الاعراف آية ۲۶
يٰبَنِىْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِىْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًا ۗ وَلِبَاسُ التَّقْوٰى ۙ ذٰلِكَ خَيْرٌ ۗ ذٰلِكَ مِنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُوْنَ
طاہر القادری:
اے اولادِ آدم! بیشک ہم نے تمہارے لئے (ایسا) لباس اتارا ہے جو تمہاری شرم گاہوں کو چھپائے اور (تمہیں) زینت بخشے اور (اس ظاہری لباس کے ساتھ ایک باطنی لباس بھی اتارا ہے اور وہی) تقوٰی کا لباس ہی بہتر ہے۔ یہ (ظاہر و باطن کے لباس سب) اﷲ کی نشانیاں ہیں تاکہ وہ نصیحت قبول کریں،
English Sahih:
O children of Adam, We have bestowed upon you clothing to conceal your private parts and as adornment. But the clothing of righteousness – that is best. That is from the signs of Allah that perhaps they will remember.
1 Abul A'ala Maududi
اے اولاد آدم، ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے لیے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو، اور بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، شاید کہ لوگ اس سے سبق لیں
2 Ahmed Raza Khan
اے آدم کی اولاد! بیشک ہم نے تمہاری طرف ایک لباس وہ اُتارا کہ تمہاری شرم کی چیزیں چھپائے اور ایک وہ کہ تمہاری آرائش ہو اور پرہیزگاری کا لباس وہ سب سے بھلا یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ کہیں وہ نصیحت مانیں،
3 Ahmed Ali
اے آدم کی اولاد ہم نے تم پر پوشاک اتاری جو تمہاری شرم گاہیں ڈھانکتی ہیں اور آرائش کے کپڑے بھی اتارے اور پرہیزگاری کا لباس وہ سب سے بہتر ہے یہ الله کی قدرت کی نشانیاں ہیں تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں
4 Ahsanul Bayan
اے آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے (١) اور تقوےٰ کا لباس (٢) یہ اس سے بڑھ کر (٣) یہ اللہ تعالٰی کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں۔
٢٦۔١ سَوْآت،ُ ،ُ جسم کے وہ حصے جنہیں چھپانا ضروری ہے جیسے شرم گاہ اور وہ لباس جو حسن و رعنائی کے لئے پہنا جائے۔ گویا لباس کی پہلی قسم ضروریات سے اور دوسری قسم تتمہ اضافہ سے ہے۔ اللہ تعالٰی نے ان دونوں قسموں کے لباس کے لئے سامان اور مواد پیدا فرمایا۔
٢٦۔٢ اس سے مراد بعض کے نزدیک وہ لباس ہے جو متقین قیامت والے دن پہنیں گے۔ بعض کے نزدیک ایمان، بعض کے نزدیک عمل صالح مشیت الٰہی وغیرہ ہیں۔ مفہوم سب کا تقریبًا ایک ہے کہ ایسالباس، جسے پہن کر انسان تکبر کرنے کی بجائے، اللہ سے ڈرے اور ایمان و عمل صالح کے تقاضوں کا اہتمام کرے۔
