الانعام آية ۹۱
وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖۤ اِذْ قَالُوْا مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلٰى بَشَرٍ مِّنْ شَىْءٍ ۗ قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْـكِتٰبَ الَّذِىْ جَاۤءَ بِهٖ مُوْسٰى نُوْرًا وَّ هُدًى لِّلنَّاسِ تَجْعَلُوْنَهٗ قَرَاطِيْسَ تُبْدُوْنَهَا وَتُخْفُوْنَ كَثِيْرًا ۚ وَعُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوْۤا اَنْتُمْ وَلَاۤ اٰبَاۤؤُكُمْۗ قُلِ اللّٰهُۙ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِىْ خَوْضِهِمْ يَلْعَبُوْنَ
طاہر القادری:
اور انہوں نے (یعنی یہود نے) اﷲ کی وہ قدر نہ جانی جیسی قدر جاننا چاہیے تھی، جب انہوں نے یہ کہہ (کر رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار کر) دیا کہ اﷲ نے کسی آدمی پر کوئی چیز نہیں اتاری۔ آپ فرما دیجئے: وہ کتاب کس نے اتاری تھی جو موسٰی (علیہ السلام) لے کر آئے تھے جو لوگوں کے لئے روشنی اور ہدایت تھی؟ تم نے جس کے الگ الگ کاغذ بنا لئے ہیں تم اسے (لوگوں پر) ظاہر (بھی) کرتے ہو اور (اس میں سے) بہت کچھ چھپاتے (بھی) ہو، اور تمہیں وہ (کچھ) سکھایا گیا ہے جو نہ تم جانتے تھے اور نہ تمہارے باپ دادا، آپ فرما دیجئے: (یہ سب) اﷲ (ہی کا کرم ہے) پھر آپ انہیں (ان کے حال پر) چھوڑ دیں کہ وہ اپنی خرافات میں کھیلتے رہیں،
English Sahih:
And they did not appraise Allah with true appraisal when they said, "Allah did not reveal to a human being anything." Say, "Who revealed the Scripture that Moses brought as light and guidance to the people? You [Jews] make it into pages, disclosing [some of] it and concealing much. And you were taught that which you knew not – neither you nor your fathers." Say, "Allah [revealed it]." Then leave them in their [empty] discourse, amusing themselves.
1 Abul A'ala Maududi
ان لوگوں نے اللہ کا بہت غلط اندازہ لگایا جب کہا کہ اللہ نے کسی بشر پر کچھ نازل نہیں کیا ہے ان سے پوچھو، پھر وہ کتاب جسے موسیٰؑ لایا تھا، جو تمام انسانوں کے لیے روشنی اور ہدایت تھی، جسے تم پارہ پارہ کر کے رکھتے ہو، کچھ دکھاتے ہو اور بہت کچھ چھپا جاتے ہو، اور جس کے ذریعہ سے تم کو وہ علم دیا گیا جو نہ تمہیں حاصل تھا اور نہ تمہارے باپ دادا کو، آخر اُس کا نازل کرنے والا کون تھا؟ بس اتنا کہہ دو کہ اللہ، پھر اُنہیں اپنی دلیل بازیوں سے کھیلنے کے لیے چھوڑ دو
2 Ahmed Raza Khan
اور یہود نے اللہ کی قدر نہ جانی جیسی چاہیے تھی جب بولے ا لله نے کسی آدمی پر کچھ نہیں اتارا، تم فرماؤ کس نے اُتاری وہ کتاب جو موسیٰ لائے تھے روشنی اور لوگوں کے لیے ہدایت جس کے تم نے الگ الگ کاغذ بنالیے ظاہر کرتے ہو اور بہت سے چھپالیتے ہو اور تمہیں وہ سکھایا جاتا ہے جو نہ تم کو معلوم تھا نہ تمہارے باپ دادا کو، اللہ کہو پھر انہیں چھوڑ دو ان کی بیہودگی میں انہیں کھیلتا
3 Ahmed Ali
اور انہوں نے الله کو صحیح طور پر نہیں پہچانا جب انہوں نے کہا الله نے کسی انسان پر کوئی چیز نہیں اتاری تھی جو لوگو ں کے واسطے روشنی اور ہدایت تھی جسے تم نے ورق ورق کر کےد کھلا یا اوربہت سی باتو ں کو چھپا رکھا اور تمہیں وہ چیزیں سکھائیں جنہیں تم اور تمہارے باپ دااد نہیں جانتے تھے تو کہہ دو الله ہی نے اتاری تھی پھرانہیں چھوڑ دو کہ اپنی بحث میں کھیلتے رہیں
