الاعراف آية ۱۸۲
وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُوْنَ
طاہر القادری:
اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے ہم عنقریب انہیں آہستہ آہستہ ہلاکت کی طرف لے جائیں گے ایسے طریقے سے کہ انہیں خبر بھی نہیں ہوگی،
English Sahih:
But those who deny Our signs – We will progressively lead them [to destruction] from where they do not know.
1 Abul A'ala Maududi
رہے وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلا دیا ہے، تو انہیں ہم بتدریج ایسے طریقہ سے تباہی کی طرف لے جائیں گے کہ انہیں خبر تک نہ ہوگی
2 Ahmed Raza Khan
اور جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں جلد ہم انہیں آہستہ آہستہ عذاب کی طرف لے جائیں گے جہاں سے انہیں خبر نہ ہوگی
3 Ahmed Ali
اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہم انہیں آہستہ آہستہ پکڑیں گے ایسی جگہ سے جہاں انہیں خبر بھی نہ ہو گی
4 Ahsanul Bayan
اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں ہم ان کو بتدریج (گرفت میں) لئے جا رہے ہیں اس طور پر کہ انہیں خبر بھی نہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ان کو بتدریج اس طریق سے پکڑیں گے کہ ان کو معلوم ہی نہ ہوگا
6 Muhammad Junagarhi
اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں ہم ان کو بتدریج (گرفت میں) لئے جارہے ہیں اس طور پر کہ ان کو خبر بھی نہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں (نشانیوں) کو جھٹلایا ہم انہیں بتدریج (آہستہ آہستہ ان کے انجام بد کی طرف) لے جائیں گے کہ انہیں اس کی خبر تک نہ ہوگی۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جن لوگوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی ہم انہیں عنقریب اس طرح لپیٹ لیں گے کہ انہیں معلوم بھی نہ ہوگا
9 Tafsir Jalalayn
اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہم ان کو بتدریج اس طریق سے پکڑیں گے کہ ان کو معلوم ہی نہ ہوگا۔
آیت نمبر ١٨٢ تا ١٨٨
ترجمہ : اہل مکہ میں سے جن لوگوں نے ہماری آیتوں یعنی قرآن کو جھٹلایا ہم ان کو بتدریج گرفت میں لے رہے ہیں، اس طریقہ پر کہ ان کو خبر بھی نہیں اور ان کو مہلت دیتا ہوں بیشک میری تدبیر بڑی مضبوط ہے، جس کا کوئی توڑ نہیں، کیا ان لوگوں نے غور نہیں کیا ؟ کہ جان لیتے کہ ان کے رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی قوم کا جنون نہیں، وہ صرف صاف صاف ٖڈرانے والا ہے کیا ان لوگوں نے آسمانوں اور زمین کے عالم میں اور (دیگر) ان چیزوں میں جن کو اللہ نے پیدا کیا ہے (من شیٔ) ما کا بیان ہے، کہ اس کے بنانے والے کی قدرت اور اس کی وحدانیت پر استدلال کرتے، اور اس بات میں کہ ممکن ہے کہ ان کو موت کا وقت قریب ہی آلگا ہو کہ وہ حالت کفر ہی میں مرجائیں اور آگ میں پہنچ جائیں، لہٰذا ایمان کی طرف سبقت کرنی چاہیے، پھر قرآن کے بعد کونسی بات پر ایمان لائیں گے، جس کو اللہ گمراہ کردے تو اس کو کوئی ہدایت پر نہیں لاسکتا اور اللہ تعالیٰ ان کو ان کی گمراہی میں حیرانی سے بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتا ہے یاء اور نون میں بطور استیناف رفع کے ساتھ، اور جزم کے ساتھ مابعد الفاء کے محل پر عطف کی وجہ سے، اہل مکہ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہوگا ؟ آپ ان سے کہدیجئے کہ قیامت کب واقع ہوگی۔ اس کا علم صرف میرے رب ہی کے پاس ہے، اسے اس کے وقت پر وہی ظاہر کرسکتا ہے وہ آسمانوں اور زمین والوں پر اس کی ہولناکی کی وجہ سے بڑا بھاری وقت ہوگا وہ (قیامت) تم پر اچانک آپڑے گی، یہ لوگ آپ سے قیامت کے متعلق اس طرح سوال کرتے ہیں گویا کہ آپ اس کی تخلیق کرچکے ہیں حتی کہ آپ کو اس کا علم ہوگیا آپ کہدیجئے کہ اس کا علم صرف اللہ ہی کے پاس ہے یہ تاکید ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے کہ اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے، آپ فرما دیجئے کہ میں خود کہ میں خود اپنی ذات کے لئے کسی نفع کا جسکو میں حاصل کرسکوں اختیار نہیں رکھتا اور نہ نقصان کا کہ اس کو دفع کرسکوں مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ چاہیے، اگر میں غیب کی باتیں جانتا تو میں بہت سے منافع جمع کرلیتا، اور مجھے فقر وغیرہ کی کوئی تکلیف نہ پہنچتی میرے اس نقصان سے بچ جانے کی وجہ سے، بسبب مضر چیزوں سے اجتناب کے میں تو کافروں کو آگ سے ٖڈرانے والا ہوں اہل ایمان کو جنت کی خوشخبری دینے والا ہوں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ناخذُ ، نَسْتَدْ رِجُ کی تفسیر نَاخذُ سے کرکے معنی مرادی کی جانب اشارہ کردیا، استدراج کے لغوی معنی درجہ بدرجہ چڑھنا (الا ستصعاد درجۃً بعد درجۃٍٍ ) چونکہ کفار کے لئے کوئی اصعاد نہیں ہے اسلئے اس کے مرادی معنی مراد ہیں یعنی بتدریج گرفت کرنا۔
قولہ : اَمھلُھم، یہ اضافہ بھی مرادی معنی کو بیان کرنے کیلئے ہے، اسلئے کہ املی کے معنی املاء کرانے کے ہیں جو کہ یہاں مراد نہیں ہیں
قولہ : فَیْعلمُون یہ ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : فیعلمون مقدر ماننے کی کیا ضرورت پیش آئی ؟
جواب : فیعلمون مقدر مان کر اشارہ کردیا ما بِصَاحِبھِم، یَعْلمون مقدر کا مفعول ہے نہ کہ یتفکروا اس لئے کہ یتفکروا، لازم ہے اسکو مفعول کی ضرورت نہیں ہے حالانکہ مفعول موجود ہے، لہٰذا اعتراض ختم ہوگیا کہ یتفکروا مفعول کی طرف متعدی نہیں ہے۔
قولہ : جُنُوْنٌ، جنۃ کی تفسیر جنون سے کرکے اشارہ کردیا کہ جنۃ سے قوم مراد نہیں ہے اسلئے کہ یہ کفار کے جواب میں واقع ہے کفار کہا کرتے تھے اِنّ صاحبکم لمجنون، اگر جنۃ سے قوم جن (جنات) مراد لی جائے تو سوال اور جواب میں مطابقت نہیں رہے گی۔
قولہ : وفی اس تقدیر کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ ہے ما خلق اللہ کا عطف ملکوت پر ہے نہ کہ قریب (الارض) پر اس لئے کہ اس صورت میں معنی درست نہ رہیں گے۔
قولہ : ای اَنَّہ ‘ اس تقدیر میں اشارہ ہے کہ أن مخففہ عن الثقیلہ ہے نہ کہ مصدر یہ جیسا کہ بعض حضرات کا خیال ہے، اس لئے کہ أن مصدریہ افعال غیر متصرفہ پر داخل نہیں ہوتا اس لئے کہ ان کے مصادر نہیں ہوتے۔
قولہ : فَیَتَبادَرُوْا یہ اَوَ لَمْ ینظروا، کا جواب ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے۔
قولہ : مع الرَفْعِ اسْتِیْنَا فًا، ای وھو نذرھم۔
قولہ : وبالجَزْمِ عَطْفًا علیٰ مَحَلِّ ما بَعْدَ الفَا ءِ ، یہ نذرھم میں دوسری ترکیب کی طرف اشارہ ہے، نذر میں دو اعراب ہیں رفع بوجہ استیناف کے اور جزم بسبب جواب نہی، لا ھادی لہ جواب شرط ہونے کی وجہ سے محلاً مجزوم ہے۔
سوال : محل پر عطف کیا لفظ پر نہیں کیا اس کی کیا وجہ ہے ؟
