الممتحنہ آية ۱۲
يٰۤاَيُّهَا النَّبِىُّ اِذَا جَاۤءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ يُبَايِعْنَكَ عَلٰۤى اَنْ لَّا يُشْرِكْنَ بِاللّٰهِ شَيْــًٔا وَّلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِيْنَ وَلَا يَقْتُلْنَ اَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِيْنَ بِبُهْتَانٍ يَّفْتَرِيْنَهٗ بَيْنَ اَيْدِيْهِنَّ وَاَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِيْنَكَ فِىْ مَعْرُوْفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللّٰهَۗ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ
طاہر القادری:
اے نبی! جب آپ کی خدمت میں مومن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کے لئے حاضر ہوں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی اور چوری نہیں کریں گی اور بدکاری نہیں کریں گی اور اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی اور اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان سے کوئی جھوٹا بہتان گھڑ کر نہیں لائیں گی (یعنی اپنے شوہر کو دھوکہ دیتے ہوئے کسی غیر کے بچے کو اپنے پیٹ سے جنا ہوا نہیں بتائیں گی) اور (کسی بھی) امرِ شریعت میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی، تو آپ اُن سے بیعت لے لیا کریں اور اُن کے لئے اللہ سے بخشش طلب فرمائیں، بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے،
English Sahih:
O Prophet, when the believing women come to you pledging to you that they will not associate anything with Allah, nor will they steal, nor will they commit unlawful sexual intercourse, nor will they kill their children, nor will they bring forth a slander they have invented between their arms and legs, nor will they disobey you in what is right – then accept their pledge and ask forgiveness for them of Allah. Indeed, Allah is Forgiving and Merciful.
1 Abul A'ala Maududi
اے نبیؐ، جب تمہارے پاس مومن عورتیں بیعت کرنے کے لیے آئیں اور اس بات کا عہد کریں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں گی، چوری نہ کریں گی، زنا نہ کریں گی، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی، اپنے ہاتھ پاؤں کے آگے کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی، اور کسی امر معروف میں تمہاری نافرمانی نہ کریں گی، تو ان سے بیعت لے لو اور اُن کے حق میں اللہ سے دعائے مغفرت کرو، یقیناً اللہ درگزر فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اے نبی جب تمہارے حضور مسلمان عورتیں حاضر ہوں اس پر بیعت کرنے کو کہ اللہ کا کچھ شریک نہ ٹھہرائیں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ بدکاری اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ وہ بہتان لائیں گی جسے اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان یعنی موضع ولادت میں اٹھائیں اور کسی نیک بات میں تمہاری نافرانی نہ کریں گی تو ان سے بیعت لو اور اللہ سے ان کی مغفرت چاہو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے،
3 Ahmed Ali
اے نبی جب آپ کے پاس ایمان والی عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کو آئیں کہ الله کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرینگی اور نہ چوری کریں گی اور نہ زنا کریں گی اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ بہتان کی اولاد لائیں گی جسے اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان (نطفہٴ شوہر سے جنی ہوئی) بنا لیں اور نہ کسی نیک بات میں آپ کی نافرمانی کریں گی تو ان کی بیعت قبول کر اور ان کے لیے الله سے بخشش مانگ بے شک الله بخشنے والا نہایت رحم والا ہے
4 Ahsanul Bayan
اے پیغمبر! جب مسلمان عورتیں آپ سے ان باتوں پر بیعت کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی،چوری نہ کریں گی، زنا کاری نہ کریں گی، اپنی اولاد کو نہ مار ڈالیں گی اور کوئی ایسا بہتان نہ باندھیں گی جو خود اپنے ہاتھوں پیروں کے سامنے گھڑ لیں اور کسی نیک کام میں تیری بےحکمی نہ کریں گی تو آپ ان سے بیعت کرلیا کریں (۱) اور ان کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کریں بیشک اللہ تعالٰی بخشنے والا اور معاف کرنے والا ہے۔
