الاعراف آية ۸۰
وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَأْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ
طاہر القادری:
اور لوط(علیہ السلام) کو (بھی ہم نے اسی طرح بھیجا) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: کیا تم (ایسی) بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو جسے تم سے پہلے اہلِ جہاں میں سے کسی نے نہیں کیا تھا،
English Sahih:
And [We had sent] Lot when he said to his people, "Do you commit such immorality as no one has preceded you with from among the worlds [i.e., peoples]?
1 Abul A'ala Maududi
اور لوطؑ کو ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا، پھر یاد کرو جب اُس نے اپنی قوم سے کہا "کیا تم ایسے بے حیا ہو گئے ہو، کہ وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا؟
2 Ahmed Raza Khan
اور لوط کو بھیجا جب اس نے اپنی قوم سے کہا کیا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہ کی،
3 Ahmed Ali
اور لوط کو بھیجا جب اس نے اپنی قوم کو کہا کیا تم ایسی بے حیائی کرتے ہو کہ تم سے پہلے اسے جہان میں کسی نے نہیں کیا
4 Ahsanul Bayan
اور ہم نے لوط (علیہ السلام) کو بھیجا (١) جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم ایسا فحش کام کرتے ہو جس کا تم سے پہلے کسی نے دنیا جہان والوں میں سے نہیں کیا۔
٨٠۔١ یہ حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لانے والوں میں سے تھے پھر ان کو بھی اللہ تعالٰی نے ایک علاقے میں نبی بنا کر بھیجا۔ یہ علاقہ اردن اور بیت المقدس کے درمیان تھا جسے سدوم کہا جاتا ہے، یہ زمین سرسبز اور شاداب تھی اور یہاں ہر طرح کے غلے اور پھلوں کی کثرت تھی قرآن نے اس جگہ کو مُئْوتَفِکَۃ،ُ یا مؤْتَفِکَات،ُ کے الفاظ سے ذکر کیا ہے۔ حضرت لوط علیہ السلام نے غالبًا سب سے پہلے یا دعوت توحید کے ساتھ ہی، (جو ہر نبی کی بنیادی دعوت تھی اور سب سے پہلے وہ اس کی دعوت اپنی قوم کو دیتے تھے۔ جیسا کہ پچھلے نبیوں کے حوالے میں، جن کا ذکر ابھی گزرا ہے، دیکھا جاسکتا ہے۔) دوسری بڑی خرابی مردوں کے ساتھ بد فعلی، قوم لوط میں تھی، اس کی شناخت و قباحت بیان فرمائی۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ ایک ایسا گناہ ہے جسے دنیا میں سب سے پہلے اسی قوم لوط نے کیا، اس گناہ کا نام ہی لواطت پڑ گیا۔ اس لئے مناسب سمجھا گیا کہ پہلے قوم کو اس جرم کی خطرناکی سے آگاہ کیا جائے۔ علاوہ ازیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعے دعوت توحید بھی یہاں پہنچ چکی ہوگی، لواطت کی سزا میں ائمہ کے درمیان اختلاف ہے، بعض ائمہ کے نزدیک اس کی وہی سزا ہے جو زنا کی ہے یعنی مجرم اگر شادی شدہ ہو تو رجم، غیر شادی شدہ ہو تو سو کوڑے۔ بعض کے نزدیک اس کی سزا ہی رجم ہے چاہے مجرم کیسا بھی ہو اور بعض کے نزدیک فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دینا چاہئے۔ البتہ امام ابو حنیفہ صرف تعزیری سزا کے قائل ہیں، حد کے نہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور اسی طرح جب ہم نے لوط کو (پیغمبر بنا کر بھیجا تو) اس وقت انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم ایسی بےحیائی کا کام کیوں کرتے ہو کہ تم سے اہل عالم میں سے کسی نے اس طرح کا کام نہیں کیا
