الاعراف آية ۷۳
وَاِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا ۘ قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوْا اللّٰهَ مَا لَـكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ ۗ قَدْ جَاۤءَتْكُمْ بَيِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ ۗ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَـكُمْ اٰيَةً فَذَرُوْهَا تَأْكُلْ فِىْۤ اَرْضِ اللّٰهِ وَلَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْۤءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ اَ لِيْمٌ
طاہر القادری:
اور (قومِ) ثمود کی طرف ان کے (قومی) بھائی صالح (علیہ السلام) کو (بھیجا)، انہوں نے کہا: اے میری قوم! اﷲ کی عبادت کیا کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل آگئی ہے۔ یہ اﷲ کی اونٹنی تمہارے لئے نشانی ہے، سو تم اسے (آزاد) چھوڑے رکھنا کہ اﷲ کی زمین میں چَرتی رہے اور اسے برائی (کے ارادے) سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ تمہیں دردناک عذاب آپکڑے گا،
English Sahih:
And to the Thamud [We sent] their brother Saleh. He said, "O my people, worship Allah; you have no deity other than Him. There has come to you clear evidence from your Lord. This is the she-camel of Allah [sent] to you as a sign. So leave her to eat within Allah's land and do not touch her with harm, lest there seize you a painful punishment.
1 Abul A'ala Maududi
اور ثمود کی طرف ہم نے اُن کے بھائی صالحؑ کو بھیجا اس نے کہا "اے برادران قوم، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے تمہارے پاس تمہارے رب کی کھلی دلیل آ گئی ہے یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے ایک نشانی کے طور پر ہے، لہٰذا اسے چھوڑ دو کہ خدا کی زمین میں چرتی پھرے اس کو کسی برے ارادے سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ ایک درد ناک عذاب تمہیں آ لے گا
2 Ahmed Raza Khan
اور ثمود کی طرف ان کی برادری سے صالح کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی یہ اللہ کا ناقہ ہے تمہارے لیے نشانی، تو اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھائے اور اسے برائی سے ہاتھ نہ لگاؤ کہ تمہیں درد ناک عذاب آئے گا،
3 Ahmed Ali
اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا فرمایا اے میری قوم الله کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تمہیں تمہراے رب کی طرف سے دلیل پہنچ چکی ہے یہ الله کی اونٹنی تمہارے لیے نشانی ہے سو اسے چھوڑ دو کہ الله کی زمین میں کھائے اور اسے بری طرح سے ہاتھ نہ لگاؤ ورنہ تمہیں دردناک عذاب پکڑے گا
4 Ahsanul Bayan
اور ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح (علیہ السلام) کو بھیجا (١) انہوں نے فرمایا اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں۔ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک واضح دلیل آچکی ہے یہ اونٹنی ہے اللہ کی جو تمہارے لئے دلیل ہے سو اس کو چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھاتی پھرے اور اسکو برائی کے ساتھ ہاتھ بھی مت لگانا کہ کہیں تم کو دردناک عذاب آ پکڑے۔
٧٣۔١ یہ ثمود، حجاز اور شام کے درمیان وادی القریٰ میں رہائش پذیر تھے ٩ ہجری میں تبوک جاتے ہوئے رسول اللہ اور آپ کے صحابہ کا ان کے مساکن اور وادی سے گزر ہوا، جس پر آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ معذب قوموں کے علاقے سے گزرو تو روتے ہوئے، یعنی عذاب الٰہی سے پناہ مانگتے ہوئے گزرو (صحیح بخاری) ان کی طرف حضرت صالح علیہ السلام نبی بنا کر بھیجے گئے۔ یہ عاد کے بعد کا واقعہ ہے۔ انہوں نے اپنے پیغمبر سے مطالبہ کیا کہ پتھر کی چٹان سے ایک اونٹنی نکال کر دکھا، جسے ہم نکلتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ حضرت صالح علیہ السلام نے ان سے عہد لیا کہ اس کے بعد اگر ایمان نہ لائے تو وہ ہلاک کر دیئے جائیں گے۔ چنانچہ اللہ تعالٰی نے ان کے مطالبے پر اونٹنی ظاہر فرما دی۔ اس اونٹنی کے متعلق انہیں تاکید کر دی گئی کہ اسے بری نیت سے کوئی ہاتھ نہ لگائے ورنہ عذاب الٰہی کی گرفت میں آجاؤ گے۔ لیکن ان ظالموں نے اس اونٹنی کو بھی قتل کر ڈالا، جس کے تین دن بعد انہیں چنگھاڑ (صَیْحَۃ، سخت چیخ اور رَجْفَۃ، زلزلہ) کے عذاب سے ہلاک کر دیا گیا، جس سے وہ اپنے گھروں میں اوندھے کے اوندھے پڑے رہ گئے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا۔ (تو) صالح نے کہا کہ اے قوم! خدا ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک معجزہ آ چکا ہے۔ (یعنی) یہی خدا کی اونٹنی تمہارے لیے معجزہ ہے۔ تو اسے (آزاد) چھوڑ دو کہ خدا کی زمین میں چرتی پھرے اور تم اسے بری نیت سے ہاتھ بھی نہ لگانا۔ ورنہ عذابِ الیم میں تمہیں پکڑ لے گا
