الجمعہ آية ۹
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نُوْدِىَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۗ ذٰ لِكُمْ خَيْرٌ لَّـكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
طاہر القادری:
اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کے لئے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت (یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو،
English Sahih:
O you who have believed, when [the adhan] is called for the prayer on the day of Jumu’ah [Friday], then proceed to the remembrance of Allah and leave trade. That is better for you, if you only knew.
1 Abul A'ala Maududi
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو، یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والو جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو،
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو ذکر الہیٰ کی طرف لپکو اور خرید و فروخت چھوڑ دو تمہارے لیے یہی بات بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو
4 Ahsanul Bayan
اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو! جمعہ کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو (١) یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔
٩۔١ یہ اذان کس طرح دی جائے، اس کے الفاظ کیا ہوں؟ یہ قرآن میں کہیں نہیں ہے۔ البتہ حدیث میں ہے جس سے یہ معلوم ہوا کہ حدیث کے بغیر قرآن کو سمجھنا ممکن ہے نہ اس پر عمل کرنا ہی۔ جمعہ کو، جمعہ اس لئے کہتے ہیں کہ اس دن اللہ تعالٰی ہرچیز کی پیدائش سے فارغ ہوگیا تھا، یوں گویا تمام مخلوقات کا اس دن اجتماع ہوگیا، یا نماز کے لئے لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے اس بنا پر کہتے ہیں (فتح القدیر) فَاَسْعَوْا کا مطلب یہ نہیں کہ دوڑ کر آؤ، بلکہ یہ ہے کہ اذان کے بعد فوراً کاروبار بند کر کے آجاؤ۔ کیونکہ نماز کے لیے دوڑ کر آنا ممنوع ہے، وقار اور سکینت کے ساتھ آنے کی تاکید کی گئی ہے۔ (صحیح بخاری) بعض حضرات نے ذروا البیع (خرید وفروخت) چھوڑ دو سے استدلال کیا ہے کہ جمعہ صرف شہروں میں فرض ہے اہل دیہات پر نہیں۔ کیونکہ کاروبار اور خریدوفروخت شہروں میں ہی ہوتی ہے دیہاتوں میں نہیں۔ حالانکہ اول تو دنیا میں کوئی ایسا گاؤں نہیں جہاں خرید وفروخت اور کاروبار نہ ہوتا ہو اس لیے یہ دعوٰی خلاف واقعہ دوسرا بیع اور کاروبار سے مطلب دنیا کے مشاغل ہیں وہ جیسے بھی اور جس قسم کے بھی ہوں۔ اذان جمعہ کے بعد انہیں ترک کردیا جائے۔ کیا اہل دیہات کے مشاغل دنیا نہیں ہوتے؟ کیا کیھتی باڑی کاروبار اور مشاغل دنیا سے مخلتف چیز ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
مومنو! جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے تو خدا کی یاد (یعنی نماز) کے لئے جلدی کرو اور (خریدو) فروخت ترک کردو۔ اگر سمجھو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے
6 Muhammad Junagarhi
اے وه لوگو جو ایمان ﻻئے ہو! جمعہ کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید وفروخت چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو! جب تمہیں جمعہ کے دن والی نمازکے لئے پکارا جائے (اس کی اذان دی جائے) تو اللہ کے ذکر (نمازِ جمعہ) کی طرف تیز چل کر جاؤ اورخرید و فروخت چھوڑ دو۔ یہ بات تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ایمان والو جب تمہیں جمعہ کے دن نماز کے لئے پکارا جائے تو ذکر خدا کی طرف دوڑ پڑو اور کاروبار بند کردو کہ یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم جاننے والے ہو
9 Tafsir Jalalayn
مومنو ! جب جمعہ کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے تو خدا کی یاد (یعنی نماز) کے لئے جلدی کرو اور (خریدو) فروخت ترک کردو۔ اگر تم سمجھو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔
ترجمہ : اے ایمان والو جب جمعہ کے روز جمعہ (کی نماز) کے لئے اذان کہی جائے تو تم اللہ کی یاد (نماز) کی طرف (فوراً ) چل پڑا کرو، من ’ بمعنی فی ہے اور خریدو فروخت ترک کردیا کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم کچھ سمجھتے ہو کہ یہ بہتر ہے، پھر تم اس پر عمل کرو، پھر جب نماز ہوچکے تو تم زمین میں پھیل جائو امرا باحت کے لئے، اور خدا کا فضل (روزی) طلب کرو اور اللہ کو بکثرت یاد کرتے رہا کرو تاکہ تم کامیاب ہو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے روز خطبہ دے رہے تھے کہ ایک قافلہ آیا، اور دستور کے مطابق اس کی آمد پر ڈھول بجایا گیا تو لوگ اس کے لئے مسجد سے نکل گئے، سوائے بارہ آدمیوں کے تو یہ آیت نازل ہوئی، وہ لوگ جب کسی تجارت کو دیکھیں یا کوئی تماشہ نظر آجائے تو اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں، یعنی تجارت کی طرف، اس لئے کہ وہ ان کا مطلوب ہے نہ کہ تماشہ اور آپ کو خطبہ میں کھڑا چھوڑ جاتے ہیں۔ آپ فرما دیجئے کہ جو اللہ کے پاس ثواب ہے وہ ایمان والوں کے لئے کھیل اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ بہترین روزی رساں ہے کہا جاتا ہے کہ ہر شخص اپنے اہل و عیال کو روزی دیتا ہے، یعنی اللہ کے روزی سے روزی دیتا ہے۔
قولہ : من بمعنی فی یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ من یوم الجمعۃ من بمعنی فی ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ من بیانیہ ہو اور اذا نودی کا بیان ہو۔
قولہ : یوم الجمعۃ، الجمعۃ میں دو قرائتیں ہیں، اول دونوں یعنی جیم اور میم کے ضمہ کے ساتھ یہ جمہور کی قراءت ہے اور دوسری جمعۃ کے میم کے سکون کے ساتھ یہ شاذ ہے، اور ایک قراءت میم کے فتحہ کے ساتھ بھی ہے مگر یہ بھی شاذ ہے۔
قولہ : انہ خیر یہ جملہ مخدوف مان کر اشارہ کردیا کہ تعلمون کا مفعول بہ مخدوف ہے اور فافعلوہ، مخدوف مان کر اشارہ کردیا کہ ان کنتم شرط کی جزاء مخدوف۔
قولہ : لانھا مطلوبھم اس عبارت کے اضافہ کا مقصد بھی ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : سوال یہ ہے کہ ماقبل میں دو چیزوں کا ذکر ہے، تجارت اور لھو، لہٰذا مناسب یہ تھا کہ لھا کے بجائے لھما فرماتے۔
جواب : جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ سابق میں مذکور اگرچہ دو چیزیں ہیں مگر مطلوب آ میں سے صرف ایک یعنی تجارت ہی ہے لھو مطلوب نہیں ہے، اسی وجہ سے لھا کی ضمیر کو مفرد لایا گیا ہے، اس سوال کا دوسرا جواب یہ بھی دیا جاسکتا ہے کہ او کے ذریعہ عطف کیا گیا ہے لہٰذا مراد تو ایک ہی ہے خواہ تجارت ہو یا لھو، ضمیر مئونث لا کر متعین کردیا کہ تجارت مراد ہے۔
قولہ : وترکوک قائما یہ جملہ انفضوا کا فاعل ہے اور قائما سے اشارہ کردیا کہ خطبہ گھڑے ہو کر ہونا چاہیے نہ کہ بیٹھ کر۔
قولہ : یقال کل انسان یرزق عائلتہ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد بھی ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : سوال یہ ہے کہ واللہ خیر الرازقین میں خیر اسم تفضیل کا صیغہ ہے جو تعدد کا تقاضہ کرتا ہے اس لئے کہ اسم تفضیل کا استعمال کم از کم دو کے درمیان ہوتا ہے تاکہ مفضل اور مفضل علیہ کا ثبوت ہوجائے اور یہاں رازق ایک ہی ہے اور وہ اللہ ہے تو اسم تفضیل کا استعمال کیسے درست ہوا ؟
جواب : جواب کا ما حصل یہ ہے کہ یہاں خیر کا صیقہ متعدد ہی میں استعمال ہوا ہے، اس لئے کہ کہا جاتا ہے کہ کل انسن یرزق عائلتہ، تو معلوم ہوا کہ ہر انسان اپنے اہل و عیال کا رازق ہے اگرچہ اللہ تعالیٰ رازق حقیقی ہے اور انسان رازق مجازی کیوں کہ انسان اللہ کے عطا کردہ رزق ہی میں سے دیتا ہے لہٰذا اسم تفضیل کا استعمال صحیح ہے۔
یوم الجمعہ : یوم لجمعہ کو یوم الجمعہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ مسلمانوں کے اجتماع کا دن ہے کائنات کی تخلیق کا بھی آخری دن ہے حضرت آدم ( علیہ السلام) اسی روز پیدا ہوئے، اسی دن قیامت آئے گی۔
