وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَـكُمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ لَـوَّوْا رُءُوْسَهُمْ وَرَاَيْتَهُمْ يَصُدُّوْنَ وَهُمْ مُّسْتَكْبِرُوْنَ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
اور جب اِن سے کہا جاتا ہے کہ آؤ تاکہ اللہ کا رسول تمہارے لیے مغفرت کی دعا کرے، تو سر جھٹکتے ہیں اور تم دیکھتے ہو کہ وہ بڑے گھمنڈ کے ساتھ آنے سے رکتے ہیں
English Sahih:
And when it is said to them, "Come, the Messenger of Allah will ask forgiveness for you," they turn their heads aside and you see them evading while they are arrogant.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
اور جب اِن سے کہا جاتا ہے کہ آؤ تاکہ اللہ کا رسول تمہارے لیے مغفرت کی دعا کرے، تو سر جھٹکتے ہیں اور تم دیکھتے ہو کہ وہ بڑے گھمنڈ کے ساتھ آنے سے رکتے ہیں
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اور جب ان سے کہا جائے کہ آؤ رسول اللہ تمہارے لیے معافی چاہیں تو اپنے سر گھماتے ہیں اور تم انہیں دیکھو کہ غور کرتے ہوئے منہ پھیر لیتے ہیں
احمد علی Ahmed Ali
اور جب ان سے کہا جائے کہ آؤ تمہارے لیے رسول الله مغفرت طلب کریں تو اپنے سر پھیر لیتے ہیں اور آپ انہیں دیکھیں گے کہ وہ رکتے ہیں ایسے حال میں کہ وہ تکبر کرنے والے ہیں
أحسن البيان Ahsanul Bayan
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ تمہارے لئے اللہ کے رسول استغفار کریں تو اپنے سر مٹکاتے ہیں (١) اور آپ دیکھیں گے کہ وہ تکبر کرتے ہوئے رک جاتے ہیں (٢)۔
٥۔١ یعنی استغفار سے اعراض کرتے ہوئے اپنے سروں کو موڑ لیتے ہیں۔
٥۔٢ یعنی کہنے والے کی بات سے منہ موڑ لیں گے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اعراض کرلیں گے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب ان سے کہا جائے کہ آؤ رسول خدا تمہارے لئے مغفرت مانگیں تو سر ہلا دیتے ہیں اور تم ان کو دیکھو کہ تکبر کرتے ہوئے منہ پھیر لیتے ہیں
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ تمہارے لیے اللہ کے رسول استغفار کریں تو اپنے سر مٹکاتے ہیں اور آپ دیکھیں گے کہ وه تکبر کرتے ہوئے رک جاتے ہیں
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اور جب ان سے کہاجائے کہ آؤ اللہ کا پیغمبر تمہارے لئے مغفرت طلب کرے تو وہ اپنا سر پھیر لیتے ہیں اور آپ انہیں دیکھیں گے کہ وہ تکبر کرتے ہو ئے (آنے سے) رک جاتے ہیں۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ رسول اللہ تمہارے حق میں استغفار کریں گے تو سر پھرا لیتے ہیں اور تم دیکھو گے کہ استکبار کی بنا پر منہ بھی موڑ لیتے ہیں
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ آؤ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے لئے مغفرت طلب فرمائیں تو یہ (منافق گستاخی سے) اپنے سر جھٹک کر پھیر لیتے ہیں اور آپ انہیں دیکھتے ہیں کہ وہ تکبر کرتے ہوئے (آپ کی خدمت میں آنے سے) گریز کرتے ہیں٭، ٭ یہ آیت عبد اللہ بن اُبیّ (رئیس المنافقین) کے بارے میں نازل ہوئی، جب اسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں بخشش طلبی کے لئے حاضر ہونے کا کہا گیا تو سر جھٹک کر کہنے لگا: میں نہیں جاتا، میں ایمان بھی لا چکا ہوں، ان کے کہنے پر زکوٰۃ بھی دے دی ہے۔ اب کیا باقی رہ گیا ہے فقط یہی کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجدہ بھی کروں؟ (الطبری، الکشاف، نسفی، بغوی، خازن)۔
