الجمعہ آية ۱
يُسَبِّحُ لِلّٰهِ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الْاَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ
طاہر القادری:
(ہر چیز) جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اللہ کی تسبیح کرتی ہے (جو حقیقی) بادشاہ ہے، (ہر نقص و عیب سے) پاک ہے، عزت و غلبہ والا ہے بڑی حکمت والا ہے،
English Sahih:
Whatever is in the heavens and whatever is on the earth is exalting Allah, the Sovereign, the Pure, the Exalted in Might, the Wise.
1 Abul A'ala Maududi
اللہ کی تسبیح کر رہی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور ہر وہ چیز جو زمین میں ہے بادشاہ ہے، قدوس ہے، زبردست اور حکیم ہے
2 Ahmed Raza Khan
اللہ کی پاکی بولتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے بادشاہ کمال پاکی والا عزت والا حکمت والا،
3 Ahmed Ali
جو مخلوقات آسمانوں اور زمین میں ہے الله کی تسبیح کرتی ہے وہ بادشاہ پاک ذات غالب حکمت والا ہے
4 Ahsanul Bayan
ساری چیزیں) جو آسمان اور زمین میں ہیں اللہ تعالٰی کی پاکی بیان کرتی ہیں (جو) بادشاہ نہایت پاک (ہے) غالب و با حکمت ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جو چیز آسمانوں میں ہے اور جو چیز زمین میں ہے سب خدا کی تسبیح کرتی ہے جو بادشاہ حقیقی پاک ذات زبردست حکمت والا ہے
6 Muhammad Junagarhi
(ساری چیزیں) جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتی ہیں (جو) بادشاه نہایت پاک (ہے) غالب وباحکمت ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
وہ سب چیزیں جو آسمانوں میں اور زمین میں ہیں اس اللہ کی تسبیح کرتی ہیں جو بادشاہ ہے (اور نقائص سے) پاک ہے زبردست ہے (اور) بڑا حکمت والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
زمین و آسمان کا ہر ذرہ اس خدا کی تسبیح کررہا ہے جو بادشاہ پاکیزہ صفات, اور صاحب هعزت اور صاحب هحکمت ہے
9 Tafsir Jalalayn
جو چیز آسمانوں میں ہے اور جو چیز زمین میں ہے سب خدا کی تسبیح کرتی ہے جو بادشاہ حقیقی پاک ذات زبردست حکمت والا ہے۔
ترجمہ :۔ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، تمام چیزیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں وہ اللہ کی پاکی بیان کرتی ہیں، لام زائدہ ہے من کے بجائے ما ذکر کرنے میں اکثر کو غلبہ دینا ہے جو بادشاہ ہے، ان چیزوں سے پاک ہے جو اس کی شایان شان نہیں، وہ اپنے ملک میں غالب اور اپنی صنعت میں باحکمت ہے وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں (یعنی) عرب میں ان ہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا امی وہ شخص ہے جو پڑھنا لکھنا نہ جانتا ہو اور وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، جو انہیں اس قرآن کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو شرک سے پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب قرآن اور حکمت (یعنی) جس میں احکام ہیں ان مخففہ عن الثقیلہ ہے اور اس کا اسم محذوف ہے ای انھم، سکھاتا ہے یقینا یہ اس کی آمد (بعثت) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے اور بعد والوں میں (مبعوث فرمایا) اور آخرین کا عطف الامیین پر ہے یعنی ان امیون میں سے موجودین میں اور (آئندہ) ان کے بعد آن والے امیوں میں، لیکن سبقت اور فضل میں ان کے برابر نہیں پہنچے اور وہ (نہ پہنچنے والے) تابعین ہیں، اور تابعین پر، تابعین کے بعد تاقیامت آنے والے جن و انس جو کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے صحابہ (رض) کی فضیلت ثابت کرنے کیلئے تابعین پر اثبات فضیلت پر اقصار کرنا کافی ہے، وہ صحابہ (رض) ہیں کہ جن میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث فرمائے گئے، اس لئے کہ ہر زمانہ اپنے مابعد متصل زمانہ سے بہتر ہوتا ہے، اپنے ملک و صنعت میں وہی غالب با حکمت ہے یہ خدا کا فضل ہے وہ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے یعنی نبی کو اور ان کو جن کا نبی کے ساتھ ذکر کیا گیا اور اللہ بڑے فضل والا ہے جن لوگوں کو تورات پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا یعنی جن لوگوں کو تورات پر عمل کرنے کا مکلف بنایا گیا پھر انہوں نیاسپر عمل نہیں کیا ان صفات پر جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی (صفات) اس (تورات) میں تھیں جس کی وجہ سے وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لائے، ان کی مثال فائدہ حاصل نہ کرنے میں اس گدھے کی سی ہے جو بہت سی کتابیں لادے ہوئے ہے غرضیکہ ان لوگوں کا برا حال ہے جنہوں نے خدا کی ان آیتوں کو جھٹلایا جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی تصدیق کرنے والی ہیں اور مخصوص بالذموم محذوف ہے اور اس کی تقدیر ہذا لمثل ہے اور اللہ ظالم یعنی کافر کو ہدایت نہیں دیتا، آپ کہہ دیجیے کہ اے یہودیو ! اگر تمہارا یہ دعویٰ ہے کہ تم بلاشرکت غیرے اللہ کے مقبول (محبوب) ہو تو تم موت کی تمنا کرو (تمنوا) سے دو شرطیں متعلق ہیں اس طریقہ پر کہ اول ثانی میں قید ہے، یعنی اگر تم اپنے گمان میں اس بات میں سچے ہو کہ تم اللہ کے محبوب ہو اور محبوب آخرت کو ترجیح دیتا ہے اور اس کا مبداء موت ہے لہٰذا تم اس کی تمنا کرو، و کبھی اس موت کی تمنا نہیں کریں گے، بوجہ ان اعمال کفریہ کے جن کو وہ اختیار کرچکے ہیں یعنی بوجہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انکار کے جو ان کی تکذیب کو مستلزم ہے اللہ تعالیٰ ان ظالموں کافروں کو خوب جانتا ہے آپ کہہ دیجیے کہ تم جس موت سے بھاگتے ہو وہ تم کو آپکڑے گی فانہ میں فاء زائدہ ہے، پھر تم پوشیدہ اور ظاہر کے جاننے والے کے پاس لے جائے جائو گے پھر وہ تم کو تمہارے سب کئے ہوئے کام بتا دیگا اور تم کو اس کی جزاء دے گا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ :۔ القدوس مبالغہ کا صیغہ بہت پاک، برکت والا، بروزن فعول بضم فاء عربی میں اس وزن پر صرف چار الفاظ آئے ہیں، قدوس، سبوح ، ذروح ، قروخ کو ان کو بھی الفتح الفائ پڑھنا جائز ہے باق اس وزن پر جتنے بھی الفاظ آئے ہیں سب فتحہ فائ کے ساتھ آئے ہیں۔
قولہ :۔ فی الامیین ای الی امیین وآخرین ای الی آخرین فی بمعنی الی ہے۔
قولہ :۔ یتلوا علیھم یہ رسولاً کی صفت ہے یا اس سے حال ہے۔
قولہ :۔ مخففۃ من الثقلیۃ و ان کانوا میں ان مخففہ عن الثقلیہ ہے اصل میں انھم تھا اور دلیل اس کی مابعد میں لام کا واقع ہونا ہے، ای لفی ضلال مبین اس قسم کا لام مخففہ عن الثقیلہ کے ساتھ مخصوص ہے۔
قولہ :۔ عطف علی الامیین یعنی آخرین کے اعراب میں دو وجہ ہیں، اول یہ کہ آخرین، امیین پر عطف ہونے کی وجہ سے مجرور ہو، ای بعثہ فی الاممین و قی الآخرین من الامیین اور
قولہ :۔ لما یلحقوا بھم یہ آخرین کی صفت ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ آخرین، یعلمھم کی ضمیر پر عطف ہونے کی وجہ سے منصوب ہو، ای یعلم الآخرین لم یلحقوا بھم
قولہ :۔ الموجودین منھم یہ الامیین معطوف علیہ کی تفسیر ہے اور مراد امیین سے وہ عرب ہیں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں موجود تھے۔
قولہ :۔ لم یلحقوا بھم فی السابقۃ لما کی تفسیر لم سے کر کے اشارہ کردیا کہ یہ عدم سابقیۃ تاقیامت ہے، یہ مطلب نہیں کہ اب تک سابقیۃ میں مساوی نہیں ہوئے مگر آئندہ امید ہے، جیسا کہ لما سے مفہوم ہوتا ہے اس لئے لما کا مفہوم ہے تاہنوز اور لم کے ذریعہ نفی عام ہوتی ہے خواہ متوقع الحصول ہو یا نہ ہو بخلاف لما کے کہ اس کا استعملا اس منفی میں ہوتا ہے جو متوقع الحصول ہو۔