٢٦۔٣ اس سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ زیب و زینت اور آرائش کے لئے بھی اگرچہ لباس پہننا جائز ہے، تاہم لباس میں ایسی سادگی زیادہ پسندیدہ ہے جو انسان کے زہد اور تقوےٰ کی مظہر ہو۔ علاوہ ازیں نیا لباس پہن کر یہ دعا بھی پڑھی جائے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دعا پڑھا کرتے تھے ; (واَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّزِیْ کَسَانِی مَائْو وَارِیْ بِہٖ عَوْرَبِّی وَاَتَجَمَّلْ بِہِ فِیْ حَیَاتِیْ) تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے ایسا لباس پہنایا جس میں اپنا ستر چھپالوں اور اپنی زندگی میں اس سے زینت حاصل کروں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اے نبی آدم ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا ستر ڈھانکے اور (تمہارے بدن کو) زینت (دے) اور (جو) پرہیزگاری کا لباس (ہے) وہ سب سے اچھا ہے۔ یہ خدا کی نشانیاں ہیں تاکہ لوگ نصحیت پکڑ یں
6 Muhammad Junagarhi
اے آدم (علیہ السلام) کی اوﻻد ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اور تقوے کا لباس، یہ اس سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اے اولادِ آدم(ع)! ہم نے تمہارے لئے لباس نازل کیا ہے جو تمہارے جسم کے قابلِ ستر حصوں کو چھپاتا ہے اور (باعث) زینت بھی ہے۔ اور تقویٰ و پرہیزگاری کا لباس یہ سب سے بہتر ہے یہ (لباس بھی) اللہ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اے اولادُ آدم ہم نے تمہارے لئے لباس نازل کیا ہے جس سے اپنی شرمگاہوں کا پردہ کرو اور زینت کا لباس بھی دیا ہے لیکن تقوٰی کا لباس سب سے بہتر ہے یہ بات آیات الٰہیٰہ میں ہے کہ شاید وہ لوگ عبرت حاصل کرسکیں
9 Tafsir Jalalayn
اے بنی آدم ہم نے تم پوشاک اتاری کی تمہاری ستر ڈھانکے اور تمہارے بدن کو زینت دے اور جو پرہیزگاری کا لباس ہے وہ سب سے اچھا ہے۔ یہ خدا کی نشانیاں ہیں تاکہ لوگ نصیحت پکڑیں
آیت نمبر ٢٦ تا ٣١
ترجمہ : اے آدم کی اولاد ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرمگاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور سبب زینت بھی ہے، (ریش) وہ کپڑا کہ جس سے زینت حاصل کی جائے اور بہترین لباس تقوے کا لباس ہے یعنی عمل صالح کا، یا اچھی ہیئت، لِبَاسَ ، لباسًا پر عطف کرتے ہوئے نصب کے ساتھ ہے اور مبتداء ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے اس کی خبر جملہ ذٰلِکَ خیرٌ ہے یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یعنی اللہ کی دلائل قدرت میں سے ایک دلیل ہے تاکہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں اور ایمان لے آئیں اس میں خطاب سے (غیبت کی جانب) التفات ہے اے بنی آدم کہیں تمہیں شیطان گمراہ نہ کر دے جس طرح تمہارے والدین کی اس نے اپنے فتنہ کے ذریعہ ان دونوں کو جنت سے نکلوا دیا تھا یعنی اس کی پیروی نہ کرو ورنہ تم فتنہ میں مبتلا ہوجاؤ گے اس حال میں کہ ان کے لباس ان پر سے اتروادئیے (ینزَعُ ) اَبویکم سے حال ہے، تاکہ ان کی شرمگاہیں ایک دوسرے کو دکھادے (اور) یقیناً شیطان اور اس کا لشکر تم کو اس طور پر دیکھتا ہے کہ تم ان کو ان کے جسموں کے لطیف اور بےرنگ ہونے کی وجہ سے نہیں دیکھ سکتے، ہم نے شیاطین کو ان لوگوں کا سرپرست معاون اور رفیق بنادیا ہے جو