المنافقون آية ۱
اِذَا جَاۤءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْهَدُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللّٰهِ ۘ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُهٗ ۗ وَاللّٰهُ يَشْهَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَـكٰذِبُوْنَ ۚ
طاہر القادری:
(اے حبیبِ مکرّم!) جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ یقیناً اللہ کے رسول ہیں، اور اللہ جانتا ہے کہ یقیناً آپ اُس کے رسول ہیں، اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یقیناً منافق لوگ جھوٹے ہیں،
English Sahih:
When the hypocrites come to you, [O Muhammad], they say, "We testify that you are the Messenger of Allah." And Allah knows that you are His Messenger, and Allah testifies that the hypocrites are liars.
1 Abul A'ala Maududi
اے نبیؐ، جب یہ منافق تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں "ہم گواہی دیتے ہیں کہ آ پ یقیناً اللہ کے رسول ہیں" ہاں، اللہ جانتا ہے کہ تم ضرور اُس کے رسول ہو، مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق قطعی جھوٹے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
جب منافق تمہارے حضور حاضر ہوتے ہیں کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ حضور بیشک یقیناً اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ تم اس کے رسول ہو، اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافق ضرور جھوٹے ہیں
3 Ahmed Ali
جب آپ کے پاس منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ الله کے رسول ہیں اور الله جانتا ہے کہ بے شک آپ اس کے رسول ہیں اور الله گواہی دیتا ہے کہ بے شک منافق جھوٹے ہیں
4 Ahsanul Bayan
تیرے پاس جب منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ بیشک آپ اللہ کے رسول ہیں (١) اور اللہ جانتا ہے کہ یقیناً آپ اللہ کے رسول ہیں (٢) اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق قطعًا جھوٹے ہیں (٣)
١۔١ منافقین سے مراد عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھی ہیں۔ یہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے تو قسمیں کھا کھا کر کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔
١۔٢ یہ جملہ معترضہ ہے جو مضمون ماقبل کی تاکید کے لیے ہے جس کا اظہار منافقین بطور منافقت کے کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا یہ تو ویسے ہی زبان سے کہتے ہیں، ان کے دل اس یقین سے خالی ہیں۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واقعی اللہ کے رسول ہیں۔
١۔٣ اس بات میں کہ وہ دل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں، یعنی دل سے گواہی نہیں دیتے صرف زبان سے دھوکا دینے کے لئے اظہار کرتے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(اے محمدﷺ) جب منافق لوگ تمہارے پاس آتے ہیں تو (از راہ نفاق) کہتے ہیں کہ ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ بےشک خدا کے پیغمبر ہیں اور خدا جانتا ہے کہ درحقیقت تم اس کے پیغمبر ہو لیکن خدا ظاہر کئے دیتا ہے کہ منافق (دل سے اعتقاد نہ رکھنے کے لحاظ سے) جھوٹے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