4 Ahsanul Bayan
اور ان لوگوں نے اللہ کی جیسی قدر کرنا واجب تھی ویسی قدر نہ کی جب کہ یوں کہہ دیا کہ اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز نازل نہیں کی (١) آپ یہ کہئے وہ کتاب کس نے نازل کی ہے جس کو موسیٰ لائے تھے جس کی کیفیت یہ ہے کہ وہ نور ہے اور لوگوں کے لئے وہ ہدایت ہے جس کو تم نے ان متفرق اوراق میں رکھ چھوڑا (٢) ہے جن کو ظاہر کرتے ہو اور بہت سی باتوں کو چھپاتے ہو اور تم کو بہت سی ایسی باتیں بتائی گئی ہیں جن کو تم نہیں جانتے تھے اور نہ تمہارے بڑے۔ (٣)۔ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ نے نازل فرمایا (٤) پھر ان کو ان کے خرافات میں کھیلتے رہنے دیجئے۔
٩١۔١ قَدَر کے معنی اندازہ کرنے کے ہیں اور یہ کسی چیز کی اصل حقیقت جاننے اور اس کی معرفت حاصل کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ مشرکین مکہ رسل اور انزال کتب کا انکار کرتے ہیں، جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ انھیں اللہ کی صحیح معرفت ہی حاصل نہیں ورنہ وہ ان چیزوں کا انکار نہ کرتے، علاوہ ازیں اسی عدم معرفت الٰہی کی وجہ سے وہ نبوت و رسالت کی معرفت سے بھی قاصر رہے کہ انسان پر اللہ تعالٰی کا کلام کس طرح نازل ہو سکتا ہے؟جس طرح دوسرے مقام پر اللہ تعالٰی نے فرمایا (اَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَيْنَآ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ) 10۔یونس;2) کیا یہ بات لوگوں کے لیے باعث تعجب ہے کہ ہم نے ان ہی میں سے ایک آدمی پر وحی نازل کر کے اسے لوگوں کو ڈرانے پر مامور کر دیا ہے؟ دوسرے مقام پر فرمایا (وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ يُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَاۗءَهُمُ الْهُدٰٓى اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللّٰهُ بَشَرًا رَّسُوْلًا) 17۔ الاسراء;94) ہدایت آجانے کے بعد لوگ اسے قبول کرنے سے اس لیے رک گئے کہ انہوں نے کہا کہ کیا اللہ نے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیج دیا ہے؟ اس کی کچھ تفصیل اس سے قبل آیت نمبر ۸ کے حاشیے میں بھی گزر چکی ہے آیت زیر وضاحت میں بھی انہوں نے اپنے اس خیال کی بنیاد پر اس بات کی نفی کی کہ اللہ تعالٰی نے کسی انسان پر کوئی کتاب نازل کی ہے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ اگر یہ ہی بات ہے تو ان سے پوچھو! موسیٰ علیہ السلام پر تورات کس نے نازل کی تھی (جس کو یہ مانتے ہیں)
٩١۔٢ آیت کی مذکورہ تفسیر کے مطابق اب یہود سے خطاب کر کے کہا جا رہا ہے کہ تم اس کتاب کو متفرق اوراق میں رکھتے ہو جن میں سے جس کو چاہتے ہو ظاہر کر دیتے ہو اور جنکو چاہتے ہو چھپا لیتے ہو۔ جیسے رجم کا مسئلہ یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کا مسئلہ ہے۔ حافظ ابن کثیر اور امام ابن جریر طبری وغیرہ نے دلیل یہ دی ہے کہ یہ مکی آیت ہے، اس میں یہود سے خطاب کس طرح ہو سکتا ہے؟ اور بعض مفسرین نے پوری آیت کو ہی یہود سے متعلق قرار دیا ہے اور اس میں سرے سے نبوت و رسالت کا جو انکار ہے اسے یہود کی ہٹ دھرمی، ضد اور عناد پر مبنی قول قرار دیا ہے۔ گویا اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کی تین رائے ہیں۔ ایک پوری آیت کو یہود سے، دوسرے پوری آیت کو مشرکین سے اور تیسرے آیت کی ابتدائی حصے کو مشرکین سے متعلق اور یہود سے متعلق قرار دیتے ہیں۔ واللّٰہ اَعْلَمُ