ایمان نہیں لاتے اور وہ لوگ جب کوئی فحش کام کرتے ہیں مثلاً شرک، بیت اللہ کا ننگے طواف کرنا یہ کہتے ہوئے کہ ہم ان کپڑوں میں طواف ہیں کرتے جن میں ہم اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں، اور جب ان کو اس سے منع کیا جاتا ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے اپنے آباء (و اجداد) کو اسی طریقہ پر پایا ہے اسی وجہ سے ہم ان کی اقتداء کرتے ہیں، اور اللہ نے بھی ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے ان سے کہو اللہ بےحیائی کا حکم نہیں دیا کرتا کیا تم اللہ پر ایسی باتوں کا بہتان لگاتے ہو جن کا تم علم نہیں رکھتے کہ اس نے وہ بات کہی ہے (یہ) استفہام انکاری ہے، آپ کہہ دیجئے کہ میرے رب نے تو راستی و انصاف کا حکم دیا ہے ہر سجدہ کے وقت اللہ ہی کو طرف رخ رکھو یعنی سجدہ خالص اسی کیلئے کرو اقیموا کا عطف بالقسط کے معنی پر ہے، ای قال اقسطوا واقیموا (یعنی اللہ نے حکم فرمایا کہ انصاف سے کام لو اور اس پر قائم رہو) یا اس سے پہلے فاقبلوا مقدر ہے، اور اسی کی بندگی کرو شرک سے اس کیلئے دین کو خالص کرکے جس طرح اس نے تمہیں پیدا کیا ہے حالانکہ تم کچھ نہیں تھے وہ اسی طرح تم کو قیامت کے دن دوبارہ زندہ کرے گا تم میں سے ایک فریق کو ہدایت بخشی اور ایک فریق پر گمراہی چسپاں ہوگئی کیونکہ انہوں نے خدا کے بجائے شیطان کو اپنا ولی بنا لیا اور وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ سیدھی راہ پر ہیں اے اولاد آدم تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت یعنی نماز و طواف کے وقت اپنا لباس جو تمہارے ستر کو چھپائے پہن لیا کرو اور جو چاہو کھاؤ پیو (مگر) حد سے تجاوز نہ کرو اسلئے کہ اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : خَبَرُہٗ جُمْلَۃٌ، اس میں اشارہ ہے کہ تنہا خیرٌ خبر نہیں ہے بلکہ جملہ ہو کر خبر ہے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ لباس التقوی، مبتداء محذوف کی خبر ہے، ای ھو الباس التقویٰ ، ای ستر العورۃ لباس التقویٰ ، اس کے بعد فرمایا ذلک خیرٌ۔
قولہ : فِیْہ اِلْتِفَاتٌ، یعنی ظاہر کا تقاضہ لعلکم تذکرون تھا، مگر کلام میں دفع ثقل کیلئے حاضر سے غیبت کی جانب التفات کیا۔
قولہ : یُنزع حال یہ حال حکائی ہے، جو تمہارے والدین کی حالت سابقہ کو بیان کر رہا ہے، اسلئے کہ نزع لباس اخراج سے پہلے تھا، مطلب یہ ہے کہ ینزع ابویکم سے حال ہے نہ کہ صفت، کیونکہ ینزع جملہ نکرہ ہونے کی وجہ سے ابویکم کی صفت واقع نہیں ہوسکتا اسلئے ابویکم سے حال قرار دیا گیا۔
قولہ : عَلیٰ مَعْنَی الْقِسْطِ اسی قسط کے محل پر عطف ہے لہٰذا عطف جملہ علی المفرد کا اعتراض واقع نہ ہوگا۔
قولہ : ما یَسْتُرُ عَوْرَتَکُم یعنی حال بول کر محل مراد ہے لہٰذا اب یہ شبہ نہیں ہوگا کہ اخذ زینت ممکن نہیں ہے۔
قولہ : عِنْدَ الصَلٰوۃِ ، اس میں اشارہ ہے کہ مسجد بول کر ما یفعل فی المسجد مراد ہے یعنی حال بول کر محل مراد ہے۔
تفسیر و تشریح