۱۲۔۱ یہ بیعت اس وقت لیتے جب عورتیں ہجرت کرکے آتیں جیسا کہ صحیح بخاری تفسیر سورہ ممتحنہ میں ہے علاوہ ازیں فتح مکہ والے دن بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی عورتوں سے بیعت لی بیعت لیتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف زبان سے عہد لیتے کسی عورت کے ہاتھ کو آپ نہیں چھوتے تھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اللہ کی قسم بیعت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے کبھی کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا بیعت کرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف یہ فرماتے کہ میں نے ان باتوں پر تجھ سے بیعت لے لی ۔ صحیح بخاری۔ بیعت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ عہد بھی عورتوں سے لیتے تھے کہ وہ نوحہ نہیں کریں گی گریبان چاک نہیں کریں گی سر کے بال نہیں نوچیں گی اور جاہلیت کی طرح بین نہیں کریں گی ۔ صحیح بخاری۔ اس بیعت میں نماز روزہ حج اور زکوۃ وغیرہ کا ذکر نہیں ہے اس لیے کہ یہ ارکان دین اور شعائراسلام ہونے کے اعتبار سے محتاج وضاحت نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور خاص ان چیزوں کی بیعت لی جن کا عام ارتکاب عورتوں سے ہوتا تھا تاکہ وہ ارکان دین کی پابندی کے ساتھ ان چیزوں سے بھی اجتناب کریں اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ علماودعاۃ اور واعظین حضرات اپنا زور خطابت ارکان دین کے بیان کرنے میں ہی صرف نہ کریں جو پہلے ہی واضح ہیں بلکہ ان خرابیوں اور رسموں کی بھی پر زور انداز میں تردید کیا کریں جو معاشرے میں عام ہیں اور نماز روزے کے پابند حضرات بھی ان سے اجتناب نہیں کرتے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اے پیغمبر! جب تمہارے پاس مومن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کو آئیں کہ خدا کے ساتھ نہ شرک کریں گی نہ چوری کریں گی نہ بدکاری کریں گی نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی نہ اپنے ہاتھ پاؤں میں کوئی بہتان باندھ لائیں گی اور نہ نیک کاموں میں تمہاری نافرمانی کریں گی تو ان سے بیعت لے لو اور ان کے لئے خدا سے بخشش مانگو۔ بےشک خدا بخشنے والا مہربان ہے
6 Muhammad Junagarhi
اے پیغمبر! جب مسلمان عورتیں آپ سے ان باتوں پر بیعت کرنے آئیں کہ وه اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی، چوری نہ کریں گی، زنا کاری نہ کریں گی، اپنی اوﻻد کو نہ مار ڈالیں گی اور کوئی ایسا بہتان نہ باندھیں گی جو خود اپنے ہاتھوں پیروں کے سامنے گھڑ لیں اور کسی نیک کام میں تیری بےحکمی نہ کریں گی تو آپ ان سے بیعت کر لیا کریں، اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کریں بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے اور معاف کرنے واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے نبی(ص)! جب مؤمن عورتیں بیعت کرنے کیلئے آپ کے پاس آئیں تو ان سے ان شرائط پر لو کہ وہ کسی چیز کو اللہ کا شریک نہیں ٹھہرائیں گی، چوری نہیں کریں گی، زنا نہیں کریں گی، اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی، اور اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان کوئی بہتان گھڑ کر (اپنے شوہروں پر) نہیں باندھیں گی (کسی غیر کے بچے کو شوہر کا بچہ قرار نہیں دیں گی)، اور نہ ہی کسی نیکی کے کام میں آپ(ص) کی نافرمانی کریں گی ان سے بیعت لے لیجئے اور اللہ سے ان کیلئے دعائے مغفرت کیجئے۔ بےشک اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پیغمبر اگر ایمان لانے والی عورتیں آپ کے پاس اس امر پر بیعت کرنے کے لئے آئیں کہ کسی کو خدا کا شریک نہیں بنائیں گی اور چوری نہیں کریں گی - زنا نہیں کریں گی - اولاد کو قتل نہیں کریں گی اور اپنے ہاتھ پاؤں کے سامنے سے کوئی بہتان (لڑکا) لے کر نہیں آئیں گی اور کسی نیکی میں آپ کی مخالفت نہیں کریں گی تو آپ ان سے بیعت کا معاملہ کرلیں اور ان کے حق میں استغفار کریں کہ خدا بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے
9 Tafsir Jalalayn
اے پیغمبر ! جب تمہارے پاس مومن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کو آئیں کہ خدا کے ساتھ نہ تو شرک کریں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ بدکاری کریں گی اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ اپنے ہاتھ پاؤں میں کوئی بہتان باندھ لائیں گی اور نہ نیک کاموں میں تمہاری نافرمانی کریں گی تو ان سے بیعت لے لو اور ان کے لئے خدا سے بخشش مانگو۔ بیشک خدا بخشنے والا مہربان ہے
عورتوں کی بیعت :
جب مکہ فتح ہوا تو قریش کے لوگ جوق در جوق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کرنے کے لئے آنے لگے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مردوں سے کوہ صفا پر خود بیعت لی، اور حضرت عمر (رض) کو اپنی طرف سے مامور فرمایا کہ وہ عورتوں سے بیعت لیں اور ان باتوں کا اقرار کرائیں جو اس آیت میں بیان ہوئی ہیں (ابن جریر بروایت ابن عباس (رض) پھر مدینہ واپس لے جا کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مکان میں انصار کی خواتین کو جمع کرنے کا حکم دیا اور حضرت عمر (رض) کو ان سے بیعت لینے کے لئے بھیجا۔ (ابن جریر) ان مواقع کے علاوہ بھی مختلف اوقات میں عورتیں فرداً فرداً بھی اور اجتماعی طور پر بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کرتی رہیں جن کا ذکر متعدد احادیث میں ہے۔
ابوسفیان (رض) کی بیوی ہندبنت عتبہ کی بیعت :
