اور جب انہوں نے کوئی تجارت یا کھیل تماشا دیکھا تو (اپنی حاجت مندی اور معاشی تنگی کے باعث) اس کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے اور آپ کو (خطبہ میں) کھڑے چھوڑ گئے، فرما دیجئے: جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل سے اور تجارت سے بہتر ہے، اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے،
English Sahih:
But [on one occasion] when they saw a transaction or a diversion, [O Muhammad], they rushed to it and left you standing. Say, "What is with Allah is better than diversion and than a transaction, and Allah is the best of providers."
1 Abul A'ala Maududi
اور جب انہوں نے تجارت اور کھیل تماشا ہوتے دیکھا تو اس کی طرف لپک گئے اور تمہیں کھڑا چھوڑ دیا ان سے کہو، جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور جب انہوں نے کوئی تجارت یا کھیل دیکھا اس کی طرف چل دیے اور تمہیں خطبے میں کھڑا چھوڑ گئے تم فرماؤ وہ جو اللہ کے پاس ہے کھیل سے اور تجارت سے بہتر ہے، اور اللہ کا رزق سب سے اچھا،
3 Ahmed Ali
اور جب وہ لوگ تجارت یاتماشہ دیکھتے ہیں تو اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور آپ کو کھڑا ہوا چھوڑ جاتے ہیں کہہ دو جو الله کے پاس ہے وہ تماشا اور تجارت سے کہیں بہتر ہے اور الله بہتر روزی دینے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
جب کوئی سودا بکتا دیکھیں یا کوئی تماشا نظر آجائے تو اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا ہی چھوڑ دیتے ہیں (١) آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کے پاس جو ہے (٢) وہ کھیل اور تجارت سے بہتر ہے (٣) اور اللہ تعالٰی بہترین روزی رساں ہے (٤)۔
١١۔١ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعے کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک قافلہ آگیا، لوگوں کو پتہ چلا تو خطبہ چھوڑ کر باہر خرید و فروخت کے لئے چلے گئے کہ کہیں سامان فروخت ختم نہ ہو جائے صرف ١٢ آدمی مسجد میں رہ گئے جس پر یہ آیت نازل ہوئی (صحیح بخاری)۔ انفضاض کے معنی ہیں مائل اور متوجہ ہونا دوڑ کر منتشر ہوجانا۔ الیھا میں ضمیر کا مرجع تجارۃ ہے یہاں صرف ضمیر تجارت پر اکتفا کیا اس لیے کہ جب تجارت بھی باوجود جائز اور ضروری ہونے کے دوران خطبہ مذموم ہے تو کھیل وغیرہ کے مذموم ہونے کیا شک ہوسکتا ہے؟ علاوہ ازیں قائما سے معلوم ہوا کہ خطبہ جمعہ کھڑے ہو کر دینا سنت ہے۔ چنانچہ حدیث میں بھی آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو خطبے ہوتے تھے، جن کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھتے تھے، قرآن پڑھتے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت فرماتے۔ (صحیح مسلم) ١١۔٢ یعنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی اطاعت کی جو جزائے عظیم ہے ۔ ١١۔٣ جس کی طرف تم دوڑ کر گئے اور مسجد سے نکل گئے اور خطبہ جمعہ کی سماعت بھی نہیں کی۔ ١١۔٤ پس اسی سے روزی طلب کرو اور اطاعت کے ذریعے سے اسی کی طرف وسیلہ پکڑو۔ اس کی اطاعت اور اس کی طرف رزق حاصل کرنے کا بہت بڑا سبب ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب یہ لوگ سودا بکتا یا تماشا ہوتا دیکھتے ہیں تو ادھر بھاگ جاتے ہیں اور تمہیں (کھڑے کا) کھڑا چھوڑ جاتے ہیں۔ کہہ دو کہ جو چیز خدا کے ہاں ہے وہ تماشے اور سودے سے کہیں بہتر ہے اور خدا سب سے بہتر رزق دینے والا ہے
6 Muhammad Junagarhi