6 Muhammad Junagarhi
اور ہم نے ﺛمود کی طرف ان کے بھائی صالح (علیہ السلام) کو بھیجا۔ انہوں نے فرمایا اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں۔ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک واضح دلیل آچکی ہے۔ یہ اونٹنی ہے اللہ کی جو تمہارے لئے دلیل ہے سو اس کو چھوڑ دو کہ اللہ تعالیٰ کی زمین میں کھاتی پھرے اور اس کو برائی کے ساتھ ہاتھ بھی مت لگانا کہ کہیں تم کو دردناک عذاب آپکڑے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور قومِ ثمود کی طرف ان کے (قومی) بھائی صالح کو بھیجا۔ انہوں نے کہا اے میری قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارے پروردگار کی طرف سے (میری صداقت کا) ایک خاص معجزہ آچکا ہے جو یہ اللہ کی خاص اونٹنی ہے جو تمہارے لئے ایک (قدرتی) نشانی (معجزہ) ہے اسے کھلا چھوڑ دو کہ خدا کی زمین میں چَرتی پھرے۔ اور (خبردار) اسے برے ارادے سے ہاتھ نہ لگانا (اسے تکلیف نہ پہنچانا) ورنہ دردناک عذاب تمہیں اپنی گرفت میں لے لے گا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہم نے قوم ثمود علیھ السّلام کی طرف ان کے بھائی صالح علیھ السّلامکو بھیجا تو انہوں نے کہا کہ اے قوم والو اللہ کی عبادت کرو کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے -تمہارے پاس پروردگار کی طرف سے دلیل آچکی ہے -یہ خدائی ناقہ ہے جو تمہارے لئے اس کی نشانی ہے -اسے آزاد چھوڑ دو کہ زمینِ خدا میں کھاتا پھرے اور خبردار اسے کوئی تکلیف نہ پہنچانا کہ تم کو عذاب الیم اپنی گرفت میں لے لے
9 Tafsir Jalalayn
اور قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا تو صالح نے کہا اے قوم ! خدا کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک معجزہ آچکا ہے یعنی یہی خدا کی اونٹی تمہارے لئے معجزہ ہے۔ تو اسے آزاد چھوڑ دو کہ خدا کی زمین میں چرتی پھرے اور تم اسے بری نیت سے ہاتھ بھی نہ لگانا ورنہ عذاب الیم تم کو پکڑلے گا۔
آیت نمبر ٧٣ تا ٨٤
ترجمہ : اور ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا، اگر قبیلہ کا نام ہو تو غیر منصرف ہے، انہوں نے فرمایا اے میری قوم تم اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، میری صداقت پر تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے واضح دلیل، معجزہ، آچکی ہے، یہ اونٹنی ہے اللہ کی (آیۃً ) حال ہے اس کا عامل اسم اشارہ کا معنی (اشیرُ ) ہے انہوں نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے ایک خاص پتھر (چٹان) سے جس کو انہوں نے متعین کیا تھا (اونٹنی) نکالنے کا مطالبہ کیا تھا، سو اس کو چھوڑ دو اللہ کی زمین میں کھاتی پھرے بری نیت قتل و ضرب کے ارادہ سے اس کو ہاتھ بھی نہ لگانا، ایسا نہ ہو کہ کہیں تمہیں دردناک عذاب آپکڑے اور تم اس وقت کو یاد کرو کہ جب تم کو عاد کے بعد زمین کا مالک بنایا تھا اور تم کو زمین پر رہنے کا ٹھکانہ دیا تھا تو اس کی ہموار زمین میں تم شاندار محل بناتے تھے گرمی کے موسم میں تم ان میں رہائش پذیر ہوتے تھے اور پہاڑوں کو تراش کو مکانات بناتے تھے کہ موسم سرما میں تم ان میں سکونت اختیار کرتے تھے، (بیوتًا) حال مقدرہ کے طور ہر منصوب ہے سو اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو اس کی زمین میں فساد برپا مت کرو، ان کی قوم کے متکبر سرداروں نے جنہوں نے صالح (علیہ السلام) پر ایمان کے مقابلہ میں تکبر کیا کمزور طبقے کے ان لوگوں سے پوچھا جو ایمان لے آئے تھے (آمَنَ منھم) اعادہ جاد کے ساتھ، ما قبل یعنی للّذِیْنَ استضعفوا سے بدل ہے کیا تم واقعہ یہ جانتے ہو کہ صالح (علیہ السلام) تمہاری طرف اپنے رب کا پیغمبر ہے ؟ انہوں نے جواب دیا بیشک جس پیغام کے ساتھ اسے بھیجا گیا ہے اس پر ہم ایمان رکھتے ہیں، تکبر کرنے والوں نے کہا جس کو تم نے مانا ہے ہم اس کے منکر ہیں، اور یہ اس لئے کہ ایک دن اونٹنی کے پانی کی باری تھی اور ایک دن ان کے (جانوروں) کیلئے تھا وہ اس سے تنگ آگئے، تو انہوں نے اس اونٹنی کو مار ڈالا، قوم کے کہنے سے قدار نامی شخص نے اس کو مار ڈالا، یعنی اس کو تلوار سے قتل کردیا، اور پوری سرکشی کے ساتھ اپنے رب کے حکم کی خلاف ورزی کی اور صالح (علیہ السلام) سے کہہ دیا کہ اے صالح اس کے قتل پر تم جس عذاب کی دھمکی دیتے ہو اسے لے آؤ، اگر تم واقعی پیغمبروں میں سے ہو، آخر کار ان کو ایک دھلا دینے والے زمینی شدید زلزلے اور آسمانی چیخ نے انھیں آدپوچا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے کے پڑے رہ گئے یعنی گھٹنوں کے