اور موسٰی (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے ستر مَردوں کو ہمارے مقرر کردہ وقت (پر ہمارے حضور معذرت کی پیشی) کے لئے چن لیا، پھر جب انہیں (قوم کو برائی سے منع نہ کرنے پر تادیباً) شدید زلزلہ نے آپکڑا تو (موسٰی علیہ السلام نے) عرض کیا: اے رب! اگر تو چاہتا تو اس سے پہلے ہی ان لوگوں کو اور مجھے ہلاک فرما دیتا، کیا تو ہمیں اس (خطا) کے سبب ہلاک فرمائے گا جو ہم میں سے بیوقوف لوگوں نے انجام دی ہے، یہ تو محض تیری آزمائش ہے، اس کے ذریعے تو جسے چاہتا ہے گمراہ فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت فرماتا ہے۔ تو ہی ہمارا کارساز ہے، سو ُتو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے،
English Sahih:
And Moses chose from his people seventy men for Our appointment. And when the earthquake seized them, he said, "My Lord, if You had willed, You could have destroyed them before and me [as well]. Would You destroy us for what the foolish among us have done? This is not but Your trial by which You send astray whom You will and guide whom You will. You are our Protector, so forgive us and have mercy upon us; and You are the best of forgivers.
1 Abul A'ala Maududi
اور اُس نے اپنی قوم کے ستر آدمیوں کو منتخب کیا تاکہ وہ (اُس کے ساتھ) ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر حاضر ہوں جب اِن لوگوں کو ایک سخت زلزلے نے آ پکڑا تو موسیٰؑ نے عرض کیا "اے میرے سرکار، آپ چاہتے تو پہلے ہی اِن کو اور مجھے ہلاک کرسکتے تھے کیا آپ اُس قصور میں جو ہم میں سے چند نادانوں نے کیا تھا ہم سب کو ہلاک کر دیں گے؟ یہ تو آپ کی ڈالی ہوئی ایک آزمائش تھی جس کے ذریعہ سے آپ جسے چاہتے ہیں گمراہی میں مبتلا کر دیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں ہدایت بخش دیتے ہیں ہمارے سر پرست تو آپ ہی ہیں پس ہمیں معاف کر دیجیے اور ہم پر رحم فرمائیے، آپ سب سے بڑھ کر معاف فرمانے والے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
اور موسیٰ نے اپنی قوم سے سترّ ۷۰، مرد ہمارے وعدہ کے لیے چنے پھر جب انہیں زلزلہ نے لیا موسیٰ نے عرض کی اے رب میرے! تو چاہتا تو پہلے ہی انہیں اور مجھے ہلاک کردیتا کیا تو ہمیں اس کام پر ہلاک فرمائے گا جو ہمارے بے عقلوں نے کیا وہ نہیں مگر تیرا آزمانا، تو اس سے بہکائے جسے چاہے اور راہ دکھائے جسے چاہے تو ہمارا مولیٰ ہے تو ہمیں بخش دے اور ہم پر مہر کر اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے،
3 Ahmed Ali
اور موسیٰ نے اپنی قوم میں سے ستر مرد ہمارے وعدہ گا ہ پر لانے کے لیے چن لیے پھر جب انہیں زلزلہ نے پکڑ ا تو کہا اے میرے رب اگر تو چاہتا تو پہلے ہی انہیں ہلاک کر دیتا کیا تو ہمیں اس کام پر ہلاک کرتا ہے جو ہماری قوموں کے بیوقوفوں نے کیا یہ سب تیری آزمائش ہے جسے تو چاہے اس سے گمراہ کر دے اور جسے چاہے سیدھا رکھے تو ہی ہمارا کارساز ہے سو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
اور موسیٰ (علیہ السلام) نے ستر آدمی اپنی قوم میں سے ہمارے وقت معین کے لئے منتخب کئے، سو جب ان کو زلزلہ نے آپکڑا (١) تو موسیٰ (علیہ السلام) عرض کرنے لگے کہ اے میرے پروردگار اگر تجھ کو یہ منظور ہوتا تو اس سے قبل ہی ان کو اور مجھ کو ہلاک کر دیتا، کیا تو ہم میں سے چند بیوقوفوں کی حرکت پر سب کو ہلاک کردے گا؟ یہ واقعہ محض تیری طرف سے امتحان ہے، ایسے امتحانات سے جس کو تو چاہے گمراہی میں ڈال دے اور جس کو چاہے ہدایت پر قائم رکھے۔ تو ہی ہمارا کارساز ہے پس ہم پر مغفرت اور رحمت فرما اور تو سب معافی دینے والوں سے زیادہ اچھا ہے (٢)۔
