کیا ان کے پاس علمِ غیب ہے کہ وہ (اس کی بنیاد پر اپنے فیصلے) لکھتے ہیں،
English Sahih:
Or have they [knowledge of] the unseen, so they write [it] down?
1 Abul A'ala Maududi
کیا اِن کے پاس غیب کا علم ہے جسے یہ لکھ رہے ہوں؟
2 Ahmed Raza Khan
یا ان کے پاس غیب ہے کہ وہ لکھ رہے ہیں
3 Ahmed Ali
یا ان کے پاس غیب کی خبر ہے کہ وہ اسے لکھ لیتے ہیں
4 Ahsanul Bayan
ان کے پاس علم غیب ہے جسے وہ لکھتے ہوں۔ (۱)
٤۷۔۱یعنی کیا غیب کا علم ان کے پاس ہے لوح محفوظ ان کے تصرف میں ہے کہ اس میں سے جو بات چاہتے ہیں نقل کر لیتے ہیں اس لیے یہ تیری اطاعت اختیار کرنے اور تجھ پر ایمان لانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
یا ان کے پاس غیب کی خبر ہے کہ (اسے) لکھتے جاتے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
یا کیا ان کے پاس علم غیب ہے جسے وه لکھتے ہوں
7 Muhammad Hussain Najafi
یا کیا ان کے پاس غیب ہے سو جسے وہ لکھ رہے ہیں؟
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یا ان کے پاس کوئی غیب ہے جسے یہ لکھ رہے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
یا ان کے پاس غیب کی خبر ہے کہ (اس سے) لپٹے جاتے ہیں ؟
10 Tafsir as-Saadi
﴿ أَمْ عِندَهُمُ الْغَيْبُ فَهُمْ يَكْتُبُونَ ﴾ ان کے پاس غیب کا علم نہیں کہ وہ اس بات کو پاچکے ہوں کہ وہ حق پر ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ثواب سے بہرہ ور ہوں گے، یہ معاملہ جیسا بھی ہے ،ان کا حال تو ایک معاند اور ظالم کا سا ہے ،پس اس کے سوا کچھ باقی نہیں کہ ان کی ایذا رسانیوں پر صبر کیا جائے اور جو کچھ ان سے صادر ہو رہا ہے اس پر تحمل کا مظاہرہ کیا جائے اور ان کو بار بار دعوت دی جائے۔ اس لیے فرمایا : ﴿ فَاصْبِرْ لِحُكْمِ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے شرعا اور قدرا جوفیصلہ کیا ہے اس پر صبر کیجئے ۔ حکم قدری یہ ہے کہ ایذا پر صبر کیا جائے ،اور ناراضی اور بے صبری کے ساتھ ان کا سامنا نہ کیا جائے ،حکم شرعی کو قبول کیا جائے ، اس کے سامنے سرتسلیم خم کیا جائے اور اس کے امر کی اطاعت کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَلَا تَكُن كَصَاحِبِ الْحُوتِ ﴾ ” اور مچھلی والے کی طرح نہ ہونا“ اور وہ ہیں یونس بن متی علیہ السلام یعنی اس حال میں حضرت یونس علیہ السلام کی مشابہت اختیار نہ کیجئے جو حال مچھلی کے پیٹ میں ان کے محبوس ہونے کا باعث بنا اور وہ ہے اپنی قوم پر ان کا عدم صبر جو آپ سے مطلوب تھا اور اپنے رب سے ناراض ہو کر جانا حتیٰ کہ آپ کشتی میں سوار ہوئے، جب کشتی بوجھل ہوگئی تو کشتی والوں نے آپس میں قرعہ اندازی کی کہ کشتی کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے ان میں سے کسی کو سمندر کے اندر پھینکا جائے۔ پس حضرت یونس علیہ السلام کے نام پر قرعہ پڑا ﴿ فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ وَهُوَ مُلِيمٌ ﴾( الصافات :37؍142) ” پس ان کو مچھلی نے نگل لیا اور وہ قابل ملامت کام کرنے والے تھے۔ “ ﴿ إِذْ نَادَىٰ وَهُوَ مَكْظُومٌ ﴾ یعنی انہوں نے پکارا جبکہ وہ مچھلی کے پیٹ میں تھے اور ان پر دروازہ بند کردیا گیا تھا یا یہ کہ انہوں نے پکارا اور وہ ہم وغم سے لبریز تھے، چنانچہ کہا:﴿ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴾( الانبیاء :21؍87) ” تیرے سوا کوئی معبود نہیں ،تو پاک ہے ، بے شک میں ہی ظالموں میں سے ہوں۔ “ اللہ تعالیٰ نے یونس علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی، چنانچہ مچھلی نے انہیں، جب کہ وہ بیمار تھے ، چٹیل میدان میں ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر کدو کی بیل اگا دی ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا : ﴿ لَّوْلَا أَن تَدَارَكَهُ نِعْمَةٌ مِّن رَّبِّهِ لَنُبِذَ بِالْعَرَاءِ ﴾۔ ” اگر اس کے رب کی مہربانی ان کی یاوری نہ کرتی تو وہ چٹیل میدان میں ڈال دیے جاتے۔“ یعنی انہیں چٹیل میدان میں ُپھینک دیا جاتا ( لْعَرَاءِ ) سے مراد(ہر قسم کی نباتات سے) خالی زمین ہے۔ ﴿ وَهُوَ مَذْمُومٌ ﴾۔” اور وہ برے حال میں ہوتے۔“ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی رحمت سے ڈھانپ دیا، ان کو اس حال میں پھینک دیا گیا کہ وہ ممدوح تھے اور ان کی یہ حالت پہلی حالت سے بہتر ہوگئی۔
11 Mufti Taqi Usmani
ya unn kay paas ghaib ka ilm hai jissay woh likh rahey hun-?