مکہ معظمہ میں جب عورتوں سے بیعت کی جا رہی تھی اس وقت حضرت ابوسفیان (رض) کی بیوی ہند بنت عتبہ نے اس حکم کی تشریح دریافت کرتے ہوئے حضور سے عرض کیا یا رسول اللہ ابوسفیان ذرابخیل آدمی ہیں، کیا میرے اوپر اس میں کوئی گناہ ہے کہ میں اپنی اور اپنے بچوں کی ضروریات کے لئے ان سے پوچھے بغیر ان کے مال میں سے کچھ لے لیا کروں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں، مگر بس معروف حد تک یعنی بس اتنا مال لے لیا کرو وجوفی الواقع جائز ضروریات کے لئے کافی ہو۔ (احکام القرآن لابن العربی)
دو اہم قانونی نکتے :
ولا یعصینک فی معروف یعنی وہ کسی (معروف) نیک کام میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی خلاف ورزی نہ کریں گی، اس مختصر فقرے میں دو اہم قانونی نکتے بیان کئے گئے ہیں،
پہلا نکتہ :
یہ کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت پر بھی اطاعت فی المعروف کی قید لگائی گئی ہے، حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں اس امر کے کسی ادنیٰ شبہ کی گنجائش بھی نہ تھی کہ آپ کبھی منکر کا حکم بھی دے سکتے ہیں، اس سے خود بخود یہ بات واضح ہوگئی کہ دنیا میں کسی مخلوق کی اطاعت قانون خداوندی کی حدود سے باہر جا کر نہیں کی جاسکتی، کیونکہ جب خدا کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک کی اطاعت معروف کی شرط سے مشروط ہے تو پھر کسی دوسرے کا یہ مقام کہاں ہوسکتا ہے کہ اسے غیر مشروط اطاعت کا حق پہنچے، اس قاعدہ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ” لا طاعۃ المخلوق فی معصیۃ اللہ انما الطاعۃ فی المعروف، اللہ کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں ہے، اطاعت تو صرف معروف اور اچھی چیزوں میں ہے۔ (مسلم، ابو دائود، نسائی)
دوسرا اہم نکتہ :
دوسری بات جو قانونی حیثیت سے بڑی اہمیت رکھتی ہے یہ ہے کہ اس آیت میں پانچ منفی احکام دینے کے بعد مثبت حکم صرف ایک ہی دیا گیا ہے اور وہ یہ کہ تمام نیک کاموں میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کی اطاع کی جائے گی، جہاں تک برائیوں کا تعلق ہے، تو وہ بڑی بڑی برائیاں گنا دی گئیں جن میں زمانہ جاہلیت کی عورتیں مبتلا تھیں اور ان سے باز رہنے کا عہد لے لیا گیا، مگر جہاں تک بھلائیوں کا تعلق تھا ان کی کوئی فہرست دے کر اس پر عہد نہیں لیا گیا کہ تم فلاں فلاں اعمال کرو گی، بلکہ صرف یہ عہد لیا گیا کہ جس نیک کام کا بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حکم فرمائیں گے اس کی پیروی تمہیں کرنی ہوگی، اب یہ ظاہر ہے کہ اگر وہ نیک اعمال صرف وہی ہوں جن کا حکم اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دیا ہے تو عہد ان الفاظ میں لیا جانا چاہیے تھا کہ تم اللہ کی نافرمانی نہ کرو گی، یا یہ کہ تم قرآن کے احکام کی نافرمانی نہ کرو گی، لیکن جب عہد ان الفاظ میں لای گیا کہ جس نیک کام کا بھی حکم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیں گے تم اس کی خلاف ورزی نہ کرو گی، تو اس سے خودبخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ معاشرے کی اصلاح کے لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وسیع ترین اختیارات دیئے گئے ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام احکام واجب الاطاعت ہیں خواہ وہ قرآن میں موجود ہوں یا نہ ہوں۔
اسی آئینی اختیار کی بناء پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیعت لیتے ہوئے ان بہت سی برائیوں کے چھوڑنے کا بھی عہد لیا جو اس وقت عرب معاشرہ میں عورتوں میں پھیلی ہوئی تھیں اور متعدد ایسے احکام دیئے جو قرآن میں مذکور نہیں ہیں، اس کے لئے حسب ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیں۔
ابن عباس (رض) ام سلمہ (رض) اور ام عطیہ انصاریہ (رض) وغیرہ سے روایات ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں سے بیعت لیتے وقت یہ عہد لیا کہ وہ مرنے والوں پر نوحہ نہیں کریں گی، یہ روایات بخاری، مسلم، نسائی وغیرہ میں ہیں، ابن عباس (رض) کی ایک روایت میں یہ تفصیل بھی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر (رض) کو عورتوں سے بیعت لینے کے لئے مامور کیا اور حکم دیا کہ ان کو نوحہ کرنے سے منع کریں، کیونکہ زمانہ جاہلیت میں عورتیں مرنے والوں پر نوحہ کرتے ہوئے کپڑے پھاڑتی تھیں منہ نوچتی تھیں، بال کاٹتی تھیں اور سخت واویلا مچاتی تھیں۔ (ابن تحریر)
زید بن اسلم (رض) روایت کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیعت لیتے وقت عورتوں کو اس سے منع فرمایا کہ وہ مرنے والوں پر نوحہ کرتے ہوئے منہ نوچیں، گریبان پھاڑیں۔ (ملخصاً ابن جریر)
قتادہ رحمتہ اللہ تعالیٰ اور حسن بصری رحمتہ اللہ تعالیٰ روایت کرتے ہیں کہ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیعت لیتے وقت عورتوں سے لئے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ غیر محرم مردوں سے بات نہ کریں گی، ابن عباس (رض) کی روایت میں اس کی یہ واضحت ہے کہ غیر مردوں سے تخلیہ میں بات نہ کریں گی، حضرت قتادہ (رض) نے مزید یہ وضاحت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد سن کر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم گھر پر نہیں ہوتے اور ہمارے یہاں کوئی صاحب ملنے آجاتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری مراد یہ نہیں ہے، یعنی عورت کا کسی آنے والے سے اتنی بات کہہ دینا ممنوع نہیں ہے کہ صاحب خانہ گھر میں موجود نہیں ہیں۔ (یہ روایت ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے نقل کی ہے۔ )