تیرے پاس جب منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم اس بات کے گواه ہیں کہ بیشک آپ اللہ کے رسول ہیں، اور اللہ جانتا ہے کہ یقیناً آپ اس کے رسول ہیں۔ اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق قطعاً جھوٹے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول(ص)) جب منافق لوگ آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ بےشک آپ اللہ کے رسول(ص) ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ یقیناً آپ اس کے رسول(ص) ہیں لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافق بالکل جھوٹے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پیغمبر یہ منافقین آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ بھی جانتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیںلیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافقین اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
اے محمد) جب منافق لوگ تمہارے پاس آتے ہیں تو (ازراہ نفاق) کہتے ہیں کہ ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ بیشک خدا کے پیغمبر ہیں اور خدا جانتا ہے کہ درحققت تم اسکے پیغمبر ہو۔ لیکن خدا ظاہر کئے دیتا ہے کہ منافق (دل سے اعتقاد نہ رکھنے کے لحاظ سے) جھوٹے ہیں
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جب منافق ٓتے ہیں تو اپنے دل کی بات کے برخلاف زبان سے کہتے ہیں کہ ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یقیناً اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ یہ منافق قطعاً جھوٹے ہیں، اس بات میں جو یہ اپنے قول کے برخلاف (دل) میں چھپائے ہوئے ہیں ان لوگوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے (یعنی) اپنی جان و مال کے لئے وقایہ بنا رکھا ہے پس ان قسموں کے ذریعہ اللہ کے راستہ سے یعنی اس میں جہاد کرنے سے محفوظ ہوگئے ہیں بلا شبہ وہ کام جو یہ کر رہے ہیں برا ہے یہ یعنی ان کی بد عملی یہ ہے کہ وہ زبانی ایمان لائے پھر دل سے کافر ہوگئے یعنی اپنے کفر پر بدستور قائم رہے پس ان کے قلوب پر کفر کی وجہ سے مہر کردی گئی ہے اب یہ ایمان کو سمجھتے نہیں ہیں جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں دیکھیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے جسم ان کی خوبصورتی کی وجہ سے خوشنما معلوم ہوں اور جب یہ باتیں کریں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں دیکھیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے جسم ان کی خوبصورتی کی وجہ سے خوشنما معلوم ہوں اور جب یہ باتیں کریں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے کلام کی طرف اس کی فصاحت کی وجہ سے (اپنا) کان لگائیں گویا کہ وہ جسموں کے عظیم ہونے اور ناسمجھ ہونے میں لکڑیاں ہیں دیوار کے سہارے لگائی ہوئی (خشب) شین کے سکون اور ضمہ کے ساتھ ہر اس آواز کو جو لگائی جاتی ہے اپنے خلاف سمجھتے ہیں یعنی ہر ندا کو مثلاً لشکر کے کوچ کے نداء اور گمشدہ کا اعلان، اس لئے کہ ان کے قلوب میں اس بات کی ہیبت ہے کہ کہیں ان کے بارے میں کوئی ایسا حکم نازل نہ ہوگیا ہو جو ان کے خون کو حلال کر دے، یہی حقیقی دشمن ہیں ان سے بچو یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے راز کافروں پر ظاہر کردیتے ہیں اللہ انہیں غارت کرے کہاں پھرے جا رہے ہیں ؟ (یعنی) برہان قائم ہونے کے بعد ایمان سے کہاں پھرے جا رہے ہیں، جب ان سے کہا جاتا ہے معذرت کرتے ہوئے کہ آئو تمہارے لئے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) استغفار کریں، تو اپنے سر مٹکاتے ہیں (لووا) تشدید و تخفیف کے ساتھ، یعنی دوسروں کو گھماتے ہیں، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو دیکھیں گے کہ وہ اس سے اعراض کرتے ہیں۔ حال یہ کہ وہ تکبر کر رہے ہوتے ہیں، ان کے حق میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا استغفار کرنا اور نہ کرنا دونوں برابر ہیں ہمزہ استفہام کی وجہ سے ہمزہ وصل سے مستعفی ہوگیا، اللہ ان کو ہرگز معاف نہ کرے گا اللہ تعالیٰ ایسے نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیتا، یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے انصاری بھائیوں سے کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جو مہاجرین جمع ہیں ان پر کچھ خرچ مت کرو یہاں تک کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے منتشر ہوجائیں اور آسمانوں اور زمین کے رزق کے سب خزانے اللہ ہی کی ملک ہیں مہاجرین وغیرہ کا وہی رازق ہے لیکن یہ منافق سمجھتے نہیں ہیں، یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم غزوہ بنی مصطق سے لوٹ کر مدینہ پہنچ گئے تو عزت والا مراد اس سے انہوں نے خود کو لیا ہے ذات والے کو مراد اس سے مومنین کو لیا، مدینہ سے نکال دے گا (سنو) عزت والا مراد اس سے انہوں نے خود کو لیا ہے ذلت والے کو مراد اس سے مومنین کو لیا، مدینہ سے نکال دے گا (سنو) عزت غلبہ تو صرف اللہ کے لئے ہے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ہے اور مومنین کے لئے ہے لیکن یہ منافقین اس کو جانتے نہیں ہیں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : بعض نسخوں میں سورة المنافقین یاء کے ساتھ ہے
قولہ : شرط ہے اور قالو اشھد الح جواب شرط ہے بعض حضرات نے کہا ہے کہ جواب شرط محذوف ہے اور قالو المنافقون سے حال ہے، تقدیر عبارت یہ ہے اذا جاک المنافقون حال کو بھم قائلین کتب و کتب فلاتقبل منھم فلا تقبل منھم جواب شرط ہے۔
قولہ : شھدالک الرسول اللہ یہ جملہ قسم کے قائم مقام ہے یہی وجہ ہے کہ اس کے مابعد پر لام داخل ہے، گو وہ جواب قسم ہے اور شھد بمعنی نحلف ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ نشھد اپنی معنی ہی میں ہو اور مقصد اپنے اوپر سے نفاق کی تہمت کو دفع کرنا ہو۔
قولہ : کے درمیان جملہ معترضہ ہے۔
قولہ : جیم کے ضمہ کے ساتھ یعنی ڈھال، وقایہ جمع جنن
قولہ : باللسان بانھم امنوا کے بعد باللسان کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : منافقین کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ وہ ایمان لائے اس کے بعد کفر اختیار کیا حالانکہ وہ سرے سے ایمان ہی نہیں لائے تو پھر ثم کفروا کہنے کا کیا مقصد ہے ؟
جواب : جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ ثم ترتیب اخباری کے لئے ہے نہ کہ ترتیب ایجادی کے لئے مطلب یہ ہے کہ لسانی طور پر ایمان لائے اور قلوب سے کفر اختیار کیا، لہٰذا اب کوئی اشکال باقی نہیں رہا۔
قولہ :
سوال : تسمع کا صلہ لام نہیں آتا حالانکہ یہاں تسمع کا صلہ لام استعمال ہوا ہے۔
جواب : سمع تصفی کے معنی کو متضمن ہے جس کی وجہ سے تسمع کا صلہ لام لانا درست ہے۔
قولہ : اس میں دو وجہ ہیں اول یہ کہ یہ جملہ مستانفہ ہے دوسری یہ کہ مبتداء محذوف کی خبر ہے اور وہ ھم ہے