بل مردہ ہوکر، اور صالح (علیہ السلام) ان کی بستی سے یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ اے میری قوم، میں نے اپنے رب کا پیغام تمہیں پہنچا دیا اور میں نے تمہاری بہت خیر خواہی کی لیکن تم خیر خواہوں کا پسند نہیں کرتے، اور لوط (علیہ السلام) کا ذکر کرو کہ ہم نے ان کو پیغمبر بنا کر بھیجا اذکر لوطا سے اذقال، بدل ہے اور اس بات کو یاد کرو جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کیا تم ایسے بےحیائی کے کام کرتے ہو یعنی مردوں سے ہم جنسی کرتے ہو، کہ جو دنیا میں تم سے پہلے جن و انس میں سے کسی نے نہیں کیا کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے شہوت پوری کرتے ہو (ء اِنَّکم) میں دونوں ہمزوں کی تحقیق اور دوسرے کی تسہیل کے ساتھ اور دونوں کے درمیان دونوں صورتوں میں الف داخل کرکے، حقیقت یہ ہے کہ تم حلال سے حرام کی طرف تجاوز کرکے حد سے گذرنے والے لوگ ہو، ان کی قوم کے پاس اس کے علاوہ کوئی جواب نہیں تھا کہ انہوں نے کہہ دیا کہ ان کو (یعنی) لوط کو اور اس کی اتباع کرنے والوں کو اپنی بستی سے نکال دو یہ مردوں سے ہم جنسی کے بارے میں پاکباز بنتے ہیں، بالآخر ہم نے لوط (علیہ السلام) کو اور ان کے گھروں کو بجز اس کی بیوی کے کہ وہ پیچھے رہنے والوں میں تھی، بچا کر نکال دیا (یعنی) وہ عذاب میں پھنسنے والوں میں تھی، پھر ہم نے ان کے اوپر ایک خاص قسم کی بارش برسائی کہ وہ کنکر ملے پتھر تھے چناچہ ان کے ذریعہ ان کو ہلاک کردیا سو غور کرو کہ ان مجرموں کا کیسا انجام ہوا ! !۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : والی ثَمُوْدَ اخاھم صالحًا، اس کا عطف ما قبل پر عطف قصہ علی القصہ کے قبیل سے ہے، ثمود ایک قبیلہ کا نام جو ان کے جد اکبر کے نام پر ہے اسی وجہ سے ثمود غیر منصرف ہے، ان کا نسب اس طرح ہے، ثمود بن عاد بن ارم بن شالخ بن أرفخشذ بن سام بن نوح، صالح، اخاھم کا عطف بیان ہے حضرت صالح کا شجرہ نسب اس طرح ہے صالح بن عبید بن أسف بن ماشح بن عبید بنحاذر بن ثمود، جن لوگوں نے ثمود قبیلہ کا نام قرار دیا ہے انہوں نے اس کو علمیت اور تانیث کی وجہ سے غیر منصرف پڑھا ہے اور جن لوگوں نے شخص کا نام کہا ہے وہ اس کو منصرف کہتے ہیں۔
قولہ : ھٰذِہِ نَاقَۃُ اللہ، جملہ مستانفہ ہے مقصد معجزہ کی کیفیت کو بیان کرنا ہے، گویا کہ کہا گیا ما ھٰذہ البینۃ، جواب دیا ھذہ ناقۃ اللہ۔
قولہ ؛ حالٌ عَامِلُھا معنی الاشارۃ آیۃً ، ناقۃ، سے حال ہے اس کا عامل ھذہ اشیر کے معنی میں ہو کر ہے۔
قولہ : سُھولھا، سھول سَھْلٌ کی جمع ہے نرم زمین کو کہتے ہیں۔
قولہ : نَصْبُہ عَلَی الحالِ المُقَدَّرَۃِ ، بیوتًا، تنحتون سے حال مقدرہ ہے، یعنی تم پہاڑوں کو اسلئے تراشتے ہو کہ تمہارے لئے ان میں رہنا مقدر ہوچکا ہے، اسلئے تراشنا سکونت اختیار کرنے پر مقدم ہے، حالانکہ حال و ذوالحال کا زمانہ ایک ہوتا ہے۔
قولہ : تعثَوْا، (س) عِثِیٌّ اور عُثِیٌّ، سے جمع مذکر حاضر تم فساد کرو۔ قولہ : الملأُ ، اسم جمع معرف باللام (ج) املاَءُ سردار، بڑے لوگ۔
قولہ : باَمْرِھِمْ ، یہ اضافہ اس سوال کا جواب ہے کہ قتل کرنے اولا قدار نامی ایک شخص تھا اور عقروا میں قتل کی نسبت پوری قوم کی طرف ہے کہ یہ اسناد مجازی ہے قدار کے قتل سے چونکہ پوری قوم متفق تھی اسلئے پوری قوم کی طرف قتل کی نسبت کردی گئی ہے۔
قولہ : ھو حِجَارَۃُ السِّجِّیْل، وہ پتھر جس میں قدرے مٹی کو آمیزش ہو، جس کو کنکر کہتے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ سنگ گل کا معرب ہے۔
تفسیر و تشریح
وَاِلیٰ ثمود اخاھم صالحا، قوم ثمود حجاز اور شام کے درمیان وادی القریٰ میں رہائش پذیر تھی ٩ ھ میں تبوک جاتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کا اس وادی سے گذر ہوا تھا جس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ سے فرمایا تھا، معذب قوموں کے علاقہ سے جب گذرو تو روتے ہوئے گذرو (بخاری) قوم ثمود کی طرف حضرت صالح (علیہ السلام) کو رسول بنا کر بھیجا گیا تھا، اس قوم کو عاد ثانیہ کہا جاتا ہے دراصل قوم عاد ثانیہ اور اولیٰ ارم ہی کی دو شاخیں ہیں یہ قوم بھی عرب کی قدیم ترین قوموں میں سے ہے جو عاد کے بعد سب سے زیادہ مشہور ہے، زمانہ جاہلیت کے اشعار اور خطبوں میں اس قوم کا نام ملتا ہے ایسریا کے کتبات اور یونان، اسکندیہ، اور روم کے قدیم مؤرخین اور جغرافیہ نویس بھی اس کا ذکر کرتے ہیں۔ اس قوم کا مسکن شمالی مغربی عرب کا وہ علاقہ تھا جو آج بھی الحجر کے نام سے معلوم ہے موجودہ زمانہ میں مدینہ اور تبوک کے درمیان حجاز ریلوے پر ایک اسٹیشن پڑتا ہے جسے مدائن صالح کہتے ہیں یہی ثمود کا صدر مقام تھا اور قدیم زمانہ میں حجر کہلاتا تھا، اب تک وہاں ہزاروں ایکڑ رقبے میں وہ سنگین (پتھر کی) عمارتیں موجود ہیں جن کو ثمود کے لوگوں نے پہاڑوں میں تراش تراش کر بنایا تھا، اب بھی اس شہر خموشاں کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کسی زمانہ میں اس شہر خموشاں کی آبادی چار پانچ لاکھ سے کم نہ ہوگی، نزول قرآن کے زمانہ میں حجاز کے تجارتی قافلے ان آثار قدیمہ کے درمیان سے گزرا کرتے تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی جب اس شہر خموشاں سے گزرے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو یہ آثار عبرت دکھائے، ایک جگہ آپ نے ایک کنویں کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا کہ یہی وہ کنواں ہے کہ جہاں حضرت صالح علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی اونٹنی پانی پیا کرتی تھی، ایک پہاڑی درّے کو دکھا کر آپ نے فرمایا کہ اسی درّے سے وہ اونٹنی پانی پینے کے لئے آتی تھی چناچہ وہ مقام آج بھی فج الناقہ کے نام سے مشہور ہے، جو لوگ ان کھنڈروں میں سیر کرتے پھر رہے تھے آپ نے ان کو جمع فرمایا اور ان کے سامنے ایک خطبہ دیا جس میں ثمود کے انجام پر عبرت دلائی اور فرمایا کہ یہ اس قوم کا علاقہ ہے جس پر خدا کا عذاب نازل ہوا تھا، لہٰذا یہاں سے جلدی گزر جاؤ یہ سیر گاہ نہیں ہے بلکہ رونے کا مقام ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿ وَإِلَىٰ ثَمُودَ﴾ ” اور ثمود کی طرف“ ثمود قدیم عربوں کا معروف قبیلہ تھا جو جزیرۃ العرب اور ارض حجاز میں حجر اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں آباد تھا ﴿أَخَاهُمْ صَالِحًا﴾ اللہ تعالیٰ نے صالح علیہ السلام کو نبی بنا کر ان کی طرف مبعوث کیا جو انہیں توحید اور ایمان کی دعوت دیتے تھے اور انہیں شرک اور اللہ تعالیٰ کے ہمسر گھڑنے سے روکتے تھے۔﴿قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّـهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُ﴾” انہوں نے کہا : اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔“ صالح کی دعوت بھی وہی تھی جو ان کے بھائی دیگر انبیا و مرسلین کی دعوت تھی یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دینا اور یہ واضح کردینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا بندوں کا کوئی الٰہ نہیں﴿قَدْ جَاءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ﴾ ” تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک معجزہ آچکا ہے۔“ یعنی ایک خارق عادت دلیل تمہارے پاس آگئی ہے جو آسمانی معجزہ ہے اور انسان اس قسم کی نشانی پیش کرنے پر قادر نہیں۔ پھر اس کی تفسیر بیان کرتے فرمایا : ﴿هَـٰذِهِ نَاقَةُ اللَّـهِ لَكُمْ آيَةً﴾ ” یہی اللہ کی اونٹنی تمہارے لئے معجزہ ہے۔“ یہ شرف و فضل کی حامل اونٹنی ہے کیونکہ اللہ کی طرف اس کی اضافت اس کے شرف کی باعث ہے اور اس میں تمہارے لئے ایک عظیم نشانی ہے۔ صالح علیہ السلام نے اس اونٹنی کے معجزہ ہونے کی وجہ بیان فرمائی : ﴿لَّهَا شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَّعْلُومٍ﴾ (الشعراء :26؍ 155) ” ایک دن اس کے پانی پینے کی باری ہے اور ایک مقررہ دن تمہارے پانی پینے کی باری ہے“ ان کے ہاں ایک بہت بڑا کنواں تھا جو ” اونٹنی والا کنواں“ کے نام سے معروف تھا۔ اسی کنوئیں سے وہ اور اونٹنی اپنی اپنی باری کے مطابق پانی پیتے تھے۔ ایک دن اونٹنی کے پانی پینے کے لئے مقرر تھا۔ وہ اس اونٹنی کے تھنوں سے دودھ پیتے تھے۔ ایک دن لوگوں کے لئے مقرر تھا، اس دن وہ کنوئیں پر پانی لینے کی غرض سے آتے، تو اونٹنی وہاں سے چلی جاتی۔ ان کے نبی صالح علیہ السلام نے ان سے کہا : ﴿فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللَّـهِ ﴾ ” پس اس کو چھوڑ دو کہ کھائے اللہ کی زمین میں“ تم پر اس اونٹنی کا کچھ بھی بوجھ اور ذمہ داری نہیں ﴿وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ ﴾ اور نہ ہاتھ لگاؤ اس کو بری طرح“ یعنی اس کی کونچیں وغیرہ کاٹنے کی نیت سے اسے مت چھونا ﴿ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ ” ورنہ تمہیں ایک درد ناک عذاب آ لے گا۔ “
11 Mufti Taqi Usmani
aur samood ki taraf hum ney unn kay bhai saleh ko bheja . unhon ney kaha : aey meri qoam kay logo ! Allah ki ibadat kero . uss kay siwa tumhara koi mabood nahi hai . tumharay paas tumharay rab ki taraf say aik roshan daleel aa-chuki hai . yeh Allah ki oontni hai jo tumharay liye aik nishani ban ker aai hai . iss liye iss ko azad chorr do kay woh Allah ki zameen mein charti phiray , aur issay kissi burai kay iraday say choona bhi nahi , kahen aisa naa ho kay tumhen aik dukh denay wala azab aa-pakray .