قولہ :۔ والاقتصار علیھم یعنی آخرین کی تفسیر میں تابعین پر اقتصار کرنا کافی ہے، دراصلیہ مفسر علام کی جانب سے دیگر مفسرین کی تفسیر سے عدول کرنے کا اعتزار ہے، یعنی دیگر مفسرین حضرات نے صحابہ (رض) کی فضیلت تاقیامت آنے والے مسلمانوں پر بیان فرمائی ہے، اور مفسر علام محلی (علیہ السلام) کی عباتر سے صرف تابعین پر فضیلت معلوم ہوتی ہے حق دیگر مفسرین کے ساتھ ہے، اعتزار کا حاصل یہ ہے کہ جب تابعین پر صحابہ (رض) کی فضیلت ثابت ہوگئی تو تابعین کے حد والے حضرات پر بطریق اولی فضیلت ثابت ہوگی اور دلیل اس کی یہ ہے کہ ہر قرن اپنے مابعد متصل قرن سے بہتر ہوتا ہے۔
قولہ : ممن بعث الیھم، من عداھم کا بیان ہے۔
قولہ :۔ من جمیع یہ بیان کا بیان ہے۔
قولہ : یہ مفسر کے قول کاف کی علت ہے۔
قولہ : کی تفسیر ہے اور سے مراد اور ہیں۔
قولہ :
اعتراض : یعنی اول ثانی کے شرط ہے اس کا متتضی یہ ہے کہ اصل شرط ثانی ہے اور اول اس کی قید ہے، اور یہ مشہور قاعدہ کے خلاف ہے، اور قاعدہ مشہورہیہ ہے کہ جب ایک جزاء دو شرطوں سے متعلق ہو تو درحقیقت اول ہی شرط ہوتی ہے اور ثانی اول کی شرط ہوتی ہے گویا کہ شرط اول اور شرط ثانی مل کر معنی میں کے ہیں۔
جواب : جواب کا محصل یہ ہے کہ قاعدہ مشہورہ اس وقت ہے جب کہ جزاء دونوں شرطوں کے بعد یا پہلے واقع ہو، یہاں جزا دونوں شرطوں کے درمیان واقع ہے، لہذا یہ قاعدہ مشہورہ کے خلاف نہیں ہے
تفسیر و تشریح
نام :
زمانہ نزول
پہلے رکوع کا زمانہ نزول 7 ھ ہے، اور غالبا یہ رکوع فتح خیبر کے موقع پر یا اس کے قریبی زمانہ میں نازل ہوا ہے بخاری، مسلم، ترمذی، نشائی، اور اب جریر نے حضرت ابوہریرہ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے جب یہ آیات ناز ہوئیں، اور حضرت ابوہریرہ (رض) کے متعلق یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ وہ صلح حدیبیہ 2 ھ کے بعد اور فتح خیبر سے پہلے ایمان لائے تھے، اور خیبر کی فتح ابن ہشام کے بقول محرم میں اور ابن سعد کے بقول جمادی الاولیٰ 7 ھ میں ہائی ہے۔ دوسرارکوع ہجرت کے بعد قریبی زمانہ میں نازل ہوا ہے، کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ پہنچتے ہی پانچویں روز جمعہ قائم کردیا، اور اس رکوع کی آخری آیت میں جس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ صاف بتارہا ہے کہ وہ اقامت جمعہ کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد لازما کسی ایسے زمانہ میں پیش آیا ہوگا جب لوگوں کو دینی اجتماعات کے آداب کی پوری تربیت ابھی نہیں ملی تھی
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کی نماز میں سورة جمعہ اور سورة منافقون پڑ ھا کرتے تھے، (مسلم شریف کتاب الجمعہ) قرآن کریم کی جو سورتیں سے شرہو ہوئی ہیں ان کو مسبحات کہا جاتا ہے، ان تمام سورتوں میں زمین وہ آسمان اور جو کچھ میں ہیں سب کے لئے اللہ کی تسبیح خوانی ثابت کی گئی ہے، اگر اس تسبیح سے مراد تسبیح حالی ہے یعنی بزبان حال تو ہر شخص سمھ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا ذرہ ذرہ اپنے صالع حکیم کی حکمت وقدرت پر گواہی دیتا ہے یہی اس کی تسبیح ہے اور صیح بات یہ ہے کہ ہر چیز اپنے اپنے شعور اور طرز کے مطابق حقیقی تسبح کرتی ہے، اس لئے کہ شعور وادراک اللہ تعالیٰ نے ہر شجر و حجر بلکہ ہر شئی میں رکھا ہے اس عقل و شعور کا لازمی نتیجہ اور لازمی تقاضہ تسبیح ہے، مگر ان چیزوں کی تسبیح کو لوگ سنتے نہیں ہیں، اسی لئے قرآن کریم میں فرمایا
