اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)،
English Sahih:
And indeed, you are of a great moral character.
1 Abul A'ala Maududi
اور بیشک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک تمہاری خُو بُو (خُلق) بڑی شان کی ہے
3 Ahmed Ali
اور بے شک آپ تو بڑے ہی خوش خلق ہیں
4 Ahsanul Bayan
اور بیشک تو بہت بڑے (عمدہ) اخلاق پر ہے۔ (۱)
٤۔۱خلق عظیم سے مراد اسلام، دین یا قرآن ہے مطلب ہے کہ تو اس خلق پر ہے جس کا حکم اللہ نے تجھے قرآن میں یا دین میں دیا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور اخلاق تمہارے بہت (عالی) ہیں
6 Muhammad Junagarhi
اور بیشک تو بہت بڑے (عمده) اخلاق پر ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور بےشک آپ(ص) خلقِ عظیم کے مالک ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور آپ بلند ترین اخلاق کے درجہ پر ہیں
9 Tafsir Jalalayn
اور تمہارے اخلاق بہت (عالی) ہیں وانک لعلی خلق عظیم، خلق عظیم سے مراد اسلام، دین یا قرآن ہے، مطلب یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو اس خلق پر ہیں کہ جس کا حکم اللہ نے قرآن میں دیا ہے، یا اس سے مراد تہذیب و شائستگی نرمی و شفقت، امانت و صداقت، حلم و کرم اور دیگر اخلاقی خوبیاں ہیں، جن میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبوت سے پہلے بھی ممتاز تھے اور نبوت کے بعد ان میں مزید اور وسعت آئی، اسی لئے جب حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلق کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا کان خلقہ القرآن (صحیح مسلم) بلند اخلاقی اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ کفار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر دیوانگی اور جنون کی جو تہمت رکھ رہے ہیں وہ سراسر جھوٹی ہے کیونکہ اخلاق کی بلندی اور دیوانگی دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتیں، دیوانہ وہ شخص ہوتا ہے جس کا ذہنی توازن بگڑا ہوا ہو، اس کے برعکس آدمی کے بلند اخلاق اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ وہ نہایت صحیح الدماغ اور سلیم الفطرت ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اخلاق سے اہل مکہ ناواقف نہیں تھے، اس لئے ان کی طرف محض اشارہ کردینا ہی اس بات کے لئے کافی تھا کہ مکہ کا ہر معقول آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے کہ وہ لوگ کس قدر بےشرم ہیں جو ایسے بلند اخلاق آدمی کو مجنون کہہ رہے ہیں، ان کی یہ بےہودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ دماغی توازن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نہیں بلکہ ان لوگوں کا خراب ہے جو مخالفت کے جوش میں پاگل ہو کر پاگلوں والی باتیں کرتے ہیں، یہی معاملہ ان مدعیان علم و تحقق کا بھی ہے جو اس زمانہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مرگی اور جنون کی تہمت رکھتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اخلاق کے سلسلہ میں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کا یہ قول ” کان خلقہٗ القرآن “ قرآن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اخلاق تھا، کا معنی یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دنیا کے سامنے محض قرآن کی تعلیم ہی پیش نہیں فرمائی بلکہ خود اس کا مجسم نمونہ بن کر دکھایا تھا، ایک اور روایت میں حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی کسی خادم کو نہیں مارا اور نہ کبھی عورت پر ہاتھ اٹھایا، جہاد فی سبیل اللہ کے سوا کبھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا، اپنی ذات کے لئے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا، حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے دس سال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت کی ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی میری کسی بات پر اف تک نہ کی، کبھی میرے کام پر یہ نہ فرمایا کہ تو نے یہ کیوں کیا ؟ اور کبھی کسی کام کے نہ کرنے پر یہ نہیں فرمایا کہ تو نے یہ کیوں نہ کیا ؟ (بخاری مسلم)