یا بنی آدم قد انزلنا علکم لباسا یواری سواتکم وریشا و لباس التقوی۔
ربط آیات : اس سے پہلے رکوع میں حضرت آدم (علیہ السلام) اور شیطان رجیم کا واقعہ بیان فرمایا گیا تھا، جس میں اغواء شیطانی کا پہلا اثریہ بیان کہ آدم و حواء کا جتنی لباس اتر گیا اور وہ ننگے رہ گئے، اور پتوں سے اپنے ستر کو چھپانے لگے زیر تفسیر آیات میں حق تعالیٰ شانہ نے تمام اولاد آدم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ لباس قدرت کی ایک عظیم نعمت ہے اس کی قدر کرو، اس میں اشارہ ہے کہ ستر پوشی انسان کی فطری ضرورت ہے۔
مذکورہ آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے تین قسموں کے لباس کا ذکر فرمایا ہے، لباس ضرورت، لباسؔ زینت، لباسؔ آخرت، (یعنی لباس تقوی) لباس ضرورت کے بارے میں فرمایا ” لِبَاسًا یُوَارِیْ سَوْاتکم “ سَوْآت سَوْءَۃٌ کی جمع ہے ان اعضاء انسانی کو کہا جاتا ہے جن کو انسان فطرۃً چھپانے کی کوشش کرتا ہے اور ظاہر ہونے پر برا اور قابل شرم سمجھتا ہے دوسرے قسم کے لباس یعنی لباس زینت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا وریشًا، ریش اس لباس کو کہا جاتا ہے جس کو انسان زیب وزینت اور تجمیل کے طور پر استعمال کرتا ہے، مطلب یہ ہے کہ صرف ستر پوشی کیلئے تو مختصر سا لباس کافی ہوتا ہے مگر ہم نے تمہیں اس سے زیادہ لباس اسلئے عطا کیا کہ تم اس کے ذریعہ زینت و تجمل حاصل کرو ساتھ ہی ساتھ سردی و گرمی سے بچاؤ اور حفاظت کا ذریعہ بھی ہو، اور ہیئت بھی شائستہ اور پر وقار بنا سکو، یہاں انزلنا کا لفظ استعمال ہوا ہے مراد عطا کرنا ہے اور لباس تیار کرنے کی سمجھ عطا کرنا ہے، یا اس لئے انزلنا فرمایا کہ لباس کا خام مادہ آسمان سے نازل ہونے والی بارش ہی سے تیار ہوتا ہے اس میں سبب بول کر مسبب مراد ہے اول قسم کے لباس کو مقدم بیان کرکے اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ لباس کا اصل مقصد ستر پوشی ہے اور یہی اس کا عام جانوروں سے امتیاز ہے۔
اغواءِ شیطانی کے بیان کے بعد لباس کا ذکر کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ انسان کیلئے ننگا ہونا اور اعضاء مستورہ کا دوسروں کے سامنے کھلنا انتہائی ذلت و رسوائی اور بےحیائی کی علامت اور قسم قسم کے شرو فساد کا مقدمہ ہے۔
انسان پر شیطان کا پہلا حملہ اس کو ننگا کرنے کی صورت میں ہوا : یہی وجہ ہے کہ شیطان کا انسان پر سب سے پہلا حملہ اسی راہ سے ہوا کہ اس کا لباس اتر گیا، اور آج بھی شیطان اپنے شاگردوں کے ذریعہ جب انسان کو گمراہ کرنا چاہتا ہے تو تہذیب و شائستگی کا نام لے کر سب سے پہلے اس کو برہنہ یا نیم برہنہ کرکے سڑکوں اور گلیوں میں کھڑا کردیتا ہے، اور شیطان نے جس کا نام ترقی رکھ دیا ہے وہ تو عورت کو شرم و حیاء سے محروم کرکے منظر عام پر برہنہ یا نیم برہنہ حالت میں لے آنے کے بغیر حاصل ہی نہیں ہوتا۔ (معارف)