٩١۔٣ یہود سے متعلقْ ماننے کی صورت میں اس کی تفسیر ہوگی کہ تورات کے ذریعے سے تمہیں بتائی گئیں، بصورت دیگر قرآن کے ذریعے سے۔
٩١۔٤ یہ مَنْ اَ نُزَ لَ (کس نے اتارا) کا جواب ہے
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ان لوگوں نے خدا کی قدر جیسی جاننی چاہیئے تھی نہ جانی۔ جب انہوں نے کہا کہ خدا نے انسان پر (وحی اور کتاب وغیرہ) کچھ بھی نازل نہیں کیا۔ کہو جو کتاب موسیٰ لے کر آئے تھے اسے کس نے نازل کیا تھا جو لوگوں کے لئے نور اور ہدایت تھی اور جسے تم نے علیحدہ علیحدہ اوراق (پر نقل) کر رکھا ہے ان (کے کچھ حصے) کو تو ظاہر کرتے ہو اور اکثر کو چھپاتے ہو۔ اور تم کو وہ باتیں سکھائی گئیں جن کو نہ تم جانتے تھے اور نہ تمہارے باپ دادا۔ کہہ دو (اس کتاب کو) خدا ہی نے (نازل کیا تھا) پھر ان کو چھوڑ دیا کہ اپنی بیہودہ بکواس میں کھیلتے رہیں
6 Muhammad Junagarhi
اور ان لوگوں نے، اللہ کی جیسی قدر کرنا واجب تھی ویسی قدر نہ کی جب کہ یوں کہہ دیا کہ اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز نازل نہیں کی آپ یہ کہیئے کہ وه کتاب کس نے نازل کی ہے جس کو موسیٰ ﻻئے تھے جس کی کیفیت یہ ہے کہ وه نور ہے اور لوگوں کے لئے وه ہدایت ہے جس کو تم نے ان متفرق اوراق میں رکھ چھوڑا ہے جن کو ﻇاہر کرتے ہو اور بہت سی باتوں کو چھپاتے ہو اور تم کو بہت سی ایسی باتیں بتائی گئی ہیں جن کو تم نہ جانتے تھے اور نہ تمہارے بڑے۔ آپ کہہ دیجیئے کہ اللہ نے نازل فرمایا ہے پھر ان کو ان کے خرافات میں کھیلتے رہنے دیجیئے
7 Muhammad Hussain Najafi
ان لوگوں نے اللہ کی اس طرح قدر نہیں کی جس طرح قدر کرنے کا حق تھا۔ جب انہوں نے یہ کہا کہ اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز نازل نہیں کی ان سے کہیے کہ وہ کتاب کس نے نازل کی تھی جسے موسیٰ لے کر آئے تھے؟ جو لوگوں کے لئے روشنی اور ہدایت (کا ذریعہ) تھی؟ جسے تم نے ورق ورق کر رکھا ہے۔ اس کا کچھ حصہ تو تم ظاہر کرتے ہو (مگر) بہت سا حصہ چھپاتے ہو۔ حالانکہ تمہیں وہ باتیں سکھائی گئیں ہیں جو نہ تمہیں معلوم تھیں اور نہ تمہارے باپ دادا کو کہیے اللہ نے (وہ کتاب نازل کی تھی)۔ پھر ان کو چھوڑ دیجیے کہ وہ اپنی بے ہودہ نکتہ چینی میں کھیلتے رہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ان لوگوں نے واقعی خدا کی قدر نہیں کی جب کہ یہ کہہ دیا کہ اللہ نے کسی بشر پر کچھ نہیں نازل کیا ہے تو ان سے پوچھئے کہ یہ کتاب جو موسٰی علیھ السّلاملے کر آئے تھے جو نور اور لوگوں کے لئے ہدایت تھی اور جسے تم نے چند کاغذات بنادیا ہے اور کچھ حصّہ ظاہر کیا اور کچھ چھپادیا حالانکہ اس کے ذریعہ تمہیں وہ سب بتادیا گیا تھا جو تمہارے باپ دادا کو بھی نہیں معلوم تھا یہ سب کس نے نازل کیا ہے اب آپ کہہ دیجئے کہ وہ وہی اللہ ہے اور پھر انہیں چھوڑ دیجئے یہ اپنی بکواس میں کھیلتے پھریں
9 Tafsir Jalalayn
اور ان لوگوں کے خدا کی قدر جیسی جاننی چاہئے تھی نہ جانی۔ جب انہوں نے کہا کہ خدا نے انسان پر (وحی اور کتاب وغیرہ) کچھ بھی نازل نہیں کیا۔ کہو کہ جو کتاب موسیٰ (علیہ السلام) لے کر آئے تھے اسے کس نے نازل کیا تھا \& جو لوگوں کے لئے نور اور ہدایت تھی۔ اور جسے تم نے علیٰحدہ علیٰحدہ اوراق (پر نقل) کر رکھا ہے۔ ان (کے کچھ حصّے) کو تو ظاہر کرتے ہو اور اکثر کو چھپاتے ہو۔ اور تم کو وہ باتیں سکھائی گئیں جنکو نہ تم جانتے تھے اور نہ تمہارے باپ دادا۔ کہہ دو (اس کتاب) خدا ہی نے (نازل کیا تھا) پھر انکو چھوڑ دو کہ اپنی بیہودہ بکواس میں کھیلتے رہیں۔