جواب : اسلئے کہ اس صورت میں فعل کا اسم پر عطف لازم آتا ہے جو کہ مستحسن نہیں ہے، تقدیر عبارت یہ ہے من یضلل اللہ فلا یھدیہ احدو نذرھم۔
قولہ : مُر سٰھا، ارْساءٌ، سے مصدر میمی ہے بمعنی استقرارواثبات، مجرد، رَسَا، بمعنی ثبت، رستِ السفینۃ ای وقفت عن الجری۔
قولہ : حَفِیٌّ، سوال میں مبالغہ کرنے والا یعنی مسٔلہ کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کرنے والا، جو ایسا مبالغہ کرتا ہے وہ حقیقت حال سے واقف ہوجاتا ہے، اور اسی سے احفاء الشارب ہے۔
تفسیر وتشریح
والذین۔۔۔ یعلمون، سابق رکوع کی آخری آیت میں اس امت اجابت کی دو خصوصیتیں بیان کی گئی تھیں ایک قیادت و رہنمائی دوسرے اختلاف کے وقت قانون ِشریعت کے مطابق عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا، اگر غور کیا جائے تو یہ دونوں باتیں کسی بھی قوم یا جماعت کی فلاح و کامرانی کی ضامن ہوسکتی ہیں۔
امت محمدیہ کی تمام دیگر امتوں پر فضیلت و فوقیت کا راز اور ان کا طغرائے امتیاز یہی حق پرستی ہے صحابہ وتابعین کی پوری زندگی اس کی آئینہ دور ہے۔
والذین کذبوا بایٰتنا الخ دوسری آیت میں اس شبہ کا جواب ہے کہ جب قومی ترقی کا مدار حق پرستی اور حق و انصاف کی پیروی پر ہے تو دوسری غیر مسلم قومیں جو حق سے سراسر دور ہیں وہ کیوں دنیا میں پھولتی پھلتی نظر آتی ہیں، وَالذِین کذبوا سے اسی کا جواب ہے یعنی ہم اپنی آیات کے جھٹلانے والوں کو اپنی حکمت و رحمت کی بناء پر دفعۃ نہیں پکڑتے بلکہ آہستہ آہستہ تدریجاً پکڑتے ہیں جس کی ان کو خبر بھی نہیں ہوتی اسلئے دنیا میں کفار کی دولت و ثروت جاہ و عزت سے دھوکا نہ کھائیں کیونکہ وہ ان کے لئے کوئی بھلائی کا سامان نہیں بلکہ حق تعالیٰ کی طرف سے استدراج (ڈھیل) ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
پس پاک ہے وہ ذات جو اپنی رحمت کے لئے جس کو چاہتی ہے، مختص کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ بہت بڑے فضل کا مالک ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی ان آیات کی تکذیب کی، جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب اور ہدایت کی صحت پر دلالت کرتی ہیں، پس انہوں نے ان کو ٹھکرا دیا اور ان کو قبول نہ کیا ﴿سَنَسْتَدْرِجُهُم مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ﴾ ” ہم ان کو آہستہ آہستہ ایسی جگہ سے پکڑیں گے جہاں سے ان کو خبر بھی نہ ہوگی“ یعنی اس طرح کہ اللہ تعالیٰ ان کو وافر رزق بہم پہنچاتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jinn logon ney humari aayaton ko jhutlaya hai , unhen hum iss tarah dheeray dheeray pakar mein len gay kay unhen pata bhi nahi chalay ga .
12 Tafsir Ibn Kathir
سامان تعیش کی کثرت عتاب الٰہی بھی ہے
یعنی ایسے لوگوں کو روزی میں کشادی دی جائے گی، معاش کی آسانیاں ملیں گی، وہ دھوکے میں پڑجائیں گے اور حقانیت کو بھول جائیں گے۔ جب پورے مست ہوجائیں گے اور ہماری نصیحت کو گئی گذری کردیں گے تو ہم انہیں ہر طرح کے آرام دیں گے یہاں تک کہ وہ مست ہوجائیں تب انہیں ہم ناگہانی پکڑ میں پکڑ لیں گے۔ اس وقت وہ مایوسی کے ساتھ منہ تکتے رہ جائیں گے اور ان ظالموں کی رگ کٹ جائے گی۔ حقیقتاً تعریفوں کے لائق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ انہیں میں تو ڈھیل دونگا اور یہ میرے اس داؤ سے بیخبر ہوں گے۔ میری تدبیر کبھی ناکام نہیں ہوتی وہ بڑی مضبوط اور مستحکم ہوتی ہے۔