6 Muhammad Junagarhi
اور ہم نے لوط (علیہ السلام) کو بھیجا جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم ایسا فحش کام کرتے ہو جس کو تم سے پہلے کسی نے دنیا جہان والوں میں سے نہیں کیا
7 Muhammad Hussain Najafi
اور ہم نے لوط کو بھیجا انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم ایسا بے حیائی کا کام کرتے ہو کہ ایسا کام تم سے پہلے دنیا والوں میں سے کسی نے نہیں کیا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور لوط علیھ السّلام کو یاد کرو کہ جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم بدکاری کرتے ہو اس کی تو تم سے پہلے عالمین میں کوئی مثال نہیں ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور جب ہم نے لوط کو پیغمبر بنا کر بھیجا تو اس وقت انہوں نے اپنی قوم سے کہا تم ایسی بےحیائی کا کام کیوں کرتے ہو کہ تم سے پہلے اہل عالم میں سے کسی نے اس طرح کا کام نہیں کیا ؟
قوم لوط کی مختصر تاریخ : ولوطا اذقال لقومہ (الآیۃ) یہ قوم اس علاقہ میں رہتی تھی جسے آجکل شرق اردن کہا جاتا ہے، اور عراق و فلسطین کے درمیان واقع ہے بائبل میں اس قوم کا صدر مقام سدوم بتایا گیا ہے جو یا تو بحیرہ مردار (بحر میت) کے قریب کہیں واقع تھا یا بحر میت میں غرق ہوچکا ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم کے بھائی ہاران کے بیٹے تھے حضرت لوط (علیہ السلام) اپنے چچا ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ عراق سے نکلے کچھ مدت تک شام و فلسطین و مصر میں گشت لگا کر دعوت و تبلیغ کے کام میں مصروف رہے، اس کے بعد مستقل منصب رسالت پر فائز ہو کر اسی بگڑی ہوئی قوم کی اصلاح پر مامور ہوئے۔
یہودیوں کی تحریف کردہ بائبل میں حضرت لوط (علیہ السلام) کی سیرت پر جہاں اور بہت سے دھبے لگائے گئے ہیں ان میں سے ایک دھبہ یہ بھی ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے لڑ کر علاقہ سدوم میں چلے گئے تھے مگر قرآن اس غلط بیانی کی تردید کرتا ہے، قرآن کا کہنا ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کو اسی علاقہ کے باشندوں کی اصلاح کے لئے مبعوث کیا گیا تھا، اہل سدوم کو حضرت لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم، غالباً اس لئے کہا کہ ان کے ساتھ لوط (علیہ السلام) کا ازدواجی رشتہ قائم ہوگیا ہو۔
دوسرے مقامات پر اس قوم کے بعض اور اخلاقی جرائم کا بھی ذکر آتا ہے مگر یہاں اس کے سب سے بڑے جرم کے بیان پر اکتفاء کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ان پر عذاب نازل ہوا، اور وہ ہم جنسی کا فعل تھا، یہ قابل نفرت فعل جس کی وجہ سے ان کو مذمت میں شہرت دوام حاصل ہوئی، اس کے ارتکاب سے تو بد کردار انسان کسی زمانہ میں باز نہیں آئے، لیکن یہ فخر یونان کو حاصل ہے کہ اس کے فلاسفہ نے اس گھناؤ نے جرم کو اخلاقی خوبی کے مرتبہ تک اٹھانے کی کوشش کی، اور اس کے بعد کسر باقی رہ گئی تھی اسے جدید مغربی تہذیب نے پورا کردیا یہاں تک کہ بعض مغربی ملکوں کی مجالس قانون ساز نے اسے نہ صرف یہ کہ باقاعدہ جائز قرار دیدیا بلکہ آپس میں شادی کو بھی قانونی حیثیت دیدی، جبکہ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ ہم جنسی قطعی طور پر وضع فطری کے خلاف ہے