اس تمہید کو آگے کے مضمون سے بڑی گہری مناسبت ہے، عرب کے یہودی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذات وصفات اور کارنوموں میں رسالت کی صریح نشانیاں بچشم سر دیکھ لینے کے باوجود اور اس کے باوجود کہ تورات میں حضرت موسٰی ( علیہ السلام) نے آپ کے آنے کی صریح بشارت دی تھی جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا کسی اور پر صادق نہیں آتی تھی، صرف اس بناء پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کرنے تھے کہ اپنی قوم و نسل سے باہر کے کسی شخص کی رسالت مان لینا سخت ناپسند کرتے تھے، آگے کی آیتوں میں ان کے اسی رویے پر انہیں ملامت کی جارہی ہے، اس لئے کلام کا آغاز اس تمہیدی فقرے سے کیا گیا ہے اس میں پہلی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ کی تسبح کر رہی ہے یعنی یہ پوری کائنات اس بات پر شاہد ہے کہ اللہ ان تمام نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہے جن کی بناء پر یہودیوں نے اپنی نسلی برتری کا تصور قائم کر رکھا ہے، وہ کسی کا رشتہ دار نہیں، نہ جانب داری کا اس کے یہاں کوئی کام، اپنی ساری مخلوق کے ساتھ اس کا معامل یکساں عدل و رحمت اور ربوبیت کا ہے، کوئی خاص نسل یا قوم اس کی چہیتی نہیں ہے ج کہ وہ خواہ کچھ بھی کرتی رہے ہرحال میں اس کی نوازشیں اسی کے لئے مخصوص رہیں اور کسی دوسری نسل یا قوم سے اس کو عداوت نہپیں ہے کہ وہ اپنے انر خوبیاں بھی رکھتی ہو تو بھی وہ اس کی عنایتوں سے محروم رہے، پھر فرمایا گیا کہ وہ باشاہ ہے یعنی دنیا کی کوئی طاقت اس کے اختیارات کو محدود کرنے والی نہیں ہے تم بندے اور رعیت ہو، تمہارا یہ منصب کب سے ہوگیا کہ تم یہ طے کررہے ہو کہ وہ تمہاری ہدایت کے لئے اپنا پیغمبر کسے بنائے ؟ اور کسے نہ بنائے اس کے بعد ارشاد ہوا کہ وہ قدوس ہے یعنی وہ اس سے بدرجہا مزہ اور پاک ہے کہ اس کے فیصلہ میں کسی خطا اور غلطی کا امکان ہو، آخر میں اللہ کی دو مزید صفتیں بیان فرمائی گئی ہیں ایک یہ کہ وہ زبردست ہے، اس سے لڑ کر کوئی جیت نہیں سکتا، دوسری یہ کہ وہ حکیم ہے یعنی جو کچھ وہ کرتا ہے وہ عین حکمت کے مطابق ہوتا ہے، اور اس کی تدبیریں ایسی محکم ہوتی ہیں کہ دنیا میں کوئی ان کو توڑ نہیں سکتا۔
کی جمع ہے، ناخواندہ شخص کو کہا جاتا ہے، عرب کے لوگ اس لقب سے معرف ہیں، کیونکہ ان میں نوشت و خواند کارواج نہیں تھا، بہت کم لوگ پڑھے لکھے ہوتے تھے، اور یہ کہ جو رسول بھیجا گیا ہے وہ بھی انہیں میں سے ہے یعنی امی ہے، اس لئے یہ معاملہبڑا حیرت انگیز ہے کہ قوم ساری امی اور جو رسول بھیجا گیا وہ بھی امی اور جو فرائض اس رسول کے سپرد کئے گئے ہیں جن کا ذکر اگلی آیت میں آرہا ہے، وہ سب علمی، تعلیمی اور اصلاحی ایسے ہیں کہ نہ کوئی امی ان کو سکھا سکتا ہے اور نہ امی قوم ان کو ان کو سیھکنے کے قابل ہے۔
یہ صرف حق تعالیٰ شانہ کی قدرت کملہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اعجاز ہی ہوسکتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب تعلیم و اصلاح کا کام کیا ہے تو انہیں امیین میں وہ علماء اور حکماء پیدا ہوگئے کہ جن کے علم و حکمت، عقل و دانش اور ہر کام کی عمدہ صلاحیت نے سارے جہاں سے اپنا لوہا منوا لیا۔
بعثت نبوی کے تین مقاصد :
اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے تین مقاصد صفت نعمت الٰہیہ کے ضمن میں بیان کئے گئے ہیں، ایک تلاوت قرآن، یعنی قرآن پڑھ کر امت کو سنانا اور دوسرے ان کو ظاہر و باطن غرضیکہ ہر قسم کی نجاست سے پاک کرنا، جس میں بدن، لباس وغیرہ کی ظاہری گندگی بھی شامل ہے اور عقائد و اعمال اور اخلاق و عادات کی پاکیزگی بھی، تیسرے کتاب و حکمت کی تعلیم ہے، یہ دونوں چیزیں حق تعالیٰ کے انعامات بھی ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے مقاصد بھی۔