آیت نمبر ٩١ تا ٩٤
ترجمہ : یہود نے اللہ کی جیسی قدر کرنی چاہیے تھی یعنی جیسی تعظیم کرنی چاہیے تھی ویسی نہیں کی یا جیسی معرفت کا حق تھا ویسا حق ادا نہیں کیا جبکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآن میں مخاصمت کرتے ہوئے کہا کہ اللہ نے کسی انسان پر کوئی چیز نازل نہیں کی آپ ان سے پوچھو کہ اس کتاب کو کس نے نازل کیا جس کو موسیٰ (علیہ السلام) لے کر آئے تھے اس کی کیفیت یہ تھی کہ وہ لوگوں کیلئے نور اور ہدایت تھی، جس کو تم نے متفرق اوراق میں رکھ چھوڑا ہے یعنی اس کو اوراق متفرقہ میں لکھ رکھا ہے، (تجعلونَہٗ ) تینوں مقامات میں یاء اور تاء کے ساتھ ہے جن کو تم ظاہر کرتے ہو یعنی ان میں سے جن باتوں کو تم ظاہر کرنا پسند کرتے ہو ظاہر کرتے ہو اور اس کی بہت سی باتوں کو تم چھپا جاتے ہو مثلاً محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات (علامات) کو اور اے یہودیو ! تم کو قرآن میں بہت کچھ سکھایا گیا اس چیز کو بیان کرکے جو تمہارے لئے مشتبہ ہوگئی اور جس میں تم نے اختلاف کیا جس کا تورات سے نہ تم کو علم ہوا اور نہ تمہارے آباء (و اجداد) کو اگر وہ جواب نہ دیں (اقرار نہ کریں) تو تم خود ہی کہہ دو کہ اس کو اللہ نے نازل کیا ہے، پھر ان کو ان کی خرافات میں کھیلنے کیلئے چھوڑ دو یہ (بھی ویسی ہی) کتاب ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے، بڑی برکت والی ہے اور اپنے سے سابقہ کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے (اور اس لئے نازل کی گئی ہے) کہ مکہ والوں اور اس کے اطراف والوں کو یعنی اہل مکہ اور تمام لوگوں کو ڈراؤ (ینذرَ ) تاء اور یاء کے ساتھ ہے، اپنے ماقبل کے معنی پر عطف ہے، یعنی ہم نے اس کو برکت کیلئے اور تصدیق کیلئے اور اس کے ذریعہ ڈرانے کیلئے نازل کیا ہے جو لوگ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ اس (قرآن) پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور وہ آخرت کے عذاب کے خوف سے اپنی نمازوں کی پابندی کرتے ہیں اور اس سے بڑا ظالم کون ہوگا کہ جس نے اللہ پر جھوٹا بہتان لگایا نبوت کا دعویٰ کرکے حالانہ وہ نبی نہیں ہے یا کہے کہ مجھ پر وحی نازل کی گئی ہے حالانکہ اس پر کوئی چیز نازل نہیں کی گئی (یہ آیت) مسیلمہ کذاب کے بارے میں نازل ہوئی، اور جو شخص یوں کہے کہ جیسا کلام اللہ نے نازل کیا ہے میں بھی ایسا کلام لاسکتا ہوں اور (ایسا کہنے والے) استہزاء کرنے والے ہیں، (اور بعض) کہنے والوں نے کہا اگر ہم چاہیں تو ہم بھی ایسا کلام لاسکتے ہیں، کاش اے محمد تم مذکورہ ظالموں کو اس حالت میں دیکھتے کہ جب وہ موت کی سختیوں میں ہوں اور فرشتے زدوکوب اور عذاب کیلئے ان کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے سختی سے کہہ رہے ہوں اپنی جانوں کو ہماری طرف نکالو تاکہ ہم اس پر قبضہ کریں آج تمہیں ان باتوں کی پاداش میں جن کو تم نبوت اور انزال وحی کا ناحق دعوی کرکے اللہ پر جھوٹی تہمت لگایا کرتے تھے ذلت آمیز عذاب دیا جائیگا اور اس کی آیات کے مقابلہ میں سرکشی دکھایا کرتے تھے (یعنی) ان پر ایمان لانے سے تکبر کیا کرتے تھے، اور لَوْ کا جواب لَرَأیت امرًا فظیعًا (محذوف) ہے، تو آپ ایک ہولناک منظر دیکھتے، اور جب ان