12 Tafsir Ibn Kathir
ثمود کی قوم اور اس کا عبرت ناک انجام
علمائے نسب نے بیان کیا ہے کہ ثمود بن عامر بن ارم بن سام بن نوح۔ یہ بھائی تھا جد بس بن عامر کا۔ اسی طرح قبیلہ طسم یہ سب خالص عرب تھے۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) سے پہلے ثمودی عادیوں کے بعد ہوئے ہیں ان کے شہر حجاز اور شام کے درمیان وادی القری اور اس کے اردگرد مشہور ہیں۔ سنہ\0\09ھ میں تبوک جاتے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی اجاڑ بستیوں میں سے گذرے تھے۔ مسند احمد میں ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبوک کے میدان میں اترے لوگوں نے ثمودیوں کے گھروں کے پاس ڈیرے ڈالے اور انہی کے کنوؤں کے پانی سے آٹے گوندھے ہانڈیاں چڑھائیں تو آپ نے حکم دیا کہ سب ہانڈیاں الٹ دی جائیں اور گندھے ہوئے آٹے اونٹوں کو کھلا دیئے جائیں۔ پھر فرمایا یہاں سے کوچ کرو اور اس کنوئیں کے پاس ٹھہرو جس سے حضرت صالح کی اونٹنی پانی پیتی تھی اور فرمایا آئندہ عذاب والی بستیوں میں پڑاؤ نہ کیا کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسی عذاب کے شکار تم بھی بن جاؤ۔ ایک روایت میں ہے کہ ان کی بستیوں سے روتے اور ڈرتے ہوئے گذرو کہ مبادا وہی عذاب تم پر آجائیں جو ان پر آئے تھے۔ اور روایت میں ہے کہ غزوہ تبوک میں لوگ بہ عجلت ہجر کے لوگوں کے گھروں کی طرف لپکے۔ آپ نے اسی وقت یہ آواز بلند کرنے کہا حدیث (الصلوۃ جامعتہ) جب لوگ جمع ہوگئے تو آپ نے فرمایا کہ ان لوگوں کے گھروں میں کیوں گھسے جا رہے ہو جن پر غضب الٰہی نازل ہوا۔ راوی حدیث ابو کبشہ فرماتے ہیں رسول اللہ کے ہاتھ میں ایک نیزہ تھا۔ میں نے یہ سن کر عرض کی کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم تو صرف تعجب کے طور پر انہیں دیکھنے چلے گئے تھے آپ نے فرمایا میں تمہیں اس سے بھی تعجب خیز چیز بتارہا ہوں تم میں سے ہی ایک شخص ہے جو تمہیں وہ چیز بتارہا ہے جو گذر چکیں اور وہ خبریں دے رہا ہے جو تمہارے سامنے ہیں اور جو تمہارے بعد ہونے والی ہیں پس تم ٹھیک ٹھاک رہو اور سیدھے چلے جاؤ تمہیں عذاب کرتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کو کوئی پرواہ نہیں یاد رکھو ایسے لوگ آئیں گے جو اپنی جانوں سے کسی چیز کو دفع نہ کرسکیں گے۔ حضرت ابو کبشہ کا نام عمر بن سعد ہے اور کہا گیا ہے کہ عامر بن سعد ہے واللہ اعلم۔ ایک روایت میں ہے کہ ہجر کی بستی کے پاس آتے ہی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا معجزے نہ طلب کرو دیکھو قوم صالح نے معجزہ طلب کیا جو ظاہر ہوا یعنی اونٹنی جو اس راستے سے آتی تھی اور اس راستے سے جاتی تھی لیکن ان لوگوں نے اپنے رب کے حکم سے سرتاب کی اور اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں ایک دن اونٹنی ان کا پانی پیتی تھی اور ایک دن یہ سب اس کا دودھ پیتے تھے اس اونٹنی کو مار ڈالنے پر ان پر ایک چیخ آئی اور یہ جتنے بھی تھے سب کے سب ڈھیر ہوگئے۔ بجز اس ایک شخص کے جو حرم شریف میں تھا لوگوں نے پوچھا اس کا نام کیا تھا ؟ فرمایا ابو غال یہ بھی جب حد حرم سے باہر آیا تو اسے بھی وہی عذاب ہوا۔ یہ حدیث صحاح ستہ میں تو نہیں لیکن ہے مسلم شریف کی شرط پر۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ ثمودی قبیلے کی طرف سے ان کے بھائی حضرت صالح (علیہ السلام) کو نبی بنا کر بھیجا گیا۔ تمام نبیوں کی طرح آپ نے بھی اپنی امت کو سب سے پہلے توحید الٰہی سکھائی کہ فقط اس کی عبادت کریں اس کے سوا اور کوئی لائق عبادت نہیں۔ اللہ کا فرمان ہے جتنے بھی رسول آئے سب کی طرف یہی وحی کی جاتی رہی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، صرف میری ہی عبادت کرو اور ارشاد ہے ہم نے ہر امت میں رسول بھیجے کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سوا اوروں کی عبادت سے بچو۔ حضرت صالح فرماتے ہیں لوگوں تمہارے پاس دلیل الٰہی آچکی جس میں میری سچائی ظاہر ہے۔ ان لوگوں نے حضرت صالح سے یہ معجزہ طلب کیا تھا کہ ایک سنگلاخ چٹان جو ان کی بستی کے ایک کنارے پڑی تھی جس کا نام کاتبہ تھا اس سے آپ ایک اونٹنی نکلایں جو گابھن ہو (دودھ دینے والی اونٹنی جو دس ماہ کی حاملہ ہو) حضرت صالح نے ان سے فرمایا کہ اگر ایسا ہوجائے تو تم ایمان قبول کر لوگے ؟ انہوں نے پختہ وعدے کئے اور مضبوط عہد و پیمان کئے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے نماز پڑھی دعا کی ان سب کے دیکھتے ہی چٹان نے ہلنا شروع کیا اور چٹخ گئی اس کے بیچ سے ایک اونٹنی نمودار ہوئی۔ اسے دیکھتے ہی ان کے سردار جندع بن عمرو نے تو اسلام قبول کرلیا اور اس کے ساتھیوں نے بھی۔ باقی جو اور سردار تھے وہ ایمان لانے کیلئے تیار تھے مگر ذواب بن عمرو بن لبید نے اور حباب نے جو بتوں کا مجاور تھا اور رباب بن ہمر بن جلمس وغیرہ نے انہیں روک دیا۔ حضرت جندع کا بھتیجا شہاب نامی تھا یہ ثمودیوں کا بڑا عالم فاضل اور شریف شخص تھا اس نے بھی ایمان لانے کا ارادہ کرلیا تھا لیکن انہی بدبختوں نے اسے بھی روکا جس پر ایک مومن ثمودی مہوش بن غنمہ نے کہا کہ آل عمرو نے شہاب کو دین حق کی دعوت دی قریب تھا کہ وہ مشرف باسلام ہوجائے اور اگر ہوجاتا تو اس کی عزت سیوا ہوجاتی مگر بدبختوں نے اسے روک دیا اور نیکی سے ہٹا کر بدی پر لگا دیا۔ اس حاملہ اونٹنی کو اس وقت بچہ ہوا ایک مدت تک دونوں ان میں رہے۔ ایک دن اونٹنی ان کا پانی پیتی۔ اس دن اس قدر دودھ دیتی کہ یہ لوگ اپنے سب برتن بھر لیتے جیسے قرآن میں ہے آیت ( وَنَبِّئْهُمْ اَنَّ الْمَاۗءَ قِسْمَةٌۢ بَيْنَهُمْ ۚ كُلُّ شِرْبٍ مُّحْتَضَرٌ 28) 54 ۔ القمر :28) ، اور آیت میں ہے ( قَالَ هٰذِهٖ نَاقَةٌ لَّهَا شِرْبٌ وَّلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ\015\05ۚ ) 26 ۔ الشعراء :155) یہ ہے اونٹنی اس کے اور تمہارے پانی پینے کے دن تقسیم شدہ اور مقررہ ہیں۔ یہ اونٹنی ثمودیوں کی بستی حجر کے اردگرد چرتی چگتی تھی ایک راہ جاتی دوسری راہ آتی یہ بہت ہی موٹی تازی اور ہیبت والی اونٹنی تھی جس راہ سے گذرتی سب جانور ادھر ادھر ہوجاتے۔ کچھ زمانہ گذرنے کے بعد ان اوباشوں نے ارادہ کیا کہ اس کو مار ڈالیں تاکہ ہر دن ان کے جانور برابر پانی پی سکیں ان اوباشوں کے ارادوں پر سب نے اتفاق کیا یہاں تک کہ عورتوں اور بچوں نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملائی اور انہیں شہ دی کہ ہاں اس پاپ کو کاٹ دو ۔ اس اونٹنی کو مار ڈالو۔ چناچہ قرآن کریم میں ہے آیت ( فَكَذَّبُوْهُ فَعَقَرُوْهَا\0\01فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُمْ بِذَنْۢبِهِمْ فَسَوّٰىهَا 14۽) 91 ۔ الشمس :14) ، قوم صالح نے اپنے نبی کو جھٹلایا اور اونٹنی کی کوچیں کاٹ کر اسے مار ڈالا تو ان کے پروردگار نے ان کے گناہوں کے بدلے ان پر ہلاکت نازل فرمائی اور ان سب کو یکساں کردیا۔ ایک اور آیت میں ہے کہ ہم نے ثمودیوں کو اونٹنی دی جو ان کے لئے پوری سمجھ بوجھ کی چیز تھی لیکن انہوں نے اس پر ظلم کیا یہاں بھی فرمایا کہ انہوں نے اس اونٹنی کو مار ڈالا۔ پس اس فعل کی اسناد سارے ہی قبیلے کی طرف ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ چھوٹے بڑے سب اس امر پر متفق تھے۔ امام ابن جریر وغیرہ کا فرمان ہے کہ اس کے قتل کی وجہ یہ ہوئی کہ عنیزہ بنت عنم بن مجلز جو ایک بڑھیا کافرہ تھی اور حضرت صالح سے بڑی دشمنی رکھتی تھی اس کی لڑکیاں بہت خوبصورت تھیں اور تھی بھی یہ عورت مالدار۔ اس کے خاوند کا نام ذواب بن عمرو تھا جو ثمودیوں کا ایک سردار تھا یہ بھی کافر تھا۔ اسی طرح ایک اور عورت تھی جس کا نام صدقہ بنت محیا بن زہیر بن مختار تھا۔ یہ بھی حسن کے علاوہ مال اور حسب نسب میں بڑھی ہوئی تھی اس کے خاوند مسلمان ہوگئے تھے (رض) ۔ اس سرکش عورت نے ان کو چھوڑ دیا۔ اب یہ دونوں عورتیں لوگوں کو اکساتی تھیں کہ کوئی آمادہ ہوجائے اور حضرت صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی کو قتل کر دے، صدقہ نامی عورت نے ایک شخص حباب کو بلایا اور اس سے کہا کہ میں تیرے گھر آجاؤں گی اگر تو اس اونٹنی کو قتل کر دے لیکن اس نے انکار کردیا، اس پر اس نے مصدع بن مہرج بن محیا کو بلایا جو اس کے چچا کا لڑکا تھا اور اسے بھی اسی بات پر آمادہ کیا۔ یہ خبیث اس کے حسن و جمال کا مفتوں تھا اس برائی پر آمادہ ہوگیا۔ ادھر عنیزہ نے قدار بن سالف بن جذع کو بلا کر اس سے کہا کہ میری ان خوبصورت نوجوان لڑکیوں میں سے جسے تو پسند کرے اسے میں تجھے دے دو گی اسی شرط پر کہ تو اس اونٹنی کی کوچیں کاٹ ڈال۔ یہ خبیث بھی آمادہ ہوگیا یہ تھا بھی زنا کاری کا بچہ، سالف کی اولاد میں نہ تھا، جیسان نامی ایک شخص سے اس کی بدکار ماں نے زنا کاری کی تھی اسی سے یہ پیدا ہوا تھا اب دونوں چلے اور اہل ثمود اور دوسرے شریروں کو بھی اس پر آمادہ کیا چناچہ سات شخص اور بھی اس پر آمادہ ہوگئے اور یہ نو فسادی شخص اس بد ارادے پر تل گئے جیسے قرآن کریم میں ہے آیت ( وَكَانَ فِي الْمَدِيْنَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُّفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ وَلَا يُصْلِحُوْنَ 48) 27 ۔ النمل :48) اس شہر میں نو شخص تھے جن میں اصلاح کا مادہ ہی نہ تھا سراسر فسادی ہی تھے۔ چونکہ یہ لوگ قوم کے سردار تھے ان کے کہنے سننے سے تمام کفار بھی اس پر راضی ہوگئے اور اونٹنی کے واپس آنے کا راستے میں یہ دونوں شریر اپنی اپنی کمین گاہوں میں بیٹھ گئے جب اونٹنی نکلی تو پہلے مصدع نے اسے تیر مارا جو اس کی ران کی ہڈی میں پیوت ہوگیا اسی وقت عنیزہ نے اپنی خوبصورت لڑکی کو کھلے منہ قدار کے پاس بھیجا اس نے کہا قدار کیا دیکھتے ہو اٹھو اور اس کا کام تمام کردو۔ یہ اس کا منہ دیکھتے ہی دوڑا اور اس کے دونوں پچھلے پاؤں کاٹ دیئے اونٹنی چکرا کر گری اور ایک آواز نکلالی جس سے اس کا بچہ ہوشیار ہوگیا اور اس راستے کو چھوڑ کر پہاڑی پر چلا گیا یہاں قدار نے اونٹنی کا گلا کاٹ دیا اور وہ مرگئی اس کا بچہ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گیا اور تین مربتہ بلبلایا۔ حسن بصری فرماتے ہیں اس نے اللہ کے سامنے اپنی ماں کے قتل کی فریاد کی پھر جس چٹان سے نکلا تھا اسی میں سما گیا۔ یہ روایت بھی ہے کہ اسے بھی اس کی ماں کے ساتھ ہی ذبح کردیا گیا تھا۔ واللہ اعلم۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ گھبرائے ہوئے موقعہ پر پہنچے دیکھا کہ اونٹنی بےجان پڑی ہے آپ کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور فرمایا بس اب تین دن میں تم ہلاک کردیئے جاؤ گے، ہوا بھی یہی۔ بدھ کے دن ان لوگوں نے اونٹنی کو قتل کیا تھا اور چونکہ کوئی عذاب نہ آیا اس لئے اترا گئے اور ان مفسدوں نے ارادہ کرلیا کہ آج شام کو صالح کو بھی مار ڈالو اگر واقعی ہم ہلاک ہونے والے ہی ہیں تو پھر یہ کیوں بچا رہے ؟ اور اگر ہم پر عذاب نہیں آتا تو بھی آؤ روز روز کے اس جھنجھٹ سے پاک ہوجائیں۔ چناچہ قرآن کریم کا بیان ہے کہ ان لوگوں نے مل کر مشورہ کیا اور پھر قسمیں کھا کر اقرار کیا کہ رات کو صالح کے گھر پر چھاپہ مارو اور اسے اور اس کے گھرانے کو تہ تیغ کرو اور صاف انکار کردو کہ ہمیں کیا خبر کہ کس نے مارا ؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہے ان کے اس مکر کے مقابل ہم نے بھی مکر کیا اور یہ ہمارے مکر سے بالکل بیخبر رہے اب انجام دیکھ لو کہ کیا ہوا ؟ رات کو یہ اپنی بدنیتی سے حضرت صالح کے گھر کی طرف چلے آپ کا گھر پہاڑی کی بلندی پر تھا ابھی یہ اوپر چڑھ ہی رہے تھے جو اوپر سے ایک چٹان پتھر کی لڑھکتی ہوئی آئی اور سب کو ہی پیس ڈالا۔ ان کا تو یہ حشر ہوا ادھر جمعرات کے دن تمام ثمودیوں کے چہرے زرد پڑگئے جمعہ کے دن ان کے چہرے آگ جیسے سرخ ہوگئے اور ہفتے کے دن جو مہلت کا آخری دن تھا ان کے منہ سیاہ ہوگئے تین دن جب گذر گئے تو چوتھا دن اتوار صبح ہی صبح سورج کے روشن ہوتے ہی اوپر آسمان سے سخت کڑاکا ہوا جس کی ہولناک دہشت انگیز چنگھاڑنے ان کے کلیجے پھاڑ دیئے ساتھ ہی نیچے سے زبردست زلزلہ آیا ایک ہی ساعت میں ایک ساتھ ہی ان سب کا ڈھیر ہوگیا، مردوں سے مکانات، بازار، گلی، کوچے بھر گئے۔ مرد، عورت، بچے، بوڑھے اول سے آخر تک سارے کے سارے تباہ ہوگئے شان رب دیکھئے کہ اس واقعہ کی خبر دنیا کو پہنچانے کے لئے ایک کافرہ عورت بچا دی گئی، یہ بھی بڑی خبیثہ تھی حضرت صالح (علیہ السلام) کی عداوت کی آگ سے بھری ہوئی تھی اسکی دونوں ٹانگیں نہیں تھیں لیکن ادھر عذاب آیا ادھر اس کے پاؤں کھل گئے اپنی بستی سے سرپٹ بھاگی اور تیز دوڑتی ہوئی دوسرے شہر میں پہنچی اور وہاں جا کر ان سب کے سامنے سارا واقعہ بیان کر ہی چکنے کے بعد ان سے پانی مانگا۔ ابھی پوری پیاس بھی نہ بجھی تھی کہ عذاب الٰہی آپڑا اور وہیں ڈھیر ہو کر رہ گئی۔ ہاں ابو دغال نامی ایک شخص اور بچ گیا تھا یہ یہاں نہ تھا حرم کی پاک زمین میں تھا لیکن کچھ دنوں کے بعد جب یہ اپنے کسی کام کی غرض سے حد حرم سے باہر آیا اسی وقت آسمان سے پتھر آیا اور اسے بھی جہنم واصل کیا ثمودیوں میں سے سوائے حضرت صالح اور انکے مومن صحابہ کے اور کوئی بھی نہ بچا، ابو رغال کا واقعہ اس سے پہلے حدیث سے بیان ہوچکا ہے قبیلہ ثقیف جو طائف میں ہے مذکور ہے کہ یہ اسی کی نسل سے ہیں۔ عبدالرزاق میں ہے کہ اس کی قبر کے پاس سے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب گذرے تو فرمایا جانتے ہو یہ کس کی قبر ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ آپ نے فرمایا یہ ابو دغال کی قبر ہے۔ یہ ایک ثمودی شخص تھا اپنی قوم کے عذاب کے وقت یہ حرم میں تھا اس وجہ سے عذاب الٰہی سے بچ رہا لیکن حرم شریف سے نکلا تو اسی وقت اپنی قوم کے عذاب سے یہ بھی ہلاک ہوا اور یہیں دفن کیا گیا اور اس کے ساتھ اس کی سونے کی لکڑی بھی دفنا دی گئی۔ چناچہ لوگوں نے اس گڑھے کو کھود کر اس میں سے وہ لکڑی نکال لی اور حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا تھا ثقیف قبیلہ اسی کی اولاد ہے۔ ایک مرسل حدیث میں بھی یہ ذکر موجود ہے، یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا تھا اس کے ساتھ سونے کی شاخ دفن کردی گئی تھی یہی نشان اس کی قبر کا ہے اگر تم اسے کھودو تو وہ شاخ ضرور نکل آئے گی چناچہ بعض لوگوں نے اسے کھودا اور وہ شاخ نکال لی۔ ابو داؤد میں بھی یہ روایت ہے اور حسن عزیز ہے لیکن میں کہتا ہوں اس حدیث کے وصل کا صرف ایک طریقہ بحیر بن ابی بحیر کا ہے اور یہ صرف اسی حدیث کے ساتھ معروف ہے اور بقول حضرت امام یحییٰ بن معین سوائے اسماعیل بن ابی امیہ کے اسے اس سے اور کسی نے روایت نہیں کیا احتمال ہے کہ کہیں اس حدیث کے مرفوع کرنے میں خطاء نہ ہو یہ عبداللہ بن عمرو ہی کا قول ہو اور پھر اس صورت میں یہ بھی ممکنات سے ہے کہ انہوں نے اسے ان دو دفتروں سے لے لیا ہو جو انہیں جنگ یرموک میں ملے تھے۔ میرے استاد شیخ ابو الحجاج اس روایت کو پہلے تو حسن عزیز کہتے تھے لیکن جب میں نے ان کے سامنے یہ حجت پیش کی تو آپ نے فرمایا بیشک ان امور کا اس میں احتمال ہے۔ واللہ اعلم۔