پھر (صالح علیہ السلام نے) ان سے منہ پھیر لیا اور کہا: اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا تھا اور نصیحت (بھی) کر دی تھی لیکن تم نصیحت کرنے والوں کو پسند (ہی) نہیں کرتے،
English Sahih:
And he [i.e., Saleh] turned away from them and said, "O my people, I had certainly conveyed to you the message of my Lord and advised you, but you do not like advisors."
1 Abul A'ala Maududi
اور صالحؑ یہ کہتا ہوا ان کی بستیوں سے نکل گیا کہ "اے میری قوم، میں نے اپنے رب کا پیغام تجھے پہنچا دیا اور میں نے تیری بہت خیر خواہی کی، مگر میں کیا کروں کہ تجھے اپنے خیر خواہ پسند ہی نہیں ہیں"
2 Ahmed Raza Khan
تو صالح نے ان سے منہ پھیرا اور کہا اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچادی اور تمہارا بھلا چاہا مگر تم خیر خواہوں کے غرضی (پسند کرنے والے) ہی نہیں،
3 Ahmed Ali
پھر صالح ان سے منہ موڑ کر چلے اور فرمایا اے میری قوم میں تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچا چکا اور تمہاری خیر خواہی کی لیکن تم خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے تھے
4 Ahsanul Bayan
اس وقت (صالح علیہ السلام) ان سے منہ موڑ کر چلے گئے اور فرمانے لگے (١) کہ اے میری قوم میں نے تو تم کو اپنے پروردگار کا حکم پہنچا دیا تھا اور میں نے تمہاری خیر خواہی کی لیکن تم لوگ خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے۔
٧٩۔١ یہ یا تو ہلاکت سے قبل کا خطاب ہے یا پھر ہلاکت کے بعد اسی طرح کا خطاب ہے، جس طرح رسول اللہ نے جنگ بدر ختم ہونے کے بعد جنگ بدر میں مشرکین کی لاشوں سے خطاب فرمایا تھا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
پھر صالح ان سے (ناامید ہو کر) پھرے اور کہا کہ میری قوم! میں نے تم کو خدا کا پیغام پہنچا دیا اور تمہاری خیر خواہی کی مگر تم (ایسے ہو کہ) خیر خواہوں کو دوست ہی نہیں رکھتے
6 Muhammad Junagarhi
اس وقت (صالح علیہ السلام) ان سے منھ موڑ کر چلے، اور فرمانے لگے کہ اے میری قوم! میں نے تو تم کو اپنے پروردگار کا حکم پہنچادیا تھا اور میں نے تمہاری خیرخواہی کی لیکن تم لوگ خیرخواہوں کو پسند نہیں کرتے
7 Muhammad Hussain Najafi
پس وہ (صالح) یہ کہتے ہوئے وہاں سے منہ موڑ کر نکل گئے اے میری قوم! میں نے تمہیں اپنے پروردگار کا پیغام پہنچا دیا اور تم کو نصیحت کی مگر تم نصیحت کرنے والے خیر خواہوں کو پسند ہی نہیں کرتے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
تو اس کے بعد صالح علیھ السّلامنے ان سے منہ پھیر لیا اور کہا کہ اے قوم میں نے خدائی پیغام کو پہنچایا تم کو نصیحت کی مگر افسوس کہ تم نصیحت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتے ہو
9 Tafsir Jalalayn
پھر صالح ان سے نامید ہو کر پھرے اور کہا اے میری قوم میں نے تم کو خدا کا پیغام پہنچادیا اور تمہاری خیر خواہی کی اور تم ایسے ہو خیرخواہوں کو دوست نہیں رکھتے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿فَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ﴾ ” پس صالح ان سے منہ پھیر کر چل دیئے“ جب اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل فرمایا تو صالح علیہ السلام ان کو چھوڑ کر چل دیئے ﴿وَقَالَ﴾ اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے ان کو ہلاک کردینے کے بعد ان سے مخاطب ہو کر ان کو زجر و توبیخ کرتے ہوئے فرمایا : ﴿يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ ﴾ ” اے میری قوم ! میں نے تم کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور تمہاری خیر خواہی کی۔