١٥٥۔١ ان ستر آدمیوں کی تفصیل اگلے حاشیے میں آرہی ہے۔ یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے ستر آدمی چنے اور انہیں کوہ طور پر لے گئے، جہاں بطور عذاب انہیں ہلاک کردیا گیا، جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا۔ ١٥٥۔٢ بنی اسرائیل کے یہ ستر آدمی کون تھے؟ اس میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تورات کے احکام انہیں سنائے تو انہوں نے کہا کہ ہم کیسے یقین کرلیں کہ یہ کتاب واقع اللہ تعالٰی کی طرف سے ہی نازل شدہ ہے؟ ہم تو جب تک خود اللہ تعالٰی کو کلام کرتے ہوئے نہ سن لیں اسے نہیں مانیں گے۔ چنانچہ انہوں نے ستر برگزیدہ آدمیوں کا انتخاب کیا اور انہیں کوہ طور پر لے گئے۔ وہاں اللہ تعالٰی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہمکلام ہوئے جسے ان لوگوں نے بھی سنا۔ لیکن وہاں انہوں نے ایک نیا مطالبہ کردیا کہ ہم جب تک اللہ کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ لیں گے، ایمان نہیں لائیں گے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ یہ ستر آدمی وہ ہیں جو پوری قوم کی طرف سے بچھڑے کی عبادت کے جرم عظیم کی توبہ کی اور معذرت کے لئے کوہ طور پر لے جائے گئے تھے اور وہاں جاکر انہوں نے اللہ کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ تیسری رائے یہ ہے کہ یہ ستر آدمی وہ ہیں جنہوں نے اسرائیل کو بچھڑے کی عبادت کرتے ہوئے دیکھا لیکن انہیں منع نہیں کیا۔ ایک چوتھی رائے یہ ہے کہ یہ ستر آدمی وہ ہیں جنہیں اللہ کے حکم سے کوہ طور پر لے جانے کے لئے چنا گیا تھا، وہاں جاکر انہوں نے اللہ سے دعائیں کیں۔ جن میں ایک دعا یہ بھی تھی کہ ' یا اللہ ہمیں تو وہ کچھ عطا فرما، جو اس سے قبل تو نے کسی کو عطا نہ کیا اور نہ آئندہ کسی کو عطا کرنا ' اللہ تعالٰی کو یہ دعا پسند نہ آئی، جس پر وہ زلزلے کے ذریعے سے ہلاک کر دیئے گئے۔ زیادہ مفسرین دوسری رائے کے قائل ہیں اور انہوں نے وہی واقعہ قرار دیا جس کا ذکر سورۃ بقرہ آیت ٥٦ میں آیا ہے۔ جہاں ان پر صاعقہ (بجلی کی کڑک) سے موت وارد ہونے کا ذکر ہے۔ اور یہاں رجفہ (زلزلے) سے موت کا ذکر ہے۔ اس کی توجیہ میں کہا گیا ہے کہ ممکن ہے دونوں ہی عذاب آوے ہوں اوپر سے بجلی کی کڑک اور نیچے سے زلزلہ۔ بہرحال حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اس دعا والتجا کے بعد کہ اگر ان کو ہلاک ہی کرنا تھا تو اس سے قبل اس وقت ہلاک کرتا جب یہ بچھڑے کی عبادت میں مصروف تھے۔ اللہ تعالٰی نے انہیں زندہ کردیا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور موسیٰ نے اس میعاد پر جو ہم نے مقرر کی تھی اپنی قوم کے ستر آدمی منتخب (کرکے کوہ طور پر حاضر) ٹل کیے۔ جب ان کو زلزلے نے پکڑا تو موسیٰ نے کہا کہ اے پروردگار تو چاہتا تو ان کو اور مجھ کو پہلے ہی سے ہلاک کر دیتا۔ کیا تو اس فعل کی سزا میں جو ہم میں سے بےعقل لوگوں نے کیا ہے ہمیں ہلاک کردے گا۔ یہ تو تیری آزمائش ہے۔ اس سے تو جس کو چاہے گمراہ کرے اور جس کو چاہے ہدایت بخشے۔ تو ہی ہمارا کارساز ہے تو ہمیں (ہمارے گناہ) بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے
6 Muhammad Junagarhi
اور موسیٰ (علیہ السلام) نے ستر آدمی اپنی قوم میں سے ہمارے وقت معین کے لیے منتخب کئے، سو جب ان کو زلزلہ نے آپکڑا تو موسیٰ (علیہ السلام) عرض کرنے لگے کہ اے میرے پروردگار! اگر تجھ کو یہ منظور ہوتا تو اس سے قبل ہی ان کو اور مجھ کو ہلاک کر دیتا۔ کیا تو ہم میں سے چند بے وقوفوں کی حرکت پر سب کو ہلاک کردے گا؟ یہ واقعہ محض تیری طرف سے ایک امتحان ہے، ایسے امتحانات سے جس کو تو چاہے گمراہی میں ڈال دے اور جس کو چاہے ہدایت پر قائم رکھے۔ تو ہی تو ہمارا کارساز ہے پس ہم پر مغفرت اور رحمت فرما اور تو سب معافی دینے والوں سے زیاده اچھا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