” جمہ “ دراصل ایک اسلامی اصطلاح ہے زمانئہ جاہلیت میں اس کو یوم عروبہ کہا کرتے تھے، جب اسلام میں اس دن کو مسلمانوں کے اجتماع کا دن متعین کیا گیا تو اس کو یوم الجمہ کہا جانے لگا، سب سے پہلے عرب میں کفب بن لوی نے اس کا نام جمعہ رکھا، قریش اس روز جمع ہوتے اور کعب بن لوی خطبہ دیتے، یہ واقعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیدائش سے پانچ سو ساٹھ سال پہلے کا ہے، کعب بن لوی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جدا بعد میں سے ہیں۔
اسلام سے پہلے ہفتہ میں ایک دن عبادت کے لئے مخصوص کرنے اور اس کو شعار ملت قرار دینے کا طریقہ اہل کتاب میں موجود تھا، یہودیوں کے یہاں اس غرض کے لئے سبت (ہفتہ) کا دن مقرر تھا، کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دی تھی، عیسائیوں نے اپنے آپ کو یہودیوں سے ممتاز کرنے کے لئے اپنا شعار ملت اتوار کو قرار دیا، اگرچہ اس کا کوئی حکم نہ تو حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے دیا تھا اور نہ انجیل میں اس کا کوئی ذکر ہے، لیکن عیسائیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ صلیب پر جان دینے کے بعد حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) اسی روز قبر سے نکل کر آسمان کی طرف گئے تھے، اسی وجہ سے بعد کے عیسائیوں نے اس دن کو اپنی عبادت کے لئے مقرر کرلیا، اور پھر 321 ء میں رومی سلطنت نے ایک حکم نامہ کے ذریعہ اس کو عام تعطیل کا دن قرار دیدیا، اسلام نے امتیاز کے لئے ان ملتوں کے شعار کو چھوڑ کر جمعہ کو شعار ملت قرار دیا ہے۔
نودی لصلٰوۃ میں نودی سے جمعہ کی اذان مراد ہے وذروا البیع، میع کو ترک کرنے کا مطلب ہر وہ کام ترک کرنا ہے جو سعی الی الجمعہ میں مخل ہو، اس لئے اذان جمعہ کے بعد کھانا پینا، سونا، حتی کہ مطالعہ وغیرہ کرنا سب ممنوع ہیں۔
جمعہ کی اذان شروع میں صرف ایک ہی تھی، جو خطبہ کے وقت امام کے سامنے کہی جاتی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابومکر صدیق (رض) اور حضرت عمر (رض) کے زمانہ تک ایک ہی اذان تھی، حضرت عثمان غنی (رض) نے ایک اور اذان مسجد سے باہر اپنے مکان ” زوراء “ پر شروع کرا دی جس کی آواز پورے مدینہ میں پہنچنے لگی، صحابہ کرام (رض) میں سے کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ لہٰذا یہ اذان اجماع صحابہ (رض) سے ثابت ہوگئی جو ایک مستقل حجت ہے، بیع و شرا، یا دیگر کاروبار میں مشغولیت جو خطیب کے رو برو اذان کے بعد حرام قرار دی گئی تھی اب وہ پہلی اذان سے شروع ہوگئی۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کوجمعہ کی نماز میں شریک ہونے اور اس کےلیے جب اذان دی جائے تو اس کی طرف جلدی کرنے اور کوشاں ہونے کا حکم دیا ہے۔ یہاں”سعی“ سے مراد جلدی کرنا، اہتمام کرنا اور جمعہ کی نماز کو سب سے اہم کام قرار دینا ہے، اس سے مراد دوڑنا نہیں جس کو نماز کے لیے جاتے وقت ممنوع کیا گیا ہے ۔فرمایا :﴿وَذَرُوا الْبَیْعَ ﴾ یعنی جب جمعہ کی نماز کے لیے اذان دے دی جائے تو خریدوفروخت چھوڑ دو اور نماز کے لیے چل پڑو۔ ﴿ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ﴾ کیونکہ جمعہ کی نماز تمہارے خرید وفروخت میں مشغول ہونے سے اور تمہارے فرض نماز کو ضائع کرنے سے بہتر ہے ،جو تمام فرائض سے زیادہ مؤکد ہے۔ ﴿ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ اگر تم اس حقیقت کو جانتے ہو کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ بہتر اور زیادہ باقی رہنے والا ہے اور جو کوئی دنیا کو دین پر ترجیح دیتا ہے وہ حقیقی خسارے میں پڑتا ہے جب کہ وہ سمجھتا یہ ہے کہ وہ نفع حاصل کررہا ہے۔ خریدوفروخت کو چھوڑ دینے کا یہ حکم صرف جمعہ کی نماز کی مدت تک کے لیے ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey emaan walo ! jab jumaa kay din namaz kay liye pukara jaye to Allah kay ziker ki taraf lapko , aur kharido farokht chorr do . yeh tumharay liye behtar hai , agar tum samjho .