کو دوبارہ زندہ کیا جائیگا تو ان سے کہا جائیگا کہ تم آگئے نا، تن تنہا ہمارے پاس بغیر مال اور اہل و عیال کے جیسا کہ ہم نے تمہیں ابتداء پیدا کیا تھا، برہنہ پا، برہنہ بدن، غیر مختون، اور جو کچھ ہم نے تم کو مال (ومتاع دنیا میں) دیا تھا وہ سب اپنے پیچھے دنیا میں مجبوراً چھوڑ آئے، اور ان سے تو بیخاً کہا جائیگا ہم تمہارے ساتھ تمہارا سفارشی بتوں کو نہیں دیکھتے جن کے بارے میں تمہارا عقیدہ تھا کہ وہ تمہاری عبادت کے استحقاق میں اللہ کے شریک ہیں واقعی تمہارے آپس میں تو قطع تعلق ثابت ہوگیا، یعنی تمہاری جمعیت منتشر ہوگئی، اور ایک قراءت میں نصب کے ساتھ ظرف ہے یعنی تمہارے آپسی تعلقات، اور تمہارا وہ دعویٰ ختم ہوا جو کہ تم دنیا میں ان کی سفارش کے بارے میں کیا کرتے تھے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ای الیَھُوْدُ ، ما قَدَرُوا کا فاعل یہود کو ظاہر کرکے مشرکین کے احتمال کو دفع کردیا اس لئے کہ تجعلونَہٗ قَراطیسَ مشرکین کے حال کے مناسب نہیں ہے چونکہ مشرکین اہل کتاب ہی نہیں تھے کہ قراطیس کو متفرق کرتے۔
قولہ : فی المَوَاضِعِ الثَلٰثَۃِ ، ای تجعلونہ، یَبْدونھا، تَخْفُونَھا۔ قولہ : قَرَاطِیْس، قرطاس کی جمع ہے الگ الگ اوراق۔
قولہ : ای یَکْتُوُوْنَہٗ فی دَفَاتِرَ ۔ سوال : قراطیس کا حمل الکتاب پر درست نہیں ہے اسلئے کہ تجعلونَہٗ قراطیس کا کوئی مطلب نہیں ہے ؟
جواب : مفسر علام نے مذکورہ عبارت محذوف مان کر اسی اعتراض کا جواب دیا ہے یعنی وہ تورات کو متفرق دفاتر میں لکھتے تھے۔
قولہ : اَنْزلہٗ ، اس میں اشارہ ہے کہ اللہ مبتداء ہے اور انزلہ، خبر محذوف ہے، قرینہ مَنْ انزل ہے، اَنْزَل محذوف مان کر ایک سو ان کا جواب بھی مقصود ہے۔ سوال : اللہ، قُلْ فعل امر کا مقولہ ہے اور مقولہ کیلئے جملہ ہونا ضروری ہے حالانکہ لفظ اللہ مفرد ہے ؟
جواب : لفظ اللہ کے بعد اَنزلَ محذوف ہے اور اللہ انزل جملہ ہو کر قل کا مقولہ ہے۔
قولہ : عَطْفٌ عَلیٰ مَعْنٰی مَاقَبْلَہٗ ، یہ ماقبل کے معنی پر عطف ہے نہ کہ محذوف کی علت، تقدیر عبارت یہ ہے، وانزلناہ لتنذرَ الخ، اس لئے کہ حذف عند الضرورت ہوتا ہے اور یہاں ضرورت نہیں ہے۔
قولہ : وَلَوْ تَریٰ یا مُحَمَّدُ ، تریٰ کا مفعول الظٰلمون کی دلالت کی وجہ سے محذوف ہے، ای تریٰ الظالمین یا محمد۔
قولہ : حُفاۃً ، عُراۃً ، غُرلا، حُفَاۃ، کا واحد حافٍ وحافی ننگے پیر، عُراۃ، کا واحد عار، ننگے بدن غُرْلاً کا واحد اَغْرَل غیر مختون۔
قولہ : بَیْنَکُمْ ، اگر بینکم مرفوع پڑھا جائے تو تقطع کا فاعل ہوگا اور اگر منصوب پڑھا جائے تو ظرف کی بنا پر ہوگا اور فاعل تقطع کے اندر ضمیر ہوگی جو اتصال کی طرف راجع ہے جس پر ماقبل یعنی شرکاء دلالت کر رہا ہے مفسر علام نے اسی کی طرف اپنے قول ای وَصْلُکم بَیْنَکم سے اشارہ کیا ہے۔
تفسیر و تشریح
مَا قَدَرُوا اللہ حَقَّ قَدْرِہٖ ، قدر کے معنی اندازہ کرنے اور کسی چیز کی حقیقت جاننے اور اس کی معرفت حاصل کرنے کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ مشرکین مکہ ارسال رُسُل اور انزال کتب کا انکار کرتے ہیں، جسکے صاف معنی یہ ہیں کہ انہیں اللہ کی صحیح معرفت ہی حاصل نہیں ورنہ وہ ان چیزوں کا انکار نہ کرتے، اور اسی عدم معرفت الہیٰ کی وجہ سے وہ نبوت و رسالت کی معرفت سے بھی قاصر ہیں، اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی انسان پر اللہ کا کلام کس طرح نازل ہوسکتا ہے ؟ !