قولہ : یہ وجہ شبہ کا بیان ہے یعنی منافقوں کو ان لکڑیوں سے گشبیہ دی گئی ہے کہ جن کو دیوار سے لگا کر رکھ دیا گیا ہو منافقین جن میں راس المنافقین عبداللہ بن ابی بھی شامل ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں آکر دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھتے تھے جسم و جثہ کے اعتبار سے لحیم شحیم تھے اور شکل و صورت میں بھی شکیل و جمیل تھے مگر دین کی کچھ بھی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے تھے، یعنی جس طرح دیوار سے لگی لکڑی فی الوقت مفید و کار آمد نہیں ہوتی اسی طرح یہ لوگ بھی علم و نظر سے خالی تھے۔
قولہ : کا مفعول بہ اول ہے اور لیھم مفعول بہ ثانی ہے۔
قولہ : میں تنازع کررہے ہیں، تعالو مفعول چاہتا ہے اور یستغفر فاعل چاہتا ہے، بصرپین کے مذہب کے مطابق فعل ثانی کو عمل دیکر اول کے لئے مفعول محذوف مان لیا گیا ہے۔
قولہ : کا جواب ہے
قولہ : صیغہ جمع مذکر غائب فعل ماضی معروف باب تطعیل سے، مصدر نلوبتہ لی مادہ ہے گھمانا، مٹکانا وغیرہ وغیرہ۔
تفسیر و تشریح
سورة منافقون کے نزول کا مفصل واقعہ :
جو واقعہ اس سورت کے نزول کا سبب بنا، وہ غزوئہ مریسیع جس کو غزوئہ بنی مصطلق بھی کہتے ہیں کے موقع پر پیش آیا تھا، جو محمد بن اسحاق کی روایت کے مطابق شعبان 6 ھ میں اور قتادہ اور عروہ کی روایت کے مطابق 2 شعبان سن 5 ھ میں پیش آیا حافظ عسقلانی فرماتے ہیں کہ یہی قول زیادہ صحیح ہے اور دلیل اس کی یہ ہے کہ سعد بن معاذ (رض) کا اس غزوہ میں شریک ہونا صحیح بخاری میں مذکور ہے اور روایات صحیحہ اور احادیث معتبرہ سے یہ ثابت ہے کہ سعد بن معاذ (رض) نے غزوئہ خندق سے فارغ ہو کر غزوئہ بنی قریظہ کے زمانے میں وفات پائی جو سن 5 ھ میں ہوا ہے پس اگر غزوئہ مریسیع سن 6 ھ میں غزوئہ بنی قریظہ کے ایک سال بعد مانا جائے تو سعد بن معاذ (رض) کی اس میں شرکت کیسے ممکن ہوسکتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سن 5 ھ کی روایت صحیح ہے۔
غزوئہ مریسیع کا سبب :
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبر پہنچی کہ قبیلہ بنی مصطلق کے سردار حارث بن ابی ضرار نے مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے بہت سی فوج جمع کررکھی ہے اور حملہ آور ہونے کی تیاری میں ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس خبر کی تصدیق کے لئے بریدہ بن حصیب اسلمی (رض) کو روانہ فرمایا، بریدہ (رض) نے آکر خبر کی تصدیق کی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ (رض) کو خروج کا حکم دیا، صحابہ (رض) فورا تیار ہوگئے، تیس گھوڑے ہمراہ لئے جن میں سے دس مہاجرین کے اور بیس انصار کے تھے، اس مرتبہ مال غنیمت کی طمع میں منافقین کی بھی ایک بڑی تعداد ہمراہ ہوگئی تھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ میں زید بن حارثہ کو نائب مقرر فرمایا اور ازواج مطہرات میں سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) اور ام المومنین ام سلمہ (رض) کو ساتھ لیا اور 2 شعبان دو شنبہ سن 5 ھ کو مریسیع کی طرف روانہ ہوئے۔
مریسیع ایک چشمہ یا تالاب کا نام ہے، اسی مقام پر بنی مصطلق سے مقابلہ ہوا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیز رفتاری کے ساتھ چل کر اچانک ان پر حملہ کردیا اس وقت وہ لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے تھے، ان کے دس آدمی مقتول ہوئے اور باقی مرد عورت، بچے، بوڑھے سب گرفتار کر لئے گئے، دو ہزار اونٹ اور پانچ ہزار بکریاں مال غنیمت میں ہاتھ آئیں دو سو گھرانے قید ہوئے، انہیں قیدیوں میں بنی مصطلق کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی جویریہ بھی تھیں، مال غنیمت کی تقسیم کے نتیجے میں جویریہ ثابت بن قیس (رض) کے حصے میں آئیں ثابت بن قیس (رض) نے ان کو ایک بڑی رقم کے عوض مکاتبہ بنادیا۔