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
منافقوں کی محرومی سعادت کے اسباب
ملعون منافقوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ ان کے گناہوں پر جب ان سے سچے مسلمان کہتے ہیں کہ آؤ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے لئے استغفار کریں گے تو اللہ تعالیٰ تمہاے گناہ معاف فرما دے گا تو یہ تکبر کے ساتھ سر ہلانے لگتے ہیں اور اعراض کرتے ہیں اور رک جاتے ہیں اور اس بات کو حقارت کے ساتھ رد کردیتے ہیں، اس کا بدلہ یہی ہے کہ اب ان کے لئے بخشش کے دروازے بند ہیں نبی کا استغفار بھی انہیں کچھ نفع نہ دے گا، بھلا ان فاسقوں کی قسمت میں ہدیات کہاں ؟ سورة براۃ میں بھی اسی مضمون کی آیت گذر چکی ہے اور وہیں اس کی تفسیر اور ساتھ ہی اس کے متعلق کی حدیثیں بھی باین کردی گئی ہیں، ابن ابی حاتم میں ہے کہ سفیان راوی نے اپنا منہ دائیں جانب پھیرلیا تھا اور غضب وتکبر کے ساتھ ترچھی آنکھ سے گھور کر دکھایا تھا اسی کا ذکر اس آیت میں ہے اور سلف میں سے اکثر حضرات کا فرمان ہے کہ یہ سب کا سب بیان عبداللہ بن ابی بن سلول کا ہے جیسے کہ عنقریب آ رہا ہے انشاء اللہ تعالیٰ سیرت محمد بن اسحاق میں ہے کہ عبداللہ بن ابی بن سلول اپنی قوم کا بڑا اور شریف شخص تھا جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے دن خطبہ کے لئے منبر پر بیٹھتے تھے تو یہ کھڑا ہوجاتا تھا اور کہتا تھا لوگو یہ ہیں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو تم میں موجود ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہارا کرام کیا اور تمہیں عزت دی اب تم پر فرض ہے کہ تم آپ کی مدد کرو اور آپ کی عزت و تکریم کرو آپ کا فرمان سنو اور جو فرمائیں بجا لاؤ یہ کہہ کر بیٹھ جایا کرتا تھا، احد کے میدان میں اس کا نفاق کھل گیا اور یہ وہاں سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کھلی نافرمانی کر کے تہائی لشکر کو لے کر مدینہ کو واپس لوٹ آیا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ احد سے فارغ ہوئے اور مدینہ میں مع لاخیر تشریف لائے جمعہ کا دن آیا اور آپ منبر پر چڑھے تو حسب عادت یہ آج بھی کھڑا ہوا اور کہنا چاہتا ہی تھا کہ بعض صحابہ ادھر ادھر سے کھڑے ہوگئے اور اس کے کپڑے پکڑ کر کہنے لگے دشمن اللہ بیٹھ جا تو اب یہ کہنے کا منہ نہیں رکھتا تو نے جو کچھ کیا وہ کسی سے مخفی نہیں اب تو اس کا اہل نہیں کہ زبان سے جو جی میں آئے بک دے، یہ ناراض ہو کر لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا باہر نکل گیا اور کہتا جاتا تھا کہ گویا میں کسی بدیات کے کہنے کے لئے کھڑا ہوا تھا میں تو اس کا کام اور مضبوط کرنے کے لئے کھڑا ہوا تھا جو چند اصحاب مجھ پر اچھل کر آگئے مجھے گھسیٹنے لگے اور ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگے گویا کہ میں کسی بڑی بات کے کہنے کے لئے کھڑا ہوا تھا حالانکہ میری نیت یہ تھی کہ میں آپ کی باتوں کی تائید کروں انہوں نے کہا خیر اب تم واپس چلو ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کریں گے آپ تمہارے لئے اللہ سے بخشش چاہیں گے اس نے کہا مجھے کوئی ضرورت نہیں، حضرت فتادہ اور حضرت سدی فرماتے ہیں یہ آیت عبداللہ بن ابی کے بارے میں اتری ہے