اور یہ خلاف وضع عمل کرنے والا اپنی اور اپنے معمول کی طبعی ساخت اور نفسیاتی ترکیب کے خلاف جنگ کرتا ہے، اور ایسے مہلک ولا علاج ” ایڈز “ جیسے امراض میں مبتلا کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے جس کا کوئی علاج ہی نہیں ہے، فطرت صحیحہ سے انحراف اور حدود الہیٰ سے تجاوز کو مغرب کی مذہب قوموں نے انسانوں کا بنیادی حق قرار دیدیا ہے جس کی رو سے کسی کو روکنے کا حق حاصل نہیں ہے چناچہ اب مغرب میں لواطت کو قانونی رحفظ بھی حاصل ہے اب یہ سرے سے کوئی جرم نہیں رہا۔
لواطت کی سزا : یہاں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ عمل قوم لوط ایک بدترین گناہ ہے جس کی وجہ سے ایک قوم اللہ کے غضب میں گرفتار ہوچکی ہے، اس کے بعد یہ بات ہمیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رہنمائی سے معلوم ہوئی کہ یہ ایک ایسا جرم ہے جس سے معاشرہ کو پاک رکھنے کی کوشش کرنا حکومت اسلامی کے فرائض میں ہے اور یہ کہ اس جرم کے مرتکبین کو سخت سے سخت سزا دی جانی چاہیے، حدیث میں جو مختلف روایات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہیں ان میں سے کسی میں یہ الفاظ ملتے ہیں، ” اقتلوا الفاعل والمفعول بہ “ فاعل اور مفعول کو قتل کردو۔ کسی میں ان الفاظ کا اضافہ ہے، احصنا اولم یحصنا “ شادی شدہ ہوں یا نہ ہوں اور کسی میں یہ الفاظ ہیں، فارجعوا الاعلی والاسفل، اوپر والا اور نیچے والا دونوں سنگسار کئے جائیں، لیکن چونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زمانہ میں ایسا کوئی مقدمہ پیش نہیں ہوا، اسلئے قطعی طور پر یہ بات متعین نہ ہوسکی کہ اس کی سزا کس طرح دی جائے صحابہ کرام میں سے حضرت علی (رض) کی رائے یہ ہے کہ مجرم تلوار سے قتل کیا جائے اور دفن کرنے کے بجائے اس کی لاش جلا دی جائے اسی رائے سے حضرت ابوبکر (رض) نے اتفاق فرمایا ہے، حضرت عمر (رض) اور حضرت عثمان (رض) کی رائے یہ ہے کہ کسی بوسیدہ عمارت کے نیچے کھڑا کرکے وہ عمارت اس پر گرا دی جائے ابن عباس (رض) کا فتویٰ یہ ہے کہ بستی کی سب سے اوبچی عمارت سے اسے سر کے بل پھینک دیا جائے اور اوپر سے تھر برسائے جائیں، فقہاء میں سے امام شافعی (رح) تعالیٰ فرماتے ہیں کہ فاعل اور مفعول واجب القتل ہیں خواہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ، شعبی (رح) تعالیٰ ، زہری (رح) تعالیٰ ، امام مالک (رح) تعالیٰ ، اور امام احمد (رح) تعالیٰ کہتے ہیں ان کی سزا رجم ہے سعید بن مسیب (رح) تعالیٰ ، عطاء۔ حسن بصری (رح) تعالیٰ ، ابراہیم نخعی (رح) تعالیٰ سفیان ثوری (رح) تعالیٰ اور اوزاعی (رح) تعالیٰ کی رائے یہ ہے کہ اس جرم میں وہی سزا دی جائے جو زنا کی سزا ہے یعنی شادی شدہ کو رجم اور غیر شادی شدہ کو سو کوڑے مارے جائیں، اور جلاوطن کردیا جائے اور مام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ کی رائے میں اس پر کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ یہ فعل تعزیر کا مستحق ہے۔