حضرت جویریہ (رض) بدل کتابت کے سلسلہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مالی تعاون کے لئے آئیں اور صورت حال بتاتے ہوئے عرض کیا کہ میں سردار بنی مصطلق حارث بن ابی ضرار کی بیٹی ہوں، میری اسیری کا حال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مخفی نہیں، میں تقسیم میں ثابت بن قیس کے حصہ میں آئی ہوں، انہوں نے مجھے مکاتبہ بنادیا ہے اب میں بدل کتابت میں آپ سے مدد کے لئے حاضر ہوئی ہوں۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا میں تم کو اس سے بہتر چیز بتلاتا ہوں اگر تم پسند کرو، وہ یہ کہ تمہاری طرف سے بدل کتابت کی رقم میں ادا کردوں اور آزاد کر کے تم کو اپنی زوجیت میں لے لوں، حضرت جویریہ (رض) نے فرمایا میں اس پر راضی ہوں۔
(سیرت المصطفی، رواہ ابو دائود)
ادھر جویریہ (رض) کے والد حارث بن ابی ضرار، عبد اللہ بن زیاد کی روایت کے مطابق بہت سے اونٹ لے کر مدینہ حاضر ہوئے تاکہ زر فدیہ دے کر اپنی بیٹی جویریہ (رض) کو آزاد کر لائیں، نہایت عمدہ قسم کے دو اونٹ جو نہایت پسندیدہ تھے ایک گھاٹی میں چھپا دیئے مدینہ پہنچ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور وہ اونٹ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اپنی بیٹی کے زر فدیہ کے طور پر پیش کئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا وہ دو اونٹ کہاں ہیں جو تم فلاں گھاٹی میں چھپا آئے ہو ؟ حارث نے کہا ؟ ” اشھد انک رسول اللہ “ میں گواہی دیتا ہوں بیشک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول ہیں، اللہ کے سوا اس کا کسی کو علم نہ تھا اللہ ہی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سے مطلع کردیا۔
الغرض آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جویریہ (رض) کو آزاد کر کے اپنی زوجیت میں لے لیا، صحابہ کرام (رض) کو جب یہ معلوم ہوا تو بنی مصطلق کے تمام قیدیوں کو آزاد کردیا کہ یہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دامادی رشتہ دار ہیں۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو سیرت المصطفیٰ )
ایک ناخوشگوار واقعہ۔
ابھی مسلمانوں کا لشکر چشمہ مریسیع پر ہی تھا کہ ایک خوشگوار واقعہ پیش آگیا، جو کہ پانی کے چشمے پر ایک مہاجر جن کا نام جہجاہ تھا اور ایک انصاری جن کا نام سنان بن وبرہ تھا کے درمیان پیش آیا تھا، صورت واقعہ کی یہ ہوئی کہ جہجاہ حضرت عمر (رض) کے ملازم تھے جو ان کے گھوڑے کی نگہداشت کرتے تھے، ان کے اور سنان کے درمیان پانی کے سلسلے میں چہ مہ گوئیاں ہوگئیں اور بات زیادہ بڑھ گئی حتیٰ کہ ہا تھا پائی کی نوبت آگئی جہجاہ مہاجری نے انصاری کے ایک طمانچہ یا لات مار دی، مہاجر نے اپنی مدد کے لئے مہاجرین کو انصاری نے اپنی مدد کے لئے انصار کو آواز دی، دونوں طرف سے کچھ لوگ جمع ہوگئے قریب تھا کہ باہم مسلمانوں میں ایک فتنہ کھڑا ہوجائے جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوراً موقع پر پہنچے اور سخت ناراضی کے ساتھ فرمایا ” ما بال دعوی الجاھلیۃ “ یہ جاہلیت کا نعرہ کیسا ہے ؟ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” دعوھا فانھا منتنۃ “ اس نعرہ کو چھوڑ دو یہ بدبودار نعرہ ہے، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہر مسلمان کو اپنے بھائی کی مدد کرنی چاہیے خواہ ظالم ہو یا مظلوم، مظلوم کی مدد کرنا تو ظاہر ہے، اور ظالم کی مدد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو ظلم سے روکے کیونکہ اس کی حقیقی مدد یہی ہے۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد سنتے ہی جھگڑا ختم ہوگیا، تحقیق سے زیادتی جہجاہ مہاجری کی ثابت ہوئی، عبادہ بن صامت (رض) کے سمجھانے سے سنان بن وبرہ نے اپنا حق معاف کردیا، اور دونوں جھگڑنے والے پھر آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔
عبد اللہ بن ابی کی شرارت :
جیسا کہ آپ پڑھ چکے ہیں کہ اس غزوہ میں مال غنیمت کی طمع میں بہت سے منافق اور خود عبد اللہ بن ابی ابن سلول بھی شریک ہوگیا تھا، عبد اللہ بن ابی نے موقع کو غنیمت سمجھا اور مسلمانوں میں نااتفاقی پیدا کرنے اور فتنہ برپا کرنے کی پوری کوشش کی، اور اپنی مجلس میں جس میں منافقین جمع تھے اور مومنین میں سے صرف زید بن ارقم (رض) موجود تھے اس وقت حضرت زید کم عمر تھے عبد اللہ بن ابی نے مجلس میں انصار کو مہاجرین کے خلاف بھڑکایا، اور کہنے لگا تم نے ان کو اپنے وطن میں بلا کر اپنے سروں پر مسلط کیا اپنے اموال اور جائداد ان کو تقسیم کر کے دے دیئے، یہ تمہاری ہی روٹیوں پر پلے ہوئے اب تمہارے ہی مقابلے پر آگئے ہیں اس کی مثال : سمن کلبک یا کلک ہے ” اگر تم نے اب بھی اپنے انجام کو نہ سمجھا تو آگے یہ تمہارا جینا مشکل کردیں گے “ اس لئے تمہیں چاہیے کہ آئندہ ان کی مالی مدد نہ کرو جس سے یہ خود منتشر ہوجائیں گے، اور اب تمہیں چاہیے کہ جب تم مدینہ پہنچ جائو تو عزت والا ذلت والوں کو نکال دے، اس نے عزت والے سے خود کو مراد لیا اور ذلت والوں سے مراد مسلمانوں کو لیا، حضرت زید بن ارقم (رض) نے جب اس کا یہ کلام سنا تو فوراً بول پڑے کہ واللہ تو ہی ذلیل و خوار و مبغوض ہے، عبد اللہ بن ابی کو جب محسوس ہوا کہ میرا نفاق ظاہر ہوجائے گا تو باتیں بنانے لگا اور حضرت زید (رض) سے کہنے لگا کہ میں نے تو یہ بات یوں ہی ہنسی مذاق میں کہہ دی تھی۔
حضرت زید بن ارقم عبد اللہ منافق کی مجلس سے اٹھ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پورا واقعہ سنایا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ خبر شاق گزری، زید بن ارقم (رض) کم عمر صحابی تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے لڑکے تم جھوٹ تو نہیں بول رہے ہو ؟ زید بن ارقم نے قسم کھا کر کہا کہ میں نے یہ الفاظ خود اپنے کانوں سے سنے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر فرمایا کہیں تم کو شبہ تو نہیں ہوگیا ؟ مگر زید نے پھر وہی جواب دیا، پھر اس بات کا پورے لشکر میں چرچا ہونے لگا۔
جب حضرت عمر (رض) کو عبد اللہ بن ابی کی گستاخی اور فتنہ پردازی کا علم ہوا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ! اجازت دیجئے کہ میں اس منافق کی گردن مار دوں۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے عمر ! اس کا انجام کیا ہوگا ؟ لوگوں میں یہ شہرت دی جائے گی کہ میں اپنے اصحاب (رض) کو قتل کردیتا ہوں ؟ اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبد اللہ منافق کے قتل سے عمر (رض) کو روک دیا، اس واقعہ کی خبر جب عبد اللہ بن ابی منافق کے صاحبزادے عبد اللہ بن عبد اللہ مومن کو ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارادہ اس گفتگو کے نتیجے میں میرے والد کو قتل کرنے کا ہے ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اجازت دیجئے میں اپنے باپ کا سر قبل اس کے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی مجلس سے اٹھیں آپ کی خدمت میں پیش کر دوں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرا ارادہ اس کو قتل کرنے کا نہیں ہے اور نہ میں نے کسی کو اس کا حکم دیا۔