لباس کی تیسری قسم : جس کو قرآن حکیم نے لباس التقویٰ سے تعبیر کیا ہے بعض قراءتوں میں لباس کے فتحہ کے ساتھ ہے اس صورت میں انزلنا کے تحت داخل ہو کر منصوب ہوگا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے ایک تیسرا لباس تقویٰ کا اتارا ہے لباس کے ضمہ کے ساتھ جو مشہور قراءت ہے اس قراءت کی رو سے معنی یہ ہوں گے کہ دو لباسوں کو تو سب جانتے ہیں ایک تیسرا لباس تقویٰ ہے اور یہ سب لباسوں سے بہتر لباس ہے، لباس تقویٰ سے مراد حضرت ابن عباس (رض) کی تفسیر کے مطابق عمل صالح اور خوف خدا ہے۔ (روح) لباس التقویٰ کے لفظ سے اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ظاہری لباس کے ذریعہ ستر پوشی اور زینت و تحمل سب کا اصل مقصد تقویٰ اور خوف خدا ہے جس کا ظہور اس کے لباس میں بھی اس طرح ہونا چاہیے کہ اس میں پوری ستر پوشی ہو اور لباس بدن پر ایسا چست بھی نہ ہو کہ جس میں اعضاء کی ساخت مثل ننگے کے صاف نظر آئے، نیز اس لباس پر فخر و غرور کا انداز بھی نہ ہو کہ لوگ انگشت نمائی کریں، بلکہ تواضع کے آثار نمایاں ہوں نیز اسراف بےجا بھی نہ ہو، عورتوں کو مردانہ اور مردوں کو زنانہ کپڑا پہننا بھی مبغوض ہے، لباس میں کسی قسم کے مخصوص لباس کی نقلی بھی نہ ہو کہ جس میں تشبہ لازم آئے اسلئے کہ یہ ملت سے اعراض اور غداری کی علامت ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
بنا بریں فرمایا : ﴿وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ ۚ ﴾”اور جو تقویٰ کا لباس ہے وہ سب سے اچھا ہے۔“ یعنی تقویٰ کا لباس، حسی لباس سے بہتر ہے۔ کیونکہ لباس تقویٰ بندے کے ساتھ ہمیشہ رہتا ہے کبھی پرانا اور بوسیدہ نہیں ہوتا اور لباس تقویٰ قلب و روح کا جمال ہے۔ رہا حسی اور ظاہری لباس تو اس کی انتہا ہے کہ یہ ایک محدود وقت کے لئے ظاہری ستر کو ڈھانپتا ہے یا انسان کے لئے خوبصورتی کا باعث بنتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اس کا اور کوئی فائدہ نہیں۔ نیز فرض کیا یہ لباس موجود نہیں تب زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ اس کا ظاہری ستر منکشف ہوجائے گا جس کا اضطراری حالت میں منکشف ہونا نقصان دہ نہیں اور اگر لباس تقویٰ معدوم ہوجائے تو باطنی ستر کھل جائے گا اور اسے رسوائی اور فضیحت کا سامنا کرناپڑے گا۔
﴿ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّـهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ ﴾ ” یہ نشانیاں ہیں اللہ کی قدرت کی، تاکہ وہ غور کریں“ یعنی یہ مذکورہ لباس جس سے تم ایسی چیزوں کو یاد کرتے ہو جو تمہیں نفع و نقصان دیتی ہیں اور اس ظاہری لباس سے تم اپنے باطن کی ستر پوشی میں مدد لیتے ہو۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey Adam kay beto aur betiyo ! hum ney tumharay liye libas nazil kiya hai jo tumharay jism kay unn hisson ko chupa sakay jinn ka kholna bura hai , aur jo khushnumai ka zariya bhi hai . aur taqwa ka jo libas hai woh sabb say behtar hai . yeh sabb Allah ki nishaniyon ka hissa hai , jinn ka maqsad yeh hai kay log sabaq hasil keren .