12 Tafsir Ibn Kathir
جمعہ کا دن کیا ہے ؟ اس کی اہمیت کیوں ہے ؟
جمعہ کا لفظ جمع سے مشتق ہے، وجہ اشتقاق یہ ہے کہ اس دن مسلمان بڑی بڑی مساجد میں اللہ کی عبادت کے لئے جمع ہوتے ہیں اور یہ بھی وجہ ہے کہ اسی دن تمام مخلوق کامل ہوئی چھ دن میں ساری کائنات بنائی گئی ہے چھٹا دن جمعہ کا ہے اسی دن حضرت آدم (علیہ السلام) پیدا کئے گئے، اسی دن جنت میں بسائے گئے اور اسی دن وہاں سے نکالے گئے، اسی دن میں قیامت قائم ہوگی، اس دن میں ایک ایسی ساعت ہے کہ اس وقت مسلمان بندہ اللہ تعالیٰ سے جو طلب کرے اللہ تعالیٰ اسے عنایت فرماتا ہے، جیسے کہ صحیح احادیث میں آیا ہے، ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سلمان سے پوچھا جانتے ہو جمعہ کا دن کیا ہے ؟ انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زیادہ علم ہے۔ آپ نے فرمایا اسی دن تیرے ماں باپ (یعنی آدم و حوا) کو اللہ تعالیٰ نے جمع کیا۔ یا یوں فرمایا کہ تمہارے باپ کو جمع کیا۔ اسی طرح ایک موقوف حدیث میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے فاللہ اعلم، پہلے اسے یوم العروبہ کہا جاتا تھا، پہلی امتوں کو بھی ہر سات دن میں ایک دن دیا گیا تھا، لیکن جمعہ کی ہدایت انہیں نہ ہوئی، یہودیوں نے ہفتہ پسند کیا جس میں مخلوق کی پیدائش شروع بھی نہ ہوئی تھی، نصاریٰ نے اتوار اختیار کیا جس میں مخلوق کی پیدائش کی ابتدا ہوئی ہے اور اس امت کے لئے اللہ تعالیٰ نے جمعہ کو سند فرمایا جس دن اللہ تعالیٰ نے جمعہ کو پسند فرمایا جس دن اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پورا کیا تھا، جیسے صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ ہم دنیا میں آنے کے اعتبار سے تو سب کے پیچھے ہیں لیکن قیامت کے دن سب سے پہلے ہوں گے سوائے اس کے کہ انہیں ہم سے پہلے کتاب اللہ دی گئی، پھر ان کے اس دن میں انہوں نے اختلاف کیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں راہ راست دکھائی پس لوگ اس میں بھی ہمارے پیچھے ہیں یہودی کل اور نصرانی پرسوں، مسلم میں اتنا اور بھی ہے کہ قیامت کے دن تمام مخلوق میں سب سے پہلے فیصلہ ہمارے بارے میں کیا جائے گا، یہاں اللہ تعالیٰ مومنوں کو جمعہ کے دن اپنی عبادت کے لئے جمع ہونے کا حکم دے رہا ہے، سعی سے مراد یہاں دوڑنا نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ ذکر اللہ یعنی نماز کے لئے قصد کرو چل پڑو کوشش کرو کام کاج چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوجاؤ، جیسے اس آیت میں سعی کوشش کے معنی میں ہے ومن ارادالاخرۃ وسعی لھا سعیھا یعنی جو شخص آخرت کا ارادہ کرے پھر اس کے لئے کوشش بھی کرے، حضرت عمر بن خطاب (رض) اور حضرت عبداللہ بن مسعود کی قرائت میں بجائے فاسعوا کے فامضوا ہے، یہ یاد رہے کہ نماز کے لئے دوڑ کر جانا منع ہے۔ بخاری و مسلم میں ہے جب تم اقامت سنو تو نماز کیلئے سکینت اور وقار کے ساتھ چلو، دوڑو نہیں، جو پاؤ پڑھ لو، جو فوت ہو ادا کرلو۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نماز میں تھے کہ لوگوں کے پاؤں کی آہٹ زور زور سے سنی، فارغ ہو کر فرمایا کیا بات ہے ؟ لوگوں نے کہا حضرت ہم جلدی جلدی نماز میں شامل ہوئے فرمایا ایسا نہ کرو نماز کو اطمینان کے ساتھ چل کر آؤ جو پاؤ پڑھ لو جو چھوٹ جائے پوری کرلو، حضرت حسن فرماتے ہیں اللہ کی قسم یہاں یہ حکم نہیں کہ دوڑ کر نماز کے لئے آؤ یہ تو منع ہے بلکہ مراد دل اور نیت اور خشوع خضوع ہے، حضرت قتادہ فرماتے ہیں اپنے دل اور اپنے عمل سے کوشش کرو، جیسے اور جگہ ہے فلما بلغ معہ السعی حضرت ذبیح اللہ جب خلیل اللہ کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے، جمعہ کے لئے آنے والے کو غسل بھی کرنا چاہئے، بخاری مسلم میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی جمعہ کی نماز کے لئے جانے کا ارادہ کرے وہ غسل کرلیا کرے، اور حدیث میں ہے جمعہ کے دن کا غسل ہر بالغ پر واجب ہے اور روایت میں ہے کہ ہر بالغ پر ساتویں دن سر اور جسم کا دھونا ہے، صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ وہ دن جمعہ کا دن ہے، سنن اربعہ میں ہے جو شخص جمعہ کے دن اچھی طرح غسل کرے اور سویرے سے ہی مسجد کی طرف چل دے پیدل جائے سوار نہ ہو اور امام سے قریب ہو کر بیٹھے خطبے کو کان لگا کر سنے لغو کام نہ کرے تو اسے ہر ایک قدم کے بدلے سال بھر کے روزوں اور سال بھر کے قیام کا ثواب ہے، بخاری مسلم میں ہے جو شخص جمعہ کے دن جنابت کے غسل کی طرح غسل کرے، اول ساعت میں جائے اس نے گویا ایک اونٹ اللہ کی راہ میں قربان کیا دوسری ساعت میں جانے والا مثل گائے کی قربانی کرنے والے کے ہے، تیسری ساعت میں جانے والا مرغ راہ اللہ میں تصدق کرنے والے کی طرح ہے، پانچویں ساعت میں جانے والا انڈا راہ اللہ دینے والے جیسا ہے، پھر جب امام آئے فرشتے خطبہ سننے کے لئے حاضر ہوجاتے ہیں، مستحب ہے کہ جعہ کے دن اپنی طاقت کے مطابق اچھا لباس پہنے خوشبو لگائے مسواک کرے اور صفائی اور پاکیزگی کے ساتھ جمعہ کی نماز کے لئے آئے، ایک حدیث میں غسل کے بیان کے ساتھ ہی مسواک کرنا اور خوشبو ملنا بھی ہے، مسند احمد میں ہے جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور اپنے گھر والوں کو خوشبو ملے اگر ہو اور اچھا لباس پہنے پھر مسجد میں آئے اور کچھ نوافل پڑھے اگر جی چاہے اور کسی کے ایذاء نہ دے (یعنی گردنیں پھلانگ کر نہ آئے نہ کسی بیٹھے ہوئے کو ہٹائے) پھر جب امام آجائے اور خطبہ شروع ہو خاموشی سے سنے تو اس کے گناہ جو اس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک کے ہوں سب کا کفارہ ہوجاتا ہے، ابو داؤد اور ابن ماجہ میں ہے حضرت عبداللہ بن سلام (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منبر پر بیان فرماتے ہوئے سنا کہ تم میں سے کسی پر کیا حرج ہے اگر وہ اپنے روز مرہ کے محنتی لباس کے علاوہ دو کپڑے خرید کر جمعہ کے لئے مخصوص رکھے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمان اس وقت فرمایا جب لوگوں پر وہی معمولی چادریں دیکھیں تو فرمایا کہ اگر طاقت ہو تو ایسا کیوں نہ کرلو۔ جس اذان کا یہاں اس آیت میں ذکر ہے اس سے مراد وہ اذان ہے جو امام کے منبر پر بیٹھ جانے کے بعد ہوتی ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں یہی اذان تھی جب آپ گھر سے تشریف لاتے منبر پر جاتے اور آپ کے بیٹھ جانے کے بعد آپ کے سامنے یہ اذان ہوتی تھی، اس سے پہلے کی اذان حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں نہ تھی اسے امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان (رض) نے صرف لوگوں کی کثرت کو دیکھ کر زیادہ کیا۔ صحیح بخاری شریف میں ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق کے زمانے میں جمعہ کی اذان صرف اسی وقت ہوتی تھی جب امام منبر پر خطبہ کہنے کے لئے بیٹھ جاتا، حضرت عثمان کے زمانے میں جب لوگ بہت زیادہ ہوگئے تو آپ نے دوسری اذان ایک الگ مکان پر کہلوائی زیادہ کی اس مکان کا نام زورا تھا مسجد سے قریب سب سے بلند یہی مکان تھا۔ حضرت مکحول سے ابن ابی حاتم میں روایت ہے کہ اذان صرف ایک ہی تھی جب امام آتا تھا اس کے بعد صرف تکبیر ہوتی تھی، جب نماز کھڑی ہونے لگے، اسی اذان کے وقت خریدو فروخت حرام ہوتی ہے، حضرت عثمان (رض) نے اس سے پہلے کی اذان کا حکم صرف اس لئے دیا تھا کہ لوگ جمع ہوجائیں۔ جمعہ میں آنے کا حکم آزاد مردوں کو ہے عورتوں، غلاموں اور بچوں کو نہیں، مسافر مریض اور تیمار دار اور ایسے ہی اور عذر والے بھی معذور گنے گئے ہیں جیسے کہ کتب فروغ میں اس کا ثبوت موجود ہے۔ پھر فرماتا ہے بیع کو چھوڑ دو یعنی ذکر اللہ کے لئے چل پڑو تجارت کو ترک کردو، جب نماز جمعہ کی اذان ہوجائے علماء کرام (رض) کا اتفاق ہے کہ اذان کے بعد خریدو فروخت حرام ہے، اس میں اختلاف ہے کہ دینے والا اگر دے تو وہ بھی صحیح ہے یا نہیں ؟ ظاہر آیت سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی صحیح نہ ٹھہرے گا واللہ اعلم، پھر فرماتا ہے بیع کو چھوڑ کر ذکر اللہ اور نماز کی طرف تمہارا آنا ہی تمہارے حق میں دین دنیا کی بہتری کا باعث ہے اگر تم میں علم ہو۔ ہاں جب نماز سے فراغت ہوجائے تو اس مجمع سے چلے جانا اور اللہ کے فضل کی تلاش میں لگ جانا، تمہارے لئے حلال ہے۔ عراک بن مالک (رض) جمعہ کی نماز سے فارغ ہو کر لوٹ کر مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوجاتے اور یہ دعا پڑھتے (ترجمہ) یعنی اے اللہ میں نے تیری آواز پر حاضری دی اور تیری فرض کردہ نماز ادا کی پھر تیرے حکم کے مطابق اس مجمع سے اٹھ آیا، اب تو مجھے اپنا فضل نصیب فرما تو سب سے بہتر روزی رساں ہے (ابن ابی حاتم) اس آیت کو پیش نظر رکھ کر بعض سلف صالحین نے فرمایا ہے کہ جو شخص جمعہ کے دن نماز جمعہ کے بعد خریدو فروخت کرے اسے اللہ تعالیٰ ستر حصے زیادہ برکت دے گا۔ پھر فرماتا ہے کہ خرید فروخت کی حالت میں بھی ذکر اللہ کیا کرو دنیا کے نفع میں اس قدر مشغول نہ ہوجاؤ کہ آخروی نفع بھول بیٹھو۔ حدیث شریف میں ہے جو شخص کسی بازار جائے اور وہاں (ترجمہ) پڑھے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک لاکھ نیکیاں لکھتا ہے اور ایک لاکھ برائیاں معاف فرماتا ہے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں بندہ کثیر الذکر اسی وقت کہلاتا ہے جبکہ کھڑے بیٹھے لیٹے ہر وقت اللہ کی یاد کرتا رہے۔