اس واقعہ کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عام عادت کے خلاف بےوقت سفر کرنے کا اعلان عام فرما دیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار ہوگئے، جب عام صحابہ (رض) روانہ ہوگئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبد اللہ منافق کو بلایا اور دریافت فرمایا کہ کیا تم نے ایسا کہا ہے ؟ عبد اللہ منافق قسم کھا گیا کہ میں نے ایسا نہیں کہا یہ لڑکا زید بن ارقم (رض) جھوٹا ہے، جس کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبد اللہ منافق کا عذر قبول فرما لیا اور زید بن ارقم (رض) اپنی رسوائی کے سبب لوگوں سے چھپے رہنے لگے۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پورے دن اور پوری رات اپنی عادت کے برخلاف سفر کرتے رہے، جب دھوپ تیز ہوگئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک جگہ قافلہ کو ٹھہرنے کا حکم فرمایا، قافلہ مسلسل شب و روز چلنے کی وجہ سے چونکہ تھکا ہوا تھا فوراً منزل پر اترتے ہی محو خواب ہوگیا۔
ادھر زید بن ارقم (رض) بار بار آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب آتے تھے کیونکہ ان کو پورا یقین تھا کہ اس شخص عبد اللہ منافق نے مجھے پوری قوم میں جھوٹا ثابت کر کے رسوا کیا ہے اللہ تعالیٰ ضرور میری تصدیق اور اس شخص کی نکیر میں قرآن نازل فرمائے گا، اچانک زید بن ارقم (رض) نے دیکھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وہ کیفیت طاری ہوئی جو وحی کے وقت ہوتی تھی تو زید سمجھ گئے کہ اس بارے میں ضرور کوئی وحی نازل ہوئی ہوگی، جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ کیفیت رفع ہوئی تو زید بن ارقم (رض) ہی فرماتے ہیں کہ میری سواری چونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سواری کے قریب تھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی سواری ہی پر سے میرا کان پکڑا اور فرمایا، یا غلام ! صدق اللہ حدیثک اور پوری سورة المنافقون عبد اللہ بن ابی کے بارے میں نازل ہوئی۔ (معارف)
10 Tafsir as-Saadi
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے اور یہاں اسلام نہایت کثرت سے پھیل گیا اور اسے غلبہ حاصل ہوا تو اہل مدینہ، یعنی بنواوس اور بنو خزرج میں سے کچھ لوگ اسلام ظاہر کرنے اور باطن میں کفر رکھنے لگے تاکہ ان کا جاہ باقی، ان کی جان محفوط اور ان کا مال سلامت رہے ۔پس اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے ایسے اوصاف بیان فرمائے ہیں جن کے ذریعے سے وہ پہچانے جاتے ہیں تاکہ لوگ ان سے بچیں اور لوگوں کو ان کے بارے میں بصیرت حاصل ہو، چنانچہ فرمایا :﴿اِذَا جَاءَکَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا ﴾جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو جھوٹ بولتے ہوئے کہتے ہیں:﴿ نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللّٰـهِ﴾ ”ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔“ منافقین کی یہ گواہی جھوٹ اور نفاق پر مبنی ہے ،حالانکہ اللہ تعالیٰ کے رسول کی تائید کے لیے ان کی گواہی کی ضرورت ہی نہیں۔ ﴿وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُہٗ وَاللّٰہُ یَشْہَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَکٰذِبُوْنَ﴾ ”اور اللہ جانتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافق جھوتے ہیں ۔“وہ اپنے قول اور دعوے میں جھوٹے ہیں اور ان کے قول میں کوئی حقیقت نہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