ہمارے مقرر کردہ وقت پر حاضر ہونے کے لیے موسیٰ نے اپنی قوم کے ستر آدمیوں کو منتخب کیا پھر جب ایک سخت زلزلہ نے انہیں آپکڑا (اور وہ ہلاک ہوگئے) تو موسیٰ نے کہا اے میرے پروردگار اگر تو چاہتا تو ان سب کو پہلے ہی ہلاک کر دیتا اور مجھے بھی۔ کیا تو ایسی بات کی وجہ سے جو ہمارے چند احمقوں نے کی ہے ہم سب کو ہلاک کرتا ہے؟ یہ نہیں ہے مگر تیری طرف سے ایک آزمائش! اس کی وجہ سے تو جسے چاہتا ہے (توفیق سلب کرکے) گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے تو ہی ہمارا ولی و سرپرست ہے۔ ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو بہترین مغفرت کرنے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور موسٰی علیھ السّلامنے ہمارے وعدہ کے لئے اپنی قوم کے ستر ّ افراد کا انتخاب کیا پھر اس کے بعد جب ایک جھٹکے نے انھیں اپنی لپیٹ میں لے لیا تو کہنے لگے کہ پرودگار اگر تو چاہتا تو انھیں پہلے ہی ہلاک کردیتا اور مجھے بھی -کیا اب احمقوں کی حرکت کی بناپرہمیں بھی ہلاک کردے گا یہ تو صرف تیرا امتحان ہے جس سے جس کو چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑدیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے تو ہمارا ولی ہے -ہمیں معاف کردے اورہم پر رحم فرما کہ تو بڑا بخشنے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور موسیٰ نے (اس میعاد پر جو ہم نے مقرر کی تھی) اپنی قوم کے ستر آدمی منتخب (کر کے کوہ طور پر حاضر) کئے جب ان کو زلزلے نے پکڑا تو (موسی نے) کہا کہ اے پروردگار ! اگر تو چاہتا تو ان کو اور مجھ کو پہلے ہی سے ہلاک کردیتا۔ کیا تو اس فعل کی سزا میں جو ہم میں سے بےعقل لوگوں نے کیا ہے ہمیں ہلاک کر دے گا ؟ یہ تو تیری آزمائش ہے۔ اس سے تو جس کو چاہے گمراہ کرے اور جسے چاہے ہدایت بخشے۔ تو ہی ہمارا کار ساز ہے۔ تو ہمیں (ہمارے گناہ) بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے۔ واختار۔۔۔۔ لمیقاتنا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حکم خداوندی سے کوہ سینا پر اپنے ہمراہ لے جانے کیلئے ستر آدمیوں کو منتخب کیا، یہ آدمی کون تھے اس میں روایات مختلف ہیں۔ بنی اسرائیل کے منتخب کردہ ستر آدمی کون تھے ؟ ان ستر آدمیوں کی تعیین میں مفسرین کا اختلاف ہے، ایک رائے یہ ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے تورات کے احکام انھیں سنائے تو انہوں نے کہا، ہم کیسے یقین کرلیں کہ یہ کتاب واقعی اللہ کی طرف سے ہے، ہم تو جب تک خود اللہ کو کلام کرتے ہوئے نہ سن لیں تسلیم نہ کریں گے، چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ستر سربرآوردہ لوگوں کا انتخاب کیا اور انھیں اپنے ہمراہ کوہ طور پر لے گئے، وہاں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ہمکلام ہوئے جسے ان لوگوں نے بھی سنا، لیکن وہاں انہوں نے ایک نیا مطالبہ کردیا کہ ہم تو جب تک اللہ کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں گے یقین نہ کریں گے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ ستر آدمی وہ ہیں جو پوری قوم کی طرف سے بچھڑے کی عبادت کے جرم عظیم کی توبہ اور معذرت کیلئے کوہ طور پر لیجائے گئے تھے وہ وہاں جا کر انہوں نے اللہ کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ تیسری رائے یہ ہے کہ یہ ستر آدمی وہ ہیں کہ جنہوں نے بنی اسرائیل کو بچھڑے کی عبادت کرتے ہوئے دیکھا تھا لیکن انھیں منع نہیں کیا اور نہ ان سے قطع تعلق کیا بلکہ ان ہی میں گھلے ملے رہے۔ چوتھی رائے یہ ہے کہ یہ ستر آدمی وہ ہیں جنہیں اللہ کے حکم سے کوہ طور پر لے جانے کیلئے چنا گیا تھا وہاں جاکر انہوں نے اللہ سے دعائیں کیں، جن میں ایک دعاء یہ تھی کہ، یا اللہ ہمیں تو وہ کچھ عطا فرما جو نہ تو اس سے قبل تو نے کسی کو عطا کیا اور نہ آئندہ کسی کو عطا کرنا، اللہ تعالیٰ کو یہ دعاء پسند نہیں آئی جس پر وہ زلزلے کے ذریعہ ہلاک کر دئیے گئے، زیادہ تر مفسرین دوسری رائے کے قائل ہیں، انہوں نے وہی قصہ قرار دیا جس کا ذکر سورة بقرہ آیت ٥٦ میں آیا ہے جہاں ان پر صاعقہ (بجلی کی کڑک) کے ذریعہ موت واقع ہونے کا ذکر ہے، اور یہاں رجفۃ (زلزلے) سے موت کا ذکر ہے مگر اس کی تطبیق ممکن ہے، ہوسکتا ہے کہ دونوں ہی عذاب آئے ہوں اوپر سے بجلی کی کڑک اور نیچے سے زلزلہ، بہر حال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس دعاء کے بعد کہ اگر ان کو ہلاک کرنا ہی تھا تو اس سے قبل اس وقت سب کے سامنے ہلاک کردیتا جب یہ گؤسالہ پرستی میں مصروف تھے، میں اس الزام سے بھی بری ہوجاتا اب قوم کہے گی کہ موسیٰ نے انکو کوہ طور پر لیجا کر قتل کردیا ہے، غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعاء قبول فرمائی اور ان کو زندہ کردیا۔ قال عذابی۔۔۔۔ کل شئ مطلب یہ ہے کہ میرا عذاب صرف اسی کو پہنچے گا جس کو چاہوں گا ہر گنہگار کو پہنچنا ضروری نہیں ہے، اور وہ لوگ ہوں گے کہ جو تمرد اور سرکشی اختیار کریں گے اور توبہ نہ کریں گے۔ اور رحمت کی وسعت کا مطلب یہ ہے کہ رحمت خداوندی دنیا میں مومن کافر، فاسق و صالح، فرمانبردار اور نافرمان سب کو پہنچتی ہے اور سب ہی اس سے فیضیاب ہو رہے ہیں، حدیث شریف میں وارد ہے کہ اللہ کی رحمت کے سو (١٠٠) حصے ہیں یہ اس کی رحمت کا ایک حصہ ہے کہ جس سے مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے اور وحشی جانور اپنے بچوں پر شفقت کرتے ہیں اور اس نے اپنی رحمت کے ننانوے حصے اپنے پاس رکھے ہیں۔ (صحیح مسلم و ابن ماجہ) ۔ الذین یتبعون الرسول النبی الأمی الذی یجدونَہ مکتوباً عندھم فی التوراۃ والانجیل۔ آپ کے اوصاف توراۃ اور انجیل میں : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعاء کا جواب سابقہ آیت میں دیدیا گیا ہے، اب اس کے بعد موقع کی مناسبت سے فوراً ہی بنی اسرائیل کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کی دعوت دی گئی ہے، سابقہ آیت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعاء کے جواب میں ارشاد ہوا تھا کہ یوں تو اللہ کی رحمت ہر چیز اور ہر شخص کیلئے وسیع ہے، لیکن مکمل نعمت و رحمت کے مستحق وہ لوگ ہوں گے جو ایمان وتقویٰ اور زکوۃ وغیرہ کے مخصوص شرائط کو پورا کریں گے، اس آیت میں ان لوگوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو ان شرائط پر پورے اترنے والے ہوں گے، اس ضمن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چند خصوصیات و علامات و چند فضائل و کمالات کا بھی ذکر فرمایا۔ رسول اُمّی سے کیا مراد ہے ؟ اس جگہ رسول اور نبی کے دو لقبوں کے ساتھ ایک تیسری صفت امی بھی بیان کی گئی ہے امی، ام کی طرف منسوب ہے، مطلب یہ کہ بچہ جب رحم مادر سے دنیا میں آتا ہے تو وہ اَنْ پڑھ ناخواندہ ہوتا ہے، اسی نسبت سے عرب میں امی اس شخص کو کہتے ہیں کہ جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو، اگرچہ یہ لفظ کسی شخص کیلئے صفت مدح نہیں ہے بلکہ ایک عیب سمجھا جاتا ہے، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علوم و معارف اور خصوصیات و حالات و کمالات کے ساتھ امی ہونا آپ کیلئے بڑی صفت کمال بن گئی ہے ایک ایسے شخص کا جس نے کسی کے سامنے زانوئے تلمذتہ نہ کیا ہو علوم و معارف کا دریا بہا دینا اور ایسے بیش بہا علوم اور بےنظیر حقائق و معارف کا صدور اس کا ایک کھلا ہوا معجزہ ہے جس سے کوئی معاند و مخالف بھی انکار نہیں کرسکتا، خصوصاً جبکہ آپ کی عمر شریف کے چالیس سال مکہ میں سب کے سامنے اس طرح گزرے ہوں کہ کسی سے ایک حرف پڑھا نہ سیکھا، ٹھیک چالیس سال پورے ہونے پر آپ کی زبان مبارک پر وہ کلام جاری ہوا جس کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کی مثال لانے سے پوری دنیا عاجز ہوگئی، تو ان حالات میں آپ کا امی ہونا آپ کے رسول من جانب اللہ ہونے اور قرآن کے کلام الہیٰ ہونے پر ایک بڑی شہادت ہے اسلئے امی ہونا اگرچہ دوسروں کے لئے کوئی صفت مدح نہیں مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کئلئے بہت بڑی صفت مدح و کمال ہے۔ (معارف) آپ کو امی رکھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ توریت میں آپ کی علامت امی ہونا لکھا ہوا تھا اگر آپ امی نہ ہوتے تو یہود کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا کہ یہ آخری نبی نہیں ہے اس لئے کہ آخری نبی کی علامت اور شناخت یہ لکھی ہے کہ وہ امی ہوگا، آیت میں چوتھی صفت، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ بیان فرمائی کہ وہ لوگ آپ کی تورات میں لکھا ہوا پائیں گے، یہاں یہ نہیں فرمایا کہ تورات میں آپ کی صفات کو لکھا ہوا پائیں گے اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تورات و انجیل میں آپ کی صفات و علامات کو ایسی وضاحت سے پائیں گے کہ ان صفات و علامات کو دیکھنا گویا خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھنا ہے اور تورات و انجیل کی تخصیص یہاں اسلئے کی گئی ہے کہ نبی اسرائیل ان ہی دو کتابوں کے قائل تھے ورنہ آپ کی صفات و علامات زبور میں بھی موجود تھیں۔ یہ گفتگو چونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ہو رہی ہے اسلئے انجیل کا ذکر پیش گوئی کے طور پر ہوگا ورنہ تو انجیل اس زمانہ میں موجود نہیں تھی۔ تورات و انجیل میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات و علامات : موجودہ تورات و انجیل بیشمار تحریفات کے سبب اگرچہ قابل اعتماد نہیں رہیں اس کے باوجود اب بھی ان میں ایسے کلمات پائے جاتے ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صادق آتے ہیں، اگر یہ بات واقعہ کے خلاف ہوتی تو اس زمانہ کے یہود و نصاری کیلئے تو اسلام کے خلاف ایک بہت بڑا ہتھیار آجاتا کہ اس کے ذریعہ قرآن کی تکذیب کرسکتے تھے، لیکن اس وقت کے یہود و نصاری نے بھی اس کے خلاف کوئی اعلان نہیں کیا یہ خود اس بات پر شاہد ہے کہ اس وقت تورات و انجیل میں آپ کی صفات و علامات موجود تھیں، جس کی وجہ سے ان کے منہ پر مہر سکوت لگ گئی تھی۔ خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جو صفات تورات و انجیل میں لکھی تھیں ان کا کچھ بیان تو قرآن مجید میں بحوالہ تورات وانجیل آیا ہے اور کچھ روایات حدیث میں ان حضرات سے منقول ہے جنہوں نے اصل تورات و انجیل کو دیکھا ہے اور ان میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر مبارک پڑھ کر مسلمان ہوئے۔ بیہقی کی ایک روایت : بیہقی نے دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے کہ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک یہود لڑکا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت کیا کرتا تھا، وہ اتفاق سے بیمار ہوگیا، تو آپ اس کی مزاج پرسی کیلئے تشریف لے گئے تو دیکھا کہ اس کا باپ اس کے سرہانے کھڑا ہوا تورات پڑھ رہا ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے کہا اے یہودی میں تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں جس نے موسیٰ (علیہ السلام) پر توریت نازل فرمائی ہے کیا تو تورات میں میرے حالات اور صفات اور میرے ظہور کا بیان پاتا ہے ؟ اس نے انکار کیا، تو بیٹا بولا یا رسول اللہ یہ غلط کہتا ہے تورات میں ہم آپ کا ذکر اور صفات پاتے ہیں، اور میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اب یہ لڑکا مسلمان ہے، اس کے انتقال کے بعد اس کی (اسلامی طریقہ پر) تجہیز و تکفین کریں اس کی قوم کے حوالہ نہ کریں۔ اور دوسری روایت : حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمہ ایک یہودی کا قرض تھا اس نے آکر اپنا قرض طلب کیا آپ نے فرمایا، اس وقت میرے پاس کچھ نہیں ہے کچھ مہلت دیدو یہودی نے شدت کے ساتھ مطالبہ کیا اور کہا کہ میں آپ کو اس وقت تک نہ چھوڑوں گا جب تک میرا قرض ادا نہ کرو، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہیں اختیار ہے میں تمہارے پاس بیٹھ جاؤں گا، چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی جگہ بیٹھ گئے اور ظہر، عصر، مغرب و عشاء اور اگلے دن صبح کی نماز آپ نے اسی جگہ پڑھی، صحابہ کرام یہ ماجرا دیکھ کر زنجیدہ اور غضبناک ہو رہے تھے اور آہستہ آہستہ یہودی کو دھمکا رہے تھے، مقصد یہ تھا کہ آپ کو چھوڑ دے رسول اللہ اس کو تاڑ گئے، دریافت فرمایا کیا کرتے ہو تب انہوں نے صورت حال بتائی آپ نے فرمایا میرے رب نے منع فرمایا ہے کہ کسی معاہد وغیرہ پر ظلم کروں، یہودی یہ سب دیکھ اور سن رہا تھا، صبح ہوتے ہی یہودی نے کہا، ” اَشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد انّکَ رسول اللہ “ مشرف باسلام ہونے کے بعد اس نے کہا یا رسول میں نے اپنا آدھا مال اللہ کے راستہ میں دیدیا اور قسم خدا تعالیٰ کی کہ اس وقت جو کچھ میں نے کیا اس کا مقصد صرف یہ جانچنا تھا کہ تورات میں جو آپ کی صفات بیان کی گئی ہیں وہ آپ میں صحیح طور پر موجود ہیں یا نہیں میں نے تورات میں آپ کے متعلق یہ الفاظ پڑھے ہیں۔ محمد بن عبد اللہ، ان کی ولادت مکہ میں ہوگی اور ہجرت طیبہ کی طرف اور ملک ان کا شام ہوگا نہ وہ سخت مزاج ہوں گے نہ وہ سخت بات کرنے والے نہ بازاروں میں شور کرنے والئ، اور وہ فحش و بےحیائی سے دور ہوں گے، (نوٹ) ملک سے مراد حکومت ہے۔ (مظہری بحوالہ دلائل النبوۃ، معارف) مزید تفصیل کے لئے جمالین کی جلد ششم دیکھئے۔
10 Tafsir as-Saadi
جب بنی اسرائیل نے توبہ کرلی اور وہ رشد و ہدایت کی راہ پر لوٹ آئے۔ ﴿وَاخْتَارَ مُوسَىٰ قَوْمَهُ﴾” اور چن لئے موسیٰ نے اپنی قوم میں سے“ ﴿ سَبْعِينَ رَجُلً﴾ ”(بہترین) ستر آدمی“ تاکہ وہ اپنی قوم کی طرف سے رب کے حضور معذرت پیش کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ایک وقت مقرر کردیا تھا، تاکہ اس وقت وہ اللہ کے حضور حاضر ہوں اور جب وہ حاضر ہوئے تو انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا: ﴿ أَرِنَا اللَّـهَ جَهْرَةً ﴾ (النساء :4؍153) ” ان ظاہری آنکھوں سے ہمیں اللہ کا دیدار کروا“ پس انہوں نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں جسارت اور اس کے حضور بے ادبی کا مظاہرہ کیا۔﴿أَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ﴾ ” تو ان کو زلزلے نے پکڑ لیا‘‘ پس وہ بے ہوش ہو کر ہلاک ہوگئے۔ پس موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حضور فروتنی اور تذلل سے گڑ گڑاتے رہے۔ انہوں نے عرض کیا :﴿رَبِّ لَوْ شِئْتَ أَهْلَكْتَهُم مِّن قَبْلُ وَإِيَّايَ﴾ ” اے میرے رب ! اگر تو ان کو ہلاک ہی کرنا چاہتا تو مجھے اور ان کو میقات کی طرف نکلنے سے پہلے ہی ہلاک کردیتا“ ﴿أَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَاءُ مِنَّا﴾ ” کیا تو ہم کو ہلاک کرتا ہے اس کام پر جو ہماری قوم کے بے وقوفوں نے کیا“ یعنی جو کچھ کم عقل اور بے وقوف لوگوں نے کیا ہے۔ پس موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حضور گڑا گڑائے اور معذرت کی کہ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ جسارت کی ہے وہ کامل عقل کے مالک نہیں ہیں، ان کی بے وقوفی کے قول و فعل سے صرف نظر کر۔ وہ ایک ایسے فتنے میں مبتلا ہوگئے جس میں انسان خطا کا شکار ہوجاتا ہے اور دین کے چلے جانے کا خوف لاحق ہوجاتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا : ﴿إِنْ هِيَ إِلَّا فِتْنَتُكَ تُضِلُّ بِهَا مَن تَشَاءُ وَتَهْدِي مَن تَشَاءُ ۖ أَنتَ وَلِيُّنَا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۖ وَأَنتَ خَيْرُ الْغَافِرِينَ ﴾ ” یہ سب تیری آزمائش ہے، گمراہ کرتا ہے اس کے ذریعے سے جس کو چاہتا ہے اور سیدھا رکھتا ہے جس کو چاہتا ہے، تو وہی ہمارا کار ساز ہے، پس ہم کو بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے“ یعنی تو بخش دینے والوں میں سے بہترین ہستی ہے۔ سب سے زیادہ رحم کرنے والا اور عطا کرنے والوں میں سب سے زیادہ فضل و کرم کا مالک ہے۔ گویا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور یوں عرض کیا ” اے ہمارے رب ہم سب کا اولین مقصد تیری اطاعت کا التزام اور تجھ پر ایمان لانا ہے اور جس میں عقل اور سمجھ موجود ہے اور تیری توفیق جس کے ہم رکاب رہے گی وہ ہمیشہ راہ راست پر رواں دواں رہے گا۔ رہا وہ شخص جو ضعیف العقل ہے، جو کمزور رائے رکھتا ہے اور جس کو فتنے نے گمراہی کیطرف پھیر دیا، تو وہی شخص ہے جس نے ان دو اسباب کی بنا پر اس جسارت کا ارتکاب کیا۔ بایں ہمہ تو سب سے بڑھ کر رحم کرن والا اور سب سے زیادہ بخش دینے والا ہے پس تو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما۔“ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا قبول کرلی اور ان (ستر آدمیوں) کو موت دینے کے بعد دوبارہ زندہ کردیا اور ان کے گناہ بخش دیئے۔ ‘‘
11 Mufti Taqi Usmani
aur musa ney apni qoam kay satar aadmi muntakhib kiye , takay unhen humaray tey kiye huye waqt per ( koh-e-toor ) layen . phir jab unhen zalzalay ney aa-pakra to musa ney kaha : meray perwerdigar ! agar aap chahtay to inn ko , aur khud mujh ko bhi pehlay hi halak ker-detay , kiya hum mein say kuch bey waqoofon ki harkat ki wajeh say aap hum sabb ko halak kerden gay ? ( zahir hai kay nahi . lehaza pata chala kay ) yeh waqiaa aap ki taraf say sirf aik imtihan hai jiss kay zariye aap jiss ko chahen , gumrah kerden , aur jiss ko chahen hidayat dey den . aap hi humaray rakhwalay hain . iss liye hamen moaaf ker-dijiye , aur hum per reham farmaiye . beyshak aap saray moaaf kernay walon say behtar moaaf kernay walay hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
موسیٰ (علیہ السلام) کی کوہ طور سے واپسی ٭٭ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حسب فرمان الٰہی اپنی قوم سے ستر شخصوں کو منتخب کیا اور جناب باری سے دعائیں مانگنا شروع کیں۔ لیکن یہ لوگ اپنی دعا میں حد سے تجاوز کر گئے کہنے لگے اللہ تو ہمیں وہ دے جو نہ ہم سے پہلے کسی کو دیا ہو نہ ہمارے بعد کسی کو دے۔ یہ دعا اللہ تعالیٰ کو ناپسند آئی اور ان پر بھونچال آگیا۔ جس سے گھبرا کر حضرت موسیٰ اللہ سے دعائیں کرنے لگے۔ سدی کہتے ہیں انہیں لے کر آپ اللہ تعالیٰ سے بنی اسرائیل کی گو سالہ پرستی کی معذرت کرنے کیلئے گئے تھے۔ یہاں جب وہ پہنچے تو کہنے لگے ہم تو جب تک خود اللہ تعالیٰ کو کھلم کھلا اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں ایمان نہ لائیں گے۔ ہم کلام سن رہے ہیں لیکن دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس پر کڑاکے کی آواز ہوئی اور یہ سب مر کھپ گئے حضرت موسیٰ نے رونا شروع کیا کہ اللہ میں بنی اسرائیل کو کیا منہ دکھاؤں گا ؟ ان کے یہ بہترین لوگ تھے اگر یہی منشا تھی تو اس سے پہلے ہی ہمیں ہلاک کردیا ہوتا۔ امام محمد بن اسحاق کا قول ہے کہ انہیں اس بت پرستی سے توبہ کرنے کیلئے بطور وفد کے آپ لے چلے تھے۔ ان سے فرما دیا تھا کہ پاک صاف ہوجاؤ پاک کپڑے پہن لو اور روزے سے چلو یہ اللہ کے بتائے ہوئے وقت پر طور سینا پہنچے۔ مناجات میں مشعول ہوئے تو انہوں نے خواہش کی کہ اللہ سے دعا کیجئے کہ ہم بھی اللہ کا کلام سنیں آپ نے دعا کی جب حسب عادت بادل آیا اور موسیٰ (علیہ السلام) آگے بڑھ گئے اور بادل میں چھپ گئے قوم سے فرمایا تم بھی قریب آجاؤ یہ بھی اندر چلے گئے اور حسب معمول حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پیشانی پر ایک نور چمکنے لگا جو اللہ کے کلام کے وقت برابر چمکتا رہتا تھا اس وقت کوئی انسان آپ کے چہرے پر نگاہ نہیں ڈال سکتا تھا آپ نے حجاب کرلیا لوگ سب سجدے میں گرپڑے اور اللہ کا کلام شروع ہوا جو یہ لوگ بھی سن رہے تھے کہ فرمان ہو رہا ہے یہ کر یہ نہ کر وغیرہ۔ جب باتیں ہو چکیں اور ابر اٹھ گیا تو ان لوگوں نے کہا ہم تو جب تک اللہ کو خود خوب ظاہر نہ دیکھ لیں ایمان نہیں لائیں گے تو ان پر کڑاکا نازل ہوا اور سب کے سب ایک ساتھ مرگئے موسیٰ (علیہ السلام) بہت گھبرائے اور مناجات شروع کردی اس میں یہاں تک کہا کہ اگر ہلاک ہی کرنا تھا تو اس سے پہلے ہلاک کیا ہوتا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) حضرت ہارون (علیہ السلام) کو اور شبر اور شبیر کو لے کر پہار کی گھاٹی میں گئے۔ ہارون ایک بلند جگہ کھڑے تھے کہ ان کی روح قبض کرلی گئی جب آپ واپس بنی اسرائیل کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا کہ چونکہ آپ کے بھائی بڑے ملنسار اور نرم آدمی تھے آپ نے ہی انہیں الگ لے جا کر قتل کردیا اس پر آپ نے فرمایا اجھا تم اپنے میں سے ستر آدمی چھانٹ کر میرے ساتھ کردو انہوں نے کردیئے جنہیں لے کر آپ گئے اور حضرت ہارون کی لاش سے پوچھا کہ آپ کو کس نے قتل کیا ؟ اللہ کی قدرت سے وہ بولے کسی نے نہیں بلکہ میں اپنی موت مرا ہوں انہوں نے کہا بس موسیٰ اب سے آپ کی نافرمانی ہرگز نہ کی جائے گی اسی وقت زلزلہ آیا جس سے وہ سب مرگئے اب تو حضرت موسیٰ بہت گھبرائے دائیں بائیں گھومنے لگے اور وہ عرض کرنے لگے جو قرآن میں مذکور ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کی التجا قبول کرلی ان سب کو زندہ کردیا اور بعد میں وہ سب انبیاء بنے لیکن یہ اثر بہت ہی غریب ہے اس کا ایک راوی عمارہ بن عبد غیر معروف ہے۔ یہ بھی مروی ہے کہ ان پر اس زلزلے کے آنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ بچھڑے کی پرستش کے وقت خاموش تھے ان پجاریوں کو روکتے نہ تھے اس قول کی دلیل میں حضرت موسیٰ کا یہ فرمان بالکل ٹھیک اترتا ہے کہ اے اللہ ہم میں سے چند بیوقوفوں کے فعل کی وجہ سے تو ہمیں ہلاک کر رہا ہے ؟ پھر فرماتے ہیں یہ تو تیری طرف کی آزمائش ہی ہے تیرا ہی حکم چلتا ہے اور تیری ہی چاہت کامیاب ہے۔ ہدایت و ضلالت تیرے ہی ساتھ ہے جس کو تو ہدایت دے اسے کوئی بہکا نہیں سکتا اور جسے تو بہکائے اس کی کوئی رہبری نہیں کرسکتا۔ تو جس سے روک لے اسے کوئی دے نہیں سکتا اور جسے دے دے اس سے کوئی چھین نہیں سکتا۔ ملک کا مالک تو اکیلا، حکم کا حاکم صرف تو ہی ہے۔ خلق و امر تیرا ہی ہے تو ہمارا ولی ہے، ہمیں بخش، ہم پر رحم فرما، تو سب سے اچھا معاف فرمانے والا ہے۔ غفر کے معنی ہیں چھپا دینا اور پکڑ نہ کرنا جب رحمت بھی اس کے ساتھ مل جائے تو یہ مطلب ہوتا ہے کہ آئندہ اس گناہ سے بچاؤ ہوجائے۔ گناہوں کا بخش دینے والا صرف تو ہی ہے۔ پس جس چیز سے ڈر تھا اس کا بچاؤ طلب کرنے کے بعد اب مقصود حاصل کرنے کیلئے دعا کی جاتی ہے کہ ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اسے ہمارے نام لکھ دے واجب و ثابت کر دے۔ حسنہ کی تفسیر سورة بقرہ میں گذر چکی ہے۔ ہم تیری طرف رجوع کرتے ہیں، رغبت ہماری تیری ہی جانب ہے، ہماری توبہ اور عاجزی تیری طرف ہے۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ چونکہ انہوں نے ھدنا کہا تھا اس لئے انہیں یہودی کہا گیا ہے لیکن اس روایت کی سند میں جابر بن یزید جعفی ہیں جو ضعیف ہیں۔