واقعہ یہ تھا کہ اسی کی قوم کے ایک نوجوان مسلمان نے اس کی ایسی ہی چند بری باتیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنائی تھیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلوایا تو یہ صاف انکار کر گیا اور قسمیں کھا گیا، انصاریوں نے صحابی کو ملامت اور ڈانٹ ڈپٹ کی اور اسے جھوٹا سمجھا اس پر یہ آیتیں اتریں اور اس منافق کی جھوٹی قسموں اور اس نوجوان صحابی کی سچائی کا اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا اب اس سے کہا گیا کہ تو چل اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استغفار کرا تو اس نے انکار کے لہجے میں سر ہلا دیا اور نہ گیا، ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت مبارک تھی کہ جس منزل میں اترتے وہاں سے کوچ نہ کرتے جب تک نماز نہ پڑھ لیں، غزوہ تبوک میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر پہنچی کہ عبداللہ بن ابی کہہ رہا ہے کہ ہم عزت والے ان ذلت والوں کو مدینہ پہنچ کر نکال دیں گے پس آپ نے آخری دن میں اترنے سے پہلے ہی کوچ کردیا اسے کہا گیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جا کر اپنی خطا کی معافی اللہ سے طلب کر اس کا بیان اس آیت میں ہے، اس کی اسناد سعید بن جبیر تک صحیح ہے لیکن یہ کہنا کہ یہ واقعہ غزوہ تبوک کا ہے اس میں نظر ہے بلکہ یہ ٹھیک نہیں ہے اس لئے کہ عبداللہ بن ابی بن سلول تو اس غزوہ میں تھا ہی نہیں بلکہ لشکر کی ایک جماعت کو لے کر یہ تو لوٹ گیا تھا، کتب سیرو مغازی کے مصنفین میں تو یہ مشہور ہے کہ یہ واقعہ غزوہ مریسیع یعنی غزوہ بنو المصطلق کا ہے چناچہ اس قصہ میں حضرت ممد بن حییٰ بن حبان اور حضرت عبداللہ بن ابوبکر اور حضرت عاصم بن عمر بن قتادہ سے مروی ہے کہ اس لڑائی کے موقعہ پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک جگہ قیام تھا، وہاں حضرت جھجاہ بن سعید غفاری اور حضرت سنان بن یزید کا پانی کے ازدہام پر کچھ جھگڑا ہوگیا جھجاہ حضرت عمر کے کارندے تھے، جھگڑے نے طول پکڑا سنان نے انصاریوں کو اپنی مدد کے لئے آواز دی اور جھجاہ نے مہاجرین کو اس وقت حضرت زید بن ارقم وغیرہ انصاری کی ایک جماعت عبداللہ بن ابی کے پاس بیٹھی ہوئی تھی، اس نے جب یہ فریاد سنی تو کہنے لگا لو ہمارے ہی شہروں میں ان لوگوں نے ہم پر حملے شروع کردیئے اللہ کی قسم ہماری اور ان قریشویں کی مثال وہی ہے جو کسی نے کہا ہے کہ اپنے کتے کو مٹا تازہ کرتا کہ تجھے ہی کاٹے اللہ کی قسم اگر ہم لوٹ کر مدینہ گئے تو ہم ذی مقدور لوگ ان بےمقدروں کو وہاں سے نکال دیں گے پھر اس کی قوم کے جو لوگ اس کے پاس بیٹھے تھے ان سے کہنے لگا یہ سب آفت تم نے خود اپنے ہاتھوں اپنے اوپر لی ہے تم نے انہیں اپنے شہر میں بسایا تم نے انہیں اپنے مال آدھوں آدھ حصہ دیا اب بھی اگر تم ان کی مالی امداد نہ کرو تو یہ خود تنگ آ کر مدینہ سے نکل بھاگیں گے حضرت زید بن ارقم (رض) نے یہ تمام باتیں سنیں آپ اس وقت بہت کم عمر تھے سیدھے سرکار نبوت میں حاضر ہوئے اور کل واقعہ بیان فرمایا اس وقت آپ کے پاسح ضرت عمر بن خطاب (رض) بھی بیٹیھ ہوئے تھے غضبناک ہو کر فرمانے لگے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عباد بن بشیر کو حکم فرمایئے کہ اس کی گردن الگ کر دے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر تو لوگوں میں یہ مشہور ہوجائے