آخرین کے لفظی معنی، دوسرے لوگ، لما یلحقوا بھمہ کے بعنی، جو ابھی تک ان لوگوں یعنی امیین کے ساتھ نہیں ملے، مراد ان سے وہ تمام مسلمان ہیں جو قیامت تک اسلام میں داخل ہوتے رہیں گے۔ (معارف)
لفظ آخرین کے عطف میں دو قول ہیں، بعض حضرات نے اس کا امیین پر عطف قرار دیا ہے جس کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ بھیجا اللہ نے اپنا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اُمیین میں اور ان لوگوں میں جو ابھی ان سے نہیں ملے، اس پر یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ امیین یعنی موجودین میں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھیجنا تو ظاہر ہے مگر جو لوگ ابھی آئے ہی نہیں ان میں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجنے کا کیا مطلب ہوگا ؟ اس کا جواب بیان القرآن میں یہ دیا گیا ہے کہ ان میں بھیجنے سے مراد ان کے لئے بھیجنا ہے، کیونکہ لفظ ” فِی “ عربی زبان میں ” کے لئے “ کے معنی میں بھی آتا ہے۔
اور بعض حضرات نے فرمایا کہ آخرین کا عطف یعلمھمہ کی ضمیر منصوب پر ہے جس کا یہ مطلب ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تعلیم دیتے ہیں۔ اُمیین کو اور ان لوگوں کو بھی جو ابھی ان کے ساتھ نہیں ملے۔ (اعنارہ فی المظہری، معارف)
اس کی مزید تفصیل، تسہیل و تحقیق کے زیر عنوان گزر چکی ہے ملاحظہ کرلی جائے۔
صحیح مسلم و بخاری میں حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ سورة جمعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں سنائی، جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت ” و آخرین منھمہ “ (الآیۃ) پڑھی تو ہم نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! یہ کون لوگ ہیں ؟ جن کا ذکر آخرین کے لفظ سے کیا گیا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت سکوت فرمایا : مکرر سوال کیا گیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دست مبارک حضرت سلمان فارسی (رض) پر رکھ دیا (جو اس وقت مجلس میں موجود تھے اور فرمایا : اگر ایمان ثریا ستارے کی بلندی پر بھی ہوگا تو ان کی قوم کے کچھ لوگ وہاں سے بھی ایمان کو لے آئیں گے) ۔
اسفار، سفر کی جمع ہے، بڑی کتاب کو کہتے ہیں، کتاب و سفر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ کتاب جب پڑھی جاتی ہے تو گویا قاری اس کے معانی میں سفر کرتا ہے اس لئے کتاب کو سفر کہتے ہیں۔ (فتح القدیر)
اس آیت میں بےعمل یہودیوں کی مثال بیان کی گئی ہے اور عمل نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تورات میں صاف صاف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کی بشارت دی گئی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایسی علامات بیان کی گئی تھیں کہ جو صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہی چسپاں ہوتی تھیں جس کا تقاضہ تھا کہ یہ لوگ سب سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پر ایمان لاتے مگر حسد اور دشمنی کی وجہ سے یہ لوگ ایمان نہیں لائے، یہود کی اس بےعملی کی مثال دی گئی ہے کہ جس طرح گدھے کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی کمر پر جو کتابیں رکھی ہوئی ہیں ان میں کیا لکھا ہوا ہے ؟ اس کو تو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اس پر کتابیں لدی ہوئی ہیں یا کوڑا کرکٹ ؟