اور جب کوئی سودا بکتا دیکھیں یا کوئی تماشا نظر آجائے تو اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کے پاس جو ہے وه کھیل اور تجارت سے بہتر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ بہترین روزی رساں ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور (کئی لوگوں کی حالت یہ ہے کہ) جب کوئی تجارت یا کھیل تماشہ دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں اور آپ(ص) کو کھڑا ہوا چھوڑ دیتے ہیں آپ(ص) کہہ دیجئے! کہ جو کچھ (اجر و ثوا ب) اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشہ اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ بہترین رزق دینے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اے پیغمبر یہ لوگ جب تجارت یا لہو و لعب کو دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں اور آپ کو تنہا کھڑا چھوڑ دیتے ہیں آپ ان سے کہہ دیجئے کہ خدا کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اس کھیل اور تجارت سے بہرحال بہتر ہے اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور جب یہ لوگ سوا یکتا یا تماشا ہوتا دیکھتے ہیں تو اکثر بھاگ جاتے ہیں اور تمہیں (کھڑے کا) کھڑا چھوڑ جاتے ہیں کہہ دو کہ جو چیز خدا کے ہاں ہے وہ تماشے اور سودے سے کہیں بہتر ہے شان نزول واذا راو اتجارۃ (الآیۃ) یہ آیت اب وقت نازل ہوئی جب کہ ایک روز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کی نماز سے فارغ ہو کر جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک ایک تجارتی قافلہ ضرویات زندگی کا سامان لے کر شام سے آگیا، تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قافلہ ایک بہت بڑے تاجر وحیہ کلبی کا تھا، اطلاع عام کے لئے ڈھول وغیرہ بجوا کر عام منا دی کرا دی گئی، مدینہ میں ان دنوں خشک سالی تھی ہر شخص کو خوردو نوش کے سامان کی اشد ضرورت تھی جن میں صحابہ (رض) بھی شامل تھے، اس اندیشہ کے پیش نظر کہ کہیں قافلہ کا سامان ختم ہوجائے جس کی وجہ سے ہم نہ پاسکیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطبہ پڑھتا چھوڑ کر سوائے بارہ آدمیوں کے سب بازار میں چلے گئے، یہ روایت ابو دائود نے مراسیل میں بیان فرمائی ہے، یاد رہے کہ اس وقت خطبہ جمعہ کے بعد ہوا کرتا تھا، جیسا کہ آج بھی عیدین کے بعد خطبہ ہوتا ہے، اس پر مذکروہ آیت نازل ہوئی، اس وقت تک یہ معلوم نہ تھا کہ خطبئہ جمعہ لازمی اور ضروری ہے اس کے بعد جمعہ کا خطبہ جمعہ کی نماز سے پہلے ہونے لگا۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَہْوَا انْفَضُّوْٓا اِلَیْہَا﴾ جب وہ کوئی سودابکتا یا لہو و لعب دیکھتے ہیں تو اس لہو و لعب یا تجارت کی حرص میں مسجد سے باہر نکل جاتے ہیں اور بھلائی کو چھوڑ دیتے ہیں ﴿وَتَرَکُوْکَ قَایِٕمًا﴾ اور آپ لوگوں کو کھڑے خطاب کرتے رہ جاتے ہیں ۔یہ واقعہ جمعہ کے روز پیش آیا ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو (جمعہ کا)خطبہ دے رہے تھے کہ مدینہ منورہ میں ایک تجارتی قافلہ آیا۔ جب لوگوں نے مسجد میں قافلے کی آمد کے بارے میں سنا تو وہ مسجد سے نکل گئے اور ایک ایسا معاملے میں عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ دیتے چھوڑ دیا، جس کے لیے عجلت میں ادب کو ترک کرنا مناسب نہ تھا ۔﴿قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰہِ﴾ ”کہہ دیجئے :جو اللہ کے پاس ہے ۔“یعنی اللہ تعالیٰ کے پاس اس شخص کے لیے، جو بھلائی کا التزام کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت پر اپنے نفس کو صبر کا خوگر بناتا ہے، جو اجروثواب ہے۔ ﴿خَیْرٌ مِّنَ اللَّہْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِ﴾ وہ لہو ولعب اور اس تجارت سے بہتر ہے جس سے اگرچہ بعض مقاصد حاصل ہوتے ہیں تاہم وہ بہت قلیل، ختم ہونے والے رزق اور آخرت کی بھلائی کو فوت کردینے والے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر رزق کو فوت نہیں کرتا کیونکہ اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے، چنانچہ جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے وہاں سے رزق عطا کرتا ہے جہاں سے اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا۔ ان آیات کریمہ سے متعدد فوائد مستفاد ہوتے ہیں: ١۔ اہل ایمان پر جمعہ کی نماز فرض ہے ،اس میں شرکت کے لیے جلدی کرنا ،اس کے لیے کوشش کرنا اور اس کا اہتمام کرنا واجب ہے۔ ٢۔ ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ جمع کے دن دو خطبے فرض ہیں اور ان میں حاضر ہونا واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہاں ذکر کی تفسیر دو خطبوں سے کی ہے اور اس کی طرف کوشش کے ساتھ جانے کا حکم دیا ہے۔ ٣۔ اس سورۃ مبارکہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ جمعہ کی اذان کے بعد خریدوفروخت ممنوع اور حرام ہے اور یہ صرف اس وجہ سے تاکہ واجب سے غافل ہو کر خرید وفروخت میں مشغول ہونے سے واجب فوت نہ ہوجائے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہر وہ کام جو اصل میں مباح ہو مگر جب اس سے کسی واجب کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو اس حال میں یہ کام جائز نہیں ہے۔ ٤۔ ان آیات کریمہ میں جمعہ کے دن دونوں خطبوں میں حاضر ہونے کا حکم ہے اور جو حاضر نہیں ہوتا اس کی مذمت مستفاد ہوتی ہے اور دونوں خطبوں میں خاموش رہنا اس کے لوازم میں شمار ہوتا ہے۔ ٥۔ وہ بندہ جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف متوجہ ہوتا ہے، اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ نفس کے لہو ولعب ،تجارت اور شہوات میں حاضر ہونے کےدواعی نفس کو وہ بھلائیاں یاد کرائے جو اللہ کے پاس ہیں ،جو اللہ تعالیٰ کی رضا کو اس کی خواہشات پر ترجیح دیتی ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jab kuch logon ney koi tijarat ya koi khel dekha to uss ki taraf toot parray , aur tumhen kharra huwa chorr diya . keh do kay : jo kuch Allah kay paas hai , woh khel aur tijarat say kahen ziyada behtar hai , aur Allah sabb say behtar rizq denay wala hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
تجارت عبادت اور صلوۃ جمعہ٭٭ مدینہ میں جمعہ والے دن تجارتی مال کے آجانے کی وجہ سے جو حضرات خطبہ چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے تھے، انہیں اللہ تعالیٰ عتاب کر رہا ہے کہ یہ لوگ جب کوئی تجارت یا کھیل تماشہ دیکھ لیتے ہیں تو اس کی طرف چل کھڑے ہوتے ہیں اور تجھے خطبہ میں ہی کھڑا چھوڑ دیتے ہیں، حضرت مقاتل بن حیان فرماتے ہیں یہ مال تجارت وحیہ بن خلیفہ کا تھا جمعہ والے دن آیا اور شہر میں خبر کے لئے طب بجنے لگا حضرت وحیہ اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے، طبل کی آواز سن کر سب لوگ اٹھ کھڑے ہوئے صرف چند آدمی رہ گئے، مسند احمد میں ہے صرف بارہ آدمی رہ گئے باقی لوگ اس تجارتی قافلہ کی طرف چل دیئے جس پر یہ آیت اتری۔ مسند ابو یعلی میں اتنا اور بھی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر وہ بھی باقی نہ رہتے اور سب کی طرف چل دیئے جس پر یہ آیت اتری۔ مسند ابو یعلی میں اتنا اور بھی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر یہ بھی باقی نہ رہتے اور سب اٹھ کر چلے جاتے تو تم سب پر یہ وادی آگ بن کر بھڑک اٹھتی، جو لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے نہیں گئے تھے، ان میں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق عنہما بھی تھے، اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جمعہ کا خطبہ کھڑے ہو کر پڑھنا چاہئے، صحیح مسلم میں ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے دن دو خطبے پڑھتے تھے درمیان میں بیٹھ جاتے تھے قرآن شریف پڑھتے تھے اور لوگوں کو تذکیرہ نصیحت فرماتے تھے، یہاں یہ بات بھی معلوم رہنی چاہئے کہ یہ واقعہ بہ قول بعض کے اس وقت کا ہے جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کی نماز کے بعد خطبہ پڑھا کرتے تھے۔ مراسیل ابو داؤد میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ سے پہلے جمعہ کی نماز پڑھا کرتے تھے جیسے عیدین میں ہوتا ہے، یہاں تک کہ ایک مرتبہ آپ خطبہ سنا رہے تھے کہ ایک شخص نے آن کر کہا وحیہ بن خلیفہ مال تجارت لے کر آگیا ہے، یہ سن کر سوائے چند لوگوں کے اور سب اٹھ کھڑے ہوگئے۔ پھر فرماتا ہے اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں خبر سنا دو کہ دار آخرت کا ثواب عند اللہ ہے وہ کھیل تماشوں سے خریدو فروخت سے بہت ہی بہتر ہے، اللہ پر توکل رکھ کر، طلب رزق اوقات اجازت میں جو کرے اللہ اسے بہترین طریق پر روزیاں دے گا۔ الحمد اللہ سورة جمعہ کی تفسیر پوری ہوئی۔