جیسے حالات اور ضروریات ہوں ان کے لحاظ سے اس کو عبرت ناک سزا دی جائے، امام شافعی (رح) تعالیٰ کا بھی ایک قوم اسی کی تائید میں منقول ہے۔ یہ بات بھی معلوم رہنی چاہیے کہ شوہر کیلئے یہ قطعی حرام ہے کہ خود اپنی بیوی کے ساتھ عمل لوط کرے، ابو داؤد میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد منقول ہے ” ملعون من اتیٰ المرأۃ فی دبرھا “ عورت سے عمل لوط کرنے والا ملعون ہے، ابن ماجہ اور مسند احمد میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے یہ الفاظ منقول ہیں، لا ینظر اللہ الی رجل جامع امرأۃ فی دبرھا، اللہ اس مرد کی طرف ہرگز رحمت کی نظر سے نہ دیکھے گا جو عورت سے اس فعل کا ارتکاب کرے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَلُوطًا ﴾ یعنی ہمارے بندے لوط (علیہ السلام) کا ذکر کیجیے جب ہم نے ان کو ان کی قوم کی طرف مبعوث کیا کہ وہ انہیں صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دیں اور انہیں اس برائی سے روکیں جو پورے جہاں میں ان سے پہلے کسی نے نہیں کی۔ لوط علیہ السلام نے کہا ﴿ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ ﴾ ” کیا تم کرتے ہو ایسی بے حیائی“ یعنی تم ایک ایسے گناہ کا ارتکاب کرتے ہوئے جس کی قباحت اتنی زیادہ ہے کہ فواحش کی تمام اقسام کو اس نے اپنے اندر سمیٹ لیا ہے۔﴿ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِّنَ الْعَالَمِينَ﴾ ” کہ تم سے پہلے نہیں کیا اس کو کسی نے جہان میں“ اس کا فحش ہونا قبیح ترین چیز ہے اور یہ کہ اس قبیح فعل کو ان لوگوں نے شروع کر کے بعد میں آنے والوں کے لئے رواج دیا تھا، اس سے بھی قبیح تر ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur hum ney loot ko bheja , , jab uss ney apni qoam say kaha : kiya tum uss bey hayai ka irtikab kertay ho jo tum say pehlay duniya jahan kay kissi shaks ney nahi ki ?
12 Tafsir Ibn Kathir
لوط (علیہ السلام) کی بدنصیب قوم
فرمان ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کو بھی ہم نے ان کی قوم کی طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا تو ان کے واقعہ کو بھی یاد کر، حضرت لوط (علیہ السلام) ہاران بن آزر کے بیٹے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے آپ ہی کے ہاتھ پر ایمان قبول کیا تھا اور آپ ہی کے ساتھ شام کی طرف ہجرت کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا نبی بنا کر سدوم نامی بستی کی طرف بھیجا آپ نے انہیں اور آس پاس کے لوگوں کو اللہ کی توحید اور اپنی اطاعت کی طرف بلایا نیکیوں کے کرنے برائیوں کو چھوڑنے کا حکم دیا۔ جن میں ایک برائی اغلام بازی تھی جو ان سے پہلے دنیا سے مفقود تھی۔ اس بدکاری کے موجد یہی ملعون لوگ تھے۔ عمرو بن دینار یہی فرماتے ہیں۔ جامع دمشق کے بانی خلیفہ ولید بن عبدالملک کہتے ہیں اگر یہ خبر قرآن میں نہ ہوتی تو میں تو اس بات کو کبھی نہ مانتا کہ مرد مرد سے حاجت روائی کرلے اسی لئے حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان حرام کاروں سے فرمایا کہ تم سے پہلے تو یہ ناپاک اور خبیث فعل کسی نے نہیں کیا۔ عورتوں کو جو اس کام کیلئے تھیں چھوڑ کر تم مردوں پر ریجھ رہے ہو ؟ اس سے بڑھ کر اسراف اور جہالت اور کیا ہوگی ؟ چناچہ اور آیت میں ہے کہ آپ نے فرمایا یہ ہیں میری بچیاں یعنی تمہاری قوم کی عورتیں۔ لیکن انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں ان کی چاہت نہیں۔ ہم تو تمہارے ان مہمان لڑکوں کے خواہاں ہیں مفسرین فرماتے ہیں جس طرح مرد مردوں میں مشغول تھے عورتیں عورتوں میں پھنسی ہوئی تھیں۔