“ یعنی میں ان تمام احکامات کو تم تک پہنچا چکا ہوں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہاری طرف مبعوث کیا تھا۔ میں تمہاری ہدایت کا بہت متمنی تھا اور میں نے تمہیں صراط مستقیم اور دین قیم پر گامزن کرنے کی بہت کوشش کی۔﴿وَلَـٰكِن لَّا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ﴾ ” لیکن تم خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے“ بلکہ تم نے خیر خواہوں کی بات کو ٹھکرا دیا اور ہر دھتکارے ہوئے شیطان کی اطاعت کی۔ معلوم ہونا چاہئے کہ اس قصہ کے ضمن میں بہت سے مفسرین ذکر کرتے ہیں کہ صالح علیہ السلام کی اونٹنی ایک نہایت سخت اور چکنی چٹان سے اس وقت برآمد ہوئی تھی جب کفار نے صالح علیہ السلام سے معجزے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس پتھر نے اونٹنی کو اسی طرح جنم دیا تھا جس طرح کوئی حاملہ اپنے بچے کو جنم دیتی ہے۔ ان کے دیکھتے دیکھتے یہ اونٹنی پتھر میں سے برآمد ہوئی۔ جب انہوں نے اونٹنی کو ہلاک کیا تو اس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا۔ یہ بچہ تین بار بلبلایا، اس کے سامنے پہاڑ پھٹ گیا اور اونٹنی کا یہ بچہ پہاڑ کے اس شگاف میں داخل ہوگیا۔ نیز ان مفسرین کے مطابق صالح علیہ السلام نے کفار سے فرمایا تھا کہ تم پر عذاب کے نازل ہونے کی نشانی یہ ہے کہ ان مذکورہ تین دنوں میں پہلے دن تمہارے چہرے زرد، دوسرے دن سرخ اور تیسرے دن سیاہ پڑجائیں گے اور جیسے حضرت صالح علیہ السلام نے کہا تھا ویسا ہی ہوا۔ ان مفسرین کا بیان کردہ یہ قصہ اسرائیلیات میں شمار ہوتا ہے جن کو اللہ کی کتاب کی تفسیر میں نقل کرنا مناسب نہیں۔ قرآن مجید میں کوئی ایسی چیز وارد نہیں ہوئی جو کسی بھی پہلو سے اس کی صداقت پر دلالت کرتی ہو، بلکہ اس کے برعکس اگر یہ قصہ صحیح ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کا ضرور ذکر فرماتا، کیونکہ یہ واقعہ بہت تعجب انگیز، عبرت انگیز اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانی ہوتا اللہ تعالیٰ کبھی اس کو مہمل نہ چھوڑتا اور اپنی کتاب میں اس کا ذکر کئے بغیر نہ رہتا اور یوں یہ قصہ ناقابل اعتماد ذرائع سے نقل نہ ہوتا۔ بلکہ قرآن کریم اس قصہ کے بعض مشمولات کی تکذیب کرتا ہے۔ صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا : ﴿ تَمَتَّعُوا فِي دَارِكُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ﴾ (ھود :11؍65) ” اپنے گھروں میں تین دن اور فائدہ حاصل کرلو۔“ یعنی اس بہت ہی تھوڑے سے وقت میں نعمتوں اور لذتوں سے استفادہ کرلو، کیونکہ اس کے بعد تمہارے حصے میں کوئی لذت نہ ہوگی اور ان لوگوں کے لئے کون سی لذت اور نعمتوں سے فائدہ اٹھانا ہوسکتا ہے، جن کو ان کے نبی نے عذاب کے وقوع کی وعید سنائی ہو اور اس عذاب کے مقدمات کا بھی ذکر کردیا ہو اور یہ عذاب روز بروز بتدریج اسی طریقے سے واضح ہو رہا ہو، جو سب کو شامل ہو کیونکہ ان کے چہروں کا سرخ، زرد اور پھر سیاہ ہوجانا اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے؟ کیا یہ قصہ قرآن کے بیان کردہ واقعات کے خلاف اور متضاد نہیں ؟ جو کچھ قرآن بیان کرتا ہے وہی کافی ہے اور وہی راہ ہدایت ہے۔ ہاں ! جو چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوجائے اور وہ کتاب اللہ کے خلاف نہ ہو تو سر آنکھوں پر اور یہی وہ چیز ہے جس کی اتباع کا قرآن نے حکم دیا ہے۔ ﴿ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ﴾(الحشر:59؍7) ” جو کچھ رسول تمہیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے روک دے اس سے رک جاؤ۔ “ گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے کہ اسرائیلی روایات سے کتاب اللہ کی تفسیر کرنا جائز نہیں، اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ ایسے امور کو، جن کا جھوٹ ہونا قطعی نہ ہو، بنی اسرائیل سے روایت کرناجائز ہے۔ تب بھی ان کے ذریعے سے کتاب اللہ کی تفسیر کرناجائز نہیں۔ کیونکہ کتاب اللہ کے معانی یقینی ہیں اور ان اسرائیلیات کی تصدیق کی جاسکتی ہے نہ تکذیب۔ پس دونوں میں اتفاق ناممکن ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
iss moaqa per saleh unn say mun morr ker chal diye , aur kehney lagay : aey meri qoam ! mein ney tumhen apney rab ka paygham phonchaya , aur tumhari khair khuwahi ki , magar ( afsos kay ) tum khair khuwahon ko pasand hi nahi kertay thay
12 Tafsir Ibn Kathir
صالح (علیہ السلام) ہلاکت کے اسباب کی نشاندہی کرتے ہیں قوم کی ہلاکت دیکھ کر افسوس حسرت اور آخری ڈانٹ ڈپٹ کے طور پر پیغمبر حق حضرت صالح (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ نہ تمہیں رب کی رسالت نے فائدہ پہنچایا نہ میری خیر خواہی ٹھکانے لگی تم اپنی بےسمجھی سے دوست کو دشمن سمجھ بیٹھے اور آخر اس روز بد کو دعوت دے لی چناچہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی جب بدری کفار پر غالب آئے وہیں تین دن تک ٹھہرے رہے پھر رات کے آخری وقت اونٹنی پر زین کس کر آپ تشریف لے چلے اور جب اس گھاٹی کے پاس پہنچے جہاں ان کافروں کی لاشیں ڈالی گئی تھیں تو آپ ٹھہر گئے اور فرمانے لگے اے ابو جہل، اے عتبہ، اے شیبہ، اے فلاں، اے فلاں، بتاؤ رب کے وعدے تم نے درست پائے ؟ میں نے تو اپنے رب کے فرمان کی صداقت اپنی آنکھوں دیکھ لی۔ حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ آپ ان جسموں سے باتیں کر رہے ہیں جو مردار ہوگئے ؟ آپ نے فرمایا اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں جو کچھ ان سے کہہ رہا ہوں اسے یہ تم سے زیادہ سن رہے ہیں لیکن جواب کی طاقت نہیں۔ سیرت کی کتابوں میں ہے کہ آپ نے فرمایا تم نے میرا خاندان ہونے کے باوجود میرے ساتھ وہ برائی کی کہ کسی خاندان نے اپنے پیغمبر کے ساتھ نہ کی۔ تم نے میرے ہم قبیلہ ہونے کے باوجود مجھے جھٹلایا اور دوسرے لوگوں نے مجھے سچا سمجھا۔ تم نے رشتہ داری کے باوجود مجھے دیس نکالا دیا اور دوسروں نے مجھے اپنے ہاں جگہ دی۔ افسوس تم اپنے ہو کر مجھ سے برسر جنگ رہے اور دوسروں نے میری امداد کی۔ پس تم اپنے نبی کے بدترین قبیلے ہو۔ یہی حضرت صالح (علیہ السلام) اپنی قوم سے فرما رہے ہیں کہ میں نے تو ہمدردی کی انتہا کردی اللہ کے پیغام کی تبلیغ میں تمہاری خیر خواہی میں کوئی کوتاہی نہیں کی لیکن آہ نہ تم نے اس سے کوئی فائدہ اٹھایا نہ حق کی پیروی کی نہ اپنے خیر خواہ کی مانی۔ بلکہ اسے اپنا دشمن سمجھ بعض مفسرین کا قول ہے کہ ہر نبی جب دیکھتا کہ اب میری امت پر عام عذاب آنے والا ہے انہیں چھوڑ کر نکل کھڑا ہوتا ہے اور حرم مکہ میں پناہ لیتا۔ واللہ اعلم۔ مسند احمد میں ہے کہ حج کے موقعہ پر جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وادی عسفان پہنچے تو حضرت صدیق اکبر (رض) سے دریافت فرمایا کہ یہ کونسی وادی ہے ؟ آپ نے جواب دیا وادی عسفان فرمایا میرے سامنے سے حضرت ہود اور حضرت صالح (علیہما السلام) ابھی ابھی گذرے اونٹنیوں پر سوار تھے جن کی نکیلیں کھجور کے پتوں کی تھیں کمبلوں کے تہ بند بندھے ہوئے اور موٹی چادریں اوڑھے ہوئے تھے۔ لبیک پکارتے ہوئے بیت اللہ شریف کی طرف تشریف لے جا رہے تھے۔ یہ حدیث غریب ہے۔ صحاح ستہ میں نہیں۔