حضرت فاطمہ (رض) کی خالہ امیمہ بنت رقیقہ سے عبداللہ بن عمرو بنعاص (رض) نے روایت نقل کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے یہ عہد لیا کہ نوحہ نہ کرنا اور جاہلیت کے بنائو سنگھار کر کے اپنی نمائش نہ کرنا (مسند احمد)
حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خالہ بنت قیس کہتی ہیں کہ میں انصار کی چند عورتوں کے ساتھ بیعسہ کے لئے حاضر ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی اس آیت کے مطابق ہم سے عہد لیا، پھر فرمایا ’ ولا تغششن ازواجکن “ اپنے شوہروں سے دھوکے بازی نہ کرنا، جب ہم واپس ہونے لگیں تو ایک عورت نے مجھ سے کہا کہ جا کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھو، شوہروں سے دھوکے بازی کرنے کا کیا مطلب ہے ؟ میں نے جا کر پوچھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” تاخذ مالہ فتحابی غیرہ “ یہ کہ تو شوہر کا مال لے اور دوسرے پر لٹا دے۔ (مسند احمد)
جو لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس آئینی اختیار کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیثیت رسالت کے بجائے حیثیت امارات سے متعلق قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ اپنے وقت کے حکمراں بھی تھے اس لئے اپنی اس حیثیت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو احکام دیئے ہیں وہ صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ تک ہی واجب الاطاعت تھے، وہ بڑی جہالت کی بات کرتے ہیں اوپر کے سطور میں جو احکام نقل کئے گئے ہیں ان پر آپ ایک نظر ڈال لیجیے، ان میں عورتوں کی اصلاح کے لئے جو ہدایات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دی ہیں وہ اگر محض حاکم وقت ہونے کی حیثیت سے ہوتیں تو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پوری دنیا کے مسلم معاشرے کی عورتوں میں یہ اصلاحات کیسے رائج ہوسکتی تھیں ؟ آخر دنیا کا وہ کونسا حاکم ہے جس کو یہ مرتبہ حاصل ہو کہ ایک مرتبہ اس کی زبان سے ایک حکم صادر ہو اور روئے زمین پر جہاں جہاں بھی مسلمان آباد ہیں وہاں کے مسلم معاشرے میں ہمیشہ کے لئے وہ اصلاحات رائج ہوجائیں جس کا حکم اس نے دیا ہے ؟
10 Tafsir as-Saadi
اس آیت کریمہ میں مذکورہ شرائط” عورتوں کی بیعت“ کے نام سے موسوم ہیں جو ان مشترکہ واجبا ت کی ادئیگی پر بیعت کرتی تھیں، جو تمام اوقات میں مردوں اور عورتوں پر واجب ہیں ۔رہے مرد، تو ان کے احوال ومراتب کے مطابق جو واجبات ان پر لازم آتے اور متعین ہوتے ہیں، ان میں تفاوت ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو حکم دیتا تھا آپ اس کو بجالاتے تھے، جب عورتیں آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کی درخواست کرتیں اور ان مذکورہ شرائط کا التزام کرتیں تو آپ ان سے بیعت لے لیا کرتے تھے۔ آپ ان کے دل جوئی کرتے اور ان امور میں اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے بخشش طلب کرتے جن میں ان سے کوتاہی واقع ہوتی اور انہی جملہ مومنین میں ان شرائط کے ساتھ شامل کرتے کہ ﴿ لَّا یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَـیْـــــًٔــا﴾ ”وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی۔“ بلکہ وہ اکیلے اللہ تعالیٰ کو عبادت کا مستحق سمجھیں گی﴿وَلَا یَقْتُلْنَ اَوْلَادَہُنَّ﴾ ”اور وہ اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی۔“ جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں جاہل عورتوں سے اپنی بیٹیوں کو ”زندہ درگور “کرنا صادر ہوتا تھا۔ ﴿ وَلَا یَزْنِیْنَ﴾ ”اور وہ زنا نہیں کریں گی۔“ جیسا کہ غیر مردوں سے یاری دوستی رکھنے والی عورتوں میں یہ فعل کثرت سے موجود تھا ﴿وَلَا یَاْتِیْنَ بِبُہْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَہٗ بَیْنَ اَیْدِیْہِنَّ وَاَرْجُلِہِنَّ﴾”اور کوئی ایسا بہتان نہ لگائیں گی جو خود اپنے ہاتھوں اور پیروں کے سامنے گھڑ لیں۔“ بہتان سے مراد غیر پر پر افترا پردازی ہے، یعنی وہ کسی بھی حالت میں افتراپردازی نہیں کریں گی، خواہ اس کا تعلق خود اپنے اور اپنے شوہر کے ساتھ ہو یا شوہر کے علاوہ دوسرے کے ساتھ ہو۔ ﴿وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ﴾ یعنی کسی بھی نیک کام میں، جس کا آپ حکم دیں، وہ آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی کیونکہ آپ کا حکم معروف کےمطابق (نیک) ہی ہوگا۔ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ نوحہ کرنے، گریبان چاک کرنے، چہرہ نوچنے اور جاہلیت کی آواز نکالنے کی ممانعت میں آپ کی اطاعت کریں گی۔ ﴿ فَبَايِعْهُنَّ ﴾ جب وہ مذکورہ احکام کی تعمیل کا التزام کریں تو ان سے بیعت لیجئے ﴿ وَاسْتَغْفِرْ لَہُنَّ اللّٰہَ ﴾ اور ان کی دل جمعی کے لیے، ان کی تقصیر کی اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کیجئے۔ ﴿اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ ﴾ یعنی وہ نافرمانوں کو بہت کثرت سے بخشنے والا اور گناہ گار تائبین پر احسان کرنے والا ہے۔ ﴿ رَّحِیْمٌ ﴾اس کی رحمت ہر چیز پر سایہ کناں اور اس کا احسان تمام مخلوقات کو شامل ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey nabi ! jab tumharay paas musalman aurten iss baat per beyat kernay kay liye ayen kay woh Allah kay sath kissi bhi cheez ko shareek nahi maanen gi , aur chori nahi keren gi , aur zina nahi keren gi , aur apni aulad ko qatal nahi keren gi , aur naa koi aisa bohtan baandhen gi jo unhon ney apney haathon aur paon kay darmiyan gharr liya ho , aur naa kissi bhalay kaam mein tumhari nafarmani keren gi , to tum unn ko beyat kerliya kero , aur unn kay haq mein Allah say maghfirat ki dua kiya kero . yaqeenan Allah boht bakhshney wala , boht meharban hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
خواتین کا طریقہ بیعت
صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا ہے جو مسلمان عورتیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ہجرت کر کے آتی تھیں ان کا امتحان اسی آیت سے ہوتا تھا جو عورت ان تمام باتوں کا اقرار کرلیتی اسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زبانی فرما دیتے کہ میں نے تم سے بیعت کی یہ نہیں کہ آپ ان کے ہاتھ سے ہاتھ ملاتے ہوں اللہ کی قسم آپ نے کبھی بیعت کرتے ہوئے کسی عورت کے ہاتھ کو ہاتھ نہیں لگایا صرف زبانی فرما دیتے کہ ان باتوں پر میں نے تیری بیعت لی، ترمذدی نسائی ابن ماجہ مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ حضرت امیہ بنت رفیقہ فرماتی ہیں کئی ایک عورتوں کے ساتھ میں بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کرنے کے لئے حاضر ہوئی تو قرآن کی اس آیت کے مطابق آپ نے ہم سے عہد و پیمان لیا اور ہم بھلی ابتوں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی نہ کریں گی کے اقرار کے وقت فرمایا یہ بھی کہہ لو کہ جاں تک تمہاری طاقت ہے، ہم نے کہا اللہ کو اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہمارا خیال ہم سے بہت زیادہ ہے اور ان کی مہربانی بھی ہم پر خود ہماری مہربانی سے بڑھ چڑھ کر ہے پھر ہم نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ہم سے مصافحہ نہیں کرتے ؟ فرمایا نہیں میں غیر عورتوں سے مصافحہ نہیں کیا کرتا میرا ایک عورت سے کہہ دینا سو عورتوں کی بیعت کے لئے کافی ہے بس بیعت ہوچکی، امام تمذی اس حدیث کو حسن صحیح کہتے ہیں، مسند احمد میں اتنی زیادتی اور بھی ہے کہ ہم میں سے کسی عورت کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مصافحہ نہیں کیا، یہ حضرت امیہ حضرت خدیجہ کی بہن اور حضرت فاطمہ کی خالہ ہوتی ہیں، مسند احمد میں حضرت سلمیٰ بنت قیس (رض) جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خالہ تھیں اور دونوں قبلوں کی طرف حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز ادا کی تھی جو بنو عدی بن نجار کے قبیلہ میں سے تھیں فرماتی ہیں انصار کی عورتوں کے ساتھ خدمت نبوی میں بیعت کرنے کے لئے میں بھی آئی تھی اور اس آیت میں جن باتوں کا ذکر ہے ان کا ہم نے اقرار کیا آپ نے فرمایا اس بات کا بھی اقرار کرو کہ اپنے خاوندوں کی خیانت اور ان کے ساتھ دھوکہ نہ کرو گی ہم نے اس کا بھی اقرار کیا بیعت کی اور جانے لگیں پھر مجھے خیال آیا اور ایک عورت کو میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیجا کہ وہ دریافت کرلیں کہ خیانت و دھوکہ نہ کرنے سے آپ کا کیا مطلب ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ کہ اس کا مال چپکے سے کسی اور کو نہ دو ۔ مسند کی حدیث میں ہے حضرت ائشہ بنت قدامہ فرماتی ہیں میں اپنی والدہ رابطہ بنت سفیان نزاعیہ کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کرنے والیوں میں تھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان باتوں پر بیعت لے رہے تھے اور عورتیں ان کا اقرار کرتی تھیں میری والدہ کے فرمان سے میں نے بھی اقرار کیا اور بیعت والیوں میں شامل ہوئی، صحیح بخاری شریف میں حضرت ام عطیہ سے منقول ہے کہ ہم نے ان باتوں پر اور اس امر پر کہ ہم کسی مرے پر نوحہ نہ کریں گی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کی اسی اثناء میں ایک عورت نے اپنا ہاتھ سمیٹ لیا اور کہا میں نوحہ کرنے سے باز رہنے پر بیعت نہیں کرتی اس لئے کہ فلاں عورت نے میرے فلاں مرے پر نوحہ کرنے میں میری مدد کی ہے تو میں اس کا بدلہ ضرور اتاروں گی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے سن کر خاموش