قَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لَـنُخْرِجَنَّكَ يٰشُعَيْبُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَكَ مِنْ قَرْيَتِنَاۤ اَوْ لَـتَعُوْدُنَّ فِىْ مِلَّتِنَا ۗ قَالَ اَوَلَوْ كُنَّا كَارِهِيْنَ ۚ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
اس کی قوم کے سرداروں نے، جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا تھے، ا س سے کہا کہ "اے شعیبؑ، ہم تجھے اور اُن لوگوں کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے ورنہ تم لوگوں کو ہماری ملت میں واپس آنا ہوگا" شعیبؑ نے جواب دیا "کیا زبردستی ہمیں پھیرا جائے گا خواہ ہم راضی نہ ہوں؟
English Sahih:
Said the eminent ones who were arrogant among his people, "We will surely evict you, O Shuaib, and those who have believed with you from our city, or you must return to our religion." He said, "Even if we were unwilling?
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
اس کی قوم کے سرداروں نے، جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا تھے، ا س سے کہا کہ "اے شعیبؑ، ہم تجھے اور اُن لوگوں کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے ورنہ تم لوگوں کو ہماری ملت میں واپس آنا ہوگا" شعیبؑ نے جواب دیا "کیا زبردستی ہمیں پھیرا جائے گا خواہ ہم راضی نہ ہوں؟
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اس کی قوم کے متکبر سردار بولے، اے شعیب قسم ہے کہ ہم تمہیں اور تمہارے ساتھ والے مسلمانوں کو اپنی بستی سے نکا ل دیں گے یا تم ہمارے دین میں ا ٓجا ؤ کہا کیا اگرچہ ہم بیزار ہوں
احمد علی Ahmed Ali
اس کی قوم کے متکبر سرداروں نے کہا اے شعیب ہم تجھے اور انہیں جو تجھ پر ایمان لائے ہیں اپنے شہر سے ضرور نکال دیں گے یا یہ کہ تم ہمارے دین میں واپس آ جاؤ فرمایا کیا اگرچہ ہم اس دین کو ناپسند کرنے والے ہوں
أحسن البيان Ahsanul Bayan
ان قوم کے متکبر سرداروں نے کہا کہ اے شعیب! ہم آپ کو اور آپ کے ہمراہ جو ایمان والے ہیں ان کو اپنی بستی سے نکال دیں گے الا یہ کہ تم ہمارے مذہب میں پھر آجاؤ (١) شعیب علیہ السلام نے جواب دیا کہ کیا ہم تمہارے مذہب میں آجائیں گو ہم اس کو مکروہ ہی سمجھتے ہوں۔
٨٨۔١ ان سرداروں کے تکبر اور سرکشی کا اندازہ کیجئے کہ انہوں نے ایمان اور توحید کی دعوت کو ہی رد نہیں کیا بلکہ اس سے بھی تجاوز کرکے اللہ کے پیغمبر اور اس پر ایمان لانے والوں کو دھمکی دی یا تو اپنے آبائی مذہب میں واپس آجاؤ نہیں تو ہم تمہیں یہاں سے نکال دیں گے۔ اہل ایمان کے لئے اپنے سابق مذہب کی طرف واپسی کی بات تو قابل فہم ہے کیونکہ انہوں نے کفر چھوڑ کر ایمان اختیار کیا تھا۔ لیکن حضرت شعیب علیہ السلام کو بھی ملت اَبائی کی طرف لوٹنے کی دعوت اس لحاظ سے تھی کہ وہ انہیں بھی نبوت اور تبلیغ ودعوت سے پہلے اپنا مذہب ہی سمجھتے تھے کو حقیقتا ایسا نہ ہو۔ یا بطور تغلیب انہیں بھی شامل کر لیا ہو۔ (۲) یہ سوال مقدر کا جواب ہے اور ہمزہ انکار کے لئے اور واو حالیہ ہے۔ یعنی کیا تم ہمیں اپنے مذہب کی طرف لوٹاؤ گے یا ہمیں اپنى بستی سے نکال دوگے دراَں حالیکہ ہم اس مذہب کی طرف لوٹنا اور اس بستی سے نکلنا پسند نہ کرتے ہوں؟مطلب یہ ہے کہ تمہارے لیے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ تم ہمیں ان میں سے کسی ایک بات کے اختیار کرنے پر مجبور کرو۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