اللہ تعالیٰ نے یہود کو تورات کا حامل بنایا تھا مگر یہود نے اس کی ذمہ داری نہ سمجھی اور نہ ادا کی، ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس کی پیٹھ پر کتابیں لدی ہوں اور اسے کچھ معلوم نہ ہو کہ وہ کس چیز کا بھار اٹھائے ہوئے ہے بلکہ یہود کی حالت گدھے سے بھی بدتر ہے اس لئے کہ وہ تو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں اور پھر بھی کتاب اللہ کے حامل ہونے کی ذمہ داری سے سرفرازی اختیا نہیں کرتے، بلکہ دانستہ اللہ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں، اس کے باوجود ان کا زعم یہ ہے کہ وہ اللہ کے چہیتے ہیں اور رسالت کی نعمت ہمیشہ کے لئے ان کے نام لکھ دی گئی ہے گویا یہود کی رائے یہ ہے کہ خواہ وہ اللہ کے پیغام کا حق دا کریں یا نہ کریں۔ بہرحال اللہ اس کا پابند ہے کہ وہ اپنے پیغام کا حامل ان کے سوا کسی کو نہ بنائے۔
یہود اپنے کفرو شرک اور ساری بداخلاقیوں کے باوجود یہ دعویٰ بھی رکھتے تھے، یعنینحن ابناء اللہ واحبائہ یعنی ہم تو اللہ کی اولاد اور اس کے محبوب ہیں اور اپنے سوا کسی کو جنت کا مستحق نہیں سمجھتے، بلکہ یوں کہا کرتے تھے، لن یدخل الجنۃ الامن کان ھودًا او نصاری گویا وہ آخرت کے عذاب سے خود کو بالکل محفوظ اور مامون سمجھتے تھے اور جنت کی نعمتوں کو اپنی جاگیر سمجھتے تھے۔
جب یہود اپنے آپ کو خدا کا محبوب اور چہیتا سمجھتے ہیں، آگر آخرت کی تمام نعمتوں کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں، اور یہ بھی ان کا ایمان ہے کہ آخرت کی نعمتیں دنیا کی نعمتوں سے ہزارہا درجہ اعلیٰ اور بہتر ہیں، تو اس کا مقتضا یہ ہے کہ ان کے دل میں موت کی تمنا پیدا ہو، تاکہ دنیا کی مکدر اور رنج و غم سے بھری ہوئی زندگی سے نکل کر خالص آرام و راحت اور دائمی زندگی میں پہنچ جائیں۔
اس لئے آیت مذکورہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت کی گئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہود سے فرمائیں کہ جب تم خدا کے محبوب اور لاڈلے ہو اور تمہیں یہ خطرہ بالکل نہیں کہ آخرت میں تمہیں کوئی عذاب ہوسکتا ہے تو پھر تم ذرا موت کی تمنا کرو۔
قرآن نے خود ہی ان کا جواب دے دیا، یعنی یہ لوگ ہرگز موت کی تمنا نہیں کریں گے، اس لئے کہ ان کا موت سے فرار بےسبب نہیں ہے، وہ زبان سے خاہ کیسے لمبے جوڑے دعوے کریں، مگر ان کے ضمیر خوب جانتے ہیں کہ خدا اور اس کے دین کے ساتھ ان کا معاملہ کیا ہے اور آخرت میں ان حرکتوں کے کیا نتائج نکلنے کی توقع کی جاسکتی ہے جو وہ دنیا میں کر رہے ہیں، اسی لئے ان کا نفس خدا کا سامنا کرنے سے جی چراتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ کسی راہ میں بھی جان دینے کے لئے تیار نہ تھے، نہ خدا کی راہ میں اور نہ قوم کی راہ میں اور نہ خود اپنی جان و مال و عزت کی راہ میں، انہیں صرف زندگی رکار تھی خودہ کیسی ہی زندگی ہو، اسی چیز نے ان کو بزدل بنادیا تھا۔
یہود خدا کی محبوبیت اور جنت کی ٹھیکے داری کے دعوے کے باجوجود، موت سے بھاگتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے فرما دیجئے کہ جس موت سے تم بھاگتے ہو وہ آ کر رہے گی، اب نہیں تو آئندہ۔
10 Tafsir as-Saadi
یعنی جو کچھ آسمانون میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ،سب اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں ،اس کے حکم کی اطاعت کرتے ہیں ،اس کو معبود مانتے ہیں اور اس کی عبادت کرتے ہیں کیونکہ وہ بادشاہ کامل ہے جس کی عالم علوی اور عالم سفلی پر بادشاہی ہے اور تمام مخلوق اس کی مملوک اور اس کی تدبیر کے تحت ہے۔ ﴿ الْقُدُّوْسِ﴾ عظمت والا، ہر نقص اور ہر آفت سے پاک ہے ﴿الْعَزِیْزِ﴾ تمام اشیا پر غالب ہے۔ ﴿الْحَکِـیْمِ﴾ وہ اپنی تخلیق وامر میں حکمت والا ہے۔ یہ عظیم اوصاف اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی دعوت دیتے ہیں جس کا کوئی شریک نہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
aasmano aur zameen mein jo cheez bhi hai , woh Allah ki tasbeeh kerti hai jo badshah hai baray taqadduss ka malik hai , jiss ka iqtidar bhi kamil hai , jiss ki hikmat bhi kamil .