شان نزول : بعض مفسرین نے ما فدرُوا اللہ کا فاعل مشرکین مکہ کو قرار دیا ہے ابن جریر اور ابن حاتم اور ابن مردویہ وغیرہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے یہی معنی روایت کئے ہیں، بعض مفسرین نے ماقدروا اللہ کا فاعل یہود کو قرار دیا ہے، ایک روز یہود نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا اے محمد کیا اللہ نے تمہاری طرف کتاب نازل کی ہے آپ نے فرمایا نعم (ہاں) تو یہود نے کہا واللہ ما انزل اللہ من السماء کتاباً ، واللہ آسمان سے اللہ نے کوئی کتاب نازل نہیں کی۔
ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے سدی سے نقل کیا ہے فنحاص یہودی نے کہا ” ما انزل اللہ علی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) من شئ “ تو مذکورہ آیت نازل ہوئی، ابن جریر اور ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر سے نقل کیا ہے کہا ایک یہودی جس کا نام مالک بن صیف تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جھگڑنے لگا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، کہ میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات نازل فرمائی، کیا تم تورات میں پاتے ہو کہ اللہ حبر سمین کو مبغوض رکھتا ہے ؟ اور مالک بن صیف حِبْر سمین تھا (فربہ عالم تھا) تو مالک بن صیف اس بات سے ناراض ہوا اور کہا کہ ” واللہ ما انزل اللہ علی بشر من شئ “ تو اس کے ساتھیوں نے کہا ” وَیْحَکَ ولا علیٰ موسیٰ “ قال ما انزل اللہ علی بشرٍ من شئ تو مذکورہ آیت نازل ہوئی۔
تجعلونَہٗ قراطیس، یہود سے خطاب کرتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ تم اس کتاب کو متفرق اوراق میں رکھتے ہو جن میں سے جس کو چاہتے ہو ظاہر کرتے ہو اور جس کو چاہتے ہو چھپالیتے ہو مثلاً رجم کا مسئلہ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات و علامات کا مسئلہ حافظ ابن کثیر اور امام ابن جریر نے یَجْعلونَہٗ اور یبدونھا، غائب کے صیغوں والی قراءت کو ترجیح دی ہے اور دلیل یہ دی کہ یہ مکی آیت ہے اس میں یہود سے خطاب کیسے ہوسکتا ہے ؟ اور بعض مفسرین نے پوری آیت ہی کو یہود سے متعلق قرار دیا ہے اور اس میں سرے سے نبوت و رسالت کا انکار ہے اسے یہود کی ہٹ دھرمی اور ضد وعناد پر مبنی قرار دیا ہے، گویا اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کی تین رائے ہیں، ایک پوری آیت کو یہود سے دوسرے پوری آیت کو مشرکین سے متعلق قرار دیا جائے اور تیسرے، آیت کے ابتدائی حصہ کو مشرکین سے متعلق اور تجعلونہ کو یہود سے متعلق قرار دیا جائے یہود سے متعلق قرار دینے کی صورت میں اس کی تفسیر ہوگی کہ تورات کے ذریعہ سے تمہیں بتائی گئی، بصورت دیگر قرآن کے ذریعہ بتائی گئیں۔
تجعلونَہٗ قراطیس، کی تقدیر کلام تجعلونَہٗ فی القراطیس ہے، جیسا کہ مفسر علام نے تکتبونَہٗ فی دفاتر مقطعۃ کہہ کر اشارہ کیا ہے ورنہ تو حمل درست نہ ہوگا یعنی تم نے اس کو پارہ پارہ کردیا کہ تم اپنی مصلحت کے مطابق جس حصہ کو چاہو ظاہر کرو اور جس کو چاہو چھپاؤ، اور تمہیں اسی کتاب کے ذریعہ ان حقائق کی تعلیم دی گئی جن سے تم ناواقف تھے اور جن کے بارے میں تم التباس و تذبذب کا شکار تھے تمام بشری کوششوں کے باوجود ان حقائق کا علم نہ تم کو ہوسکا اور نہ تمہارے آباء و اجداد کو۔
ھذا کتاب انزلنہُ مبارکٌ، یہ ایسی کتاب ہے کہ مخلوق اس سے جتنا چاہے اپنی ہمت و ظرف کے مطابق فائدہ اٹھا سکتی ہے۔
امام فخر الدین رازی کی رائے : اس آیت کے ذیل میں فخر الدین رازی اپنا ذاتی تجربہ تحریر فرماتے ہیں۔ اس کتاب کے مصنف محمد بن عمر رازی کہتے ہیں کہ میں نے بہت سے علوم حاصل کئے نقلی بھی اور عقلی بھی لیکن کسی بھی علم سے مجھے دین و دنیا میں وہ خیر وسعادت حاصل نہیں ہوئی جو اس علم (قرآن) کی خدمت سے حاصل ہوئی۔ (کبیر)
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ نے یہود و مشرکین کے نفی رسالت کے قول کو سخت قبیح قرار دیا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان پر کوئی چیز نازل نہیں فرمائی۔ جو اس بات کا قائل ہے اس نے اللہ تعالیٰ کی وہ قدر اور تعظیم نہیں کی جو کرنی چاہئے تھی کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت میں عیب جوئی ہے، وہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مہمل چھوڑ دے گا ان کو کوئی حکم دے گا نہ ان کو کسی چیز سے روکے گا اور اس نے درحقیقت اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت کی نفی کی ہے جس سے اس نے اپنے بندوں کو نوازا ہے اور وہ یہ رسالت ہے۔ اس رسالت کے سوا بندوں کے لئے سعادت، کرامت اور فلاح حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں، تب اس نفی رسالت سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی ذات میں اور کون سی طعن و تشنیع ہے؟