(تو) ان کی قوم میں جو لوگ سردار اور بڑے آدمی تھے، وہ کہنے لگے کہ شعیب! (یا تو) ہم تم کو اور جو لوگ تمہارے ساتھ ایمان لائے ہیں، ان کو اپنے شہر سے نکال دیں گے۔ یا تم ہمارے مذہب میں آجاؤ۔ انہوں نے کہا خواہ ہم (تمہارے دین سے) بیزار ہی ہوں (تو بھی؟)
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
ان کی قوم کے متکبر سرداروں نے کہا کہ اے شعیب! ہم آپ کو اور جو آپ کے ہمراه ایمان والے ہیں ان کو اپنی بستی سے نکال دیں گے الّا یہ کہ تم ہمارے مذہب میں پھر آجاؤ۔ شعیب (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ کیا ہم تمہارے مذہب میں آجائیں گو ہم اس کو مکروه ہی سمجھتے ہوں
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اور ان کی قوم کے متکبر سرداروں نے کہا۔ اے شعیب ہم تم کو اور جو لوگ تمہارے ساتھ ایمان لائے ہیں ان کو اپنی بستی سے نکال دیں گے یا یہ کہ تم لوگ ہمارے مذہب میں واپس آجاؤ۔ شعیب نے کہا اگرچہ ہم اسے ناپسند ہی کرتے ہوں؟
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ان کی قوم کے مستکبرین نے کہا کہ اے شعیب علیھ السّلامہم تم کو اور تمہارے ساتھ ایمان لانے والوں کو اپنی بستی سے نکال باہر کریں گے یا تم بھی پلٹ کر ہمارے مذہب پر آجاؤ .... انہوں نے جواب دیا کہ چاہے ہم تمہارے مذہب سے بیزار ہی کیوں نہ ہوں
طاہر القادری Tahir ul Qadri
ان کی قوم کے سرداروں اور رئیسوں نے جو سرکش و متکبر تھے کہا: اے شعیب! ہم تمہیں اور ان لوگوں کو جو تمہاری معیت میں ایمان لائے ہیں اپنی بستی سے بہر صورت نکال دیں گے یا تمہیں ضرور ہمارے مذہب میں پلٹ آنا ہوگا۔ شعیب (علیہ السلام) نے کہا: اگرچہ ہم (تمہارے مذہب میں پلٹنے سے) بے زار ہی ہوں،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے اپنی بربادی کو آواز دی
حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے آپ کی تمام نصیحتیں سن کر جو جواب دیا اس کا ذکر کیا جا رہا ہے ہوا یہ کہ دلیلوں سے ہار کر یہ لوگ اپنی قوت جتانے پر اتر آئے اور کہنے لگے اب تجھے اور تیرے ساتھیوں کو ہم دو باتوں میں سے ایک کا اختیار دیتے ہیں یا تو جلا وطنی قبول کر یا ہمارے مذہب میں آجاؤ۔ جس پر آپ نے فرمایا کہ ہم تو دل سے تمہارے ان مشرکانہ کاموں سے بیزار ہیں۔ انہیں سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ پھر تمہارے اس دباؤ اور اس خواہش کے کیا معنی ؟ اگر اللہ کرے ہم پھر سے تمہارے کفر میں شامل ہوجائیں تو ہم سے بڑھ کر گناہگار کون ہوگا ؟ اس کے تو صاف معنی یہ ہیں کہ ہم نے دو گھڑی پہلے محض ایک ڈھونگ رچایا تھا۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ اور بہتان باندھ کر نبوت کا دعوی کیا تھا۔ خیال فرمائیے کہ اس جواب میں اللہ کے نبی (علیہ السلام) نے ایمان داروں کو مرتد ہونے سے کس طرح دھمکایا ہے ؟ لیکن چونکہ انسان کمزور ہے۔ نہ معلوم کس کا دل کیسا ہے اور آگے چل کر کیا ظاہر ہونے والا ہے ؟ اس لئے فرمایا کہ اللہ کے ہاتھ سب کچھ ہے اگر وہی کسی کے خیالات الٹ دے تو میرا زور نہیں۔ ہر چیز کے آغاز انجام کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ ہمارا توکل اور بھروسہ اپنے تمام کاموں میں صرف اسی کی ذات پاک پر ہے۔ اے اللہ تو ہم میں اور ہماری قوم میں فیصلہ فرما ہماری مدد فرما تو سب حاکموں کا حاکم ہے، سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے، عادل ہے، ظالم نہیں۔