12 Tafsir Ibn Kathir
قرآن حکیم آفاقی کتاب ہدایت ہے
اور ہر جگہ بھی فرمایا ہے کہ کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی تسبیح اس کی حمد کے ساتھ نہ کرتی ہو تمام مخلوق خاہ آسمان کی ہو، خواہ زمین کی، اس کی تعریفوں اور پاکیزگیوں کے بیان میں مصروف و مشغول ہے، وہ آسمان و زمین کا بادشاہ اور ان دونوں میں اپنا پورا تصرف اور اٹل حکم جاری کرنے والا ہے، وہ تمام نقصانات سے پاک اور بےعیب ہے، تمام صفات کمالیہ کے ساتھ موصوف ہے، وہ عزیز و حکیم ہے۔ اس کی تفسیر کئی بار گذر چکی ہے۔ امیون سیم راد عرب ہیں۔ جیسے اور جگہ فرمان باری ہے۔ الخ، یعنی تو اہل کتاب اور ان پڑھ لوگوں سے کہہ دے کہ کیا تم نے اسلام قبول کیا ؟ اور وہ مسلمان ہوجائیں تو وہ راہ راست پر ہیں اور اگر منہ پھیر لیں تو تجھ پر تو صرف پہنچا دینا ہے اور بندوں کی پوری دیکھ بھال کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ یہاں عرب کا ذکر کرنا اس لئے نہیں کہ غیر عرب کی نفی ہو بلکہ صرف اس لئے کہ ان پر احسان و اکرام بہ نسبت دوسروں کے بہت زیادہ ہے۔ جیسے اور جگہ ہے وانہ لذکر لک ولقومک یعنی یہ تیرے لئے بھی نصیحت ہے اور تیری قوم کے لئے بھی، یہاں بھی قوم کی خصوصیت نہیں کیونکہ قرآن کریم سب جہان الوں کے لئے نصیحت ہے اسی طرح اور جگہ فرمان ہے (ترجمعہ) اپنے قرابت دار اور کنبہ والوں کو ڈرا دے، یہاں بھی یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ کی تنبیہہ صرف اپنے گھر والوں کے ساتھ ہی مخصوص ہے بلکہ عام ہے، ارشاد باری ہے۔ (ترجمہ) لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں اور جگہ فرمان ہے (ترجمہ) یعنی اس کے ساتھ میں تمہیں خبردار کر دوں اور ہر اس شخص کو جسے یہ پہنچے، اسی طرح قرآن کی بات فرمایا (ترجمہ) تمام گروہ میں سے جو بھی اس کا انکار کرے وہ جہنمی ہے، اسی طرح کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں، جن سے صاف ثابت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت روئے زمین کی طرف تھی، کل مخلوق کے آپ پیغمبر تھے، ہر سرخ و سیاہ کی طرف آپ نبی بنا کر بھیجے گئے تھے۔ (ترجمہ) سورة انعام کی تفسیر میں اس کا پورا بیان ہم کرچکے ہیں اور بہت سی آیات و احادیث وہاں وارد کی ہیں فالحمد اللہ یہاں یہ فرمانا کہ ان پڑھوں یعنی عربوں میں اپنا رسول بھیجا اس لئے ہے کہ حضرت خلیل اللہ کی دعا کی قبولیت معلوم ہوجائے، آپ نے اہل مکہ کے لئے دعا ماگنی تھی کہ اللہ تعالیٰ ان میں ایک رسول ان ہی میں سے بھیجے جو انہیں اللہ کی آیتیں پڑھ کر سنائی، انہیں پاکیگی سکھائے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دے، پس اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ دعا قبول فرمائی اور جبکہ مخلوق کو نبی اللہ کی سخت حاجت تھی سوائے چند اہل کتاب کے جو حضرت عیسیٰ کے سچے دین پر قائم تھے اور افراط تفریط سے الگ تھی باقی تمام دنیا دین حق کو بھلا بیٹھی تھی اور اللہ کی نامرضی کے کاموں میں مبتلا تھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبعوث فرمایا، آپ نے ان ان پڑھ کو اللہ کے کلام کی آیتیں پڑھ سنائیں انہیں پاکیزگی سکھائی اور کتاب و حکمت