﴿قُلْ ﴾ ان کے فساد قول کو متحقق کرتے ہوئے اور جس چیز کا وہ خود اقرار کرتے ہیں اس کو منواتے ہوئے ان سے کہہ دیجیے !﴿مَنْ أَنزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُوسَىٰ﴾ ” کون ہے جس نے وہ کتاب اتاری جسے موسیٰ لے کر آئے؟“ اور وہ ہے تو رات عظیم ﴿نُورًا﴾جو جہالت کی تاریکیوں میں روشنی ہے ﴿ وَهُدًى﴾ اور گمراہی میں ہدایت ہے اور علم و عمل میں راہ راست کی طرف راہنمائی کرتی ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جو شائع ہو کر پھیل چکی ہے اور جس کے تذکروں نے کانوں اور دلوں کو لبریز کردیا ہے حتی ٰکہ انہوں نے اسے کتابوں میں لکھنا شروع کیا اور پھر جیسے جی چاہا اس میں تصرف کیا۔ جو ان کی خواہشات کے موافق تھا اسے ظاہر کیا اور جو ان کے خلاف تھا اسے چھپا کر کتمان حق کے مرتکب ہوئے اور ایسا حصہ بہت زیادہ ہے۔
﴿وَعُلِّمْتُم ﴾ ” اور تمہیں وہ علوم سکھائے گئے“ جو اس کتاب جلیل کے سبب سے تھے﴿مَّا لَمْ تَعْلَمُوا أَنتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ﴾ ” جو نہ تم جانتے تھے اور نہ تمہارے باپ دادا“ جب آپ نے اس ہستی کے بارے میں ان سے پوچھ لیا جس نے یہ کتاب نازل کی، جو ان صفات سے موصوف ہے تو انہیں اس کا جواب دیجیے ﴿قُلِ اللَّـهُ ۖ ﴾ ” کہہ دیجیے ! اللہ“ یعنی انہیں بتلا دیں کہ کتاب نازل کرنے والا اللہ ہے۔ ﴿ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ﴾” پھر ان کو چھوڑ دو کہ اپنی بے ہودہ باتوں میں کھیلتے رہیں۔“ یعنی پھر ان کو ان کے اپنے حال پر باطل میں مشغول چھوڑ دیجیے، تاکہ یہ ان چیزوں کے ساتھ کھیلتے رہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں، یہاں تک کہ وہ اپنے اس دن سے جا ملیں جس کا ان کے ساتھ وعدہ کیا جاتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur inn ( kafir ) logon ney jab yeh kaha kay Allah ney kissi insan per kuch nazil nahi kiya to unhon ney Allah ki sahih qadar nahi pehchani . ( unn say ) kaho kay : woh kitab kiss ney nazil ki thi jo musa ley ker aaye thay , jo logon kay liye roshni aur hidayat thi , aur jiss ko tum ney mutafarriq kaghazon ki shakal mein rakha huwa hai . jinn ( mein say kuch ) ko tum zahir kertay ho , aur boht say hissay chupa letay ho , aur ( jiss kay zariye ) tum ko unn baaton ki taleem di gaee thi jo naa tum jantay thay , naa tumharay baap dada-? ( aey payghumber ! tum khud hi iss sawal kay jawab mein ) itna keh do kay : woh kitab Allah ney nazil ki thi . phir inn ko inn kay haal per chorr do kay yeh apni beyhooda guftoogo mein mashghool reh ker dil lagi kertay rahen .
12 Tafsir Ibn Kathir
تمام رسول انسان ہی ہیں
اللہ کے رسولوں کے جھٹلانے والے دراصل اللہ کی عظمت کے ماننے والے نہیں۔ عبداللہ بن کثیر کہتے ہیں کفار قریش کے حق میں یہ آیت اتری ہے اور قول ہے کہ یہود کی ایک جماعت کے حق میں ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ فخاص یہودی کے حق میں اور یہ بھی ہے کہ مالک بن صیف کے بارے میں کہا گیا ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ پہلا قول حق اس لئے ہے کہ آیت مکیہ ہے اور اس لئے بھی کہ یہودی آسمان سے کتاب اترنے کے بالکل منکر نہ تھے، ہاں البتہ قریشی اور عام عرب حضور کی رسالت کے قائیل نہ تھے اور کہتے تھے کہ انسان اللہ کا رسول نہیں ہوسکتا جیسے قرآن ان کا تعجب نقل کرتا ہے آیت (اَكَان للنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَيْنَآ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ ) 10 ۔ یونس :2) یعنی کیا لوگوں کو اس بات پر اچنبھا ہوا کہ ہم نے انہی میں سے ایک شخص کی طرف وحی نزول فرمائی کہ وہ لوگوں کو ہوشیار کر دے اور آیت میں ہے آیت (وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ يُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَاۗءَهُمُ الْهُدٰٓى اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللّٰهُ بَشَرًا رَّسُوْلًا) 17 ۔ الاسراء :94) لوگوں کے اس خیال نے ہی کہ کیا اللہ نے انسان کو اپنا رسول بنا لیا انہیں ایمان سے روک دیا ہے، سنو اگر زمین میں فرشتے بستے ہوتے تو ہم بھی آسمان سے کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجتے۔ یہاں بھی کفار کا یہی اعتراض بیان کر کے فرماتا ہے کہ انہیں جواب دو کہ تم جو بالکل انکار کرتے ہو کہ کسی انسان پر اللہ تعالیٰ نے کچھ بھی نازل نہیں فرمایا یہ تمہاری کیسی کھلی غلطی ہے ؟ بھلا بتلاؤ موسیٰ پر تورات کس نے اتاری تھی جو سراسر نور و ہدایت تھی الغرض تورات کے تم سب قائل ہو جو مشکل مسائل آسان کرنے والی، کفر کے اندھیروں کو جھانٹنے، شبہ کو ہٹانے اور راہ راست دکھانے والی ہے، تم نے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر رکھے ہیں صحیح اور اصلی کتاب میں سے بہت سا حصہ چھپا رکھا ہے کچھ اس میں سے لکھ لاتے ہو اور پھر اسے بھی تحریف کر کے لوگوں کو بتا رہے ہو، اپنی باتوں اپنے خیالات کو اللہ کی کتاب کی طرف منسوب کرتے ہو، قرآن تو وہ ہے جو تمہارے سامنے وہ علوم پیش کرتا ہے جن سے تم اور تمہارے اگلے اور تمہارے بڑے سب محروم تھے، پجھلی سچی خبریں اس میں موجود، آنے والے واقعات کی صحیح خبریں اس میں موجود ہیں جو آج تک دنیا کے علم میں نہیں آئی تھیں کہتے ہیں اس سے مراد مشرکین عرب ہیں اور بعض کہتے ہیں اس سے مراد مسلمان ہیں۔ پھر حکم دیتا ہے کہ یہ لوگ تو اس کا جواب کیا دیں گے کہ تورات کس نے اتاری ؟ تو خود کہہ دے کہ اللہ نے اتاری ہے پھر انہیں ان کی جھالت و ضلالت میں ہی کھیلتا ہوا چھوڑ دے یہاں تک کہ انہیں موت آئے اور یقین کی آنکھوں سے خود ہی دیکھ لیں کہ اس جہان میں یہ اچھے رہتے ہیں یا مسلمان متقی ؟ یہ کتاب یعنی قرآن کریم ہمارا اتارا ہوا ہے، یہ بابرکت ہے یہ اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے ہم نے اسے تیری طرف اس لئے نازل فرمایا کہ تو اہل مکہ کو، اس کے پاس والوں کو یعنی عرب کے قبائل اور عجمیوں کو ہوشیار کر دے اور ڈراوا دے دے۔ من حولھا سے مراد ساری دنیا ہے اور آیت میں ہے ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ) 7 ۔ الاعراف :158) یعنی اے دنیا جہان کے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا پیغمبر ہوں اور آیت میں ہے ( ۣوَاُوْحِيَ اِلَيَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْۢ بَلَغَ ) 6 ۔ الانعام :19) تاکہ میں تمہیں بھی اور جسے یہ پہنچے اسے ڈرا دوں اور قرآن سنا کر عذابوں سے خبردار کر دوں اور فرمان ہے آیت (وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ ۚ فَلَا تَكُ فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْهُ ۤ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُوْنَ ) 11 ۔ ہود :17) جو بھی اس کے ساتھ کفر کرے اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور آیت میں فرمایا گیا آیت (تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِهٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَۨا) 25 ۔ الفرقان :1) یعنی اللہ برکتوں والا ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہان والوں کو آگاہ کر دے اور آیت میں ارشاد ہے آیت (وَقُلْ لِّلَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَالْاُمِّيّٖنَ ءَاَسْلَمْتُمْ ۭ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْا ۚ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلٰغُ ۭ وَاللّٰهُ بَصِيْرٌۢ بِالْعِبَادِ ) 3 ۔ آل عمران :20) یعنی اہل کتاب سے اور ان پڑھوں سے بس سے کہہ دو کہ کیا تم اسلام قبول کرتے ہو ؟ اگر قبول کرلیں تو راہ راست پر ہیں اور اگر منہ موڑ لیں تو تجھ پر تو صرف پہنچا دینا ہے اللہ اپنے بندے کو خوب دیکھ رہا ہے، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں ان کو بیان فرماتے ہوئے ایک یہ بیان فرمایا کہ ہر نبی صرف ایک قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا لیکن میں تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہوں اسی لئے یہاں بھی ارشاد ہوا کہ قیامت کے معتقد تو اسے مانتے ہیں جانتے ہیں کہ یہ قرآن اللہ کی سچی کتاب ہے اور وہ نمازیں بھی صحیح وقتوں پر برابر پڑھا کرتے ہیں اللہ کے اس فرض کے قیام میں اور اس کی حفاظت میں سستی اور کاہلی نہیں کرتے۔