ان چوپایوں کا دودھ پلاتے ہیں اور ان کے بال اون وغیرہ سے تمہارے اوڑھنے بچھونے اور طرح طرح کے فائدے اٹھانے کی چیزیں بناتے ہیں اور جگہ ہے اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لئے چوپائے جانور پیدا کئے تاکہ تم ان پر سواریاں کرو انہیں کھاؤ اور بھی فائدے اٹھاؤ ان پر اپنے سفر طے کر کے اپنے کام پورے کرو اسی نے تمہاری سواری کیلئے کشتیاں بنادیں وہ تمہیں اپنی بیشمار نشانیاں دکھا رہا ہے بتاؤ تو کس کس نشانی کا انکار کرو گے ؟ پھر فرماتا ہے اللہ کی روزی کھاؤ پھل، اناج، گوشت وغیرہ۔ شیطانی راہ پر نہ چلو، اس کی تابعداری نہ رو جیسے کہ مشرکوں نے اللہ کی چیزوں میں از خود حلال حرام کی تقسیم کردی تم بھی یہ کر کے شیطان کے ساتھی نہ بنو۔ وہ تمہارا دشمن ہے، اسے دوست نہ سمجھو۔ وہ تو اپنے ساتھ تمہیں بھی اللہ کے عذابوں میں پھنسانا چاہتا ہے، دیکھو کہیں اس کے بہکانے میں نہ آجانا اسی نے تمہارے باپ آدم کو جنت سے باہر نکلوایا، اس کھلے دشمن کو بھولے سے بھی اپنا دوست نہ سمجھو۔ اس کی ذریت سے اور اس کے یاروں سے بھی بچو۔ یاد رکھو ظالموں کو برا بدلہ ملے گا۔ اس مضمون کی اور بھی آیتیں کلام اللہ شریف میں بہت سی ہیں۔