کا معلم بنادیا حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں تھے، سنئے عرب حضرت ابراہیم کے دین کے دعویدار تھے لیکن حالت یہ تھی کہ اصل دین کو خورد برد کرچکے تھے اس میں اس قدر تبدل تغیر کردیا تھا کہ توحید شرک سے اور یقین شک سے بدل چکا تھا ساتھ ہی بہت سی اپنی ایجاد کردہ بدعتیں دین اللہ میں شامل کردی تھیں، اسی طرح اہل کتاب نے بھی اپنی کتابوں کو بدل دیا تھا ان میں تحریف کرلی تھی اور متغیر کردیا تھا ساتھ ہی معنی میں بھی الٹ پھیر کرلیا تھا پس اللہ پاک نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عظیم الشان شریعت اور کامل مکمل دین دے کر دنیا والوں کی طرف بھیجا کہ اس فساد کی آپ اصلاح کریں، اہل دنیا کو اصل احکام الٰہی پہنچائیں اللہ کی مرضی اور نامرضی کے احکام لوگوں کو معلوم کرا دیں، جنت سے قریب کرنے والے عذاب سے نجات دلوانے والے تمام اعمال بتائیں، ساری مخلوق کے ہادی بنیں اصول و فروق سب سکھائیں، کوئی چھوٹی بڑی بات باقی نہ چھوڑیں۔ تمام تر شکوک و شبہات سب کے دور کردیں اور اس دین پر لوگوں کو ڈال دیں جن میں ہر بھلائی موجود ہو، اس بلند وبالا خدمت کے لئے آپ میں وہ برتریاں اور بزرگیاں جمع کردیں جمع کردیں جو نہ آپ سے پہلے کسی میں تھیں نہ آپ کے بعد کسی میں ہو سکیں، اللہ تعالیٰ آپ پر ہمیشہ ہمیشہ درود وسلام نازل فرماتا رہے آمین ! دوسری آیت کی تفسیر میں حضرت ابوہریرہ سے صحیح بخاری شریف میں مروی ہے کہ ہم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ پر سورة جمعہ نازل ہوئی جب آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی تو لوگوں نے پوچھا کہ اخرین منھم سے کیا مراد ہے تین مرتبہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال ہوا تب آپ نے اپنا ہاتھ حضرت سلمان فارسی (رض) کے سر پر رکھا اور فرمایا اگر ایمان ثریا ستارے کے پاس ہوتا تو بھی ان لوگوں میں سے ایک یا کئی ایک پالیتے۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ یہ سورت مدنی ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیغمبری تمام دنیا والوں کی طرف ہے صرف عرب کے لئے مخصوص نہیں کیونکہ آپ نے اس آیت کی تفسیم میں فارس والوں کو فرمایا۔ اسی عام بعثت کی بناء پر آپ نے فارس و روم کے بادشاہوں کے نام اسلام قبول کرنے کے فرامین بھیجے۔ حضرت مجاہد وغیرہ بھی فرماتے ہیں اس سے مراد عجمی لوگ ہیں یعنی رب کے سوا کے جو لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں اور آپ کی وحی کی تصدیق کریں۔ ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ اب سے تین تین پشتوں کے بعد آنے والے میرے امتی بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے، پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی۔ وہ اللہ عزت و حکمت والا ہے، اپنی شریعت اور اپنی تقدیر میں غالب با حکمت ہے، پھر فرمان ہے یہ اللہ کا فضل ہے یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسی زبردست عظیم الشان نبوت کے ساتھ سرفراز فرمانا اور اس امت کو اس فضل عظیم سے بہرہ ور کرنا، یہ خاص اللہ کا فضل ہے، اللہ اپنا فضل جسے چاہے دے، وہ بہت بڑے فضل و کرم والا ہے۔