ہو رہے اور کچھ نہ فرمایا وہ چلی گئیں لیکن پھر تھوڑی ہی دیر میں واپس آئیں اور بیعت کرلی، مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے اور اتنی زادتی بھی ہے کہ اس شرط کو صرف اس عورت نے اور حضرت ام سلیم بنت ملحان نے ہی پورا کیا، بخاری کی اور روایت میں ہے کہ پانچ عورتوں نے اس عہد کو پورا کیا، ام سلیم ام علام، ابو سبرہ کی بیٹی جو حضرت معاذ کیب یوی تھیں اور دو اور عورتیں یا ابو سبرہ کی بیٹی اور حضرت معاذ کی بیوی اور ایک عورت اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عید والے دن بھی عورتوں سے اس بیعت کا معاہدہ لیا کرتے تھے، بخاری میں ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رمضان کی عید کی نماز میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اور ابوبکر عمر عثمان (رض) کے ساتھ پڑھی ہے سب کے سب خطبے سے پہلے نماز پڑھتے تھے، پھر نماز کے بعد خطبہ کہتے تھے ایک مرتبہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبے سے اترے گویا وہ نقشہ میری نگاہ کے سامنے ہے کہ لوگوں کو بٹھایا جاتا تھا اور آپ ان کے درمیان سے تشریف لا رہے تھے یہاں تک کہ عورتوں کے پاس آئے آپ کے ساتھ حضرت بلال تھے یہاں پہنچ کر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی پھر آپ نے دریافت کیا کہ کیا تم اپنے اس اقرار پر ثابت قدم ہو ایک عورت نے کھڑے ہو کر جواب دیا کہ ہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہیں کسی اور نے جواب نہیں دیا، راوی حدیث حضرت حسن کو یہ معلوم نہیں کہ یہ جواب دینے والی کونسی عورت تھیں، پھر آپ نے فرمایا اچھا خیرات کرو اور حضرت بلال نے اپنا کپڑا پھیلا دیا چناچہ عورتوں نے اس پر بےنگینہ کی اور نگینہ دار انگوٹھیاں راہ اللہ ڈال دیں، مسند احمد کی روایت میں حضرت امیمہ کی بیعت کے ذکر میں آیت کے علاوہ اتنا اور بھی ہے کہ نوحہ کرنا اور جاہلیت کے زمانہ کی طرح اپنا بناؤ سنگھار غیر مردوں کو نہ دکھانا، بخاری مسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مردوں سے بھی ایک مجلس میں فرمایا کہ مجھ سے ان باتوں پر بیعت کرو جو اس آیت میں ہیں جو شخص اس بیعت کو نبھا دے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے اور جو اس کے خلاف کر گزرے اور وہ مسلم حکومت سے پوشیدہ رہے اس کا حساب اللہ کے پاس ہے اگر چاہے بخش دے اور اگر چاہے عذاب کرے، حضرت عبادہ بن صامت (رض) فرماتے ہیں کہ عقبہ اولیٰ میں ہم بارہ شخصوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کی اور انہی باتوں پر جو اس آیت میں مذکور ہیں آپ نے ہم سے بیعت لی اور فرمایا اگر تم اس پر پورے اترے تو یقیناً تمہارے لئے جنت ہے، یہ واقعہ جہاد کی فرضیت سے پہلے کا ہے، ابن جریر کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو حکم دیا کہ وہ عورتوں سے کیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم سے اس بات پر بیعت لیتے ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ان بیعت کے لئے آنے والیوں میں حضرت ہندہ تھیں جو عقبہ بن ربیعہ کی بیٹی اور حضرت سفیان کی بیوی تھیں یہی تھیں جنہوں نے اپنے کفر کے زمانہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا حضرت حمزہ (رض) کا پیٹ چیر دیا تھا اس وجہ سے یہ ان عورتوں میں ایسی حالت سے آئی تھیں کہ کوئی انہیں پہچان نہ سکے اس نے جب فرمان سنا تو کہنے لگی میں کچھ کہنا چاہتی ہوں لیکن اگر بولوں گی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے پہچان لیں گے اور اگر پہچان لیں گے تو میرے قتل کا حکم دے دیں گی میں اسی وجہ سے اس طرح آئی ہوں کہ نہ پہچانی جاؤں مگر اور عورتیں سب خاموش رہیں اور ان کی بات اپنی زبان سے کہنے سے انکار کردیا، آخر ان ہی کو کہنا پڑا کہ یہ ٹھیک ہے جب شرک کی ممانعت مردوں کو ہے تو عورتوں کو کیوں نہ ہوگی ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی طرف دیکھا لیکن آپ نے کچھ نہ فرمایا پھر حضرت عمر سے کہا ان سے کہہ دو کہ دوسری بات یہ ہے کہ یہ چوری نہ کریں اس پرہندہ نے کہا میں ابو سفیان کی معمولی سی چیز کبھی کبھی لے لیا رتی ہوں کیا یہ بھی چوری میں دخل ہے یا نہیں ؟ اور میرے لئے یہ حلال بھی ہے یا نہیں ؟ حضرت ابو سفیان بھی اسی مجلس میں موجود تھے، یہ سنتے ہی کہنے لگے میرے گھر میں جو کچھ بھی تو نے لیا ہو خواہ وہ خرچ میں آگیا ہو یا اب بھی باقی ہو وہ سب میں تیرے لئے حلال کرتا ہوں اب تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صاف پہچان لیا کہ یہ میرے چچا حمزہ کی قاتلہ اور اس کے کلیجے کو چیرنے والی پھر اسے چبانے والی عورت ہندہ ہے، آپ نے انہیں پہچان کر اور ان کی یہ گفتگو دیکھ کر مسکرا دیئے اور انہیں اپنے بلایا انہوں نے آکر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہاتھ تھام کر معافی مانگی آپ نے فرمایا۔ تم وہی ہندہ ہو ؟ انہوں نے کہا گزشتہ گناہ اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش ہو رہے ہیں اور بیعت کے سلسلہ میں پھر لگ گئے اور فرمایا تیسری بات یہ ہے کہ ان عورتوں میں سے کوئی بدکاری نہ کرے، اس پر حضرت ہندہ نے کہا کیا کوئی آزاد عورت بھی بدکاری کرتی ہے ؟ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے اللہ کی قسم آزاد عورتیں اس برے کام سے ہرگز آلود نہیں ہوتیں، آپ نے پھر فرمایا جو چوتھی بات یہ ہے کہ اپنی اولاد کو قتل نہ کریں ہندہ نے کہا آپ نے انہیں بدر کے دن قتل کیا ہے آپ جانیں اور وہ، آپ نے فرمایا پانچویں بات یہ ہے کہ خود اپنی ہی طرف سے جوڑ کر بےسر پیر کا کوئی خاص بہتان نہ تراش لیں اور چھٹی بات یہ ہے کہ میری شرعی باتوں میں میری نافرمانی نہ کریں اور ساتواں عہد آپ نے ان سے یہ بھی لیا کہ وہ نوحہ نہ کریں اہل جاہلیت اپنے کسی کے مرجانے پر کپڑے پھاڑ ڈالتے تھے منہ نوچ لیتے تھے بال کٹوا دیتے تھے اور ہائے وائے کیا کرتے تھے۔ یہ اثر غریب ہے اور اس کے بعض حصے میں نکارت بھی ہے اس لئے کہ ابو سفیان اور ان کی بیوی ہندہ کے اسلام کے وقت انہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے کوئی اندیشہ نہ تھا بلکہ اس سے بھی آپ نے صفائی اور محبت کا اظہار کردیا تھا، واللہ اعلم، ایک اور روایت میں ہے کہ فتح مکہ والے دن بیعت والی یہ آیت نازل ہوئی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفا پر مردوں سے بیعت لی اور حضرت عمر نے عورتوں سے بیعت لی اس میں اتنا اور بھی ہے کہ اولاد کے قتل کی ممانعت سن کر حضرت ہندہ (رض) نے فرمایا کہ ہم نے تو انہیں چھٹینے پال پوس کر بڑا کیا لیکن ان بڑوں کو تم نے قتل کیا اس پر حضرت عمر مارے ہنسی کے لوٹ لوٹ گئے، ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ جب ہندہ بیعت کرنے آئیں تو ان کے ہاتھ مردوں کی طرح سفید تھے آپ نے فرمایا جاؤ ان کا رنگ بدل لو چناچہ وہ مہندی لگا کر حاضر ہوئیں، ان کے ہاتھ میں دو سونے کے کڑے تھے انہوں نے پوچھا کہ ان کی نسبت کیا حکم ہے ؟ فرمایا جہنم کی آگ کے دوا نگارے ہیں، (یہ حکم اس وقت ہے جب ان کی زکوٰۃ نہ ادا کی جائے) اس بیعت کے لینے کے وقت آپ کے ہاتھ میں ایک کپڑا تھا، جب اولادوں کے قتل کی ممانعت پر ان سے عہد لیا گیا تو ایک عورت نے کہا ان کے باپ دادوں کو تو قتل کیا اور ان کی اولاد کی وصیت ہمیں ہو رہی ہے، یہ شروع شروع میں صورت بیعت کی تھی لیکن پھر اس کے بعد آپ نے یہ دستور کر رکھا تھا کہ جب بیعت کرنے کے لئے عورتیں جمع ہوجاتیں تو آپ یہ سب باتیں ان پر پیش فرماتے وہ ان کا اقرار کرتیں اور واپس لوٹ جاتیں، پس فرمان اللہ ہے کہ جو عورت ان امور پر بیعت کرنے کے لئے آئے تو اس سے بیعت لے لو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، غیر لوگوں کے مال نہ چرانا، ہاں اس عورت کو جس کا خاوند اپنی طاقت کے مطابق کھانے پینے پہننے اوڑھنے کو نہ دیتا ہو جائز ہے کہ اپنے خاند کے مال سے مطابق دستور اور بقدر اپنی حاجت کے لے گو خاوند کو اس کا علم نہ ہو اس کی دلیل حضرت ہندہ والی حدیث ہے کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے خاوند ابو سفیان بخیل آدمی ہیں وہ مجھے اتنا خرچ نہیں دیتے جو مجھے اور میری اولادوں کو کافی ہو سکے تو کیا میں اگر ان کی بیخبر ی میں اور ان کے مال میں لے لوں تو مجھے جائز ہے ؟ آپ نے فرمایا بہ طریق معروف اس کے مال سے اتنا لے لے جو تجھے اور تیرے بال بچوں کو کفایت کرے (بخاری و مسلم) اور زنا کاری نہ کریں، جیسے اور جگہ ہے ولا تفربوا الزنا انہ کان فاحشتہ وسا سبیلا زنا کے قریب نہ جاؤ وہ بےحیائی ہے اور بری راہ ہے، حضرت سمرہ والی حدیث میں زنا کی سزا اور درد ناک عذاب جہنم بیان کیا گیا ہے، مسند احمد میں ہے کہ حضرت فاطمہ بنت عقبہ جب بیعت کے لئے آئیں اور اس آیت کی تلاوت ان کے سامنے کی گئی تو انہوں نے شرم سے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھ لیا آپ کو ان کی یہ حیا اچھی معلوم ہوئی۔ حضرت عائشہ نے فرمایا انہی شرطوں پر ہم سب نے بیعت کی ہے یہ سن کر انہوں نے بھی بیعت کرلی، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیعت کے طریقے اوپر بیان ہوچکے ہیں، اولاد کو قتل نہ کرنے کا حکم عام ہے، پیدا شدہ اولاد کو مار ڈالنا بھی اسی ممانعت میں ہے جیسے کہ جاہلیت کے زمانے والے اس خوف سے کرتے تھے کہ انہیں کہاں سے کھلائیں گے پلائیں گے، اور حمل کا گرا دینا بھی اسی ممانعت میں ہے خواہ اس طرح ہو کہ ایسے علاج کئے جائیں جس سے حمل ٹھہر ہی نہیں یا ٹھہرے ہوئے حمل کو کسی طرح گرا دیا جائے۔ بری غرض وغیرہ سے، بہتان نہ باندھنے کا ایک مطلب تو حضرت ابن عباس نے یہ بیان فرمایا ہے کہ دوسرے کی اولاد کو اپنے خاوند کے سر چپکا دینا، ابو داؤد کی حدیث میں ہے کہ ملاعنہ کی آیت کے نازل ہونے کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو عورت کسی قوم میں اسے داخل کرے جو اس قوم کا نہیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کسی گنتی شمار میں نہیں اور جو شخص اپنی اولاد سے انکار کر جائے حالانکہ وہ اس کے سامنے موجود ہو اللہ تعالیٰ اس سے آڑ کرلے گا اور تمام اگلوں پچھلوں کے سامنے اسے رسوا و ذلیل کرے گا، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی نہ کریں یعنی آپ کے احکام بجا لائیں اور آپ کے منع کئے ہوئے کاموں سے رک جایا کریں، یہ شرط یعنی معروف ہونے کی عورتوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے لگا دی ہے، حضرت میمون فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بھی فقط معروف میں رکھی ہے اور معروف ہی طاعت ہے، حضرت ابن زید فرماتے ہیں دیکھ لو کہ بہترین خلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرمانبرداری کا حکم بھی معروف میں ہی ہے، اس بیعت والے دن آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں سے نوحہ نہ کرنے کا اقرار بھی لیا تھا جیسے حضرت ام عطیہ کی حدیث میں پہلے گذر چکا، حضرت فتادہ فرماتے ہیں ہم سے ذکر کیا گیا ہے۔ اس بیعت میں یہ بھی تھا کہ عورتیں غیر محرموں سے بات چیت نہ کریں، اس پر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم گھر پر موجود نہیں ہوتے اور مہمان آجاتے ہیں آپ نے فرمایا میری مراد ان سے بات چیت کرنے کی ممانعت سے نہیں میں ان سے کام کی بات کرنے سے نہیں روکتا (ابن جریر) ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بیعت کے موقعہ پر عورتوں کو نامحرم مردوں سے باتیں کرنے سے منع فرمایا اور فرمایا بعض لوگ وہ بھی ہوتے ہیں کہ پرائی عورتوں سے باتیں کرنے میں ہی مزہ لیا کرتے ہیں یہاں تک کہ مذی نکل جاتی ہے اوپر حدیث بیان ہوچکی ہے کہ نوحہ نہ کرنے کی شرط پر ایک عورت نے کہا فلاں قبیلے کی عورتوں نے میرا ساتھ دیا ہے تو ان کے نوحے میں میں بھی ان کا ساتھ دے کر بدلہ ضرور اتاروں گی چناچہ وہ گئیں بدلہ اتارا پھر آ کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کی۔ حضرت ام سلیم جن کا نام ان عورتوں میں ہے جنہوں نے نوحہ نہ کرنے کی بیعت کو پورا کیا یہ ملحان کی بیٹی اور حضرت انس کی والدہ ہیں اور روایت میں ہے کہ جس عورت نے بدلے کے نوحے کی اجازت مانگی تھی خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اجازت دی تھی یہی وہ معروف ہے جس میں نافرمانی منع ہے، بیعت کرنے والی عورتوں میں سے ایک کا بیان ہے کہ معروف میں ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی نہ کریں اس سے مطلب یہ ہے کہ مصیبت کے وقت منہ نہ نوچیں بال نہ منڈوائیں کپڑے نہ پھاڑیں ہائے وائے نہ کریں، ابن جریر میں حضرت ام عطیہ سے مروی ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے ہاں مدینہ میں تشریف لائے تو ایک دن آپ نے حکم دیا کہ سب انصاریہ عورتیں فلاں گھر میں جمع ہوں پھر حضرت عمر بن خطاب کو وہاں بھیجا آپ دروازے پر کھڑے ہوگئے اور سلام کیا ہم نے آپ کے سلام کا جواب دیا پھر فرمایا میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قاصد ہوں ہم نے کہا رسول اللہ کو بھی مرحبا ہو اور آپ کے قاصد کو بھی، حضرت عمر نے فرمایا مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تمہیں حکم کروں کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک نہ کرنے پر چوری اور زنا کاری سے بچنے پر بیعت کرو ہم نے کہا ہم سب حاضر ہیں اور اقرار کرتی ہیں چناچہ آپ نے وہیں باہر کھڑے کھڑے اپنا ہاتھ اندر کی طرف بڑھا دیا اور ہم نے اپنے ہاتھ اندر سے باہر اندر ہی اندر بڑھائے، پھر آپ نے فرمایا اے اللہ گواہ رہے۔ پھر حکم ہوا کہ دونوں عیدوں میں ہم اپنی خانضہ عورتوں اور جوان کنواری لڑکیوں کو لے جایا کریں، ہم پر جمعہ فرض نہیں، ہمیں جنازوں کے ساتھ نہ جانا چاہئے۔ حضرت اسماعیل راوی حدیث فرماتے ہیں میں نے اپنی دادی صاحبہ ام عطیہ سے پوچھا کہ عورتیں معروف میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی نہ کریں اس سے کیا مطلب ہے ؟ فرمایا یہ کہ نوحہ نہ کریں، بخاری و مسلم میں ہے کہ جو کوئی مصیبت کے وقت اپنے کلوں پر تھپڑ مارے دامن چاک کرے اور جاہلیت کے وقت کی ہائی وہائی مچائے وہ ہم میں سے نہیں اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بری ہیں جو گلا پھاڑ پھاڑ کر ہائے وائے کرے بال نوچے یا منڈوائے اور کپڑے پھاڑے یا دامن چیرے۔ ابو علی میں ہے کہ میری امت میں چار کام جاہلیت کے ہیں جنہیں وہ نہ چھوڑیں گے حسب نسب پر فخر کرنا انسان کو اس کے نسب کا طعنہ دینا ستاروں سے بارش طلب کرنا اور میت پر نوحہ کرنا اور فرمایا نوحہ کرنے والی عورت اگر بغیر توبہ کئے مرجائے تو اسے قیامت کے دن گندھک کا پیراہن پہنایا جائے گا اور کھجلی کی چادر اڑھائی جائے گی۔ مسلم شریف میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نوحہ کرنے والیوں پر اور نوحے کو کان لگا کر سننے والیوں پر لعنت فرمائی، ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ معروف میں نافرمانی نہ کرنے سے مراد نوحہ کو کان لگا کر سننے والیوں پر لعنت فرمائی، ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ معروف میں نافرمانی نہ کرنے سے مراد نوحہ نہ کرنا ہے، یہ حدیث ترمذی کی کتاب التفسیر میں بھی ہے اور امام ترمذی (رح) اسے حسن غریب کہتے ہیں۔