دونوں نے عرض کیا: اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی؛ اور اگر تو نے ہم کو نہ بخشا اور ہم پر رحم (نہ) فرمایا تو ہم یقیناً نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے،
English Sahih:
They said, "Our Lord, we have wronged ourselves, and if You do not forgive us and have mercy upon us, we will surely be among the losers."
1 Abul A'ala Maududi
دونوں بول اٹھے، "اے رب، ہم نے اپنے اوپر ستم کیا، اب اگر تو نے ہم سے در گزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقیناً ہم تباہ ہو جائیں گے"
2 Ahmed Raza Khan
دونوں نے عرض کی، اے رب ہمارے! ہم نے اپنا آپ بُرا کیا، تو اگر تُو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرور نقصان والوں میں ہوئے،
3 Ahmed Ali
ان دونوں نے کہا اے رب ہمارے ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہ بخشے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو ہم ضرور تباہ ہوجائیں گے
4 Ahsanul Bayan
دونوں نے کہا اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے (١)۔
٢٣۔١ توبہ استغفار کے یہ وہی کلمات ہیں جو حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تبارک و تعالٰی سے سیکھے، جیسا کہ سورہ بقرہ، آیت ٣٧ میں صراحت ہے (دیکھئے آیت مذکورہ کا حاشیہ) گویا شیطان نے اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کیا تو اس کے بعد وہ اس پر نہ صرف اڑ گیا بلکہ جواز و اثبات میں عقلی قیاسی دلائل دینے لگا، جس کے نتیجہ میں وہ راندہ درگاہ اور ہمیشہ کے لئے ملعون قرار پایا اور حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی غلطی پر ندامت و پشیمانی کا اظہار اور بارگاہ الٰہی میں توبہ و استفغار کا اہتمام کیا۔ تو اللہ تعالٰی کی رحمت و مغفرت کے مستحق قرار پائے۔ یوں گویا دونوں راستوں کی نشان دہی ہوگئی، شیطانی راستے کی بھی اور اللہ والوں کے راستے کی بھی۔ گناہ کرکے اس پر اترانا، اصرار کرنا اور اسکو صحیح ثابت کرنے کے لئے دلائل ' کے انبار فراہم کرنا شیطانی راستہ ہے۔ اور گناہ کے بعد احساس ندمت سے مغلوب ہو کر بارگاہ الٰہی میں جھک جانا اور توبہ استغفار کا اہتمام کرنا بندگان الٰہی کا راستہ ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
دونوں عرض کرنے لگے کہ پروردگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم تباہ ہو جائیں گے
6 Muhammad Junagarhi
دونوں نے کہا اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہوجائیں گے
7 Muhammad Hussain Najafi
اس وقت ان دونوں نے کہا۔ اے ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا۔ اور اگر تو درگزر نہیں کرے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہوں گے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ان دونوں نے کہا کہ پروردگار ہم نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے اب اگر تو معاف نہ کرے گا اور رحم نہ کرے گا تو ہم خسارہ اٹھانے والوں میں ہوجائیں گے
9 Tafsir Jalalayn
دونوں عرض کرنے گے کہ پروردگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم تباہ ہوجائیں گے۔ قالا ربنا ظلمنا انفسنا (الآیۃ) توبہ و استغفار کے یہ وہی کلمات ہیں جو حضرت آدم (علیہ السلام) نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے سیکھے تھے جیسا کہ سورة بقرہ آیت ٣٧ میں صراحت ہے، شیطان نے نافرمانی کا ارتکاب کیا مگر نہ صرف یہ کہ اس پر شرمندہ نہیں ہوا بلکہ اڑ گیا اور اس کے جواز پر عقلی و قیاسی دلائل دینے لگا نتیجتًا وہ راندہ درگاہ اور ہمیشہ کیلئے ملعون قرار پایا، اور حضرت آدم (علیہ السلام) نے اپنی غلطی و پشیمانی کا اظہار کیا اور بارگاہ الہیٰ میں توبہ و استغفار کا اہتمام کیا تو اللہ کی رحمت و مغفرت کے مستحق قرار پائے، گناہ کرکے اس پر اصرار کرنا اور صحیح ثابت کرنے کیلئے دلائل پیش کرنا شیطانی راستہ ہے اور گناہ کے بعد احساس ندامت سے مغلوب ہو کر بارگاہ الہیٰ میں جھک جانا اور توبہ و استغفار کا اہتمام کرنا بندگانِ الہیٰ کا راستہ ہے (اللّٰھم اجعلنا منھم) ۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴾ ” اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم تباہ ہوجائیں گے۔“ یعنی ہم سے وہ گناہ سر زد ہوگیا جس سے تو نے ہمیں روکا تھا۔ ہم نے گناہ کا ارتکاب کر کے اپنے آپ کو سخت نقصان پہنچایا اور اگر تو نے گناہ اور اس کی عقوبت کے آثار کو نہ مٹایا اور اس قسم کی خطاؤں سے توبہ قبول کر کے معافی کے ذریعے سے ہم پر رحم نہ کیا، تو ہم نے سخت خسارے کا کام کیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی﴿وَعَصَىٰ آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَىٰ ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَىٰ ﴾(طہ :20؍121، 122) ” اور آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور راہ سے بھٹک گیا۔ پھر اس کے رب نے اس پر نوازش کی اور اس پر توجہ فرمائی اور راہنمائی کی۔ “ یہ رویہ آدم علیہ السلام کا تھا۔ مگر اس کے برعکس ابلیس اپنی سرکشی پر جما رہا اور نافرمانی سے باز نہ آیا۔ پس جو کوئی آدم علیہ السلام کی طرح اپنے گناہوں کا اعتراف کر کے ندامت کے ساتھ مغفرت کا سوال کرتا ہے اور گناہ سے باز آجاتا ہے تو اس کا رب اسے چن لیتا ہے اور سیدھی راہ پر ڈال دیتا ہے اور جو کوئی ابلیس کی طرح اپنے گناہ اور نافرمانی پر جم جاتا ہے اور اس کی نافرمانیاں بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ سے دوری کے سوا اسے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
11 Mufti Taqi Usmani
dono bol uthay kay : aey humaray perwerdigar ! hum apni janon per zulm ker guzray hain , aur agar aap ney hamen moaaf naa farmaya , aur hum per reham naa kiya to yaqeenan hum na-murad logon mein shamil hojayen gay .