گا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ساتھیوں کی گردنیں مارتے ہیں یہ ٹھیک نہیں جاؤ لوگوں میں کوچ کی منادی کردو، عبداللہ بن ابی کو جب یہ معلوم ہوا کہ اس کی گفتگو کا علم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہوگیا تو بہت سٹ پٹایا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عذر معذرت اور حیلے حوالے تاویل اور تحریف کرنے لگا اور قسمیں کھا گیا کہ میں نے ایسا ہرگز نہیں کہا، چونکہ یہ شخص اپنی قوم میں ذی عزت اور باوقعت تھا اور لوگ بھی کہنے لگے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شاید اس بچے نے ہی غلطی کیہ و اسے وہم ہوگیا ہو واقعہ ثابت تو ہوتا نہیں، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہاں سے جلدی ہی کوچ کے وقت سے پہلے ہی تشریف لے چلے راستے میں حضرت اسید بن نضیر (رض) ملے اور آپ کی شان نبوت کے قابل با ادب سلام کیا پھر عرض کی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آج کیا بات ہے کہ وقت سے پہلے ہی جناب نے کوچ کیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تمہیں ملوم نہیں کہ تمہارے ساتھی ابن ابی نے کیا کہا وہ کہتا ہے کہ مدینہ جا کر ہم عزیز ان ذلیلوں کو نکال دیں گے حضرت اسید نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عزت والے آپ ہیں اور ذلیل وہ ہے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اس کی ان باتوں کا خیال بھی نہ فرمایئے دراصل یہ بہت جلا ہوا ہے سنئے اہل مدینہ نے اسے سردار بنانے پر اتفاق کرلیا تھا تاج تیار ہو رہا تھا کہ اللہ رب اعلزت آپ کو لایا اس کے ہاتھ سے ملک نکل گیا پس یہ چراغ پا ہو رہا ہے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چلتے رہے، دوپہر کو ہی چل دیئے تھے شام ہوئی رات ہوئی صبح ہوئی یہاں تک کہ دھوپ میں تیزی آگئی تب آپ نے پڑاؤ کیا تاکہ لوگ اس بات میں پھر نہ الجھ جائیں، چونکہ تمام لوگ تھکے ہارے اور رات کے جاگے ہوئے تھے اترتے ہی سب سو گئے ادھر یہ سورت نازل ہوئی (سیرۃ ابن اسحاق) بیہقی میں ہے کہ ہم ایک غزوے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے ایک مہاجر نے ایک انصار کو پتھر مار دیا اس پر بات بڑھ گئی اور دونوں نے اپنی اپنی جماعت سے فریاد کی اور انہیں پکارا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سخت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے یہ کیا جاہلیت کی ہانک لگانے لگے اس فضول خراب عادت کو چھوڑو، عبداللہ بن ابی بن سلول کہنے لگا اب مہاجر یہ کرنے لگ گئے اللہ کی قسم مدینہ پہنچتے ہی ہم ذی عزت ان ذلیلوں کو وہاں سے نکال باہر کریں گے، اس وقت مدینہ شریف میں انصار کی تعداد مہاجرین سے بہت زیادہ تھی گو بعد میں مہاجرین بہت زیادہ ہوگئے تھے، حضرت عمر کو جب ابن ابی کے اس قول کا علم ہوا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے قتل کرنے کی اجازت چاہی مگر آپ نے روک دیا، مسند احمد میں حضرت زید بن ارقم سے مروی ہے کہ غزوہ تبوک میں میں نے جب اس منافق کا یہ قول حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بیان کیا اور اس نے آ کر انکار کیا اور قسمیں کھا گیا اس وقت میری قوم نے مجھے بہت کچھ برا کہا اور ہر طرح ملامت کی کہ میں نے ایسا کیوں کیا ؟ میں نہایت غمگین دل ہو کر وہاں سے چل دیا اور سخت رنج و غم میں تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے یاد فرمایا اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے تیرا عذر نازل فرمایا ہے اور تیری سچائی ظاہر کی ہے اور یہ آیت اتری ھم الذین الخ یہ حدیث اور بھی بہت سی کتابوں میں ہے، مسند احمد میں ہے حضرت زید بن ارقم کا یہ بیان اس طرح ہے کہ میں اسے چچا کے ساتھ ایک غزوے میں تھا اور میں نے عبداللہ بن ابی کی یہ دونوں باتیں سنیں میں نے اپنے چچا سے بیان کیں اور میرے چچا نے حضور سے عرض کیں جب آپ نے اسے بلایا اس نے انکار کیا اور قسمیں کھا گیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے سچا اور مجھے جھوٹا جانا میرے چچا نے بھی مجھے برا بھلا کہا مجھے اس قدر غم اور ندامت ہوئی کہ میں نے گھر سے باہر نکلنا چھوڑ دیا یہاں تک کہ یہ سورت اتری اور آپ نے میری تصدیق کی اور مجھے یہ پڑھ سنائی۔ مسند کی اور روایت میں ہے کہ ایک سفر کے موقعہ پر جب صحابہ کو تنگی پہنچی تو اس نے انہیں کچھ دینے کی ممانعت کردی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب انہیں اس لئے بلوایا کہ آپ ان کے لئے استغفار کریں تو انہوں نے اس سے بھی منہ پھیرلیا، قرآن ریم نے انہیں ٹیک لگائی ہوئی لکڑیاں اس لئے کہا ہے کہ یہ لوگ اچھے جمیل جسم والے تھے، ترمذی وغیرہ میں حضرت زید بن ارقم (رض) سے روایت ہے کہ ہم ایک غزوے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نکلے ہمارے ساتھ کچھ اعراب لوگ بھی تھے پانی کی جگہ وہ پہلے پہنچنا چاہتے تھے اسی طرح ہم بھی اسی کی کوشش میں رہتے تھے ایک مرتبہ ایک اعرابی نے جا کر پانی پر بضہ کر کے حوض پر کرلیا اور اس کے اردگرد پتھر رکھ دیئے اور اوپر سے چمڑا پھیلا دیا ایک انصاری نے آ کر اس حوض میں سے اپنے اونٹ کو پانی پلانا چاہا اس نے روکا انصاری نے پلانے پر زور دیا اس نے ایک لکڑی اٹھا کر انصاری کے سر پر ماری جس سے اس کا سر زخمی ہوگیا۔ یہ چونکہ عبداللہ بن ابی کا ساتھی تھا سیدھا اس کے پاس آیا اور تمام ماجرا کہہ سنایا عبداللہ بہت بگڑا اور کہنے لگا ان اعرابیوں کو کچھ نہ دو یہ خود بھوکے مرتے بھاگ جائیں گے، یہ اعربای کھانے کے قوت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آجاتے تھے اور کھالیا کرتے تھے تو عبداللہ بن ابی نے کہا تم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کھانا لے کر ایسے وقت جاؤ جب یہ لوگ نہ ہوں آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھالیں گے یہ رہ جائیں گے یونہی بھوکوں مرتے بھاگ جائیں گے اور اب ہم مدینہ جا کر ان کمینوں کو نکال باہر کریں گے، میں اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ردیف تھا اور میں نے یہ سب سنا اپنے چچا سے ذکر کیا چچا نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کیا آپ نے اسے بلوایا یہ انکار کر گیا اور حلف اٹھا لیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے سچا سمجھا اور مجھے جھوٹا قرار دیا میرے چچا میرے پاس آئے اور کہا تم نے یہ کیا حرکت کی ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تجھ پر ناراض ہوگئے اور تجھے جھوٹا جانا اور دیگر مسلمانوں نے بھی تجھے جھوٹا سمجھا مجھ پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا سخت غم واندوہ کی حالت میں سر جھکائے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جا رہا تھا تھوڑی ہی دیر گذری ہوگی کہ آپ میرے پاس آئے، میرا کان پکڑا، جب میں نے سر اٹھا کر آپ کی طرف دیکھا تو آپ مسکرائے اور چل دیئے، اللہ کی قسم مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ بیان سے باہر ہے اگر دنیا کی ابدی زندگی مجھے مل جاتی جب بھی میں اتنا خوش نہ ہوسکتا تھا پھر حضرت صدیق اکبر (رض) میرے پاس آئے اور پوچھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تم سے کیا کہا ؟ میں نے کہا ؟ فرمایا تو کچھ بھی نہیں مسکراتے ہوئے تشریف لے گئے، آپ نے فرمایا بس پھر خوش ہو، آپ کے بعد ہی حضرت عمر فاروق (رض) تشریف لائے ہی سوال مجھ سے کیا اور میں نے یہی جواب دیا صبح کو سورة منافقون نازل ہوئی۔ دوسری روایت میں اس سورت کا منھا الذل تک پڑھنا بھی مروی ہے، عبداللہ بن لہیعہ اور موسیٰ بن عقبہ نے بھی اسی حدیث کو مغازی میں بیان کیا ہے لیکن ان دونوں کی روایت میں خبر پہنچانے والے کا نام اوس بن اقرم ہے جو قبیلہ بنو حارث بن خزرج میں سے تھے، ممن ہے کہ حضرت زید بن ارقم نے بھی خبر پہنچائی ہو اور حضرت اوس نے بھی اور یہ بھی ممکن ہے کہ راوی سے نام میں غلطیہو گئی ہو واللہ اعلم، ابنابی حاتم میں ہے کہ یہ واقعہ غزوہ مریسیع کا ہے یہ وہ غزوہ ہے جس میں حضرت خالد (رض) کو بھیج کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مناۃ بت کو تڑوایا تھا جو قفا مثل اور سمندر کے درمیان تھا، اسی غزوہ میں دو شخصوں کے درمیان جھگڑا ہوگیا تھا ایک مہاجر تھا دوسرا قبیلہ بہز کا تھا اور قبیل بہز انصاریوں کا حلیف تھا بہزی نے انصاریوں کو اور مہاجر نے مہاجرین کو آواز دی کچھ لوگ دونوں طرف کھڑے ہوگئے اور جھگڑا ہنے لگا جب ختم ہوا تو منافق اور بیمار دل لوگ عبداللہ بن اب کے پاس جمع ہوئے اور کہنے لگے ہمیں تو تم سے بہت کچھ امیدیں تھیں تم ہمارے دشمنوں سے ہمارا بچاؤ تھے اب تو بیکار ہوگئے ہو، نفع کا خیال نہ نقصان کا تم نے ہی ان جلالیبکو اتنا چڑھا دیا کہ بات بات پر یہ ہم پر چڑھ دوڑیں، نئے مہاجرین کو یہ لوگ جلالیب کہتے تھے، اس دشمن اللہ نے جواب دیا کہ اب مدینے پہنچتے ہی ان سب کو وہاں سے دیس نکالا دیں گے، مالک بن وخشن جو منافق تھا اس نے کہا میں تو تمہیں پہلے ہی سے کہتا ہوں کہ ان لوگوں کے ساتھ سلوک کرنا چھوڑ دو خودبخود منتشر ہوجائیں گے یہ باتیں حضرت عمر (رض) نے سن لیں اور خدمت نبوی میں آ کر عرض کرنے لگے کہ اس بانی فتنہ عبداللہ بن ابی کا قصہ پاک کرنے کی مجھے اجازت دیجئے آپ نے فرمایا اچھا اگر اجازت دوں تو کیا تم اسے قتل کر ڈالو گے ؟ حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی قسم ابھی اپنے ہاتھ سے اس کی گردن ماروں گا، آپ نے فرمایا اچھا بیٹھ جاؤ اتنے میں حضرت اسید بن حفیر بھی یہی کہتے ہوئے آپ نے ان سے بھی یہی پوچھا اور انہوں نے بھی یہی جواب دیا آپ نے انہیں بھی بٹھا لیا، پھر تھوڑی دیر گذری ہوگی کہ کوچ کرنے کا حکم دیا اور وقت سے پہلے ہی لشکر نے کوچ کیا، وہ دن رات دوسری صبح برابر چلتے ہی رہے جب دھوپ میں تیزی آگئی، اترنے کو فرمایا، پھر دوپہر ڈھلتے ہی جلدی سے کوچ کیا اور اسی طرح چلتے رہے تیسرے دن صبح کو قفا مثل سے مدینہ شریف پہنچ گئے، حضرت عمر کو بلوایا ان سے پوچھا کہ کیا میں اس کے قتل کا تجھے حکم دیتا تو تو اسے مار ڈالتا ؟ " حضرت عمر نے عرض کیا یقیناً میں اس کا سرتن سے جدا کردیتا۔ آپ نے فرمایا اگر تو اسے اس دن قتل کر ڈالات تو بہت سے لوگوں کے ناک خاک آلودہ ہوجاتے میں اگر انہیں کہتا تو وہ بھی اسے مار ڈالنے میں تامل نہ کرتے پھر لوگوں کو باتیں بنانے کا موقعہ ملتا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ساتھیوں کو بھی بےدردی کے ساتھ مار ڈالتا ہے اسی واقعہ کا بیان ان آیتوں میں ہے، یہ سیاق بہت غریب ہے اور اس میں بہت سی ایسی عمدہ باتیں ہیں جو دوسری روایتوں میں نہیں، سیرۃ محمد بن اسحاق میں ہے کہ عبداللہ بن ابی منافق کے بیٹے حضرت عبداللہ (رض) جو پکے سچے مسلمان تھے اس واقعہ کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور گذارش کی کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے سنا ہے کہ میرے باپ نے جو بکواس کی ہے اس کے بدلے آپ اسے قتل کرنا چاہتے ہیں اگر یونہی ہے تو اس کے قتل کا حکم آپ کسی اور کو نہ کیجئے میں خود جاتا ہوں اور ابھی اس کا سر آپ کے قدموں تلے ڈالتا ہوں، قسم اللہ کی قبیلہ خزرج کا ایک ایک شخص جانتا ہے کہ مجھ سے زیادہ کوئی بیٹا اپنے باپ سے احسان و سلوک اور محبت و عزت کرنے والا نہیں (لیکن میں نے فرمان رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنے پیارے باپ کی گردن مارنے کو تیار ہوں) اگر آپ نے کسی اور کو یہ حکم دیا اور اس نے اسے مارا تو مجھے ڈر ہے کہ کیں جوش انتقام میں میں اسے نہ مار بیٹھوں اور ظاہر ہے کہ اگر یہ حرکت مجھ سے ہوگئی تو میں ایک کافر کے بدلے ایک مسلمان کو مار کر جہنمی بن جاؤں گا آپ میرے باپ کے قتل کا حکم دیجئے آپ نے فرمایا نہیں نہیں میں اسے قتل کرنا نہیں چاہتا ہم تو اس سے اور نرمی برتیں گے اور اس کے ساتھ حسن سلوک کریں گے جب تک وہ ہمارے ساتھ ہے، حضرت عکرمہ اور حضرت ابنزید کا بیان ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے لشکروں سمیت مدینے پہنچے تو اس منافق عبداللہ بن ابی کے لڑکے حضرت عبداللہ (رض) دینہ شریف کے دروازے پر کھڑے ہوگئے تلوار کھینچ لی لوگ مدینہ میں داخل ہونے لگے یہاں تک کہ ان کا باپ آیا تو یہ فرمانے لگے پرے رہو، مدینہ میں نہ جاؤ اس نے کہا کیا بات ہے ؟ مجھے کیوں روک رہا ہے ؟ حضرت عبداللہ نے فرمایا تو مدینہ میں نہیں جاسکتا جب تک کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیرے لئے اجازت نہ دیں، عزت والے آپ ہی ہیں اور تو ذلیل ہے، یہ رک کر کھڑا ہوگیا یہاں تک کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے آپ کی عادت مبارک تھی کہ لشکر کے آخری حصہ میں ہوتے تھے آپ کو دیکھ کر اس مناق نے اپنے بیٹے کی شکایت کی آپ نے ان سے پوچھا کہ اسے کیوں روک رکھا ہے ؟ انہوں نے کہا قسم ہے اللہ کی جب تک آپ کی اجازت نہ ہو یہ اندر نہیں جاسکتا چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اجازت دی اب حضرت عبداللہ نے اپنے باپ کو شہر میں داخل ہونے دیا، مسند حمیدی میں ہے کہ آپ نے اپنے والد سے کہا جب تک تو اپنی زبان سے یہ نہ کہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عزت والے اور میں ذلیل تو مدینہ میں نہیں جاسکتا اور اس سے پہلے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے باپ کی ہیبت کی وجہ سے میں نے آج تک نگاہ اونچی کر کے ان کے چہرے کو بھی نہیں دیکھا لیکن آپ اگر اس پر ناراض ہیں تو مجھے حکم دیجئے ابھی اس کی گردن حاضر کرتا ہوں کسی اور کو اس کے قتل کا حکم نہ دیجئے ایسا نہ ہو کہ میں اپنے باپ کے قتل کو اپنی آنکھوں سے چلتا پھرتا نہ دیکھ سکوں۔