اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے،
English Sahih:
Allah does not forbid you from those who do not fight you because of religion and do not expel you from your homes – from being righteous toward them and acting justly toward them. Indeed, Allah loves those who act justly.
1 Abul A'ala Maududi
اللہ تمیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ہے اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اللہ تمہیں ان سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین میں نہ لڑے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہ نکالا کہ ان کے ساتھ احسان کرو اور ان سے انصاف کا برتاؤ برتو، بیشک انصاف والے اللہ کو محبوب ہیں،
3 Ahmed Ali
الله تمہیں ان لوگو ں سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین کے بارے میں نہیں لڑتے اورنہ انہوں نے تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اس بات سے کہ تم ان سے بھلائی کرو اور ان کے حق میں انصاف کرو بیشک الله انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے
4 Ahsanul Bayan
جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی (١) اور تمہیں جلا وطن نہیں کیا (٢) ان کے ساتھ سلوک و احسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تعالٰی تمہیں نہیں روکتا (۳) بلکہ اللہ تعالٰی تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (٤)
٨۔١ یہ ان کافروں کے بارے میں ہدایت دی جا رہی ہے جو مسلمانوں سے محض دین السلام کی وجہ سے بغض و عداوت نہیں رکھتے اور اس بنیاد پر مسلمانوں سے نہیں لڑتے، یہ پہلی شرط ہے ۔ ٨۔٢ یعنی تمہارے ساتھ ایسا رویہ بھی اختیار نہیں کیا کہ تم ہجرت پر مجبور ہو جاؤ، یہ دوسری شرط ہے۔ ایک تیسری شرط یہ ہے جو اگلی آیت سے واضح ہوتی ہے، کہ وہ مسلمانوں کے خلاف دوسرے کافروں کو کسی قسم کی مدد بھی نہ پہنچائیں مشورے اور رائے سے اور نہ ہتھیار وغیرہ کے ذریعے سے۔ ۸۔۳ یعنی ایسے کافروں سے احسان اور انصاف کا معاملہ کرنا ممنوع نہیں ہے جیسے حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی مشرکہ ماں کی بابت صلہ رحمی یعنی حسن سلوک کرنے کا پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ;صلی امک۔ صحیح مسلم۔ اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو ۔ ۸۔٤ اس میں انصاف کرنے کی ترغیب ہے حتی کہ کافروں کے ساتھ بھی حدیث میں انصاف کرنے والوں کی فضیلت یوں بیان ہوئی ہے۔ ان المقسطین عند اللہ علی منبر من نور عن یمین الرحمن عز وجل وکلتا یدیہ یمین الذین یعدلون فی حکمھم واھلیھم وماولوا۔ صحیح مسلم کتاب الامارہ۔ انصاف کرنے والے نور کے منبروں پر ہوں گے جو رحمن کے دائیں جانب ہوں گے اور رحمن کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں جو اپنے فیصلوں میں اپنے اہل میں اور اپنی رعایا میں انصاف کا اہتمام کرتے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا۔ خدا تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے
6 Muhammad Junagarhi
جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی اور تمہیں جلاوطن نہیں کیا ان کے ساتھ سلوک واحسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا، بلکہ اللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں کرتا کہ جن لوگون نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے کہ تم ان کے ساتھ نیکی کرو اور ان کے ساتھ انصاف کرو بےشک اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
وہ تمہیں ان لوگوں کے بارے میں جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ نہیں کی ہے اور تمہیں وطن سے نہیں نکالا ہے اس بات سے نہیں روکتا ہے کہ تم ان کے ساتھ نیکی اور انصاف کرو کہ خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے
9 Tafsir Jalalayn
جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا خدا تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ لاینھکم الذین لم یقاتلو کم فی الدین (الآیۃ) اس مقام پر یہ شبہ پیدا ہوسکتا ہے کہ دشمنی نہ کرنے والے کافروں سے حسن سلوک کرنا تو اچھی بات ہے مگر کیا انصاف بھی ان ہی کے لئے مخصوص ہے اور کیا دشمن کافروں کے ساتھ ناانصافی کرنا چاہیے ؟ جواب یہ ہے کہ عدل و انصاف تو ہر شخص کے ساتھ ضروری ہے، خواہ کافر ہو یا غیر کافر، حتی کہ اسلام کی تو یہ ہدایت ہے کہ دشمنوں کے ساتھ بھی عدل و انصاف کیا جائے اس میں کافر وغیرہ کافر اور حربی وغیرہ حربی سب برابر ہیں، بلکہ اسلام میں تو انصاف جانوروں کے ساتھ بھی ضروری ہے، اس آیت میں بھلائی اور احسان کرنے کی ہدایت ہے، ان ہی معنی کی رعایت کے لئے تقسطوا کو تعطوا کے معنی میں اور مقسطین بمعنی معطیین لیا ہے۔ مسئلہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ نقلی صدقات ذمی اور مصالح کافر کو دیئے جاسکتے ہیں، صرف کافر حری کو دینا ممنوع ہے۔ مذکورہ آیت میں ان کفار کے بارے میں بتایا گیا کہ جو مسلمانوں کے مقابلہ میں جنگ کر رہے ہوں اور مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکالنے میں حصہ لے رہے ہوں، ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ ال لہ تعالیٰ ان کے ساتھ موالات اور دلی دوستی سے منع فرماتا ہے، اس میں برواحسان کا معاملہ کرنے سے ممانعت نہیں، بلکہ صرف قبلی دوستی سے منع کیا گیا ہے اور یہ ممانعت صرف برسر پیکار دشمنوں کے ساتھ ہی خاص نہیں، بلکہ اہل ذمہ اور اہل صلح کافروں کے ساتھ بھی قلبی موالات اور دوستی جائز نہیں۔ سابقہ آیات میں کفار سے جس ترک تعلق کی ہدایت کی گئی تھی اس کے متعلق کسی کو یہ غلط فہمی لاحق ہوسکتی تھی کہ یہ ان کے کافر ہونے کی وجہ سے ہے، اس لئے انما ینھکم الذین قتلوکم فی الدین (الآیۃ) میں یہ بتایا گیا کہ اس کی اصل وجہ ان کا کفر نہیں بلکہ اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ ان کی عداوت اور ان کی ظالمانہ روش ہے، لہٰذا مسلمانوں کو دشمن کافر اور غیر دشمن کافر میں فرق کرنا چاہیے اور ان کافروں کیساتھ احسان و حسن سلوک کا معاملہ کرنا چاہیے، جنہوں نے کبھی ان کے ساتھ برائی نہ کی ہو، اس کی بہترین تشریح وہ واقعہ ہے جو حضرت اسماء بنت ابی بکر (رض) اور ان کی کافر والدہ کے درمیان پیش آیا تھا، حضرت ابوبکر (رض) کی ایک بیوی قتیلہ بنت عبدالعزیز کافروہ تھیں اور ہجرت کے بعد مکہ ہی میں رہ گئی تھیں حضرت اسماء بنت ابی بکر (رض) ان ہی کے بطن سے تھیں، صلح حدیبیہ کے بعد جب مکہ اور مدینہ کے درمیان آمد و رفت کا راستہ کھل گیا تو وہ اپنی بیٹی (اسماء (رض) سے ملنے کے لئے مدینہ طیبہ آئیں اور کچھ تحفہ تحائف بھی لائیں، خود حضرت اسماء (رض) کی یہ روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معلوم کیا کہ کیا اپنی ماں سے مل لوں ؟ اور کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی بھی کرسکتی ہوں ؟ آپ نے فرمایا ان سے صلہ رحمی کرو، (مسند احمد بخاری، مسلم) اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ایک مسلمان کے لئے اپنے کافر ماں باپ کی خدمت کرنا بھائی، بہنوں اور رشتہ داروں کی مدد کرنا جائز ہے، جب کہ وہ دشمن اسلام نہ ہوں۔ (احکام القرآن للحصاص، روح المعانی)
10 Tafsir as-Saadi
جب یہ آیات کریمہ، جو کفار کے ساتھ عداوت پر ابھارتی تھیں، نازل ہوئیں تو اہل ایمان نے ان پر عمل کیا ،انہوں نے ان آیات (کے تقاضوں) کو پوری طرح قائم کیا اور بعض مشرک قریبی رشتہ داروں سے تعلق کو گناہ تصور کیا اور سمجھا کہ یہ بھی اس ممانعت میں داخل ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ یہ صلہ رحمی اس موالات ومودت کے دائرے میں نہیں آتی جو حرام ٹھہرائی گئی ہے۔ ﴿لَا یَنْہٰیکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَیْہِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے مشرک عزیز واقارب وغیرہ سے حسن سلوک، صلہ رحمی اور ان کو معروف طریقے سے انصاف کے ساتھ بدلہ دینے سے نہیں روکتا مگر اس صورت میں کہ انہوں نے دین کے معاملے میں تمہارے ساتھ جنگ کی ہو نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہو۔ اس لیے تم پر کوئی گناہ نہیں، اگر تم ان کے ساتھ صلہ رحمی کرتے ہو کیونکہ ان حالات میں صلہ رحمی ممنوع ہے نہ ایسا کرنے میں کوئی تاوان ہی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے کافر والدین کے بارے میں ،جبکہ ان کا بیٹا مسلمان ہو، فرمایا: ﴿ وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ﴾(لقمان :31؍15)”اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہرائے جس کے بارے میں تجھے کوئی علم نہیں تو ان کی اطاعت نہ کر، البتہ دنیا میں معروف طریقے سے ان کے ساتھ نیک سلوک کرتا رہ۔“
11 Mufti Taqi Usmani
Allah tumhen iss baat say mana nahi kerta kay jinn logon ney deen kay moamlay mein tum say jang nahi ki , aur tumhen tumharay gharon say nahi nikala , unn kay sath tum koi naiki ka ya insaf ka moamla kero , yaqeenan Allah insaf kernay walon ko pasand kerta hai .