jab munafiq log tumharay paas aatay hain to kehtay hain : hum gawahi detay hain kay aap Allah kay Rasool hain aur Allah janta hai kay aap waqaee uss kay Rasool hain , aur Allah ( yeh bhi ) gawahi deta hai kay yeh munafiq log jhootay hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
اللہ تعالیٰ منافقوں کے نفاق کو ظاہر کرتا ہے کہ گویہ تیرے پاس آ کر قسمیں کھا کھا کر اپنے اسلام کا اظہار کرتے ہیں تیری رسالت کا اقرار کرتے ہیں مگر درصال دل کے کھوٹے ہیں، فی الواقع آپ رسول اللہ بھی ہیں، ان کا یہ قول بھی ہے مگر چونکہ دل میں اس کا کوئی اثر نہیں، لہذا یہ جھوٹے ہیں۔ یہ تجھے رسول اللہ مانتے ہیں، اس بارے میں اگر یہ سچے ہونے کے لئے قسمیں بھی کھائیں لیکن آپ یقین نہ کیجئے۔ یہ قسمیں تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے یہ تو اپنے جھوٹ کو سچ بنانے کا ایک ذریعہ ہیں، مقصد یہ ہے کہ مسلمان ان سے ہوشیار ہیں کہیں انہیں سچا ایماندار سمجھ کر کسی بات میں ان کی تقلید نہ کرنے لگیں کہ یہ اسلام کے رنگ میں تم کو کفر کا ارتکاب کرا دیں، یہ بد اعمال لوگ اللہ کی راہ سے دور ہیں۔ ضحاک کی قرأت میں ابمانھم الف کی زیر کے ساتھ ہے تو مطلب یہ ہوگا کہ انہوں نے اپنی ظاہری تصدیق کو اپنے لئے تقیہ بنا لیا ہے کہ قتل سے اور حکم کفر سے دنیا میں بچ جائیں۔ یہ نفاق ان کے دلوں میں اس گناہ کی شومی کے باعث رچ گیا ہے کہ ایمان سے پھر کر کفر کی طرف اور ہدایت سے ہٹ کر ضلالت کی جانب آگئے ہیں، اب دلوں پر مہر الٰہی لگ چکی ہے اور بات کی تہہ کو پہنچنے کی قابلیت سلب ہوچکی ہے، بظاہر تو خوش رو خوش گو ہیں اس فصاحت اور بلاغت سے گفتگو کرتے ہیں کہ خواہ مخواہ دوسرے کے دل کو مائل کرلیں، لیکن باطن میں بڑے کھوٹے بڑے کمزور دل والے نامرد اور بدنیت ہیں، جہاں کوئی بھی واقعہ رونما ہوا اور سمجھ بیٹھے کہ ہائے مرے، اور جگہ ہے اشحتہ علیکم الخ تمہارے مقابلہ میں بخل کرتے ہیں، پھر جس وقت خوف ہوتا ہے تو تمہاری طرف اس طرح آنکھیں پھیر پھیر کر دیکھتے ہیں گویا کسی شخص پر موت کی بیہوشی طاری ہے، پھر جب خوف چلا جاتا ہے تو تمہیں اپنی بدکلامی سے ایذاء دیتے ہیں اور مال غنیمت کی حرص میں نہ کہنے کی باتیں کہہ گذرتے ہیں یہ بےایمان ہیں ان کے اعمال غارت ہیں اللہ پر یہ امر نہایت ہی آسان ہے، پس ان کی یہ آوازیں خالی پیٹ کے ڈھول کی بلند بانگ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتیں یہی تمہارے دشمن ہیں ان کی چکنی چپڑی باتوں اور ثقہ اور مسکین صورتوں کے دھوکے میں نہ آجانا، اللہ انہیں برباد کرے ذرا سوچیں تو کیوں ہدایت کو چھوڑ کر بےراہی پر چل رہے ہیں ؟ مسند احمد میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا منافقوں کی بہت سی علامتیں ہیں جن سے وہ پہچان لئے جاتے ہیں ان کا سلام لعنت ہے ان کی خوراک لوٹ مار ہے ان کی غنیمت حرام اور خیانت ہے وہ مسجدوں کی نزدیکی ناپسند کرتے ہیں وہ نمازوں کے لئے آخری وقت آتے ہیں تکبر اور نحوت والے ہوتے ہیں نرمی اور سلوک تواضع اور انکساری سے محروم ہوتے ہیں نہ خود ان کاموں کو کریں نہ دوسروں کے ان کاموں کو وقعت کی نگاہ سے دیکھیں رات کی لکڑیاں اور دن کے شور و غل کرنیوالے اور روایت میں ہے دن کو خوب کھانے پینے والے اور رات کو خشک لکڑیوں کی طرح پڑ رہنے والے۔