12 Tafsir Ibn Kathir
لباس اور داڑھی جمال و جلال
یہاں اللہ تعالیٰ اپنا احسان یاد دلاتا ہے کہ اس نے لباس اتارا اور ریش بھی۔ لباس تو وہ ہے جس سے انسان اپنا ستر چھپائے اور ریش وہ ہے جو بطور زینت رونق اور جمال کے پہنا جائے۔ اول تو ضروریات زندگی سے ہے اور ثانی زیادتی ہے۔ ریش کے معنی مال کے بھی ہیں اور ظاہری پوشاک کے بھی ہیں اور جمال و خوش لباسی کے بھی ہیں۔ حضرت ابو امامہ (رض) نے نیا کرتہ پہنتے ہوئے جبکہ گلے تک وہ پہن لیا فرمایا دعا (الحمد اللہ الذی کسانی ما اواری بہ عورتی و اتجمل بہ فی حیاتی) پھر فرمانے لگے میں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) سے سنا ہے فرماتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے جو شخص نیا کپڑا پہنے اور اس کے گلے تک پہنچتے ہی یہ دعا پڑھے پھر پرانا کپڑا راہ للہ دے دے تو وہ اللہ کے ذمہ میں، اللہ کی پناہ میں اور اللہ کی حفاظت میں آجاتا ہے زندگی میں بھی اور بعد از مرگ بھی (ترمذی ابن ماجہ وغیرہ) مسند احمد میں ہے حضرت علی نے ایک نوجوان سے ایک کرتہ تین درہم کو خریدا اور اسے پہنا جب پہنچوں اور ٹخنوں تک پہنچا تو آپ نے یہ دعا پڑھی (الحمد اللہ الذی رزقنی من ریاش ما اتجمل بہ فی الناس واواری بہ عورتی) یہ دعا سن کر آپ سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ نے اسے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ آپ اسے کپڑا پہننے کے وقت پڑھتے تھے یا آپ از خود اسے پڑھ رہے ہیں ؟ فرمایا میں نے اسے حضور سے سنا ہے لباس التقوی کی دوسری قرأت لباس التقوی سین کے زبر سے بھی ہے۔ رفع سے پڑھنے والے اسے مبتدا کہتے ہیں اور اس کے بعد کا جملہ اس کی خبر ہے عکرمہ فرماتے ہیں اس سے مراد قیامت کے دن پرہیزگاروں کو جو لباس عطا ہوگا وہ ہے۔ ابن جریج کا قول ہے لباس تقوی ایمان ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں عمل صالح ہے اور اسی سے ہنس مکھ ہوتا ہے، عروہ کہتے ہیں مراد اس سے مشیت ربانی ہے۔ عبدالرحمن کہتے ہیں اللہ کے ڈر سے اپنی ستر پوشی کرنا لباس تقویٰ ہے۔ یہ کل اقوال آپس میں ایک دوسرے کے خلاف نہیں بلکہ مراد یہ سب کچھ ہے اور یہ سب چیزیں ملی جلی اور باہم یک دیگر قریب قریب ہیں۔ ایک ضعیف سند والی روایت میں حضرت حسن سے مرقوم ہے کہ میں نے حضرت عثمان بن عفان (رض) کو منبر نبوی پر کھلی گھنڈیوں کا کرتا پہنے ہوئے کھڑا دیکھا اس وقت آپ کتوں کے مار ڈالنے اور کبوتر بازی کی ممانعت کا حکم دے رہے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا لوگو اللہ سے ڈرو خصوصاً اپنی پوشیدگیوں میں اور چپکے چپکے کانا پھوسی کرنے میں۔ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے آپ قسم کھا کر بیان فرماتے تھے کہ جو شخص جس کام کو پوشیدہ سے پوشیدہ کرے گا اللہ تعالیٰ اسی کی چادر اس پر علانیہ ڈال دے گا اگر نیک ہے تو نیک اور اگر بد ہے تو بد۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی اور فرمایا اس سے مراد خوش خلقی ہے۔ ہاں صحیح حدیث میں صرف اتنا مروی ہے کہ حضرت عثمان نے جمعہ کے دن منبر پر کتوں کے قتل کرنے اور کبوتروں کے ذبح کرنے کا حکم دیا۔